-
Monday, 6 April 2020، 05:46 PM
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دہلی کے حالیہ فسادات کی نوعیت بتا رہی ہے کہ یہ ایک سوچہ سمجھا منصوبہ تھا ان فسادات کے ذریعہ ایک واضح پیغام یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر ہماری ہاں میں ہاں نہیں ملائی گئی اور اپنے اختیار کا استعمال ہمارے خلاف کیا تو تمہاری زندگی کو کیڑوں مکوڑوں کی زندگی میں بدل دیں گے ، ہم حق حیات بھی چھین سکتے ہیں اور اگر یہ حق دیں گے بھی تو زندگی کے حقوق کو سلب کر کے اور تمہیں اسی طرح جینا ہوگا کہ اپنے کسی حق کے لئے کھڑے ہونے کے بارے میں نہ سوچ سکو اور ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں انصاف مل سکے گا اس لئے کہ اگر کوئی انصاف کرنے کے لئے آگے بڑھے گا تو ہم اقتدار میں ہیں اس سے اسکا منصب چھین کر اسے شہر بدر بھی کر سکتے ہیں۔
غرض منصف بھی تبھی تک منصف ہوگا جب تک ہم چاہیں گے اور جب تک وہ ہماری منشاء کے مطابق بولے تبھی تک عدالت میں اسکی بات معتبر ہوگی لیکن ہماری منشاء کے خلاف اگر کچھ کہا اور ضمیر کی آواز سن کر فیصلہ کیا تو ہمارا فیصلہ اسکے خلاف ہوگا جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ عدالت میں اسکی دسترس کو ہی ختم کر دیا جائے گا ایسی جگہ بھیج دیا جائے گا جہاں کی دنیا ہی الگ ہو معاملات ہی الگ ہوں ۔
یقینا دہلی کے فسادات دل دہلانے والے ایسے مناظر پیش کر رہے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان بے چین ہو جاتا ہے اور ایک ایسا کرب و اضطراب پورے وجود پر طاری ہو جاتا ہے کہ راتوں کو سونا مشکل ہو جاتا ہے سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرے بے ساختہ ظالموں اور قاتلوں کے لئے بدعاء کے جملے نکتے ہیں بے ساختہ مظلوموں کے لئے دعاء نکلتی ہے پروردگار ان لوگوں پر رحم فرما جو تیرے دین کی خاطر سخت ترین صعوبتوں کو برداشت کر رہے ہیں لیکن تیرے دین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں انہیں آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان ہیں ۔
جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے وہ قابل غور بھی ہے مقام عبرت بھی لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اس جمہوری ملک میں جو ایک آسرا محکمہ انصاف و عدالت کا تھا اب وہ بھی ان سے چھنتا جا رہا ہے چنانچہ اگر آپ غور کریں گے تو واضح ہوگا کہ دہلی کے حالیہ فسادات میں جہاں مسلمانوں کو سفاکانہ انداز میں قتل کیا گیا انکی پراپرٹی و انکے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا وہیں محکمہ انصاف کا بھی خون ہوا ہے ، اس عدالت کی روح کو بھی تار تار کیا گیا ہے جس پر ملک کے حریت پسند یقین رکھتے ہیں اور اس کی دلیل اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کو صاف طور پر بچا لے جانا ہے اور الزامات کا نشانہ مخصوص انداز میں انہیں پر سادھنا ہے جنہیں بلی کا بکرا بنا کر خود ہی از قبل تیار کیا جا چکا تھا ۔ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ آنے والا کل کتنا بھیانک اور خطرناک ہوگا اگر انہوں نے مل جل کر اپنی تدبیر سے اپنے مستبقل کے بارے میں نہ سوچا تو جو تباہی انکا مقدر ہوگی شاید وہ اس سے بھی بری ہو جو تقسیم کے وقت تھی ۔