الخلیل کی ۸ صدیاں پرانی تاریخی مسجد علی البکاء کا تعارف

  • ۴۸۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ارض فلسطین کے تاریخی شہر الخلیل کی گود میں چھ ہزار سال سے آج تک کے ادوار کی تاریخی، دینی، ثقافتی اور تہذیبی یادگاریں موجود ہیں۔ یہ شہر تاریخی معالم وآثار اور تاریخی مقامات کے اعتبار سے ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس شہر کی زمین اور فضائوں نے کنعانی، عناقین، بازنطینی، رومن صلیبی اور اسلامی ادوار کے عروج و زوال دیکھے۔ ان تمام ادوار میں الخلیل شہر میں کسی نا کسی شکل کی تہذیب وتمدن کی ترقی ہوتی رہی۔ الخلیل کی عظمت رفتہ کی گواہی دیتے تاریخی آثار میں ایک تاریخی مسجد بھی ہے جسے مسجد علی البکاء کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جغرافیائی محل وقوع
مسجد علی البکاء محل وقوع کے اعتبار سے الخلیل شہر کے وسط میں مسجد ابراہیمی کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کے قریب تاریخی حارہ الشیخ واقع ہے۔ مسجد علی البکاء کی تاریخ ۸ صدیاں پرانی ہے۔ اس کے اطراف میں یہودی کالونیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود آج بھی اس کے گنبد و مینار سے اذان کی صدا گونجتی سنی جا سکتی ہے۔
یہ مسجد مشہور صوفی بزرگ، عابد، مجاہد اور فدائی علی البکاء سے منسوب ہے۔ ان کا تعلق قوقاز سے تھا اور وہ جہاد کے لیے فلسطین میں آئے اور ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہو رہے۔ مسجد کے متصل ایک چبوترے میں ان کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔
ممالیک کا دور
الخلیل شہر کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے مورخ ڈاکٹر عدنان ابو تبانہ کا کہنا ہے کہ مسجد علی البکاء ۶۷۰ھ میں تعمیر کی گئی۔ اس وقت فلسطین میں ممالیک فرمانروا الظاھر بیبرس کی حکومت تھی۔ انہوں‌ نے فلسطین اور بلاد شام کے گورنر عزالدین ایدمر العلائی کو مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ چونکہ الشیخ علی البکاء نے فلسطین میں ظاہر بیبرس کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا تھا۔ اس لیے انہوں ‌نے فلسطین میں اسی نام سے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔
معرکے میں شامل علماء
ڈاکٹر عدنان ابو تبانہ نے مزید کہا کہ الشیخ علی البکاء قریبا ایک صدی زندہ رہے۔ انہوں نے ایوبی اور ممالیک کے ادوار دیکھے۔ ان کا شمار فلسطین کے عظیم اور بہادر مجاہدین میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ارسوف کی جنگ میں اس وقت حصہ لیا جب ان کی عمر کم تھی۔ اس کے بعد وہ تحصیل علم اور زہد وتقویٰ کی طرف مائل ہوگئے۔ ایام جوانی ہی میں وہ الشیخ ربانی مشہور ہوئے اور اپنی کرامات کی وجہ سے فلسطین اور اطراف واکناف میں شہرت حاصل کی۔ ان کے عقیدت مند دور دور سے ان سے ملنے آتے۔ لوگ ان کے پاس دعائیں کرانے آتے۔ وہ بہت زیادہ گریا زاری کرتے اور عبادت میں مشغول رہتے۔ ان کے ایک دوست جنہوں‌ نے کئی جنگوں میں ان کے ساتھ شرکت کی مگر ان کی موت نصرانیت پر ہوئی۔ بادشاہ نے ان کے لیے بھی ایک جگہ مختص کی تھی۔
تعمیراتی ارتقاء
ممالیک کے عہد میں الخلیل شہر بالخصوص الزاویہ میں کئی تعمیراتی ارتقائی مراحل دیکھنے میں آئے۔ مسجد علی البکاء کا مینار دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ دوسری بار مسجد کے مینار کی تعمیر ممالیک گورنر حسام الدین طرنطاوی کو جاتا ہے۔ انہیں ممالیک بادشاہ المنصور بن قلاوون نے اس کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔
مسجد علی البکاء کی تعمیر ومرمت فلسطین میں برطانوی انتداب کے دور میں‌ بھی ہوئی۔ فلسطینی مورخ ڈاکٹر تیسیر جبارہ نے بھی اپنی کتاب میں مسجد علی البکاء کی تعمیر ومرمت کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

“مجھ سے جھوٹ مت بولو”

  • ۲۲۸

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، کتاب “مجھ سے جھوٹ مت بولو” ‘جان پیلجر’ (jOHN PILGER) کی ایسی کاوش ہے جس میں انہوں نے محقق صحافیوں اور نامہ نگاروں کی تاریخ ساز رپورٹوں کو اکٹھا کیا ہے۔
مصنف پر ایک نظر
جان پیلجر امریکہ کی کورنل یونیورسٹی (Cornell University) کے استاد اور محقق صحافی ہیں کہ جن کے مضامین، کتابوں اور دستاویزی فلموں کو پروفیسر نوام چومسکی نے نور ہدایت اور مشعل راہ قرار دیا اور ان کے بیانات کو الہام بخش گردانا۔ اس کتاب سے پہلے آپ کی کتاب THE NEW RULERS OF THE WORLD منظر عام پر آئی جو کافی معروف ہوئی لیکن یہ کتاب “مجھ سے جھوٹ مت بولو” جس میں انہوں نے گزشتہ ساٹھ سالوں کے محقق صحافیوں کی اہم اور بہترین رپورٹوں کو جمع کیا اور Tell Me No Lies: Investigative Journalism and its Triumphs کے عنوان سے اس مجموعے کو منظر عام پر پیش کیا۔
مصنف نے اپنی اس کاوش کے نتیجے میں تاہم بیس مرتبہ سے زیادہ عالمی ایوارڈ حاصل کئے ہیں جن میں برطانیہ کا سب سے بڑا ایوارڈ ” برطانیہ کا اعلی ترین برطانوی صحافی ایوارڈ” اور اقوام متحدہ کا “میڈیا امن ایوارڈ” بھی شامل ہیں۔ نیز انہوں نے اپنی ٹی وی رپورٹس کی وجہ سے آسکر ایوارڈ (Oscars)، Emmy Award اور فرانس سے Reporters Without Borders Awards بھی حاصل کئے ہیں۔
کتاب پر ایک نظر
یہ کتاب جرات مندانہ اور حیران کن رپورٹوں اور بہترین مقالات پر مشتمل ہے ایسی رپورٹیں جو غیر معمولی اور امتیازی حیثیت رکھتی ہیں اور ان سب کا مشترکہ عنصر ظلم کے خلاف قیام سے عبارت ہے چاہے وہ ویٹنام کی جنگ میں امریکہ کی رضامندی کا سیمور ہارس کے پردہ چاک ہو یا فاسٹ فوڈ انڈسٹری کے بارے میں اشلوزر کا انکشاف ہو یا غزہ کے دردناک واقعات کے بارے میں یہودی نامہ نگار امیرہ ھس کی حیران کن رپورٹیں ہوں۔
جیسا کہ امریکی آزاد اندیش اور لاؤس کے خلاف سی آئی اے کی خفیہ جنگ کا انکشاف کرنے والا صحافی ” ٹی ڈی آلمن” کا کہنا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف شاندار اور حقیقت پر مبنی رپورٹوں کا مجموعہ ہے بلکہ ان تمام افراد کے لیے فکر و عمل کی دعوت ہے جو نوع بشر کے لیے شرافت اور عدالت کے ستونوں پر قائم نظام زندگی کی تمنا رکھتے ہیں۔ یہ کتاب اسکار وائلڈ کے نظریات کا خلاصہ ہے۔ جہاں وہ کہتے ہیں: “ہر اس شخص کی نظر میں جس نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے نافرمانی اور معصیت انسان کی سب سے پہلی فضیلت ہے”۔ یہ کتاب اور اس کی رپورٹیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کیسے صحافیوں نے حقیقت کو مصلحت پر قربان نہیں کیا، واقعات کی صحیح منظر کشی کرنے میں کسی لغزش سے دوچار نہیں ہوئے اور حکمرانوں کی اشرفیوں پر اپنے ضمیروں کو بیچ دینا گوارا نہیں کیا۔
 
کتاب “مجھ سے جھوٹ مت بولو” ۶ سو صفحوں پر مشتمل ۲۸ مقالات کا مجموعہ ہے جن میں سے بعض مقالات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
ڈاچاؤ (Dachau) ( نازیوں کی موت کے کیمپوں سے متعلق)، رپورٹر مارٹا گلہورن، سن ۱۹۴۵
ایٹمی طاعون، ( ہیروشیما پر ایٹمی بمباری سے متعلق)، رپورٹر ولفرڈ برچٹ، سن ۱۹۴۵
مائی لائی کا قتل عام، (ویٹنام میں امریکی جنگ سے متعلق) رپورٹر سیمور ہارس، سن ۱۹۷۰
عالمی حکومت اور امریکہ کا خواب، ڈی آرمسٹرانگ، سن ۲۰۰۲
خاموش جنگ، اقتصادی پابندیاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے مترادف، (عراق پر اقتصادی پابندیوں کے تباہ کن نتائج سے متعلق ) جوی گورڈن، سن ۲۰۰۲
تیمور کی دستاویزات، (یہ دستاویزات واضح کرتی ہیں کہ امریکہ اور اسٹریلیا ۱۹۷۵ میں مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کی جارحیت سے مطلع اور اس پر رضامند تھے)، برین توہی اور مارین ویلکینسن، سن ۱۹۸۷
دھشتگردی؛ (صبرا اور شتیلا کیمپوں میں ۱۹۸۲ کو کئے گئے فلسطینی عوام کے قتل عام سے متعلق) رپورٹر رابرٹ فیسک، ۱۹۹۰ سے ۲۰۰۱ تک
ناکہ بندی؛ (اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کی ناکہ بندی سے متعلق) رپورٹر امیرہ ھس، سن ۱۹۹۶
الٹی دنیا؛ (دو ایسے جڑواں امراض جو انسانیت کو کھوکھلا کر دے رہے ہیں؛ ایک تشہیر، اور دوسرا؛ اہل اقتدار کے ہاتھوں عالمی امن کا گمان)، ایڈورڈ گلناؤ، سن ۱۹۹۸
اسلامی میڈیا کی کیوریج اور دھشتگردی، ایڈورڈ سعید، ۱۹۹۷/۲۰۰۲

...........

