نو لبرالیت سے فسطائیت تک کا تاریک راستہ

  • ۳۴۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ نو لبرالیت ـ ایک معاشی نظریئے کے طور پرـ ہمیشہ سے ایک کھوکھلا نظریہ تھا۔ ایک نظریئے (آئیڈیالوجی) کے طور پر سابقہ حکمران نظریات ـ منجملہ: بادشاہوں کا الہی حق، اور فاشیت کے حامیوں کے ایک “مستقبل میں ایک غیر معمولی مرد” [Übermensch]” پر اعتقاد، ـ کی طرح ہے۔ ان کے کسی بھی وعدے پر عملدرآمد کبھی بھی اور ذرہ برابر بھی، ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
ایسے حال میں کہ ایک عالمی مقتدر بھنیئے کے ہاتھ میں دولت کا ارتکاز ۔۔۔ آٹھ خاندانوں کے پاس دنیا کی پچاس فیصد آبادی کے برابر دولت مرتکز ہوئی ہے ۔۔۔ تمام تر کنٹرول اور قواعد و ضوابط کو ناکارہ بنا دیتا ہے، ہمیشہ کے لئے معاشی عدم مساوات اور طاقت کے شدید انحصار کو بھی جنم دیتا ہے اور سیاسی زیادہ روی اور انتہا پسندی کو بھی ہوا دیتا ہے اور جمہوریت کو تباہ کردیتا ہے۔ اس موضوع کے ادراک کے لئے تھامس پکیٹی (Thomas Piketty) کی ۵۷۷ صفحات پر مشتمل کتاب “سرمایہ اکیسویں صدی میں” (Capital in the Twenty First Century) کی مکمل ورق گردانی کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن نولیبرالزم کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ معیشت کو معقول بنایا جائے، بلکہ مقصد طبقاتی طاقت کو بحال کرنا تھا۔
حکمران نظریئے کے طور پر نو لیبرالیت کو اچھی خاصی کامیابی حاصل رہی۔ یہ روش ـ جس کا آغاز ۱۹۷۰ع‍ کی دہائی سے ہوا اور اس کے کینیزی (Keynesian) معیشت کے قائل مرکزی دھارے کے ناقدین کو جامعات، سرکاری اداروں نیز آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں سے نکال باہر کیا گیا اور ان کی آواز کو ذرائع ابلاغ میں دبا دیا گیا۔ ہمفکر درباریوں اور ملٹن فریڈمین (Milton Friedman) جیسے مفکرین کو، جو شکاگو یونیورسٹی جیسے مقامات پر خودنمائی کررہا تھا ـ تیار کیا گیا اور انہیں اہم پلیٹ فارم اور کمپنیوں کا فراہم کردہ سرمایہ دل کھول کر عطا کیا گیا۔ انھوں نے حاشیائی معاشی نظریات کو ـ جنہیں فریڈریک ہایک (Friedrich Hayek) اور تیسرے درجے کے مصنف “این رینڈ” (Ayn Rand) جیسے لوگ عوام کے بیچ لائے تھے ـ رائج کیا۔ جب ہمیں منڈی کے دباؤ اور سرکاری قوانین کے خاتمے کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑے، صاحب ثروت لوگوں پر مقررہ مالیہ کم کردیا گیا، سرحدوں کے اندر پیسے کی نقل و حرکت مجاز قرار دی گئی، انجمنین (Unions) تباہ کردی گئیں، اور تجارتی سودوں پر دستخط ہوئے، جن کی وجہ سے امریکی ملازمتوں کو چین کے بیگارخانوں میں منتقل کیا گیا، اور یوں دنیا زیادہ خوشحال، زیادہ آزاد اور زیادہ امیر ہوگی۔ یہ ایک دغابازی تھی جو چل گئی۔
نیویارک میں “نو لیبرالیت کی مختصر تاریخ” (Brief History of Neoliberalism) نامی کتاب کے مصنف ڈیوڈ ہاروی (David Harvey) نے مجھ سے کہا: “یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم اس منصوبے کے طبقاتی سرچشموں کو پہنچان لیں، جو ۱۹۷۰ع‍ کی دہائی میں سامنے آیا، اور یہ وہ وقت تھا جب سرمایہ دار طبقہ مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ ہر حکمران طبقے کی طرح انہیں بھی حکمران تفکرات کی ضرورت تھی۔ چنانچہ انھوں نے حکم دیا کہ منڈی کی آزادی، نجکاری، اپنے آپ کو کاروباری ادارے میں بدلنا، شخصی آزادی، اور ان جیسی دوسری چیزوں کو ایک نئے سماجی نظام کے حکمران خیالات، ہونا چاہئے اور یہ وہی نظام تھا جس کو ۱۹۸۰ع‍ اور ۱۹۹۰ع‍ کی دہائیوں میں نافذ کیا گیا”۔
ہاروی کا کہنا تھا کہ “نو لیبرالیت نے ایک سیاسی منصوبے کے طور پر بہت چالاکی سے عمل کیا اور اس کو بہت زیادہ عوامی اعتماد حاصل ہوا، کیونکہ اس میں شخصی آزادی اور انتخاب کی آزادی کی بات ہوئی تھی۔ وہ جب آزادی کی بات کرتے تھے تو مراد منڈی کی آزادی تھی۔ نولبرل منصوبے نے «اڑسٹھ کی نسل” (۶۸ generation) سے کہا: “اچھا، تو تم آزادی چاہتے ہو؟ طلبہ تحریک بھی آزادی چاہتی ہے۔ اگلی چیز جو تم چاہتے ہو سماجی انصاف ہے؛ بھول جاؤ اسے۔ لہذا ہم تمہیں شخصی آزادی دیں گے، لیکن تم سماجی انصاف کو بھول جاؤ۔ منظم ہونے سے پرہیز کرو»، کوشش یہ تھی کہ یہ تنظیمیں جو مزدور طبقے کی تنظیمیں تھیں، ختم ہوجائیں، بالخصوص انجمنیں اور وہ سیاسی جماعتیں جو معاشرے کی سلامتی کے لئے فکرمند تھیں، جڑ سے اکھڑ جائیں”۔
ہاروی نے کہا: “منڈی کی آزادی کے سلسلے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ موضوع بظاہر مساوات پسندانہ  نظر آتا ہے۔ لیکن کوئی بھی عدم مساوات اس سے زیادہ بری نہیں ہوسکتی کہ غیر مساوی لوگوں کے ساتھ یکسان برتاؤ روا رکھا جائے۔ منڈی کی آزادی مساوات کا وعدہ دیتی ہے لیکن اگر آپ بہت زیادہ امیر ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سے بھی زیادہ امیر بن سکتے ہیں؛ نیز اگر آپ بہت زیادہ غریب ہیں تو یہ امکان موجود ہے کہ اس سے بھی زیادہ غریب ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ منڈی کی آزادی نے سماجی عدم مساوات کے بڑی اور زیادہ سطوح کو جنم دیا”۔
نو لیبرالیت کا نظریہ عام طور پر ایک متحدہ سرمایہ دار طبقے نے مرتب کیا۔ سرمایہ دار اشرافیہ نے “تجارتی گول میز” (Business Roundtable)، ایوان تجارت، (Chamber of Commerce) نیز “ورثہ فاؤنڈیشن”، (The Heritage Foundation) جیسے فکری مراکز کو بجٹ فراہم کیا تا کہ اس نظریئے کو معاشرے پر مسلط کیا جاسکے۔ یہ سرمایہ دار یونیورسٹیوں کو بھی اس وقت تک دل کھول کر مالی امداد فراہم کرتے رہے، جب تک وہ وفاداری کے ساتھ مسلط نظریئے کی ترویج کرتی رہیں۔
انھوں نے اپنے اثر و رسوخ اور دولت نیز مختلف ابلاغی پلیٹ فارمز کو، ذرائع ابلاغ آلۂ کار بنانے کے لئے استعمال کیا۔ نیز انھوں نے ہر نئی آواز کو دبا دیا یا نئی تجاویز پیش کرنے والوں کے لئے روزگار کے مواقع کی تلاش میں مشکلات کھڑی کردیں۔ پیداوار کے بجائے حصص کی قیمتوں کی بڑھوتری کو معیشت کا نیا معیار بنایا گیا اور ہر شخص اور ہر چیز نے مال تجارت اور پیسے کی صورت اختیار کی”۔
ہاروے نے کہا: “قدر و قیمت کا معیار منڈی کی قیمت ہے؛ چنانچہ ہلیری کلنٹن بہت ہی زیادہ قیمتی ہے کیونکہ وہ گولڈمین ساکس (Goldman Sachs) میں ایک ہی تقریر کے عوض ۲۵۰۰۰۰ ڈالر وصول کرتی ہے۔ اگر میں شہر کے مرکز میں ایک مختصر سے گروپ سے خطاب کروں اور اس کے عوض ۵۰ ڈالر وصول کروں تو اس صورت میں ہلیری کی قدر و قیمت میری نسبت بہت زیادہ ہے۔ ایک شخص کی قدر و قیمت اور اس کی اہلیت کی قیمت اس روش سے متعین ہوتی ہے کہ وہ منڈی میں کتنی رقم کما سکتا ہے”۔
ہاروی کے بقول: “یہ وہ فلسفہ ہے جو نو لیبرالیت میں مضمر ہے۔ ہمیں ہر چیز کے لئے ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ حالانکہ وہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کو مال التجارہ قرار دیا جاسکتا ہو۔ بطور مثال تحفظ صحت مال و اسباب میں بدل جاتا ہے۔ مکان ایک متاع میں بدل جاتا ہے۔ تعلیم سامان تجارت میں بدل جاتی ہے، لہذا طالبعلموں کو ـ اس لئے کہ مستقبل میں کوئی ملازمت تلاش کرسکیں ـ قرضہ لینا پڑتا ہے۔ نیولیبرالیت کا جوہر یہی دغابازی اور دھوکہ دہی ہے، وہی جو بنیادی طور پر کہہ رہی ہے کہ اگر آپ کارانداز (Entrepreneur) ہیں اور آپ جاکر اپنی تربیت کا انتظام کریں وغیرہ، تو آپ کو منصفانہ پاداش ملے گی، اگر آپ کو منصفانہ پاداش نہ مل سکے تو سمجھ لینا کہ آپ نے اپنے آپ کو مناسب تربیت نہیں دی ہے! آپ نے غلط سبق سیکھا ہوا ہے؛ آپ نے فلسفے یا کلاسیکی متون کے اسباق سیکھے ہوئے ہیں، تمہیں مزدوروں کے استحصال کی روشیں سیکھنے کی تربیت حاصل کرنا چاہئے تھی”۔
اس وقت نیولبرلیت کی عیاری اور دغا بازی اس وقت سیاسی شعبوں میں وسیع سطح پر طشت از بام ہوچکی ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، نو لیبرالیت کی لالچی اور غارت گر نوعیت کو چھپانا ـ بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ یہ عظیم سرکاری سبسڈی کا مسلسل مطالبہ کررہی ہے ـ مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے؛ (بطور مثال، آمازون نے حال ہی میں نیویارک سے ورجنیا تک، ان صوبوں میں رسد کے مراکز قائم کرنے کے بہانے ٹیکس میں کمی کی درخواست کرکے، اربوں ڈالر ٹیکس پس انداز کرلیا ہے)۔ اس مسئلے نے حکمران اشرافیہ کو دائیں بازو کے عوام فریبوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ جو نسل پرستی، اسلاموفوبیا، تعصب اور زن بیزاری جیسی کچی چالوں (خام حربوں) کو بروئے کار لاتے ہوئے عمومی غیظ و غضب کو اشرافیہ سے دور کرکے محروم طبقوں کی طرف منتقل کریں۔ یہ عوام فریب لوگ لوٹ مار کو عالمی اشرافیہ کے لئے تیز تر کردیتے ہیں اور ساتھ ہی وعدہ کرتے ہیں کہ تنخواہ دار مردوں اور عورتوں کی حفاظت کریں گے۔
مثال کے طور پر ٹرمپ کی حکومت نے کئی قوانین کو منسوخ کردیا ہے: گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تخفیف (Greenhouse Gas Emissions Reduction) کے معاہدے سے لے کر انٹرنیٹ کی غیرجانبداری (Net Neutrality) کے قانون تک، نیز یہ کہ اس نے امیرترین افراد اور کمپنیوں پر نافذ ہونے والے ٹیکس میں کمی کردی ہے اور ملک کو اگلے ایک عشرے کے دوران ڈیڑھ ٹریلین سرکاری آمدنی سے محروم کردیا ہے، جبکہ اس کا لب و لہجہ بھی اور کنٹرول اور نگرانی کی روشیں بھی مطلق العنانیت پر استوار ہیں۔
نیو لیبرالیت بہت کم دولت پیدا کرتی ہے اور اس کے عوض دولت کو امیروں اور حکمران اشرافیہ کی طرف منتقل کرکے ان کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔ ہاروی اس روش کو “[دولت کی] انبارسازی بذریعۂ ضبطگی [یا بذریعۂ بےدخلی]” (Accumulation by Dispossession) کا نام دیتا ہے۔
