برطانیہ نے کس طرح ہندوستان کی ۴۵  ٹریلین ڈالر کی دولت چوری کی؟

  • ۳۸۷

تحریر: جیسون ہیکل، لندن یونیورسٹی کے استاد اور ہنر و فن کی سلطنتی انجمن کے رکن
تحقیق و ترجمہ خیبر گروپ

خیبر صہیون تحقیقاتی وی گاہ:  برطانیہ میں ہندوستان کے استعمار کو لیکر یہ عجب کہانی رائج ہے { جو اپنے آپ میں ایک ہولناک مسئلہ ہے } اور وہ یہ کہ ہندوستان پر قبضہ برطانیہ کے لئے کوئی قابل ذکر فائدہ کا حامل نہیں تھا ، علاوہ از ایں شاید ہندوستان کو چلانے میں برطانیہ کو الٹا ہی اخراجات اٹھانے پڑے ، در نتیجہ یہ حقیقت کہ برطانوی امپائر عرصے تک قائم رہا -اور آگے بھی کہانی جاری ہے- برطانوی  سلطنت کی  جانب سے  ہندوستان کو چلانے کے لئے  اخراجات کا برداشت کرنا ، ایک نیکی اور خیر خواہی کا مکھوٹا پہننا ہے۔ جبکہ اس سلسلہ سے اوٹسا  پاٹنایک  جیسے  نامور اقتصاد دانوں کی جانب سے انجام پانے والی  تحقیق کے مطابق  جسے حال ہی میں کلمبیا کی یونیورسٹی نے  شایع کیا ہے ۔ اس  بات پر کاری ضرب  لگتی ہے ۔ پاٹنایک نے گزشتہ دو صدیوں پر مشتمل  مالی اور تجارتی امور کے سلسلہ سے موجودہ  اطلاعات کی تفصیل  کی جانچ پڑتال سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ۱۷۶۵ ؁سے لیکر ۱۹۳۸  تک برطانیہ نے ۴۵ ٹریلین ڈالر پر مشتمل ہندوستان کی دولت کو اپنی جیب میں ڈالا ہے  یہ ایک بڑی رقم ہے، اگر ہم اس رقم کو بہتر طور پر سمجھنا چاہیں تو یہ جان لینے میں کوئی برائی و عیب  نہیں ہے کہ  ۴۵ ٹریلین ڈالر کی رقم آج کی برطانیہ کے  مجموعی ملکی آمدنی) G.N.I ( [1]کی سترہ برابر ہے ۔ یہ اتنی بڑی رقم کہاں سے آ گئی  یہ سب کچھ تجارتی سسٹم کے ذریعہ ممکن ہوا،  برطانیہ   ہندوستان پر قبضے سے پہلے  بنے کپڑے اور چاول جیسی چیزوں کو ہندوستانی کسانوں اور صنعت کاروں سے خریدتے اور رائج طریقہ کار کے مطابق  زیادہ تر چاندی میں اسکی قیمت ادا کرتے  بالکل ویسے ہی جیسے دوسرے ممالک سے تجارت کرتے ، لیکن ۱۷۶۵ میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی [۲]نے   برصغیر کو اپنے چنگل میں لیا اور ہندوستانی تجارت کو محض خود تک منحصر کر لیا اور یوں   سب کچھ بدل گیا ۔
اس تجارتی سسٹم کے کام کرنے کا انداز کچھ یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے شروع میں ہندوستان سے ٹیکس وصولنا شروع کیا اور اس کے بعد بہت ہی چالاکی کے ساتھ  تقریبا  ٹیکس سے وصول ہونے والی ایک تہائی آمدنی کو برطانیہ کے استعمال میں  آونے والی ہندوستانی اشیاء کی قیمت کی ادائگی  کے لئے استعمال کیا گیا، دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ بجائے اسکے کہ ہندوستانی سازو سامان کو خریدنے کے بعد اسکی ادائگی اپنے جیب سے کی جاتی برطانوی تاجروں نے  ہندوستانی سازو سامان مفت میں ہی حاصل کر لیا  یہ لوگ  ہندوستانی رعیت کی اشیاء و بنکروں سے حاصل کئے گئے کپڑوں کو اس پیسے سے خریدتے جو خود انہیں سے ٹیکس کے طور پر انہوں نے پہلے لئے ہوئے تھے  یہ ایک  بڑے پیمانے پر ہونے والی چوری  وعیاری کے ساتھ    ایک بڑا  دھوکہ دھڑی و فراڈ  کا معاملہ تھا  اسکے باوجود اکثر ہندوستانیوں کو خبر نہیں تھی کہ انکے ساتھ کیا ہو رہا ہے  چونکہ ٹیکس وصول کرنے والے کلیکٹرز وہ نہ تھے جو  پونجی خریدنے کے لئے آتے تھے  اگر یہ کام ایک ہی شخص کرتا تو ممکن تھا لوگوں کو بھنک لگ جاتی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور  اس عیاری و فراڈ سے پردہ اٹھ جاتا اور بات واضح ہو جاتی لہذا ان لوگوں نے بڑی چالاکی کے ساتھ یہ کام اس طرح کیا تھا کہ ہندوستانیوں ہی کے پیسے سے خریدی جانے والی  پونجی کا کچھ حصہ برطانیہ میں استعمال کیا جاتا اور بقیہ وہاں کے بعد دوبارہ دوسرے علاقوں میں بھیج دیا جاتا یہاں برطانوی بر آمدات و ایکسپورٹ کا نظام ایک بار پھر اس بات کی جازت دینا کہ یورپ میں درآمد ہونے والے سازو سامان کے پیسوں کو اس طرح پورا کیا جائے  من جملہ اسٹریٹجک دھاتیں جیسے  لوہا، تارکول اور لکڑی وبانس وغیرہ جن کا وجود برطانیہ کے صنعتی ملک بننے کے لئے  ضروری تھا، اور حقیقت میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ  صنعتی انقلاب اس  ہندوستان سے ہونے والی سسٹمیٹک چوری سے جڑا ہوا ہے  ۔ اس حربے کے ذریعہ برطانیہ کے لئے یہ ممکن ہو سکا کہ وہ ہندوستان سے چرائی جانے والی اجناس و اشیاء کو اس کی خرید کی قیمت سے  کئی گنا بڑھا کر  دوسرے ممالک میں فروخت کرے جبکہ  ان چیزوں کو اس نے پہلے مقام سے بہت ہی سستے داموں پر لیا تھا، اور نہ صرف اس تجارت میں اسے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ فروخت کیئے جانے والے سازوسامان کی ۱۰۰ فیصد اصلی قیمت کو اپنی جیب میں ڈالے بلکہ اسے اس میں خاصے پیمانے پر اضافی سود وفائدہ  بھی حاصل ہوا ۔
؁۱۸۴۷ میں بلا واسطہ طور پر برطانیہ کی جانب سے ہندوستانی حاکمیت  کے حصول کے بعد  برطانیہ کی طرف سے عالمی لٹیروں نے اپنے مالیاتی نظام اور خرید و فروخت کے سسٹم میں ایک خاص تبدیلی پیدا کر دی[۳] ، ایسٹ انڈیا کمپنی [۴]کے تسلط کے ختم ہوتے ہی [۵]ہندوستانی صنعت کاروں اور مختلف اشیاء بنانے والے  تاجروں کو اجازت مل گئی کہ اپنے سازو سامان کو  ڈائریکٹ  دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کریں  ، اسکے باجود  برطانیہ  کو اطمینان تھا کہ اس سازوسامان کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والی رقم لندن ہی پہنچے گی اور جو کچھ  زر مبادلہ  ہوگا اسکا مرکز لندن ہی رہے گا، یہ عیارانہ چال کیونکر اپنا کام کرتی رہی ؟تو اسکا جواب یہ ہے کہ  جو بھی ہندوستانی اشیاء خریدتا اسے ایک مخصوص قسم کے نوٹوں کی ضرورت ہوتی ، ایسے کاغذی نوٹ جو برطانوی حکومت کی جانب سے  ہندوستان میں چھپتے  اور وہیں سے انکی گردش شروع ہوتی لیکن ان نوٹوں کو حاصل کرنے کے لئے ضروری تھا کہ لندن میں انہیں سونے یا چاندی کے بدلے حاصل کیا جائے، غرض یہ کہ ان نوٹوں کو حاصل کرنے کے لئے تاجر لوگ لندن میں  چاندی اورسونا رکھتے اور اسکے بعد انہیں سونے کے مقابل برطانیہ کی جانب سے چھپے ہوئے یہ نوٹ دے دئیے جاتے جن سے ہندوستانی چیزوں کی خرید ہوتی  جب ہندوستانی باشندے ان نوٹوں کی گڈیوں کو اپنے مقامی استعماری مراکز میں لے کر جاتے تو انہیں  وہی پیسہ دے دیا جاتا جو انہیں سے ٹیکس میں وصول کیا گیا تھا  اور یوں ایک بار پھر  برطانیہ ک جانب سے نہ صرف یہ کہ کچھ ادا نہیں کیا جاتا بلکہ و ہ پھر ہندوستانیوں کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتا ، اس پورے ماجرے میں وہ تمام سونا چاندی جو کہ ہندوستانیوں کی برآمدات کی بنا پر ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں آتا سب کے سب لند ن پہنچتا  گو کہ ہر چیز لندن سے شروع ہو کر لندن پر ختم ہوتی ۔
یہ فاسد سسٹم کچھ اس طرح عمل کرتا کہ گرچہ ہندوستان دیگر ممالک کے برخلاف ایک مازاد تجارتی حیثیت کا حامل تھا ، ایسی اضافی تجارت جو کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی تک چلی ، لیکن اس اضافی تجارت کے باوجود ہندوستان کے قومی حساب میں  گھاٹا ہی نظر آتا  اور ایسا اس لئے ہوتا کہ ہندوستانی برآمدات سے حاصل ہونے والی واقعی رقم مکمل طور پر برطانیہ کے ہتھے چڑھ جاتی ۔اور ظاہر میں دکھتا کہ ہندوستان کو گھاٹا ہی ہو رہا ہے اور اسی بات کو دلیل بنایا جاتا کہ ہندوستان مسلسل گھاٹے میں جانے کی وجہ سے برطانیہ کے لئے وبال جان کے سوا کچھ نہیں ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف تھی، برطانیہ کو ایک ایسی  بہت بڑی رقم حاصل ہو رہی تھی  جو کہ ہندوستانیوں سے متعلق تھی لیکن ان بے چاروں کو نہ مل کر سب کچھ برطانیہ کے کھاتے میں جا رہا  تھا اور ہندوستانی تاجروں صنعت کاروں کے ہاتھ کچھ نہیں آ رہا تھا  ۔ ہندوستان ایک ایسا پرندہ تھا جو سونے کا انڈا دے رہا تھا  دوسری طرف ہندوستان کو مسلسل ہوتے ہوئے خسارے کے معنی یہ تھے اپنے یہاں درآمد کرنے والی چیزوں کے پیسوں کی ادائگی کے لئے ہندوستان کے پاس برطانیہ سے قرض لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہ تھا  ، چنانچہ یہی وجہ تھی کہ ہندوستانی کی مکمل آبادی ایک غیر ضروری  جبری قرض کے بوجھ تلے دب چکی تھی اور ہندوستانی عوام کو قرض تلے دبائے انکے استعماری  وڈیرے برطانیہ کے اس ملک پر تسلط کو اور بھی مضبوط کرتے جا رہے تھے۔
برطانیہ نے اس بے ایمان سسٹم  سے حاصل ہونے والی منفعت کو اپنے امپریالسٹی تشدد پسندانہ موٹرز کو ایندھن پہنچانے کے لئے استعمال کیا ، یعنی ۱۸۴۰ ؁ میں چین پر حملے کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اور اسی کے ساتھ ۱۸۵۷؁ میں ہندوستانیوں کی بغاوت[۶]  کو کچلنے  کے لئے  اسی سسٹم سے حاصل ہونے والے پیسو  ں کو استعمال کیا ۔
