کتاب “کون دنیا پر حکومت کرتا ہے؟” کا تعارف

  • ۵۰۶

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ کے معروف مصنف اور سماجی ماہر “نوم چومسکی” کے قلم سے لکھی گئی کتاب” کون دنیا پر حکومت کرتا ہے؟” ایک ایسی کتاب ہے جس میں انہوں نے دنیا پر حاکم نظام حکومت کو مورد تجزیہ و تحلیل قرار دیا ہے۔ نوم چومسکی نے تاحال سیاسیات، سماجیات، زبان شناسی اور بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوعات پر ۱۹۰ کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی یہ معروف کتاب” کون دنیا پر حکومت کرتا ہے” ۱۰ فصول پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے کہ ” کون لوگ دنیا پر حکومت کر رہے ہیں؟ وہ کیسے اپنی حکومت کو باقی رکھنے کے لیے جد و جہد کرتے ہیں؟ یہ رہنما کون ہیں اور ان کے زیر تسلط اقوام کون لوگ ہیں؟ کیا یہ اقوام کچھ طاقتور افراد کے زیر تسلط رہ کر اپنی زندگی کو جاری رکھنے کی امید رکھتی ہیں؟
امریکہ کا زوال
مولف اپنی کتاب کی ایک اہم ترین فصل میں امریکہ کے زوال کے مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلسل نابودی کی طرف گامزن ہے۔
وہ اسی فصل میں امریکہ کے اندرونی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس ملک میں اگر چہ کچھ ثروتمند لوگ پائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد کوئی زیادہ نہیں ہے۔ لیکن بہت سارے ایسے لوگ اس ملک میں پائے جاتے ہیں جو اچھے حالات کے مالک نہیں ہیں۔
اس کتاب میں امریکہ کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے علاوہ عالمی دھشتگردی کے مسئلے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں مسئلہ فلسطین اور صہیونی ریاست کو بھی مورد بحث قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے مسئلہ فلسطین پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی کی ایک وجہ ان کا مالدار نہ ہونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین امریکہ کے لیے بالکل اہم نہیں ہے۔ اس لیے کہ فلسطینیوں کے پاس نہ طاقت ہے نہ ثروت۔ لہذا کوئی دلیل نہیں پائی جاتی کہ امریکہ ان کی حمایت کرے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں صہیونی ریاست ایک طاقتور اور مالدار ریاست ہے۔ اور یہ چیز باعث بنتی ہے کہ تل ابیب اور واشنگٹن آپس میں مستحکم تعلقات رکھتے ہوں۔
نوم چومسکی کی اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ دنیا پر صرف ان لوگوں کی حکومت ہے جو صاحب ثروت ہیں اور ثروتمند ترین افراد دنیا میں صرف یہودی ہیں۔ لہذا یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں دنیا پر صرف یہودی قوم حاکم ہے۔

.............

 

جو کچھ اسرائیلی امریکی یہودیوں کے بارے میں سوچتے ہیں

  • ۵۱۵

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہ کتاب ” جو کچھ اسرائیلی امریکی یہودیوں کے بارے میں سوچتے ہیں” (Kesef temurat dam= with Friends like you: what Israeilis really think about American Jews) ایک اسرائیل مولف “میٹی گولن” جو اسرائیل کے ایک معروف نامہ نگار ہیں اور “ہاآرتض” اور “گلوبس” جیسے اخبارات میں چیف ایڈیٹر کی حثیت سے کام کر چکے ہیں نیز کینیڈا میں اسرائیلی سفارت میں بھی امور عامہ کے عہدہ پر سرگرمیاں انجام دے چکے ہیں، کی تصنیف ہے۔ ان کی ایک کتاب “ہنری کسینجر کے خفیہ مذاکرات” بھی کافی معروف ہوئی جسے کافی سنسر کے بعد اسرائیل میں منظر عام پر لانے کی اجازت ملی۔
جو چیز قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترغیب دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ “میٹی گولن” ایک متعصب اسرائیلی یہودی ہے اور اس کے برخلاف جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان ملکوں کے روابط جیسا کہ میڈیا دکھاتا ہے اندرونی طور پر بھی ویسے ہی دوستانہ ہیں، اس کتاب میں ان کے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ در حقیقت اس کتاب کی خوبی ہی یہی ہے کہ اس میں امریکہ اور اسرائیل کے دو یہودی معاشروں کا موازنہ اور مقایسہ کیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان میں کون اصل ہیں اور کون فرع؟۔  
یہ کتاب چار حصوں اور دو مقدموں پر مشتمل ہے۔ اور چونکہ کتاب کا طرز تحریر گفتگو محور ہے لہذا گولن اس کے مقدمے میں کتاب کی تصنیف کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔ قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ گولن قدس شہر کے ایک ہوٹل “ملک داوود” میں ایک امریکی یہودی خاخام (ربی) “الی ویزل” جو سخت ہولوکاسٹ کے حامی ہوتے ہیں سے ملاقات کرتے ہیں اور موجودہ کتاب ان دو شخصیات کی گفتگو کا ماحصل ہے۔ اس گفتگو کے بارے میں جو اہم نکتہ قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ دونوں افراد اپنا نام بدل کر ایک دوسرے کو پہچنوانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اصلی نام سے ایک دوسرے کو آگاہ نہیں کرتے گولان اپنا نام ‘اسرائیل’ اور ویزل اپنا نام ‘یہودا’ بتاتے ہیں۔
پہلا حصہ: دشمن کون ہے؟
اس حصے کے ابتدا میں اسرائیل کے حامی امریکی یہودیوں کی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اسرائیل کو مالی امداد پہنچاتے ہیں اور حتیٰ اسرائیلی مقررین کی تقریروں کو سننے کے لیے اسرائیل تک جاتے ہیں۔ دوسری طرف سے اسرائیلی یہودیوں کی مشکلات جیسے ان کی ہجرت کا مسئلہ، فری فوجی سروس، ماہانہ درآمد، ٹیکس کی ادائیگی اور سکیورٹی وغیرہ جیسے مسائل کی وضاحت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ امریکی اور اسرائیلی یہودیوں کی زندگیوں میں پائے جانے والے اختلافات کی منظر کشی کریں۔
گولن اپنی گفتگو میں یہودا کو دشمن خطاب کرتے ہیں اور اس کی وجوہات امریکی تنقید، اسرائیل کے اندرونی اور بیرونی امور میں دخالت اور اس کے لیے ‘کیا کرنا چاہیے’ اور ‘کیا نہیں کرنا چاہیے’ کو متعین کرنا، پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ بین الاقوامی سطح پر خود کو بڑا دکھانے کے لیے اسرائیل کی نسبت دوپہلو کردار پیش کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گولن یہودا پر اعتراض کرتے ہوئے جنگوں کے دوران اسرائیلی معاشرے کو پیش آنے والی مشکلات پر آنسو بہاتےہیں اور امریکی یہودیوں کی عیش و عشرت والی زندگی پر حسرت کھاتے ہیں۔
دوسرا حصہ؛ پیسے کی مشین
“پیسے کی مشین” وہ عنوان ہے جس میں امریکہ کی یہودی فلاحی تنظیموں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ ان تنظیموں کی ذمہ داری اسرائیل کے لیے صرف مالی امداد کی فراہمی ہے۔ گولن نے ان فلاحی تنظیموں کی مذمت کرتے ہوئے ان تنظیموں پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ اسرائیل کے داخلی امور میں مداخلت کرتی ہیں اور اس سے اپنے مفاد کے لیے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
گولن کا کہنا ہے کہ اس امداد کا ایک اہم حصہ اسرائیل کو نہیں ملتا بطور مثال ۱۹۸۹ میں ۷۵۰ ملین ڈالر اسرائیل کے نام پر اکٹھا ہوئے جس میں سے صرف ۲۴۴ ملین ڈالر اسرائیل تک پہنچے۔ نیز اس گفتگو میں تنطیم (UJA) اور اس کے ذریعے اکٹھا کی جانے والی امداد اور اسرائیل میں اس کے نفوذ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ گولن یہودا کو طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں امریکی یہودیوں میں صرف ایک تہائی لوگ ہمیشہ اسرائیل کی مدد کرتے ہیں اور باقی یا بالکل مدد نہیں کرتے یا اگر کرتے ہیں تو اس سے ان کے اپنے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ “والٹر اٹنبرگ، جک لینسکی، اور میلٹن پٹری” کو بطور مثال پیش کرتے ہیں جو کئی کئی ملین ڈالر امریکی اداروں کی امداد کرتے ہیں لیکن اسرائیل کی نہیں۔
تیسرا حصہ؛ امریکی یہودیوں کے لیے ناقابل بیان انتخاب
اس حصے میں یہودی تشخص اور یہودی روایتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہودا اپنی گفتگو میں کوشش کرتے ہیں کہ یہودیت کو قدیمی روایت سے گرہ لگائیں لیکن گولن مختلف مثالوں کے ذریعے ان کے اس دعوے کو رد کرتے ہیں اور کچھ عوامل جیسے دنیا میں پائی جانے والی سام دشمنی اور یہودیوں کی مظلوم نمائی کی بنا پر کوشش کرتے ہیں یہودیت کو روایت کے تابع نہ ماننے کا ثبوت پیش کریں۔
گولن کہتے ہیں کہ امریکی یہودی، یہودی شریعت کی نسبت مفاد پرستانہ دید رکھتے ہیں جب ان کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو وہ دین و شریعت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
چوتھا حصہ؛ خاموشی اور دھوکے کی سازش
آخری حصے میں گولن واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ امریکی یہودی اور غیر یہودی اسرائیل میں سکونت اختیار کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔ جبکہ وہ اسرائیل ہجرت کر کے بہت سارے اندرونی حالات میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ گولن صرف اسی چیز کو ہی مشکل نہیں سمجھتے بلکہ قائل ہیں کہ یہودا اور ان کے جیسے دیگر افراد امریکہ میں یہودیوں کی ہجرت کے شرائط فراہم کر کے اسرائیل کے حق میں سب سے بڑا ظلم کر رہے ہیں۔
کتاب کے آخر میں ان دو افراد کی گفتگو اس موضوع پر ختم ہوتی ہے کہ گولن یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکی یہودی اسرائیل میں ہجرت کے حامی ہیں۔ وہ امریکی یہودیوں کی اسرائیل کی نسبت خیانت کی منظر کشی کرتے ہوئے مختلف مثالیں پیش کرتے ہیں جو قابل توجہ اور پڑھنے کے لائق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب “یاسر عرفات مجاہدت سے مذاکرات تک” کا تعارف

