-
Monday, 5 October 2020، 02:50 AM
-
۳۸۷
تحریر: جیسون ہیکل، لندن یونیورسٹی کے استاد اور ہنر و فن کی سلطنتی انجمن کے رکن
تحقیق و ترجمہ خیبر گروپ
خیبر صہیون تحقیقاتی وی گاہ: برطانیہ میں ہندوستان کے استعمار کو لیکر یہ عجب کہانی رائج ہے { جو اپنے آپ میں ایک ہولناک مسئلہ ہے } اور وہ یہ کہ ہندوستان پر قبضہ برطانیہ کے لئے کوئی قابل ذکر فائدہ کا حامل نہیں تھا ، علاوہ از ایں شاید ہندوستان کو چلانے میں برطانیہ کو الٹا ہی اخراجات اٹھانے پڑے ، در نتیجہ یہ حقیقت کہ برطانوی امپائر عرصے تک قائم رہا -اور آگے بھی کہانی جاری ہے- برطانوی سلطنت کی جانب سے ہندوستان کو چلانے کے لئے اخراجات کا برداشت کرنا ، ایک نیکی اور خیر خواہی کا مکھوٹا پہننا ہے۔ جبکہ اس سلسلہ سے اوٹسا پاٹنایک جیسے نامور اقتصاد دانوں کی جانب سے انجام پانے والی تحقیق کے مطابق جسے حال ہی میں کلمبیا کی یونیورسٹی نے شایع کیا ہے ۔ اس بات پر کاری ضرب لگتی ہے ۔ پاٹنایک نے گزشتہ دو صدیوں پر مشتمل مالی اور تجارتی امور کے سلسلہ سے موجودہ اطلاعات کی تفصیل کی جانچ پڑتال سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ۱۷۶۵ سے لیکر ۱۹۳۸ تک برطانیہ نے ۴۵ ٹریلین ڈالر پر مشتمل ہندوستان کی دولت کو اپنی جیب میں ڈالا ہے یہ ایک بڑی رقم ہے، اگر ہم اس رقم کو بہتر طور پر سمجھنا چاہیں تو یہ جان لینے میں کوئی برائی و عیب نہیں ہے کہ ۴۵ ٹریلین ڈالر کی رقم آج کی برطانیہ کے مجموعی ملکی آمدنی) G.N.I ( [1]کی سترہ برابر ہے ۔ یہ اتنی بڑی رقم کہاں سے آ گئی یہ سب کچھ تجارتی سسٹم کے ذریعہ ممکن ہوا، برطانیہ ہندوستان پر قبضے سے پہلے بنے کپڑے اور چاول جیسی چیزوں کو ہندوستانی کسانوں اور صنعت کاروں سے خریدتے اور رائج طریقہ کار کے مطابق زیادہ تر چاندی میں اسکی قیمت ادا کرتے بالکل ویسے ہی جیسے دوسرے ممالک سے تجارت کرتے ، لیکن ۱۷۶۵ میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی [۲]نے برصغیر کو اپنے چنگل میں لیا اور ہندوستانی تجارت کو محض خود تک منحصر کر لیا اور یوں سب کچھ بدل گیا ۔
اس تجارتی سسٹم کے کام کرنے کا انداز کچھ یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے شروع میں ہندوستان سے ٹیکس وصولنا شروع کیا اور اس کے بعد بہت ہی چالاکی کے ساتھ تقریبا ٹیکس سے وصول ہونے والی ایک تہائی آمدنی کو برطانیہ کے استعمال میں آونے والی ہندوستانی اشیاء کی قیمت کی ادائگی کے لئے استعمال کیا گیا، دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ بجائے اسکے کہ ہندوستانی سازو سامان کو خریدنے کے بعد اسکی ادائگی اپنے جیب سے کی جاتی برطانوی تاجروں نے ہندوستانی سازو سامان مفت میں ہی حاصل کر لیا یہ لوگ ہندوستانی رعیت کی اشیاء و بنکروں سے حاصل کئے گئے کپڑوں کو اس پیسے سے خریدتے جو خود انہیں سے ٹیکس کے طور پر انہوں نے پہلے لئے ہوئے تھے یہ ایک بڑے پیمانے پر ہونے والی چوری وعیاری کے ساتھ ایک بڑا دھوکہ دھڑی و فراڈ کا معاملہ تھا اسکے باوجود اکثر ہندوستانیوں کو خبر نہیں تھی کہ انکے ساتھ کیا ہو رہا ہے چونکہ ٹیکس وصول کرنے والے کلیکٹرز وہ نہ تھے جو پونجی خریدنے کے لئے آتے تھے اگر یہ کام ایک ہی شخص کرتا تو ممکن تھا لوگوں کو بھنک لگ جاتی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اس عیاری و فراڈ سے پردہ اٹھ جاتا اور بات واضح ہو جاتی لہذا ان لوگوں نے بڑی چالاکی کے ساتھ یہ کام اس طرح کیا تھا کہ ہندوستانیوں ہی کے پیسے سے خریدی جانے