اور یہ سب کچھ اس سے الگ ہٹ کر ہے جسے برطانوی حکومت ہندوستان میں  ٹیکس دینے والوں سے  بلا واسطہ طور پر اپنی جنگوں کے اخراجات کے طور پر وصول کرتی رہی تھی   جیسا کہ پاٹنائک نے اشارہ کیا ’’  ہندوستان کی سرحدوں سے پرے برطانیہ کی فاتحانہ جنگوں کا کل خرچ  ہمیشہ  مکمل طور پر یا زیادہ تر اس درآمد پر منحصر ہوتا جو برطانوی حکومت کو ہندوستان سے حاصل ہوتی ، اور مزے کی بات یہ ہے کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ برطانیہ  ہندوستان سے حاصل ہونے والے بے پایاں خراج کو اپنے زیرتسلط  وہ یورپ اور اسکے  استعماری علاقوں  جیسے کینیڈا و آسٹریلیا میں کیپیٹالیزم  کے پھیلاو پر آنے والے اخراجات پر صرف کرتا، لہذا نہ صرف برطانیہ کے صنعتی ہونے کا راستہ  بلکہ جہان غرب کے ایک بڑے حصے کا صنعتی ہونا  برطانوی سامرج کی جانب سے تاراج کی جانے والی ثروت کے بل پر ہی آسان ہو سکا۔ پاٹنایک نے ہندوستان کے چار اقتصادی ادوار کو پیش کیا ہے جو کہ ۱۷۶۵ ؁ سے ۱۹۳۸ ؁ کے درمیان ایک دوسرے سے بالکل مختلف صورت میں ہیں اور ان ادوار میں  لوٹی جانے والی ثروت کا انہوں نے ایک تخمیہ پیش کیا ہے اور اسکے بعد  منفعت و سود کی ایک معتدل قیمت ( تقریبا  بازار کے فائدہ کے معیار سے ۵ فی صد کم میں ) ہر دور سے عصر حاضر تک ملا کر نکال کر انہوں نے  اعداد و ارقام کی شمارش کے ذریعہ  یہ نتیجہ لیا ہے کہ برطانوی سامراج کو ہندوستان سے محصلہ رقم کا تخمینہ  ۴۴،۶ ٹریلین ڈالر ہے، پاٹنایک کے بقول یہ وہ رقم ہے جو بہت محتاطانہ انداز میں شمار کی گئی ہے اور اس میں وہ قرض کی رقم شامل نہیں ہے جسے برطانیہ نے اپنی حاکمیت کے دوران ہندوستان پر تھوپ دیا تھا ۔ یہ وہ ارقام ہیں جو انسان کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی ہیں، لیکن اس ناجائز فائدہ اٹھانے کی واقعی رقم کیا ہوگی اسکا حساب نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ہندوستان اپنی مالی در آمد  کے ساتھ بیرونی مبادلات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو  اپنے ملک کی ترقی میں لگا دیتا اور ملکی ترقی کے سلسلہ سے اسی رقم کی سرمایہ کاری کرتا جیسا کہ جاپان نے کیا تو شک نہیں ہے کہ آج ہندوستانی تاریخ کا رخ دوسرا ہی ہوتا ، ایسی صورت میں ہندوستان خود ایک  اقتصادی انجن کی شکل میں ڈھل جاتا اور صدیوں سے چلی آ رہی فقیری کے دردسے خود کو بہت اچھی طرح بچا سکتا تھا ۔
جو کچھ بھی اس تحقیق کے نتائج ہیں سب کے سب اس جھوٹی داستان کے سامنے تریاق کی حیثیت رکھتے ہیں  جسے برطانیہ میں ہمیشہ ایک طاقت ور آواز نے  رواج دیا ہے ، نیال فرگوسن  قدامت پسند مورخ نے یہ دعوی کیا ہے کہ  برطانوی حکومت نے  ہندوستان کی ترقی و توسیع میں تعاون کیا ہے  جب کہ سابقہ وزیر اعظم ڈیوڈ کامرون  نے اپنی وزارت عظمی کے دوران یہ بہت ہی مطمئن انداز میں کہا ہے کہ  برطانیہ کی حکومت ہندوستان کے لئے  محض مدد و تعاون کا سسبب تھی ۔
اس جھوٹی کہانی کے نقوش عوام کے تخیلات اور عمومی طرز فکر میں بھی قابل غور حدتک تلاش کئیے جا سکتے ہیں ۲۰۱۴؁ میں   یوگاو کی جانب سے ہونے والے ایک سروے کے مطابق  برطانیہ کے ۵۰ فیصد  عوام کا خیال یہ ہے کہ برطانوی استعمار اپنے زیر نگیں علاقوں کے فائدہ میں رہا ہے ۔اس سب کے باجود حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان پر ۲۰۰ سال تک برطانوی راج کے دور میں  ہندوستان کی مجموعی فی کس آمدنی  تقریبا کسی بھی طرح کے اضافے کی حامل نہیں رہی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں  ۔یعنی اس وقت جب برطانیہ کی ہندوستان میں مداخلت اپنے عروج پر تھی ۔ ہندوستان کی آمدنی  آدھی ہو کر رہ گئی تھی ۔ اور  ۱۸۷۹ ؁ سے ۱۹۲۰ ؁ تک ہندوستانیوں کی زندگی کی امید کی شرح   ایک پنجم  تک کم ہو گئی تھی ، دسیوں ملین لوگ اس قحط کا شکار ہو گئے [۷] جس کا  محرک اس دور کی سیاست  تھی اور یوں بلا وجہ انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔
برطانیہ نہ صرف یہ کہ ہندوستان کی ترقی کا سبب نہ بن سکا بلکہ اسکے بالکل برعکس یہ ہندوستان تھا جو برطانیہ کی ترقی کاسبب بنا
یہ حقیقت  آج برطانیہ کو کس چیز پر وادار کرتی ہے ؟ کیا  صرف ایک معذرت ؟ ہرگز نہیں ، کیا لوٹی ہوئی  دولت ؟ جواب ہوگا شاید ۔  ہرچند کہ پورے برطانیہ میں اتنا پیسہ ہی نہیں ہے کہ جو تخمینہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق ہے اسکی دوبارہ ادائگی ہو سکے  لیکن ہم اس پیسے کے ادائگی کے ماورا تاریخ کی حقیقی داستان کو تو نقل کر سکتے ہیں ، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کی تصدیق کریں کہ برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ  خیر خواہی کے تحت ہرگز نہیں کیا تھا بلکہ اس قبضے کا مقصد ہی  ہندوستان کی دولت کو تارا ج کرنا تھا  ۔ صنعتی و ترقی یافتہ برطانیہ جیسا کہ درسی کتابوں میں ہمیں بتایا جاتا ہے کسی طاقت ور مالی  سسٹم کے  یا کسی چلتےانجن کے بخار   و بھانپ سے سامنے نہیں آیا ہے بلکہ اسکا    حصول دوسری سرزمینوں کی ثروت کو ہڑپنے و  تاراج کرنےنیز  تشدد آمیز لوٹ مار کے ذریعہ انکی دولت کو ہتھیانے سے ہی ممکن ہو سکا جو سلسلہ  آج بھی جاری ہے ۔
منبع:  yon.ir/TVGPZ
حواشی
[۱] ۔ مجموعی قومی آمدنی (gross national income – gni) درحقیقت  ذاتی کھپت ،اخراجات مجموعی نجی سرمایہ کاری ،سرکاری کھپت اخراجات بیرون ملک اثاثوں سے خالص آمدنی اشیا اور خدمات کی مجموعی برآمد پر مشتمل ہوتی ہے ۲۰۱۴ کے ایک سروے میں
برطانوی مجموعی قومی آمدنی ۲,۸۰۱,۴۹۹  بیان کی گئی تھی ۔
[۲] ۔ برطانوی شرق الہند کمپنی   جسے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی بھی  (British East India Company) کہا جاتا ہے اور یہ (EIC)  کے نام سے بھی مشہور ہے ۔، (EIC) ایک ایسی کمپنی تھی  جسے ہندوستان کے مشرق میں   کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا تھا یہ  ایک تجارتی ادارہ تھا لیکن اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں  ہندوستان  پر برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں کمپنی کا راج تھا۔ اس کے بعد ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔ مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو : Desai, Tripta (1984). The East India Company: A Brief Survey from 1599 to 1857. Kanak Publications. p. 3.
“Imperial Gazetteer of India”. II. 1908: 454.
Wernham, R.B (1994). The Return of the Armadas: The Last Years of the Elizabethan Wars Against Spain 1595–۱۶۰۳٫ Oxford: Clarendon Press. pp. 333–۳۳۴٫ ISBN 978-0-19-820443-5.
[۳] ۔ اگست ۱۸۵۸ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ا ملکہ وکٹوریہ کے اعلان کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو برطانیہ کے سپرد کر دیا۔
[۴] ۔ اس کمپنی کا نام ضرور ختم ہوا ہے لیکن کام ابھی بھی باقی ہے چنانچہ یہ ضرور ہے کہ اپنے آغاز کے ۲۷۵ سال بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کر دیا گیا اور اس کے سارے اثاثے Lloyds کے حوالے کر دیے گئے جو N.M. Rothschild & Co کا ذیلی ادارہ ہے لیکن اسکے اثرات اب بھی ملٹی نینشنل کمپنیوں میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں مزید مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو : http://greatgameindia.com/east-india-company-still-exist/
https://www.zerohedge.com/news/2019-01-18/price-empire
[۵] ۔۱۸۵۸ء میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم ۱۸۷۴ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔
[۶] ۔ آزادی کی وہ جنگ جسے ۱۸۵۷ کے غدر کے نام سے جانا جاتا ہے جب ہندوستانی سپاہیوں نے سور اور گائے کی چربی کارتوسوں میں مخلوط ہونے کی بنا پر آزادی کی تحریک چلانے والوں پر فائرنگ سے انکار کر دیا تھا ۔ the Gurkhas by W. Brook Northey, John Morris. ISBN 81-206-1577-8. Page 58
[۷] ۔اس قحط میں نہ صرف عام لوگ بلکہ صاحبان اقتدار بھی گرفتار ہوئے چنانچہ ملتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں اکثر مقامی حکمرانوں کو اجرت کے عوض فوجی خدمات فراہم کرتی تھیں۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے مقامی حکمران جلد ہی کنگال ہو جاتے تھے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے (جیسے اودھ)۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی
http://www.excellup.com/ClassEight/sseight/tradeterritory1.aspx۔
قحط و بھوک مری کی تاریخ میں بنگال کے قحط (۱۷۶۹ء – ۱۷۷۰ء) کو فراموش نہیں کیا  جب Warren Hastings کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے جا سکتا Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں ۱۷ دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ۱۲۰ سالہ دور میں ۳۴ دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

