-
Wednesday, 5 August 2020، 02:18 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہم جنس پرستی ایک ایسی وبا ہے جو عرصہ دراز سے بشریت کے دامن گیر ہو چکی ہے لیکن کچھ سالوں سے یہ وبا بہت تیزی سے انسانی معاشروں میں پھیلتی جا رہی ہے اور لوگوں کی کثیر تعداد اس کی طرف کھچی چلی آ رہی ہے۔ اسرائیل بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جو معرض وجود میں آنے کے بعد تو کچھ عرصے تک اس عمل کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیتا رہا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد حالات میں تبدیلی آ گئی اور گزشتہ قوانین کو منسوخ کر دیا گیا اور ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دے دی گئی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل ہم جنس پرستی کا سب سے بڑا اڈہ اور حامی بن چکا ہے۔(۱) یہاں تک کہ ہم جنس پرست سیاحوں کے لیے کلب اور مخصوص پارک بنائے گئے ہیں اور سالانہ وافر مقدار میں پیسہ اس طریقے سے کمایا جاتا ہے(۲)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طول تاریخ میں یہودیوں کی عملی زندگی پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حیوانی اور نازیبا عمل ان کی زندگیوں میں نظرنہیں آتا اسی وجہ سے یہودیوں کی مقدس کتاب “تلمود” میں اس موضوع کے سلسلے سے کوئی گفتگو نہیں ملتی۔ حتیٰ میلاد مسیح سے قبل بھی اس معاشرے میں ’’ہلنی‘‘ اور ’’یہودی‘‘ نامی دو ثقافتیں موجود تھیں اور یہودی کافی حد تک ہلنی ثقافت سے متاثر تھے اور ہلنی ثقافت میں ہم جنس پرستی کھلے عام پائی جاتی تھی اس کے باوجود اس دور کے یہودی اس بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے۔ یہ ایسے حال میں تھا کہ جناب لوط، جناب بلیعال اور بنیامین کے زمانے میں یہ عمل گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا اور اس گناہ کے مرتکب ہونے والے کو پھانسی کی سزا دی جاتی تھی۔
لیکن اسرائیل میں مذہبی گروہوں کی شدید مخالفتوں کے باوجود، ہم جنس پرست یہودیوں نے “ماگنوس ہرشفیلڈ” کی سرپرستی میں پہلا گروہ تشکیل دیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ۱۹۷۷ میں پہلی بار تل ابیب میں ہم جنس پرستوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اور نتیجہ میں دو دہائیوں سے کم عرصے میں یہ عمل قانونی شکل اختیار کر گیا۔ اور اس کے کچھ ہی دنوں بعد فلسطین کے مقدس شہر القدس میں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ آرتھوڈوکس یہودی کہ جو دوسرے یہودیوں کی نسبت زیادہ مذہبی تھے کی مخالفت کے باوجود، اصلاح طلب یہودی ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہونے لگے اور انہوں نے اپنے رابی اور معبد بھی الگ کر لئے۔
در حقیقت اسرائیل میں یہ انحرافی فکر سنہ ۱۹۸۸ کی طرف پلٹی ہے جب کینیسٹ نے آرتھوڈوکس ربیوں کی مخالفت کے باوجود ہم جنس پرستی کی سزا کے قانون کو منسوخ کیا۔ اس ماجرے کے بعد اس موضوع پر عبرانی اور انگریزی زبان میں مختلف جریدے چھپنے لگے۔ حکومت وقت نے اس جماعت کی حمایت کے لیے مختلف طرح کے دیگر قوانین جیسے ’’ ہم جنس شادی کو سرکاری حیثیت دینا، منہ بولا بیٹا لینے کو جواز فراہم کرنا، انہیں سرکاری نوکریاں دینا، ہم جنس جوڑوں سے مربوط حقوق کی حمایت کرنا جیسے وراثت کا حق، راشن کارڈ کی منظوری، ہم جنس پرستوں کے خلاف تشدد آمیز کاروائیوں کی روک تھام، وغیرہ وغیرہ منظور کئے۔
دین اور انسانیت مخالف اس اقدام نے یہودی مذہبی سماج خصوصا آرتھوڈوکس جماعت کو انتہائی غضبناک کیا۔ وہ ہم جنس پرستی کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور اس عمل کے مرتکب ہونے والے افراد کو جانوروں کے برابر سمجھتے ہیں۔ ایک آرتھوڈوکس ربی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا: ’’پہلے تل ابیب سیکولر افراد کے اجتماع کا مرکز اور قدس دیندار یہودیوں کا پایتخت تھا لیکن اب ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ فساد کے آلات اور غیر اخلاقی جرائد کے فروخت کی دکانیں اب پورے قدس حتیٰ دیوار گریہ کے پاس بھی دیکھنے کو ملتی ہیں‘‘۔
مذہبی یہودیوں کے عقیدے کے مطابق، ہم جنس پرستی غضب الہی کا سبب اور عذاب الہی کا باعث ہے۔ مثال کے طور پر ’’شلومو بنیزری‘‘ کہ جو کینیسٹ میں ’’شاسی‘‘ پارٹی کے رکن اور صہیونی ریاست کے سابق وزیر بھی ہیں اس بارے میں کہتے ہیں: مجھے ایسے زلزلے کا انتظار ہے جو پورے اسرائیل کا نابود کر دے چونکہ حکومت ہم جنس پرستی کو رواج دے رہی ہے اور ان کی سرگرمیوں کی حمایت کر ری ہے‘‘۔
یہ ناراضگیاں بعض اوقات پرتشدد کاروائیوں کا سبب بھی بنیں اور بعض اوقات موت کا۔ ۲۰۰۵ میں ہونے والی ہم جنس پرستوں کی ریلی میں ایک آرتھوڈوکس یہودی نے ریلی پر حملہ کیا اور ایک آدمی کو ہلاک اور دسیوں کو زخمی کر دیا۔ ایسے واقعات متعدد بار اس جیسی ریلیوں میں رونما ہوتے رہے ہیں.
مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر چہ ہم جنس پرستی ایک عوامی جماعت کا مطالبہ تھا لیکن یہودیوں کی مذہبی اکثریت کے باوجود کیوں اسرائیل پر حاکم نظام نے اس انحرافی ٹولے کی حمایت کی اور اس نازیبا فعل کو قانونی قرار دیا؟
ہم جنس پرستی کی حمایت میں اسرائیلی حکومت کے دلائل
۱۔ اسرائیلی حکومت ہمیشہ سے فلسطین کے مقامی لوگوں کے ساتھ ناروا رویہ اپناتی رہی ہے جو اس بات کا سبب بنی کہ اسرائیل دنیا میں ایک نفرت بھرے چہرے کے عنوان سے پہچانا جائے۔ علاوہ از ایں، مقامی فلسطینی اس رژیم کے نسل پرستانہ اور طبقاتی اختلافات پر مبنی رویے کی وجہ سے رنج و الم اٹھا رہے ہیں۔ یہ امور اس بات کا باعث بنے کہ اسرائیلی حکومت ان مشکلات کو حل کرنے اور اپنے ناروا کردار پر پردہ ڈالنے نیز اپنے جمہوری چہرہ کو ظاہر کرنے اور عالمی دباو سے خود کو نجات دلانے کے لیے ہم جنس پرستی کی حمایت کرے۔
۲۔ یہودی معاشرے اور سیاسی نظام میں سیکولر فکر کے پھیلنے کی وجہ سے مذہبی افکار بے حد متاثر ہوئے اور ساتھ ساتھ دینی اور اخلاقی ادارے بھی کمزور ہوتے گئے۔ البتہ اس درمیان اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیلی سیاسی گروہ بھی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ مذہبی اور سیکولر گروہوں میں تعادل برقرار کرنے کے لیے جہاں مذہبی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں وہاں ہم جنس پرستی کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
۳۔ یہودی ریاست کی زیادہ تر توجہات مذہب کے بجائے قومیت پر ہیں لہذا یہ بات بھی باعث بنی ہے کہ دینی اور مذہبی حدود سے باہر نکل کر اسرائیلی حکومت، یہودی معاشرہ کے ہر مطالبے کو پورا کرے بھلے وہ مخالف دین و شریعت ہی کیوں نہ ہو۔
۴۔ ہم جنس پرستی کے رواج کی ایک وجہ اسرائیلی معاشرے کی مختلف النوع تشکیل بھی ہے جو مختلف ملکوں سے ہجرت کر کے آئے ہوئے یہودی باشندوں سے تشکیل پائی ہے۔ لہذا اس معاشرے میں پائے جانے والے افراد مختلف مزاج، مختلف ذوق اور الگ الگ ثقافت کے مالک لوگ ہیں۔
۵۔ اسرائیلی عہدیداروں کی ہم جنس پرستی کی نسبت غفلت اور اس ناشائستہ اور نازیبا عمل کے مرتکب ہونے والوں کے ساتھ کوئی قانونی کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے بھی دھیرے دھیرے یہ بیماری معاشرے میں پھیلتی گئی اور جب لوگوں کی کثیر تعداد اس کا شکار ہو گئی تو اسرائیلی حکومت کو اسے قانونی شکل دینا پڑی۔
۶۔ اور اہم ترین عامل اس بیماری کے پھیلاو میں خود اس کا قانونی جواز ہے جس کی وجہ سے نہ صرف سیکولر معاشرہ بلکہ مذہبی معاشرہ بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
حواشی
۱ – https://www.yjc.ir/fa/news/4870797
۲- https://www.farsnews.com/news/13911201001077
۳- Magnose Hiresfield
۴- صفاتاج، مجید، دانشنامه صهیونیسم و اسرائیل، ج۶، تهران، آروَن، چاپ اول: ۱۳۸۸، ص۸۰۷-۷۹۴٫
تحریر: میلاد پورعسگری