  • ۵۲۹

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب “یاسر عرفات مجاہدت سے مذاکرات تک”، “افسانہ وفا” کی تالیف ہے جو ۲۰۰۴ میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں یاسر عرفات کی زندگی کے حالات اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں اس عنوان سے گفتگو کی گئی ہے کہ وہ فلسطین کے معروف مجاہدین میں سے ایک تھے۔ وہ شخص جس نے جد و جہد اور سیاسی پالیسیوں کے ساتھ مختلف مجاہد گروہوں کو آپس میں جوڑا اور فلسطینی عوام کی آواز کو دنیا والوں کے کانوں تک پہنچایا۔ اگر چہ بعض جگہوں پر بہت ساری غلطیوں اور خطاوں کا بھی شکار ہوئے۔
یہ کتاب جو ۱۴۴ صفحوں پر مشتمل ہے اس میں یاسر عرفات کی شخصیت کا تعارف، تحریک آزادی فلسطین میں ان کے کردار اور سیاسی رد عمل کو بخوبی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں یاسر عرفات کا زندگی نامہ بیان کیا گیا ہے۔ ان کے شجرہ نسب، جائے پیدائش، محل سکونت، تعلیمات اور ان کے میدان سیاست میں اترنے کی وجوہات جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ “ایاد” نامی ایک کاتھولیک پادری کی گفتگو کو بھی نقل کیا گیا ہے جو انہوں نے متعدد بار یاسر عرفات سے ملاقات کے بعد ان کے بارے میں کی۔ ان کا کہنا ہے: “عرفات سادہ لوح انسان نہیں تھے۔ وہ مجھے باپ کہتے تھے میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہم جنگ کے ذریعے بھی فلسطین کو واپس نہیں لے سکتے۔ لیکن ہمیں جنگ کرنا پڑے گی تاکہ دنیا والوں کو یہ بتا سکیں کہ ہم زندہ ہیں۔ ہمیں لڑنا پڑے گا تاکہ دنیا والوں کو یہ بتا سکیں کہ ملت فلسطین ابھی زندہ ہے۔ ہم لڑیں گے تو دنیا کے ضمیر بیدار ہوں گے۔ اگر ہم دنیا کے عوام کو قانع نہ کر سکیں کہ ہم حق پر ہیں تو ہم نابود ہو جائیں گے”۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یاسر عرفات کی بیوی کی بات آتی ہے تو انہیں ایک تازہ مسلمان اور مسئلہ فلسطین کے تئیں غیر جانبدار کے عنوان سے پہچنوایا جاتا ہے۔
کتاب کے دوسرے مرحلے میں یاسر عرفات کے نفسیاتی پہلو پر گفتگو کی گئی ہے۔ یاسر عرفات اس کے باوجود کہ ایک فعال، ایکٹو اور فلسطینی مقاصد کے تئیں جذباتی شخص تھے، ایک مغرور سیاست دان اور اپنے گرد و نواح میں رہنے والوں کے اوپر بھرسہ نہ کرنے والے شخص بھی تھے۔ التبہ ان کی یہ خصوصیات کسی حد تک فلسطینی مقاصد کی راہ میں کی جانی والی مجاہدت میں اخلاص کے منافی تھیں۔ مثال کے طور پر کبھی وہ دوپہلو گفتگو کرتے تھے اور بہت جلد اپنی گفتگو کو بدل دیتے تھے، علاوہ از ایں انہوں نے ایک مرتبہ اسرائیلی عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ میں کہا: “میں مشرق وسطیٰ کا ایک اہم ترین شخص ہوں”۔ یا جرمنی کے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں کہا: “میں اور شارون تاریخ کے سب سے بڑے جنرل ہیں، صرف اس اختلاف کے ساتھ کہ میں نے آج تک کوئی جنگ نہیں ہاری”۔ ان کے کھوکھلے دعوے ایسے حال میں تھے کہ یاسر عرفات پر متعدد بار حملے کئے گئے اور وہ بال بال بچ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ “ساف” پارٹی کا بجٹ فراہم کرنے میں عرب ممالک سے سخت وابستہ تھے۔ یا دوسرے لفظوں میں وہ مالی اعتبار سے عربوں کے محتاج تھے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں عرفات تنظیم یعنی “آزادی فلسطین تنظیم” یا “ساف” کی تاریخ اور اس کے تجزیہ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب کا طریقہ کار یوں ہے کہ ابتدا میں اس تنطیم کی تشکیل کے تاریخچہ اور اس کے بانیان کی بائیوگرافی بیان کی گئی ہے۔ یہ کتاب ان افراد کے بارے میں لکھتی ہے: “عرب حکومتیں یا فلسطین کے لیے کوئی کام نہیں کر سکتیں یا نہیں کرنا چاہتیں، لہذا اس تنظیم کے اراکین نے ارادہ کیا ہے کہ وہ خود اسرائیل کے خلاف فوجی کاروائی کریں”۔
اس باب کے آخر میں ان اہم تنظیموں جیسے PFLP، DFLP، حماس، جہاد اسلامی، وغیرہ کا تعارف اور ان کی سرگرمیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا آخری حصہ “ڈیوڈ کیمپ ایک سے ڈیوڈ کیمپ دو تک سمجھوتہ عمل” سے مخصوص کیا گیا ہے۔ مخاطب کے ذہن کو آمادہ کرنے کے لیے مولف نے پہلے فلسطین پر صہیونی قبضے کا مختصر تاریخچہ بیان کیا ہے نیز اسرائیل کے زیر قبضہ لبنان، شام اور مصر کے علاقوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے تاکہ اسرائیل کے تسلط پسندانہ رویہ اور یاسر عرفات کے اسرائیلیوں کے ساتھ سمجھوتہ نہ ہونے کی وجوہات کو بھی بیان کریں۔ اس کتاب میں دانستہ یا ندانستہ طور پر جو غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مغربی ممالک، سابق سوویت یونین اور خاص طور پر امریکہ کے کردار کو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان صلح برقرار کرنے کے لیے سراہا گیا ہے کہ یہ ممالک فلسطینیوں کے حق میں خیر اندیش تھے جن میں سب سے زیادہ امریکہ نے صلح برقرار کرنے کی کوششیں کی ہے۔ حالانکہ اگر تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے یورپ اور امریکہ سب سے زیادہ فسلطین میں جنگ و جدال کا باعث بنے ہیں۔ فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کرنے والے، ان کے گھروں کو اجاڑنے والے اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے خود مغربی حکام ہی تو ہیں جنہوں نے اس خطہ پر صہیونیت کو مسلط کیا۔
بہر حال اگر کوئی صرف یاسر عرفات کی شخصیت اور “ساف” تنظیم کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ کتاب کسی حد تک مفید ہے۔

 

تعارف کتاب’’ ۲۲روزہ جنگ‘‘

  • ۵۳۷

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہ کتاب ان نوشتہ جات کے مجموعہ پر مشتمل ہے جو اسرائیل کی غزہ پر ۲۲ روزہ جارحیت کے سلسلہ سے لکھے گئے مضامین و مقالات کی شکل میں اکھٹا کئے گئے ہیں، کتاب کا مقدمہ جنگ کے کلی پہلووں جیسے صہیونی حکومت کی جنایت و تعدی، صہیونی ظلم و جنایت کا بین الاقوامی انعکاس ،غزہ کی پائداری و مزاحمت اور مظلومیت وغیرہ کو بیان کر رہا ہے ۔
ان مقالات کی کل تعداد ۱۶ عدد ہے جو اولویت و ترتیب کے اعتبار سے اس جنگ کے مختلف پہلووں کو بیان کر رہے ہیں ،” جنگ کی گونج اور اسکی شہرت” نامی مقالے میں اسرائیل کی بہانہ تراشیوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جس میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر حملے کا بہانا یہ پیش کیا گیا کہ: “ہم دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے دہشت گردوں پر حملہ کر رہے ہیں” اور اس بہانے کے تحت غزہ کے بے دفاع و مظلوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ، اسکے بعد کے دوسرے مقالے میں اسرائیل کے جنگی جرائم و اسکی جنایتوں کے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پیش کئے جانے اور لوگوں کے اس سلسلہ سے سیاسی رد عمل اور ان خبروں کے بارے میں اظہار رائے کو بیان کیا گیا ہے ۔
اسکے بعد کے حصے میں  اوبامہ و بش کے فسلطین کے و غزہ کے سلسلہ سے موقف کو بیا ن کیا گیا ہے کہ فلسطین و غزہ کے سلسلہ سے انکا موقف کیا تھا  اور اسی ضمن میں یہ بھی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مشرق وسطی کی صلح و امنیت کے بارے میں اوبامہ کا وعدہ ایک دعوے کے سوا کچھ نہیں تھا جسکا کوئی بھی نتیجہ حاصل نہ ہو سکا ، ۔
ایک اور مقالے  “اسرائیل میں حقیقت سے جدائی و علیحدگی ایک فطری و طبیعی امر ہے ” میں اسرائیل کی صبرا و شتیلا میں جنایت و بربریت کے ساتھ ۲۲ دن کی جنگ کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس علاقے میں میڈیا پر صہیونی حکومت کی پابندیوں کو بیان کیا گیا ہے ۔ آگے چل کر امریکہ میں خبروں کے سینسر کئے جانے اور امریکہ کے بلند پایہ اہلکاروں کی  جانب سے فلسطیینوں کے خلاف اختیار کئے جانے والے موقف کو بیان کرتے ہوئے امریکہ میں یہودیوں کے نفوذ و رسوخ اور امریکہ و اسرائیل کے ما بین اچھے تعلقات کو پیش کیا گیا ہے ، اور بعد کے حصہ میں ایک اسرائیلی تجزیہ کار “انتھنی کرڈزمن” کے ایک مقالے پر تبصرہ  وتنقید کی گئی ہے جو کہ ۲۲ روزہ جنگ کے سلسلہ سے لکھا گیا تھا  ۔دو اپارتھائیڈ[۱] ملکوں کی حکایت ، پاول ڈآماٹو  کے ذریعہ لکھے جانے والے مقالے کا عنوان ہے جس میں دو ملکوں کے سربراہوں کی ملاقاتوں کی کیفیت و اسکے مراحل ، ملاقات کا پس منظر اور اسکے نتائج کا تجزیہ کیا گیا ہے ، اسکے بعد کے مقالہ میں جسے نیکلانسر نے لکھا ہے  اسرائیل کو اس جنگ کے شروع کرنے والے ملک کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ  کس طرح اسرائیل جھوٹ کو پھیلاتا ہے اور یورپین  سیاست مداروں نیز امریکی ساست دانوں کے اسرائیل کے حق میں اختیار کئے جانے والے موقف کو بیان کیا گیا ہے ۔نوام چامسکی[۲] نے بھی اپنے مقالے میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مڈ بھیڑ کے بارے میں اوبامہ کے نظریہ پر تنقید کرتے ہوئے  مشرق وسطی کی صلح کی پیش کش کو فلسطینی عوام کے حق میں ایک خیانت کے طور پر بیان کیا ہے ،  بی بی سی کے لئے شرمناک دن ، ایک ایسا مقالہ ہے جس میں بی بی سی نیٹ ورک کی جانب سے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے غزہ کی عوام کے لئے بھیجی جانے والی رسد وامدادکی ممانعت کے موضوع کو چھیڑا گیا ہے جو کہ برطانیہ  میں  درونی اور بیرونی طور پر اعترض کا سبب بنا  ۔
اسکے بعد کے  دو مقالوں میں  فلسطین پر قبضے کی تاریخ ، جنگی جرائم و جنایت کے تحت اسرائیل کی اسٹراٹیجی کو پیش کیا گیا ہے ، “غزہ میں حمام خون کے پیچھے ” نامی مقالہ میں  مصنف نے ۲۲ روزہ جنگ کو  اس دور میں اسرائیل کی داخلی فضا،یعنی قریب الوقوع انتخابات سے ملا کر دیکھا ہے نیز ۳۳ روزہ لبنان کی جنگ اور اسی طرح کے دیگر موارد سے جوڑ کر بیان کیا ہے ۔ اور آخر میں یوسف بیکر  نے اسرائیل کے نئے ہدف کے تحت لکھے جانے والے مقالے میں  ۲۲ روزہ جنگ کے سلسلہ سے  اس جنگ کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسرائیل کی اسٹراٹیجی کی تشریح کی ہے ۔
 
 
حواشی :
[۱] ۔ اپارتھائیڈ Apartheidجنوبی افریقا میں ایک سیاسی نظام تھا جو بیسویں صدی میں ۱۹۴۰ء سے ۱۹۸۰ء تک لاگو رہا۔ اس نظام میں، جنوبی افریقہ کے لوگوں کو نسلی اعتبار سے تقسیم کیا گیا تھا ۔ Bartusis, Mark (2012). Gomez, Edmund; Premdas, Ralph, eds. Affirmative Action, Ethnicity and Conflict. New York: Routledge Books. pp. 126–۱۳۲٫ ISBN 978-0415627689.
 