برطانیہ کا ایشیائی تجارت پر تسلط کا نقطہ آغاز

  • ۳۹۹


بقلم میلاد پور عسگری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سولہویں صدی عیسوی تک ایشیا میں تجارت مسلمان تاجروں کے ہاتھ میں تھی۔ یہاں تک کہ مغربی بازار بھی ایشیائی تجارت سے بے حد متاثر تھے۔ اس درمیان جینوا اور وینس کے تجار اور اٹلی کے یہودی سب سے زیادہ دلالی کا کام کرتے تھے اور مسلمانوں کے تجارتی سامان کو مغربی بازار میں منتقل کرتے تھے۔
ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کے صرف تین بنیادی راستے تھے اور اٹلی سے جڑے ہوئے تھے اور یورپ کے دیگر ممالک کو ایشیائی سامان خریدنے کے لیے اٹلی ہی جانا پڑتا تھا بلکہ یوں کہا جائے کہ اٹلی یورپ کو ایشیا سے ملانے والا تنہا ملک تھا۔ یہ چیز اس بات کا باعث بنی کہ یہ ملک اپنے زمانے میں مغربی سیاست اور کلچر کے مرکز میں تبدیل ہو جائے۔ ایک جرمن محقق ’’زیگریڈ ہونکہ‘‘ کے بقول اگر مسلمانوں کی تجارت نہ ہوتی تو مغرب، آج مغرب نہ ہوتا۔
تجارت کے ان راستوں میں ایران اپنی دوبندر گاہوں؛ ہرمز اور کیش کی وجہ سے رابطہ کردار ادا کر رہا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ایران اس تجارت کے قلب میں واقع تھا۔ اسی وجہ سے بعد میں پرتگالیوں اور ہالینڈیوں نے ایران کی طرف بھی ہاتھ بڑھانا شروع کر دئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ صدی وہ صدی ہے جس میں مغرب کی تجارت یہودیوں کے ذریعے عروج پکڑ رہی تھی۔
الزبتھ اول کا دور (۱۶۰۳-۱۵۵۸) برطانوی نوآبادی سلطنت کی شروعات تھی۔ اسی دور میں سلطنتی خاندان نے مغرب میں ’غلاموں‘ کا تجارت کا کاروبار شروع کیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب یہودیوں نے برطانوی دربار میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ملکہ سے خود کو اتنا نزدیک کیا کہ وہ عبری زبان سیکھنے کی شوقین ہو گئی۔
جب الزبتھ نے برطانیہ کی حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی تھی تب اس ملک کی معیشت انتہائی بدحالی کا شکار تھی لہذا درباری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سمندروں میں تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا تھا یا پھر غلاموں کی تجارت کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کئے جاتے تھے۔ اس دور میں ’’سر جان ہاوکینز اور سر فرانسیس ڈریک‘‘ ملکہ کے نزدیک دو اہم افراد شمار ہوتے تھے، ہاوکینز نے برطانیہ اور جنوبی امریکہ کے درمیان تجارتی سلسلہ کی بنیاد رکھی علاوہ از ایں الزبتھ کے ذریعے انجام پانے والی غلاموں کی تجارت کی سرپرستی بھی ان کے ذمہ تھی۔ ’ڈریک‘ بھی ان ایام میں ملکہ کا درباری کتا تھا جو ان کے حکم سے تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالتا تھا۔
برطانیہ کی سمندری ڈاکہ زنی ۱۵۷۸ سے شروع ہوئی جس کا سلسلہ امریکہ کی سرحد تک جڑا ہوا تھا۔ یہ چیز باعث بنی کہ اس ملک خصوصا ملکہ کے دربار کو فراوان مال و دولت حاصل ہو سکے۔ برطانیہ کی یہ غارتگری اور اقتدار میں وسعت اس بات کا سبب بنی کہ ہسپانیہ کا بادشاہ، ایشیا اور امریکہ کے درمیان اپنے تجارتی واسطہ کا تحفظ کرے جو البزتھ کے نزدیک سخت دشمنی کا باعث بنا۔
ہسپانیہ کے زیر تسلط مغربی علاقوں میں ملکہ الزبتھ کے شرانگیز کارنامے سبب بنے کہ ۱۵۸۵ میں ان دوملکوں کے درمیان بیس سالہ طولانی جنگ کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ بیس سال جنگ کے بعد برطانیہ کی بحریہ ہسپانیہ کی طاقتور کشتی ’آرماڈا‘ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ برطانیہ کا ایشیا اور آدھی دنیا کی تجارت پر سوسالہ قبضے کا نقطہ آغاز تھا۔
منبع: زرسالاران یهودی و پارسی، شهبازی، عبدالله، موسسه مطالعات و پژوهش‌های سیاسی، تهران، چاپ اول: ۱۳۷۷، ص۷۰-۴۱٫

 

بھارتی میڈیا استعمار کے شکنجے میں۔ دوسرا حصہ

  • ۳۸۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ گزشتہ سے پیوستہ

اگر میڈیا سید مقاومت سید حسن نصراللہ کا ظالم اور دہشت گرد ابوبکر بغدادی سے مقایسہ کرنے سے پہلے ان کے خدمات اور ایثار کی تاریخ کا مطالعہ کرلے تو شاید اتنی بڑی غلطی کے مرتکب نہ ہوں ۔مگر جہاں میڈیا ہائوس جھوٹ اور فریب کے سہارے چل رہے ہوں وہاں حقیقت جاننے کی للک کسے ہوتی ہے ۔داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو لبنان میں حزب اللہ کے جوانوں نے شکست دی ہے ۔شام اور عراق میں دہشت گردوں سے مقابلہ آرائی میں حزب اللہ کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں ۔درجنوں محاذ ایسے ہیں جہاں آج بھی اس کے جوان حالت جنگ میں ہیں ۔چونکہ یہ تمام محاذ اسرائیل اور امریکہ کے تیار کردہ ہیں ،اور حزب اللہ کے جوان انکی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ،لہذا اس دشمنی میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قراردیدیا گیا تاکہ عالمی سطح پر حزب اللہ کو تنہا کردیا جائے ۔یہی رویہ استعماری طاقتوں نے ایران کے ساتھ اختیار کیا ہواہے ،کیونکہ ایرانی جوانوں نے حزب اللہ کے جوانوں کی طرح استعماری منصوبوں کو خاک میں ملا دیاہے ۔اسرائیل جس کی فوجی طاقت کا دنیا لوہا مانتی ہے اس نام نہاد عظیم طاقت کو اگر کسی نے ذلت و پستی کے تحت الثریٰ میں پھینک دیاہے تو وہ حزب اللہ کے جوان ہی ہیں ۔لہذا استعمار نے اپنی پوری طاقت حزب اللہ کے خلاف جھونک دی ہے ۔وہ اپنے میڈیا ہائوسیز کے ذریعہ حزب اللہ کے خلاف جھوٹی خبریں پلانٹ کرتے ہیں ،ہر پروگرام میں اس کے جوانوں کو دہشت گرد اور ظالم قرار دیا جاتاہے تاکہ دنیا کی ہمدردی حاصل کی جاسکے ۔یہ وہی پرانا کھیل ہے جو فلسطین پرقبضے کے وقت کھیلا گیا تھا اور ’ہولوکاسٹ‘ کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ عالمی سطح پر یہودی ایک مظلوم قوم قراردیدی گئی ۔یہودیوں کی مظلومیت کا فائدہ ’صہیونیوں ‘ نے اٹھایا اور آج فلسطین کی زمینوں پر جسے ہم ’اسرائیل ‘ کے نام سے جانتے ہیں ،یہودیوں کی تعداد ’نا‘ کے برابر ہے ۔اسرائیل نے ایک الگ تھلگ ریاست کے قیام کے لئے ہر طرح کے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیا اور لے رہاہے اسی طرح اسلامی مقاومتی تنظیموں کو بدنام کرنے اور عالمی سطح پر انہیں الگ تھلگ کرنے کے لئے ہر طرح کے گھنائونے پروپیگنڈے کررہاہے ۔ورنہ ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا تھاکہ ایک ملک کے کمانڈر( قاسم سلیمانی) پر بزدلی کے ساتھ ہوائی حملہ کرکے شہید کردیا جائے اور اس کے بعد دنیا کی ساری ہمدردیاں امریکہ اور اسرائیل کے حق میں ہوں۔
اب عالم یہ ہے کہ استعماری طاقتوں کے پرفریب منصوبوں کا شکار ہمارا قومی میڈیا بھی ہوچکاہے ۔کیونکہ ہمارا ملک اسرائیل نوازی میں اپنی ساری حدیں پار کرچکاہے ۔ہماری عوام کو یہ باور کرادیا گیاہے کہ ہماری ترقی اسرائیل کی دُم سے بندھی ہوئی ہے ۔وہ دن دور نہیں جب ہم اس کے دوررس نتائج بھگتیں گے ۔
جس وقت وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کے دورے پر تھے،اس وقت ہمارا قومی میڈیا اسرائیل نوازی میں فلسطینی مقاومتی تنظیموں کو دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیمیں ثابت کرنے پر تُلا ہوا تھا ۔میڈیا کے بقول اسرائیلی ایجنسی’ موساد‘ ایک مظلوم ایجنسی ہے جس پر فلسطینی مقاومتی تنظیمیں جب چاہتی ہیں دہشت گردانہ حملے کرتی ہیں اور اس کے فوجیوں اور جوانوں کا قتل عام کردیتی ہیں۔یہ ایک ایسا سفید جھوٹ تھا جسے بے بنیاد حقائق اور موساد کے اشارے پر ہندوستان میں پھیلایا گیا ۔وزیر اعظم مودی اسرائیل میں تھے اور ہم ہندوستان میں اسرائیل کی مظلومیت کی داستان سن رہے تھے ۔حیرت ہے میڈیا اس قدر بے ضمیر اور بے غیرت کیسے ہوسکتاہے ؟۔کیا اس میڈیا کو فلسطینی عوام کی مظلومیت اور مقاومت نظر نہیں آتی ۔وہ صہیونی قوم جو فلسطین کی زمین پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے اس کو فلسطینی زمین کا مالک قراردینا کہاں کا انصاف ہے ۔فلسطین کی نہتی عوام اسرائیل مہلک ہتھیاروں کا مقابلہ اینٹ اور پتھروں کے ذریعے کررہی ہے ،اس کے جوان ،بچے ،بوڑھے اور خواتین کو بے دریغ قتل کیا جارہاہے ، ان کے گھروں پر اسرائیلی فوجیوں کا قبضہ ہے ،وہ آزادانہ زندگی بسر نہیں کرسکتے بلکہ ان کے بچوں کا مستقبل خوف کے سائے میں ہے،ایسی فلسطینی عوام کو دہشت گرد کہہ کر ہمارا قومی میڈیا اپنے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو خود ہی نوچ کر پھینک دیتاہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے وقت ہی ہمیں یہ باور ہو گیاتھاکہ ہمارے قومی میڈیا کی رہی سہی آزادی بھی سلب کرلی گئی ہے ۔اب ہم وہ دیکھیں گے جو استعماری طاقتیں دکھانا چاہتی ہیں ۔حزب اللہ کے جنرل سکریٹری سید حسن نصراللہ کو بدنام کرنے کے لئے جس طرح جھوٹی خبروں کو میڈیا نےنشر کیاہےاس سے معلوم ہوتاہے کہ میڈیا ہائوسیز پر سرمایہ داروں کے تسلط اور ان کے مفادات نے میڈیا کی آزادی کو کتنا متاثر کیاہے ۔اس میڈیا کو ہم ’ رٹّوطوطا‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
میڈیا کوایسی بے بنیاد اور پروپیگنڈہ خبریں نشر کرنے پر شرم آنی چاہئے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ عہد میں میڈیا کا وقار تباہ ہوچکاہے ۔دانشور طبقہ میڈیا کی خبروں پر یقین نہیں کرتا اور نہ اسکے پروپیگنڈے کا شکار ہوتاہے ۔مگر اس دانشور طبقے کی تعداد بہت محدود ہےاور سماج میں اس کا کردار بھی بہت زیادہ نہیں رہ گیاہے ۔جمہوریت میں اصل کردار عوام کا ہوتاہے اور عوام کی ۸۰ فیصد سے زیادہ آبادی علم و دانش سے محروم ہے ۔وہ میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ پیش کئے جارہے مسخ شدہ حقائق کو درست تسلیم کرتی ہے ۔ہندوستان میں جمہوریت کے زوال میں بڑا کردار میڈیا نے ادا کیاہے اوراس کے لئے تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بھارتی میڈیا استعمار کے شکنجے میں۔ پہلا حصہ

