موشے دایان سینٹر Moshe Dayan Center کا تعارف

  • ۵۲۴

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: موشے دایان سینٹر(Moshe Dayan Center (MDC) کی بنیاد سنہ ۱۹۵۹ میں رکھی گئی اور ۱۹۸۳ میں اسے تل ابیب یونیورسٹی میں شامل کر لیا گیا۔ بعد از آں، پنسیلونیا یونیورسٹی (Pennsylvania ) نے ۲۰۱۴ میں اس سینٹر کو مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے ۳۳ ویں اہم تحقیقی سنٹروں میں قرار دے دیا۔ (۱)
مغربی ایشیا کے حالات پر تسلط رکھنے والے محققین جو فارسی، عربی، عبرانی، ترکی اور کردی زبانوں سے آشنا ہوں اس سینٹر میں مصروف تحقیق ہوتے ہیں۔ ۱۸۷۷ سے لے کر آج تک کے تمام عربی اخباروں کے آرکائیوز اس سینٹر میں موجود ہیں جو محققین کے اختیار میں دئے جاتے ہیں۔ ۲۰۱۴ میں اس سینٹر نے امریکہ کی یونیورسٹی ویسکونسین (Wisconsin) کے ساتھ یہودیت سے متعلق موضوعات پر تحقیقات کرنے کے لیے پانچ سالہ تعاون کا معاہدہ کیا۔
موشہ دایان سینٹر کی سرکاری ویب سائٹ؛  https://dayan.org
ہر سال دنیا کی مختلف زبانوں میں کتابیں اس سینٹر سے چھپتی ہیں۔ ایران کے سلسلے میں چھپنے والی کتابوں میں سے دو کتابیں یہ ہیں:
الف ۔ ایران اور اسرائیل کے تعلقات ۱۹۴۸ سے لیکر ۱۹۶۳ تک
تالیف؛ ڈورن اٹزہاکو، سن طباعت ۲۰۱۹
 
ب؛ اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان طاقت کا توازن
تالیف؛ ٹیمر یگنیس، سن طباعت ۲۰۰۸
 
ہر مہینے ۸ تجزیاتی رسالے اس سینٹر سے شائع ہوتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
۔ Tel Aviv Notes – Contemporary Middle East Analysis)
 
۔ Bayan – The Arabs in Israel
 
۔ Bustan
 
۔ Middle East Newsbrief
 
تاریخچہ
اس سینٹر کی تاسیس کا سب سے پہلے آئیڈیا موساد کے سب سے پہلے سربراہ ’’رووین شیلاوہ‘‘ نے دیا تھا۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں اس کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کی موت کے تیس دن بعد ان کی یاد میں منائی گئی تقریب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے آفیس کے سربراہ ’’ٹیڈی کولیک‘‘ نے موساد کے سابق سربراہ کے نام اس سینٹر کی بنیاد رکھنے کا اعلان کر دیا۔
کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسرائیل کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور اسرائیل اورینٹل سوسائٹی (Israel Oriental Society) کے باہمی تعاون سے یہ سینٹر معرض وجود میں آگیا۔ موساد کے سکیورٹی افیسر ’’اسحاق اورن‘‘ کو اس تحقیقی سینٹر کا پہلا سربراہ مقرر کیا گیا۔(۶) ہاآرتض اخبار کے مطابق ۱۹۶۰ کی دہائی تک جو محققین اس سینٹر میں کام کرتے تھے اپنی سرگرمیوں کو زیادہ تر خفیہ رکھتے تھے۔ اور خود کو محققین پہچنوانے کے بجائے اس سینٹر کے ملازمین ظاہر کرتے تھے۔ (۷) صہیونی ریاست کے سب سے پہلے وزیر اعظم نے فلسطینیوں کی جبری ہجرت کے بارے میں متعدد بار اس سینٹر سے مشورہ کیا۔
۱۹۶۴ میں اس سینٹر نے تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ اپنا تعاون شروع کر لیا اور اس سینٹر کے سیکیورٹی افیسرز تل ابیب یونیورسٹی میں اپنی تحقیقات پیش کرتے تھے۔ ۱۹۸۳ میں تل ابیب یونیورسٹی نے اس سینٹر کو یونیورسٹی کا حصہ بنا لیا اور اس کا نام بدل کر ’’موشے دایان‘‘ سینٹر رکھ دیا۔
موشہ دایان سینٹر کے سربراہ
 
’’اوزی رابی‘‘ اس سینٹر کے سربراہ ہیں وہ تل ابیب یونیورسٹی میں مطالعات ایران کے پروفیسر تھے۔ ان کی تحقیقات مشرق وسطیٰ کی حکومتوں اور معاشروں کے حالات، ایران اور عرب ریاستوں کے تعلقات، مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر، اہل سنت اور اہل تشیع کے اختلافی مسائل جیسے موضوعات سے مخصوص ہیں۔ (۸)
انہوں نے مذکورہ موضوعات پر کئی کتابیں اور رسالے لکھے ہیں مثال کے طور پر:
۔ The Shi’ite Crescent: An Iranian Vision and Arab Fear)
(The Persian Gulf and the Arabian Peninsula: States and Societies in Transition).
۔
حواشی
[۱] ۲۰۱۴ Global Go To Think Tank Index Report, page 86
[۲] https://dayan.org/journal/tel-aviv-notes-contemporary-middle-east-analysis
[۳] https://dayan.org/journal/bayan-arabs-israel
[۴] http://www.psupress.org/Journals/jnls_Bustan.html
[۵] https://dayan.org/content/middle-east-newsbrief
[۶] The Disenchantment of the Orient: Expertise in Arab Affairs and the Israeli, Page 279
[۷]  https://www.haaretz.com/.premium-ben-gurion-grasped-the-nakba-s-importance-1.5243033#article-comments
[۸] https://dayan.org/author/uzi-rabi

 

پروفیسر سامی الارین Professor Sami al-Arian کا تعارف

  • ۴۶۰

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر کے سیاسی شعبے کی رپورٹ کے مطابق، کچھ عرصہ قبل امریکہ میں ایک کتاب منظر عام پر آئی اسکا نام تھا ” ایک سو ایک خطرناک پروفیسر” اس کتاب کا موضوع ایسے ایک سو ایک پروفیسرز کا تعارف کرانا تھا جنکا جرم ہلوکاسٹ  اور یہودیوں کے کے بارے میں اپنی کلاسز میں  زبان کھولنا تھا، اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیز کے اساتید کو یہ انتباہ دیا گیا ہے کہ چونکہ ان لوگوں نے ریڈ لائن کو کراس کیا ہے لہذا انکے آثار سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا ، مجموعی طور پر جب آزادی کو نامحدود کر دیا جائے تو یہ بات خود اپنے آپ میں کچھ مشکلات کا سبب بنے گی آزادی خود بخود محدودیت پر منتہی ہوگی اور یہی وہ  مشکلات ہیں جو آزادی کے دائرہ کو تنگ کرنے کا سبب بنیں گی ۔
پروفیسرسامی الارین   Professor Sami al-Arian  بھی ان ایک سو ایک پروفیسروں میں سے ایک ہیں جنکے بارے میں صاحب کتاب نے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں  کیا ہے  ہم یہاں پر امانت میں رعایت کی خاطر  پروفیسر سامی الارین    Professor Sami al-Arian کی شخصیت کو صاحب قلم کے بیان شدہ مطالب کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انکی تمام باتیں ٹھیک ہیں یا پھر وہ تمام الزامات صحیح ہیں جو انہوں نے پروفیسر پر لگائے ہیں بلکہ اس تحریر کو قارئین کرام یہ سوچ کر پڑھیں کہ یہ تحریر نہ تو کسی مسلم دانشور کی ہے اور نہ ہی فلسطین کی حمایت کا نظریہ رکھنے والےکسی اسکالر کی بلکہ یہ تحریر بزعم خود ایک ایسے بے طرف انسان کی ہے جس نے امریکہ میں ہوتے ہوئے ایک پروفیسر کی زندگی کی حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے ایسا پروفیسر جو خطرناک ہے جیسا کہ کتاب کے عنوان سے واضح ہے ‘‘۔
پروفیسر سامی الارین   ـProfessor Sami al-Arian
جنوبِ فلوریڈا یونیورسٹی  (University of South Florida) یا USF [1]