[۲]  ۔ اَورام ناؤم چومسکی (عبرانی: אברם נועם חומסקי) Noam Chomsky (7 دسمبر ۱۹۲۸) ایک یہودی امریکی ماہر لسانیات، فلسفی، مؤرخ، سیاسی مصنف اور لیکچرر ہیں۔ ان کے نام کا اولین حصہ اَورام دراصل ابراہیم کا عبرانی متبادل ہے۔ انکی شناخت مشہور زمانہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شعبہ لسانیات میں پروفیسرکی حیثیت سے ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تعارف کتاب “اسرائیل کی سو ق الجیشی اہمیت اور اسکے اطراف و اکناف کا جائزہ”

  • ۳۱۵

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کی سوق الجیشی اہمیت و فن حرب کے اطراف و اکناف  کا جائزہ نامی کتاب، صہیونی مسائل  کے محقق جناب ڈاکٹر محمد تقی تقی پور کی ایک ایسی تحقیق ہے جو دو ہزار پانچ میں پہلی بار زیور طبع سے آراستہ ہوئی، اگر چہ اس کتاب کے پہلے اڈیشن کو شائع ہوئے عرصہ ہوا اور بعض لوگوں کی رائے کے مطابق اس کتاب کے تاریخی مطالب اب استفادہ کے لائق نہیں رہ گئے ہیں اور اتنے مفید نہیں ہیں کہ ان سے کچھ حاصل ہو سکے۔
بہر کیف! اس بات کو ماننا پڑے گا کہ یہ کتاب صہیونی حکومت کی اطلاعاتی کار گزاریوں اور اس  جانب سے انجام پانے والی جاسوسی کاروائیوں، کو سامنے لانے کے علاوہ وسیع پیمانے پر فن حرب سے متعلق بعض ایسے طریقہ کار کو اپنے مخاطب کے سامنے پیش کرتی ہے جنہیں صہیونی حکومت مسلسل انجام دیتی رہتی ہیں، یعنی  کہا جا سکتا ہے کہ کتاب صہیونی حکومت کے فن حرب سے متعلق بڑے منصوبوں کو کتاب سامنے لاتی ہے۔
یہ قیمتی کتاب، ایک مقدمہ، ایک پیش لفظ اور کلی عناوین کے تحت سات فصلوں پر مشتمل ہے، مصنف نے اسی طرح کتاب کے اختتام میں  ضمیمہ کے عنوان سے ایک حصہ  مخصوص کیا ہے جس میں اسرائیل کی موساد اور ایرانی شہنشاہیت کی خفیہ ایجنسی ساواک کے درمیان  خفیہ اطلاعات، سیاسی اور اقتصادی  مشترکہ تعاون کو بیان کیا گیا ہے ۔
کتاب کے مقدمہ میں  ایران کی خصوصی اہمیت، اور اسرائیل کی ایران کو دیکھنے کی نوعیت کو بیان کیا گیا ہے اور آگے چل کر اسرائیل کی تشکیل میں استعمال شدہ حکمت عملی کو اسکی بقا کے ساتھ توسیع کے طریقوں کو مختصر انداز میں  ثبوتوں اورنمونوں کے ساتھ بیان کیا ہے ۔  
کتاب کے پیش لفظ یا سر آغاز میں اسرائیل کی جانب  سے اس کے اہداف کے حصول اور اسکے اپنے طریقہ کار کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے دشمن تراشی اور مظلوم نمائی کی حکمت عملی کے اختیار کرنے کو بیان کیا گیا ہے)جسکے ذریعہ دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم مظلوم ہیں اور جو کر رہے ہیں اسکے لئے مجبور ہیں( توجہ کے لائق بات یہ ہے کہ یہ وہ طریقہ کار ہے جو صہیونی حکومت کے راہنماوں اور سربراہوں کے ذریعہ بیان ہوا ہے.
کتاب کی پہلی فصل میں موساد اور ساواک کے عنوان کے تحت، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے اہداف و مقاصد ، اسکےمعرض وجود میں آنے، اسکے ڈھانچہ، اسکی ذمہ داریوں، کے تحت موساد کی کارگزاریوں کو بیان کیا گیا ہے ، آگے چل کر موساد کے بعض سربراہوں ، اسرائیل کے وزیر اعظم ، اور صدر جمہوریہ کے عہدے پر رہنے والوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور اسکے آخر میں  ساواک کی تشکیل کی کیفیت اور اسکے موساد سے رابطہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
دوسری   فصل میں  مصنف نے ترکی ، ایران اور اسرائیل کے مابین خفیہ اطلاعات کے تبادل کے معاہدے کو بیان کیا ہے ، اس حصہ میں  مسلم ممالک ہونے کے اعتبار سے ایران اور ترکی کی  اسرائیل کے لئے اہمیت کواجاگر کیا گیا ہے ، خاص طور پر یہودیوں کے ترکی کے ساتھ  اطلاعاتی معاہدے کے وجود میں لانے کے  کردار کو بیان کیا ہے نیز آگےچل کر تینوں ممالک کے ما بین انٹلی جنس بیورو کے مشترکہ تعاون کو  کمیٹیوں ، شوری، اور اطلاعات پر مشتمل سمیناروں کے  تحت   بیان کرنے کے ساتھ  افراد کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے ۔ یہاں پر جو چیز قابل غور ہے وہ یہ کہ  بہت سے بیان شدہ مطالب کو  ساواک کی رپورٹس سے مستند کیا گیا ہے ۔
تیسری فصل میں”  سہ طرفہ  مشترکہ اطلاعاتی اجلاس ” کو بیان کیا گیا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے مقابل اس طرح کے تعلق خاطر اور بندھن کے تاریخی سابقہ کی طرف اشارہ ہے
چوتھی فصل میں  پہلے تو اتھوپیا کی اہمیت اور اسکی جائے وقوع کو بیان کرتے ہوئے اس کی اسرائیل کی بہ نسبت اسٹراٹیجکل پوزیشن سے گفتگو کی گئی ہے  اور بعدہ اس ملک کے اسرائیل کے ساتھ تعاون کی علت ،  اتھیوپیا   میں اسرائیل کے نفوذ  کی فضا کی فراہمی ،اور وہاں پر اسرائیلی اثر و رسوخ کی سطح  نیز ان تینوں ممالک کے  درمیان  اطلاعات کا مشترکہ تعاون  وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا گیا ہے   ۔
پانچویں فصل میں مصنف نے اسرائیل کی اہم اسٹراٹیجی  مغربی ایشیا سے افریقا کے شمال تک اقلتیوں میں سیندھ لگا کر وہاں اپنی پکڑبنانا بیان کی ہے  یعنی مغربی ایشیاسے  افریقا کے شمال تک   اسلامی ممالک میں کی اقلتیوں میں گھسنے اوران میں اپنا رسوخ پیدا کرنے  کو ایک اسرائیلی حکمت عملی کے طور پر بیان کیا گیا ہے ،
علاوہ از ایں جہاں پر کردوں کے مسئلہ کی بات ہوئی ہے وہاں چونکہ مرکزی نقطہ  عراق میں کردوں کا  ہی کا مسئلہ ہے لہذا سلطنت ایران کے رول سے اس لئے گفتگو ہوئی ہے کہ سیا خفیہ ایجنسی اور موساد کے درمیان کرد قیادت اور ملا مصطفی بارزانی گفتگو کے سلسلہ سے ایرانی سلطنت حلقہ وصل ہے  ۔
چھٹی اور ساتویں  فصل میں  مولف نے جانبی ڈاکٹرین ،یا  اطراف واکناف سے ماوراء ڈکٹرین و نظریات پر مشتمل صہیونی  منصوبے کی وضاحت کی ہے ۔
یعنی  سرحد سے متصل اور سرحدوں کے پرے جیسے لبان، عراق، سعودی عرب ، اردن ، اور افریقائی اور لاتینی امریکہ کے ممالک کا نام لیا ہے ، ان کی اہمیت کی وجہ بھی انکی جانب سے انجام پانے والے سرگرمیوں کی نوعیت ہے ، اور انکے پیشرو اہداف کی وضاحت ہے جنکی معلومات اور اطلاعات کو کھول کر بیان کیا گیا  ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب ’’جمہوریت کا اختتام‘‘ پر تنقیدی جائزہ . حصہ دوم

  • ۳۷۸

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ تحریر میں ہم نے جمہوریت میں سلسلہ  مراتب کے ڈھانچے ادیان کے درمیان جنگ  وغیرہ پر نظر ڈالی  اور مالی فساد کے پھیلنے کی طرف اشارہ کیا اس تحریر میں ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مالی فساد و کرپشن کے علاوہ کچھ اور ایسی چیزیں ہیں جو اسی جمہوری نظام کی پیداوار ہیں جس میں طاقت بنیاد ہے، بیہودہ مصرف  و دیگر آفتوں کے ساتھ ایٹمی مقابلہ آرائی دنیا میں شدت پسندی کا سبب بنی ہے اور جمہوریت کے ذریعہ دنیا میں آمریت و استبداد کی چولیں اور مضبوط ہوئی ہیں ۔
شدت پسندی:    {Rudeness}
گزشتہ پچاس برسوں میں ایٹمی مقابلہ آرائی عصر جمہوریت میں شدت پسندی  {Rudeness}کاسب سے بارز نمونہ ہے دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ آخر کی دہائیوں میں انسانوں کے قتل عام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت اور ڈیموکریسی کے نام پر لبوں پر مسکراہٹ سجاکر،آمریت اور استبداد سے زیادہ قتل عام کیا جا سکتا ہے ، یہ بات لائق توجہ ہے کہ آج کل کی جمہوریت کی اس جنگ میں جو ان سرزمینوں سے ہے جہاں جمہوریت کا فقدان ہے صرف لشکر اور فوج کو شکست دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس جنگ میں قوم کی طاقت کی بنیادوں کو نابود کر دینا بھی جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہے ،  اس مقام پر  جمہوری نظام کے اندر ایٹمی مزاحمت درحقیقت انسانوں کو اسیر کرنے یا ان کے قتل عام کا آخری مرحلہ ہے ؛ اس لئے کہ اس میں ایسی طاقت کے استعمال کا اختیار ایک ایسے جمہوری اصولوں پر کوئی عقیدہ نہ رکھنے والے فرد کے ہاتھ میں ہے جس کے استعمال یا عدم استعمال پر تمام لوگوں کی زندگی و موت کا دارومدار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم کی موت و حیات کا اختیار بظاہر ایک ڈیموکریٹ کے ہاتھوں میں دے دینا مزاحمت کے مقابل تمام انسانوں کو لا کر کھڑا کر دیتا ہے کیونکہ مزاحمت کی صورت میں تمام انسان یکساں ہوں گے اور جہاں تک ایٹمی حملہ کے اثرات ہوں گے وہاں تک سبھی لوگ اس مزاحمت کے دائرہ میں آئیں گے لہذا مزاحمت کے مقابل تمام انسانوں کا یکساں ہونا غلاموں کی آپسی برابری سے مشابہ ہے جس میں جتنے بھی لوگ ہیں سب کے سب غلام ہیں انسان رنگ و نسل قوم و قبیلہ کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن غلامی کے لحاظ سے سب غلام ہیں اسی طرح جب مزاحمت ہوگی تو انسان جتنے بھی مختلف کیوں نہ ہوں حملہ کے اثرات سب پر ہوں گے ، اگر جمہوری اصولوں کے مطابق بھی دیکھا جائے تو جو لوگ اس طرح کی صورت حال کو تسلیم کرنے پر راضی ہیں اور وہ شخص جو لوگوں کے دفاع کی ذمہ داری کو اٹھائے ہوئے ہے دونوں ہی جمہوری اصولوں کے خلاف ہیں ۔
اس موضو ع کو دوسرے زاویہ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ ایک مغربی انسان ان اقدار سے چشم پوشی کر لے جن کے بموجب دنیا میں جمہوریت کے اصولوں کی بالادستی کی بات ہوتی ہے اور جمہوریت کے نظریہ کو ساری دنیا میں پھیلانے کی بات ہوتی ہے اور جمہوری اقدار ونظریہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نظریہ کووجود بخشے یا تقویت دے کہ جسکی نتیجہ یہ ہے کہ عام اور غیر فوجی لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اس نظر سے نہ دیکھا جائے کہ یہ عام لوگ ہیں بلکہ انہیں اس رخ سے دیکھا جائے کہ یہ وہ لوگ ہیں جہیں بس نابود ہو جانا چاہیے ؛ اگر ایسا ہی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دور شدت پسندی {Rudeness} کا ایک ہولناک دور ہے یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان اس دور کو ڈھونڈ رہا ہے جہاں نہ صرف یہ کہ شدت عمل اور سختی و درشتی نہ ہو بلکہ سختی اس طرح ہو کہ اس میں افراط نہ پایا جاتا ہو اور عدم افراط کے ساتھ پرائیوٹ، سرکار، اور پلیس کی شدت پسندانہ سخت کاروائیوں کو انفرادی شدت پسندی سے جدا کیا جا سکے، ان کاروائیوں کا  ایک دوسرے سے متمائز اور آپس میں جدا ہونا اس لئے ہے کہ آج کی دنیا میں  مجرمانہ عمل اور جنگ میں تمیز نہیں دی جا سکتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کے محکمہ میں مجرموں کا اثر و رسوخ فیصلہ کن حد تک رہتا ہے اور اسی بنیاد پر مسافر بردار طیارے کومار گرایاجاتاہے ، امن و سلامتی کو ذاتی اغراض و مقاصد کا بازیچہ بنا دیا جاتا ہے پلوٹونیم Plutonium‏} { کو چراتے ہیں البتہ ان دولت کی ریل پیل ان پتھر دلوں کو ان کی سفاکی میں اور بھی نڈر بنا دیتی ہے حالت یہ ہو جاتی ہے کہ حتی یہ لوگ فقیر طبقے کو سالم غذائی مواد نہ ملنے کی وجہ سے اپنی موت بھی نہیں مرنے دیتے بلکہ ان ادھ مرے لوگوں کو مشین گن سے بھون دیتے ہیں ،درحقیقت جمہوریت فقیر نشین علاقوں میں شدت پسندانہ کاروائیوں کو ختم یا محدود کر کے صحت و سلامتی کاربن باندھ کر حیات نو بخشنے میں ناکام رہی ہے ، اس لئیے کہ مبادلہ کاری کے جہانی ہونے ،تنظیموں کی تحریکوں کے وجود میں آنے ،اور عام تباہی پھیلانے والے اسلحوں کے وجود اور اگر ایک جملہ میں کہا جائے تو ڈیموکریسی کی ناتوانی ہی شدت پسندانہ کاروائیوں کے ختم نہ ہونے کا سبب ہے اور ڈیمو کریسی کے ناکار آمد ہونے ہی کی بنیاد پر شدت پسندانہ کاروائیوں کے خلاف ہونے والے اقدامات شکست سے دوچار ہوئے ہیں ۔
بیہودگی و ناکار آمدی کا دور   
عصر جمہوریت میں انسان کو نہ صرف آزادی سے بلکہ ہر طرح آزادی فکر سے محروم کر دیتے ہیں ؛ چنانچہ ١٩٩١ ء میں ہونے والی عراق سے جنگ کے دوران امریکی ڈیموکریسی کاایک بڑا ہم و غم داخلی رائے عامہ {Public opinion}  کو دھوکا دینا تھا ؛ اسی وجہ سے تاریخ جنگ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ویتنام کی جنگ سے سبق لیتے ہوئے امریکی فوجی کمانڈروں نے رائے عامہ کی جہت دہی کو اتنی ہی اہمیت دی جتنی وہ جنگ کے لائحہ عمل کو اہمیت دیتے تھے ، دوسرے الفاظ میں اس جنگ کو ماہر افراد کے ذریعہ عظیم وبرتر ٹکنالوجی کے حامل کی شکل میں امریکہ نے اس طرح ہنڈل کیا جس طرح فوجی ڈسپلن کو قائم رکھنے کے لئے آپریشن ہوتے ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ آخر حقیقت میں امریکہ کب تک اپنی ٹکنالوجی کو محفوظ رکھ سکے گا ؟ نتیجہ کے طور پر اگر اس موضوع کو ایک دوسرے  زاویہ سے دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ مغربی سیاسی نظام کا حاصل یہ ہے کہ وہ کہتا ہے آزادی ہونا چاہیے لیکن ڈیموکریسی کا وہ قائل نہیں ہے اس کے پاس آزادی کا جواب” ہاں” میں ہے اور ڈیموکریسی کا” نہ” اور یہ درحقیقت ڈیموکریسی کا بیہودہ مصرف کے طور پر شان و شوکت کے ساتھ پیش کیاجانا ہے یہ بالکل وہی چیز ہے جسے جان میری گیانو نے ترقی یافتہ استبداد کا نام دیا ہے ، اس توصیف کے ساتھ ڈیموکریسی، تاریخ کے اختتام کی مدعی ہے ؛ لیکن اب دنیا میں تاریخی حقیقتوں کو تلاش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہاں تاریخی حقائق کا سامنا کرنے کی تاب نہیں ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جان میری گیانو یہ مانتے ہیں کہ: مغربی لوگ یا بہ الفاظ دیگر مارڈرنیسم کی طرف کوچ کرنے والے بغیر کسی وقفہ کے اس راستہ پر چلتے چلتے اب تھک چکے ہیں جس نے چند صدیوں قبل ترقی و پیشرفت کی فکر کو ان کے متھے جڑ دیا تھا، چنانچہ اب ان کی یہ آرزو ہے کہ کچھ دیر وہ ٹہر کر آرام کر لیں اور پیشرفت کے لدے ہوئے اس بوجھ کو زمین پر دھر کر خود چھٹکارا پا جائیں  جسے وہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی دیوانہ وار دوڑ کے مقابلہ میں اپنے ساتھ اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، ان کے سامنے ایک ایسا انقلاب ہے جسے انہیں انجام تک پہونچانا ہے یہ انقلاب ، انقلاب سیاست نہیں بلکہ معنویت کا انقلاب ہے اس لئے کہ گزشتہ چند صدیوں میں ترقی و توسیع کا عمل بے نظیر ہے ، کمپنیاں بڑی ہو گئی ہیں سنڈیکیٹ {Syndicate}  اور کیمبرج میں توسیع ہوئی ہے …لیکن یہ تمام چیزیں ریت کے ڈھیر پر بنی ہوئی عمارتوں کے مثل ہیں ؛ لہذاب یہ کہنا ضروری ہے کہ ڈیموکریسی کو خطرہ لاحق ہے اور اس کی نجات کے لئے دو راہوں میں سے کسی ایک راہ کو منتخب کرنا ہوگا اول یہ کہ نابودی کے سرچشمہ کی طرف پلٹ جائیں اور چند جہان شمولی کے اصولوں پر باہمی اتفاق کے ذریعہ ان  فطری حقوق کی ان نئی بنیادوں کی جستجو کا عمل شروع کیا جائے کہ جس کے بغیر حقوق کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ حقیقت کے روبروہوا جائے یعنی روشن گی کے اس دور سے سبق حاصل کیا جائے اور پھر یہ کوشش کی جائے کہ جن چیزیوں کو بچایا جا سکتا ہے انہیں بچایا جائے ۔
نتیجہ
مشرقی بلاک کے ٹوٹ جانے کے بعد ١٩١٧ء میں جس جدید دور (  کمیونسٹی انقلاب ) اور کچھ لوگوں کے بقول ١٩٤٥ ء ( دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ) جس دور کا آغاز ہوا تھا وہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ جو دور ختم ہو رہا ہے وہ حکومتوں کا دور ہے ؛ چنانچہ آج دنیا قوموں کا منظر سیاست و حاکمیت  پر ابھر کر سامنے کا مشاہدہ کر رہی ہے ، اس کا مطلب تاریخ کا اختتام نہیں ہے بلکہ اس کے معنی تو تاریخ جدید دور کے آغاز کے ہیں یہ دور قوموں کی حکومت کا دور ہے قوموں کے امپائر کا نظریہ ایسی دنیا کو ہمارے سامنے لاتا ہے جو بغیر کسی مرکزکے متحد ہے .
جان میری گیانو کے عقیدے کے مطابق یہ وہی دور ہے جسکا  وعدہ جناب دانیال نبی نے کیا تھا ؛” اس کے بعد چوتھی سلطنت کا قیام ہوگا جو فولاد کی مانند مضبوط ہوگی ، اور اپنے سے ٹکرانے والی ہر چیز کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دے گی ( کتاب مقدس ، دانیال نبی ، باب دوم، )وہ قوم جس کی سلطنت کا جان میری گیانو نے وعدہ دیا ہے اس سے مراد قدیمی مفہوم نہیں ہے بلکہ قوم کا جدید مفہوم ہے جس کے بعض خصوصیات یہ ہیں :
اول : مارڈن قوم میں سرزمین کا عنصر کسی قوم کے قوام و ثبات کی بنیاد نہیں ہے یعنی اس میں کسی سرزمین کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھنا اہم نہیں ہے۔
دوم : مارڈن قوم آج کل کی جمہوریتوں کے بر خلاف ٹیکس و لگان کی وصولی اور اسے مینیج کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔
سوم : کل آنے والی قوم اس بات سے باخبر ہوگی کہ کوئی بھی قوم امریکی قوم کے اندازے کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے ضروری سرچشموں اور ذخائر کو اپنے لئے فراہم نہیں کر سکتی ہے.
چہارم : کل کی آنے والی قوم صلح طلب اور امن پسند ہے لہذا دفاعی امور کے لئے کم بجٹ مخصوص کرے گی اور اس کی کوشش تعمیر آباد کاری پر زیادہ ہوگی ۔
پنجم : کل کی آنے والی قوم یہ جانتی ہوگی کہ وہ چاہے جتنی بھی طاقت ور ہو جائے عالمی ثبات کو برقرار نہیں کر سکتی ؛ جبکہ آج کی مغربی ڈیموکریسی کی نظر میں سرزمین قوم کے قوام کا بنیادی عنصر ہے ؛ ٹیکس و لگان کا حصول حکومت کے ہاتھ میں ہے انسانی حیات کے لیئے ضروری ذخائر و منابع کو حکومت پورا کرتی ہے ۔
حکومتیں اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ دفاعی امور پر صرف کرتی ہیں ، اور ڈیموکریسی کے سایہ میں زندگی گزارنے والی قومیں مغربی اقوام کی طرح خود کو عالمی امن و ثبات قائم کرنے کی توانائی کا حامل سمجھتی ہیں ؛ لیکن آج اس طرح کے سیاسی نظام کے نا کار آمدی بالکل واضح ہو گئی ہے اور یہ امر اس بات کی نوید دیتا ہے کہ جمہوریت کا دور اب ختم ہوا چاہتا ہے اس لئے کہ بجائے اس کے کہ اسے رایہ عامہ کا خیال ہو یہ حکومت کا خیال رکھتا ہے عوام سالار ہونے کے بجائے یہ حکومت سالار ہے.
تنقیدی جائزہ
جمہوریت کے موجودہ بحرانوں کی ایک مغربی دانشور (جان میری گیانو)کی جانب سے بیان کی گئی توصیف قابل توجہ ہے ؛ لیکن یہ توصیف یا تنقید قبل اس کے کہ مغربی ڈیموکریسی نظام کی نظریاتی بنیادوں کو مد نظر رکھے ، مغربی معاشروں خاص کر امریکہ میں اس کے عملی نتائج کو بیان کر رہی ہے جبکہ علمی تنقید و تبصرہ میں سب سے پہلے نظریاتی بنیادوں پر تنقید ہوتی ہے اس کے بعد عملی نتائج کی موشگافی کرتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ پہلے نظریاتی بنیادی پر مشتمل اس کے نقائص کو واضح اور برملا کر دیا جائے اس کے بعد عملی پہلو پر نظر ڈالی جائے اور نظریاتی موشگافی کے بعد عملی تجزیہ کو پیش کرنے میں ہی صحیح طور پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط؟ ؛ لیکن جان میری گیانو کے اس اثر میں جو چیز زیادہ توجہ کے لایق ہے وہ ان کی جانب سے پیش کیا ہواایسا راہ نجات ہے جسے انہوں نے جمہوریت کے موجودہ بحران سے باہر نکلنے کے طور پر پیش کیا ہے، درحقیقت جان میری ڈیموکریسی کو یکسر رد نہیں کرتے ہیں بلکہ ایک ایسے مستقبل کو ترسیم کرتے ہیں جس میں ایک ایسی جدید جمہوریت وجود میں آئے گی جس کا نام انہوں نے مارڈرن قوم یا امپریل عصر رکھا ہے ۔اس ڈیموکریسی کی بارز صفت معنویت کی طرف بازگشت ہے ساتھ ساتھ قوموں کا سیاست و حاکمیت پر پلٹنا ہے ؛ لیکن یہ معنویت ادیان آسمانی و الہی  سے زیادہ  زمینی ہے اور جدید بشری تصور کائنات سے فروغ حاصل کررہی ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ جان میری گیانو اس مذہبی قدامت پرستی کو جو انقلاب اسلامی ایران سے سرچشمہ سے انکی نظر میں وجود میں آئی ہے موجودہ مریض ڈیموکریسی کا متبادل نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جس زمینی معنویت کو گیانو نے پیش کیا ہے کہ اس کے بل پر بشری تصور کائنات جیسے  ،لبرل ازم کے مشکلات کو حل کرنے کی کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔
مجموعی طور پر ایک طرح کا ماہرانہ تضاد گیانو کے اس تنقیدی مقالے میں نظر آتا ہے جس کی منظر کشی عالمانہ انداز سے ہٹ کر سیاست مدارانہ انداز میں کی گئی ہے لیکن یہی چیز ان چاہے انداز میں  فرانس کے دانشورو روشن فکر طبقے کے دینی تعلیمات سے روایتی تضاد کو بیان کر رہی ہے ، اس میں شک نہیں کہ دنیا معنویت کی ضرورت کو آج محسوس کر رہی ہے لیکن وہ معنویت جو آسمانی ہے  اور زمینی غلاظتوں اور شیطانی کثافتوں سے مبراہے اور انسان کو دنیا و آخرت میں منزل کمال پر پہچانے پر قادر ہے ۔

 

کتاب”جمہوریت کا اختتام ” تعارف و تبصرہ اور ایک مختصر تنقیدی جائزہ

  • ۴۵۶

ترجمہ نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پیش نظر تحریر ، جان میری گیانو {Jean Marie Guehenno}کی ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل تصنیف ” جمہوریت کا اختتام”{La fine de la democratic} کے خلاصہ اور تنقیدی جائزہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا پرنٹ ہو کر آنے کے کچھ ہی دن میں مغرب کے روشن فکر محافل میں جم کر استقبال ہوا ،مغربی دانشور طبقے میں اس کی پذیرائی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ گیانو کے عقیدہ کے پیش نظر جمہوریت ہر انسانی سماج کے کمال کی انتہا و حد نہیں ہے جس کے چلتے تمام معاشرے یہ چاہیں کہ جیسے بھی ہو جمہوریت کے ہم نوا بن جائیں اور کسی بھی قیمت پر اسے حاصل کر کے ہی دم لیں اس لئے کہ آج جمہوریت تمام شمالی ممالک ( پہلی دنیا =مغرب) اور جنوبی ممالک (تیسری دنیا =مشرق ) میں بڑی رکاوٹوں سے دوچار ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں :
سیاست سے گریز پا سماج
ہم حکومتوں کے اختتامی دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں ، جسے اختتام عصر حکومت کہا جا سکتا ہے ، یہ حکومتوں کا اختتامی دور اپنے باطن میں فریب و نیرنگ کے بل پر چلنے والی سیاست کے دور کے تمام ہو جانے کے مفہوم کو لئے ہو ئے ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج سیاست سے گریز کا سرچشمہ یہ ہے کہ موجودہ جمہوریتوں میں سیاست ایک بدنام سی بد طینت شے ہے مثلا امریکہ کی سرکاری مشینری میں تیس ہزار ایجنٹوں کی لابی پائی جاتی ہے ، تیس ہزار افراد پر مشتمل ایجنٹوں کی لابی کا وجود بخوبی اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ مارڈن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کسی بھی فیصلہ لینے کے مراحل کس قدر عمیق و پیچیدہ ہونے کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں ، اس لئے کہ اگر یہ ایجنٹوں کی لابی مثلا اگر اپنے مافوق افسروں کے لئے اگر کچھ ایسی معلومات فراہم کرنے کا کام کرتی ہے جسکی روشنی میں کمپنیاں و کارخانے اپنے مفادات کا غیر قانونی ہونے کے باوجود دفاع کر سکتے ہیں وہ بھی صرف اس بنیاد پر کہ انہیں ان کی لابیوں نے ایسی اہم معلومات فراہم کی ہیں کہ جنہیں وہ ٹرسٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ورکنگ کمیٹی کے حوالے کر سکتی ہیں ،تویہ بالکل واضح ہے کہ یہ لابیاں بغیر اجرت ومفاد کے کام نہیں کرتی ہیں ، بلکہ جو بھی فائدہ ہو اس میں انکا کچھ حصہ ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی خواہش انہیں سرمایہ داروں کے مفادات کے دفاع کی طرف اور بھی کھینچتی ہے اسی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں صرف ثروت مند افراد کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں کے حقوق کا دفاع ہوتا ہے چنانچہ اب یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان ایجنٹوں کی لابی میں یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ جنرل موٹرکے حق میں بہتر ہے وہی امریکہ کے حق میں بھی بہتر ہے ۔
اس بات کا یہ مطلب ہے کہ اب سیاست کا رزلٹ عمومی مفادات کا تحفظ نہیں ہے بلکہ سیاست کے معنی خصوصی مالکین کے مفادات کے حصول کی راہوں کو تلاش کرنا اور ان کے مسائل کا حل کرنا ہے یعنی ٹریڈ یونین اور سیاست ایک دوسرے کے لئے کام کرتے ہیں مفادات کے یونین اور خصوصی مالکین کے لئے مخصوص ہو جانے کی منطق اسکے بے شمار ذیلی شعبوں اور برانچوں کے وجود میں آنے کا سبب بنے گی اب یہ ایک فطری بات ہوگی کہ ہر ایک اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے جو بن پڑے انجام دے گا ہر وہ طریقہ کار استعمال میں لائے گا جس سے زیادہ سے زیادہ اس کو فائدہ ہو سکے ،یعنی یہ وہ دنیا ہے کہ جسکی قدرت محرکہ یہ نہیں ہے کہ مشترک مفادات کو قانونی درجہ دیا جائے اور انہیں تسلیم کی کیا جائے بلکہ یہاں پر سب کی لڑائی سب سے ہوگی بالفاظ دیگر باہمی گتھا گھتی کا سماں ہوگا ، ایک ایسی گتھا گھتی و باہمی لڑائی کہ جس میں ایک انسان کی طاقت کی سرحد اپنے ہی ہمسایہ کی طاقت کی سرحد ہوگی ایسی ہولناک فضا کا ماحصل ایک ایسی دنیا کی صورت میں سامنے آئے گا کہ جس کی تعریف انسانی اصولوں کے دائرہ میں ممکن نہ ہوگی بلکہ اس فضا میں ایک دوسرے سے الگ پہچان ان مشکلات کے ذریعہ ہوگی جنہیں صرف ذاتی مفادات کے حصول کے شیووں ہی کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر اب ایک سیاست مدار کا فریضہ یہ بنتا ہے کہ یونین اور خصوصی مالکین کے مسائل کو ادارہ کرے اس صورت میں سیاست مدار پہلے مرحلہ میں ایک بشارت دینے والا شخص ہے لیکن یہاں پر مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس جو ذرائع و وسائل ہیں ان سے کچھ اپڑنے والا نہیں ہے اس لئے کہ و ہ ناامیدی کے سوا کسی کچھ اور نہیں دے سکتے ، دوسری بات یہاں پر یہ ہے کہ سیاست مدار رپوٹروں اور میڈیا کی شراکت میں معاشرے کے شعور و درک کو غلط راستہ پر ڈال کر ادارہ کرتا ہے تیسری بات یہ ہے کہ یہاں پر اس طرح کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ سیاست مدار جس چیز کے بارے میں بول رہا ہے صرف وہی ہے اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے سب کچھ اپنی جگہ صحیح ہے اس لئے کہ اسکا فیصلہ اور اس کی تدبیر ہی درست ہے ۔چوتھی بات یہ ہے کہ جو معرفت عمیق اور گہرے ہونے کی شایستگی رکھتی ہے وہ علامتوں کی شناخت ہے نہ حقیقتوں کا کشف کرنا یعنی معرفت و شناخت کا کل مفہوم یہ ہے کہ یہ ان دستورات اور اصولوں کی پردہ کشائی کرتی ہے جو فردی ، خصوصی اور گروہی پیشرفت کا باعث ہوں نہ یہ کہ وہ قومی ، عمومی اور مجموعی طور پر پیشرفت کے اصولوں سے نقاب کشائی کریں ،اس سیاست کا نتیجہ ایسے سماج کی صورت میں سامنے آئے گا جہاں نہ کوئی شہری ہے اور نہ ہی اسکا کوئی ذاتی تشخص ہماری اس گفتگو کے پیش نظر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ ایک برتر جمہوریت کے آئیڈیل کی صورت میں سیاسی انسداد کا شکار ہے، اس لئے کہ معاشرہ کا پارہ پارہ ہو جانا اور خصوصی مالکیت کے مفادات کی ہوڑ اس بات کی سبب بنی ہے کہ متعدد ایسے محاذ اور گروہ وجود میں آئیں جو اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں ،اور یہ اس وجہ سے ہے کہ چھوٹے چھوٹے فیصلوں کی ایک چھوٹی سی زنجیر ایک چھوٹے سے گروہ نے اپنے چھوٹے چھوٹے اہداف تک پہچنے کے لئے بنا لی ہے جسکے حلقے ایک دوسرے کے مختصر دائرہ میں اپنے مفادات کے تحفظ میں پیوست ہیں اس درمیان عمومی مفادات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جسکے نتیجہ میں یہ تعجب کی بات نہ ہوگی کہ پشرفتہ جمہوریتوں میں رائے دہندگان الیکشن میں کم سے کم حصہ لیں اور سیاست مداروں کی ساکھ روز بروز اپنے وطن میں کمزور ہوتی جائے ۔
اجتماعی دراڑیں اور فاصلے
جمہوریت ایک عالمی امپائر تشکیل دینا چاہتی ہے لیکن اس کام کے لئے اسے ایک ایسی بڑی طاقت میسر نہیں جس کے سایہ میں جمہوریت کو عالمی کیا جا سکے اس لئے کہ جمہوریت کا کوئی ایک نظری اور عملی مفہوم نہیں ہے مثال کے طور پر امریکی جمہوریت اور یورپین جمہوریت میں بہت فرق پایا جاتا ہے مثلا ایک فرق یہ ہے کہ یورپی جمہوریت ایک دوسرے کو جوڑے رہنے اور مل کر آگے بڑھنے کے عنصر پر زور دیتی ہے لیکن امریکی جمہوریت کا زیادہ زور آزادی پر ہے شاید یہی سبب ہے کہ ہر فرانسسی ، جرمنی اور برطانوی کی یہ آرزو ہے کہ ایر بس بوئنگ سے زیادہ کامیاب رہے ،البتہ خود یورپی لوگوں کے درمیان کافی تضاد دیکھنے میں آتا ہے مثال کے طور پر فرانس کے باشندوں کی یہ عادت ہے کہ وہ قومی مفادات پر سوال اٹھاتے ہیں ، لیکن جرمنی اپنے بارے میں بدگمانی کا شکار رہتے ہیں اور انکا رد عمل کچھ اور ہوتا ہے یعنی بدگمان رہنے کی وجہ سے فرانس کے باشندوں سے مختلف رہتے ہیں ، مفادات کا یہ تضاد اور جمہوریت میں انسجام و انصرام کا نہ ہونا اپنے اپنے ملکوں کے باشندوں کی پریشانی کا سبب بنتا ہے حتی قومی سطح پر امریکہ میں بھی یہ تضاد آشفتہ حالی کی کیفیت نظر آتی ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ واشنگٹن جب ٹکزاس ، کالیفورنیا ، اور نیویارک کے باشندوں کے متضاد مفادات کو ایک دوسرے سے نہیں جوڑ سکتا تو آخر سوئڈن ، پولینڈ ، اٹلی ، فرانس اور پرتگال کے لوگوں کے مفادات کو اپنے مفادات کے ساتھ کیسے جوڑ سکتا ہے؟
اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ امریکہ اور نہ یورپ کوئی بھی عالمی طاقت میں تبدیل نہیں ہو سکیں گے ، لہذا بہتر یہی ہوگا کہ عالمی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے چینلوں یا چند قطبی دنیا کی بات کی جائے اس لئے کہ جس طرح موجودہ دور کی صورت حال سامنے آ رہی ہے اس کے مطابق جمہوریت عالمی سیاست کے ایک پیکر کو وجود بخشنے کے لئے ناکار آمد ہے بلکہ جو کچھ رونما ہو رہا ہے وہ ایک ایسے سلے ہوئے کپڑے کی صورت ہے جس کی سلائی آشکار و واضح نہ ہو ،یہ سلائی جو بھی ہو لیکن اس سے عالمی جمہوریت کی ایک بڑی طاقت ابھر کر سامنے آنے والی نہیں ہے جس کا نتیجہ ایک ایسی فضا کا وجود میں آنا ہے جس سے جڑ ے ہوئے ہر ایک ملک کے سیاسی ڈھانچہ کی جڑیں مقامی اور علاقائی اعتبار سے کافی گہرائی میں پیوست ہیں اور اسی بنیاد پر سیاسی نظام کی ہر یونٹ اپنے عالمی رول کو ادا کر سکتی ہے اور بقدر کافی دیگر ممالک اور دیگر سیاسی یونٹوں سے متصل رہ کر اپنے نقص وجودی کو کم کر سکتی ہے ۔
یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اپنے رول کی ادائیگی کے لئے اس بات سے آگاہ و باخبر ہونا ضروری ہے کہ اہرامی شکل کا وہ سلسلہ مراتب کہ جس کی عالمی توسیع کی درپے ڈیموکراسی ہے درحقیقت اب ختم ہوتا جارہا ہے اور نابودی کے کگار پر ہے اور اس کی جگہ قدرت کا ایک درخت نمونہ نما جانشین کے طور پر وجود میں آ رہا ہے ، اہرامی شکل کے سلسلہ مراتب کا ڈھانچے میں قدرت و طاقت کا مطلب کنڑول کرنا اور حکم دینا ہے اب یہ سلسلہ مراتب اپنی جگہ ایک ایسے ڈھانچہ کو دے رہا ہے جس میں کئی ایک دوسرے سے متصل حلقوں میں قدرت تقسیم ہو رہی ہے اس سیاسی ڈھانچہ میں قدرت و طاقت کا مفہوم ایک دوسرے سے جڑے رہنا اور دیگر سیاسی یونٹوں سے تعلق بنائے رکھنا ہے یہ ایسا ڈھانچہ ہے جس میں قدرت و طاقت کا تعین اثر رسوخ و نفوذ کی شرح کے ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے اس میں اس ملک یا اس ملک پر لگام نہیں کسی جاتی ۔
قدرت و طاقت کے درختی تصور میں ایک ایسی سیال دنیا کا وجود سامنے آتا ہے کہ جس کا ثبات مختلف شعبوں اور تنظیمیوں کی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ اس کا ثبات تبدیلیوں پر استوار ہے، اس لئے کہ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں زیادہ لچک پائی جاتی ہے اور یہ زیادہ با ثبات ہے ایک ایسی دنیا جسے حیاتیات{Biology.} کے پروگرام کے مطابق تعمیر کرنا ہوگا فزکس کے قوانین کے مطابق یہ وہ دنیا ہے جسے ڈیموکراسی کے ان اصولوں سے ماوراء ہو کر بنانا ہوگا کہ جن کی کوشش یہ ہے کہ واحد اور غیر لچک دار دستور کے مطابق ایک دوسے سے ہم آہنگ نظام کو دنیا میں پھیلا دیا جائے ۔
ناکار آمد فیصلوں کا مرحلہ وار عمل
فکرو اندیشہ ڈیموکراسی کو آزادی سے جوڑتا ہے ، لیکن آزادی کے معنی اگر اپنی سرنوشت کے انتخاب ، یا قدرت کو لگام دینے کے معنی ہیں تو یہ اب اپنے زوال کے دور سے گزر رہے ہیں قدرت کے نفاذ پر نظارت کا دور اب ختم ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ پوری عالمی جمہوریت کی کشش کا رنگ اب پھینکا پڑ گیا ہے ۔
در حقیقت کچھ لوگوں کے ارادوں کو دوسروں کے سر تھوپنا اقلیت کی آزادی کے لئے ایک خطرہ ہے اس ڈیموکراسی کے کھیل کے اصول و ضوابط ہی ڈیموکراسی کو نافذ کرنے کے معیاروں کو معین کرتے ہیں اس میں کوئی حساب کتاب نہیں ہے اور سیاسی فیصلوں پر بھی کوئی جانچ پڑتال نہیں ہے جس کا نتیجہ یوں سامنے آیا ہے کہ ڈیموکریسی کے اس کھیل میں من مانی کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے چنانچہ اجتماعی بھید بھاوئو اور چپقلشوں میں اضافہ ہوا ہے ، جبکہ جاپان کا سیاسی اور اجتماعی نظام امریکہ کے دیموکراسی کے کھوکھلے دعووں سے بہتر طور پر عمل کر رہا ہے ، اس لئے کہ اس میں کسی بھی سیاسی فیصلہ سے قبل مختلف میٹنگیں ہوتی ہیں ان میٹنگوں میں تمام نظریات کو سامنے آنے کا موقع ملتا ہے اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں کسی ایک نتیجہ تک پہچنے کے لئے جلسوں اور میٹنگوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہرگز فرضی نہیں ہے بلکہ گفتگو کے اختتام پر بیان کیے گئے نظریات کو صیقل کیا جاتا ہے جس سے بہتر نظریات نمایاں ہو جاتے ہیں ، آخری فیصلہ تمام چھوٹے چھوٹے فیصلوں کو ملا کر کیا جاتاہے ، ان میٹنگوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ تمام وہ لوگ جو ان میٹنگوں میں حاضر ہوتے ہیں وہ اپنے فیصلوں کی آنے والی ذمہ داریوں میں شریک ہو جاتے ہیں اور اس طرح انہیں پتہ چلتا ہے کہ انکا فیصلہ صحیح تھا یا غلط چنانچہ اگر صحیح نہ ہو تو پھر اس کی اصلاح کرتے ہیں ، جاپان اس لحاظ سے بالکل امریکہ کے مقابل کھڑا نظر آتا ہے ، اس لئے کہ امریکائی منطق سب پر یہ حکم نافذ کرتی ہے کہ اپنے تمام امکانات و وسائل کا استفادہ اس جنگ میں کامیابی کے لئے کیا جائے جس میں حق و ناحق کا فیصلہ اجتماعی قرار دادوں کا قانون کرتا ہے، لیکن جاپان کی منطق اعتدال و احتیاط کی تاکید کرتی ہے ، فیصلہ لینے کے اس طریقہ کار میں نہ کوئی مرکز ہے نہ کوئی بڑی طاقت ، بلکہ یہاں ایسے بہت سے گروہ نظر آئیں گے جن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے ساتھی گروہ کی طاقت کو نقصان پہچائے بغیر فیصلہ لے سکیں اور اس کے نفاذ کی شرح میں اضافہ کر سکیں یہاں پر دونوں گروہ جب فیصلہ کی گھڑی آتی ہے تو دو طرفہ طور پر اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر اپنی بات کو پیش کرنے کی دو بنیادی اصولوں کے پابند ہیں لہذا اس صورت میں اب کوئی اور ایسی قدرت کا وجود ہی نہیں ہوتا جو ان کی تابع ہو بلکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ ایسی قدرت و طاقت کی شکل میں ہے جو تقسیم ہو چکی ہے یا یوں کہا جائے ذروں ذروں میں بکھرنے کے بجائے پھیل گئی ہے اور اسی وجہ سے آپسی ستیز و جنگ کو اس نے بے اثر بنا دیا ہے اس کے برخلاف امریکائی فیصلوں کے چینل میں اگر کوئی بڑی طاقت کہیں سر اٹھاتی ہے تو اسے فی الفور کچل دیا جاتا ہے یا اس مرکز کو تتر بتر کر دیا جاتا ہے ۔

 

“مجھ سے جھوٹ مت بولو”