  • ۴۰۴

بقلم عادل فراز

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہندوستانی میڈیا پوری طرح استعماری طاقتوں اور سرمایہ داروں کے شکنجے میں ہے ۔اس کی آزادی اور حق بیانی کی طاقت سلب کی جاچکی ہے ۔اس وقت ہمارا قومی میڈیا فاشسٹ طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکا ہے ۔ان کے پاس عوام کے لئے معلوماتی خبروں ،تحقیقاتی مباحثات اور معیاری پروگراموں کے بجائے فرقہ پرستی اور اشتعال انگیزی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔کیونکہ میڈیا کے تمام تر بڑے بڑے ادارے اور نیوزایجنسیاں سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں۔یہ سرمایہ دار اپنے مفادات کے خلاف نہیں جاسکتے لہذا ایسی خبریں اور پروگرام پلانٹ کئے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر عوام اسی جھوٹ کو حقیقت سمجھتی ہے اور پلانٹ خبروں پر اعتبار کرلیتی ہے۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ تاریخی واقعات و حقائق کو پوری طرح مسخ کرکے پیش کیا جارہاہے ،فرقہ پرستی کو علی الاعلان ہوا دی جارہی ہے اور سماج کو تقسیم کرنے کا کھیل کھیلا جارہاہے مگر عوام اس پورے کھیل کی سچائی سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے لےرہی ہے ۔ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے ۔یہ صورتحال میڈیا نے پیدا کی ہے اور اس کے ذمہ دار وہ سرمایہ دار ہیں جو بڑے بڑے میڈیا ہائوسیز کے مالک ہیں۔ یہ تمام میڈیا ہائوسیز نیوز ایجنسیوں کے محتاج ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام تر بڑی نیوز ایجنسیاں استعمار کی ملکیت ہیں ۔استعماران نیوز ایجنسیوں کے ذریعہ دنیا کی بڑی آبادی کی سماعتوں اور قوت فیصلہ پر مسلط ہوچکا ہے۔جھوٹی خبریں پلانٹ کی جاتی ہیں ،خود کو مظلوم ثابت کرکے دنیا کی ہمدردی حاصل کی جاتی ہے ،اپنی فوجی طاقت اور اقتصادی عظمت کا بکھان کیا جاتاہے ۔اپنے دشمنوں کو دہشت گرد اور دہشت گرد دوستوں کو مصلح جہان کہہ کر متعارف کروایا جاتاہے ۔استعمار کی جاری کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں وہی تنظیمیں شامل ہیں جو اس کے مفادات کے خلاف لڑ رہی ہیں اوراس کے دنیا پر حکومت کے خواب کو ڈرائونا خواب بنا دیاہے ۔ایسی ہی ایک تنظیم کا نام ہے’’ حزب اللہ ‘‘۔حال ہی میں لبنان کے قومی دارالحکومت بیروت میں ہوئے دھماکے کے بعد عالمی سطح پر جس طرح ’حزب اللہ ‘ کو گھیرنے کی کوشش کی گئی وہ اسی منصوبے کا حصہ ہے ۔
ہمارا قومی میڈیا بھی لبنان کے دارلحکومت بیروت میں ہوئے دھماکوں کا ذمہ دار ’حزب اللہ ‘ کو قراردے رہاہے ۔جبکہ لبنان کی حکومت اورانٹلیجنس نے اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا ۔مگر میڈیا کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ لبنان حکومت اور وہاں کی انٹلیجنس کا موقف کیاہے بلکہ وہ تو اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لئے ان کے میڈیا ہائوسیز کی پلانٹ خبروں کو نشر کرکے اپنی غلامی کا ثبوت دے رہاتھا۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ کے سلسلے میں ’ٹی وی 9 بھارت ورش ‘ نے جس طرح کی خبریں نشر کی ہیں وہ اس کی اسرائیل نوازی اور حقیقت سے بے خبری کی دلیل ہے ۔حزب اللہ ایک جمہوری پارٹی ہے جس کے اراکین لبنان کی قومی اسمبلی میں موجود ہیں ۔اگر حزب اللہ دہشت گرد تنظیم ہے تو پھر لبنانی حکومت نے اس پر پابندی عائد کیوں نہیں کی؟ یا پھر ساری دنیا کا ٹھیکہ امریکا اور اسرائیل نے لے رکھاہے کہ وہ جسے چاہیں گے دہشت گرد قرار دیں گے اور جس دہشت گرد کو چاہیں گے دنیا پر امن کا نمائندہ بناکر مسلط کردیں گے ؟۔حزب اللہ اپنی سرحدوں کے تحفظ اور اسلامی اصول و اقدار کی پاسبان تنظیم ہے ۔ظلم و دہشت گردی کے خلاف اس کے جوانوں کی مقاومت اور ایثار نے ساری دنیا کو حیران کیاہے ۔اگر مظلوموں اور مستضعفین کی حمایت اور ان کا تحفظ کرنا امریکہ اور اسرائیل کی نگاہوں میں دہشت گردی ہے تو پھر یہ دہشت گردی امریکہ اور اسرائیل کے نام نہاد انصاف سے ہزار ہا درجہ بہتر ہے ۔کیا میڈیا نہیں جانتا کہ عالمی دہشت گردی کے فروغ میں اسرائیل اور امریکا کا کردار کیاہے ؟۔ طالبان سے لیکر داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ کہاں سے میسر آرہی ہے ؟ صدام حسین ،اوسامہ بن لادن ،ملا عمر اور ابوبکر بغدادی جیسے دہشت گردوں کا سرغنہ کون ہے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک نے دہشت گردوں کی فیکٹری قائم کی ہے جہاں ابوبکر بغدادی اور اوسامہ بن لادن جیسے دہشت گرد تیار کرکے اسلامی ملکوں میں بھیجے جاتے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جاسکے ۔ان دہشت گردوں کے ذریعہ جب یہ استعماری طاقتیں اپنے ہدف کو پالیتی ہیں تو انہیں ظالمانہ طورپر قتل کردیا جاتاہے ۔صدام حسین جو امریکہ کا پالتو تھا ،جیسے ہی امریکہ کو یہ احساس ہواکہ اب صدام اس کے مفادات کو نقصان پہونچا سکتاہے ،فرضی دلائل کے ساتھ پورے عراق کو تباہ و برباد کردیاگیا۔یہی صورتحال ابوبکر بغدادی اور ملا عمر و اسامہ بن لادن جیسے دہشت گردوں کے ساتھ اختیار کی گئی ،جبکہ یہ تمام دہشت گرد امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ تھے ۔

جاری

 

چین ایران کا عظیم اتحاد، ٹرامپ اور مودی دیکھتے رہو - دوسرا حصہ

  • ۳۸۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

ہندوستان کے لئے ، چابہار بندرگاہ نہ صرف افغانستان کو تیل کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے اور افغانستان اور وسطی ایشیا رسائی حاصل کرنے کے عنوان سے اہمیت کی حامل تھی بلکہ پاکستان کے گوادر بندرگاہ کے وزن کو کم کرنا ہندوستان کے لیے زیادہ اہم تھا۔
ایران کے لئے، چابہار بندرگاہ پہلی سمندری بندرگاہ تھی جس سے وہ کمرتوڑ پابندیوں سے نکلنے کے لیے کوئی چارہ جوئی کر سکتا تھا اور اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی سہولت فراہم کر سکتا تھا۔

تاہم ، یہ منصوبہ جلد ہی جمود کے دور میں داخل ہوگیا۔ 2017 میں ، ٹرمپ نے ایران کے جوہری معاہدے کے خلاف موقف اختیار کر کے اس سے نکلنے کی سعی شروع کر لی۔ دوسری جانب چابہار بندرگاہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اسے استفادے میں لانے کے لیے نجی کمپنیوں کی شراکت کی ضرورت تھی، لیکن نجی کمپنیوں نے نئی امریکی پابندیوں کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے ہندوستانی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کیا۔