 

 

یمن کے لوگ فلسطینی مقاصد کے ساتھ خیانت نہیں کر سکتے: احمد القنع

  • ۳۴۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ دنوں یمنی فوج اور رضاکار فورس نے دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے سعودی عرب کے شہر ریاض، جیزان اور نجران میں فوجی اڈوں کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنایا۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اس بارے میں یمن کی قومی حکومت کے مشیر ’’احمد القنع‘‘ سے گفتگو کی ہے جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے؛
خیبر: ریاض پر کئے گئے میزائل حملوں کی آپ کی نظر میں کس قدر اہمیت ہے؟
یہ حملے اپنے ملک اور قوم کے دفاع کی خاطر جائز حق کی حدود میں انجام پائے ہیں نیز ان کا مقصد دشمن کو متنبہ بھی کرنا تھا کہ وہ یمن سے اپنا ظالمانہ محاصرہ ختم کرے اس لیے کہ یمنی عوام شدید قحط اور بھوک کے عالم میں بسر کر رہے ہیں۔ ہم نے جارحیت کو روکنے، محاصرہ ختم کرنے اور ایئرپورٹ کھولنے کے لیے مختلف منصوبے پیش کئے لیکن دشمن اور جارح ملکوں نے حتیٰ انہیں سننے سے بھی انکار کر دیا۔ لہذا یمنی قوم کسی قیمت پر بھی ذلت قبول نہیں کر سکتی، اور دشمن پر اپنے دفاعی حملے پوری قوت و توانائی کے ساتھ جاری رکھے گی۔
خیبر: یہ دفاعی حملہ کس وقت اور کس پیغام کے تحت انجام پایا، کیا آپ کچھ اس بارے میں بتا سکتے ہیں؟
یہ دفاعی حملے ایسے حالات اور ایسے وقت میں انجام پائے جب جارح ممالک یمن کی سرزمین پر ناجائز قبضے کو مسلسل بڑھانے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ یہ حملے اس موضوع پر تاکید کی غرض سے کیے گئے کہ ہم اپنے عزیز یمن کی ایک بالشت زمین بھی دشمن کے حوالے نہیں کر سکتے۔
خیبر: آپ سعودیوں کے اس جواب میں کیا کہیں گے جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ حملے عام لوگوں پر کئے گئے ہیں؟
جب سے ہمارے ملک پر حملہ ہوا اور یہ جنگ شروع ہوئی تب سے لے کر آج تک ہم نے کبھی بھی عام لوگوں کو کسی حملے کا نشانہ نہیں بنایا ہم دشمن کو چلینج کرتے ہیں کہ وہ ثابت کریں کہ ہم نے عام انسانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا ہو۔ لیکن اس کے برخلاف دشمن نے ہمارے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا، ہمارے بنیادی ڈھانچوں کا نابود کر دیا یہاں تک کہ ہمارے ہسپتالوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ اور کسی دینی، اخلاقی اور انسانی ضابطے اور قاعدے کی رعایت نہیں کی۔
خیبر: یہ سب جانتے ہیں کہ یمن میں جنگ کے پیچھے امریکی ہاتھ پوشیدہ ہے اور سعودی عرب خود اکیلا اس میں کوئی تصمیم نہیں لے پا رہا ہے۔ اس بنا پر کیسے جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی راہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے؟
راہ حل تو سادہ ہے جارح ممالک اپنے حملوں کو روک دیں اور جارحیت کا خاتمہ کر دیں۔ اس وقت ہم مذاکرات کے لیے مکمل طور پر آمادہ ہیں اور ایک جامع صلح کے حصول کے لیے گفتگو کر سکتے ہیں۔ اور یہ صلح بھی یمن سے مخصوص نہیں ہو گی بلکہ ہم ایک پورے علاقے میں ایک جامع صلح کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
خیبر: جنوبی یمن میں عرب امارات کی نقل و حرکت اور العیدروس الزبیدی کے صہیونیوں کے ساتھ تعلقات پر کیا تجزیہ کرتے ہیں؟ کیا اسرائیل جنوبی یمن میں مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب امارات عرب علاقے میں اسرائیل کا دائیاں ہاتھ ہے اور جنوبی یمن میں کچھ گروہ ہیں جو امارات کی زیر نگرانی مالی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں جنوبی یمن کے حریت پسند لوگ کبھی بھی اسرائیل کی قربت کو قبول نہیں کریں گے۔ جنوبی یمن کے لوگوں نے فلسطینی مزاحمت کو ۸۰ کی دہائی میں قبول کیا اور عرفات، حبش اور حواتمہ کا استقبال کیا۔ جنوبی یمن کے لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے خود فلسطینیوں کے ذریعے تعلیم و تربیت حاصل کی اور باثقافت بنے لہذا وہ کبھی بھی ان لوگوں کی طرح نہیں ہوں گے جو فلسطینی کاز کی پشت پر خنجر مارتے ہیں۔

 

 

پروفیسر ‘انیٹلی انٹن’ کا تعارف

  • ۴۲۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:

سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں؛
۔ شعبہ فلسفہ کے استاد
۔ فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ
۔ ریڈیکل فلاسفی ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر
پروفیسر “انیٹلی انٹن” سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کے استاد اور فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ ہیں۔ انہوں نے فلسفہ سیاست، فلسفہ علوم سماجیات اور فلسفہ ہیگل و مارکس پر کافی تحقیقات انجام دی ہیں۔ اس وقت وہ سان فرانسسکو یونیورسٹی کے فلاسفی ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری بھی ہیں۔
پروفیسر انٹن “ریڈیکل فلاسفی ایسوسی ایشن” (Radical Philosophy Association) کے کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ یہ ایسوسی ایشن جو سرمایہ دارانہ نظام کے مخالف مارکسیسٹ پروفیسروں پر مشتمل ہے اس بات کی قائل ہے کہ بنیادی تبدیلی کے لیے ایک سماجی انقلاب کی ضرورت ہے علاوہ از ایں یہ ایسوسی ایشن استعماری اور غیر انسانی فکری ڈھانچوں منجملہ، سرمایہ داری، نسل پرستی، جنسی تحریک، ہوموفوبیا، نسلی امتیاز، ماحولیات کی تباہ کاری اور دیگر تسلط پسندانہ رویوں کی سخت مخالفت کرتی ہے۔
ریڈیکل فلاسفی ایسوسی ایشن ‘کیوبا’ کی کمیونیسٹ حکومت کی حمایت جبکہ ریاست ہائے متحدہ کی جانب سے اسرائیل کو حاصل اقتصادی اور عسکری امداد کی مخالفت کرتی ہے اس لیے کہ ان امدادوں سے “مسلمان اقوام کی دشمنی” کی حمایت کا نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔
اس ایسوسی ایشن نے افغانستان اور عراق میں “دھشتگردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ” کے مقابلے میں بھی ایک مضبوط موقف اختیار کیا ہے۔ ریڈیکل فلاسفی ایسوسی ایشن کا ماننا ہے کہ دھشتگردی کا خطرہ در حقیقت تیسری دنیا میں پائے جانے والی ظالم و فاسد حکومتوں کو حاصل امریکہ کی احمقانہ حمایتوں سے جنم لیتا ہے۔
انٹن نے ۲۷ ستمبر ۲۰۰۴ کو اپنے ساتھیوں کے درمیان ایک ایمیل منتشر کیا اور اس میں لکھا: ساتھیو! میں سوچتا ہوں کہ آپ میں سے بعض نے “ای۔ ایل۔ ڈاکٹرو”( E.L. Doctorow) کے ان احساساتی اور مفید الفاظ کو دیکھا ہو گا لہذا ممکن ہے آپ انہیں وسیع طور پر پھیلانا چاہیں۔ ڈاکٹرو کا کہنا تھا کہ ‘صدر بوش ہمارے ۲۱ سالہ نوجوانوں کی موت سے کوئی درد محسوس نہیں کرتے ۔۔۔ چونکہ وہ نہیں جانتے کہ موت کیا ہے؟۔۔۔ لہذا وہ کیسے سوگ منا سکتے ہیں؟ سوگ منانے کے لیے احساس درد کا اظہار ضروری ہے جبکہ وہ اس درد کے احساس سے بالکل بے بہرہ ہیں۔۔۔ انہیں مقتولین کے گھرانوں کی نسبت کوئی ہمدردی نہیں ہے۔۔۔ وہ عزاداری اور سوگواری نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ ایک طرح کی بداخلاقی ہے جو باعث بنتی ہے کہ ہم اپنے حال پر خود سوگ منائیں’۔
تحقیق: لیزا ماٹسن