USF میں انجیرئنگ کے استاد
جہاد اسلامی فلسطین [۲]کے  مقامی سربراہ (ایک ایسا دہشت گرد  گروہ  جو و شمالی امریکہ میں ہونے والے خود کش بم دھماکے کا ذمہ دار ہے جس میں ۱۰۰ جانیں گئیں .)
شہری حقوق کی آزادی کے سرگرم کارکن
اسامہ  (سامی) سامی الارین  ایک ایسے فلسطینی ہیں جو اپنی سرگرمیوں کے چلتے گرفتار ہونے سے قبل USF میں انجیئرنگ کے استاد تھے پروفیسر سے دو غیر منافع بخش ادارے بھی قائم کئے ہوئے تھے ایک یونیورسٹی سے متعلق تحقیقاتی مرکز ، جسکا نام اسلامی تعلیمات کا عالمی مطالعہ  اور فلسطین کی اسلامی کمیٹی کے نام سے جانا جاتا ہے جس  کا کام فلسطین کے لئے مالی منابع ذخائر کو فراہم کرنا اور جہاد اسلامی کے لئے جنگجووں کو جوڑ کر انہیں جہاد اسلامی سے وابستہ کرنا تھا۔
پروفیسر سامی الارین  در حقیقت شمالی امریکہ میں جہاد اسلامی کے سربراہ تھے جنہیں امریکہ کی حکومت کی جانب سے خود کش حملوں کے الزام کا ملزم قرار دیا گیا ہے۔
ایف بی آئی کی جانب سے ایک نظارتی ویڈیو میں جسے پروفیسر سامی الارین کی جانب سے امریکہ کی مساجد میں لوگوں سے چندہ وصول کرتے دکھایا گیا ہے ، پروفیسر کو جہاد اسلامی تحریک کے ایک بازو کی حیثیت رکھنے والی فلسطین اسلامی کمیٹی کے سربراہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔
پروفیسر سامی الارین یہاں پر اس طرح کہتے ہیں : خدا نے ان لوگوں پر جو اسرائیل کے فرزند ہیں داود اور عیسی  بن مریم کے ذریعہ لعنت کی ہے آئیں ان پر اور انکے متحدین پر وقتِ موت تک لعنت کریں ۔
ایک اور تقریر میں پروفیسر یہ کہتے نظر آتے ہیں : آج ہم شہیدوں کی آرزءوں کے احترام میں اور اس تحریک سے جڑی زنجیر کی کڑیوں کی صورت جو قتل سے قتل ، شہادت سے شہادت تک جہاد سے جہاد تک جاری و ساری ہے اور کبھی یہ تحریک رکے گی نہیں ،ہم ہرگز رکیں گے نہیں آگے ہی بڑھتے رہیں گے اسی بات کا عہد کرنے کے لئے ہم شہیدوں کی آرزوں کے احترام کے ساتھ یہاں جمع ہوئے ہیں ، اسی طرح ایک کیسٹ میں منظر بھی قید ہے کہ جہاں پروفیسر کے اوپر گل افشانی کی ایک رسم میں  شہدائے فلسطینی کی حمایت میں ایک بولنے والے نے ایک یہودی کو مارنے کے لئے ۵۰۰ ڈالر کی درخواست کی ۔) یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہوا ہوگا اور کتاب کے مصنف نے امریکہ میں صہیونیت کے مخالف یہودیوں کے درمیان فلسطینی مجاہدین کی تخریب کی خاطر یہ بات بیان کی ہے،اگر چندہ و امداد کی بات درست بھی ہوگی تو اس بھونڈے انداز میں تو ہرگز نہیں)عیاں راچہ بیاں   (
پروفیسر سامی الارین کے تھاٹ روم کا ایک رکن بھی خلیل شقاقی نامی یونیورسٹی کا ایک فلسطینی استاد ہے ، جو فتحی شقاقی[۳] کا بھائی ہے جو کہ مشہور فلسطین کی جہاد اسلامی تنظیم  کے معمار اور جہاد اسلامی کی عسکری شاخ کے شام میں رہبر تھے ۔
جب فتحی شقاقی کو صہیونیوں کی جانب سے شہید کر دیا گیا تو جہاد اسلامی تنظیم کی سربراہی کا عہدہ اور فتحی شقاقی کی جانشینی رمضان عبد اللہ صالح کے حصہ میں آئی جو کہ خود پروفیسر سامی الارین کے تھاٹ روم کی سابقہ  منتظمہ میں سے ہونے کے ساتھ  جنوبِ فلوریڈا یونیورسٹی  (University of South Florida) یا USF کے اساتید میں بھی تھے ۔
پروفیسر سامی الارین نے ۱۹۹۷ ء میں سیاسی آزادی کے لئے ایک متحدہ محاذ کی تشکیل دی، اسکا اصلی مقصد دہشت گردی اور کار آمد پھانسی کے خلاف قانون کی مخالفت کرنا تھا جو بعد میں) پیٹریوٹ[۴] کے نام سے تبدیل ہو گیا (  یہ قانون ۱۹۹۶ میں  اوکلاھما شہر کی فیڈرل بلنڈنگ میں بم دھماکے کے بعد ہوا جسکی بنیاد پر ۱۷۵ لوگ ہلاک ہوئے تھے
اس قانون کے بننے کے بعد ہی فلسطین کی جہاد اسلامی جماعت کو دہشت گردانہ گروہوں کی فہرست میں قرار دیتے ہوئے اعلان کر دیا گیا کہ جہاد اسلامی تنظیم دہشت گرد ہے ، مازن النجار، پروفیسر آل اریان کے ہم زلف کو بھی جو کہ الرین کے تھاٹ روم کے ایک رکن تھے اسی قانون کی بنیاد پر ساڑے تین سال تک گرفتار کر کے رکھا گیا اورانجام کار ۱۱ ستمبر کے بعد ملک سےنکال دیا گیا
پروفیسر سامی الارین شہری و مدنی حقوق کی آزادی کے لئے سرگرم عمل محاذ کے لیڈر و قاٗئد کے طور پر جانے جاتے تھے جسکی داغ بیل پیٹرائٹ قانون کی مخالفت میں پڑی تھی جو کہ حقیقت میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف بننے والے کلنٹن کے قانون ہی کے ایک نئی تشریح کے طور پر سامنے آیا تھا
پروفیسر سامی الارین کے محاذ کے ہمراہوں میں جو نام آتے ہیں وہ کچھ یوں ہیں :
وکیلوں کا قومی محاذ، امریکہ میں شہری حقوق کی آزادی کا محاذ، بنیادی حقوق کا مرکز ، کہ جسکے ترجمان جارج ٹاون یونیورسٹی کے استاد قانون پروفیسر سامی الارین کے ہم زلف} اور امریکیوں کے بقول{ دہشت گرد  پروفیسر مازن النجار کے وکیل معروف قانون داں  ڈیوڈ کول تھے ۔
پروفیسر سامی الارین کو ۱۹۹۶؁ میں ایف بی آئی کی جانب سے تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اور مایامی ہیرالڈ  کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹوں نیز اسٹون امرسن کی زیر نگرانی چلنے والے میامی ہیرالیڈ کے  ایک تحقیقاتی پراجیکٹ کے پیش نظر ایک زمانہ ہوا کہ کھلم کھلا طور پر پروفیسر سامی الارین کو  فلسطین جہاد اسلامی تحریک سے وابستہ ایک دہشت گرد کے طور پر جانا جاتا رہا ہے ۔
جب سے امرسن نے لوگوں کو پروفیسر سامی الارین کی جانب سے دہشت گردانہ کاروائیوں کے سلسلہ سے انتباہ دیا ہے تب سے بائیں بازو سے متعلق نمایاں سیاسی چہروں کی جانب سے  انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے چونکہ انکے اور پروفیسر سامی الارین کے درمیان ایک مشترکہ تعاون تھا اور دونوں ہی طرف ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ امرسن کی جانب سے پروفیسر سامی الارین کو دہشت گردانہ کاروائیوں سے جوڑ کر پیش کر نے کی وجہ اسلام مخالف عنصر کے بہانے کے تحت اذیتیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ پروفیسر سامی الارین کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۱؁ کو فاکس نیوز کے ایک پروگرام O’Reilly Factor میں وہ  شریک ہوئے اور  یہاں پر پروفیسر سامی الارین نے ویڈیو کالنگ کے ذریعہ  تحریک جہاد اسلامی کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کر دیا کہ اگر میں سی آئی اے میں ہوتا تو پروفیسر کے ہر مقام پر تعاقب میں رہتا اور ان پر نظر رکھتا ، اس پروگرام کے بعد عمومی طور پر اس طرح اعتراضات شرو ع ہوئے کہ فلوریڈا یونیورسٹی کے ذمہ داروں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ پروفیسر سامی الارین کو یونیورسٹی کی جانب سے دی جانے والی  رعایتوں کو برقرار رکھتے ہوئے انکے منصب سے معلق کر دیا۔