ہاروی کا کہنا ہے کہ “ضبطگی کے ذریعے دولت جمع کرنے کی منطق کا استدلال اس تصور میں مضمر ہے کہ جب اجناس کی پیداوار یا خدمات کی فراہمی کی عوامی اہلیت کا خاتمہ ہوجائے، تو وہ ایک ایسے نظام کو معرض وجود میں لاتے ہیں جس کے ذریعے دولت کو دوسرے عوام سے کشید (Extract) کیا جاتا ہے۔ دولت کشید کرنے کا یہ عمل عوام کی سرگرمی کا مرکزی نقطہ بن جاتا ہے۔ دولت کے استحصال یا کشید کرنے کے عمل کا ایک ذریعہ ایسی نئی اجناس کے لئے منڈی کی تخلیق ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھے۔ مثال کے طور پر جب میں آج سے کچھ زیادہ جوان تھا، تو یورپ میں اعلی تعلیم کا حصول ایک عمومی حق سمجھا جاتا تھا۔ جتنا ہم آگے آئے ہیں، یہ (شعبہ اور دوسری خدمات) کو ایک نجی سرگرمی میں بدل دیا گیا ہے۔ جیسے علاج معالجے کی خدمات۔ یہ بہت سے شعبے جنہیں انسان جنس اور سامان تجارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، آج اجناس اور ذریعہ آمدنی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کم آمدنی والی آبادی کی رہائش کے لئے مکان ایک سماجی مجبوری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آج ہر چیز منڈی اور مارکیٹ میں پیش کی جاتی ہے اور وہیں سے ہر چیز کی فراہمی ممکن ہے۔ آج منڈی کی منطق ایسے شعبوں پر مسلط کی جارہی ہے جنہیں بازار میں پیش نہیں کرنا چاہئے”۔
ہاروی کہتا ہے: “میرے بچپن کے ایام میں پانی ایک سرکاری مال کے طور پر فراہم کیا جاتا تھا، تاہم یہی پانی بعد میں نجکاری کا شکار ہوا اور سب کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ برطانویوں نے نقل و حمل (Transport) کو نجی شعبے کے ہاتھ میں دیا۔ بسوں کا نظام ایک بدنظم اور ابتر نظام ہے۔ اس شعبے میں نجی شعبے کی کمپنیاں تمام دوسرے شعبوں کی طرح سرگرم عمل ہیں۔ کوئی بھی نظام ایسا نہیں ہے جس کی واقعی کوئی ضرورت ہو۔ ریلوے کے سلسلے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک موضوع جو اسی وقت بھی برطانیہ میں دلچسپی کا باعث ہے، یہ ہے کہ لیبر پارٹی کہتی ہے: “ہم ان تمام چیزوں کو سرکاری ملکیت میں لانا اور قومیانا چاہتے ہیں، کیونکہ نجکاری مکمل طور پر نامعقول اور احمقانہ ہے اور اس کے نتائج بھی نامعقول اور بیہودہ تھے اور کسی بھی صورت میں کارآمد نہیں ہے۔”، آج برطانوی عوام کی اکثریت لیبرل پارٹی کے اس نعرے سے متفق ہیں”۔
نو لیبرالیت ـ جس نے بہت بھاری بھرکم مالی طاقت اپنے پیچھے جمع کر رکھی ہے ـ اثاثوں کی قدر گھٹانے اور پھر ان پر قابض ہونے کی غرض سے بڑے بڑے بحرانوں کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہاروی کا کہنا ہے کہ: “نیولیبرالیت کے تحت، “[دولت کی] انبارسازی بذریعۂ ضبطگی [یا بذریعۂ بےدخلی]” کا عمل فائنانشلائزیشن (۱) کے ہمراہ ہے۔
بےضابطہ بنانے کا عمل (Deregulation) مالیاتی نظام کو ـ پیشگوئیوں، قیاس آرائیوں، دھوکہ دہی، اور چوری کے ذریعے ـ نئی تقسیم (Redistribution) کے بنیادی مراکز تبدیل ہونے کا امکان فراہم کرتا ہے۔
ہاروی اپنی کتاب میں ـ جو شاید نو لیبرالیت کی مختصر ترین اور جامع ترین تاریخ ہے ـ لکھتا ہے: “حصص کی قیمت بڑھانا، [مالی دغابازی سے متعلق] پونزی اسکیموں کا اجراء، افراط زر کے ذریعے بنیادی اثاثوں کی تباہی، نقصان سے دوچار کی جانے والی کمپنیوں کی ملکیت حاصل کرنا اور ان کے اثاثوں پر قابض ہونا، قرضوں کی سطح کو وسیع سے وسیع تر کرنا ـ حتی کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی پوری آبادی کو بندھوا مزدوری (ِDebt peonage) کی حد تک تنزلی سے دوچار کر سکتا ہے۔ اگر ہم کمپنیوں کی شکل میں دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے بارے میں کچھ نہ بھی کہنا چاہیں پھر بھی اثاثوں کی مالکیت چھیننے، پینشن فنڈز سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور انہیں بازار حصص کے ذریعے تباہ کرنے نیز کمپنیوں کی قدر کو قرضوں اور حصص میں ہیر پھیر کے ذریعے گرانے جیسے افعال سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام کی مرکزی خصوصیات میں تبدیل ہوچکے ہیں”۔
نیولبرلیت نے زبردست مالیاتی طاقت حاصل کرلی ہے، جس کے ذریعے وہ مالیاتی بحرانوں کو جنم دے سکتی ہے اور ان بحرانوں کے ذریعے اثاثوں کی قدر گرا کر انہیں اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔
ہاروی نے کہا: “بحران پیدا کرنے کا ایک راستہ کریڈٹ کی فراہمی روکنا ہے۔ یہ واقعہ ۱۹۹۷ اور ۱۹۹۸ع‍‌ کو واقعہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں رونما ہوا؛ جب سرمائے کی فراہمی اچانک روک دی گئی۔ بڑے بڑے ادارے قرض دینے سے عاجز آگئے۔ بیرونی سرمایوں کا زبردست بہاؤ انڈونیشیا کی طرف تھا، انھوں نے [یعنی مغربی سرمایہ داروں نے] ٹونٹی بند کردی۔ بیرونی سرمایہ رک گیا۔ ان کے اس کام کا ایک محرک یہ تھا کہ جب تمام ادارے دیوالیہ ہوجاتے تو وہ ان اداروں کو خرید سکتے تھے اور دوبارہ فعال بنا سکتے تھے۔ ہم نے یہی کچھ امریکہ کے اندر مکانات کی فراہمی کے بحران (Housing crisis) کے دوران دیکھا۔ مکانات کی ضبطی کی وجہ سے بہت سارے مکانات خالی رہ گئے جنہیں کم قیمت پر خریدا جاسکتا تھا۔ بلیک اسٹون (The Blackstone Group) نے تمام خالی مکانات کو خرید لیا اور اب یہ گروپ امریکہ کا سب سے بڑا زمیندار بن چکا ہے۔ یہ کمپنی اس وقت دو لاکھ یا اس سے زیادہ مکانات اور املاک کی مالک ہے۔ اب [خالی شدہ املاک یا اداروں کی خریداری کے بعد] منڈی میں بہتری آنے کے انتظار میں بیٹھنا ہوتا ہے۔ جب بازار کی صورت حال بہتر ہوجائے ـ جیسا کہ امریکہ میں بہت مختصر عرصے میں منڈی میں بہتری آئی ـ تو آپ مکانات کو بیچ کر یا کرائے پر اٹھا کر بڑا مال کما سکتے ہیں۔ بلیک اسٹون کمپنی نے ـ مکانات کی ضبطی کے بحران کے وقت، جس میں سب ہار گئے تھے ـ عظیم سرمایہ کمایا۔ یہ عظیم دولت کی منتقلی کی ایک روداد تھی”۔
ہاروی خبردار کرتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ شخصی (یا انفرادی) آزادی اور سماجی انصاف آپس میں ہم آہنگ ہوں، اور لکھتا ہے کہ “اس کے لئے سماجی یکجہتی ـ نیز  سماجی مساوات اور ماحولیاتی انصاف کے حصول کے لئے بڑی سطح پر عمومی جدوجہد کی غرض سے انفرادی چاہتوں، ضرورتوں اور خواہشوں سے چشم پوشی ـ کی ضرورت ہوتی ہے”۔ نولبرل نعرے باز شخصی آزادی پر تاکید کے ذریعے، مؤثر طور پر آزاد رَوی، شناخت کی سیاست، (Identity politics)، ثقافتی کثرتیت اور نتیجے کے طور پر نرگسی صارفیت (Narcissistic consumerism) کے ذریعے ان لوگوں اور قوتوں کو میدان سے نکال باہر کرسکتے ہیں جو ریاستی طاقت کو فتح کرکے سماجی انصاف کے نفاذ کے لئے میدان میں آئی ہوئی ہیں”۔
ماہر اقتصادیات کارل پولانی (Karl Polanyi) اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ آزادی کی دو قسمیں ہیں: بری آزادیاں، جو ہمارے گرد و پیش کے لوگوں کے استحصال اور عمومی مصلحتوں اور مفادات کو نظر انداز کرکے بھاری منافع کمانے کے لئے ہیں، منجملہ وہ برتاؤ جو ماحولی نظام (Ecosystem) اور جمہوری اداروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ یہ بری آزادیاں اس لئے ہیں کہ کمپنیاں بھاری منافع کمانے کے لئے، جدید فنی اور سائنسی ترقی پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں۔ حتی کہ ـ جیسا کہ دواسازی کی صنعت میں رائج ہے ـ جو لوگ دواؤں کی بھاری قیمت ادا کرنے سے عاجز ہوتے ہیں، ان کی زندگی کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اچھی آزادیوں ـ یعنی ضمیر کی آزادی، بیان کی آزادی، جلسوں کی آزادی، پیشوں کے انتخاب میں آزادی ـ کو آخر کار بری آزادیوں کو ترجیح دیئے جانے کی وجہ سے کچل دیا جاتا ہے۔
پولانی لکھتا ہے: “منصوبہ بندی اور نگرانی پر اس لئے حملہ کیا جاتا ہے کہ انہیں آزادی سلب کرنے کا اوزار سمجھا جاتا ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کہ آزادی سرمایہ کاری اور نجی مالکیت کو آزادی کا جدا ناپذیر جزء ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ، جو دوسری بنیادوں پر تعمیر ہوا ہے، آزاد کہلوانے کا مستحق نہیں ہے۔ جو آزادی قوانین کو جنم دیتی ہے، اس کو آزادی سے متصادم سمجھ کر قابل مذمت گردانا جاتا ہے؛ اس طرح کا [منضبط] معاشرہ جس انصاف، آزادی یا فلاح و بہبود کی تجویز دیتا ہے اس کو غلامی اور محکومی کی پردہ پوشی قرار دیا جاتا ہے”۔
چنانچہ آزادی کے نظریئے کو بگاڑ کر محض سرمایہ کاری کی آزادی تک محدود کیا جاتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ بھرپور آزادی ان لوگوں کے لئے ہے جن کو اپنی آمدنی، فارغ اوقات اور امن و امان میں کسی قسم کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے [اور انہیں سب کچھ حاصل ہے]۔ اور ان لوگوں کے لئے صرف آزادی کا کچھ حقیر سا حصہ، جو جمہوری آزادی سے فائدہ اٹھانے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں تا کہ اس طرح جائیدادوں کے مالکوں سے نجات اور پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہاروی پولانی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے: “لیکن اگر صورت یہ ہو ـ جو کہ ہمیشہ ہے بھی ـ کہ کوئی بھی معاشرہ نہ ہو جس میں اقتدار اور مجبوریاں ناپید ہوں، اور نہ ہی کہیں ایسی دنیا ہے جس میں طاقت کی کوئی کارکردگی نہ ہو ـ تو صرف ایک راستہ باقی بچتا ہے اور وہ ہے لبرل خیالی تصور، جسے طاقت کے استعمال، تشدد اور استبدادیت کے ذریعے قائم رکھا جاسکتا ہے۔ پولانی کی نظر میں لیبرالیت اور نو لیبرالیت ناکام نظریہ ہے۔ پولانی کے مطابق اس کو استبدادیت یا حتی کہ اعلانیہ فسطائیت (Outright fascism) کے ذریعے ناکام ہوجانا ہے۔ اچھی آزادیاں ضائع ہوچکی ہیں اور بری آزادیاں غلبہ پا رہی ہیں۔
نو لیبرالیت بڑی تعداد کی آزادی کو معدودے چند لوگوں کی آزادی میں تبدیل کرتی ہے۔ نو لیبرالیت کا منطقی نتیجہ نوفسطائیت (Neofascism) ہے۔ نوفسطائیت شہری آزادیوں کو “قومی سلامتی” کے نام پر چھین لیتی ہے اور تمام گروپوں [اور تنظیموں] کو غدار، خائن اور ملک دشمن اور عوام دشمن کا لیبل چسپاں کرتی ہے۔ نو لیبرالیت ایک فوجیایا ہوا اوزار بن چکی ہے جس کو حکمران اشرافیہ ـ اپنا کنٹرول مستحکم رکھنے، معاشرے کو پارہ پارہ کرنے، لوٹ مار کو تیز تر کرنے، اور معاشرتی عدم مساوات کو وسیع سے وسیعتر کرنے کے لئے ـ استعمال کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ حکمران نظریہ، جو مزید معتبر نہیں سمجھا جاتا، اپنی جگہ [فسطائیت اور عسکری استبدادیت کے نشان طور پر] جوتوں کو دے دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: کرس ہیجز
ترجمہ: فرحت حسین مہدی