 

برصغیر کا خاص جغرافیائی ـ سیاسی محل وقوع اور علاقے پر اس کے گہرے اثرات

  • ۳۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عام طور پر برصغیر کا علاقہ خاص قسم کے جغرافیائی ـ سیاسی (Geopolitical) پہلؤوں اور سمتوں کا حامل ہے۔ جغرافیائی علاقوں کا تزویری وزن (Strategic Weight)، ثقافتی تنازعات کے جغرافیے، علاقائی امن و استحکام، علاقائی تنظیمیں، محفوظ / غیر محفوظ مقامات، وہ عظیم جغرافیائی اور جیوپولیٹیکل عوامل ہیں جو حتی کہ بر صغیر میں واقع ہر ملک کے قومی سلامتی کے ڈھانچے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر علاقائی ماحول میں ملک کے محل وقوع اور پوزیشن کی شناخت نیز تناؤ کی تقلیل اور خطرات کی تخفیف کو مد نظر رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
برصغیر کے اہم ترین جیوپولیٹیکل موارد کو در ذیل نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ برصغیر میں واقع سات ممالک جغرافیائی محل وقوع، سیاسی رجحانات نیز تاریخی اور معیشتی معاملات کے اعتبار سے آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ برصغیر کا خطہ ایک ایسا اہم جغرافیائی ـ سیاسی خطہ ہے جس کے امن و استحکام یا بدامنی اور عدم استحکام سے پورا علاقہ متاثر ہوتا ہے۔ برصغیر کے روشن مستقبل کی امید اس خطے کے اندرونی حالات سے وابستہ ہے اندرونی صورتحال اگر امن و سکون کی راہ پر گامزن ہو گی تو پورے علاقے پر اس کے مثبت اثرات رونما ہوں گے لیکن اگر خلفشار اور باہمی کشمکش کا سلسلہ جاری رہے گا پورے علاقے کا امن و سکون متاثر ہو گا۔
۲۔ برصغیر کے اندرونی عدم استحکام اور اس کے جیوپولیٹیکل ممالک کے آپسی روابط کو مخدوش کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر ہی کافی ہے۔ اس لیے کہ برصغیر کی سلامتی دو پڑوسی ملک ہند و پاک کے باہمی روابط سے وابستہ ہے۔ بھارت اور پاکستان اس خطے کے دو اہم ممالک ہیں جو برصغیر کی تقدیر کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اس لیے جو بھی دوسرا ملک ان دونوں سے اپنے روابط قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے سب سے پہلے دونوں کے کردار پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔
۳۔ جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم (SAARC) سارک جس نے برصغیر کے سات ممالک کو ایک غیر موثر تنظیم میں جمع کیا ہے تاہم اس کے علاوہ علاقائی باہمی تعاون کے استحکام کے لیے کوئی دوسری تنظیم تشکیل نہیں پائی ہے۔ علاقائی ممالک کے درمیان دوطرفہ معاہدوں نے بھی ہند و پاک کے نظریاتی اختلافات کو سلجھانے اور انہیں ایک دوسرے سے قریب کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس کے باوجود امید کی جاتی ہے کہ آئندہ سالوں میں دونوں ممالک کی حکومتیں جو اندرونی طور پر ناقابل انکار خطرات سے دوچار ہیں اپنے روابط میں بہتری لا کر علاقائی استحکام کو بحال کرنے کی کوشش کریں گی۔ یہ خطرات درج ذیل موارد میں بیان کئے جا سکتے ہیں:
زمین، پانی اور معدنی وسائل، توانائی، نسلی علیحدگی پسندی، تیزی سے آبادی کی ترقی، مالی گھوٹالے اور وسیع پیمانے پر رشوت خواری، دھوکہ بازی، سماجی اور سیاسی خدمات فراہم کرنے میں بے حد کوتاہی اور سیاسی و سماجی پارٹیوں اور تنظیموں میں اختلافات،  ماحولیاتی تباہی، سیاسی ظلم و ستم اور طاقت کی منتقلی کے لئے عملی طریقہ کار کی کمی.
۴۔ برصغیر ہائیڈروکاربن کی پیداوار اور اس کے استعمال کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی مارکٹ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے دو اہم ذرائع؛ آبنائے ہرمز جو ہائیڈروکاربن کی پیداوار کا مرکز اور آبنائے مالاکا جو اس کو دنیا کی سب سے بڑی مارکٹ میں منتقل کرنے کا دروازہ ہے سے جڑا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے یہ خطہ عالمی اور علاقائی طاقتوں  کے مفادات کے حصول کا مرکز بنا ہوا ہے۔ برصغیر مذکورہ دو ذرائع سے متصل ہونے کے عنوان سے دنیا کی سب سے بڑی مارکٹ ہے جہاں توانائی کی پیداوار اور اس کا استعمال دونوں عروج پرہیں۔ لہذا امریکہ، یورپی یونین اور چین کی لالچ بھری نظریں برصغیر پر جمی ہوئی ہیں اور وہ مختلف ذرائع اور بہانوں سے اس خطے کا سرمایہ لوٹ کر اپنی تیجوریاں بھرنے میں مصروف عمل ہیں۔
بقلم: ڈاکٹر محسن محمدی
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے شعبہ برصغیر اسٹڈیز ڈیسک گروپ کے ڈائریکٹر

 

یہودی ریاست کے معاشی ذرائع پر ایک نظر

  • ۳۸۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بحیثیت مجموعی، تمام سیاسی، معاشی، عسکری و ۔۔۔ شعبوں میں یہودی ریاست کی سیاست اور تزویری حکمت عملی ـ ابتداء سے لے کر آج تک ـ توسیع پسندی، استعمار اور حرص و لالچ کی بنیاد پر استوار ہوئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے سابقہ شمارے میں کہا، یہودی ریاست اسی حکمت عملی کی بنیاد پر اپنی معیشت کو رونق دینے اور دوسرے ممالک کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن کیا یہ اچھی خاصی معاشی ترقی اور وسیع پیمانے پر برآمدات ہی اس ریاست کے مادی مفادات کو پورا کررہی ہیں یا پھر مزید فوائد بھی ان مفادات میں شامل ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے، بہتر ہے کہ یہودی ریاست کے اہم معاشی ذرائع کا جائزہ لیا جائے۔
یہودی ریاست کے معاشی ذرائع
صنعتیں: یہودی ریاست مغربی ایشیا کے ممالک کے درمیان صنعتی لحاظ سے نمایاں ریاست ہے جس کی صنعتوں میں تعمیراتی ساز و سامان، شیشہ گری، لکڑی کی صنعت، پارچہ بافی، الیکٹرانک اور برقی ساز و سامان، ہیرے کی صنعت، نہلائی دھلائی کا سامان، اشیاء خورد و نوش کی مشینری اور غذائی صنعت، فوجی سازوسامان کی تیاری شامل ہے۔ (۱) ان صنعتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی اس ریاست کی مجموعی قومی پیداوار کے ۸۵ فیصد حصے کو تشکیل دیتی ہے جس کے باعث یہودی ریاست کی ۱۶ فیصد آبادی صنعتوں کے شعبے میں سرگرم عمل ہو چکی ہے۔
درحقیقت، ذرائع آمدنی کے نجی شعبے کے سپرد کئے جانے کے باعث اس ریاست کی آمدنی فوجی صنعتوں اور برآمدات میں بڑھ گئی۔ بطور مثال ہیروں کی برآمدات ـ جو کسی وقت اس ریاست کی نصف برآمدات کو تشکیل دیتی تھیں، ایک چوتھائی تک کم ہوگئیں اور اس کے مقابلے میں الیکٹرانک مصنوعات کی برآمد میں دو گنا اضافہ ہوا۔
فوجی صنعتیں: یہودی ریاست نے امریکہ کی سائنسی اور تکنیکی مدد اور ماہر افرادی قوت کے بل بوتے پر اہم عسکری صنعتوں کی بنیاد رکھی اور دنیا کو اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک میں پانچویں رتبے پر جا کھڑی ہوئی۔ یہودی ریاست کی فوجی برآمدات میں مختلف قسم کے عسکری شعبے سے متعلقہ برقی آلات و وسائل، میزائل ہدایت کا نظام (Missile guidance system)، رات کو دیکھنے والے وسائل (Night vision equipment)، شور پیدا کرنے والا ساز و سامان (noise generating equipment) اور فوجی ساز و سامان شامل ہیں۔ ان صنعتوں کی حصولیابیوں میں مرکاوا ٹینک (Merkava) اور ریشف (Reshef) نامی تیزرفتار چھوٹی کشتیاں (Reshef speedboats) شامل ہیں۔ ۱۹۹۰ع کی دہائی میں یہودی ریاست کی عسکری برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی تین ارب ڈالر تھی، اور یہ صنعت ـ ہیروں کی صنعت کے سوا ـ یہودی ریاست کی مجموعی برآمدات کے ۲۰ حصے کو تشکیل دیتی تھی۔ (۲)
معدنیات: یہودی ریاست کے پاس تانبے، پوٹاشیئم، میگنیشیئم وغیرہ کی کانیں ہیں جن سے وہ اب بھی متعلقہ مواد نکال رہی ہے چنانچہ معدنیات کے لحاظ سے اس کی پوزیشن نسبتاً اچھی ہے۔ تانبے کے ذخائر صحرائے نقب کے جنوب میں واقع ہیں۔ بحیرہ مردار (بحرالمیت Dead sea) کی تہہ اور اس کے اطراف مختلف معدنی مواد کے ذخائر سے مالامال ہیں جن کے باعث مغربی کنارے میں آئیوڈین، پوٹاشئیم اور میگنیشئیم کے متعدد کارخانے قائم کئے گئے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود اس ریاست کو ایندھن کے ناقابل تجدید ذرائع ـ جیسے تیل اور گیس ـ کے لحاظ سے قلت کا سامنا ہے۔ “حیفا”، “کوکار” اور “برار” وغیرہ جیسے علاقوں سے تیل نکالا جارہا ہے لیکن تیل کا استعمال بہت زیادہ ہے چنانچہ یہودی ریاست توانائی کے شعبے کی قلتوں کو باہر سے پورا کرتی ہے۔ (۳)
بندرگاہیں: غاصب ریاست کی آمدنی کے دوسرے ذرائع میں بندرگاہیں شامل ہیں۔ لیکن حیفا، “تل ابیب”، “ایلات”، “اشکلون”، اور “اشدود” کی بندرگاہیں نہ صرف مسافروں کی آمد و رفت اور برآمدات و درآمدات کے لئے استعمال ہوتی ہیں بلکہ انہیں صنعتی علاقوں میں بدل دیا گیا ہے اور ان بندرگاہوں میں شیشہ گری اور سیمنٹ کے کارخانے، تیل کی ریفائنریاں، بجلی گھر وغیرہ بھی قائم کئے گئے ہیں۔ (۴)
ذرائع سے ۱۰۰ فیصد فائدہ اٹھانے کی اس پالیسی کے بدولت، ۲۰۱۶ع میں اچھی خاصی ترقی کی تھی اور اس کی معاشی پالیسی کچھ اس طرح سے ہے کہ ۲۰۱۷-۲۰۱۸ کے مالی سال میں اس ریاست کی ترقی تین فیصد تک پہنچ گئی۔ (۵)
لیکن مضمون کی ابتداء میں اٹھائے گئے سوال کے جواب میں کہنا چاہئے کہ یہودی ریاست نے معاشی ترقی میں اضافہ کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ علاقے میں اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں بھی اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور پھر سیاسی تعلقات کی بحالی کے لئے اقتصادی مسائل سے بہتر کیا بہانہ ہوسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اطراف کے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات اس ریاست کی پوزیشن کی تقویت و استحکام کے زمرے میں آتے تھے۔ لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں تھا۔ یہودی ریاست کو پیداوار، برآمدات اور معاشی ترقی کے لئے یورپ اور امریکہ کے علاوہ، اپنی مصنوعات کی مزید فروخت کے لئے منڈی کی ضرورت تھی اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ اس کو اپنی صنعتی پیداوار کے لئے خام مال کی بھی ضرورت تھی۔ اس مسئلے کے حل کے لئے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات سے بہتر کونسا راستہ ہوسکتا تھا جو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے نچلی سطح پر ہیں؛ اور اسرائیلی اس روش سے توانائی کے سستے ذرائع تک بھی رسائی حاصل کرسکتے تھے اور اپنی مصنوعات بھی فروخت کرسکتے تھے۔ (۶)
تجارتی اور صنعتی علاقوں میں مصر اور اسرائیل کے مشترکہ اقتصادی منصوبے، یہودی ریاست سے مصر تک گیس پائپ لائن، اردن اور یہودی ریاست سے امریکہ کو ۲۰ کروڑ ڈالر کی مالیت کی ‌مشترکہ برآمدات کا منصوبہ اور آذربائیجان سے ـ ٹیکنالوجی اور اسلحے کی منتقلی کے بدلے ـ تیل اور گیس کی خریداری جیسے اقدامات، اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ادھر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر وغیرہ جیسے عرب ممالک بھی امریکی کی قربت حاصل کرنے اور اس کی سیاسی حمایت سے بہرہ ور ہونے کی غرض سے یہودی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں گوکہ اندرونی سماجی اور عوامی ماحول کے پیش نظر، یہ تعلق اور تعاون رازدارانہ ہے۔
بہرصورت، ان معاشی تعلقات سے اسرائیل کا بنیادی مقصد ـ مختلف ممالک میں سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ بڑھانے کے علاوہ ـ ان ممالک کی معیشت کی مکمل تباہی اور انہیں مختلف شعبوں میں بیرونی وسائل سے وابستہ کرکے تنہا کرنا اور خطے میں اپنے اصلی دشمن “ایران” کا اثر و رسوخ کم کرنا ہے۔ (۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ کتاب “رژیم صہیونیستی”، (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، چاپ اول: ۱۳۸۹ھ ش، تہران، ناشر: شہید لیفٹننٹ جنرل علی صیاد شیرازی تعلیمی و تحقیقی مرکز، ص۷۲۔
۲۔ ساختار دولت صہهیونیستی اسرائیل، ج۲، موسسه الدراسسات الفلسطینیه، ترجمه علی جنتی، چاپ اول: ۱۳۸۵، تهران، موسسه مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص۱۴۷۔
۳۔ کتاب “رژیم صہیونیستی”، (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، ص۷۳۔
۴۔ وہی مآخذ، ص۸۰۔
۵٫ http://nedains.com/fa/news/315026.
۶٫ http://www.persiangulfstudies.com/fa/pages/673.
۷- فصلنامہ علوم راہبردی (اسٹراٹجک سائنسز کی سہ ماہی)، اسرائیل و کشورهای پیرامونی؛ نفوذ امنیتی با پوشش اقتصادی، (اسرائیل اور پڑوسی ممالک، سیکورٹی دراندازی معیشت کے بھیس میں) وحیده احمدی، موسم گرما ۹۶ھ ش، شمارہ ۷۶، ص۱۳۶-۱۱۳٫
تحریر؛ میلاد پور عسگری

 

صہیونی ریاست کا اقتصادی ڈھانچہ

  • ۳۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر اسرائیلیوں کے قبضے سے پہلے، اس کی معیشت کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا لیکن اعلانِ بالفور (۱) اور دوسرے ممالک سے یہاں آنے والے یہودی مہاجروں کے سیلاب کے بعد، حالات رفتہ رفتہ بدل گئے۔ اور چونکہ مہاجر یہودی صاحب ثروت بھی تھے اور برطانیہ کی سرکاری اور عسکری قوت بھی ان کی پشت پر تھی، مسلم تاجر اور زمیندار منظر عام سے ہٹ گئے یا پھر مزارعوں اور کاشتکاروں میں بدل گئے۔ بالفاظ دیگر معاشی صورت حال مختصر سی مدت کے بعد نہایت تیزرفتاری سے اور بہت ہی ظالمانہ انداز میں یہودیوں کے مفاد میں تبدیل ہوگئی۔
لیکن اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ اس ریاست کو بھاری بھرکم بیرونی امداد ملتی رہتی ہے اور جرمنی ہر سال یہودی ریاست اور ہولوکاسٹ کے پس ماندگان کو تاوان ادا کرتا ہے اور باہر سے آنے والی یہ رقوم بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر ہیں۔ بطور مثال امریکہ ہر سال تین ارب ڈالر اس ریاست کو بطور امداد ادا کرتا ہے؛ اور یہ امداد ان مالدار یہودیوں کے چندے کے علاوہ ہے جو ٹیکس سے بچنے کے لئے اسرائیل کی مدد کرنے والے خیراتی اداروں کو چندہ دیتے ہیں۔ یہودی ریاست نے بڑی مقدار میں بلامعاوضہ قرضے بھی امریکہ سے وصول کئے ہیں جو اس نے واپس نہیں کئے ہیں لیکن امریکی عوام کو ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ چنانچہ اس ریاست نے ان کمیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتصادی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور اسے مستحکم کیا اور نمایاں ترقی کی۔ (۲)
یہودی ریاست کو وسائل کی قلت کی وجہ سے خام تیل، اناج، خام مال، فوجی سازوسامان اور درمیانی اشیاء (۳) کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان اشیاء کی درآمد کے لئے ضروری زر مبادلہ کمانے کی خاطر اس کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ اس نے بھاری اور ہلکی صنعتوں کے ساتھ ساتھ فوجی صنعت اور معدنیات پر سرمایہ کاری کی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۵۰ع‍کی دہائی میں اس ریاست کی درآمد صرف ۱۰ فیصد ہے لیکن اگلی دہائی میں اس کی درآمدات ۲۵ فیصد تک اور ۱۹۸۰ع‍کی دہائی میں ۵۰ فیصد تک پہنچتی ہیں؛ اور یہ ریاست اپنی درآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی مسلسل کوشش کررہی ہے۔ (۴)
تاہم مخالف عرب ممالک کے بیچ اس کی زد پذیری کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کی طرف کی سازشوں سے بچنے کے لئے اس ریاست نے سب سے پہلے زراعت اور اشیاء خورد و نوش کی تیاری میں خود کفالت کا فیصلہ کیا اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے اس نے فلسطینیوں کی زرخیز زمینیں غصب کرنے کے ساتھ ساتھ، ابتداء ہی سے لبنان، شام اور اردن پر حملوں میں ان ممالک کے آبی ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنے کا ہدف مد نظر رکھا تھا تا کہ اپنی آبی قلت کو دور کرسکے۔ اس ظالمانہ کوشش اور یہودیانہ دور اندیشی کے نتیجے میں وہ بہت مختصر عرصے میں ترشاوا پھلوں، (۵) زیتون، انجیر، انگور، انار، بادام، کیلے، کھیرے اور ٹماٹر کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہوئی بلکہ انہیں بیرون ملک برآمد کرنے کے قابل بھی ہوئی۔ یہاں تک کہ اس ریاست کی زرعی مصنوعات معیار کے لحاظ سے دنیا میں جانی پہچانی ہیں۔ (۶)
یہودی ریاست نے اقتصادی لحاظ سے اتنی ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی اندرونی آمدنی ہر پانچ سال بعد دوگنا ہوجاتی تھی۔ صورت حال اچھی تھی حتی کہ بیسویں صدی کی معاشی مندی (۷) اور پڑوسیوں کے ساتھ متواتر جنگوں نے یہودی ریاست پر بھاری معاشی بوجھ ڈال دیا اور یہودی حکومت کو ۱۲ ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ (۸)
اسرائیلی ریاست نے اس بحران کے پیش نظر اپنا معاشی ڈھانچہ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس ریاست کا ابتدائی معاشی ڈھانچے کو ـ جس کی بنیاد یہودی مہاجروں اور اسرائیل کے بانیوں کے زیر اثر اشتراکیت (۹) کے طرز پر رکھی گئی تھی ـ معاشی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا گیا؛ کیونکہ زیادہ تر صنعتی مراکز کی باگ ڈور ریاست اور ہیستادروت (۱۰) کے ہاتھ میں تھا اور کچھ کمپنیاں ریاست اور بعض افراد کے درمیان مشترکہ تھیں۔
اسی رو سے ۱۹۷۰ع‍کی دہائی کے بعد ۱۰۰ بڑی صنعتی کمپنیوں میں سے ۱۲ کمپنیاں نجی شعبے کو واگذار کی گئیں۔ مزدوروں کی کوآپریٹو یونین (۱۱) سے وابستہ کمپنیاں ـ جو یہودی ریاست کی سو کمپینوں میں سے ۳۵ کمپنیوں پر مشتمل تھی ـ کی بھی نجی شعبے کے حوالے کی گئی۔ تاہم نجکاری کے اس عمل میں کچھ بینکوں کی نجکاری ـ کچھ مشکلات کی بنا پر ـ کند رفتاری کا شکار ہوئی۔ (۱۲)
با ایں ہمہ، اسرائیلی ریاست کی اقتصادی ترقی میں بیرونی امداد اور ظلم و جارحیت کے علاوہ کچھ دیگر عوامل کا بھی کردار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کی معاشی ترقی چار عوامل کے جامہ عمل پہننے کے بعد ممکن ہوئی:
۱۔ اس ریاست نے تمام امور نجی شعبے کو واگذار کرکے، اپنے اندر جامعاتی اور سائنسی مراکز کو مکمل آزادی اور ترقی کے مواقع اور کھلا معاشی ماحول فراہم کیا۔
۲۔ ریاست نے اپنی بننے والی حکومت کو پابند کیا کہ افرادی ذرائع اور افرادی قوت کو صحت و حفظان صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ (۱۳) کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے کوشش کریں جس کا فطری نتیجہ بہتر اور زیادہ ماہر افرادی قوت کے معرض وجود میں آنے کی صورت میں ہی برآمد ہونا تھا۔
۳۔ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق خود بخود، بڑی مقدار میں سائنسی اور فنی وسائل اور اوزاروں کی اسرائیل منتقلی پر منتج ہوئی۔ (۱۴)
۴۔ مذکورہ مسائل کے علاوہ، یہودی ریاست کی طرف سے سائنس پر مبنی صنعتوں اور نجی و جامعاتی سائنسی مراکز کی پشت پناہی بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر تھی۔ یہ پشت پناہی اس قدر وسیع تھی کہ ریاست کی اندرونی قومی آمدنی میں سائنسی تحقیقات کے اخراجات دنیا بھر میں سے سب سے زیادہ ہیں۔ (۱۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ Balfour Declaration
۲۔ رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، چاپ اول: ۱۳۸۹، تہران، مرکز آموزش و پژوہشی شہید سپہبد صیاد شیرازی،ص۶۹۔
۳۔ Intermediate goods یا درمیانی اشیاء وہ اشیاء یا وہ مال ہے جنہیں دوسری اشیاء کی تیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
۴- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص۷۷۔
۵۔ ترشاوا پھلوں میں مالٹا،سنگترہ،گریپ فروٹ،چکوترہ،لیموں،اور مٹھا وغیرہ شامل ہیں۔
۶- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص۷۴۔
۷۔ Economic downturn
۸۔https://www.avapress.com/fa/article/5899
۹۔ Socialism
۱۰- لفظ ہیستادروت(Histadrut ההסתדרות) ایک عبرانی لفظ ہے جو مخفف ہے “ہیستادروت ہاکلالیت شِل ہاعوودیم بایرتص یسرائیل (ההסתדרות הכללית של עברית העובדים בארץ ישראל‬, HaHistadrut HaKlalit shel HaOvdim B’Eretz Yisrael) کا جس کے معنی انگریزی میں ” General organization of Hebrew Workers in the land of Israel” (اور اردو میں “ارض اسرائیل میں عبرانی مزدوروں کی عام تنظیم”) کے ہیں۔ سنہ ۱۹۶۹ع‍میں لفظ “عبرانی” اس میں سے ہٹایا گیا۔ مزدوروں کی یہ تنظیم سنہ ۱۹۲۰ع‍میں باضابطہ طور پر تشکیل پائی۔ جبکہ اس کا ابتدائی تعلق سنہ ۱۹۱۱ع‍سے ہے؛ جب ارض فلسطین میں ابتدائی طور فن و حرفت سے تعلق رکھنے والی یہودی تنظیمیں تشکیل پائیں اور ہسیتادروت کی تشکیل کے وقت تک یہودی مزدور ان تنظیموں کی شکل میں منظم تھے۔
ہیستادروت کئی اداروں کا مجموعہ تھی اور خود ایک صدر کمپنی بنام “ہیفرات ہعوفدیم” (Hevrat HaOvdim = חברת העובדים یعنی مزدور کمپنی) کے تابع تھی۔ ہیستادروت کی ایک شاخ کی اہم ترین شاخ “کور” ہے جس میں ۱۰۰ کارخانوں کے ۲۳۰۰۰ مزدور اراکین ہیں اور الیکٹرانک کے زیادہ تر کمپنیوں کی مالک ہے۔ لہذا ایک طویل المدت پروگرام میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ تمام تر وسائل اور سہولیات نجی شعبے کے سپرد کی جائیں اور ریاست نجی شعبے کی ہمہ جہت حمایت کرے۔
۱۱۔ Workers’ Co-operative Union
۱۲- ساختار دولت صہیونیستی اسرائیل (یہودی ریاست کا ڈھانچہ)، ج۲، موسسۃ الدراسسات الفلسطینیۃ، ترجمہ (فارسی) علی جنتی، چاپ اول: ۱۳۸۵، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص۱۲۹۔
۱۳۔ Social Security
۱۴- وہی ماخذ، ص ۱۴۳۔
۱۵- وہی ماخذ، ص۱۴۵۔
بقلم: میلاد پور عسگری

 

کتاب ’یہودی و پارسی ثروت مند حکمران طبقہ، برطانیہ و ایران کا استعمار‘ کا تعارف

  • ۳۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  ’یہودی و پارسی ثروت مند حکمران طبقہ، برطانیہ و ایران کا استعمار‘ نامی کتاب، ایک تاریخ نگار مصنف ومحقق ’’استاد عبد اللہ شہبازی‘‘ کے قلم سے سامنے آنے والی کتاب ہے۔ جناب استاد شہبازی آج کی دنیا کے ثروت مندوں کو ایک قبیلے اور خاندانی ڈھانچے کا حامل سمجھتے ہیں، لہذا اس کتاب کی تصنیف کے دوران مصنف کے ذہن کو جس چیز نے اپنے آپ میں مشغول کیا ہوا تھا وہ یہ بات تھی کہ، ’’برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ (The British East India Company) کی بے پناہ ثروت اور اسکے سرمایہ کا انبار ۱۸۵۷ ء میں اسکے سرکاری طور پر تحلیل ہو جانے کے بعد کیا ہوا ؟ اور اس کمپنی کے باقی ماندہ مالکین، اسکے وارث اور اسکے چلانے والے کون لوگ ہیں؟
لہذا اپنے اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے کے لئے مصنف نے اس پورے موومنٹ کے سرے کو پانے اور اسکے پورے ماجرے کے دقیق طور پر تجزیے کے لئے جینیاتی شناخت کے اسلوب یا علم الانساب سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی تحقیق کے نچوڑ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کتاب کا ماحصل یہ ہے کہ اسے پڑھ کر قاری ثروت مندوں کے آپس میں ایک دوسرے سے جڑے اور پیوست شدہ ایک بڑے اوروسیع طبقہ کے زنجیری حلقہ یا نیٹ ورک کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور موجودہ دور میں بھی محض خاندانوں کی دولت کے سلسلہ سے جستجو یا بعض بڑی کمپنیوں کے بارے میں تحقیق و جستجو سے پتہ چلے گا کہ یہ بڑی کمپنیاں ایک بڑے خاندانی و اقتصادی نیٹ ورک سے جڑی ہیں لہذا ہماری جستجو ہمیں اسی منزل پر لے کر جائے گی جہاں ان اقتصادی و خاندانی طور پر ایک دوسرے سے جڑے چینلز کا ہم سامنا کریں گے، ہم ان اولیگارکی oligarchy[۱] اور ثروت مند طبقوں اور مالداوں سے جا ملیں گے جو سولہویں اور انیسویں صدی کے غارت گروں اور استعماروں کے بلا واسطہ یا با واسطہ وارث ہیں ۔
جناب شہبازی نے یہودی اولیگارکی طبقہ کو ایک دوسرے سے جڑا ایک ایسا مجموعہ قرار دیا ہے جو یہودیوں کی قیادت کو سنبھالے ہوئے ہے اور یہ وہ اولیگارکی ہیں جو عالمی سامراج و پورپین استعمار سے گہرے روابط کی بنا پر دنیا کی چند آخری دہائیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور پیش آنے والے واقعات میں اہم کردار ادا کرنے کا سبب رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ مخصوص و متعین سیاسی و اقتصادی مراکز کے رول سے غفلت برتتے ہوئے صرف جدید مغربی دنیا کی تشکیل کی تاریخ کا تجزیہ اور وہ بھی محض علمی انقلاب اور فکر و تمدن جیسی چیزوں پر تکیہ کرتے ہوئے ان مباحث کی موشگافی ایک نامناسب قدم ہے ۔مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ رنسانس[۲] ( نشاۃ ثانیہ ) کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ’’مدیجی ‘‘ [۳]فیملی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے نہ ہی اس دور کے سیاسی و اقتصادی مراکز کے بارے میں کچھ جانتے ہیں یعنی ہمیں رنسانس ( نشاۃ ثانیہ ) کے بارے میں تو بہت کچھ پتہ ہے لیکن رنسانس ( نشاۃ ثانیہ ) کو کھڑا کرنے والے اور اس تحریک کو دوش پر لیکر چلنے والوں، اسے سہارا دینے والوں کے سلسلہ سے ہماری واقفیت نہیں ہے ۔ہم سب نوبل کا انعام رکھنے والے ایلفرڈ نوبل [۴]کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔
ہم میں سے کم ہی لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ نوبل گھرانہ باکو [۵]کے تیل کے ذخائر کا مالک تھا جس نے تیل کے کنووں کو روچیلڈ [۶]یہودی ثروت مندوں کو بیچ دیا اور انجام کار یہ سارا سرمایہ مارکوس ساموئیل [۷]یہودیوں کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی ’رویئل ڈچ شل[۸] کمپنی‘ کے سب سے پہلے بانیوں میں سے ایک اور کمپنی کے ڈائکٹر و سربراہ تک منتقل ہو گیا ۔ اس کتاب کی تالیف میں سات سال کے لگ بھگ وقت صرف ہوا، اسکے علاوہ جناب شہبازی نے ۱۷ مہینوں کا عرصہ منابع و مآخذ کی تقویت و مضبوطی میں صرف کیا تاکہ اس طاقت اور ثروت کے مرکز کی دقیق اور واضح تصویر مخاطبین کے سامنے آ سکے، انجام کار یہ کتاب پانچ جلدوں میں چھپ کر منظر عام پر آ گئی۔یہ ایک ایسی کتاب ہے جو محققین و رسچ اسکالرز کے لئے متعلقہ موضوع میں میں مفید اور رہ گشا ثابت ہو سکتی ہے۔
پہلی جلد:
اس کتاب کی پہلی جلد سمندر کے اس پار ’برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کی ثروت کے اکھٹا ہونے کی کیفیت اور اس کمپنی کی غارت گری کو بیان کرتی ہے، اس کتاب کے اصلی اہداف میں ایک پارسی اولیگارچی کی شناخت اور یہ خاندان موجودہ سندوں اور ثبوتوں کے مطابق یہودی اولگارچیوں سے ایک گہرا تعلق رکھتا ہے لہذا آج کے یہودیوں کے طریقہ کار اور انکے موجودہ طرز عمل کو سمجھنے کے لئے اس کتاب کے دوسرے حصہ میں قوم یہود کی قدیم و پرانی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔
دوسری جلد:
دوسری جلد کے پہلے حصہ میں یورپ کے حکمرانوں کا یہودی ثروت مندوں اور اولیگارچیوں سے تعلق و رابطہ کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح انہوں نے دربار میں نفوذ پیدا کیا اور کس طرح مشرقی سرزمینوں اور امریکہ کو غارت کرنا شروع کیا، اور دوسری جلد کے دوسرے حصہ میں یہودیوں کے عرفان ’کابالا‘ اور اسکی عیسائیت میں تاثیر اور پر اسرار فرقوں کی تشکیل کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور اس جلد کے آخری حصہ میں خاص طور پر یہودیوں کے برطانوی دربار سے تعلق اور ان کے کاموں کی نوعیت کا تجزیہ کرتے ہوئے اسکی موشگافی کی گئی ہے۔
تیسری جلد:
اس جلد کے مباحث دو حصوں میں بیان ہوئے ہیں ، پہلے حصہ میں  ’اریسٹو کریٹ‘ طبقے کے مغرب میں سرچشمہ کو بیان کیا گیا ہے اور اسکے تجزیئے کے بعد دوسرے حصہ میں ’تالبوت‘، ’چرچیل ہاملٹن‘، ’سیسیل‘ وغیرہ کے گھرانوں پر روشنی ڈالی گئی ہے یہ وہ گھرانے ہیں جنہوں نے برطانوی اشرافیہ اور وہاں پر موجود ثروت مند طبقہ کے بنیادی ڈھانچہ کو تشکیل دیا ہے اور اسے آج ہم بوڑھے سامراج و استعمار کے نام سے جانتے ہیں۔
چوتھی جلد:
اس جلد میں خاص طور پر ’فری میسن فرقہ‘ کے سلسلہ سے گفتگو کی گئی ہے جسکا یہودیت سے ایک گہرا تعلق ہے علاوہ از ایں اس میں موجودہ دور میں ثروت مندوں کے وجود میں آنے میں انکے کردار کو بیان کیا گیا ہے ۔
پانچویں جلد:
پانچویں جلد میں روایتی انتظامیہ جیسے حکومت عثمانی، روس کے تزاریوں کی حکومت کے اضمحلال میں ارسٹوکریٹ طبقے اور یہودی ثروتمند طبقے کے کردار اور سرمایہ داری سسٹم کے وجود میں آنے کو مورد گفتگو و مطالعہ قرار دیا گیا ہے ۔انجام کار کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب اس اعتبار سے کہ یہودی خاندانوں کی تاریخ کا ایک تجزیہ پیش کر رہی ہے اور موجودہ مغربی دنیا پر انکے اقتدار کی کیفیت کو بیان کر رہی ہے، نیز اس سیاست کو بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو یہودی ہمارے مقابل استعمال کر رہے ہیں لہذا اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید اور رہ گشا ثابت ہوگا۔
حواشی :
[۱] ۔ Oligarchy یہ ایسا طبقہ ہے جس میں سیاست و اقتدار کی باگ ڈور مرکزی طور پر امیروں اور ثروت مندوں کے پاس ہوتی ہے اور یہ ثروت مند طبقہ یوں تو اپنے ہم نوعوں کی آبادی کا ایک مختصر اور چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے لیکن ان پر حاکم ہوتا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر من مانے طریقے سے حکومت کرتا ہے اور اس پر کسی بھی طرح کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کوئی اس سے کچھ پوچھنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلاں کام تم نے کیوں کیا ، یہ لوگ جو مرضی آٗئے انجام دیتے ہیں یہ اصطلاح افلاطون کے زمانے سے چلی آ رہی ہے یہ ایک ایسا تصور حکومت یے جس میں چند گنے چنے افراد اپنے مفادات کے حساب سے دیگر لوگوں پر حکومت کرتے ہیں
۲۔ نشاہ ثانیہ (: Renaissance قرون وسطیٰ میں یورپ خصوصاً اٹلی سے اٹھنے والی ایک ثقافتی تحریک جو ۱۴ ویں سے ۱۷ ویں صدی تک جاری رہی ۔
[۳] ۔ نشاہ ثانیہ کے دور میں ایک طاقت ور اطالوی گھرانہ
[۴] ۔ Alfred Bernhard Nobel ، الفریڈ نوبل سویڈن کے کیمیادان، انجینیئر، جنہوں نے ڈائنامائیٹ کی ایجاد کی ۔ اور مرتے وقت اپنی وصیت میں بے شمار دولت کا ایک بڑا حصہ نوبل انعام دینے کے لیے وقف کر دیا۔ مصنوعی تیار کیے گئے عنصر ” نوبلیئم” کا نام بھی انہیں کے نام پر رکھا گیا ہے ۔
[۵] ۔ باکو (انگریزی: Baku،آذری: Bakı) بحیرہ لیسپئین کے کنارے واقع آذربائیجان کا دارالحکومت اور سب وہاں کا سب سے بڑا شہر،
باکو تیل کی دولت سے مالا مال علاقے میں واقع ہونے کے باعث تیل کی صنعتوں کا مرکز ہے۔ باکو کا نام فارسی لفظ بادکوبہ (ہواؤں کا مارا ہوا) سے مشتق ہے اور اس کے محل وقوع کے لحاظ سے بہت موزوں ہے۔ قرون وسطٰی کے مورخین اسے باکویہ، بلاکوہ اور باکہ بھی لکھتے ہیں۔ تاریخ میں اس کا ذکر تیسری صدی ہجری کے بعد برابر آتا ہے۔ باکو عرصے تک شاہان شیروان کے ماتحت رہا۔ ۱۵۵۰ء میں صفوی سلطان طہماسپ اول کا اس پر قبضہ ہو گیا۔ ۱۵۸۳ء تا ۱۶۶۰ء یہ شہر عثمانی ترکوں کے ماتحت رہا۔ ۱۸۰۶ء میں روسیوں نے اسے ایرانیوں سے چھین لیا فی الوقت ملک آذربایجان کا پایتخت ہے ۔
[۶] ۔ روتھشیلڈ (Rothschild) ایک یورپی یہودی خاندان ہے جو نہ صرف یورپ کے مختلف ممالک میں بینکاری کے نظام پر حاوی ہے بلکہ امریکہ کے فیڈرل ریزرو کے بنیادی حصہ داروں میں بھی شامل ہے۔ اس کے مشہور لوگوں میں بیرن روتھشیلڈ شامل ہے جو برطانیہ میں یہودیوں کا نمائندہ تھا اور فلسطین پر یہودی قبضہ کو مستحکم کرنے میں اس کا کردار ڈھکا چھپا نہیں اور اس کا نام اعلانِ بالفور میں بھی آتا ہے
[۷] ۔ Marcus Samuel, 1st Viscount Bearsted
[۸i] ۔ Royal Dutch Shell
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کبھی کبھی گھر کے چراغ کو مسجد بھی لے جانا چاہیے

  • ۴۱۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران کے معروف سخنور “استاد رحیم پور ازغدی” ظلم کا مقابلہ اور مظلوم کی حمایت کرنے کے حوالے سے اکثر اوقات اپنی تقریروں میں زور دیتے ہیں درج ذیل تحریر میں ان کے بیانات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
“دین کے چہرے کو مسخ کرنا اور دین کو حکومت اور اخلاق کو سیاست سے الگ کرنا، دین کے باطن کو مٹانے اور ظاہر کو محفوظ رکھنے کے مترادف ہے۔ یہ طریقہ کار طول تاریخ میں بھی جاری رہا ہے اور آج کے دور میں بھی جاری ہے، اسلام کو مبہم اور مجہول الحقیقت، دین کو ہزار قرائتوں اور قرآن کو بالرائے تفسیر کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ اسلام میں تحریف ہے جو اسلام ناب محمدی(ص) کے دشمنوں کا مقصد ہے۔ آج کے یزیدیوں کا مقصد اسلام کو بطور کلی مٹانا نہیں ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلام کو مٹانا اتنا آسان نہیں ہے لہذا وہ اسلام کو مٹانا نہیں چاہتے بلکہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایسا اسلام متعارف کروانا چاہتے ہیں جو گنج قارون اور تخت فرعون کے ساتھ کوئی سروکار نہ رکھتا ہو۔ ایک ایسا اسلام جس کو نہ سیاست و حکومت سے مطلب ہو، نہ سماج اور معاشرے سے، نہ عدالت و انصاف سے اور نہ انسانی حقوق سے۔ ایک انفرادی دین ہو جو انفرادی عبادت کی ترغیب دلاتا ہو ایسا اسلام پیش کرنا چاہتے ہیں۔ (۱)۔ ایسے اسلام کو فلسطینی بچوں کی چیخ و پکار سنائی دے گی نہ یمنی بچوں کی بھوک و پیاس دکھائی دے گی۔ وہ ایک سویا ہوا، لڑکھڑاتا ہوا اور اندھا اور بہرا دین لوگوں کو دینا چاہتے ہیں جس میں کوئی تحرک اور جذبہ نہ ہو۔
لیکن جو چیز حقیقی اسلام میں پیش نظر ہے وہ اسلام کی تر و تازگی ہے اسلام کی بصیرت افزائی ہے اسلام کا ظلم کے خلاف قیام ہے۔ اس اسلام کو ایسا مسلمان چاہیے جو اپنے زمانے کے شمر کو پہچانتا ہو جو ظالموں کو دیکھ کر آنکھیں بند نہ کر لے۔ حقیقی اسلام کے اصول میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا آج کی زبان میں مطلب سماجی ذمہ داریوں پر نظارت رکھنا ہے یعنی سب چیزیں سب لوگوں سے مربوط ہیں۔ نہ کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے کہے کہ مجھ سے کیا مطلب کہ ہمارے سماج میں کیا ہو رہا ہے یا دنیا کے اس کونے میں کیا ہو رہا ہے اور جب کوئی کسی سے اس کی ذمہ داری کے حوالے سے پوچھے تو اسے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ تم سے کیا مطلب۔ لہذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی ہم اور آپ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ظلم، بے انصافی، انسانیت کی سرخ لکیروں جو اخلاق اور اخلاقی قدریں ہیں پر ہونے والے حملوں کی نسبت اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔
سید الشہدا(ع) کے پاس ظلم کے خلاف قیام کرنے کی جو دلیل اور منطق تھی وہ سنہ ۶۱ ہجری کے یوم عاشور اور کربلا سے مخصوص نہیں تھی۔ آج کے دور میں بھی سید الشہدا(ع) کے استدلال اور منطق سے دنیا میں ہونے والے ظلم و جور کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابا عبد اللہ الحسین (ع) کی منطق کیا تھی؟ امام حسین علیہ السلام کا جب لشکر حر کے ساتھ سامنا ہوا تو آپ نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! رسول خدا نے فرمایا کہ اسلام ظلم و ستم کے مقابلے میں خاموشی برداشت نہیں کرتا، اسلام میں غیرجانب داری نہیں پائی جاتی، اگر کوئی یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں لیکن مجھے دنیا میں ہونے والے ظلم و ستم سے کوئی سروکار نہیں، دنیا میں ہونے والی بے انصافی اور ستمگری سے کوئی مطلب نہیں، اس شخص نے نہ صرف اپنی ذمہ داری کو انجام نہیں دیا بلکہ وہ اس ظالم کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور اس کے ظلم میں شریک ہے۔
آج کے معاشرے میں بھی عالمی صہیونیت اور امریکہ کے ظلم و جور کے مقابلے میں غیرجانب داری سے کام لینا ایک بہت بڑا المیہ ہے اور اس کا مقصد شیعہ مذہب کے چہرے کو مسخ کرنا ہے۔
پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: مظلوم کی مدد کے لیے اگر پانچ میل( تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر) بھی دور جانا پڑے جاؤ اور وہ مظلوم جو تم سے مدد طلب کرے اس کی نصرت کے لیے ۶ میل بھی دور جانا پڑے جاؤ۔ یعنی ہم ان قوموں اور ملتوں کی نسبت بھی مسئول اور ذمہ دار ہیں جو ظلم و ستم کا شکار ہیں لیکن ہم سے مدد طلب نہیں کر رہی ہیں۔ چہ جائے کہ وہ ملتیں جو ظلم و ستم کی آگ میں جھلس رہی ہیں اور ہم سے نصرت کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں۔ یہاں ہماری ذمہ داری کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ سوچ کر خاموش نہیں بیٹھ جانا چاہیے کہ ہر کوئی اپنا کام خود انجام دے اور ہمیں کسی سے کوئی مطلب نہیں۔ “جو چراغ گھر میں جل رہا ہے اسے مسجد لے جانا حرام ہے”۔ یہ کون سی ضرب المثل ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ اور کس نے بیان کی ہے؟ کبھی کبھی گھر کے چراغ کو مسجد بھی لے جانا چاہیے۔ یہ وہی ایثار اور قربانی ہے یعنی دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دینا۔ یہ ہے حقیقی اسلام۔ (۲)
(۱)رحیم پور ازغدی، عقل سرخ
(۲) استاد حسن رحیم پور ازغدی، گزیده ای از سخنرانی «عاشورای حسینی،شهادت برای نهی از منکر»
تحریر: مجید رحیمی
 

 

عرب حکمران کی آبرو دوستوں کے ہاں بھی غیر محفوظ

  • ۳۶۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مشہور فلسطینی قلمکار “کمال خلف” نے اپنی ایک یادداشت بعنوان “قوم عرب کی توہین اور ایران کی قوت” میں لکھتے ہیں: امریکہ کے آگے عرب حکومتوں کا رویہ عرب قوم کی تذلیل اور توہین کا باعث بنا ہوا ہے اور اس رویے کی مذمت کرتے ہیں۔
کمال خلف کے خاص خاص نکتے:
ہم تاریخ میں ہمیشہ عربی عظمت، افتخار، شان و شوکت، جوانمردی کو عرب انسان کی خصوصیات قرار دیتے رہے لیکن کیا ہمیں دھوکا ہوا؟ یا پھر یہ زمانہ اور ہے اور وہ زمانے اور تھے؟ اس وقت جس ذلت و خفت اور زوال سے ہم گذر رہے ہیں یہ ساری عظیم خصوصیات اس عمومی ذلت کے کس حصے میں دکھائی دے رہی ہیں؟
یہ وہ دور ہے جس میں ہمیں شرافت و عزت کی لذت چکھنے کے مجاز نہیں ہیں۔ شرمناک ہے کہ امریکی صدر ایک عظیم اسلامی اور عربی حکومت کے بارے میں بات کرتے ہوئے تذلیل، اہانت اور بےشرمی کے لب و لہجے میں بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ “تم کمزور اور ضعیف ہو لہذا اپنی حفاظت کی قیمت ادا کرو ورنہ تمہارا تخت و تاج برباد ہو کر رہے گا”۔ اور کہتا ہے: “تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ اپنی دولت اور اپنی قوم کا رزق ہمارے سپرد کرو، تمہاری قوم کو اس دولت سے استفادہ کرنے کا حق نہیں ہے؛ لہذا ہم تمہیں آخری قطرے تک دوہ لیں گے”۔
ایسا زمانہ ہے کہ امریکی حکومت آگے ہمارے قبلہ اول، “قدس” اور ہمارے مقدسات کو ہمارے دشمنوں کے سپرد کرتی ہے، جبکہ ہمیں خاموش رہنا پڑ رہا ہے اور ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، بلکہ ہم خاموشی سے بھی زیادہ تلخ اقدامات تک بھی کرلیتے ہیں اور قدم آگے بڑھاتے ہیں اور ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے ایک امت کی حیثیت سے ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈال سکیں۔ یہودی ریاست ہماری دیرینہ دشمن ہے لیکن ہم اس کے قریب ہوجاتے ہیں اور ایک اسلامی ملک کے خلاف ـ جو کہ ہمارے ساتھ اسلامی اقدار اور حیات باہمی کے لحاظ سے شریک و رفیق ہے ـ اس ریاست کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
عربوں کی جوانمردی کہاں رخصت ہوکر گئی ہے، لاکھوں فلسطینی، شامی اور عرب پناہ گزین، خانہ و کاشانہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں لیکن عرب ممالک کی سرحدیں ان کے لئے بند کی جاچکی ہیں وہ نہ تو یورپ جاسکتے ہیں نہ عرب ممالک میں داخل ہوسکتے ہیں اور کچھ کیمپوں میں کسمپرسی اور ذلت و خفت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور بدترین نسلی امتیازات کا شکار ہیں: عرب عربوں کے ساتھ نسلی اور قومی امتیاز برتتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی پامال شدہ شرافت کی تلاش میں سمندر کے راستے یورپ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں لیکن سمندر کی لہریں انہیں نگل لیتی ہیں اور ان کے بچوں کی تصویریں اخبارات کی کمائی کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔
کیا حاتم طائی ایک عربی افسانوی شخصیت کا نام ہے یہ وہ ایک اسثنائی شخصیت ہے؟ کیا جزیرہ نمائے عرب میں انصار و مہاجرین کی داستان ایک حادثانی کہانی ہے جو اگر رسول اللہ(ص) نہ ہوں تو اسے دہرایا نہیں جاسکتا؟
اے عرب حکمرانو! تم نے ایران کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا اس بہانے کہ ایران عرب ممالک میں مداخلت کررہا ہے، کوئی حرج نہیں لیکن کون سی چیز لے کر ایران کے خلاف لڑوگے؟ کیا اسرائیل کی فوجی طاقت کے ذریعے یا امریکی پابندیوں کے ذریعے، یا عوام کو ایرانیوں کے مذہب کے خلاف اکسا کر، جو تمہارے عوام میں سے بہت سوں کا مذہب بھی ہے؟
یہ عظمت و شرافت اور یہ عزت و آبرو اور یہ خودمختاری کے تحفظ کے لئے جنگی رویے کا مظاہرہ صرف ہمارے پڑوسی ملک ایران کے خلاف نظر آتا ہے، لیکن ہمارے یہاں کچھ دشمن ہیں جنہوں نے ہماری سرزمینوں کو غصب کرلیا ہے، ہماری ناموس کی بےحرمتی کرچکے ہیں، ہماری عورتوں اور بچیوں کو قید میں رکھے ہوئے ہیں اور ہمارے بچوں کے قاتل ہیں، اور ہم ان کے آگے گویا کسی قسم کی عزت و آبرو نہیں رکھتے!
کیا ہمیں اپنی طاقت، اپنا اسلحہ اور اپنی شجاعت (!) کو اپنے کمزور اور غریب یمنی بھائیوں کو جتانا چاہئے؟ حالانکہ یمن ـ جب تک کہ عربوں کے ہاتھوں اپنے عوام کے سروں پر ویران نہیں ہوا تھا ـ خوش بخت یمن کے عنوان سے مشہور تھا؛ یعنی ہماری طاقت و عظمت صرف یمنی بچوں کے قتل عام کے لئے ہے؟
میری خواہش ہے اے عرب حکمرانو کہ واشنگٹن میں جو شخص تمہاری تذلیل کرتا ہے، اس کے سامنے ڈٹ جاؤ کیونکہ تم اپنے عوام کی معیشت سے اپنی حفاظت کررہے ہو، اور ہم دنیا کے عوام کے آگے شرمندگی محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہم زیرہ نمائے عرب سے محبت کرتے ہیں اور اس خطے کے عوام نابود ہونے والی عربی امت کا حصہ ہیں۔
اب ہمیں بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ کیا واقعی اگر ٹرمپ سعودی حکومت کی حمایت چھوڑ دے تو وہ دو ہفتوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکے گی؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ ریاض کس ملک کے حملے کا نشانہ بنے گا؟ اگر ٹرمپ ریاض کی حمایت سے پسپا ہوجائے تو کیا ایران سعودی عرب کے خلاف جنگ کا آغاز کرے گا؟ ہمارا خیال ہرگز یہ نہیں ہے، ہمیں یقین ہے کہ ایران کبھی بھی عرب ممالک پر حملہ نہیں کرے گا، بلکہ ممکن ہے کہ معاملہ بالکل برعکس ہوجائے اور ایران سعودی حکومت کی مدد کو آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک امریکی بلیک میلنگ سے دوچار ہیں؛ اور ہم وہ قوم ہیں جس نے سر تسلیم خم کیا ہوا ہے۔
عرب حکمرانو! کیا اپنے آپ سے پوچھنا چاہوگے کہ تم نے کس طرح شام کے خلاف ابلاغیاتی اور سفارتی جنگ کا آغاز کیا اور شام کو کئی چھوٹے چھوٹے فرقہ وارانہ ممالک میں تقسیم کرنا چاہا تاکہ وہ ابد تک ایک دوسرے سے لڑیں؟ تم نے کیونکر شام میں دہشت گرد ٹولوں کو اسلحہ پہنچایا جبکہ تم نے ان بےپناہ فلسطینی عوام کی حمایت سے اجتناب کیا جو فلسطینی سرزمین کے مالک اور تمہارے مقدسات کے نگہبان ہیں؟
تم یہ بتاؤ کہ تم نے کیونکر خلیج فارس تعاون کونسل کے اندر ہی اندر ایک دوسرے کو بےاعتبار کرنے کے لئے نہایت پیشہ ورانہ انداز سے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا؟ جبکہ عرب ممالک کے کسی عادلانہ مسئلے کو آگے بڑھانے کے معاملے میں تم نے کبھی بھی اس طرح کی پیش ورانہ مہارت کا مظاہرہ نہیں کیا؟
ٹرمپ ہم سے تحقیر و تذلیل کی بشرمانہ لب و لہجے سے مخاطب ہے اور ہم اس کے ساتھ شراکت اور اپنے رابطے کے استحکام پر فخر کرتے نہیں تھکتے، یہی ٹرمپ اپنے دشمن “ایران” کے بارے میں بولتے ہوئے احترام کے ساتھ بات کرتا ہے، اور اس ملک کے راہنماؤں سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور ایران بھی اس کی اس خواہش کو مسترد کرتا ہے؛ یہی امریکی صدر جو اس انداز سے عرب ممالک کا مالک بن کر ان کے حکمرانوں کی توہین کرتا ہے، ایران کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہے اور ایران اس کی دعوت کو مسترد کرتا ہے؛ اور جان لو کہ اگر امریکہ کے ساتھ کوئی سودا کریں تو یہ تم عربوں کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہوگا اور اس نئے سودے کی بنیاد پر تمہیں شاہ کے زمانے کی طرح ایران کے سامنے ہاتھ اٹھانے پڑیں گے اور سر تسلیم خم کرنا پڑے گا۔
ہم حسد کی نظر سے ایران کو دیکھتے ہیں، ایسا ملک جو اپنی اندرونی طاقت کے بل بوتے پر مزاحمت کرتا ہے، استقامت کرتا ہے، اور ڈٹا ہوا ہے اور خوداعتمادی کی برکت سے پابندیوں کے آگے صبر کرتا ہے اور خود ہی اپنا بچھونا اور اپنا قالین خود بناتے ہیں، اپنی غذا خود تیار کرتے ہیں اور اپنی ضرورت کا اسلحہ خود تیار کرتے ہیں تا کہ ان کی قومی عزت و آبرو محفوظ رہے۔
اے عرب حکمرانو! ایران کو دیکھو کہ کس طر عسکری میدانوں میں داخل ہوجاتا ہے اور وہاں کامیاب ہوجاتا ہے اور اپنے ترپ کو پتوں کی تعداد کو بڑھا لیتا ہے، اور سفارتکاری کے میدان میں بھی اپنے رقیبوں کے آگے بھی اپنے احترام کو محفوظ رکھتا ہے لیکن آج ہم عرب کس کے ہاں قابل احترام سمجھے جاتے ہیں؟
http://fna.ir/bp0hhy
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