والی پونجی کا کچھ حصہ برطانیہ میں استعمال کیا جاتا اور بقیہ وہاں کے بعد دوبارہ دوسرے علاقوں میں بھیج دیا جاتا یہاں برطانوی بر آمدات و ایکسپورٹ کا نظام ایک بار پھر اس بات کی جازت دینا کہ یورپ میں درآمد ہونے والے سازو سامان کے پیسوں کو اس طرح پورا کیا جائے من جملہ اسٹریٹجک دھاتیں جیسے لوہا، تارکول اور لکڑی وبانس وغیرہ جن کا وجود برطانیہ کے صنعتی ملک بننے کے لئے ضروری تھا، اور حقیقت میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ صنعتی انقلاب اس ہندوستان سے ہونے والی سسٹمیٹک چوری سے جڑا ہوا ہے ۔ اس حربے کے ذریعہ برطانیہ کے لئے یہ ممکن ہو سکا کہ وہ ہندوستان سے چرائی جانے والی اجناس و اشیاء کو اس کی خرید کی قیمت سے کئی گنا بڑھا کر دوسرے ممالک میں فروخت کرے جبکہ ان چیزوں کو اس نے پہلے مقام سے بہت ہی سستے داموں پر لیا تھا، اور نہ صرف اس تجارت میں اسے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ فروخت کیئے جانے والے سازوسامان کی ۱۰۰ فیصد اصلی قیمت کو اپنی جیب میں ڈالے بلکہ اسے اس میں خاصے پیمانے پر اضافی سود وفائدہ بھی حاصل ہوا ۔
۱۸۴۷ میں بلا واسطہ طور پر برطانیہ کی جانب سے ہندوستانی حاکمیت کے حصول کے بعد برطانیہ کی طرف سے عالمی لٹیروں نے اپنے مالیاتی نظام اور خرید و فروخت کے سسٹم میں ایک خاص تبدیلی پیدا کر دی[۳] ، ایسٹ انڈیا کمپنی [۴]کے تسلط کے ختم ہوتے ہی [۵]ہندوستانی صنعت کاروں اور مختلف اشیاء بنانے والے تاجروں کو اجازت مل گئی کہ اپنے سازو سامان کو ڈائریکٹ دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کریں ، اسکے باجود برطانیہ کو اطمینان تھا کہ اس سازوسامان کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والی رقم لندن ہی پہنچے گی اور جو کچھ زر مبادلہ ہوگا اسکا مرکز لندن ہی رہے گا، یہ عیارانہ چال کیونکر اپنا کام کرتی رہی ؟تو اسکا جواب یہ ہے کہ جو بھی ہندوستانی اشیاء خریدتا اسے ایک مخصوص قسم کے نوٹوں کی ضرورت ہوتی ، ایسے کاغذی نوٹ جو برطانوی حکومت کی جانب سے ہندوستان میں چھپتے اور وہیں سے انکی گردش شروع ہوتی لیکن ان نوٹوں کو حاصل کرنے کے لئے ضروری تھا کہ لندن میں انہیں سونے یا چاندی کے بدلے حاصل کیا جائے، غرض یہ کہ ان نوٹوں کو حاصل کرنے کے لئے تاجر لوگ لندن میں چاندی اورسونا رکھتے اور اسکے بعد انہیں سونے کے مقابل برطانیہ کی جانب سے چھپے ہوئے یہ نوٹ دے دئیے جاتے جن سے ہندوستانی چیزوں کی خرید ہوتی جب ہندوستانی باشندے ان نوٹوں کی گڈیوں کو اپنے مقامی استعماری مراکز میں لے کر جاتے تو انہیں وہی پیسہ دے دیا جاتا جو انہیں سے ٹیکس میں وصول کیا گیا تھا اور یوں ایک بار پھر برطانیہ ک جانب سے نہ صرف یہ کہ کچھ ادا نہیں کیا جاتا بلکہ و ہ پھر ہندوستانیوں کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتا ، اس پورے ماجرے میں وہ تمام سونا چاندی جو کہ ہندوستانیوں کی برآمدات کی بنا پر ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں آتا سب کے سب لند ن پہنچتا گو کہ ہر چیز لندن سے شروع ہو کر لندن پر ختم ہوتی ۔
یہ فاسد سسٹم کچھ اس طرح عمل کرتا کہ گرچہ ہندوستان دیگر ممالک کے برخلاف ایک مازاد تجارتی حیثیت کا حامل تھا ، ایسی اضافی تجارت جو کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی تک چلی ، لیکن اس اضافی تجارت کے باوجود ہندوستان کے قومی حساب میں گھاٹا ہی نظر آتا اور ایسا اس لئے ہوتا کہ ہندوستانی برآمدات سے حاصل ہونے والی واقعی رقم مکمل طور پر برطانیہ کے ہتھے چڑھ جاتی ۔اور ظاہر میں دکھتا کہ ہندوستان کو گھاٹا ہی ہو رہا ہے اور اسی بات کو دلیل بنایا جاتا کہ ہندوستان مسلسل گھاٹے میں جانے کی وجہ سے برطانیہ کے لئے وبال جان کے سوا کچھ نہیں ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف تھی، برطانیہ کو ایک ایسی بہت بڑی رقم حاصل ہو رہی تھی جو کہ ہندوستانیوں سے متعلق تھی لیکن ان بے چاروں کو نہ مل کر سب کچھ برطانیہ کے کھاتے میں جا رہا تھا اور ہندوستانی تاجروں صنعت کاروں کے ہاتھ کچھ نہیں آ رہا تھا ۔ ہندوستان ایک ایسا پرندہ تھا جو سونے کا انڈا دے رہا تھا دوسری طرف ہندوستان کو مسلسل ہوتے ہوئے خسارے کے معنی یہ تھے اپنے یہاں درآمد کرنے والی چیزوں کے پیسوں کی ادائگی کے لئے ہندوستان کے پاس برطانیہ سے قرض لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہ تھا ، چنانچہ یہی وجہ تھی کہ ہندوستانی کی مکمل آبادی ایک غیر ضروری جبری قرض کے بوجھ تلے دب چکی تھی اور ہندوستانی عوام کو قرض تلے دبائے انکے استعماری وڈیرے برطانیہ کے اس ملک پر تسلط کو اور بھی مضبوط کرتے جا رہے تھے۔
برطانیہ نے اس بے ایمان سسٹم سے حاصل ہونے والی منفعت کو اپنے امپریالسٹی تشدد پسندانہ موٹرز کو ایندھن پہنچانے کے لئے استعمال کیا ، یعنی ۱۸۴۰ میں چین پر حملے کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اور اسی کے ساتھ ۱۸۵۷ میں ہندوستانیوں کی بغاوت[۶] کو کچلنے کے لئے اسی سسٹم سے حاصل ہونے والے پیسو ں کو استعمال کیا ۔
اور یہ سب کچھ اس سے الگ ہٹ کر ہے جسے برطانوی حکومت ہندوستان میں ٹیکس دینے والوں سے بلا واسطہ طور پر اپنی جنگوں کے اخراجات کے طور پر وصول کرتی رہی تھی جیسا کہ پاٹنائک نے اشارہ کیا ’’ ہندوستان کی سرحدوں سے پرے برطانیہ کی فاتحانہ جنگوں کا کل خرچ ہمیشہ مکمل طور پر یا زیادہ تر اس درآمد پر منحصر ہوتا جو برطانوی حکومت کو ہندوستان سے حاصل ہوتی ، اور مزے کی بات یہ ہے کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ برطانیہ ہندوستان سے حاصل ہونے والے بے پایاں خراج کو اپنے زیرتسلط وہ یورپ اور اسکے استعماری علاقوں جیسے کینیڈا و آسٹریلیا میں کیپیٹالیزم کے پھیلاو پر آنے والے اخراجات پر صرف کرتا، لہذا نہ صرف برطانیہ کے صنعتی ہونے کا راستہ بلکہ جہان غرب کے ایک بڑے حصے کا صنعتی ہونا برطانوی سامرج کی جانب سے تاراج کی جانے والی ثروت کے بل پر ہی آسان ہو سکا۔ پاٹنایک نے ہندوستان کے چار اقتصادی ادوار کو پیش کیا ہے جو کہ ۱۷۶۵ سے ۱۹۳۸ کے درمیان ایک دوسرے سے بالکل مختلف صورت میں ہیں اور ان ادوار میں لوٹی جانے والی ثروت کا انہوں نے ایک تخمیہ پیش کیا ہے اور اسکے بعد منفعت و سود کی ایک معتدل قیمت ( تقریبا بازار کے فائدہ کے معیار سے ۵ فی صد کم میں ) ہر دور سے عصر حاضر تک ملا کر نکال کر انہوں نے اعداد و ارقام کی شمارش کے ذریعہ یہ نتیجہ لیا ہے کہ برطانوی سامراج کو ہندوستان سے محصلہ رقم کا تخمینہ ۴۴،۶ ٹریلین ڈالر ہے، پاٹنایک کے بقول یہ وہ رقم ہے جو بہت محتاطانہ انداز میں شمار کی گئی ہے اور اس میں وہ قرض کی رقم شامل نہیں ہے جسے برطانیہ نے اپنی حاکمیت کے دوران ہندوستان پر تھوپ دیا تھا ۔ یہ وہ ارقام ہیں جو انسان کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی ہیں، لیکن اس ناجائز فائدہ اٹھانے کی واقعی رقم کیا ہوگی اسکا حساب نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ہندوستان اپنی مالی در آمد کے ساتھ بیرونی مبادلات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنے ملک کی ترقی میں لگا دیتا اور ملکی ترقی کے سلسلہ سے اسی رقم کی سرمایہ کاری کرتا جیسا کہ جاپان نے کیا تو شک نہیں ہے کہ آج ہندوستانی تاریخ کا رخ دوسرا ہی ہوتا ، ایسی صورت میں ہندوستان خود ایک اقتصادی انجن کی شکل میں ڈھل جاتا اور صدیوں سے چلی آ رہی فقیری کے دردسے خود کو بہت اچھی طرح بچا سکتا تھا ۔
جو کچھ بھی اس تحقیق کے نتائج ہیں سب کے سب اس جھوٹی داستان کے سامنے تریاق کی حیثیت رکھتے ہیں جسے برطانیہ میں ہمیشہ ایک طاقت ور آواز نے رواج دیا ہے ، نیال فرگوسن قدامت پسند مورخ نے یہ دعوی کیا ہے کہ برطانوی حکومت نے ہندوستان کی ترقی و توسیع میں تعاون کیا ہے جب کہ سابقہ وزیر اعظم ڈیوڈ کامرون نے اپنی وزارت عظمی کے دوران یہ بہت ہی مطمئن انداز میں کہا ہے کہ برطانیہ کی حکومت ہندوستان کے لئے محض مدد و تعاون کا سسبب تھی ۔
اس جھوٹی کہانی کے نقوش عوام کے تخیلات اور عمومی طرز فکر میں بھی قابل غور حدتک تلاش کئیے جا سکتے ہیں ۲۰۱۴ میں یوگاو کی جانب سے ہونے والے ایک سروے کے مطابق برطانیہ کے ۵۰ فیصد عوام کا خیال یہ ہے کہ برطانوی استعمار اپنے زیر نگیں علاقوں کے فائدہ میں رہا ہے ۔اس سب کے باجود حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان پر ۲۰۰ سال تک برطانوی راج کے دور میں ہندوستان کی مجموعی فی کس آمدنی تقریبا کسی بھی طرح کے اضافے کی حامل نہیں رہی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں ۔یعنی اس وقت جب برطانیہ کی ہندوستان میں مداخلت اپنے عروج پر تھی ۔ ہندوستان کی آمدنی آدھی ہو کر رہ گئی تھی ۔ اور ۱۸۷۹ سے ۱۹۲۰ تک ہندوستانیوں کی زندگی کی امید کی شرح ایک پنجم تک کم ہو گئی تھی ، دسیوں ملین لوگ اس قحط کا شکار ہو گئے [۷] جس کا محرک اس دور کی سیاست تھی اور یوں بلا وجہ انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔
برطانیہ نہ صرف یہ کہ ہندوستان کی ترقی کا سبب نہ بن سکا بلکہ اسکے بالکل برعکس یہ ہندوستان تھا جو برطانیہ کی ترقی کاسبب بنا
یہ حقیقت آج برطانیہ کو کس چیز پر وادار کرتی ہے ؟ کیا صرف ایک معذرت ؟ ہرگز نہیں ، کیا لوٹی ہوئی دولت ؟ جواب ہوگا شاید ۔ ہرچند کہ پورے برطانیہ میں اتنا پیسہ ہی نہیں ہے کہ جو تخمینہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق ہے اسکی دوبارہ ادائگی ہو سکے لیکن ہم اس پیسے کے ادائگی کے ماورا تاریخ کی حقیقی داستان کو تو نقل کر سکتے ہیں ، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کی تصدیق کریں کہ برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ خیر خواہی کے تحت ہرگز نہیں کیا تھا بلکہ اس قبضے کا مقصد ہی ہندوستان کی دولت کو تارا ج کرنا تھا ۔ صنعتی و ترقی یافتہ برطانیہ جیسا کہ درسی کتابوں میں ہمیں بتایا جاتا ہے کسی طاقت ور مالی سسٹم کے یا کسی چلتےانجن کے بخار و بھانپ سے سامنے نہیں آیا ہے بلکہ اسکا حصول دوسری سرزمینوں کی ثروت کو ہڑپنے و تاراج کرنےنیز تشدد آمیز لوٹ مار کے ذریعہ انکی دولت کو ہتھیانے سے ہی ممکن ہو سکا جو سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
منبع: yon.ir/TVGPZ
حواشی
[۱] ۔ مجموعی قومی آمدنی (gross national income – gni) درحقیقت ذاتی کھپت ،اخراجات مجموعی نجی سرمایہ کاری ،سرکاری کھپت اخراجات بیرون ملک اثاثوں سے خالص آمدنی اشیا اور خدمات کی مجموعی برآمد پر مشتمل ہوتی ہے ۲۰۱۴ کے ایک سروے میں