 

ایران کے خلاف پابندیوں کی منظوری میں صیہونی لابی کا کردار

  • ۳۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ میں اسرائیلی حکومت اور یہودی لابی کی پالیسیوں کے گہرے اثر و رسوخ کے تناظر میں ، ایران کی طاقت کو محدود کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے کی غرض سے ’’ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا منصوبہ‘‘ بہترین آپشن سمجھا جاتا تھا جسے امریکہ کے ذریعے عملی جامہ پہنایا گیا۔  
اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایران کے خطرے کو بڑھاوا دینے اور ایران کے اقتدار کو محدود کرنے کی پالیسی کے بعد صہیونی لابی نے امریکہ کے اندر ایران کے خلاف پابندیوں کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا چاہا، اس مقصد کے پیش نظر آخری نتیجہ جو 76 صفحات پر مشتمل رپورٹ کی شکل میں سامنے آیا اور جس کا عنوان ہی "ایران پر جامع امریکی پابندیاں: ایکشن پلان" تھا کو کانگریس کے ممبروں کو پیش کیا گیا۔ اس کے بعد ، امریکی یہودی لابی نے ، سینیٹر ’الفونسو دماتو‘ [1] کو استعمال کرتے ہوئے ، امریکی کانگریس میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے،  ایران کے خلاف پابندیوں کا بل پاس کرانے میں کامیاب حاصل کی۔ یہ قانون "دماتو" کے نام سے مشہور ہوا۔

25 جنوری ، 1995 کو ، امریکی سینیٹر ، الفونسو دماتو ، جس نے ہمیشہ ایران پر تجارتی پابندیوں کی وکالت کی اور اسے صہیونی لابی کی حمایت حاصل تھی ، نے "AIPAC لابی" کے ذریعے ’’ایران کے خلاف جامع امریکی پابندیاں ، ایکشن پلان‘‘ کے عنوان سے اپنا منصوبہ شائع کیا۔ جس کے مطابق ، کوئی غیر ملکی شخص یا کمپنی اگر کوئی سامان یا ٹکنالوجی ایران کو برآمد کرتی ہے ، وہ 1979 کے منظور شدہ امریکی برآمدات انتظامیہ ایکٹ میں طے شدہ شقوں کے تحت امریکی پابندیوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔

16 مارچ 1995 کو ، ڈی اماتو بل پر سینیٹ کی سماعت کے دوران ، صہیونی لابی کے دباؤ نے ایران پابندیوں کے بل کو آگے بڑھانا جاری رکھا۔ اجلاس میں صہیونی لابی کے نمائندے "پیٹرک کلاؤسن" [2] نے استدلال کیا کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کو کم از کم دسیوں ملین ڈالر کا سالانہ نقصان ہو سکتا ہے اور ایرانی معیشت میں زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔

10 اپریل 1995 کو "یہودی انسٹی ٹیوٹ برائے امور قومی سلامتی " [3] ، نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد پیش کی۔ اسی سال 30 اپریل کو، کلنٹن نے ایران کے خلاف پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ پھر ، 6 مئی 1995 کو ، اس نے ایران میں تمام تجارتی اور سرمایہ کاری سرگرمیوں کو معطل کرنے کے لئے 12959 کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا۔
کلنٹن نے 30 اپریل 1995 کو ، اس حال میں کہ اس کے سر پر یہودی ٹوپی تھی، نیو یارک میں منعقدہ "ورلڈ یہودی کانگریس" [4] میں شرکت کے دوران کہا: "ایران مشرق وسطی میں قیام امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ میری انتظامیہ کے آغاز سے ہی ہم نے ایران کے واسطے کی جانے والی بین الاقوامی دہشت گردی کی حمایت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ "میں سرکاری طور پر اعلان کرتا ہوں کہ ہم ایران کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے تمام تعلقات منقطع کرتے ہیں ۔" بالآخر ، کلنٹن نے دوسرا ایگزیکٹو آرڈر ، نمبر 12959 جاری کیا  اور 6 مئی 1995 کو ، ایران کے ساتھ  کچھ مخصوص معاہدوں پر پابندی عائد کر دی۔
ریاستہائے متحدہ میں سب سے طاقتور صہیونی لابی آیپیک ’دماتو‘ منصوبے کی منظوری کے عمل میں ہمیشہ پیش پیش تھی۔ ’آئیپیک‘ کے ترجمان کا کہنا تھا: "کانگریس کے ممبران نے ایران کے خلاف پابندیوں کے بل کا ایک ایک بند ہمیں لکھ کر دیا‘‘۔
لہذا ، کھلے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں میں سب سے زیادہ کردار صہیونی لابیوں کا ہے اور ان کا مقصد ایران کی طاقت کو محدود کر کے صہیونی ریاست کو تحفظ بخشنا ہے۔  

 حواشی
1-فرمانروایان پنهان، حسین جعفری موحد، صص ۳۰۵ تا ۳۱۷.
2- «لابی یهودیان آمریکا، کارگزار تحریم ایران»، سید علی طباطبایی، صفحات 44-46 و 62-63 و 68.
3- «تحریم ایران، شکست یک سیاست»، حسین علیخانی، صفحات ۱۷۲و۱۷۶ و ۱۷۸ تا ۱۸۰.
4- «قانون داماتو، ایران یا اروپا»، سعید تائب، ص۳۰.

 

فلسطین کا سیاہ ترین دن

  • ۳۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۲۹ نومبر فلسطین کے ساتھ عالمی یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ وہ سیاہ دن ہےجس میں اقوام متحدہ نے سنہ ۱۹۴۸ء میں فلسطین کی تقسیم کی قرارداد منظور کی۔ اقوام متحدہ کے فورم پر یہ قرار داد ۱۸۱ کہلاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے قرارداد نے ارض فلسطین اور فلسطینی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسی قرارداد تھی جس نے فلسطینی قوم کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے ایک لا متناہی سلسلے کا آغاز کیا، جس کے بعد ارض فلسطین کے اصلی باشندوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے کا نہ ختم ہونے کا نیا عمل شروع ہوگیا جو آج تک جاری وساری ہے۔ فلسطینیوں کی جانیں محفوظ ہیں، نہ مال، نہ عزت وآبرو اور نہ زمین وطن۔ سب کچھ صہیونی درندوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے اور اب اقوام متحدہ فلسطینیوں کو ان کےحقوق دلانے کے بجائے عالمی اوباشوں کے ہاتھوں میں بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔
سنہ ۱۹۴۷ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد ۱۸۱ منظور کی جس میں ارض فلسطین میں یہودیوں کو اپنا ملک بنانے کا حق دیا گیا۔ اس قرارداد میں فلسطینی سرزمین کو یہودیوں اور فلسطینیوں میں تقسیم کرنے کا ظالمانہ فیصلہ کیا گیا۔ اس قرارداد میں یہودیوں کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کےقیام کی بھی اجازت دی گئی۔ صہیونیوں کی غاصبانہ ریاست تو قائم ہوگئی مگر فلسطینی قوم کو۷۱ سال کے بعد آج بھی یہ حق نہیں مل سکا ہے۔ زمین پرصہیونی ریاست موجود ہے مگر فلسطینی ریاست اب کاغذوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔
تقسیم فلسطین کے روز عالمی سطح پر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے۔ اس روز فلسطینیوں کے حقوق کو عالمی فورمز پرتازہ کیا جاتا اور ان کے ساتھ کیےگئے وعدے دہرائے جاتے ہیں۔ دنیا کے سامنے فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم بیان کیے جاتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ تقسیم فلسطین کے ظالمانہ فیصلے کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے محروم کردیا گیا۔ یہ لاکھوں فلسطینی آج بھی اندرون اور بیرون ملک در بہ در ہیں۔
عالمی برادری اور بین الاقومی تنظیمیں ۲۹ نومبر کو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن تو مناتی ہیں مگر بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دوسری طرف عرب ممالک کے حکمرانوں کو اگرکوئی فکر ہے تو وہ اسرائیل کے ساتھ دوستی اور تعلقات کےقیام کی ہے۔ آئے روز اسرائیلی وفود عرب ممالک کے سرکاری دوروں پر جا رہے ہیں۔
سنہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم فلسطین کے وقت فلسطینی آبادی آج کی نسبت بہت کم تھی مگر آج فلسطینی آبادی ۸ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ ۷۰ لاکھ کے قریب فلسطینی ھجرت کی زندگی گذار رہےہیں۔ عالمی طاقتیں اور امداد دینے والے ممالک اب فلسطینی پناہ گزینوں کی مالی امداد سے بھی ہاتھ کھینچ رہےہیں۔ آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو ان کا دیرینہ حق، حق خود ارادیت نہیں دیا جاسکا۔ اقوام متحدہ اگر یہودیوں کو فلسطین میں‌بسا سکتی ہے تو وہ فلسطینیوں کو بھی ان کے ملک میں ان کا حق دلانے کی ذمہ دار ہے مگر جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور یو این کے دیگر ادارے اب تک خاموش تماشائی ہیں۔ فلسطینی لٹ رہے ہیں۔ اسرائیل ان کے خلاف منظم ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
تقسیم فلسطین کی قرارداد میں اسرائیل کو ایک محدود علاقے میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر وقت گذرنے کے ساتھ یہودی، صہیونی ریاست عالمی اوباشوں کی مدد سے تاریخی ارض فلسطین میں اپنے پنجے پھیلاتی چلی گئی۔ صہیونی دشمن نے وسعت پزیری اور توسیع پسندی کی پالیسی پرچلتے ہوئے نہ صرف فلسطین کے ایک بڑے حصے پرغاصبانہ قبضہ جمایا بلکہ پڑوسی عرب ممالک کو بھی نہ بخشا۔ اس طرح عبرانی ریاست اپنے توسیع پسندی کی لالچ میں آ کر دوسرے عرب ممالک پر بھی چڑھائی کرتی رہی۔ صہیونی ریاست نے فلسطین کے ۷۷ فی صد رقبے پرغاصبانہ تسلط جما لیا۔ پہلے مغربی بیت المقدس اور بعد میں مشرقی بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا۔
صہیونی ریاست اور فلسطینیوں کے درمیان کئی مواقع پر نام نہاد مذاکرات کی میراتھن بھی ہوتی رہی۔ میڈریڈ، جنیوا، اوسلو، واشنگٹن اور کیمپ ڈیوڈ سمیت کئی دوسرے ملکوں میں عرب۔ اسرائیل مذاکرات ہوئے۔ ان تمام مذاکراتی ادوار میں صہیونی ریاست نے یہ ثابت کیا کہ وہ حقیقی امن نہیں چاہتی۔ وہ محض مذاکرات برائے مذاکرات کی پالیسی پرعمل پیرا ہے اور اس طرح وہ صرف وقت گذارنے کی حکمت عملی پر چل رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

