-
Thursday, 31 December 2020، 06:16 PM
ترکی-اسرائیلی تعلقات، بالخصوص حالیہ ایک عشرے کے درمیان اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
اردوگان نے بار بار صہیونی ریاست کو شدید ابلاغیاتی حملوں کا نشانہ بنایا اور فلسطینیوں کے خلاف غاصب ریاست کے اقدامات کو مورد تنقید قرار دیا گیا ہے۔
تاریخ
۔ترکی اور صہیونی ریاست کے تعلقات 1949ع میں قائم ہوئے اور اس زمانے میں ترکی نے پہلے اسلامی ملک کی حیثیت سے اس ریاست کو تسلیم کیا۔
۔فریقین کے درمیان تعلقات کو بہت تیزرفتاری سے فروغ ملا اور جب روابط تزویری (اسٹراٹجک) تعلقات کی سطح تک پہنچ گئے، ترک سفیر تل ابیب اور انقرہ میں اسرائیلی سفیر تعینات ہؤا اور بات سفارتکاروں کے تبادلہ ہؤا نیز مشترکہ اقتصادی اور عسکری مفادات کے خد و خال کے تعین کی نوبت بھی آن پہنچی۔
۔سنہ 2005ع میں اس وقت کے ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرکے فلسطینیوں کے قصاب، آنجہانی ایریل شیرون سے ملاقات کی۔
۔ نیز اردوگان نے مقبوضہ سرزمین میں غاصب یہودی ریاست کے بانی تئودور ہرتزل کی قبر - نیز ہالوکاسٹ میوزیم - پر حاضری دی!
۔سنہ 2009ع میں، غزہ پر یہودی جارحیت پر وقت کے ترک وزیر اعظم اردوگان کی شدید تنقید کے بعد، فریقین کے درمیان ابلاغیات تناؤ کا آغاز ہؤا۔
۔سنہ 2010ع میں غزہ کی طرف جانے والے "آزادی بحری جہاز" - جس کا نام "مرمرہ جہاز" تھا - پر یہودی ریاست کے حملے اور اس کے کئی مسافروں کے قتل ہوجانے کے بعد، فریقین کے تعلقات بحران سے دوچار ہوئے۔
۔اس کے برعکس، کہ ترکی عرب ممالک کی طرف سے یہودی ریاست کی تعلقات کی بحالی کی مذمت کرتا ہے، لیکن ترکی اور یہودی ریاست کے تعلقات بدستور قائم ہیں اور یہ تعلقات مختلف سطوح پر جاری و ساری ہے۔
عسکری
۔ امریکہ کے بعد ترکی دوسرا بڑا ملک ہے جہاں یہودی ریاست کے اسلحے کے کارخانے موجود اور سرگرم عمل ہیں۔
۔ تجربات کے تبادلے نیز ہوابازوں کے تبادلے کے سلسلے میں ایک سال کے دوران کئی مرتبہ فریقین کے درمیان معاہدے منعقد ہوئے۔
معاشی
۔ یہودیوں کا مقبوضہ عربی-فلسطینی علاقہ، - جو جعلی ریاست "اسرائیل" - کہلاتا ہے ترکی ساختہ مصنوعات کی پانچویں بڑی منڈی ہے۔
۔ سنہ 2019ع میں ترکی اور یہودی ریاست کے درمیان تجارتی تبادلوں کا حجم 6 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔
سیاسی
یہودی ریاست نے ترک دارالحکومت انقرہ میں اپنے سفارتخانے کو قائم رکھا ہے جیسا کہ ترکی نے صہیونی دارالحکومت تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ قائم رکھا ہؤا ہے۔
نئی صورت حال
کچھ عرب ممالک نے یہودی ریاستوں کو تسلیم کیا اور کچھ پر تول رہے ہیں، حالات فلسطینیوں کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ دشوار ہیں؛ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ٹرمپ ہار گیا ہے اور 76 سالہ بائڈن بطور صدر منتخب ہؤا ہے، اردوگان عرب ریاستوں کی طرف سے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کے بحالی کی زبانی کلامی مذمت کررہے ہیں؛ لیکن چونکہ ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی چنداں دوستانہ نہیں رہے ہیں لہذا اخوانی صدر اردوگان نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے نئے صدر کے ساتھ بہتر تعلقات اور یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات میں استحکام لانے کے لئے تیار ہیں؛ گویا وہ بھی عرب ریاستوں کی طرح – جنہوں نے ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے - بائیڈن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہودی ریاست کی قربت حاصل کررہے ہیں۔ بندگلی وہابیت کو بھی درپیش ہے اور اخوانیت کو بھی۔۔۔ اگلے ایام مسلم امہ کے لئے دشوار اور قبلہ اول کے لئے بہت سخت ہیں، مسلم آمہ خاموش ہے اور اس کے حکمران یکے بعد دیگرے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے یہود و نصاری کی خوشنودی کے خواہاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب: فرحت حسین مہدوی