  • ۲۲۹

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، کتاب “مجھ سے جھوٹ مت بولو” ‘جان پیلجر’ (jOHN PILGER) کی ایسی کاوش ہے جس میں انہوں نے محقق صحافیوں اور نامہ نگاروں کی تاریخ ساز رپورٹوں کو اکٹھا کیا ہے۔
مصنف پر ایک نظر
جان پیلجر امریکہ کی کورنل یونیورسٹی (Cornell University) کے استاد اور محقق صحافی ہیں کہ جن کے مضامین، کتابوں اور دستاویزی فلموں کو پروفیسر نوام چومسکی نے نور ہدایت اور مشعل راہ قرار دیا اور ان کے بیانات کو الہام بخش گردانا۔ اس کتاب سے پہلے آپ کی کتاب THE NEW RULERS OF THE WORLD منظر عام پر آئی جو کافی معروف ہوئی لیکن یہ کتاب “مجھ سے جھوٹ مت بولو” جس میں انہوں نے گزشتہ ساٹھ سالوں کے محقق صحافیوں کی اہم اور بہترین رپورٹوں کو جمع کیا اور Tell Me No Lies: Investigative Journalism and its Triumphs کے عنوان سے اس مجموعے کو منظر عام پر پیش کیا۔
مصنف نے اپنی اس کاوش کے نتیجے میں تاہم بیس مرتبہ سے زیادہ عالمی ایوارڈ حاصل کئے ہیں جن میں برطانیہ کا سب سے بڑا ایوارڈ ” برطانیہ کا اعلی ترین برطانوی صحافی ایوارڈ” اور اقوام متحدہ کا “میڈیا امن ایوارڈ” بھی شامل ہیں۔ نیز انہوں نے اپنی ٹی وی رپورٹس کی وجہ سے آسکر ایوارڈ (Oscars)، Emmy Award اور فرانس سے Reporters Without Borders Awards بھی حاصل کئے ہیں۔
کتاب پر ایک نظر
یہ کتاب جرات مندانہ اور حیران کن رپورٹوں اور بہترین مقالات پر مشتمل ہے ایسی رپورٹیں جو غیر معمولی اور امتیازی حیثیت رکھتی ہیں اور ان سب کا مشترکہ عنصر ظلم کے خلاف قیام سے عبارت ہے چاہے وہ ویٹنام کی جنگ میں امریکہ کی رضامندی کا سیمور ہارس کے پردہ چاک ہو یا فاسٹ فوڈ انڈسٹری کے بارے میں اشلوزر کا انکشاف ہو یا غزہ کے دردناک واقعات کے بارے میں یہودی نامہ نگار امیرہ ھس کی حیران کن رپورٹیں ہوں۔
جیسا کہ امریکی آزاد اندیش اور لاؤس کے خلاف سی آئی اے کی خفیہ جنگ کا انکشاف کرنے والا صحافی ” ٹی ڈی آلمن” کا کہنا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف شاندار اور حقیقت پر مبنی رپورٹوں کا مجموعہ ہے بلکہ ان تمام افراد کے لیے فکر و عمل کی دعوت ہے جو نوع بشر کے لیے شرافت اور عدالت کے ستونوں پر قائم نظام زندگی کی تمنا رکھتے ہیں۔ یہ کتاب اسکار وائلڈ کے نظریات کا خلاصہ ہے۔ جہاں وہ کہتے ہیں: “ہر اس شخص کی نظر میں جس نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے نافرمانی اور معصیت انسان کی سب سے پہلی فضیلت ہے”۔ یہ کتاب اور اس کی رپورٹیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کیسے صحافیوں نے حقیقت کو مصلحت پر قربان نہیں کیا، واقعات کی صحیح منظر کشی کرنے میں کسی لغزش سے دوچار نہیں ہوئے اور حکمرانوں کی اشرفیوں پر اپنے ضمیروں کو بیچ دینا گوارا نہیں کیا۔
 
کتاب “مجھ سے جھوٹ مت بولو” ۶ سو صفحوں پر مشتمل ۲۸ مقالات کا مجموعہ ہے جن میں سے بعض مقالات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
ڈاچاؤ (Dachau) ( نازیوں کی موت کے کیمپوں سے متعلق)، رپورٹر مارٹا گلہورن، سن ۱۹۴۵
ایٹمی طاعون، ( ہیروشیما پر ایٹمی بمباری سے متعلق)، رپورٹر ولفرڈ برچٹ، سن ۱۹۴۵
مائی لائی کا قتل عام، (ویٹنام میں امریکی جنگ سے متعلق) رپورٹر سیمور ہارس، سن ۱۹۷۰
عالمی حکومت اور امریکہ کا خواب، ڈی آرمسٹرانگ، سن ۲۰۰۲
خاموش جنگ، اقتصادی پابندیاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے مترادف، (عراق پر اقتصادی پابندیوں کے تباہ کن نتائج سے متعلق ) جوی گورڈن، سن ۲۰۰۲
تیمور کی دستاویزات، (یہ دستاویزات واضح کرتی ہیں کہ امریکہ اور اسٹریلیا ۱۹۷۵ میں مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کی جارحیت سے مطلع اور اس پر رضامند تھے)، برین توہی اور مارین ویلکینسن، سن ۱۹۸۷
دھشتگردی؛ (صبرا اور شتیلا کیمپوں میں ۱۹۸۲ کو کئے گئے فلسطینی عوام کے قتل عام سے متعلق) رپورٹر رابرٹ فیسک، ۱۹۹۰ سے ۲۰۰۱ تک
ناکہ بندی؛ (اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کی ناکہ بندی سے متعلق) رپورٹر امیرہ ھس، سن ۱۹۹۶
الٹی دنیا؛ (دو ایسے جڑواں امراض جو انسانیت کو کھوکھلا کر دے رہے ہیں؛ ایک تشہیر، اور دوسرا؛ اہل اقتدار کے ہاتھوں عالمی امن کا گمان)، ایڈورڈ گلناؤ، سن ۱۹۹۸
اسلامی میڈیا کی کیوریج اور دھشتگردی، ایڈورڈ سعید، ۱۹۹۷/۲۰۰۲

...........

 

 

کتاب ’یہودی و پارسی ثروت مند حکمران طبقہ، برطانیہ و ایران کا استعمار‘ کا تعارف

  • ۳۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  ’یہودی و پارسی ثروت مند حکمران طبقہ، برطانیہ و ایران کا استعمار‘ نامی کتاب، ایک تاریخ نگار مصنف ومحقق ’’استاد عبد اللہ شہبازی‘‘ کے قلم سے سامنے آنے والی کتاب ہے۔ جناب استاد شہبازی آج کی دنیا کے ثروت مندوں کو ایک قبیلے اور خاندانی ڈھانچے کا حامل سمجھتے ہیں، لہذا اس کتاب کی تصنیف کے دوران مصنف کے ذہن کو جس چیز نے اپنے آپ میں مشغول کیا ہوا تھا وہ یہ بات تھی کہ، ’’برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ (The British East India Company) کی بے پناہ ثروت اور اسکے سرمایہ کا انبار ۱۸۵۷ ء میں اسکے سرکاری طور پر تحلیل ہو جانے کے بعد کیا ہوا ؟ اور اس کمپنی کے باقی ماندہ مالکین، اسکے وارث اور اسکے چلانے والے کون لوگ ہیں؟
لہذا اپنے اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے کے لئے مصنف نے اس پورے موومنٹ کے سرے کو پانے اور اسکے پورے ماجرے کے دقیق طور پر تجزیے کے لئے جینیاتی شناخت کے اسلوب یا علم الانساب سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی تحقیق کے نچوڑ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کتاب کا ماحصل یہ ہے کہ اسے پڑھ کر قاری ثروت مندوں کے آپس میں ایک دوسرے سے جڑے اور پیوست شدہ ایک بڑے اوروسیع طبقہ کے زنجیری حلقہ یا نیٹ ورک کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور موجودہ دور میں بھی محض خاندانوں کی دولت کے سلسلہ سے جستجو یا بعض بڑی کمپنیوں کے بارے میں تحقیق و جستجو سے پتہ چلے گا کہ یہ بڑی کمپنیاں ایک بڑے خاندانی و اقتصادی نیٹ ورک سے جڑی ہیں لہذا ہماری جستجو ہمیں اسی منزل پر لے کر جائے گی جہاں ان اقتصادی و خاندانی طور پر ایک دوسرے سے جڑے چینلز کا ہم سامنا کریں گے، ہم ان اولیگارکی oligarchy[۱] اور ثروت مند طبقوں اور مالداوں سے جا ملیں گے جو سولہویں اور انیسویں صدی کے غارت گروں اور استعماروں کے بلا واسطہ یا با واسطہ وارث ہیں ۔
جناب شہبازی نے یہودی اولیگارکی طبقہ کو ایک دوسرے سے جڑا ایک ایسا مجموعہ قرار دیا ہے جو یہودیوں کی قیادت کو سنبھالے ہوئے ہے اور یہ وہ اولیگارکی ہیں جو عالمی سامراج و پورپین استعمار سے گہرے روابط کی بنا پر دنیا کی چند آخری دہائیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور پیش آنے والے واقعات میں اہم کردار ادا کرنے کا سبب رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ مخصوص و متعین سیاسی و اقتصادی مراکز کے رول سے غفلت برتتے ہوئے صرف جدید مغربی دنیا کی تشکیل کی تاریخ کا تجزیہ اور وہ بھی محض علمی انقلاب اور فکر و تمدن جیسی چیزوں پر تکیہ کرتے ہوئے ان مباحث کی موشگافی ایک نامناسب قدم ہے ۔مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ رنسانس[۲] ( نشاۃ ثانیہ ) کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ’’مدیجی ‘‘ [۳]فیملی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے نہ ہی اس دور کے سیاسی و اقتصادی مراکز کے بارے میں کچھ جانتے ہیں یعنی ہمیں رنسانس ( نشاۃ ثانیہ ) کے بارے میں تو بہت کچھ پتہ ہے لیکن رنسانس ( نشاۃ ثانیہ ) کو کھڑا کرنے والے اور اس تحریک کو دوش پر لیکر چلنے والوں، اسے سہارا دینے والوں کے سلسلہ سے ہماری واقفیت نہیں ہے ۔ہم سب نوبل کا انعام رکھنے والے ایلفرڈ نوبل [۴]کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔
ہم میں سے کم ہی لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ نوبل گھرانہ باکو [۵]کے تیل کے ذخائر کا مالک تھا جس نے تیل کے کنووں کو روچیلڈ [۶]یہودی ثروت مندوں کو بیچ دیا اور انجام کار یہ سارا سرمایہ مارکوس ساموئیل [۷]یہودیوں کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی ’رویئل ڈچ شل[۸] کمپنی‘ کے سب سے پہلے بانیوں میں سے ایک اور کمپنی کے ڈائکٹر و سربراہ تک منتقل ہو گیا ۔ اس کتاب کی تالیف میں سات سال کے لگ بھگ وقت صرف ہوا، اسکے علاوہ جناب شہبازی نے ۱۷ مہینوں کا عرصہ منابع و مآخذ کی تقویت و مضبوطی میں صرف کیا تاکہ اس طاقت اور ثروت کے مرکز کی دقیق اور واضح تصویر مخاطبین کے سامنے آ سکے، انجام کار یہ کتاب پانچ جلدوں میں چھپ کر منظر عام پر آ گئی۔یہ ایک ایسی کتاب ہے جو محققین و رسچ اسکالرز کے لئے متعلقہ موضوع میں میں مفید اور رہ گشا ثابت ہو سکتی ہے۔
پہلی جلد:
اس کتاب کی پہلی جلد سمندر کے اس پار ’برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کی ثروت کے اکھٹا ہونے کی کیفیت اور اس کمپنی کی غارت گری کو بیان کرتی ہے، اس کتاب کے اصلی اہداف میں ایک پارسی اولیگارچی کی شناخت اور یہ خاندان موجودہ سندوں اور ثبوتوں کے مطابق یہودی اولگارچیوں سے ایک گہرا تعلق رکھتا ہے لہذا آج کے یہودیوں کے طریقہ کار اور انکے موجودہ طرز عمل کو سمجھنے کے لئے اس کتاب کے دوسرے حصہ میں قوم یہود کی قدیم و پرانی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔
دوسری جلد:
دوسری جلد کے پہلے حصہ میں یورپ کے حکمرانوں کا یہودی ثروت مندوں اور اولیگارچیوں سے تعلق و رابطہ کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح انہوں نے دربار میں نفوذ پیدا کیا اور کس طرح مشرقی سرزمینوں اور امریکہ کو غارت کرنا شروع کیا، اور دوسری جلد کے دوسرے حصہ میں یہودیوں کے عرفان ’کابالا‘ اور اسکی عیسائیت میں تاثیر اور پر اسرار فرقوں کی تشکیل کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور اس جلد کے آخری حصہ میں خاص طور پر یہودیوں کے برطانوی دربار سے تعلق اور ان کے کاموں کی نوعیت کا تجزیہ کرتے ہوئے اسکی موشگافی کی گئی ہے۔
تیسری جلد:
اس جلد کے مباحث دو حصوں میں بیان ہوئے ہیں ، پہلے حصہ میں  ’اریسٹو کریٹ‘ طبقے کے مغرب میں سرچشمہ کو بیان کیا گیا ہے اور اسکے تجزیئے کے بعد دوسرے حصہ میں ’تالبوت‘، ’چرچیل ہاملٹن‘، ’سیسیل‘ وغیرہ کے گھرانوں پر روشنی ڈالی گئی ہے یہ وہ گھرانے ہیں جنہوں نے برطانوی اشرافیہ اور وہاں پر موجود ثروت مند طبقہ کے بنیادی ڈھانچہ کو تشکیل دیا ہے اور اسے آج ہم بوڑھے سامراج و استعمار کے نام سے جانتے ہیں۔
چوتھی جلد:
اس جلد میں خاص طور پر ’فری میسن فرقہ‘ کے سلسلہ سے گفتگو کی گئی ہے جسکا یہودیت سے ایک گہرا تعلق ہے علاوہ از ایں اس میں موجودہ دور میں ثروت مندوں کے وجود میں آنے میں انکے کردار کو بیان کیا گیا ہے ۔
پانچویں جلد:
پانچویں جلد میں روایتی انتظامیہ جیسے حکومت عثمانی، روس کے تزاریوں کی حکومت کے اضمحلال میں ارسٹوکریٹ طبقے اور یہودی ثروتمند طبقے کے کردار اور سرمایہ داری سسٹم کے وجود میں آنے کو مورد گفتگو و مطالعہ قرار دیا گیا ہے ۔انجام کار کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب اس اعتبار سے کہ یہودی خاندانوں کی تاریخ کا ایک تجزیہ پیش کر رہی ہے اور موجودہ مغربی دنیا پر انکے اقتدار کی کیفیت کو بیان کر رہی ہے، نیز اس سیاست کو بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو یہودی ہمارے مقابل استعمال کر رہے ہیں لہذا اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید اور رہ گشا ثابت ہوگا۔
حواشی :
[۱] ۔ Oligarchy یہ ایسا طبقہ ہے جس میں سیاست و اقتدار کی باگ ڈور مرکزی طور پر امیروں اور ثروت مندوں کے پاس ہوتی ہے اور یہ ثروت مند طبقہ یوں تو اپنے ہم نوعوں کی آبادی کا ایک مختصر اور چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے لیکن ان پر حاکم ہوتا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر من مانے طریقے سے حکومت کرتا ہے اور اس پر کسی بھی طرح کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کوئی اس سے کچھ پوچھنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلاں کام تم نے کیوں کیا ، یہ لوگ جو مرضی آٗئے انجام دیتے ہیں یہ اصطلاح افلاطون کے زمانے سے چلی آ رہی ہے یہ ایک ایسا تصور حکومت یے جس میں چند گنے چنے افراد اپنے مفادات کے حساب سے دیگر لوگوں پر حکومت کرتے ہیں
۲۔ نشاہ ثانیہ (: Renaissance قرون وسطیٰ میں یورپ خصوصاً اٹلی سے اٹھنے والی ایک ثقافتی تحریک جو ۱۴ ویں سے ۱۷ ویں صدی تک جاری رہی ۔
[۳] ۔ نشاہ ثانیہ کے دور میں ایک طاقت ور اطالوی گھرانہ
[۴] ۔ Alfred Bernhard Nobel ، الفریڈ نوبل سویڈن کے کیمیادان، انجینیئر، جنہوں نے ڈائنامائیٹ کی ایجاد کی ۔ اور مرتے وقت اپنی وصیت میں بے شمار دولت کا ایک بڑا حصہ نوبل انعام دینے کے لیے وقف کر دیا۔ مصنوعی تیار کیے گئے عنصر ” نوبلیئم” کا نام بھی انہیں کے نام پر رکھا گیا ہے ۔
[۵] ۔ باکو (انگریزی: Baku،آذری: Bakı) بحیرہ لیسپئین کے کنارے واقع آذربائیجان کا دارالحکومت اور سب وہاں کا سب سے بڑا شہر،
باکو تیل کی دولت سے مالا مال علاقے میں واقع ہونے کے باعث تیل کی صنعتوں کا مرکز ہے۔ باکو کا نام فارسی لفظ بادکوبہ (ہواؤں کا مارا ہوا) سے مشتق ہے اور اس کے محل وقوع کے لحاظ سے بہت موزوں ہے۔ قرون وسطٰی کے مورخین اسے باکویہ، بلاکوہ اور باکہ بھی لکھتے ہیں۔ تاریخ میں اس کا ذکر تیسری صدی ہجری کے بعد برابر آتا ہے۔ باکو عرصے تک شاہان شیروان کے ماتحت رہا۔ ۱۵۵۰ء میں صفوی سلطان طہماسپ اول کا اس پر قبضہ ہو گیا۔ ۱۵۸۳ء تا ۱۶۶۰ء یہ شہر عثمانی ترکوں کے ماتحت رہا۔ ۱۸۰۶ء میں روسیوں نے اسے ایرانیوں سے چھین لیا فی الوقت ملک آذربایجان کا پایتخت ہے ۔
[۶] ۔ روتھشیلڈ (Rothschild) ایک یورپی یہودی خاندان ہے جو نہ صرف یورپ کے مختلف ممالک میں بینکاری کے نظام پر حاوی ہے بلکہ امریکہ کے فیڈرل ریزرو کے بنیادی حصہ داروں میں بھی شامل ہے۔ اس کے مشہور لوگوں میں بیرن روتھشیلڈ شامل ہے جو برطانیہ میں یہودیوں کا نمائندہ تھا اور فلسطین پر یہودی قبضہ کو مستحکم کرنے میں اس کا کردار ڈھکا چھپا نہیں اور اس کا نام اعلانِ بالفور میں بھی آتا ہے
[۷] ۔ Marcus Samuel, 1st Viscount Bearsted
[۸i] ۔ Royal Dutch Shell
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب ’صہیونیت کی وجہ سے: امریکی ثقافت میں یہودی -عیسائی میراث‘ کا تعارف

  • ۳۶۶

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب کا اصلی نام: “من اجل صهیون: التراث الیهودی- المسیحی الثقافه الامریکیه”
تالیف: فواد شعبان
اسلام کے تئیں مغربی دنیا کی دشمنی اور بدظنی سات سو سال پرانی ہے۔ اس دشمنی کا آغاز اس وقت ہوا جب گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں مغرب کے اندر صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن عصر حاضر میں جس چیز نے اس پرانی دشمنی کو مغربیوں کے دلوں باقی رکھا ہوا ہے وہ اسلامی ممالک کی طرف سے اسرائیل کی مخالفت اور اسے ایک آزاد ریاست کے عنوان سے تسلیم نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے صہیونی میڈیا نہ صرف مغربی معاشرے کو مسلم ممالک کے خلاف ابھارتا بلکہ وہ بطور کلی مغربی معاشرے میں اسلام کو ایک شدت پسند دین کے عنوان سے متعارف کروانے کی کوشش کرتا ہے اور اسلام کے تئیں ان کی قدیمی دشمنی کو بہر صورت ذہنوں سے مٹنے نہیں دیتا۔ امریکہ کا عیسائی بنیاد پرست معاشرہ کتاب مقدس کے لفظ لفظ پریقین رکھتا ہے اور اس بنا پر وہ یہودی قوم کے لیے ایک خاص مقام و منزلت اور اسرائیل اور صہیون کے لیے اہمیت کا قائل ہے۔
یہ عیسائی جماعت جو یہود و نصاریٰ کی یکجہتی کو شدت پسندانہ طریقے سے ترویج کرتی ہے اس بات کی تلاش میں ہے کہ اسلام کو دونوں ادیان کے ماننے والوں کے درمیان مشترکہ دشمن کے عنوان سے متعارف کروائے۔ انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی طاقت کا بھرپور استعمال کر کے اسلام، عربوں اور مسئلہ فلسطین کی نسبت امریکہ کے لوگوں کی نگاہ کو تبدیل کر دیا۔ لہذا آپ مشرقی امور کے ماہرین امریکی دانشوروں جیسے ویلیم تھامسن (William thomson) ایڈوارڈ رابن سن (Edward robinson) اور ویلیم لینچ (William Lynch) کے آثار میں اسلام پر عسکریت پسندانہ حملوں کو بخوبی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
کتاب “صہیونیت کی وجہ سے” کے مولف اس کتاب کو چار حصوں اور ایک ضمیمے کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔
کتاب کے پہلے حصے میں براعظم امریکہ کو کشف کرنے والے “کرسٹوفر کولمبس (Christopher Columbus) کی داستان کو بیان کیا گیا ہے اور اس کی شخصیت کو اس اعتبار سے کہ دین اس کے کردار میں کس قدر موثر تھا اور امریکہ کو انکشاف کرنے میں اس کی تلاش و کوشش کتنی موثر تھی کو مورد بحث قرار دیا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں پیوریٹن (تطہیری) (۱) گروہ پر کتاب مقدس اور دین یہود کے مبانی کی تاثیر اور امریکہ کے انکشاف میں ان کی نگاہ کی نوعیت پر گفتگو کی گئی ہے۔ فواد شعبان اس بارے میں لکھتے ہیں کہ پیوریٹن گروہ پر کتاب مقدس کے عہد نامہ قدیم کی تاثیر اس قدر گہری تھی کہ پیوریٹنوں کے عقائد اور ان کے طرز زندگی نے امریکہ کے لوگوں کی مذہبی، سیاسی اور سماجی بنیادوں کو بطور کلی تبدیل کر دیا۔
تیسرے حصے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ پیوریٹنوں اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے امریکہ ہجرت اور وہاں کے مقامی امریکیوں کے ساتھ طرز رفتار کو بنی اسرائیل کے قصے یعنی ان کا مصر سے اخراج اور کنعان میں سکونت سے جوڑ دیا ہے۔ ورنون پرینگٹن (vernon parrington) کے بقول “پیوریٹن گروہ نے خدا کی بادشاہی کی سرحدوں کو وسعت دینے کے لیے سرزمین امریکہ میں قدم رکھا”۔
اس حصے کے دوسرے مقام پر مولف نے امریکی سلطنت میں اس تفکر کی گہرائیوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان میں موجود علامتیں عیسائی عقائد کی بنسبت یہودی عقائد سے کہیں زیادہ نزدیک ہیں ۔ اور یہ طرز تفکر اس قدر امریکی معاشرے میں جڑیں پکڑ چکا ہے کہ کوئی بھی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا۔
فواد شعبان اس کتاب کے اگلے حصے میں امریکی عوام کے مصر اور فلسطین زیارتی سفر کی کثرت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں اس مسافرت نے شدت اختیار کر لی تھی۔ اور اس سفر کا شوق اس قدر امریکی عوام میں زیادہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے رنج و الم کا بہتر ادراک کرنے کے لیے صحرائے سینا سے یروشلم تک کا سفر برہنہ پا کرتے تھے اور اس راہ میں موجود تمام مشکلات کو تحمل کرنے کے لیے تیار تھے۔ مولف نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ سرزمین مقدس کی جانب سفر کے اشتیاق نے امریکی سماج میں دین یہود کی محبوبیت کو کئی گنا اضافہ کر دیا جس کے نتیجے میں مشرق زمین اور سرزمین مقدس کے نام سے سفرناموں کی خرید و فروخت نے بھی خوب بازار گرم کیا۔
کتاب کے آخری حصے میں امریکہ میں دین کے کردار کو موضوع سخن بنایا ہے یہ کہ امریکی عوام کی زندگیوں میں دین کا کیا کردار ہے اور یہ کہ امریکہ کا موجودہ دین یورپ سے وارد ہوئے دین سے کوئی اختلاف رکھتا ہے یا نہیں۔ اس کتاب کے ضمیمے میں آخرالزمان کے مکاتب فکر، پیش گوئیاں اور حضرت مسیح کی حکومت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔
۱؛ سولہویں اور سترہویں صدی میں ایک انگریز کالوینی پروٹسٹنٹ گروہ تھا جو کلیسیائے انگلستان سے تمام رومن کیتھولک رسومات اور طرز عمل سے پاک کرنا چاہتا تھا۔