امریکہ پر راج کس کا؟

  • ۳۶۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں نے ایک ایسے وقت فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کا فیصلہ کیا جب اس سرزمین کی ۹۵ فیصد آبادی مسلمانوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی۔ وہ ایک الگ ملک کی تشکیل کے لیے دو چیزوں “زمین اور عوام” کے محتاج تھے لہذا انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو دو حصوں؛ اندرون ملک اور بیرون ملک میں تقسیم کیا۔
پہلی فرصت میں یہودیوں نے فلسطینیوں کی زمینوں کو خریدنا شروع کیا لیکن مسلمانوں کی ہوشیاری کی بنا پر وہ اس اقدام میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئے لہذا انہوں نے دوسرے مرحلے میں دنیا بھر سے صہیونی یہودیوں کو ہجرت کے ذریعے فلسطین منتقل کرنا شروع کیا کہ جس میں برطانیہ کا تعاون سر فہرست ہے، برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین کی زمین تحفے میں دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین منتقل کیا اور اس سرزمین میں یہودیوں کی آبادی میں ۳۰ فیصد کا اضافہ کر دیا۔
یہودیوں نے اپنے مقصد کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے، مختلف دھشتگرد ٹولے جیسے “ایرگن”( Irgun) وجود میں لائے اور ان دھشتگرد ٹولوں نے مسلمانوں کا قتل عام کر کے انہیں ان کی آبائی زمینوں سے نکال باہر کیا۔ البتہ اس درمیان برطانوی حکومت بھی ان جرائم سے مبرا نہیں تھی۔ یہ امور اس بات کا سبب بنے کہ برطانیہ ۱۹۴۸ میں فلسطین سے اپنی سربراہی سے دستبردار ہو جائے اور فلسطینیوں کی سرنوشت کے تعین کو اقوام متحدہ کے سپرد کر دے۔
چونکہ اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں اور قوانین میں سے ایک جمہوریت اور اپنی سرنوشت کا تعین خود کرنا تھا لہذا اقوام متحدہ کو یہ چاہیے تھا کہ وہ منصفانہ طور پر اس سرزمین میں انتخابات منعقد کرواتی تاکہ وہاں کے باشندے اپنی سرنوشت کا تعین خود کرتے۔ لیکن صہیونیوں نے مختلف ممالک پر دباؤ ڈال کر اور اپنی لابیاں تشکیل دے کر اقوام متحدہ کو مجبور کیا کہ وہ غیر متعارف طور پر فلسطین کی ۵۵ فیصد سرزمین کو یہودیوں کے حوالے کر دیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ بہت سارے امریکی عہدیداروں کے مطابق، امریکہ کا یہ اقدام خود ریاستہائے متحدہ کے قومی مفاد کے برخلاف تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ نے کیوں ایسا اقدام اٹھایا جو خود اس کے قومی مفاد کے خلاف تھا؟
امریکہ کی وزارت خارجہ بہت سختی سے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کر رہی تھی۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکی ادارے کے سربراہ اور وزارت خارجہ میں افریقی معاملات کے ڈائریکٹر مسلسل اس منصوبے کی مخالفت کر رہے تھے اور اس کے خلاف اپنا احتجاج درج کروا رہے تھے۔ لوئی ہنڈرسن (loy henderson) اس شعبے کی ڈائریکٹر بارہا خبردار کر رہے تھے کہ یہ منصوبہ امریکی مفادات کے لیے خطرے کی گھنٹی ہونے کے علاوہ فلسطینی عوام کی منشاء کے بھی خلاف ہے۔ وہ اس پر زور دے رہے کہ اگر امریکہ اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے تو امریکہ کی علاقے میں اخلاقی اور سیاسی حیثیت کو شدید دھچکا لگے گا۔
ہنڈرسن نے واضح طور پر کہا کہ “ہم اپنی حیثیت کو کھو جائیں گے اور ہمیشہ ہمیں جمہوری اصولوں کی نسبت خائن کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، وہ اصول جو ہم نے خود دوسری عالمی جنگ کے دوران وضع کئے”۔ ان کے بقول” یہ ایسا منصوبہ ہے جو اپنی سرنوشت کے تعین کا حق اور اکثریت کی حکمرانی کا حق جیسے اصولوں کو پامال کرتا ہے۔ یہ تجویز در حقیقت ایک دینی-قومی حکومت کے اصولوں کو قبول کرنے کے مترادف ہے جو مذہبی اور نسلی امتیاز کا سبب بن سکتی ہے”۔
بعد از آں، صہیونیوں نے ہنڈرسن کے گھر والوں کو دھمکی دی اور انہیں یہود مخالف (Anti-Semitic) ہونے کا لقب دیا۔ صہیونیوں نے امریکی وزارت خارجہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کی ٹرانسفر کر کے کسی دوسری جگہ منتقل کرے۔ اسی وجہ سے امریکہ کے اس دور کے صدر “ہیری ٹرومن” نے صہیونی یہودیوں کے دباؤ میں آکر، ہینڈرسن کو نیپال میں امریکہ کا سفیر بنا کر نیپال بھیج دیا۔
امریکی وزارت خارجہ کے سیاسی ڈائریکٹر نے ۱۹ جنوری ۱۹۴۷ میں ایک خفیہ دستاویز شائع کی جس میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ امریکہ کی جانب سے اس منصوبہ کی حمایت کے نتیجے میں، علاقے میں امریکہ کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔
گورڈن پی مریام (Gordon P.merriam) نے بھی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطیٰ کے سربراہ ہونے کے عنوان سے کچھ اخلاقی دلائل کے پیش نظر کہا کہ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ عربوں اور یہودیوں کی رضامندی کی طرف توجہ کئے بغیر اس بات کا باعث بنے گا کہ اپنی سرنوشت کے تعین کے حق کے اصول کو پامال کیا جائے۔ وہ اصول جو اقوام متحدہ کے منشور اور Atlontic charter میں بیان ہوئے ہیں۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ۱۹۴۷ میں اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ صہیونی مقاصد سبب بنیں گے کہ مشرقی وسطیٰ میں سپرپاور طاقتوں کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں۔
ہینری ایف گریڈی (Henry F grady) ایک امریکی سیاسی رہنما تھے کہ جنہوں نے مسئلہ فلسطین پر غور و خوض کرنے والے کمیشن کی سربراہی قبول کی، وہ اس بارے میں کہتے ہیں: “میں مختلف سرکاری کمیشنوں کی سربراہی کرتا رہا ہوں لیکن کہیں پر بھی میں نے ایسی خیانت اور پیمان شکنی نہیں دیکھی جیسی اس کمیشن میں دیکھی ہے”۔ گیراڈی اپنی گفتگو کے آخر میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ “امریکہ کو ذاتی طور پر عرب ریاستوں سے کوئی دشمنی نہیں، یہ صہیونی لابی کا دباؤ ہے جس کی بنا پر ایسے مسائل سامنے آئے ہیں”۔
اس کے مد مقابل “ہیری ٹرومن” ان تمام تجزیوں اور مخالفتوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور اپنے مشیر “کلیفورڈ” جو ایک یہودی زادہ تھے کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور آنے والے انتخابات میں کامیابی کی خاطر فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں۔ نتیجۃً یہ چیز باعث بنی کہ امریکہ کے وزیر خارجہ اس بات سے انتہائی غضبناک ہوں کہ ایک شخص اپنے ذاتی مفاد کی خاطر لاکھوں افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دے۔
ٹرومن نے بعد میں اپنی ایک یادداشت میں لکھا: “مجھے یاد نہیں ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں اس موضوع کے علاوہ کسی بات پر مجھے اتنا دبایا گیا ہو”۔ البتہ وہ اس سیاسی اور سماجی دباؤ کے علاوہ یہودیوں کی مالی امداد سے بھی بہرہ مند ہو رہے تھے۔ مثال کے طور پر وہ امریکہ میں اپنے ریاستی دوروں کے دوران پیسوں سے بھرے بریف کیس اور تھیلے وصول کیا کرتے تھے۔
اس معاملے میں ٹرومن کو بہت سارے دیگر افراد نے بھی متاثر کیا۔ ان افراد میں سے ایک “ابراہم فین برگ” (Abraham feinberg) تھے جو ایک سرمایہ دار تاجر ہونے کی حیثیت سے صہیونیوں اور ٹرومن کے درمیان واسطے کا کام کرتے تھے۔ درحقیقت یہ فین برگ تھے جو ٹرومن کے لیے پیسوں کی گٹھیوں کا انتظام کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ٹرومن انتخابات میں کامیابی کو فین برگ کا مرہون منت قرار دیتے ہیں۔
دوسرا شخص “ڈیوڈ کی نایلز” تھا جو ایک قابل اعتماد مشیر ہونے کی حیثیت سے امریکہ کی خفیہ اطلاعات کو اسرائیل منتقل کیا کرتا تھا لیکن جاسوسی کا پردہ چاک ہونے کے بعد وہ اپنے منصب سے مستعفیٰ ہونے پر مجبور ہوا۔ علاوہ از ایں، “اڈی جاکویسن” اور “سم روزنمن” بھی امریکی صدر اور صہیونیوں کے درمیان رابطہ پل تھے۔ چنانچہ یہ تمام عوامل اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے فیصلہ سازاہم اداروں میں صہیونی لابی کسی قدر نفوذ رکھتی ہے!۔ در حقیقت صہیونیوں نے امریکہ کو یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور اس درمیان یہ امریکی عوام تھے جنہوں نے اپنے حکمرانوں کے اس غلط تصمیم کا تاوان ادا کیا۔
منبع: انجم سری پروشیم، ویر، آلیسون، ترجمه: علیرضا ثمودی پیله رود، چاپ اول: ۱۳۹۴، تهران، خبرگزاری فارس، ص۷۵-۶۵
تحریر: میلاد پور عسگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہودیوں کے کل اور آج کے مظالم کا سبب کیا ہے؟

  • ۳۸۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، قرآن میں یہودیوں کے کھوکھلے خیالات اور بےبنیاد نعروں کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ کے چہیتے ہیں اور قیامت کو جہنم کی آگ ہمیں چند گنے چنے دنوں کے سوا، چھو تک نہیں سکے گی۔
استاد محسن قرائتی نےسورہ آل عمران کی آیت ۲۳ کے آخری الفاظ اور پوری آیت ۲۴ کی تفسیر میں نہایت عمدہ نکات بیان کئے ہیں:
آیت کریمہ:
“ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّاماً مَّعْدُودَاتٍ وَغَرَّهُمْ فِی دِینِهِم مَّا کَانُواْ یَفْتَرُونَ”۔
ترجمہ: (اللہ کے حکم سے پھیرنے کا) سبب یہ تھا کہ اہل کتاب نے کہا: کبھی بھی دوزخ کی آگ ہمیں نہیں چھوئے گی سوا گنتی کے دنوں کے، اور ان گڑھی باتوں نے (اور بےبنیاد وہمیات) نے انہیں اپنے دین کے بارے میں دھوکے میں رکھا ہے۔
*نکتے:
قرآن میں یہودیوں کے کھوکھلے خیالات اور بےبنیاد نعروں کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ کے چہیتے ہیں اور قیامت کو چالیس ایام کے سوا ـ جب ہمارے اجداد نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ـ ہمیں کسی گناہ، کسی قسم کے عذاب کا سامنا نہیں ہوگا۔ اور ان ہی خیالات اور وہمیات نے انہیں غرور اور دھوکے میں رکھا اور وہ گمراہ ہوگئے۔ آج بھی اسرائیل نامی ریاست بھی یہود کی نسلی برتری کی قائل ہے اور اس وہم کو عملی جامہ پہنا کر اپنی نسلی برتری کے اثبات کے لئے کسی بھی جرم و ظلم اور درندگی و خونخواری سے اجتناب نہیں کرتی۔
* پیغامات
۱- إعراض کا سرجشمہ خرافات، بےبنیاد تصورات اور خرافات ہیں: “وَهُم مُّعْرِضُونَ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ ۔۔۔” (اور وہ منہ پھیر کر پلٹ جاتے ہیں، اور اس کا سبب یہ تھا کہ یقینا وہ ۔۔)
۲- بےجا حساسِ برتری ـ خواہ دین کے لحاظ سے خواہ نسل کے لحاظ سے ـ ممنوع اور مذموم ہے۔ “لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ ۔۔۔”
۳۔ کیفر کردار اور اپنے گناہوں کی سزا سے محفوظ ہونے کا احساس گمراہی کا سبب بنتا ہے۔ “وَغَرَّهُمْ فِی دِینِهِم ۔۔۔”
۴۔ یہودی قیامت اور دوزخ کو مانتے تھے اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے تھے۔ “لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّاماً مَّعْدُودَاتٍ۔۔۔”
۵۔ اللہ کی درگاہ میں سب ایک جیسے اور یکسان ہیں اور کسی کو برتری حاصل نہیں ہے۔ ” فَکَیْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیهِ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لاَ یُظْلَمُونَ” (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://hawzahnews.com/detail/News/465184
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ آیت ۲۵؛ ترجمہ: اس کے بعد کیا ہو گا اس وقت جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے اس دن کے لیے جس میں کوئی شبہ نہیں اور ہر ایک کو جو کچھ اس نے کمایا ہے پورا پورا ادا کر دیا جائے گا اور ان پر کچھ بھی ظلم نہیں ہو گا۔