پروفیسر سامی الارین نے اپنی مظلومیت کی تشہیر کرتے ہوئے اپنے منصب سے معلق ہو جانے پر رد عمل کا اظہار کیا اور کہا ’’ میں اقلیت سے تعلق رکھتا ہوں اور عرب ہوں ،میں ایک فلسطینی ہوں ، میں ایک مسلمان ہوں ، یہ وہ چیز نہیں  جو آج کل لوگوں کو پسند ہو ، کیا میرے بھی کچھ حقوق ہیں یا نہیں‘‘ ؟ جب یہ بات سامنے آئی تو بائیں بازو کے امریکیوں نے پروفیسر سامی الارین کی حمایت کی اور انکے دفاع میں کود پڑے ، اور انکی طرف سے پروفیسر کو کی جانے والی حمایت کے سلسلہ میں The Nation اور Salon.com  جیسے جرائید میں مقالات کا شایع ہونا بھی تھا جن کے تحت اریک بولٹر نامی نامہ نگار نے پروفیسر سامی الارین کو بدنام کرنے کی منصوبہ بند سازش سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکے خلاف ماحول بنانے کی بات کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ کس طرح NBC، فاکس نیوز، میڈیا جنرل اور کلیر رادیو چینل  سب نے مل کر عربی وحشت و دہشت کو ہوا دیکر اپنی ہی رسوائی کا سامان فراہم کیا اور ایک پروفیسر کی زندگی کو تباہ و برباد کر دیا ،  جارجیا ٹاون میں مشرق وسطی مطالعات کے سربراہ  پروفیسر جان اسپوزیٹو نے اس بات پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہرگز پروفیسر سامی الارین کو عرب مخالف اور اسلام مخالف تعصب کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے پرفیسر آلن اسچکر نے بھی جو کہ مک کارٹی دور میں ( ایسا دور جسے امریکین کمیونسٹوں کو ایک اجتماعی  اصلاح پسندوں اور حکومت وقت کی جانب سے بے گناہ قربان ہونے والوں اور بلا وجہ ٹارچر ہونے والوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ) ممتاز علمی مہارت رکھنے والی نمایاں شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا انہوں نے بھی پروفیسر سامی الارین کو انکے منصب سے معلق کرنے دینے کو ایک سیاسی طور پر انہیں کچل کر رکھ دینے کا نام دیا تھا ۔
ACLU، قانون حقوق کا مرکز،  جنوبی فلوریڈا یونیورسٹی کا محاذ ،  یونیورسٹی کےامریکی اساتید کی انجمن ، وغیرہ یہ وہ دوسرے نام ہیں جنہوں نے پروفیسر سامی الارین کی حمایت کرتے ہوئے پروفیسر سامی الارین نامی دفاع کا ایک محاذ قائم کیا اور اس سے جڑ گئے اور اس بات کی بھی دھمکی دی کہ پروفیسر سامی الارین  کی یونیورسٹی سے ملنے والی آزادی کو محدود و سلب کرنے کی بنیاد پر ہم یونیورسٹی کے اعتبار کو چیلنج کریں گے ، اور اسی دوران دوک یونیورسٹی کی ایک فیکلٹی نے پروفیسر سامی الارین کو  شہری و مدنی آزادی کے حقوق اور قومی سلامتی  کے موضوع کے تحت ہونے والی ایک علمی نشست میں مہمان خصوصی کے طور پر تقریر کی دعوت دی ، چنانچہ پروفیسر سامی الارین  دوک یونیورسٹی کی حمایت میں شہری حقوق پر ہونے والے علمی سمینار کے ایک خاص مہمان مقرر تھے۔
پروفیسر سامی الارین کو انکی دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے ۳۰۰۳؁ میں گرفتار کر لیا گیا اور دسمبر ۲۰۰۵؁ میں ان پر لگے ۱۷ الزامات میں سے ۸ میں بری کر دیا گیا اور عدالتی پینل نے باقی ماندہ ۹ الزامات میں بھی بے گناہ قرار دیا ، پروفیسر سامی الارین کے وکیل نے  اپنے ہی خواہوں کے درمیان اس بات کی التبہ تصدیق کی کہ پروفیسر سامی الارین فلسطین کی جہاد اسلامی تنظیم کے لئے کام کر رہے تھے جسکے بعد خبرنگاروں نے پروفیسر پر لگائے گئے الزامات اور پورے مقدمہ کے نتیجہ کو یوں پیش کیا ’’ہم ایسے شخص کی عدالتی کاروائی کے نتائج کو پیش کر رہے ہیں جس کا  فلسطین کی تنظیم جہاد اسلامی سے گہرا تعلق رہا ہے جو کہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور جس نے من مانے خود کش حملوں کے ذریعہ  اسرائیل ، غزہ اور باختری پٹی میں سو سے زیاہ لوگوں کو ہلاک کیا ہے ۔
تحقیق: ڈیویڈ هورویٹز
ترجمہ و تالیف : خیبر گروپ
حواشی :
[۱]  ۔ جنوبِ فلوریڈا یونیورسٹی  (University of South Florida) یا USF ریاستہائے متحدہ امریکا کا ایک جامعہ و ریاستہائے متحدہ کا عوامی تعلیمی ادارہ جو ٹیمپا، فلوریڈا میں واقع ہے جسکی بنیاد ۱۹۵۶ میں ڈالی گئی رک :  “UCF System Facts 2014-2015” (PDF). University of South Florida. Retrieved ۵ August2015.
[۲]  ۔ تحریک جہاد اسلامی در فلسطین (حرکة الجهاد الإسلامی فی فلسطین) ایک فلسطینی اسلام پسند تنظیم ہے جس کا قیام سنہ ۱۹۸۱ء میں ہوا، اس تنظیم کا بنیادی مطمع نظر  ریاست اسرائیل کو ختم کر کے ایک آزاد و خود مختار فلسطینی اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کرنا ہے
انگریزی میں اس تنظیم کا نام Isslamic Jihad Movement in Palestine اور اسے (PIJ) کے نام سے جانا جاتا ہے اور امریکہ و اسکے حلیف ممالک نے دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں اسے شامل کیا ہے ۔دہشت گرد تنظیموں کی فہرست کے لئے ملاحظہ ہو : https://2001-2009.state.gov/s/ct/rls/fs/2002/9014.htm ۔ www.state.gov.
[۳]  ۔ تحریک جہاد اسلامی  تنظیم Isslamic Jihad Movement in Palestine (PIJ) کے بانی و معمار Fathi Shaqaqi (1981–۱۹۹۵) Atkins, Stephen E. (2004). Encyclopedia of Modern Worldwide Extremists and Extremist Groups. Greenwood Publishing Group. pp. 301–۳۰۳٫ ISBN 0-3133-2485-9. Retrieved 10 March 2011.
[۴]  ۔ پیٹرائٹ قانون ریاست متحدہ ہائے امریکا کی کانگریس کا منظور کیا ہوا ایسا  قانون ہے جسے  اس وقت کے صدر جارج بش نے ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو منظور کیا۔ لفظ پیٹرائٹ اصل PATRIOT= Providing Appropriate Tools Required to Intercept and Obstruct Terrorism سے ماخوذ ہے ، مگر اگثر اسے حُب الوطن کے معنی میں لیا جاتا ہے اور عام لوگ  یہی سمجھتے ہیں ۔ اس قانون کا مقصد امریکی حکومت کو رعایا پر جاسوسی کرنے کے وسیع اختیارات دینا ہے، جس میں پولیس اور ریاست کو لوگوں کی نجی مواصلاتی، موبائل فون، برقی خطوط گفتگو کو سننا اور تلاش کرنا، مالیاتی اور طبی وثائق تک رسائی، مالیاتی لین دین پر اختیار اور لوگوں کو بآسانی گرفتار کرنا شامل ہیں۔ سرکار اس قانون کے دائرہ کو بہت وسیع سمجھتی ہے ۔ USA PATRIOT Act (U.S. H.R. 3162, Public Law 107-56), Title IX, Sec. 904.
USA PATRIOT Act (U.S. H.R. 3162, Public Law 107-56), Title IX, Sec. 908.
USA PATRIOT Act (U.S. H.R. 3162, Public Law 107-56), Title X, Sec. 1012.
USA PATRIOT Act (U.S. H.R. 3162, Public Law 107-56), Title X, Sec. 1001.
“History of the Patriot Act”. Electronic Privacy Information Center. Retrieved July 11, 2008. Though the Act made significant amendments to over 15 important statutes, it was introduced with great haste and passed with little debate, and without a House, Senate, or conference report. As a result, it lacks background legislative history that often retrospectively provides necessary statutory interpretation.
“EFF Analysis Of The Provisions Of The USA PATRIOT Act That Relate To Online Activities”. Electronic Frontiers Foundation. October 31, 2001. Archived from the original on October 12, 2007. Retrieved October 12, 2007. …it seems clear that the vast majority of the sections included were not carefully studied by Congress, nor was sufficient time taken to debate it or to hear testimony from experts outside of law enforcement in the fields where it makes major changes.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کیا آپ UJA فیڈریشن کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟

  • ۴۷۸

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر:  (UJA) ایک ایسی تنظیم [۱] ہے  جو ۱۹۳۹ ؁ میں نیویارک میں تشکیل پائی اس تنظیم کی تشکیل  کے عرصے سے لیکر  اسکے ۱۹۹۹ ؁  میں یہودیوں کی متحدہ انجمن [۲]نامی ایسی تنظیم میں ضم ہو جانے تک کہ جسکا بنیادی مقصد یہودیوں کے لئے مالی امداد کی فراہمی ہے،  ہم نے ایک مختصر جائزہ لیا ہے ۔
یاد رہے کہ یہ وہ تنظیم ہے جو ایک خیراتی ادارہ کے طور پر  یہودیوں اور صہیونیوں کے لئے  نقدی اعانتوں کے جمع کرنے کے سلسلہ میں متحرک ہے ، (UJA) دنیا میں  یہودیوں، اسرائیل اور صہیونیوں کے لئے چندہ بٹورنے والے ان بڑے مراکز میں سے ایک ہے کہ جس نے دنیا بھر کے یہودیوں کو اپنی چھتر چھایا میں لیا ہوا ہے ۔
اس تنظیم کے  مشترکانہ تقسیم کی کمیٹی  نامی مرکز کے ساتھ گھل مل جانے  اور اسی میں ضم ہو جانے  کے بعد جس کے ضمیمہ کے معاہدہ پر  ۱۹۴۹؁ میں دستخط ہوئے  تھے ، اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ  ان دو خیراتی اداروں کے مالی ذخائر و منابع مجموعی اعتبار سے دو تہائی یہودی ایجنسی ٹی ڈی سی اور مقامی انجمنوں کے درمیان تقسیم ہو جائے گا ۔
۱۹۸۰؁ میں یہ تنظیم سوویت یونین کی یہودی تحریک[۳]  کے کمپین میں شریک رہی ہے اور سوویت یونین کی جانب سے یہودیوں کی مقبوضہ فلسطین کی جانب  ہجرت کو آسان بنانے میں انکی مدد کرتی رہی ہے [۴]، علاوہ از ایں (UJA)   ۱۹۹۹ ؁ میں  (UIA)[5]  مدغم ہو جاتی ہے  جو کہ کینڈا میں (CJF)  کے طور پر  فعالیت کرتی رہی ہے ۔  (CJF)میں شمولیت  اس بات کا سبب بنتی ہے کہ’’  یہودیوں کی متحدہ انجمن ‘‘(UJC)کے  طور پر  ایک نئی تنظیم سامنے آئے، اور یہ نئی وجود میں آنے والی تنظیم یہودیوں کی امداد رسانی کے سلسلہ سے سرمایہ کے حصول کے پہلے سے بنے ہوئے ڈھانچے اور انفرانسٹریکچر کو اپنے سامنے آمادہ پاتی ہے  جو لوگوں کی جانب سے مالی اعانت کی راہوں کو آسان بنانے کا سبب بنا اور جسکے چلتے اس تنظیم کو نئے سرے سے مالی امداد رسانی کے ڈھانچے کو بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ پہلے سے بنے ہوئے  (CJF) کے تجربات نے بہت سی آسانیاں فراہم کر دیں، اور اسکے ۱۰ سال بعد اس تنظیم نے اپنا نام  Jewish Federations of north America) یا (JFNA)کے طور پر تبدیل کر  دیا [۶]۔
مزے کی بات یہ ہے کہ  اس پوری تنظیم  کو چلانے کی ذمہ داری  یہودیوں  کی خود مختاری کی جنگ  کے دوران  امریکہ کی وزارت خزانہ سے متعلق یہودی وزیر  ’’ہنری مور گنٹا‘‘  کے کاندھوں پر تھی  اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس تنظیم کے اصلی ذمہ دار کے طور پر  جفری شوئیفلڈ[۷] کا نام آتا ہے اور اسکی مینجنگ کمیٹی کے سربراہ  ’’رابرٹ کاپیٹو‘‘[۸] اور جفری شوئفلڈ دونوں ہی وہ لوگ ہیں جو  کثیر القومیتی مالی تنظیم کے مالکوں میں سے ہیں چنانچہ یہ دونوں ثروت مند یہودی  اس تنظیم کے دو بنیادی طاقتور ستون کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔  [۹]
(UJA) کے مالی ذخائر و منابع کی فراہمی
یہ مالیاتی تنظیم  اپنی ضرورت کی مالی اعانتوں کو مختلف تنظیموں کے چارٹ کے اندر انجام دیتی ہے، مثال کے طور پر (UJA) ایک کار آمد و (UIA) کے سسٹم سے متصل نیٹ ورک کے طور پر جو کہ امریکہ و  کینیڈا میں موجود تمام  یہودی فیڈریشنز میں اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے، اپنے اخراجات کو پورا کرتی ہے ۔
اس  تنظیم  کے مالی بجٹ کی فراہمی کا ایک اور ذریعہ  (the organization of missions) اسرائیل  ہے جس کے ذریعہ  اسکے اخراجات پورے ہوتے ہیں، اس تنظیم  کی ذمہ داری امریکہ کے یہودیوں اور اسرائیل کے حکام کے درمیان آشنائی کرانا اور ان سے جوڑنا ہے، بالکل واضح ہے کہ یہ وہ تعلق ہے جو  معمولی سطح کے لوگوں کے  لئے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بسنے والے ثروت مند یہودی ہی وہ لوگ ہیں جو  مختلف وفود کی صورت  (UIA) کی  پشت پناہی میں چلنے والے  بڑے بڑے پروجیکٹس جیسے ٹاون سٹیز کی تعمیر ، پڑھائی  کے سلسلہ سے قائم ہونے والے انسٹی ٹیوٹ اور مراکز  کی تکمیل  کے لئے اسرائیل کے حکام و اور سیاست مداروں کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں، یہاں پر جو قابل غور نکتہ ہے وہ یہ کہ یہ وفود  مالی اعانتوں سے ماوراء اسرائیل کی ٹوریزم  یا سیر و تفریح  کی صنعت  کی بھی پشت پناہی اور حمایت کرتے ہیں۔
(UIA) تنظیم کی کارکردگی
یہ  ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے سالانہ سرمایہ اور حصص کو ضرورت مند افراد کی دیکھ بھال کے لئے استعمال کرتی ہے، اور اسکا مقصد  یہودیوں کے درمیان  زندگی گزارنے کی خواہش و چاہت کو ابھارنا اور نیویارک میں یہودی انجمنوں کو مضبو ط بنانا ہے  چنانچہ اسکا سالانہ سرمایہ اور اسکے حصص سے ہونے والی آمدنی کا بجٹ انہیں دو کاموں  سے مخصوص ہے ۔
اسی  طرح (UIA) ایک ایسے فڈریشن کے طور پر بھی کام کرتی ہے جسکا ہم و غم سرمایہ کاری کو ترتیب دینا ہے تاکہ ایک ایسے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے واحد سسٹم کی پشت پناہی کی جاسکے جو  حفظان صحت، انسانی سہولت رسانی، اور تعلیم  کے ساتھ مقامی انجمنوں کو سپورٹ کر سکتا ہو۔
البتہ یہ پشت پناہی نیویارک، اسرائیل اور دیگر ۷۰ ممالک میں دسیوں امداد و اعانت کرنے والوں کے ذریعہ سے انجام پاتی ہے ۔
(UIA)  نے ۲۰۱۶ ؁ کے اپنے کمپین میں سرمایہ کاری کی رقم کو  ۱۵۳،۴ ملین ڈالر  سے  بھی متجاوز کر دیا ،اس تنظیم نے اس بات پر اپنی کوششوں کو دوگنا کر دیا کہ زیادہ سے زیادہ فنڈ اکھٹا کیا جا سکے  تنظیم کی جانب سے دہری کوششیں اس بات کا سبب بنیں کہ  تمام سرمایے، تمام امدادی رقم اور تمام ہی مخصوص ہدایا، ملا جلا کر ۲۵۷،۶ ڈالر تک بڑھ جائیں  [۱۰]   ایک ایسی قابل ملاحظہ  رقم جو کہ  مغربی ایشیا اور دنیا میں صہیونی طرز فکر  کی نشو ونما میں خرچ ہو رہی ہے ۔
در حقیقت (UJA) ایک ایسی تنظیم ہے جو کہ اسرائیل کے ساتھ  اس طرح تعاون کر رہی ہے کہ اسرائیلی سماج کو ایک خود کفیل معاشرے میں تبدیل کر دے، اس تنظیم کے مالی ذخائر میں سے خاصہ حصہ  دہشت گردانہ کاروائیوں کا شکار ہونے والے گھرانوں، ہولوکاسٹ کے پسماندگان ، فقیر و نادار بچوں ،حاریدی[۱۱] سماج کے  ممبروں پر اولویت کے ساتھ خرچ ہوتا ہے اسکے بعد عام لوگوں کی باری آتی ہے ۔
اس تنظیم سے جڑے ممبران اپنے اقتصادی، مذہبی ، اور معاشرتی مسائل سے جڑے ہوئے تشہیری پروگراموں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ، انکی کارکردگی کا دوسرا حصہ اسرائیلی کمپنیوں کی تمجید و تحسین اور انکے تعاون سے متعلق ہے جس میں اسرائیلی عربوں اور یہودیوں کی دیگر اقلیتوں کا تعاون کرنا شامل ہے ۔ اس لحاظ سے کہ اس تنظیم  کی قسمت اور مستقبل اسرائیل سے جڑا ہے  فی الوقت یہ لوگ یروشلم میں ایک آرٹ فن  سے متعلق کھلی فضا کو  بنانے کے درپے ہیں  تاکہ اسرائیل کے لئے ایک جوش و خروش بھرا مستقبل رقم کر سکیں [۱۲]۔
اسرائیل سے ہونے والی جھڑپوں اور جنگ کے دوران بھی  یہ تنظیم متحرک رہتی ہے ، جیسا کہ غزہ  کی جنگ کے دوران اسرائیلی متاثرین اور اسرائیل کو پہنچنے والے نقصانات کو لیکر  یہ تنظیم فعال رہی، غیر منافع بخش  مراکز سے  رابطہ  مختلف رہبروں ، یونیورسٹی سے متعلق افراد  نیز ماہرین سے روابط  یہ وہ چیزیں ہیں  جو اس تنظیم کی کارکردگی و فعالیت کے ذیل میں آتی ہیں  اور ان سب کے ذریعہ اس تنظیم کی کوشش ہے کہ دنیا کی کریم  اور چیدہ  غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد  کو اسرائیل اور اسکے جائے وقوع کی جانب مجذوب کیا جا سکے ۔ [۱۳] اسی طرح ہولوکاسٹ کے بعد  (UJA) نے  ایک بڑے مالی سرچشمے کے طور پر  یورپ میں (Sheerit Hapleitah)[14] جیسے بڑے ادارو ں کے تعاون، اسرائیل میں ہجرت کے ادارہ کی مدد کے نیز  زراعت کے لئے  شہروں کے  بنائے جانے سے لیکر  شہروں کی توسیع و ترقی، مدارس  کی تعمیر و تاسیس  اور دیگر ثقافتی پراجیکٹس  میں حصہ لیا ہے۔
حواشی
[۱]  ۔ United Jewish Appeal   تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : ” JEWISH GROUPS UNITE FOR REFUGEES; Combined Appeal to Be Offered to Nation for Fund 3 or 4 Times That Given Last Year HEIGHTENED CRISIS CITED Agencies to Retain Separate Duties in Pressing Common Cause for Victims”. The New York Times. January 13, 1939. Accessed December 8, 2008.
[۲] ۔ Jewish communities in the united، تٖفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :  Abelson, Reed (February 14, 1999). “Merger Near, 2 Jewish Philanthropy Groups Pick a Leader”. The New York Times. Accessed December 9, 2008.
[۳]  ۔ The soviet Jewry Movement
[۴]  ۔ http://digifindingaids.cjh.org/?pID=1681121.
[۵]  ۔ United Isreal Appeal
[۶] ۔ http://www.zionistarchives.org.il/about-us/Pages/Default.aspx.
[۷]  ۔ Jeffrey A. schoenfeld
[۸]  ۔ Robert S. kapito
[۹]  ۔https://jewishweek.timesofisrael.com/writers/jeffrey-a-schoenfeld/.
[۱۰] ۔ Chemi Shalev (Dec 12, 2012). “An evening of affluence and influence with the Jewish wizards of Wall Street”. Haaretz. Retrieved 29 May 2014.
[۱۱]  ۔ (Haredi Judaismقدامت پسند یہودیوں کی ایسی شاخ جو یہودی ارتھوڈکس کے طور پر جانی جاتی ہے  یہ لوگ بزعم خود اپنے عقائد و اپنی تعلیمات کو  بلاواسطہ طور پر  جناب موسی اور ان  طور سینا پر پر نازل ہونے والی توراۃ سے لینے کے قائل ہیں اسرائیل کی آبادی کا ۱۱ فیصد حصہ  حریدیوں پر مشتمل ہے اور زیادہ تر یہ لوگ ارتھوڈکش نشین محلوں اور شہروں میں ہی بود و باش اختیار کرتے ہیں ۔
[۱۲]  ۔https://www.ujafedny.org/what-we-do/respond-to-crisis.
[۱۳] ۔ https://www.ujafedny.org/what-we-do/shape-our-jewish-future/investing-in-israeli-society/?utm_source=ujafedny_site&utm_medium=uja_hero. https://www.ujafedny.org/what-we-do/shape-our-jewish-future/investing-in-israeli-society/?utm_source=ujafedny_site&utm_medium=uja_hero.
– https://www.ujafedny.org/who-we-are/our-approach.
[۱۴]  Sh’erit ha-Pletah : שארית הפליטה,  ۔ ہولو کاسٹ کے متاثرین اور یہودی پناہ گزینوں و رفیو جیز کے لئے کام کرنے والا ادارہ  ، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : United States Holocaust Memorial Museum. “Liberation.” Holocaust Encyclopedia. Retrieved 8 June 2014.
^ Königseder, Angelika, and Juliane Wetzel. Waiting for Hope: Jewish Displaced Persons in Post-World War II Germany. Trans. John A. Broadwin. Evanston, Ill.: Northwestern University Press, 2001. 15.
^ Berger, Joseph. “Displaced Persons.” Encyclopaedia Judaica. 2nd Ed. Vol. 5. Detroit: Macmillan Reference USA, 2007. 684-686; here: 684. Berger cites historian Jehuda Bauer as estimating that 200,000 Jews in total emerged alive from the concentration camps.
^ Pinson, Koppel S. “Jewish Life in Liberated Germany: A Study of the Jewish DP’s.” Jewish Social Studies ۹٫۲ (April 1947): 101-126; here: 103.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایلہان عمر، امریکہ کے سیاسی معاشرے میں اسرائیل کے لیے بڑا چیلنج