2018 میں ، ٹرمپ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگئے اور اسی سال ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی گئیں۔ لیکن افغانستان کی تعمیر نو میں چابہار کے ممکنہ کردار کی وجہ سے، اس بندرگاہ کو امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ کر دیا گیا۔

اس چھوٹ کے باوجود ، ہندوستان چابہار کے لئے نجی شراکت دار ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ یہاں تک کہ بندرگاہ کو درکار سامان اور آلات و ابزات فراہم کرنے سے بھی قاصر رہا۔ گذشتہ موسم گرما میں ، یہ رپورٹ سامنے آئی کہ نئی دہلی نے اس منصوبے سے متعلق اپنے وعدوں کو 2017 سے پورا نہیں کیا ہے۔

اس بندرگاہ میں کنٹینر ٹریفک بہت کم ہے اور چابہار اس وقت اپنی سالانہ گنجائش کے 10٪ سے بھی کم کام کررہا ہے۔ برآمدات کی کم مقدار کا مطلب یہ ہے کہ جہاز بغیر مال کے چلتے ہیں اور اس وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔

بھارت نے بظاہر چابہار میں ریلوے کی تعمیر میں کوئی پیشرفت نہیں کی اور ایران خود اس منصوبے کو انجام دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔ نیز، ہندوستانی کمپنیاں جو تھوڑا بہت گیس کے میدان میں کام کرنے کے لیے آگے بڑھی تھیں انہوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ ایسے میں تہران ایک نئے پارٹنر کو تلاش کرنے پر مجبور ہوا۔
ایران نے چین کو اپنا پارٹنر بنا کر بہت ساری مشکلات کا راہ حل تلاش کر لیا ہے چین اگر چاربہار بندرگاہ کو مکمل کر کے ایران میں سرمایہ کاری شروع کر لیتا ہے اور ایران کے ذریعے وہ مشرقی وسطیٰ اور یورپ میں مکمل طور پر گھسنے کے لیے اپنا زمینی راستہ تیار کر لیتا ہے تو پھر چین کی راہ میں امریکہ کیا امریکہ کا باپ بھی روڑے نہیں اٹکا سکے گا اور نتیجہ میں امریکہ چین کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور تو ہو گا ہی مگر ایران بھی چین کے سہارے علاقے میں بڑی طاقت کی صورت میں ابھرے گا۔ ایشیا میں چین ایران اور روس کا اتحاد امریکہ اور یورپ کو ناکو چنے چبوانے کے لیے کافی ہو گا۔

 

چین ایران کا عظیم اتحاد، ٹرامپ اور مودی دیکھتے رہو - پہلا حصہ

  • ۴۳۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی جریدہ نیشنل انٹرسٹ (The National Interest) میں ’روپرٹ اسٹون‘ نے "چین اور ایران کے عظیم اتحاد کے لئے تیار ہو جائیں" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے:

چین کو کنٹرول کرنے میں بھارت امریکہ کا اہم شراکت دار ہے۔ لیکن ایران کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی نے خطے میں نئی دہلی کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے ، اور اس وقت تہران سے اہم مراعات حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔

چین اور ایران کے مابین 25 سالہ معاہدے کی اطلاعات نے واشنگٹن کو مشتعل کردیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹرمپ کی تہران کو تنہا کرنے کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔

لیکن ریاستہائے متحدہ واحد ملک نہیں ہے جو چین-ایران عظیم اتحاد کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔ بھارت نے بھی ایران میں مختلف سرمایہ کاری کی ہے جو ایران اور چین کے مابین معاشی تعلقات میں توسیع کی وجہ سے خطرہ میں ہے۔

انتباہی نشانیاں پہلے سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، جب سے چین کی ایران میں سرمایہ کاری کی بات شروع ہوئی ہے مبینہ طور پر ہندوستانی کمپنیوں نے ایران میں اپنی نقل و حرکت روک دی ہے۔ موجودہ صورتحال نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ بیجنگ ہندوستان کو ایران سے نکال باہر کرے گا۔

حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایران چین معاہدے نے نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سرحدی تنازعات میں اضافہ کے ذریعہ نہ صرف ہند چین تعلقات اس وقت تناؤ کا شکار ہیں ، بلکہ نئی دہلی کو اپنے پڑوس میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں طویل عرصے سے تشویش ہے۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ نئی دہلی کا یہ خوف کہ چین بھارت کو ایران سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہا ہے بے بنیاد نہیں ہے۔ ایران میں ہندوستانی منصوبے حقیقت میں مشکلات سے دوچار ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ مشکلات امریکی پابندیوں کا نتیجہ ہیں، نہ صرف چین کی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش۔ در حقیقت ، چین-ایران معاہدہ اس سے کہیں کم اہمیت کا حامل ہے جتنا میڈیا اسے اہمیت دے رہا ہے۔

ہندوستان نے کئی دہائیوں سے ایران میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوشش کی، اور 2015 میں جوہری معاہدے کے بعد ایرانی معیشت کے خلاف پابندیوں کے خاتمے سے بھارت کی تلاش و کوشش میں تازہ جان آ گئی تھی۔

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران جوہری معاہدے کے بعد تیزی سے ایران کے قریب ہونے کے لیے قدم اٹھایا۔ تہران کے پاس بہت سارے قدرتی ذخائر ہیں جن میں توانائی کے وافر وسائل بھی شامل ہیں۔ نیز پاکستان کو نظر انداز کر کے ایران، افغانستان اور وسطیٰ ایشیا میں قدم رکھنے اور اپنی برآمدات بہم پہنچانے کے لیے بھارت کے پاس اس سے اچھا آپشن نہیں تھا۔

ہندوستانی کمپنیوں نے تہران کے ساتھ گیس کے حوالے سے اپنے پرانے معاہدوں کو دوبارہ بحال کیا۔ اس کے علاوہ 2016 میں ، مودی نے اپنے ایرانی اور افغان ہم منصبوں کے ساتھ ہندوستان اور افغانستان کے مابین ایک نیا تجارتی روٹ قائم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس مقصد کے لئے ، ہندوستان نے ایران کے جنوب مشرق میں چابہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری پر اتفاق کیا اور چابہار سے افغان سرحد تک ایک ریلوے لائن تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔

جاری

 

بھارت اسرائیل باہمی تعلقات کے اہم اسباب

  • ۳۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی ریاست کو اپنی تشکیل کے بعد پڑوسی عرب ممالک اور مسلمان اقوام سے انتہائی خطرہ محسوس ہوا لہذا اس نے اپنے تحفظ اور پڑوسی ممالک کی جانب سے پیش آنے والے سیاسی دباؤ میں کمی لانے کی خاطر علاقے کے ممالک سے سیاسی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کی مساعی شروع کر لی۔ اس درمیان ہندوستان، اسرائیل کے پیش نظر جغرافیائی اور اجتماعی اعتبار سے ان ممالک میں سے ایک تھا جس کے ساتھ یہ یہودی ریاست سفارتی تعلقات قائم کر سکتی تھی۔  مثال کے طور پر صہیونی ریاست نے ترکی کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تاکہ شام پر دباؤ ڈالے، سوڈان کے ساتھ تعلقات قائم کئے تاکہ مصر پر دباؤ ڈالے اسی طرح ہندوستان کے ساتھ بھی تعلقات اور روابط قائم کرنے کا مقصد ایک اسرائیل کو خود اپنا تحفظ فراہم کرنا تھا دوسرا پاکستان پر دباؤ ڈالنا تھا چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہونے کی ناطے کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا اور اسرائیل کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔
بہر حال اسرائیل کے ہندوستان کے ساتھ سیاسی روابط دھیرے دھیرے بہت گہرے ہوتے گئے۔ اور موجودہ دور میں اسرائیل اس کوشش میں ہے کہ تین ممالک “ہندوستان، ترکی اور اسرائیل” کے باہمی اتفاق اور امریکہ کی مدد سے ایشیا کے اندر ایک نیا بلاک تشکیل دے تاکہ اس طریقے سے وہ علاقے میں مسلمان ممالک کو کمزور بنا سکے اور اسلامی بنیادوں کو اکھاڑ سکے۔ یقینا ہندوستان اور اسرائیل کے اسلام اور مسلمانوں کی تئیں پائے جانے والے مشترکہ نظریات کے پیش نظر یہ اقدام بعید از قیاس نہیں لگتا۔
ہندوستان کے جیوپولیٹکس کے پیش نظر، اسرائیل دیگر غیر اسلامی ممالک کے ساتھ رابطہ جوڑنے کے لیے ہندوستان کو رابطہ پل کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ علاوہ از ایں، وہ بحر ہند کو بھی اپنے بحری بیڑوں اور آبدوز کشتیوں کے لیے استعمال میں لا سکتا ہے۔
دوسری جانب، ہندوستان اپنی مسلمان آبادی کے اعتبار سے بھی کئی مسلم ممالک کے ساتھ تاریخی تعلقات رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی اسرائیل ہندوستان کے ساتھ سیاسی، معاشی اور عسکری روابط قائم کر کے ہندوستان کا اسلامی ممالک سے ناطہ توڑنا چاہتا ہے اور اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا  چاہتا ہے نیز اندرونی طور پر بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اختلافات اور دراڑیں پیدا کر کے ہندوستان میں موجود مسلمانوں کو بھی کمزور کرنا چاہتا ہے۔
ہندوستان کے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے اسباب
اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کے بعد۱۹۵۰ میں تل ابیب میں موجود ہندوستان کا تجارتی دفتر بھارتی سفارتخانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے سے قبل ۸۰ فیصد اسلحہ ہندوستان سابق روس سے برآمد کرتا تھا۔ لیکن سرد جنگ کے خاتمے اور روس کے کمزور ہونے کے بعد ہندوستان پاکستان پر برتری حاصل کرنے اور چین کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی غرض سے پیشرفتہ ہتھیار حاصل کرنے کے لئے کسی متبادل آپشن کی تلاش میں تھا۔
اس درمیان امریکہ نے ہندوستان کو علاقے کے لیے خطرہ گردان کراسے اسلحہ فروخت کرنے سے انکار کر دیا، اس وجہ سے ہندوستان کے پاس بہترین متبادل آپشن اسرائیل تھا۔ نیز ۱۹۹۸ میں ہندوستان کی جانب سے ایٹمی تجربہ کئے جانے کے بعد امریکہ نے اس پر پابندیاں عائد کر دی یہ پابندیاں بھی اس بات کا باعث بنیں کہ ہندوستان اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور پابندیوں میں کمی لانے کے لیے اسرائیل کو امریکہ کے نزدیک واسطہ قرار دے۔
اور پھر ہندوستان عرصہ دراز سے مسئلہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ الجھا ہوا ہے لہذا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا ایک مقصد کشمیر کے حریت پسند مسلمانوں کی مشترکہ دشمن کے عنوان سے سرکوبی ہے۔ پاکستان کے مد مقابل دفاعی توازن کو برقرار کرنے کی غرض سے پیشرفتہ اسلحے کا حصول اور ہندوستان میں دھشتگردی کے نفوذ پر روک تھام کرنے کے لیے اسرائیلی جاسوسی ایجنسیوں کا استعمال بھارت اسرائیل تعلقات کے دوسرے مقاصد کا حصہ ہیں۔ ان سب وجوہات کے باوجود، بھارت اسرائیل تعلقات کی اصلی وجہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ سیاسی روابط میں توسیع کے لیے راستہ ہموارکرنا تھا کہ جس کا نتیجہ سلامتی کونسل میں دائمی سیٹ کا حصول تھا۔
البتہ صہیونی ریاست کا ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ کے نمائندوں میں گہرا اثر و رسوخ بھی ان ملکوں کے باہمی تعلقات کے فروغ میں بے تاثیر نہیں رہا۔ نیز ان تعلقات کی توسیع میں یہودی لابیاں اور تنظیمیں بھی بے کار نہیں بیٹھی رہیں۔ مثال کے طور پر سن ۲۰۰۵ میں کشمیر زلزلے میں، دو صہیونی تنظیموں؛ Global Jewish Assistance اور World Jewish Relief Institute  نے سب سے زیادہ اینڈین پاکستانی زلزلہ زدہ لوگوں کی مدد کی۔
اس سے قبل ۱۹۷۰ میں ہندوستان کے قبیلے بنی مناشہ کو یہودی قبیلے کا نام دے کر اس کے پانچ ہزار افراد کو اسرائیل منتقل کیا کہ یہ بھی ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی ایک وجہ ہے۔ صہیونیوں نے ہندوستانیوں کو یہ بھی باور کروانے کی کوشش کی کہ یہودی اور ہندو تاریخی اعتبار سے ایک دوسرے کے مشابہ قومیں ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ ہندو اور یہودی پانچ ہزار سال پرانی تاریخ کے حامل ہیں، دونوں کا مشترکہ دشمن ’مسلمان‘ ہے ( ہندوستان کے دشمن پاکستانی اور اسرائیل کے دشمن فلسطینی)، دونوں برطانیہ کے زیر قبضہ رہے ہیں اور دونوں کے سیاسی رہنما کو بھی دھشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ( مہاتما گاندھی ۱۹۴۸ میں اور اسحاق رابین ۱۹۹۵ میں)۔
یہ تمام وہ عوامل اور اسباب ہیں جن کی بنا پر اسرائیل ہندوستان سے روز بروز قریب سے قریب تر ہوتا گیا ہے یہاں تک کہ اب اسرائیل ہندوستان کے اندر کافی حد تک اپنا اثر و رسوخ پیدا کر چکا ہے۔ لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کھیل میں سب سے زیادہ جس نے فائدہ اٹھایا ہے وہ اسرائیل ہے۔
منبع: صفاتاج، مجید، صہیونیت و اسرائیل انسائکلوپیڈیا، ج۶

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

ہندوستان میں استعمار کا آغاز

  • ۴۱۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: واسکو ڈے گاما Vasco da Gama, ˈvaʃku ðɐ ˈɣɐmɐ][۱]کی کالیکوٹ (calicut) بازگشت اور پرتگال کے ظالم بادشاہ کو دگاما کی جانب سے ضروری رپورٹس دینے کے بعد پیڈرو ایلواریس کیبرل، [ˈpeðɾu ˈaɫvɐɾɨʃ kɐˈβɾaɫ] [۲] کی رہبری میں ۱۳ کشتیوں پر مشتمل ایک بڑا بیڑہ مشرق کی طرف چل دیتا ہے لیکن اس بار مقصد سیر سپاٹا یا کسی سرزمین کی دریافت نہیں ہے بلکہ مقصد تسخیر اور قبضہ جمانا ہے اور لائق توجہ بات یہ ہے کہ اس سفر میں گاسپارڈے گاما بھی ساتھ ہے ۔
کالیکوٹ پہنچنے کے بعد پرتگال سے آئے وفد کی جانب سے حاکم کے سامنے یہ مطالبہ رکھا جاتا ہے کہ مسلمان تاجروں کو یہاں سے نکال باہر کیا جائے یہ مطالبہ نہ صرف یہ کہ مسترد کر دیا جاتا ہے بلکہ اس مطالبہ پر کالیکوٹ کے حکمراں کی جانب سے شدید رد عمل بھی سامنے آتا ہے۔
نقل تو یہاں تک ہوا ہے کہ پیڈرو ایلواریس کیبرل، [ˈpeðɾu ˈaɫvɐɾɨʃ kɐˈβɾaɫ] کے ہمراہ کچھ لوگ اپنے برے رویہ کی بنا پر ہلاک بھی ہوئے اور کایبرال کو وہاں سے نکال دیا گیا، یہاں سے نکلنے کے بعد پیڈرو ایلواریس کیبرل نے کوچن cochin میں اپنا ٹھکانا بنایا اور یہودیوں اور سیاہ فاموں کی مدد سے سب سے پہلا پرتگالی اڈہ قائم کیا ۔
الغرض شکست خوردہ پیڈرو ایلواریس کیبرل اپنے ملک پلٹ گیا لیکن اس کی کچھ مدت کے بعد ۱۵۰۲ ء میں واسکو ڈے گاما Vasco da Gama, ˈvaʃku ðɐ ˈɣɐmɐ]۱ ۲ /اسلحوں سے لیس شدہ کشتیاں لیکر ہندوستان کی طرف چل پڑا ، دانتوں تک اسلحوں سے لیس ہوکر اسکے نکلنے کا مقصد مسلمانوں کے بیڑوں کی تباہی اور مشرقی دریا کے راستوں پر اکلوتے پرتگال کا جھنڈا لہرانا اور اسکا تسلط قائم کرنا تھا۔
واسکو ڈے گاما Vasco da Gama, ˈvaʃku ðɐ ˈɣɐmɐ]نے اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے اس سفر میں پہلے کیلوا Kilwa[3] بندرگاہ پر پڑاو ڈالا اور شہر کے حاکم سے خوب اچھی طرح خراج وصولا، شہر کے مسلمان حاکم سے قاعدے سے خراج لینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کچھ لوگوں کو بھی تہہ تیغ کیا اسکے بعد کالیکوٹ کا رخ کیا اور مسلمانوں کی تجارتی کشتیوں کو تاراج و نابود کر دیا اپنے تباہ کن حملوں کے ذریعہ اس نے پورے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول بنا دیا اور پورے علاقہ پر وحشت و خوف کے سایے مسلط ہو گئے ۔
اس پورے ماجرے میں جو چیز باعث تعجب ہے وہ یہ کہ مغربی مورخین اس پورے ماجرے کو جب بیان کرتے ہیں تو گاما Gama, کو ایک متجاوز اور در انداز کے طور پر پیش نہیں کرتے کہ جس نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا اور زبردستی دوسروں کے علاقوں میں گھس کر طاقت کے زور پر وہاں اپنا پرچم لہرایا بلکہ اسکے اقدام کو پرتگال کی ہندوستان سے تجارت کے اولین قدم کی صورت میں دیکھتے ہیں گو کہ وہ کوئی قاتل و غارت گر نہیں بلکہ پرتگال و ہندوستان کے ما بین تجارت کا پل بنانے والی شخصیت ہو ۔
یہ مورخین اپنی کتابوں میں اس طرح لکھتے ہیں: ” کابرایل نے ۱۵۰۰ ء میں یہ بات ثابت کر دکھائی کہ مشرق میں مسلمانوں کے ہاتھوں تجارت کی باگ ڈور ہونے اور تجارت کا اختیار مکمل طور پر محض انہیں کے ہاتھوں ہونے کے مسئلہ کو صلح آمیز طریقہ سے حل نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا اسکا ایک ہی راستہ تھا کہ طاقت کا استعمال کیا جائے “۔
لیکن یہ سب تو کہنے کی باتیں ہیں جب کہ دیکھا جائے تو مسلمان تاجروں کی ثروت اور انکے پاس دولت کی ریل پیل کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کو انکے حسد و لالچ نے اس منزل پر پہنچایا کہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار پر اتر آئیں، ان تمام تباہیوں اور سفاکیوں کا اصل محرک انکے وجود کی حرص تھی جو انکے ظلم ستم کی داستان رقم کرنے کا سبب بنی اس لئے کہ یہ لوگ ثروت و دولت کے ڈھیر کو دیکھ کر صبر نہیں کر سکے خود کو نہ روک سکے کہ تجارت کے ذریعہ قانونی طور پر اسے حاصل کریں اور نفع بخش چرخے کا حصہ بنیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ سب حصول ثروت کے سب سے تیز ترین راستے یعنی دراندای چھینا جھپٹی اور ڈاکہ ڈالنے کی طرف چلے گئے اور انہوں نے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے شدت پسندانہ راستے کو چنا ۔
Ernest Ezra Mandel ارنسٹ مینڈل نے ذرا منصفانہ انداز میں بر صغیر کی زمینوں پر ناجائز قبضے کی ایک جامع توصیف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ یورپین غارت گروں اور متجاوزوں کے بارے میں کہتے ہیں ” یہ وہ کام تھا جو بغیر خونریزی کے انجام پذیر نہ ہو سکا، یہ ایک طرح کی مرچی، دارچین ، اورلونگ کے تاجروں کی جنگ تھی جو اپنے ساتھ وحشتناک سفاکیت کو لئے ہوئے تھی، جتھوں کے جتھوں کا قتل عام، بڑے شہروں کا ویران کر دینا، کشتیوں کا انکے سواروں کے ساتھ جلا دینا، بھیڑ بکریوں کی طرح چھری سے انسانی اعضاء کا کاٹ دینا کیا یہی عیسائی دلاوروں کی کہانیاں ہیں؟
جس میں لوگوں کے کان، ہاتھ اور ناک کاٹ کر مذاق اڑانے کی خاطر وحشی بادشاہوں کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا تھا کیا یہی عیسائی شہسواروں کی خدمات ہیں، انہوں نے اپنی جنایتوں اور تاراجیوں میں یہ بھی کیا کہ اپنی غارت گری کے بعد ایک برہمن کو مثلہ کر دینے کے بعد بھی زندہ رکھا یعنی اسکے ہاتھ پیر ناک کان کاٹ دئے لیکن خیال رکھا کہ اسکی جان نہ جانے پائے اور یہ اس لئے کیا کہ وہ انکی کامیابی و قساوت کی کہانی مقامی راجاوں اور حاکموں تک بیان کر سکے ۔
گاما جب ان تمام سفاکیت کی داستانوں کو رقم کر کے اپنے ملک پہنچا تو اپنے کاموں کے انعام کے طور پر کانٹ ویڈیگوڑا Count to Vidiguerra کے عنوان سے اسے نوازا گیا اور ۱۵۳۴ء میں پرتگال کے نائب السلطنۃ کے طور پر مشرق میں اسکا انتخاب ہوا لیکن مختصر سے عرصے میں ہی ہندوستان کے سفر کے بعد کوچین کی بندرگاہ پر اس دنیا سے چل بسا لیکن قتل و غارت گری کی جو رسم اس نے اپنے پیچھے چھوڑی تھی وہ ختم نہ ہوئی بلکہ فرنسیسکو دا لمیڈ[۴] اور آلفونسو دالبرکرک[۵] کے ذریعہ یہی قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہا ۔[۶]
حواشی:
[۱] ۔واسکو ڈے گاما Vasco da Gama, ˈvaʃku ðɐ ˈɣɐmɐ] کو ایک پرتگالی بحری قزاق ، جس نے یورپ سے جنوبی افریقا کے گرد گھوم کر ہندوستان تک بحری راستہ دریافت کیا اور مہم جوئی اور تجارت کی ایک نئی دنیا کھولی۔ وہ ۱۴۶۹ء میں پرتگال میں پیدا ہوا اور ۱۵۲۴ء میں کوچی ہندوستان میں اس نے ابدی کوچ کیا ۔
[۲] ۔ پیڈرو ایلواریس کیبریل ۱۴۶۸ء میں وسطی پرتگال کے شہر بیل مونٹے میں رہائش پزیر ایک معزز خاندان میں پیدا ہونے والا۔ دے گاما کی ہی طرح ایک پرتگالی مہم جو،اور پہلا یورپی جس نے ۱۵۰۰ء میں حادثاتی طور پر یورپ سے برازیل کا بحری راستہ دریافت کیا۔ اس کی مہم کے نتیجہ میں پرتگالی حکومت نے برازیل کی ملکیت کا دعویٰ کیا اور جنوبی امریکا میں پہلی پرتگیزی کالونی کی بنیاد رکھی گئی۔ تفصیل کے لئے دیکھیں : عظیم مہم جو۔ کراچی: سٹی بک پواؤنٹ، اردو بازار۔ ۲۰۱۱ء۔ صفحات ۱۴۶، ۱۴۷۔ Bueno, Eduardo (1998). A viagem do descobrimento: a verdadeira história da expedição de Cabral (in Portuguese). Rio de Janeiro: Objetiva. ISBN 978-85-7302-202-5. Greenlee, William Brooks (1995). The voyage of Pedro Álvares Cabral to Brazil and India: from contemporary documents and narratives. New Delhi: J. Jetley.
Espínola, Rodolfo (2001). Vicente Pinzón e a descoberta do Brasil (in Portuguese). Rio de Janeiro: Topbooks. ISBN 978-85-7475-029-3..
Kurup, K. K. N. (1997). India’s naval traditions: the role of Kunhali Marakkars. New Delhi: Northern Book Centre. ISBN 978-81-7211-083-3.
[۳] ۔ تنزانیا کے شہر دار السلام کے ۳۰۰ کلومیٹر جنوب میں واقع شہر جو یونسکو کے آثار قدیمہ سے متعلق عالمی میراث کی فہرست میں آتا ہے کبھی اس شہر میں ہاتھی کے دانت ، سونا ، چاند ی عقیق ،وغیرہ کی تجارت ہوتی تھی ۔ http://whc.unesco.org/en/list/144
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : Elkiss, Terry A. (1973). “Kilwa Kisiwani: The Rise of an East African City-State”. African ،
Studies Review. 16 (1): 119–۱۳۰٫ doi:10.2307/523737 ، Fleisher, Jeffery; Wynne-Jones, Stephanie (2012). “Finding Meaning in Ancient Swahili Spatial Practices”. Afr Archaeol Rev. 29: 171–۲۰۷٫ doi:10.1007/s10437-012-9121-0.
[۴] ۔ francisco de Almeida
[۵] ۔ Alphonso de Albuqerque
[۶] ۔ کتاب زرسالاران یهودی و پارسی، غارتگری ماوراء بحار و تمدن جدید غرب، ج۱، ص ۴۵ الی ۴۷٫
تلخیص و ترجمہ :سید نجیب الحسن زیدی

 

کرونا کی وبا کے درمیان ہندوستانی فوج کی جانب سے لاکھوں ڈالر کی ڈیل کے بارے میں سوچ بچار

  • ۳۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کرونا کی خطرناک وبا سے جوجھتے ہندوستان میں امریکہ سے اسلحوں کی خریداری کی  خبر نے ہر ایک صاحب فکر محب وطن کو چونکا دیا ہے کہ ایسے حالات میں جب کرونا تیزی کے ساتھ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے  آخر فوج کو ضرورت کیا ہے کہ وہ امریکہ سے اسلحوں کی خریداری پر غور کرے، خبروں کے مطابق ہندوستانی فوج امریکہ سے 72 ہزار سِگ 716 اسالٹ رائفلز خریدنے پر غور کر رہی ہے۔
 بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق "ان سِگ (ایس آئی جی) اسالٹ رائفلز کی پہلی کھیپ انڈیا کو جنوری میں دی گئی تھی اور یہ شمالی کمانڈ اور دیگر آپریشنل علاقوں کی تعینات فوجیوں کو دے دی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ رائفلز کشمیر اور دیگر سرحدی علاقوں میں تعینات فوجیوں کو بھی دی گئیں ہیں"۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق اس معاملے سے واقف ایک شخص نے بتایا: 'ہم سکیورٹی فورسز کو دیے گئے معاشی اختیارات کے تحت مزید 72 ہزار رائفلز کا آرڈر دینے جا رہے ہیں' اور کہا جا رہا ہے کہ یہ خریداری فاسٹ ٹریک پرچیز (ایف ٹی پی) پروگرام کے تحت کی جائے گی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خریداری ایسے میں ہو رہی ہے جب ہندوستانی معیشت اپنے نہایت ہی خطرناک بحران سے گزر رہی ہے اور ہندوستان کو صنعت و ٹکنالوجی کے مختلف شعبوں میں شدید طور پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اب سوال یہ ہے کہ یہ معیشتی بحران زیادہ بڑا ہے یا وہ کاذب بحران جسے میڈیا نے ہندوستان مقابلہ چین کے طور پر کھڑا کیا ہے اگر ہندوستانی نقطہ نظر کو دیکھا جائے تو انکا موقف یہ ہے :
'اگر چہ ہر فوج چاہتی ہے کہ لڑائی کے لیے اس کے پاس سب کچھ ہو لیکن ایک جمہوریت اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ترقی اور معیشت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور فوج کا بجٹ کم ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی بحران پیدا ہو جاتا ہے اور کوئی کمی ہوتی ہے تو ہنگامی صورت حال میں اس قسم کی خریداری کی جاتی ہے۔ یہ ہر فوج کرتی ہے، صرف  ہندوستانی  فوج کی بات نہیں ہے۔'
قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ میں تیار کی جانے والی یہ اسالٹ رائفلز فی الوقت انڈین فوج میں استعمال ہونے والی انڈین اسمال آرمس سسٹم (انساس) رائفل کی جگہ لیں گی جو کہ ملک میں ہی تیار کی جاتی ہیں۔ اگر دفاعی تجزیہ کاروں کی بات کو تسلیم کیا جائے تو وہ بھی اسے ہندوستان کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہتے نظر آ رہے ہیں کہ : 'نئی رائفلز کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت گذشتہ آٹھ نو سالوں سے ہے۔ 'ان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے سنہ 1990 کی دہائی میں ایک دیسی اسالٹ رائفل بنائی تھی جسے انساس رائفل کہتے ہیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔
 دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کے مطابق سنہ 2010-2011 میں فوج نے کہا تھا کہ وہ عملی طور پر موثر نہیں ہیں یعنی اسے چلانے میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں اور فوج نے یہ کہتے ہوئے انساس رائفل کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اس کے بدلے میں ہمیں دوسرے قسم کا اسلحہ چاہیے۔ اس وقت سے ہی نئی رائفل کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔
فوج کے پاس نئے اسلحوں کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہے ، لیکن جس وقت اور جن حالات میں اس ڈیل پر گفتگو ہو رہی ہے وہ بہت عجیب ہے جبکہ  ہندوستان کی صلاحیت و توانائیوں کے پیش نظر دیکھا جائے تو خود بھی وہ ان معمولی اسلحوں کو بنا سکتا ہے جنکی فوج کو ضرورت ہے، اور یہی سوال دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے  بھی اٹھایا ہے کہ ایک طرف انڈین حکومت خود کفیل ہونے کی بات کرتی ہے دوسری طرف آپ درآمد کرتے ہیں۔ یہاں قدرے تضاد ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ سے آنے والی اسالٹ رائفل بہت اچھی ہے۔ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وہ درآمد کی جاتی ہیں اور دوسری یہ کہ وہ مہنگی ہیں۔ ان کے مطابق جنوری میں موصول ہونے والی 72 ہزار 400 سِگ 716 اسالٹ رائفل کی قیمت تقریبا آٹھ کروڑ ڈالر آئی تھی۔ان کے بقول مودی کا 'میک ان انڈیا مکمل طور پر ناکام ہے۔ سیاسی لحاظ سے اسے جتنا چاہیں اچھالیں لیکن اس کا کوئی جواز نہیں۔ انڈیا ایک ایسا ملک ہے جو درآمد شدہ ہتھیاروں سے لڑتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'آپ ہوائی جہاز کو لیں، اپنا فائٹر دیکھیں، ہیلی کاپٹر دیکھیں، ٹینک دیکھیں، سب درآمد کیا جاتا ہے۔ آپ کے آبدوز، طیارہ بردار بحری جہاز، ایئر کرافٹ کیریئر سب درآمد کیا جاتا ہے۔'
در حقیقت سن 2014 سے 2018 کے درمیان انڈیا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا فوجی اسلحہ درآمد کرنے والا ملک رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق انڈیا دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے کا 10 فیصد خرید رہا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی خود پر انحصار کی صلاحیت بہت ہی ناقص ہے۔ 'پچھلے 65 سالوں میں ہم نے کوئی ہتھیار بنانے کا نظام نہیں بنایا ہے۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ مشرق وسطی میں چاروں طرف سے گھرا ہوا ایران جیسا ملک  ٹینک سے لیکر جدید ٹکنالوجی سے آراستہ ٹینک بھی خود بنا رہا ہو اور ہندوستان جیسا ترقی پذیر ملک  اپنے اسلحوں کے لئے اب بھی امریکہ کے اوپر منحصر ہو؟۔۔۔

 

ہندوستان کی اسرائیل دوستی کے اثرات

  • ۳۷۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: وزیر اعظم نریندر مودی عوام کو سبز باغ دکھلانے میں بلا کی مہارت رکھتے ہیں ۔عوام ان کے وعدوں اور دعووں کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ان کی قیادت پر عوام کا اندھا اعتبار ان کی بے پناہ مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے ۔مہنگائی کے اس دور میں بھی عوام ان کی قیادت کی تنقید کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔بی جے پی کی حریف جماعتوں کے لئے عوام کی یہی ’اندھ بھکتی‘ بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے جس کا نقصان انہیں بہار اور بنگال کے انتخابات میں بھی ہوگا۔ عوام بی جے پی کے اعلیٰ قائدین کی ناتجربہ کاری ، لاعلمیت اور نااہلی سے اچھی طرح واقف ہے مگر بی جے پی نے عوام کومنافرانہ سیاست اور فرقہ پرستی کے جس دام فریب میں الجھایاہے اس سے باہر نکلنا آسان نہیں ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی کے پاس حکومت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لئے اس کی ناتجربہ کاری نے ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔داخلی سیاست پرنفرت اور فرقہ پرستی کو مسلط کردیا گیا اور خارجہ پالیسی استعمار کی خوشنودی کے حصول کے لئے یکسر بدل دی گئی ۔ہندوئوں کو متحد کرنے کے لئے فرقہ پرستی اور اقلیتوں کے خلاف نفرت کی سیاست کا سہارا لینا ،بی جے پی کا ذاتی خیال نہیں تھا ۔بلکہ اسی گھنائونی سیاست کے سہارے ایک عرصے تک عیسائیت نےمسلمانوں کے خلاف تخریب کاریاں سرانجام دی تھیں اور آج یہودیت اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔استعمار کے حلیف اس کے ہتھکنڈوں اور سیاسی چالوںسے آزادنہیں ہوسکتے ،یہی وجہ ہے کہ آرایس ایس جیسی جماعت نے بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لئے ان تمام حربوں کو استعمال کیا جن سے ہمارے ملک کی سیاست بے خبر تھی ۔یہ کامیابی ایک بار میں ہاتھ نہیں لگی بلکہ آزادی سے پہلے اور فوراََ بعد ہیڈگوار اور ساورکر جیسے لیڈروں کی رہنمائی میں یہ کوشش جاری رہی ۔آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں سے نجات اور ان کے خاتمے کے لئے کھل عام باتیں ہورہی ہیں اورگزشتہ دس سالوں میں سیاست کا رخ اس قدر تبدیل ہوگیاکہ اقلیتی طبقہ انگشت بدنداں ہے ۔اس کی بڑی وجہ اقلیتی طبقہ کی غیر منظم سیاسی سوچ اور مرکزی قیادت کا فقدان ہے ۔ملک کی سیاست کی باگ ڈور استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اور مسلمان سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا،یہ ایک المیہ ہے ۔ہندوئوں کو جب تک اس گھنائونی سیاست کا صحیح اندازہ ہوگا ،صورتحال بے قابو ہوچکی ہوگی اور پھر ملک کی سیاست کے نفرت آمیز دھارے کو بدلنا ممکن نہیں ہوگا۔اس وقت ملک کے عوام کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر ہماری سرکار استعمار پر اس قدر فریفتہ کیوں ہے؟۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جس وقت امریکی دباؤ میں ہندوستان نے ایران سے تیل کی تجارت منسوخ کی تھی ،اس وقت امریکہ نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ہندوستان کو کم قیمت پر تیل فراہم کرے گا ۔مگر جیسے ہی ہندوستان نے ایران سے تیل کی تجارت ختم کی ،امریکی مؤقف بدل گیا۔امریکہ نے واضح الفاظ میں ہندوستانی سرکار سے کہاکہ وہ بازار سے کم قیمت پر تیل فراہم نہیں کرسکتا۔ ہندوستان نے سعودی عرب سےاضافی تیل کی فراہمی کے سلسلے میں مذاکرات کئے مگر نتیجہ بے سود رہا ۔کیونکہ سعودی عرب کی تیل ریفائنریز کی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دوسروں ملکوں سے تجارتی تعلقات کو بحال رکھتے ہوئے ہندوستان کو اضافی تیل فروخت کرسکیں۔ اس وقت ہندوستان سب سے زیادہ عراق اور سعودی عرب سے تیل برآمد کر رہاہے ۔مگر عالمی بازار میں تیل کی قیمتیں کم ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے عوام کو سستا تیل مہیا نہیں کر پا رہاہے ۔اس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت پر پڑ رہاہے جو کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی بدحالی کا شکارہے ۔تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام ضروریات کی چیزوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔مہنگائی دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور عام آدمی اپنی ضروریات کو پورا کرنے سے بھی قاصر ہے ۔ایسے حالات میں ہندوستان اگر اپنے پرانے دوستوں کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا تو حالات مزید بدتر ہوں گے ۔

جس وقت نریندر مودی پہلی بار بر سر اقتدار آئے تھے ،اس وقت تیل کی قیمتیں عالمی بازار میں عروج پر تھیں۔اس کے باوجود ان کا دعویٰ تھا کہ عوام کو سستا تیل دستیاب ہونا چاہئے ۔انہوں نے تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتوں کو لیکر کانگریس سرکار کے خلاف محاذ کھول دیا تھا ۔مگر جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں اس کے بعد سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہواہے ۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جب بھی ان کے وزیروں سے اس سلسلے میں بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ تیل اور گیس کی قیمتیں ان کے اختیار میں نہیں ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جس وقت بی جے پی کانگریس کے خلاف مہنگائی کو لیکر مظاہرے کررہی تھی ،کیا اس وقت بی جے پی کو یہ معلوم نہیں تھاکہ مہنگائی پر سرکار کا قابو نہیں ہوتاہے؟ اور اگر اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کو مہنگائی کی حقیقت کا علم ہواہے تو پھر انہیں اپنے تمام ان سابقہ مظاہروں اور احتجاجات پر ملک سے معافی مانگنی چاہئے ،جو انہوں نے کانگریس سرکار میں مہنگائی کے خلاف کئے تھے ۔مگر جناب !سیاست کا کھیل نرالاہے ۔یہاں سچ کی کوئی اہمیت نہیں ،جھوٹ کا بول بالاہے ۔آج بھی بی جے پی مہنگائی ،کورونا وائرس،چین سے تنازع اور دیگر مسائل کے سلسلے میں سفید جھوٹ بول رہی ہے مگر ’گودی میڈیا‘ اور ’بھکت‘ کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔

نریندر مودی اپنے عجلت پسندانہ فیصلوں کے لئے جانے جاتے ہیں۔ان کے غیر منصوبہ بند لاک ڈائون نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی اور عوام پر فاقوں کی نوبت آچکی ہے مگر اب بھی ان کے یہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور عام آدمی مہنگائی سے پریشان ہے ۔اس کی آمدنی کا سلسلہ تو پہلے لاک ڈائون کے بعد ہی ختم ہوگیا تھا ،اس پر مہنگائی کی مار نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔سرکار غریبوں کو جتنا راشن مہیا کرارہی ہے وہ ان کی گذر بسر کے لئے کافی نہیں ہے ۔بے روزگاری عروج پر ہے اور مزدور طبقہ جو پہلے بڑے شہروں میں روزی روٹی کمارہا تھا ،آج اپنے گھروں پر بیکار بیٹھا ہواہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں بھی سرکار کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔اس کی بڑی وجہ ہندوستان کی اسرائیل دوستی ہے ۔مودی سرکار کو اب تک اس حقیقت کا علم نہیں ہوسکاہے کہ اسرائیل دوستی میں وہ ملک کا بیڑا غرق کررہے ہیں ۔اگربھارت سرکار ایران کے ساتھ اپنے دیرینہ روابط کو امریکہ و اسرائیل کی محبت میں بلی نہ چڑھاتی تو تیل کی قیمتیں آسمان نہ چھورہی ہوتیں۔ہندوستان کو دنیا میں سب سے سستا تیل ایران سے ملتا تھا مگر امریکی دبائو میں بی جے پی سرکار نے ایران کے ساتھ تیل کی تجارت ختم کردی ۔اب جبکہ ہندوستان دوبارہ ایران کے ساتھ تجارت کے فروغ پر غوروخو ض کررہاہے اور کئی اشیاء کی خریدوفروخت پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت بھی ہوئی ہے مگر تیل کا مسئلہ ابھی بھی زیر غور نہیں ہے ۔اگر ایران برے وقت میں وینزوئیلا کا ساتھ دیکر اس کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دے سکتاہے تو پھر وہ ہندوستان کی مدد سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گا ۔مگر اس کے لئے بھارت سرکار کو اپنی خارجہ پالیسی میں بدلائو لانا ہوگا ۔

بھارت سرکار اگر ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے ان ممالک سے دوبارہ تعلقات ہموار کرنا ہوں گے جو امریکہ اور اسرائیل کے دبائو میں سرد مہری کا شکار ہیں۔چین اور پاکستان کو مہار کرنے کے لئے بھی ایران جیسے طاقتور ملکوں سے دوستی بہت ضروری ہے ۔چین اور ایران کے تعلقات کی گہرائی سے ہندوستان بخوبی واقف ہے ،اسی طرح روس اور ایران کی دوستی بھی کسی سے صیغہ ٔ راز میں نہیں ہے ۔روس کبھی ہندوستان کا سب سے گہرا دوست ہوا کرتا تھا مگر امریکی اور اسرائیلی دبائو میں بی جے پی سرکار نے روس کے ساتھ بھی تجارتی معاملات محدود کرلیے تھے ۔اس کا واضح اثر ہماری داخلی اور خارجی سیاست پر بہت صاف نظر آرہاہے ۔چین کے ساتھ حالیہ تنازعات کے بعد سرکار ہوش میں ضرور آئی ہے اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے روس کا سفر کرکے خوش آئند اشارے دیے ہیں۔ہندوستان ہتھیاروں کی خرید کے سلسلے میں سب سےزیادہ روس پر منحصر تھا مگر اسرائیل دوستی میں یہ معاہدہ بھی محدودیت کا شکارہے ۔راج ناتھ سنگھ کے حالیہ روس دورے میں پرانے معاہدوں پر نظر ثانی اور ان کے استقرار سے صورتحال بدلنے کی امید نظر آتی ہے ۔

ہندوستان کو سمجھنا ہوگاکہ امریکہ اور اسرائیل کی دوستی ظاہری طورپر بہت سود مند ثابت ہوسکتی ہے مگر اس کے برے اثرات دیر پا ہیں۔استعمار ہر حال میں اپنے مفاد کی تکمیل کو ترجیح دیتاہے۔وہ کبھی اپنے مفادات پر ہندوستان کے مفاد کو ترجیح نہیں دے سکتا۔وہیںبی جے پی سرکار کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جو بھی استعمارکا منظور نظر رہاہے ،اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔تاریخ اس کی گواہ ہے ۔یہ بات استعمار کی منظور نظر جماعت آرایس ایس کو بھی سمجھ لینی چاہئے ۔

بقلم عادل فراز