 

ڈونلڈ ٹرمپ شکست خوردہ جمہوریت کی پیداوار: امریکی تجزیہ نگار

  • ۴۳۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گا: امریکی دانشور کرس ہیجز (۱) کا کہنا تھا کہ امریکہ کا ڈھانچہ زوال اور شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اس ملک کے سیاسی اور سماجی اداروں میں ایک گہرا اعتقادی بحران جاری و ساری ہے۔ تنہائی اور خودکشی نے وبا کی صورت اختیار کی ہے۔ صارفیت (۲) نے جمہوریت اور بامعنی اور بامقصد شہریت اور شراکت داری کی جگہ لے لی ہے۔
جس معیار کے مطابق بھی حساب و کتاب کریں، لگتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ ایک بیمار معاشرہ ہے۔ اس ملک میں دولت اور آمدنی کے لحاظ سے معاشرتی طبقات کے درمیان عدم مساوات دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ امریکہ کا شمار دنیا کے صاحب ثروت ممالک کے زمرے میں ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی ان ملکوں میں بھی شامل ہے جہاں نوزائیدہ بچوں کی موت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ کے بڑی عمر کے افراد کے درمیان بھی غربت کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کا نظام بھی ناقص اور ناکافی ہے اور متوقع عمر کا رجحان کمی کی جانب ہے۔ ریاست ہائے متحدہ میں اسلحہ کے ذریعے قتل عام اور قیدیوں کی شرح تمام ممالک سے زیادہ ہے۔
امریکہ کے ڈھانچے تباہی اور شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ اس ملک کے سیاسی اور سماجی اداروں میں ایک گہرا اعتقادی بحران جاری و ساری ہے۔ یہاں بڑی بڑی کمپنیوں کو مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل رہتی ہے اور یہ کمپنیاں ماحولیات کو مکمل طور پر تباہ کررہی ہیں۔ تنہائی اور خودکشی کے رجحانات نے وبائی صورت اختیار کرلی ہے، صارفیت نے جمہوریت اور بامعنی اور بامقصد شہریت اور شراکت داری کی جگہ لے لی ہے۔ منافرت پھیلانے والے سفید فام گروہوں اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے حالیہ چند عشروں میں سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا یا زخمی کیا ہے۔ امریکہ کے اشرافیہ افراد اور دانشور و سیاستدان عوام سے مکمل طور پر دور اور ان کی رسائی سے خارج ہیں اور عوامی مطالبات سے لا تعلق ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک دیوالیہ جمہوریت کی پیداوار ہیں لیکن یہ ثقافتی اور تہذیبی بیماری اور یہ مرض ڈونلڈ ٹرمپ کا پیدا کردہ نہیں ہے؛ گوکہ ڈونلڈ ٹرمپ تقریبا امریکہ کے تمام مسائل اور مشکلات کی علامت ہے جو انسانی ہیئت میں مجسم ہوئی ہے؛ لیکن وہ ہماری سماجی بیماری کی ایک نشانی ہے اور اس بیماری کا اصل سبب نہیں ہے۔
کرس ہیجز پولیٹزر انعام (۳) یافتہ صحافی ہیں جنہوں نے امریکہ کی سماجی اور ثقافتی بیماریوں کے بارے میں تحقیق کے سلسلے میں کئی برسوں سے مختلف قسم کے معاشروں کا قریب سے مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی نئی کتاب “امریکہ: الوداعی سیاحت” (۴) میں امریکی معاشرے میں گذشتہ کئی عشروں سے انجام پانے والے غلط اقدامات کا جائزہ لیا ہے جن کی وجہ سے ہم امریکیوں کو اس مقام پر پہنچایا گیا ہے کہ کہ کروڑوں امریکی صدارتی عہدہ سنبھالنے کے لئے ٹرمپ جیسے مطلق العنان شخص کو ووٹ دیتے ہیں!
کیا امریکہ کو نجات دلانا ممکن ہے؟ کیا جمہوریت میں امریکی تجربہ ناکام ہوچکا ہے؟ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ آج عیسائی فسطائیت (۵) اور کمپنیوں کی مادر پدر آزاد طاقت امریکی سپنے (۶) کی ویرانی اور عوامی مفادات اور مصلحتوں کی نابودی کے لئے متحدہ ہوچکی ہیں؟ کیا امریکی عوام جمہوریت اور زیادہ صحتمند معاشرے کی بازیابی کے لئے اٹھیں گے؟
ہیجز مذکورہ بالا نئی کتاب کے علاوہ کئی دوسری اور بہت زیادہ بکنے والی کتب کے خالق اور انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کی کاوشوں میں “وہم کی سلطنت: خواندگی کا خاتمہ اور سٹہ بازی کی فتح” (۷)، “لبرل طبقے کی موت” (۸)، “جنگ وہ طاقت ہے جو ہمیں بامعنی بنا دیتی ہے” (۹)، “امریکی فاشسٹ: دائیں بازو کے عیسائی اور امریکہ کے خلاف جنگ” (۱۰) اور “تباہی کے دن اور بغاوت کے دن”، (۱۱) جیسی کتابیں شامل ہیں۔
ہیجز نیویارک ٹائمز، (۱۲) کرسچئین سائنس مانیٹر، (۱۳) اور این پی آر (۱۴) کے لئے بھی لکھتے رہے ہیں۔ وہ اس وقت ٹروتھ ڈگ (۱۵) نامی اخباری اور تجزیاتی ویب سائٹ کے قلمکاروں میں شامل ہیں۔
انٹرویو لینے والا: چاؤنسی ڈی ویگا (۱۶)
انٹرویو دینے والا: کرس ہیجز
انٹرویو کا متن:
س: ڈونلڈ ٹرمپ تقریبا تین برسوں سے صدر ہیں، اس عرصے میں حالات توقع سے بہتر ہوئے ہیں یا بد تر؟
جواب: حالات بد تر ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے مکمل جنگجو اور نفرت انگیز شخصیت کا مالک رہا ہے۔ لیکن حتی میں اس تصور کے باوجود بھی یہ پیشنگوئی کرنے سے عاجز تھا کہ وہ اس قدر برا ہوگا۔ وہ بھی اور موجودہ صورت حال بَگ ٹُٹ اور ٹرمپ مکمل طور پر بے لَگام ہے۔ آپ ـ ریاست ہائے متحدہ میں سیاسی مباحثے کو کمزور کرنے سمیت ـ تفاعلی جمہوریت (۱۷) کے لئے جو بھی معیار مد نظر رکھیں ڈونلڈ ٹرمپ نے حقیقتاً زوال اور تنزلی کی اس رفتار کو تیزتر کردیا ہے۔ وہ یوں کہ اس نے بڑے سرمایہ داروں کے ٹیکس میں کمی کردی، کوئلے اور رکازی یا حیاتیاتی ایندھن (۱۸) کی دوسری قسموں کو قوانین و ضوابط کی قید سے آزاد کیا، عوامی اراضی کے استعمال کو مجاز قرار دیا، سرکاری تعلیم و تربیت پر حملہ کیا، ماحولیات کے تحفظ کے ادارے کو ناکارہ بنا دیا اور ملکی عدالتوں کو وفاق پرَست انجمن (۱۹) کے نظریہ پردازوں (۲۰) سے بھر دیا؛ یا یوں کہئے کہ مسٹر ٹرمپ کے آنے کے بعد صورت حال بہت زیادہ خوفناک ہوچکی ہے۔
س: ڈونالڈ ٹرمپ کی ظہور پذیری اور ان لوگوں کا برسراقتدار آنا جن کی وہ نمائندگی کررہا ہے، میرے خیال میں حیران کن نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یہ بحران کئی عشروں سے تشکیل پا رہا تھا؛ اس کے باوجود سرمایہ داروں اور کمپنیوں سے وابستہ امریکی ذرائع ابلاغ ٹرمپزم کے ساتھ بدستور ایک حیران کن اور غیرمتوقعہ واقعے کے طور پر پیش آرہے ہیں۔ زیادہ تر ذرائع ابلاغ ٹرمپ اس کی ریپبلکن پارٹی کی طرف سے نمائندگی کے سلسلے میں حقائق بیان کرنے کی طرف راغب نظر نہیں آرہے ہیں۔
جواب: متعدد دہائیوں سے یہ صورت حال بن رہی اور تشکیل پا رہی تھی۔ میرے خیال میں ذرائع ابلاغ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ابلاغی سرگرمیوں کا محرک وہی محرک ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو مال کمانے اور پیسہ بنانے کی ترغیب دلاتا ہے اور ٹرمپ ایک ایسے غیر صحتمند اور بیمار تفریح کا حصہ ہے جس نے اس وقت ابلاغیات کی جگہ لے لی ہے۔ مثال کے طور پر آپ سٹارمی ڈینیل (۲۱) اور اس کے وکیل سے متعلق مسائل کو دیکھ لیں، یہ خبریں نہیں ہیں۔ یہ سطحی تشہیرات کا تبادلہ ہے۔ یہ ایک قسم کی تفریح ہے۔ یہ عمل کمپنیوں کی دولت کا خزانہ بھرنے کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سی این این (۲۲) نے گذشتہ سال سب سے زیادہ آمدنی کمائی: ایک ارب ڈالر۔ یہ عمل منافع کمانے کے لئے اچھا ہے، ٹیلی وژن کی درجہ بندی (۲۳) کے لئے بھی اچھا ہے لیکن صحافت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ یہ اعمال در حقیقت منافع پرستی کے چہرے پر نقاب کے مترادف ہیں۔ دیکھ لیں ان لوگوں کو جو کیبل ٹیلی ویژن چینلز کے لئے نیوز پروگرام تیار کرتے ہیں، دیکھ لیں یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ یہ پروگرام سیاسی میدان کے اشرافیہ کے مفاد کے لئے بنائے جاتے ہیں: پرانے اور مستحکم بنیادوں پر استوار سیاستدان یا سیاستدانوں کے لئے، ایک سابق جرنیل یا کئی سابق جرنیلوں کے لئے جو اسلحہ اور فوجی سازوسامان بنانے والی بڑی امریکی کمپنی “ریتھیون کمپنی” (۲۴) یا دوسری کثیرالقومی دفاعی کمپنیوں کے لئے کام کررہے ہیں؛ جاسوسی اداروں کے سابق سربراہ یا سربراہوں کے لئے، سی آئی اے (۲۵) کے سابق سربراہ جان او برینن (۲۶) کے لئے، جو ان دنوں ایم ایس این بی سی (۲۷) کا تنخواہ دار شراکت دار ہے۔
یہ مقرر شدہ وکالت کرنے والوں کی تصدیق شدہ آوازیں ہیں جنہوں نے امریکہ میں کمپنیوں کی بغاوت (۲۸) کو عملی جامہ پہنایا ہے جس کے بارے میں وہ ابھی تک اس کے بارے میں بیان بازیاں کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد جو واقعہ رونما ہوا وہ ان کے لئے ایک بڑا غیر متوقعہ واقعہ تھا، کیونکہ وہ عملی طور پر ریاست ہائے متحدہ میں زندگی بسر نہیں کررہے ہیں۔ وہ در حقیقت ایسے ملک میں زندگی بسر کررہے ہیں جس کو [نیویارکر (۲۹) کے مطابق] ثروتستان (۳۰) کہنا چاہئے۔ یہ مراعات یافتگان ان تمام بلاؤں اور مصیبتوں سے پوری طرح محفوظ ہیں جو انھوں نے نولبرل (۳۱) اور صنعتی انہدام کاری (۳۲) پر اصرار کرکے امریکہ اور پوری دنیا پر مسلط کی ہیں۔
وہ معاشرے ـ اور بالخصوص مزدور طبقے کے ـ اس غیظ و غضب کا ادراک کرنے سے عاجز ہیں جو امریکی معیشت اور وسیع سطح پر امریکی معاشرے کے نظم و ترتیب میں ان کے اقدامات سے جنم لینے والی خلل اندازی کے نتیجے میں ابھرا ہوا ہے۔
آپ کے پاس ایک ڈیموکریٹ جماعت ہے جو ہر وقت ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی (۳۳) یا جان پوڈسٹا (۳۴) کے ایمیل پیغامات یا ویکی لیکس (۳۵) یا روس کے بارے میں مسلسل بولے جارہی ہے، بغیر اس کے کہ اصل موضوع کے پر غور کرے جو کہ وہی وسیع اور ناقابل یقین سماجی عدم مساوات ہے۔ ڈیموکریٹ جماعت بھی اس عدم مساوات کا ایک سبب ہے اسی بنا پر اس کے بارے میں بولنے سے گریز کرتی ہے۔ ڈیموکریٹ جس قدر بھی اپنے آپ کو یقین دہانی کرائیں کہ ٹرمپ آخرکار اندر ہی سے پھٹ کر دھماکے سے اڑ جائے گا، اور جس قدر بھی اس بات پر یقین کرنا چاہیں کہ روس دو سال قبل کی صدارتی انتخابات کا اصلی قصوروار ہے، صورت حال مزید خطرناک ہوجائے گی۔ ڈیموکریٹ اصلی اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دیئے بغیر روس جیسی بیرونی طاقتوں کو شیطان کی صورت میں مجسم کرنے میں مصروف ہیں، جبکہ بنیادی مسئلہ وہ ہے جو امریکی تاریخ میں دولت کی اعلی طبقوں کی طرف عظیم ترین منتقلی کا سبب بنا ہوا ہے اور کمپنیوں کی بنیاد پر قائم زر پرست اشرافیہ کے ایک گروہ کو جنم دے چکا ہے جو اس نقطے پر امریکہ کے سنہری دور (۳۶) کے اشرافیہ سے بدتر ہیں۔
حواشی
۱۔ Chris Hedges (Christopher Lynn Hedges) ۔۔۔ کرس ہیجز امریکی صحافی، پریسبیٹیریَن کلیسا میں خادم دین اور پرنسٹن یونیورسٹی کے جزو وقتی استاد ہیں۔
۲۔ Consumerism
۳۔ Pulitzer Prize
٭ Elites
۴۔ America: The Farewell Tour
۵۔ Christian fascism
۶۔ American dream
۷۔ Empire of Illusion: The End of Literacy and the Triumph of Spectacle
۸۔ Death of the Liberal Class
۹۔ War is a force that gives us meaning
۱۰۔ American Fascists: The Christian Right and the War on America
۱۱۔ Days of Destruction, Days of Revolt
۱۲۔ New York times
۱۳۔ The Christian Science Monitor
۱۴۔ National Public Radio [NPR]
۱۵۔ Truthdig[.]com
۱۶۔ Chauncey Devega
۱۷۔ Functional democracy
۱۸۔ Fossil fuels
۱۹۔ Federalist society
۲۰۔ Ideologues
۲۱۔ Stormy Daniel
۲۲۔ Cable News Network [CNN]
۲۳۔ Rating  اور Ranking
۲۴۔ Raytheon Company
۲۵۔ Central Intelligence Agency [CIA]
۲۶۔ John Owen Brennan
۲۷۔ MSNBC [Microsoft and the National Broadcasting Company]
۲۸۔ Corporate coup
۲۹۔ New Yorker
۳۰۔ Richistan
۳۱۔ Neo-liberalism
۳۲۔ Deindustrialization
۳۴۔ James Brien Comey Jr
۳۵۔ John Podesta
۳۶۔ WikiLeaks

 

یہودی صیہونی تحریک کے لئے برطانوی سیاسی حمایت

  • ۳۹۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی عالمی صہیونی کانفرنس کے انعقاد کے بعد ، صہیونی ریاست کے قیام کے خواہاں یہودی رہنماؤں نے بڑی تعداد میں سیاسی شخصیات اور اعلی برطانوی سرکاری عہدیداروں کی حمایت اور یکجہتی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔  اس میں سب سے زیادہ اہم کردار ’ولیم ہیشلر‘ کا تھا جس نے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔  

ہیشلر فرانس اور جرمنی کی جانب سے بھیجا ہوا نمائندہ تھا جو بعد میں 1885 میں ویانا میں برطانوی سفارتخانے میں ایک کاہن کے عنوان سے ملازمت کرنے لگا۔ اسی وجہ سے صہیونی تحریک کے لیے یہ منصب اسٹریٹجکی اہمیت کا حامل ہو گیا۔
 
یہودیوں کی فلسطین واپسی
 ہیشلر نے شفٹس بیری کے طرز زندگی پر پختہ یقین کے ساتھ 1894 میں "یہودیوں کی فلسطین واپسی" کے  عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی (اس کی کتاب ہرٹزل کی کتاب "ڈیر جوڈین اسٹیٹ" سے دو سال قبل شائع ہوئی تھی)۔ اس نے اپنی کتاب میں کہا، "یہودیوں کی سرزمین فلسطین میں واپسی عہد قدیم کی پیش گوئیوں پر مبنی ہے۔"  اور مذکورہ شخص کو صیہونی ریاست کے قیام کے لئے ہرٹزل کے نزدیک ایک اہم عیسائی اتحادی کی حیثیت سے پہچنوایا گیا۔
وہ ان تین مسیحی رہنماؤں میں سے ایک ہے جنہوں نے عالمی صہیونی کانفرنس میں شرکت کے لئے دعوت نامے بھیجے تھے۔ ہرٹزل کوئی مذہبی شخص نہیں تھا ، لیکن توہم پرستی پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے اپنی ڈائری میں 10/3/1896 عیسوی کو ہیشلر سے اپنی گفتگو کے بارے میں لکھا: "برطانوی سفارت خانے کے کاہن پادری ولیم ہیشلر مجھ سے ملنے یہاں آئے تھے۔ وہ نبیوں کی طرح نرم مزاج اور خاکستر آدمی تھے میں نے یہودیوں کے مسئلے کے لیے جو تجویز پیش کی انہوں نے اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا، اور یہ محسوس کیا کہ میں نے ان پیش گوئیوں کو سرانجام پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے جو وہ پچھلے سال کہہ چکے تھے  ہیشلر کی توقع کی تھی کہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کا آغاز1897 میں شروع ہو جانا چاہیے‘‘۔
ہرٹزل اپنے گھر میں ہشلر کے ساتھ ہوئی دوسری ملاقات کے بارے میں کہتا ہے: "مجھے حیرت ہوئی کہ ہیشلر کا کمرہ بائبل اور فلسطین کی جنگ عظیم کے نقشوں سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے بیت ایل میں نئے ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اپنے منصوبوں کے مطابق نئی حکومت کے دار الحکومت کے بارے میں میرے لیے وضاحت کی۔ اور مجھے کہا کہ میں قدیمی ہیکل کے نقشے پر غور کروں۔ اس کے بعد بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کہا: ہم نے یہ زمین تم لوگوں کے لیے آمادہ کر دی ہے۔ ۔۔۔ وہ ایک سادہ مزاج شخص تھے اور مجھے پورے خلوص کے ساتھ نصیحت کرتے تھے۔ وہ اس کے باوجود کہ سادہ مزاج تھے بہت چالاک اور ذہین بھی تھے۔‘‘  
ہیشلر نے اپنے عہد و پیمان سے وفاداری کرتے ہوئے ہرٹزل کو جرمنی کے شاہ دوم ولیم سے بات چیت کرنے کو کہا۔
 
صہیونی عیسائیوں کے طرز افکار میں بنیادی تبدیلی
ہیشلر کی کاوشوں اور نقل و حرکت کے نتیجے میں صہیونی عیسائیوں کے طرز تفکر میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔  ابتدائی نقادوں جیسے اپرونک اور ڈرمونڈ کے خیالات سے قطع نظرکہ جو یہودیوں کی فلسطین واپسی کو یہودیوں پر مسلط بیرونی سیاستوں کا نتیجہ سمجھتے تھے،  ہشلر نے تب بھی یہ اصرار کیا کہ عیسائیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کی حمایت کریں۔
ڈیوڈ لائیڈ جارج نے 1919 میں برطانوی وزیر اعظم کے دفتر پہنچ کر اعتراف کیا کہ وہ صیہونی تھا اور شفٹس بیری خیالات کا ماننے والا تھا۔
تحریر؛ حسین صلواتی‌پور
منبع؛ استفان سایزر – الصهیونیون المسیحیون علی طریق هرمجدون و  دکتر ریاض جرجور – صهیونیسم مسیحی یا صهیونیسم آمریکایی

 

 

حقیقی دشمن کی پہچان ایک الہی فریضہ

  • ۴۱۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بے شک معرفت آگاہ انسانوں کی خصوصیات میں شامل ہے۔ خدا کی معرفت، اپنے نفس کی معرفت، دوستوں کی معرفت، حقوق و فرائض کی معرفت، نیک اعمال، اخلاقیات کی پابندی اور اللہ کی بندگی اور اس کی رضا اور خوشنودی کا سبب ہے۔ لیکن اس شناخت و معرفت اور دین کی پیروی اور حقوق کے حصول اور فرائض پر عمل کے لئے محفوظ ماحول فراہم کرنا ضروری ہے؛ جس کے لئے ہمیں پہلے مرحلے میں دشمن کی پہچان حاصل کرنے کی ضرورت ہے، دوسرے مرحلے میں اس کی چالیں سمجھنا ضروری ہے اور مقابلہ، تو تیسرے مرحلے میں آتا ہے کیونکہ دشمن کی عدم شناخت کی صورت میں دشمن کا مقابلہ ممکن ہی نہیں ہے۔
چنانچہ سب سے پہلے دیکھنا چاہئے کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ دوسرے مرحلے میں دیکھنا چاہئے کہ دشمن کی چالیں کیا ہیں اور وہ کن راستوں پر چل کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے؟ اور تیسرے مرحلے میں دیکھنا چاہئے کہ کن کن روشوں اور اقدامات کے ذریعے ہم دشمن کی سازشوں کا سد باب کرسکتے ہیں؟ اور کن کن راستوں پر چل کر ہم دشمن کی چلی ہوئی سازشوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اورکن راستوں پر چل کر ہم معاشرے کو محفوظ بنا سکتے ہیں؟
دشمن ہے کیا؟ دشمن ہے کون؟ دشمن کا مختصر تعارف
لاطینی زبان میں Enemy اور دینی فرہنگ میں عَدُو جس کی جمع اعداء ہے اور اس کا مصدر “عَدْوٌ” ہے جس کے معنی تجاوز اور جارحیت کے ہیں۔
راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں: “عَدْوٌ” کے معنی تجاوز اور جارحیت کے ہیں اور یہ لفظ “التیام” کے متضاد ہے۔
کبھی دشمنی قلبی ہوتی ہے جس کو “عداوت اور معادات” کہا جاتا ہے۔ کبھی راہ چلنے میں ہے اور اس حوالے سے “عَدْوٌ” کے معنی دوڑنے کے ہیں؛ اور کبھی لین دین اور تعامل میں عدل و انصاف کی عدم رعایت کی شکل میں ہے جس کو “عدوان” کہا جاتا ہے۔
“عَدُو” دشمن ہے جو دل میں انسان کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے اور عمل میں اس دلی کیفیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔
ارشاد پرودگار ہے: “إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُواْ لَکُمْ عَدُوّاً مُّبِیناً” (یقینا کافر لوگ تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں)۔ (۱)
یا ارشاد ہوتا ہے کہ “إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِینٌ” (یقینا شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے) (۲) (۳)
راغب اصفہانی کا کہنا ہے کہ دشمن کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ وہ جو عداوت رکھتا ہے اور اس کا ارادہ بھی دشمنی کا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
” فَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ” (اگر وہ کسی ایسی جماعت سے ہے جو تمہاری دشمن ہے) (۴)
۲۔ دوسری قسم کا دشمن وہ ہے جو عداوت کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اس کی حالت اور کیفیت کچھ ایسی ہے جس سے انسان کو اذیت پہنچتی ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
” فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّی إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِینَ” (بے شک وہ میرے لئے دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں سوائے عالمین کے پروردگار کے) (۵)
حالانکہ بے جان بت ابراہیم(ع) کے ساتھ دشمنی نہیں کرسکتے تھے؛ جمادات کہاں کسی کے ساتھ دشمنی کرسکتے ہیں۔ لیکن ان کی حالت و کیفیت معبودوں کی تھی اور وہ حالت و کیفیت ابراہیم(ع) کے لئے تکلیف دہ اور آزار دہندہ تھی۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ وہ میرے دشمن ہیں۔
راغب مزید لکھتے ہیں: خداوند متعال کا ارشاد ہے:
” إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوّاً لَّکُمْ فَاحْذَرُوهُمْ” (یقینا تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں ایسے ہیں جو تمہارے دشمن ہیں تو ان سے ڈرتے رہو)۔ (۶) اور یہاں بھی دشمن کے معنی بظاہر وہی ہیں۔ یعنی جس طرح کہ دشمن سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے ممکن ہے کہ بیوی بچے بھی تمہیں نقصان اور تکلیف سے دوچار کریں۔ یا ان سے بے تحاشا محبت اور ان کی طرف حد سے زیادہ جھکاؤ تمہیں دین کے کاموں سے باز رکھے۔
کبھی دشمنی دوسروں کے ساتھ لین دین اور تعامل میں عدل و انصاف کی عدم رعایت کی صورت میں ہے لہذا اس قسم کی دشمنی ظلم قرار دیا جاسکتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ہے:
” وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ” (اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو) (۷)۔
راغب کے بقول اس آیت میں عدوان کے معنی ظلم و زیادتی کے ہیں.
کبھی دشمن سے مراد وہ ہے جو ظاہری طور پر عداوت برتتا ہے اور یہ اس دشمن کے مقابلے میں آتا ہے جو قلبی اور باطنی طور پر دشمنی رکھتا ہے۔
میں ارشاد ہوتا ہے:
” وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَداً” (۸) (اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے دشمنی اور منافرت نمایاں ہوچکی ہے)۔
راغب کہتے ہیں:
اس طرح کے مواقع پر ظاہرا عداوت سے مراد دشمنی اور بغضاء سے مراد قلبی کینہ اور بغض ہے؛ اگرچہ عداوت سے قلبی تجاوز اور جارحیت بھی ہے لیکن کتاب “اقرب الموارد” کے مصنف کا کہنا ہے کہ عداوت کے معنی خصومت اور دوری کے ہیں جبکہ المنجد کے مصنف نے لکھا ہے کہ “عَدْوٌ” کے لغوی معنی “جنگ کے لئے دوڑنے، روکنے اور باز رکھنے، ظلم و ستم روا رکھنے، حدود سے تجاوز کرنے، دشمنی اور خصومت برتنے اور دشمنی اور منافرت پھیلانے” کے ہیں۔ (۹)
ڈاکٹر معین اپنی کتاب “فرہنگ معین” میں دشمن کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وہ جو دوسرے کا بدخواہ ہو، مخالف جو کہ دوست اور محب کا متضاد ہے، اور لفظ “دشمنی” قلبی خصومت اور دشمنی کے علاوہ “عداوت، کراہت (یا اردو میں کراہیت)، اور نفرت” کے معنی میں بھی آیا ہے۔ (۱۰)
علی اکبر دِہخدا اپنے لغت نامے میں لکھتے ہیں: “دشمن” “بدنفس” اور “کریہ الطبع” شخص کو کہا جاتا ہے۔ اور اصطلاح میں دشمن وہ ہے جو کسی شخص یا کسی ملک و قوم کا بدخواہ اور کینہ پرور اور اس شخص یا ملک کے خلاف برسرپیکار ہو۔ (۱۱)
مولانا روم کہتے ہیں:
دشمن آن باشد کہ قصد جان کند
دشمن آن نبود کہ خود جان می کند
دشمن آن باشد کزو آید عذاب
مانع آید لعل را از آفتاب (۱۲)
دشمن وہ ہے جو تمہاری جان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کرے
دشمن وہ نہیں ہے جو خود جانکنی کی حالت میں ہے
دشمن وہ ہے جو انسان کے لئے اذیت و عذاب کے اسباب فراہم کرے
اور آفتاب کی کرنیں لعل تک نہ پہنچنے دے اور تمہاری ترقی اور بالیدگی کے راستے بند کردے۔
پس ہمارے خیال میں دشمن وہ ہے جو قلبی طور آپ سے دشمنی کرتا ہے، عمل میں دشمنی کرتا ہے، جارحیت کرتا ہے، ظلم و ستم روا رکھتا ہے، آپ کے لئے تکلیف و اذیت و آزار کے اسباب فراہم کرتا ہے، آپ کو ترقی سے روکتا ہے اور آپ کی ترقی کے راستے بند کردیتا ہے۔ آپ کے ساتھ حالت جنگ میں ہے، آپ کی ترقی کو ناپسند کرتا ہے اور آپ کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ آج کے زمانے میں دشمن کی تعریف یہ ہے کہ دشمن وہ ہے جو آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور آپ کو دوستوں سے لڑاتا ہے اور آپ کے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے۔ آپ کے دوستوں کو دشمن کے عنوان سے آپ کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے اور خود دشمن ہوکر دوست کا لبادہ اوڑھتا ہے۔ یعنی یہ کہ آج کا دشمن منافق ہے اور اس کی پہچان قدرے مشکل ہے چنانچہ دشمن شناسی بھی آج کے مسلمان کے فرائص میں شامل ہے جبکہ پہلے زمانے کے دشمن کا محاذ آشکار تھا اور دشمن کی شناخت پر وقت اور سرمایہ صرف کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
آج جو ہم اسلام دشمنوں کی بات کرتے ہیں تو ان کی پہچان ہمارے لئے از روئے عقل و ہوش بہت ضروری ہے؛ ہر وہ ملک، طاقت یا ہر وہ شخص جو آپ کو اور آپ کے ملک کو، آپ کے قومی اتحاد اور یکجہتی کو نقصان پہنچائے آپ کی امت کو کمزور کرنے کے لئے اس میں اختلاف کا بیج بوئے، آپ کی ترقی میں رکاوٹ ڈالے، ان اقدامات کے راستے میں روڑے اٹکائے جو آپ کی ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ وہ دوست نہیں ہے بلکہ یا دشمن ہے یا دشمن کا آلہ کار۔
ہر وہ ملک، شخص، گروہ یا جماعت جو ملک کے اندر، امت کے اندر عوام کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرے وہ دشمن یا دشمن کا آلہ کار ہے۔
آج بہت سے ملکوں میں ہماری امت کے دشمنوں نے دوستوں کے بھیس میں ظاہر ہوکر دوستوں کو دشمن ظاہر کرکے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور ہر مسلمان کو الہی امتحان کا سامنا ہے کیونکہ اس زمانے کا مسلمان سمجھتا ہے کہ وہ صدر اول کے مسلمانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ بصیر اور آگاہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے لیکن اگر وہ اس کے باوجود دشمن کی چالوں کو نہ سمجھ سکے اور دوست کو دشمن سمجھ کر اس کا مقابلہ شروع کرے تو اس سے فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے اور دشمن کو فائدہ پہنچانا دشمن سے دوستی ہی کا دوسرا رخ ہے جو اللہ کو ناپسند ہے اور اس کے عوض ہمیں اللہ کو جواب دینا پڑے گا گوکہ اس دنیا میں بھی مکافات عمل کا سامنا رہے گا اور وہ یوں کہ دشمنان دین ہم پر مسلط رہیں گے اور وہ لوگ ہم پر حکمرانی کریں گے جو ہم پر رحم نہیں کرتے بلکہ ہماری جان و مال و ناموس اور ہمارے دین کے دشمن اور ہمارے دینی اور دنیاوی سرمایوں کو لٹیرے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ سورہ نساء آیت ۱۰۱۔
۲۔ سورہ یوسف آیت ۵۔
۳۔ قاموس قرآن، ج ۴، ص ۳۰۵، مفردات راغب، مادہ عدو.
۴۔ سورہ نساء آیت ۹۲۔
۵۔ سورہ شعراء آیت ۷۷۔
۶۔ سورہ تغابن آیت ۱۴۔
۷۔ سورہ مائدہ آیت ۲۔
۸۔ سورہ ممتحنہ، آیت ۴۔
۹۔ قاموس قرآن، ج۴، ص ۳۰۸۔
۱۰۔ فرہنگ معین، ج۲، ص ۸- ۱۵۳۷۔
۱۱۔ لغت نامہ دہخدا، ج۲۳، ص ۱۲۔
۱۲۔ مثنوی معنوی، دفتر دوم، بیت ۷۹۲ – ۷۹۳۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

برصغیر کا خاص جغرافیائی ـ سیاسی محل وقوع اور علاقے پر اس کے گہرے اثرات

  • ۴۱۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عام طور پر برصغیر کا علاقہ خاص قسم کے جغرافیائی ـ سیاسی (Geopolitical) پہلؤوں اور سمتوں کا حامل ہے۔ جغرافیائی علاقوں کا تزویری وزن (Strategic Weight)، ثقافتی تنازعات کے جغرافیے، علاقائی امن و استحکام، علاقائی تنظیمیں، محفوظ / غیر محفوظ مقامات، وہ عظیم جغرافیائی اور جیوپولیٹیکل عوامل ہیں جو حتی کہ بر صغیر میں واقع ہر ملک کے قومی سلامتی کے ڈھانچے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر علاقائی ماحول میں ملک کے محل وقوع اور پوزیشن کی شناخت نیز تناؤ کی تقلیل اور خطرات کی تخفیف کو مد نظر رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
برصغیر کے اہم ترین جیوپولیٹیکل موارد کو در ذیل نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ برصغیر میں واقع سات ممالک جغرافیائی محل وقوع، سیاسی رجحانات نیز تاریخی اور معیشتی معاملات کے اعتبار سے آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ برصغیر کا خطہ ایک ایسا اہم جغرافیائی ـ سیاسی خطہ ہے جس کے امن و استحکام یا بدامنی اور عدم استحکام سے پورا علاقہ متاثر ہوتا ہے۔ برصغیر کے روشن مستقبل کی امید اس خطے کے اندرونی حالات سے وابستہ ہے اندرونی صورتحال اگر امن و سکون کی راہ پر گامزن ہو گی تو پورے علاقے پر اس کے مثبت اثرات رونما ہوں گے لیکن اگر خلفشار اور باہمی کشمکش کا سلسلہ جاری رہے گا پورے علاقے کا امن و سکون متاثر ہو گا۔
۲۔ برصغیر کے اندرونی عدم استحکام اور اس کے جیوپولیٹیکل ممالک کے آپسی روابط کو مخدوش کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر ہی کافی ہے۔ اس لیے کہ برصغیر کی سلامتی دو پڑوسی ملک ہند و پاک کے باہمی روابط سے وابستہ ہے۔ بھارت اور پاکستان اس خطے کے دو اہم ممالک ہیں جو برصغیر کی تقدیر کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اس لیے جو بھی دوسرا ملک ان دونوں سے اپنے روابط قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے سب سے پہلے دونوں کے کردار پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔
۳۔ جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم (SAARC) سارک جس نے برصغیر کے سات ممالک کو ایک غیر موثر تنظیم میں جمع کیا ہے تاہم اس کے علاوہ علاقائی باہمی تعاون کے استحکام کے لیے کوئی دوسری تنظیم تشکیل نہیں پائی ہے۔ علاقائی ممالک کے درمیان دوطرفہ معاہدوں نے بھی ہند و پاک کے نظریاتی اختلافات کو سلجھانے اور انہیں ایک دوسرے سے قریب کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس کے باوجود امید کی جاتی ہے کہ آئندہ سالوں میں دونوں ممالک کی حکومتیں جو اندرونی طور پر ناقابل انکار خطرات سے دوچار ہیں اپنے روابط میں بہتری لا کر علاقائی استحکام کو بحال کرنے کی کوشش کریں گی۔ یہ خطرات درج ذیل موارد میں بیان کئے جا سکتے ہیں:
زمین، پانی اور معدنی وسائل، توانائی، نسلی علیحدگی پسندی، تیزی سے آبادی کی ترقی، مالی گھوٹالے اور وسیع پیمانے پر رشوت خواری، دھوکہ بازی، سماجی اور سیاسی خدمات فراہم کرنے میں بے حد کوتاہی اور سیاسی و سماجی پارٹیوں اور تنظیموں میں اختلافات،  ماحولیاتی تباہی، سیاسی ظلم و ستم اور طاقت کی منتقلی کے لئے عملی طریقہ کار کی کمی.
۴۔ برصغیر ہائیڈروکاربن کی پیداوار اور اس کے استعمال کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی مارکٹ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے دو اہم ذرائع؛ آبنائے ہرمز جو ہائیڈروکاربن کی پیداوار کا مرکز اور آبنائے مالاکا جو اس کو دنیا کی سب سے بڑی مارکٹ میں منتقل کرنے کا دروازہ ہے سے جڑا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے یہ خطہ عالمی اور علاقائی طاقتوں  کے مفادات کے حصول کا مرکز بنا ہوا ہے۔ برصغیر مذکورہ دو ذرائع سے متصل ہونے کے عنوان سے دنیا کی سب سے بڑی مارکٹ ہے جہاں توانائی کی پیداوار اور اس کا استعمال دونوں عروج پرہیں۔ لہذا امریکہ، یورپی یونین اور چین کی لالچ بھری نظریں برصغیر پر جمی ہوئی ہیں اور وہ مختلف ذرائع اور بہانوں سے اس خطے کا سرمایہ لوٹ کر اپنی تیجوریاں بھرنے میں مصروف عمل ہیں۔
بقلم: ڈاکٹر محسن محمدی
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے شعبہ برصغیر اسٹڈیز ڈیسک گروپ کے ڈائریکٹر