  • ۴۷۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایلہان عبد اللھی عمر(۱) ۱۹۸۱ میں صومالیہ میں پیدا ہوئیں اور لگ بھگ بیس سال قبل انہوں نے امریکہ میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شمالی ڈوکاٹا یونیورسٹی(University of North Dakota) میں علم سیاسیات و بین الاقوامی روابط کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔(۲)
امریکی کانگرنس میں پہلی مسلمان رکن
ایلہان عمر امریکی پارلیمنٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی پہلی مسلمان خاتون ہیں جو کانگریس کی رکن بننے میں کامیاب ہوئی۔ انہوں نے ۲۰۱۶ میں امریکی کانگریس کے ایوان میں قدم رکھا (۳) تاکہ امریکی سیاسی معاشرے کے اندر رہ کر ٹرمپ، وہائٹ ہاوس، یہودی لابی اور صہیونی ریاست کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کرے۔
امریکی کانگریس میں شمولیت کے بعد ان کا سب سے پہلا اقدام ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف موقف اپنانا تھا۔ ایلہان عمر نے پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں تقریر کی اور میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش کو نسل پرستانہ اقدام سے تعبیر کیا اور ٹرمپ کو ایک گناہگار شخص ٹھہرایا۔ (۴)
ایلہان عمر کا دوسرا اعتراض وہائٹ ہاوس کی خارجہ پالیسی پر توجہ مرکوز کروانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر جو میزائلوں میں تبدیل ہو کر سعودی عرب کے ہاتھوں میں جاتے ہیں اور یمن کے مظلوم بچوں کے قتل عام کا باعث بنتے ہیں ان کے دل کو بہت ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ وہ یمن پر فوجی کاروائی کو وہائٹ ہاوس کا ناجائز اقدام سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
ایسے حالات میں کہ ہمارے پاس صحت کی دیکھ بھال اور طبی اخراجات پورا کرنے کے لیے بجٹ نہیں ہے ایسے حالات میں کہ امریکہ میں گھروں کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے اور امریکہ کی جوان نسل اپنے مستقبل سے ناامید ہے یمن پر حملہ کرنا اور یمن کے نہتے عوام کے قتل عام پر اتنا پیسہ صرف کرنا کہاں کا منطقی عمل ہے۔ (۵)
امریکہ آل سعود کے جرائم میں ہم دست
سعودی عرب علاقے میں وہائٹ ہاوس کے دستورات کے مطابق من و عن عمل کرتا ہے اور یمن کے مسئلے میں نیز امریکی سیاستوں کے تابع ہے۔ ایلہان عمر کی نظر میں آل سعود کا ہاتھ یمنی عوام اور جمال خاشقچی کے قتل کے خون میں رنگین ہے۔ اور وہ آل سعود کو ایسی رژیم سمجھتی ہیں جو انسانی حقوق کو ہمیشہ پامال کرتی آ رہی ہے۔ نیز وہ قائل ہیں کہ امریکہ یمن میں انجام پانے والی تمام جارحیت میں آل سعود کے ساتھ شریک ہے۔ (۶)
امریکہ کو پوری دنیا میں ۸۰۰ فوجی اڈے قائم کرنے کی ضرورت نہیں
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی اپنے ملک کے علاوہ پوری دنیا میں پائے جانے والے فوجی ٹھکانوں کی تعداد ۸۰۰ سے زائد ہے جو ایلہان عمر کی تنقید کا ایک اہم موضوع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اپنی سالمیت کے تحفظ کے لیے دنیا میں ۸۰۰ فوجی ٹھکانے قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی نظر میں امریکہ کو صلح پسند ہونا چاہیے نہ جنگ طلب۔ اور صلح پسندی کے ذریعہ امریکہ کو دنیا والوں کا دل جیتنا چاہیے۔(۷)
صہیونی ریاست پر تنقید ممنوع کیوں
یہودی لابی اور صہیونی افکار کے زیر سایہ بننے والی امریکی پالیسیاں اس بات کا باعث بنتی ہیں کہ صہیونیت یا اسرائیل کے خلاف کسی قسم کا اظہار رائے کرنا گویا اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ اگر چہ امریکہ کی سیاسی فضا حکومت پر تنقید کو قبول کرتی ہے لیکن صہیونی ریاست پر تنقید اور صہیونیوں کے خلاف کسی قسم کا موقف اپنانا امریکی سیاست کے لیے قابل ہضم نہیں ہے۔
امریکی سیاستدان صہیونی لابیوں کے قبضے میں
ایلہان عمر امریکہ کے ان جملہ سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو امریکی سیاست کے پرآشوب ماحول میں پوری شجاعت کے ساتھ وہائٹ ہاوس کی ان پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں ڈرتے جو اسرائیل اور صہیونی لابیوں کا بول بولتی ہیں۔ وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ امریکی سیاستدان صہیونی لابیوں کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ان کا اپنا کوئی موقف نہیں ہوتا۔ امریکیوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو آزاد ملک دکھلائیں، لیکن ایلہان عمر نے ایک مرتبہ اس موج کے خلاف پلٹا مارا جس کی وجہ سے اسے بے شمار تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ایلہان عمر نے ۲۰۱۲ میں پہلی بار اور امریکی پارلیمنت کے ایوان میں قدم رکھنے سے پہلے اسرائیل کی نسبت اپنے موقف کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے دنیا کے تمام لوگوں کو مصنوعی خواب میں سلا رکھا ہے تاکہ کوئی اس کے جرائم کو دیکھ نہ سکے مگر یہ کہ خدا ان لوگوں کو اس نیند سے جگائے اور یہ اسرائیل کی شرانگیزیوں اور شیطنتوں کو دیکھ سکیں اور ان کی نسبت اپنا رد عمل ظاہر کر سکیں۔ (۸)
ایلہان عمر کا صہیونیت مخالف موقف امریکی ایوان نمائندگان میں داخل ہونے کے بعد بھی باقی رہا یہاں تک کہ انہوں نے اسرائیل بائکاٹ تحریک (BDS) کی حمایت کی۔ البتہ ان کی اس حمایت کا رنگ کچھ یوں تھا کہ جب امریکی پارلیمنٹ، تحریک بی ڈی ایس کے خلاف بل منظور کرنے جا رہی تھی تو انہوں نے پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت کی۔ (۱۰) ان تمام اقدامات کے بعد صہیونی میڈیا محترمہ ایلہان عمر کے خلاف طرح طرح کی بیان بازیاں کرنے پر جھٹ کیا۔
لیکن ان سب چیزوں کے باوجود ایلہان عمر اپنے صہیونیت مخالف موقف سے دستبردار نہیں ہوئیں اور کچھ عرصہ قبل اپنے ٹویٹر پیج پر ایک صارف کے جواب میں جس نے امریکی سیاستدانوں کی صہیونی ریاست کے تئیں حمایت کی دلیل کے بارے میں پوچھا تھا، انہوں نے لکھا:
’’یہ تمام حمایتیں ۱۰۰ ڈالر کے نوٹوں کی وجہ سے ہیں جو صہیونی لابی خصوصا AIPAC (۱۱) کی جانب سے امریکی سیاستدانوں کو ملتے ہیں(۱۲)۔
سام دشمنی (Antisemitism)
ایلہان عمر کے ٹویٹر پیج پر یہ چند الفاظ کا شائع ہونا تھا کہ ان پر سام دشمنی کا الزام عائد ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں امریکی سیاسی فضا میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کھلے عام اسرائیل پرست ہیں انہوں نے سخت اور تلخ لہجے میں ایلہان عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو استعفیٰ دے دیں یا پارلیمنٹ کی خارجہ پالیسی کمیٹی سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔(۱۳) ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پر ایک ویڈیو کلیپ شائع کی جس میں ۱۱ سمتبر کے واقعہ کی تصاویر تھیں اس کے ضمن میں ایلہان عمر کے جملے پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا : ’’ہم ہرگز اسے نہیں بھول سکتے‘‘۔ امریکی صدر کے اس تیز اور تلخ لہجے نے یہ واضح کر دیا کہ امریکہ میں ’آزادی اظہار‘ نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
پارلیمنٹ کے اراکین بھی ایلہان عمر کے خلاف محاذ آرائی سے پیچھے نہیں ہٹے اور گزشتہ مہینے ایلہان عمر کے خلاف قرارداد منظور کر کے AIPAC کے دستورات کی نسبت اپنی وفاداری اور صہیونی لابیوں کے ڈالروں سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کر دیا۔ (۱۴)
ایلہان عمر کے لیے امریکی عوام کی حمایت
امریکی صدر ٹرمپ اور امریکی اراکین مجلس کی جانب سے ایلہان عمر کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد امریکی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ایلہان عمر کی حمایت کا اعلان کیا۔ نیز ۲۰۲۰ کے انتخابات کے امیدواروں جیسے الیکسینڈریا اوکاسیو کارٹز(۱۵)، الزیبیتھ وارن (۱۶) اور بیرنی سینڈرز(۱۶) نے بھی ایلہان عمر کے خلاف امریکی صدر کے موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ (۱۸)
آخر کار ایلہان عمر امریکی صدر، نمائندگان مجلس اور میڈیا کی جانب سے ڈالے گئے دباو کے باعث معذرت خواہی پر مجبور ہوئیں۔ البتہ انہوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ وہ خاموش رہنے کے لیے ایوان مجلس میں داخل نہیں ہوئی ہیں بلکہ وہ ڈیموکریسی کے نفاذ کے لیے پوری کوشش کریں گی۔
لیکن جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ ایلہان عمر نے معافی مانگ لی لیکن ایک مسلمان نمائندہ ہونے اور صہیونیت مخالف موقف اپنانے کی وجہ سے ان کی جان کا خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ لہذا اب باقی ماندہ ایک سال کی مدت میں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ایلہان عمر اپنے صہیونیت مخالف موقف پر باقی رہتی ہیں اور اسرائیل کے خلاف اظہار رائے کر پاتی ہیں یا نہیں؟
حواشی
[۱]. Ilhan Abdullahi Omar
[۲].https://www.ndsu.edu/magazine/vol14_number01/excerpts.html
[۳].http://www.shia-news.com/fa/news/130359/
[۴].https://freebeacon.com/politics/ilhan-omar-denounces-trumps-racist-sinful-big-wall/
[۵]. https://www.newyorker.com/news/dispatch/how-ilhan-omar-won-over-hearts-in-minnesotas-fifth
[۶]. https://www.minnpost.com/national/2018/12/whos-afraid-of-ilhan-omar-saudi-arabia-for-one/
[۷]. https://www.washingtonpost.com/opinions/ilhan-omar-we-must-apply-our-universal-values-to-all-nations-only-then-will-we-achieve-peace/2019/03/17/0e2d66fc-4757-11e9-aaf8-4512a6fe3439_story.html
[۸]. https://www.jpost.com/Opinion/Ilhan-Omars-antisemitism-has-consequences-580355
[۹]. Boycott, Divestment and Sanctions
[۱۰]. https://www.timesofisrael.com/woman-running-for-congress-in-minnesota-rejects-anti-semitism-accusations/
[۱۱]. American Israel Public Affairs Committee
[۱۲]. https://ir.voanews.com/a/iilhan-jews-tweets/4782937.html
[۱۳]. https://www.isna.ir/news/97112512876/
[۱۴]. http://ana.ir/fa/news/32/366453
[۱۵]. Alexandria Ocasio-Cortez
[۱۶]. Elizabeth Warren
[۱۷]. Bernie Sanders
[۱۸]. https://www.isna.ir/news/98012409568/
[۱۹]. https://ir.voanews.com/a/omar-trump-11sep-twitter/4876006.html
[۲۰]. Nancy Pelosi
[۲۱]. https://www.isna.ir/news/98012610834
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امریکی پروفیسر لیفٹن آرمیٹیج کا تعارف