برطانوی مجموعی قومی آمدنی ۲,۸۰۱,۴۹۹ بیان کی گئی تھی ۔
[۲] ۔ برطانوی شرق الہند کمپنی جسے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی بھی (British East India Company) کہا جاتا ہے اور یہ (EIC) کے نام سے بھی مشہور ہے ۔، (EIC) ایک ایسی کمپنی تھی جسے ہندوستان کے مشرق میں کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا تھا یہ ایک تجارتی ادارہ تھا لیکن اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں ہندوستان پر برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں کمپنی کا راج تھا۔ اس کے بعد ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔ مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو : Desai, Tripta (1984). The East India Company: A Brief Survey from 1599 to 1857. Kanak Publications. p. 3.
“Imperial Gazetteer of India”. II. 1908: 454.
Wernham, R.B (1994). The Return of the Armadas: The Last Years of the Elizabethan Wars Against Spain 1595–۱۶۰۳٫ Oxford: Clarendon Press. pp. 333–۳۳۴٫ ISBN 978-0-19-820443-5.
[۳] ۔ اگست ۱۸۵۸ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ا ملکہ وکٹوریہ کے اعلان کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو برطانیہ کے سپرد کر دیا۔
[۴] ۔ اس کمپنی کا نام ضرور ختم ہوا ہے لیکن کام ابھی بھی باقی ہے چنانچہ یہ ضرور ہے کہ اپنے آغاز کے ۲۷۵ سال بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کر دیا گیا اور اس کے سارے اثاثے Lloyds کے حوالے کر دیے گئے جو N.M. Rothschild & Co کا ذیلی ادارہ ہے لیکن اسکے اثرات اب بھی ملٹی نینشنل کمپنیوں میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں مزید مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو : http://greatgameindia.com/east-india-company-still-exist/
https://www.zerohedge.com/news/2019-01-18/price-empire
[۵] ۔۱۸۵۸ء میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم ۱۸۷۴ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔
[۶] ۔ آزادی کی وہ جنگ جسے ۱۸۵۷ کے غدر کے نام سے جانا جاتا ہے جب ہندوستانی سپاہیوں نے سور اور گائے کی چربی کارتوسوں میں مخلوط ہونے کی بنا پر آزادی کی تحریک چلانے والوں پر فائرنگ سے انکار کر دیا تھا ۔ the Gurkhas by W. Brook Northey, John Morris. ISBN 81-206-1577-8. Page 58
[۷] ۔اس قحط میں نہ صرف عام لوگ بلکہ صاحبان اقتدار بھی گرفتار ہوئے چنانچہ ملتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں اکثر مقامی حکمرانوں کو اجرت کے عوض فوجی خدمات فراہم کرتی تھیں۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے مقامی حکمران جلد ہی کنگال ہو جاتے تھے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے (جیسے اودھ)۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی
http://www.excellup.com/ClassEight/sseight/tradeterritory1.aspx۔
قحط و بھوک مری کی تاریخ میں بنگال کے قحط (۱۷۶۹ء – ۱۷۷۰ء) کو فراموش نہیں کیا جب Warren Hastings کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے جا سکتا Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں ۱۷ دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ۱۲۰ سالہ دور میں ۳۴ دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