 

یہودی ریاست کے معاشی ذرائع پر ایک نظر

  • ۴۰۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بحیثیت مجموعی، تمام سیاسی، معاشی، عسکری و ۔۔۔ شعبوں میں یہودی ریاست کی سیاست اور تزویری حکمت عملی ـ ابتداء سے لے کر آج تک ـ توسیع پسندی، استعمار اور حرص و لالچ کی بنیاد پر استوار ہوئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے سابقہ شمارے میں کہا، یہودی ریاست اسی حکمت عملی کی بنیاد پر اپنی معیشت کو رونق دینے اور دوسرے ممالک کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن کیا یہ اچھی خاصی معاشی ترقی اور وسیع پیمانے پر برآمدات ہی اس ریاست کے مادی مفادات کو پورا کررہی ہیں یا پھر مزید فوائد بھی ان مفادات میں شامل ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے، بہتر ہے کہ یہودی ریاست کے اہم معاشی ذرائع کا جائزہ لیا جائے۔
یہودی ریاست کے معاشی ذرائع
صنعتیں: یہودی ریاست مغربی ایشیا کے ممالک کے درمیان صنعتی لحاظ سے نمایاں ریاست ہے جس کی صنعتوں میں تعمیراتی ساز و سامان، شیشہ گری، لکڑی کی صنعت، پارچہ بافی، الیکٹرانک اور برقی ساز و سامان، ہیرے کی صنعت، نہلائی دھلائی کا سامان، اشیاء خورد و نوش کی مشینری اور غذائی صنعت، فوجی سازوسامان کی تیاری شامل ہے۔ (۱) ان صنعتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی اس ریاست کی مجموعی قومی پیداوار کے ۸۵ فیصد حصے کو تشکیل دیتی ہے جس کے باعث یہودی ریاست کی ۱۶ فیصد آبادی صنعتوں کے شعبے میں سرگرم عمل ہو چکی ہے۔
درحقیقت، ذرائع آمدنی کے نجی شعبے کے سپرد کئے جانے کے باعث اس ریاست کی آمدنی فوجی صنعتوں اور برآمدات میں بڑھ گئی۔ بطور مثال ہیروں کی برآمدات ـ جو کسی وقت اس ریاست کی نصف برآمدات کو تشکیل دیتی تھیں، ایک چوتھائی تک کم ہوگئیں اور اس کے مقابلے میں الیکٹرانک مصنوعات کی برآمد میں دو گنا اضافہ ہوا۔
فوجی صنعتیں: یہودی ریاست نے امریکہ کی سائنسی اور تکنیکی مدد اور ماہر افرادی قوت کے بل بوتے پر اہم عسکری صنعتوں کی بنیاد رکھی اور دنیا کو اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک میں پانچویں رتبے پر جا کھڑی ہوئی۔ یہودی ریاست کی فوجی برآمدات میں مختلف قسم کے عسکری شعبے سے متعلقہ برقی آلات و وسائل، میزائل ہدایت کا نظام (Missile guidance system)، رات کو دیکھنے والے وسائل (Night vision equipment)، شور پیدا کرنے والا ساز و سامان (noise generating equipment) اور فوجی ساز و سامان شامل ہیں۔ ان صنعتوں کی حصولیابیوں میں مرکاوا ٹینک (Merkava) اور ریشف (Reshef) نامی تیزرفتار چھوٹی کشتیاں (Reshef speedboats) شامل ہیں۔ ۱۹۹۰ع کی دہائی میں یہودی ریاست کی عسکری برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی تین ارب ڈالر تھی، اور یہ صنعت ـ ہیروں کی صنعت کے سوا ـ یہودی ریاست کی مجموعی برآمدات کے ۲۰ حصے کو تشکیل دیتی تھی۔ (۲)
معدنیات: یہودی ریاست کے پاس تانبے، پوٹاشیئم، میگنیشیئم وغیرہ کی کانیں ہیں جن سے وہ اب بھی متعلقہ مواد نکال رہی ہے چنانچہ معدنیات کے لحاظ سے اس کی پوزیشن نسبتاً اچھی ہے۔ تانبے کے ذخائر صحرائے نقب کے جنوب میں واقع ہیں۔ بحیرہ مردار (بحرالمیت Dead sea) کی تہہ اور اس کے اطراف مختلف معدنی مواد کے ذخائر سے مالامال ہیں جن کے باعث مغربی کنارے میں آئیوڈین، پوٹاشئیم اور میگنیشئیم کے متعدد کارخانے قائم کئے گئے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود اس ریاست کو ایندھن کے ناقابل تجدید ذرائع ـ جیسے تیل اور گیس ـ کے لحاظ سے قلت کا سامنا ہے۔ “حیفا”، “کوکار” اور “برار” وغیرہ جیسے علاقوں سے تیل نکالا جارہا ہے لیکن تیل کا استعمال بہت زیادہ ہے چنانچہ یہودی ریاست توانائی کے شعبے کی قلتوں کو باہر سے پورا کرتی ہے۔ (۳)
بندرگاہیں: غاصب ریاست کی آمدنی کے دوسرے ذرائع میں بندرگاہیں شامل ہیں۔ لیکن حیفا، “تل ابیب”، “ایلات”، “اشکلون”، اور “اشدود” کی بندرگاہیں نہ صرف مسافروں کی آمد و رفت اور برآمدات و درآمدات کے لئے استعمال ہوتی ہیں بلکہ انہیں صنعتی علاقوں میں بدل دیا گیا ہے اور ان بندرگاہوں میں شیشہ گری اور سیمنٹ کے کارخانے، تیل کی ریفائنریاں، بجلی گھر وغیرہ بھی قائم کئے گئے ہیں۔ (۴)
ذرائع سے ۱۰۰ فیصد فائدہ اٹھانے کی اس پالیسی کے بدولت، ۲۰۱۶ع میں اچھی خاصی ترقی کی تھی اور اس کی معاشی پالیسی کچھ اس طرح سے ہے کہ ۲۰۱۷-۲۰۱۸ کے مالی سال میں اس ریاست کی ترقی تین فیصد تک پہنچ گئی۔ (۵)
لیکن مضمون کی ابتداء میں اٹھائے گئے سوال کے جواب میں کہنا چاہئے کہ یہودی ریاست نے معاشی ترقی میں اضافہ کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ علاقے میں اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں بھی اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور پھر سیاسی تعلقات کی بحالی کے لئے اقتصادی مسائل سے بہتر کیا بہانہ ہوسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اطراف کے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات اس ریاست کی پوزیشن کی تقویت و استحکام کے زمرے میں آتے تھے۔ لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں تھا۔ یہودی ریاست کو پیداوار، برآمدات اور معاشی ترقی کے لئے یورپ اور امریکہ کے علاوہ، اپنی مصنوعات کی مزید فروخت کے لئے منڈی کی ضرورت تھی اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ اس کو اپنی صنعتی پیداوار کے لئے خام مال کی بھی ضرورت تھی۔ اس مسئلے کے حل کے لئے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات سے بہتر کونسا راستہ ہوسکتا تھا جو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے نچلی سطح پر ہیں؛ اور اسرائیلی اس روش سے توانائی کے سستے ذرائع تک بھی رسائی حاصل کرسکتے تھے اور اپنی مصنوعات بھی فروخت کرسکتے تھے۔ (۶)
تجارتی اور صنعتی علاقوں میں مصر اور اسرائیل کے مشترکہ اقتصادی منصوبے، یہودی ریاست سے مصر تک گیس پائپ لائن، اردن اور یہودی ریاست سے امریکہ کو ۲۰ کروڑ ڈالر کی مالیت کی ‌مشترکہ برآمدات کا منصوبہ اور آذربائیجان سے ـ ٹیکنالوجی اور اسلحے کی منتقلی کے بدلے ـ تیل اور گیس کی خریداری جیسے اقدامات، اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ادھر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر وغیرہ جیسے عرب ممالک بھی امریکی کی قربت حاصل کرنے اور اس کی سیاسی حمایت سے بہرہ ور ہونے کی غرض سے یہودی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں گوکہ اندرونی سماجی اور عوامی ماحول کے پیش نظر، یہ تعلق اور تعاون رازدارانہ ہے۔
بہرصورت، ان معاشی تعلقات سے اسرائیل کا بنیادی مقصد ـ مختلف ممالک میں سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ بڑھانے کے علاوہ ـ ان ممالک کی معیشت کی مکمل تباہی اور انہیں مختلف شعبوں میں بیرونی وسائل سے وابستہ کرکے تنہا کرنا اور خطے میں اپنے اصلی دشمن “ایران” کا اثر و رسوخ کم کرنا ہے۔ (۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ کتاب “رژیم صہیونیستی”، (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، چاپ اول: ۱۳۸۹ھ ش، تہران، ناشر: شہید لیفٹننٹ جنرل علی صیاد شیرازی تعلیمی و تحقیقی مرکز، ص۷۲۔
۲۔ ساختار دولت صہهیونیستی اسرائیل، ج۲، موسسه الدراسسات الفلسطینیه، ترجمه علی جنتی، چاپ اول: ۱۳۸۵، تهران، موسسه مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص۱۴۷۔
۳۔ کتاب “رژیم صہیونیستی”، (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، ص۷۳۔
۴۔ وہی مآخذ، ص۸۰۔
۵٫ http://nedains.com/fa/news/315026.
۶٫ http://www.persiangulfstudies.com/fa/pages/673.
۷- فصلنامہ علوم راہبردی (اسٹراٹجک سائنسز کی سہ ماہی)، اسرائیل و کشورهای پیرامونی؛ نفوذ امنیتی با پوشش اقتصادی، (اسرائیل اور پڑوسی ممالک، سیکورٹی دراندازی معیشت کے بھیس میں) وحیده احمدی، موسم گرما ۹۶ھ ش، شمارہ ۷۶، ص۱۳۶-۱۱۳٫
تحریر؛ میلاد پور عسگری