  • ۵۳۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پروفیسر Professor Leighton Armitage لیفٹن آرمیٹیج کیلیفورنیا میں فوتھل کالج (Foothill College) میں شعبہ سیاسیات کے ایک ماہر استاد ہیں۔
یوں تو ڈاکٹر ارمیٹیج یورپ اور جاپان کے سیاسی حالات پر تخصص رکھتے ہیں لیکن ان کی کلاسوں میں زیادہ تر گفتگو کا محور اسرائیل کا موضوع رہتا ہے چونکہ وہ اس ناجائز ریاست سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو یہ یاددہانی کرواتے ہیں کہ یہودیوں کا نازی فرقہ امریکی حکومت پر مکمل قبضہ رکھتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ صہیونی ریاست کی موجودہ سرحد غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ظالمانہ ہے اور اس “گتو” دیوار کے مانند ہے جسے نازیوں نے سن ۱۹۴۰ میں یہودیوں کو ٹریبلنکا اور آشوٹز میں ابدی قید کے لیے ورشو میں تعمیر کیا۔ ڈاکٹر ارمیٹیج اپنے شاگردوں سے کہتے ہیں کہ بہت کم لوگ اس بات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ یہودی دنیا میں کس قدر نفوذ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اسرائیل سے گہرے روابط کی بنا پر پوری دنیا کی نظر میں گر چکا ہے۔
پروفیسر آرمیٹیج امریکہ کے ہاتھوں عراقی دھشتگردوں کے پرامن گھروں کی مسماری اور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی دھشتگردوں کے پرامن گھروں کی مسماری کو ایک ہی دلیل کے تحت مورد مذمت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کیا آپ نے سنا ہے کہ ہم عراق میں ان افراد کے گھروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں جن پر دھشتگردانہ کاروائیاں کرنے کا الزام عائد ہے؟ ہم انہیں دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیتے ہیں۔ اگر آپ پر دھشتگردی کا الزام عائد ہے تو آپ کا گھر دھماکہ سے اڑا دیا جائے گا۔ فرق یہ ہے کہ اسرائیلی اس کام کو بلڈوزر سے انجام دیتے ہیں جبکہ ہم دھماکہ خیز مواد سے۔ ہم زیادہ ترقی یافتہ عمل انجام دیتے ہیں!‘‘۔
ڈاکٹر آرمیٹیج کے بقول امریکی رنج و الم کو اس حقیقت سے نسبت دی جا سکتی ہے کہ یہودی امریکہ کے انتخابی سسٹم پر مکمل نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: وہ بہت اچھے تاجر ہیں۔ اور اگر آپ کے پاس ان کے احترام کے لیے کوئی بھی دوسری دلیل نہ ہو تو صرف اسی بات پر آپ کو ان کا احترام کرنا چاہیے‘‘۔ البتہ وہ ہمارے انتخابات کو خرید لیتے ہیں۔ اور یہ وہ چیزیں ہیں جو بہت واضح ہیں اور آپ وقت کے ساتھ ساتھ جان لیں گے۔ کوئی بھی آپ کو یہ باتیں نہیں بتائے گا۔ اور کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ آپ یہ سب جانیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جب کچھ سال قبل کانگرس میں کام کرتے تھے کانگرس کے ایک رکن نے انہیں یہودی لابی کے شیاطین کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
ڈاکٹر آرمیٹیج کے ذہن میں ہمیشہ فلسطین کے مسائل الجھے رہتے ہیں کہ ’’اسرائیلی ہر آئے دن فلسطینیوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں؟ سوائے قتل و غارت کے وہ فلسطینوں کے ساتھ کوئی دوسرا برتاؤ نہیں کرتے۔ یہ وہی کام ہے جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر آرمیٹیج کی باتیں اس قدر تلخ تھیں کہ فوتھل کالج کے سربراہ “برناڈین فونگ” کو مارچ ۲۰۰۴ میں ایک میٹنگ میں ان کی جانب سے معافی مانگنا پڑی۔ اس کے باوجود کہ وہ خود کو یہود مخالف کہتے تھے اور ان کی وجہ سے فوتھل کالج کو متعدد بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہیں کالج سے باہر نہیں نکالا گیا جبکہ اگر کالج کی مینیجمنٹ کمیٹی چاہتی تو انہیں کالج میں تدریس کے عہدے سے برطرف کر دیتی۔
تحقیق: لی کاپلان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

 

پروفیسر بٹینا اپتھیکر کا تعارف

  • ۴۰۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پروفیسر بٹینا اپتھیکر(Professor Bettina Aptheker) امریکہ کے معروف کمیونیسٹ ’’مرحوم ہربرٹ اپتھیکر‘‘ کی بیٹی ہیں کہ جنہیں سوویت نظام کے خاتمے کا گہرا صدمہ لاحق ہوا۔ پروفیسر اپتھیکر نے کولمبیا یونیورسٹی سے تاریخ کے موضوع پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بعد از آں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبہ میں استاد کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔
پروفیسر بٹینا اپتھیکر نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک کمیونیسٹ ہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۰ میں فیمی نیزم (Feminism) کے بارے میں University of California Santa Cruz UCSC)) میں کچھ کورس کیے اور اس کے بعد مارکس کی “تاریخی مادہ پرستی” کو اپنے مطالعہ کا موضوع قرار دیا۔
تاریخی مادہ پرستی، تاریخ کی ایک مادی اور فطری تفسیر کے معنیٰ میں ہے کہ جو سب سے پہلی مرتبہ کارل مارکس اور فریڈریچ انگیلس (Friedrich Engels) کے ذریعے بیان ہوئی اور اس کے بعد یہ مارکس ازم – لیننزم کی تعلیمات کا حصہ بن گئی.
اپتھیکر اپنی تدریس کے فلسفے کو “انقلابی آپریشن” کے عنوان سے پہچنواتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظریے کا اصلی مقصد ذہنی اور خارجی حقائق کے درمیان تمایز اور فرق پیدا کرنا ہے کہ جسے اپتھیکر ’دوئیت کا زوال‘ نام دیتی ہیں اور اپنے اس عمل سے یونیورسٹی میں انقلاب لانے کی کوشش کرتی ہیں۔
اپتھیکر کہتی ہیں کہ اس نظریہ کی بنا پر خواتین کے بارے میں مطالعات کو اہمیت ملتی ہے چونکہ عورت کو مرکزی حیثیت دے کر اسے درسی نصاب میں جگہ دی جا سکتی ہے اور یونیورسٹی کے قدیمی نظام میں جو مرد محوری پائی جاتی ہے اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
اپتھیکر اگر چہ فیمی نیزم اور تاریخی مطالعات کے موضوعات میں (UCSC) میں ہمہ وقت بطور استاد مصروف ہیں لیکن ایک بھی علمی کارنامہ ان کے نام سے موجود نہیں ہے۔ ان کی اکثر کتابیں ” اندرونی سیاست، شاہد نامی زندگی نامہ، صبح کے وقفے، آنجیلا ڈیوس کا مقدمہ، اگر وہ صبح آئیں، اور مزاحمت کی آواز، وغیرہ کے عناوین سے ہیں جو مکمل طور پر سیاسی قلم سے تحریر کی گئی ہیں۔
“عورت کی میراث” امریکہ کی تاریخ میں نسل پرستی، سماجی طبقات اور شھوت پرستی کے بارے میں آپتھیکر کے مقالات کا مجموعہ ہے۔
سینٹا کروز یونیورسٹی کا ماحول کمیونیسٹی سیاست کو پروان چڑھانے کا بہترین موقع ہے اور اسی وجہ سے وہاں کے اکثر اساتید کو جرمنی حکومت کی جانب سے “لنین امن انعام” سے نوازا گیا ہے۔
اپتھیکر ۶۰ ویں دہائی میں جنگ مخالف تحریک کی رکن ہونے کی وجہ سے امریکی نظام میں دخالت کی نسبت اپنے مخالف کردار کو خفیہ نہیں رکھ سکی۔
اپتھیکر کا مخالف کردار اس وقت سامنے آیا جب ۲۰۰۳ میں عراق پر حملے کے خلاف UCSC میں منعقدہ اساتید کی نشست میں انہوں نے اعلان کیا کہ عراق میں جنگ چھیڑنا قباحت سے خالی نہیں ہے۔
اپتھیکر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جارج ڈبلیو بوش کی اسٹریٹجک، جرمنی کی نازی قوم سے شباہت رکھتی ہے۔ اپتھیکر کا کہنا تھا: جارج ڈبلیو بوش کی حکومت کی نوعیت ۱۹۳۰ کی دہائی میں ہٹلر کی نوعیت سے براہ راست شباہت رکھتی ہے۔ ہم اس میں کوئی شک نہیں کر سکتے اور یہ بہت خطرناک ہے۔
انہوں نے UCSC کے طلبہ کو اعلان کیا کہ ہماری اہم ذمہ داری بوش کی سرنگونی ہے۔ اپتھیکر نے ۲۰۰۳ میں UCSC کے گروہ خواتین کے خبرنامے  The Wave کے ایک شمارے میں بوش حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور ان پر نسل پرستانہ الزامات کے ساتھ ساتھ فاشسٹی پروگراموں پر عملدرآمد کا الزام عائد کیا اور پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہا کہ وہائٹ ہاؤس نے یہ وعدہ دیا ہے کہ ہمیں نہ ختم ہونے والی سامراجی جنگوں کے بحران میں دھکیل دیں۔
اپتھیکر نے اسرائیلی نظام حکومت اور اس کی پالیسیوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کوشش کی ہے کہ UCSC یونیورسٹی کی فضا کو اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں تبدیل کر دیں۔
انہوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کو لکھے گئے اپنے ایک خط کے ذریعے اسرائیل کو کی جانے والی تمام امریکی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ سن ۲۰۰۲ میں انہوں نے جریدے  The Wave میں اپنے ایک مقالہ میں فلسطینی مجاہدین کی حمایت کا اعلان کیا اور انہیں قابض حکومت کے خلاف سرگرم افراد کے عنوان سے جانا ہے۔
محقق: جان پارانزو

 

امریکی صہیونی تنظیم (ZOA) کا تعارف

  • ۴۳۸

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: Zionist Organization of America (ZOA) نامی امریکہ میں سرگرم ایک صہیونی تنظیم ہے جو ۱۸۹۷ء میں تاسیس کی گئی اور امریکہ میں اسرائیلی مفادات کی حمایت کرنے والی سب سے قدیمی تنظیم ہے۔ (ZOA) صہیونی ریاست اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے استحکام کی خواہاں ہے۔ اور اس کی ساری سرگرمیوں کا محور، امریکہ میں یہودی مخالف عناصر کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس تنظیم نے اپنی تاسیس کے ابتدا سے ہی اسرائیل کی حمایت میں سرگرمیوں کا آغاز کر لیا تھا اور آج صہیونیت کے دفاع میں یہ تنظیم فرنٹ لائن پر کام کر رہی ہے۔
امریکی صہیونی تنظیم کا یہ دعویٰ ہے کہ ۲۵ ہزار افراد پورے امریکہ منجملہ شکاگو، کلیولینڈ، ڈلا، ڈسٹروٹ، لاس اینجلس، میامی، ملواکی، فلاڈیلفیا، اور واشنگٹن ڈی سی سے اس تنظیم کے رکن ہیں۔ یہ تنظیم اپنے اراکین کی مدد سے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بحال رکھتی ہے۔ اور کوشش کرتی ہے کہ ذرائع ابلاغ، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ان کے درسی متون میں نفوذ پیدا کر کے امریکی عوام کو یہود اور صہیونیت کے قریب کریں اور مخالفین کی سرگرمیوں کو ناکام بنائیں۔
اس تنظیم کے سربراہ امریکہ میں سرگرم یہودی شخصیت اور (AIPAC) کونسل کے رکن ”مورٹن کلاین” ہیں۔ ان کے جرائد اور کالم امریکہ میں موثر ترین جرائد اور کالم شمار ہوتے ہیں۔ امریکہ کے تعلیمی مراکز میں تاریخی کتابوں کی اصلاح کے لیے ایک ٹیم کی تشکیل اور صہیونی نقطہ نظر کے مطابق یہودیت کی تاریخ نگاری کلاین کی ذمہ داری تھی۔ انہوں نے ۳۰۰ سے زیادہ مقالے امریکی اخبارات اور جرائد میں منتشر کئے ہیں۔
امریکی صہیونی تنظیم صرف صہیونی ریاست کے تحفظ کے لیے کام کرتی اور اس راہ میں پائے جانے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے اس تنظیم کی ایک اہم سرگرمی اسرائیل پر حاکم نظام کی حمایت کے لیے دوسرے ممالک کے حکمرانوں میں نفوذ پیدا کرنا ہے تاکہ دیگر ممالک کے حکمرانوں کو اسرائیلی پالیسیوں قانع کریں اور انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کریں۔
امریکہ کے تعلیمی نظام میں اثر و رسوخ پیدا کر کے «ZOA» تنظیم نے صہیونی ریاست کی حمایت میں جن پالیسیوں کو جگہ دی ہے وہ یہ ہیں:
۔ یہودی مخالف تحریکوں خصوصا اسرائیل بائیکاٹ تحریک کا مقابلہ
۔ عرب ممالک اور فلسطینیوں کو خطرناک ترین ممالک اور عناصر کے عنوان سے متعارف کروانا
۔ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ممتاز طلبہ کو صہیونی ریاست میں کام کے لیے انتخاب کرنا۔
‘مرکز قانون و انصاف’ ایک ایسا مرکز ہے جسے امریکہ اور صہیونی ریاست کے درمیان قانونی مسائل کی شراکت کے لیے «ZOA» نے تاسیس کیا۔ اور اس مرکز کی سربراہی کو خود اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اس مرکز کی اہم ترین سرگرمیاں درج ذیل ہیں:
۔ اسرائیلی مفادات کے حصول کے لیے قانونی مسائل کے زمرے میں امریکہ کے عوام اور کانگریس کے افراد کو خصوصی معلومات فراہم کرنا۔
۔ علمی اداروں اور ذرائع ابلاغ میں یہودی مخالف سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا۔
۔ امریکہ اور مقبوضہ فلسطین میں ساکن یہودیوں کی حمایت میں قوانین کی تدوین اور انہیں عملی جامہ پہنانا۔
امریکی صہیونی تنظیم کی ایک اور اہم سرگرمی، امریکہ کے تعلیمی اداروں میں صہیونی تحریک کو وجود میں لانا تھا جو ZOA Campus»  کے عنوان سے معروف ہوئی۔ یہ تحریک کوشش کرتی ہے کہ مالی امداد کے ذریعے طلبہ کے لیے تعلیمی نصاب اور صہیونیت مخالف سرگرمیوں کے خلاف گفتگو کی غرض سے تعلمی داروں میں مقررین فراہم کرے۔ یہ تنظیم اسکولوں میں پائی جانے والی چھٹیوں سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے اور ان کے لیے یہودیت کی تعلیمات کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ مذکورہ تنظیم طلبہ کو صہیونیت کی بقا کے لیے اہم ترین عناصر سمجھتی ہے اور ان پر سرمایہ کاری کرنے کو اپنا بنیادی مقصد قرار دیتی ہے۔
در حقیقت «ZOA Campus کا بنیادی کام طلبہ کو صہیونیت مخالف سرگرمیوں کے مقابلے میں کھڑا کرنا ہے۔ تاکہ اس کام کے ذریعے وہ ان تحریکوں جو اسرائیل کے مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں کے مقابلے میں طلبہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کر سکیں۔
مثال کے طور پر مذکورہ تنظیم “اسرائیل بائیکاٹ تحریک ‘‘ کے خلاف مختلف طرح کے کتابچے چھپوا کر طلبہ کے درمیان تقسیم کرتی ہے تاکہ وہ ان کے مطالعہ اور ان میں بیان کئے گئے طریقوں کے ذریعے اسرائیل بائیکاٹ تحریک کا مقابلہ کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔

 

الخلیل کی ۸ صدیاں پرانی تاریخی مسجد علی البکاء کا تعارف

  • ۴۸۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ارض فلسطین کے تاریخی شہر الخلیل کی گود میں چھ ہزار سال سے آج تک کے ادوار کی تاریخی، دینی، ثقافتی اور تہذیبی یادگاریں موجود ہیں۔ یہ شہر تاریخی معالم وآثار اور تاریخی مقامات کے اعتبار سے ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس شہر کی زمین اور فضائوں نے کنعانی، عناقین، بازنطینی، رومن صلیبی اور اسلامی ادوار کے عروج و زوال دیکھے۔ ان تمام ادوار میں الخلیل شہر میں کسی نا کسی شکل کی تہذیب وتمدن کی ترقی ہوتی رہی۔ الخلیل کی عظمت رفتہ کی گواہی دیتے تاریخی آثار میں ایک تاریخی مسجد بھی ہے جسے مسجد علی البکاء کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جغرافیائی محل وقوع
مسجد علی البکاء محل وقوع کے اعتبار سے الخلیل شہر کے وسط میں مسجد ابراہیمی کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کے قریب تاریخی حارہ الشیخ واقع ہے۔ مسجد علی البکاء کی تاریخ ۸ صدیاں پرانی ہے۔ اس کے اطراف میں یہودی کالونیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود آج بھی اس کے گنبد و مینار سے اذان کی صدا گونجتی سنی جا سکتی ہے۔
یہ مسجد مشہور صوفی بزرگ، عابد، مجاہد اور فدائی علی البکاء سے منسوب ہے۔ ان کا تعلق قوقاز سے تھا اور وہ جہاد کے لیے فلسطین میں آئے اور ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہو رہے۔ مسجد کے متصل ایک چبوترے میں ان کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔
ممالیک کا دور
الخلیل شہر کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے مورخ ڈاکٹر عدنان ابو تبانہ کا کہنا ہے کہ مسجد علی البکاء ۶۷۰ھ میں تعمیر کی گئی۔ اس وقت فلسطین میں ممالیک فرمانروا الظاھر بیبرس کی حکومت تھی۔ انہوں‌ نے فلسطین اور بلاد شام کے گورنر عزالدین ایدمر العلائی کو مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ چونکہ الشیخ علی البکاء نے فلسطین میں ظاہر بیبرس کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا تھا۔ اس لیے انہوں ‌نے فلسطین میں اسی نام سے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔
معرکے میں شامل علماء
ڈاکٹر عدنان ابو تبانہ نے مزید کہا کہ الشیخ علی البکاء قریبا ایک صدی زندہ رہے۔ انہوں نے ایوبی اور ممالیک کے ادوار دیکھے۔ ان کا شمار فلسطین کے عظیم اور بہادر مجاہدین میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ارسوف کی جنگ میں اس وقت حصہ لیا جب ان کی عمر کم تھی۔ اس کے بعد وہ تحصیل علم اور زہد وتقویٰ کی طرف مائل ہوگئے۔ ایام جوانی ہی میں وہ الشیخ ربانی مشہور ہوئے اور اپنی کرامات کی وجہ سے فلسطین اور اطراف واکناف میں شہرت حاصل کی۔ ان کے عقیدت مند دور دور سے ان سے ملنے آتے۔ لوگ ان کے پاس دعائیں کرانے آتے۔ وہ بہت زیادہ گریا زاری کرتے اور عبادت میں مشغول رہتے۔ ان کے ایک دوست جنہوں‌ نے کئی جنگوں میں ان کے ساتھ شرکت کی مگر ان کی موت نصرانیت پر ہوئی۔ بادشاہ نے ان کے لیے بھی ایک جگہ مختص کی تھی۔
تعمیراتی ارتقاء
ممالیک کے عہد میں الخلیل شہر بالخصوص الزاویہ میں کئی تعمیراتی ارتقائی مراحل دیکھنے میں آئے۔ مسجد علی البکاء کا مینار دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ دوسری بار مسجد کے مینار کی تعمیر ممالیک گورنر حسام الدین طرنطاوی کو جاتا ہے۔ انہیں ممالیک بادشاہ المنصور بن قلاوون نے اس کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔
مسجد علی البکاء کی تعمیر ومرمت فلسطین میں برطانوی انتداب کے دور میں‌ بھی ہوئی۔ فلسطینی مورخ ڈاکٹر تیسیر جبارہ نے بھی اپنی کتاب میں مسجد علی البکاء کی تعمیر ومرمت کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پروفیسر ‘انیٹلی انٹن’ کا تعارف

  • ۴۲۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:

سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں؛
۔ شعبہ فلسفہ کے استاد
۔ فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ
۔ ریڈیکل فلاسفی ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر
پروفیسر “انیٹلی انٹن” سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کے استاد اور فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ ہیں۔ انہوں نے فلسفہ سیاست، فلسفہ علوم سماجیات اور فلسفہ ہیگل و مارکس پر کافی تحقیقات انجام دی ہیں۔ اس وقت وہ سان فرانسسکو یونیورسٹی کے فلاسفی ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری بھی ہیں۔
پروفیسر انٹن “ریڈیکل فلاسفی ایسوسی ایشن” (Radical Philosophy Association) کے کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ یہ ایسوسی ایشن جو سرمایہ دارانہ نظام کے مخالف مارکسیسٹ پروفیسروں پر مشتمل ہے اس بات کی قائل ہے کہ بنیادی تبدیلی کے لیے ایک سماجی انقلاب کی ضرورت ہے علاوہ از ایں یہ ایسوسی ایشن استعماری اور غیر انسانی فکری ڈھانچوں منجملہ، سرمایہ داری، نسل پرستی، جنسی تحریک، ہوموفوبیا، نسلی امتیاز، ماحولیات کی تباہ کاری اور دیگر تسلط پسندانہ رویوں کی سخت مخالفت کرتی ہے۔
ریڈیکل فلاسفی ایسوسی ایشن ‘کیوبا’ کی کمیونیسٹ حکومت کی حمایت جبکہ ریاست ہائے متحدہ کی جانب سے اسرائیل کو حاصل اقتصادی اور عسکری امداد کی مخالفت کرتی ہے اس لیے کہ ان امدادوں سے “مسلمان اقوام کی دشمنی” کی حمایت کا نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔
اس ایسوسی ایشن نے افغانستان اور عراق میں “دھشتگردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ” کے مقابلے میں بھی ایک مضبوط موقف اختیار کیا ہے۔ ریڈیکل فلاسفی ایسوسی ایشن کا ماننا ہے کہ دھشتگردی کا خطرہ در حقیقت تیسری دنیا میں پائے جانے والی ظالم و فاسد حکومتوں کو حاصل امریکہ کی احمقانہ حمایتوں سے جنم لیتا ہے۔
انٹن نے ۲۷ ستمبر ۲۰۰۴ کو اپنے ساتھیوں کے درمیان ایک ایمیل منتشر کیا اور اس میں لکھا: ساتھیو! میں سوچتا ہوں کہ آپ میں سے بعض نے “ای۔ ایل۔ ڈاکٹرو”( E.L. Doctorow) کے ان احساساتی اور مفید الفاظ کو دیکھا ہو گا لہذا ممکن ہے آپ انہیں وسیع طور پر پھیلانا چاہیں۔ ڈاکٹرو کا کہنا تھا کہ ‘صدر بوش ہمارے ۲۱ سالہ نوجوانوں کی موت سے کوئی درد محسوس نہیں کرتے ۔۔۔ چونکہ وہ نہیں جانتے کہ موت کیا ہے؟۔۔۔ لہذا وہ کیسے سوگ منا سکتے ہیں؟ سوگ منانے کے لیے احساس درد کا اظہار ضروری ہے جبکہ وہ اس درد کے احساس سے بالکل بے بہرہ ہیں۔۔۔ انہیں مقتولین کے گھرانوں کی نسبت کوئی ہمدردی نہیں ہے۔۔۔ وہ عزاداری اور سوگواری نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ ایک طرح کی بداخلاقی ہے جو باعث بنتی ہے کہ ہم اپنے حال پر خود سوگ منائیں’۔
تحقیق: لیزا ماٹسن

 

پروفیسر گِل اینیجر کا تعارف

  • ۴۲۴

خیبر صہیون ویب گاہ کے سیاسی شعبے کی رپورٹ کے مطابق، کچھ عرصہ قبل امریکہ میں “امریکہ کے ۱۰۱ خطرناک پروفیسر (The 101 Most Dangerous Academics in America) کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی۔ اس کتاب میں امریکی جامعات کے ۱۰۱ ایسے اساتذہ کو موضوع سخن بنایا گیا ہے جن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں اور تقاریر میں ہولوکاسٹ اور یہودیوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی دوسری جامعات کے اساتذہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان اساتذہ کی کاوشوں سے استفادہ نہ کریں کیونکہ انھوں نے سرخ لکیروں کو پھلانگ لیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب آزادی نامحدود ہوجائے تو دشواریاں معرض وجود میں آتی ہیں اور آخرکار اس کو محدود کردیں گے۔ [گوکہ حقیقت یہ ہے امریکی معاشرہ سیاسی اور سماجی قواعد کے لحاظ سے کبھی بھی آزاد نہیں تھا لہذا آزادی کے امریکی تصور کا علمی اور منصفانہ جائزہ لینا چاہئے]۔
ذیل کا متن پروفیسر گِل اینیجر کے بارے میں ہے اور وہ ان ۱۰۱ پروفیسروں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں کتاب کے مؤلف نے اظہار خیال کیا ہے۔
– پروفیسر گِل اینیجر (Professor Gil Anidjar)
– پیدائش: ۱۹۶۴؛ فرانس
– کولمبیا یونیورسٹی (Columbia University)
– ایسوسی ایٹ پروفیسر تقابلی ادب
– اسرائیل مخالف کارکن ـ اسلامی انتہا پسندی کا حامی
پروفیسر گل اینیجر کولمبیا یونیورسٹی کے مشرق وسطی کے تقابلی ادب اور ایشیائی زبانوں کے شعبےکے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ اس مضمون میں سامی نسل، مذہب اور ادب کے موضوعات میں پروفیسر اینیجر کی تدریسی سرگرمیوں، ان کی کلاسوں میں لفظ “سامی” کے استعمال، نیز اس بات کا جائزہ پیش کیا جائے گا کہ “پروفیسر اینیجر کس طرح یونیورسٹی کے مختلف حصوں اور افراد کو متاثر کرتے ہیں۔
اس بات میں کچھ زیادہ شک نہیں ہے کہ پروفیسر گل اینیجر جیسے اساتذہ اس موضوع سے اثر لیتے ہیں؛ پروفیسر اینیجر کہتے ہیں کہ لفظ “سامی” دباؤ کا ایک ذریعہ ہے جو اسرائیلی ریاست کے قانونی جواز (Legitimacy) کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر انھوں نے اپنے ایک مکالمے میں دعوی کیا ہے کہ “آخری سامی عرب ہیں اور عرب ہی سامی ہیں”؛ وہ اس طرح بطور ایک یہودی ریاست، اسرائیلی ریاست کی حیثیت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
پروفیسر اینیجر استدلال کرتے ہیں کہ: عرب ایک ایسی نسل میں تبدیل ہوچکے ہیں جو ابھی تک اپنے دین سے متصل ہیں، حالانکہ یہودی مغربی عیسائیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں؛ چنانچہ وہ نسلی لحاظ سے بھی اور مذہبی لحاظ سے بھی، اس خصوصیت سے محروم ہوچکے ہیں”۔ دریں اثناء کولمبیا یونیورسٹی کے حکام نے ان نسل پرستانہ خیالات پر کوئی رد عمل نہیں دکھایا ہے۔
پروفیسر گل اینیجر کی باتوں کا ضمنی مفہوم یہ ہے کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست کے طور پر وجود میں آنے [اور وجود میں رہنے] کا حق نہیں رکھتا۔ وہ یہودی ریاست کو آخرالزمان سے متعلق مسائل کا ملزم ٹہراتے ہیں اور اس نکتے کو صہیونیت کے خلاف ان کے بہت سارے خطابات سے تقویت پہنچتی ہے۔
پروفیسر گِل اینیجر جب کلاس روم میں صہیونیت کی بات کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ “جو بحث میں چھیڑنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ «بہت ضروری ہے کہ صہیونیت کی استعماریت اور بالخصوص لفظ “استعمار” پر تاکید کروں۔ اسرائیل مکمل طور پر ایک استعماری تنظیم اور ایک استعماری ریاست ہے جو قائم ہوچکی ہے۔
تاهم پروفیسر اینیجر اسلام کے بارے میں بات کرتے ہوئے بڑی سخاوتمندی کا اظہار کرتے ہیں: جب اسلام پر تنقید ہوتی ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ: “درحقیقت جو مسئلہ اس وقت موجود ہے اور میں حقیقتا نہیں سمجھتا وہ یہ ہے کہ کوئی یہ دعوی کرے کہ اسلامی ممالک کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔
یہودی ریاست (اسرائیل) کے ساتھ پروفیسر گل اینیجر کی دشمنی کی جڑیں کولمبیا یونیورسٹی کے ایک اسرائیل مخالف اکیڈمک کے طور پر ان کے شدید تعصب میں پیوست ہیں۔
مورخہ ۱۳ نومبر ۲۰۰۲ع‍ کو کولمبیا میں اسرائیلی نسلی عصبیت کے خلاف کارروائی پر قومی اقدام کا دن منایا گیا تو پروفیسر گل اینیجر ایک اجلاس کی قیادت کررہے تھے جس کا مقصد اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین کی ممانعت تھا۔
پروفیسر اینیجر ایک اکیڈمک کے طور پر اپنے اور ایک سیاسی کارکن کے درمیان کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جامعاتی شخصیت وہ نہیں ہے جو صرف علم سیکھتا ہے یا ایک طالب علم کو غیرجانبدارانہ طور پر حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ بلکہ جامعاتی شخصیت وہ ہے جو طلبہ کو اپنے سیاسی محرکات کی طرف کھینچ لیتا ہے۔
پروفیسر اینیجر نے ۲۰۰۵ع‍ میں ایک اسرائیل مخالف اجلاس میں ان ہی محرکات میں سے ایک (یعنی فلسطینیوں کے حقوق) کے سلسلے میں کہا تھا: میرے یقین کے مطابق اس (فلسطینیوں کے حقوق کا) موضوع کو تمام طلبہ اور اساتذہ ـ خواہ وہ جو فیکلٹی کے اراکین ہیں، خواہ وہ جو وقتی طور پر کام کررہے ہیں ـ کی مشترکہ جدوجہد کا مقصد بننا چاہئے۔
پروفیسر اینیجر کلمبیا یونیورسٹی میں اپنے ہمفکر رفقائے کار کو مخاطب کرکے ان سے چاہتے تھے کہ (اسی یونیورسٹی کے) “پروفیسر جوزف مسعد (Joseph Andoni Massad) نیز فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت بدستور جاری رکھیں۔۔۔ اونچی آواز سے اپنی مخالفت کا اظہار کریں۔ یہ سب اس تعلیم کے لئے اچھا ہے”۔
پروفیسر اینیجر اپنی طرف کی تدریس اور فعالیت (Activism) کی آمیزش کو “جامعاتی آزادی کی حمایت” کا ثبوت قرار دیتے ہیں گوکہ انھوں نے اپنے جذباتی خطاب کے دوران کئی مرتبہ کہا: “مجھے خوف ہے کہ کہیں پاگلوں کی طرح کا نہ ہوجاؤں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: یعقوب لیکسین (Hugh Fitzgerald) ـ ہیو فیٹزجرالڈ (Jacob Laksin)
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی