عرب حکمران کی آبرو دوستوں کے ہاں بھی غیر محفوظ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مشہور فلسطینی قلمکار “کمال خلف” نے اپنی ایک یادداشت بعنوان “قوم عرب کی توہین اور ایران کی قوت” میں لکھتے ہیں: امریکہ کے آگے عرب حکومتوں کا رویہ عرب قوم کی تذلیل اور توہین کا باعث بنا ہوا ہے اور اس رویے کی مذمت کرتے ہیں۔
کمال خلف کے خاص خاص نکتے:
ہم تاریخ میں ہمیشہ عربی عظمت، افتخار، شان و شوکت، جوانمردی کو عرب انسان کی خصوصیات قرار دیتے رہے لیکن کیا ہمیں دھوکا ہوا؟ یا پھر یہ زمانہ اور ہے اور وہ زمانے اور تھے؟ اس وقت جس ذلت و خفت اور زوال سے ہم گذر رہے ہیں یہ ساری عظیم خصوصیات اس عمومی ذلت کے کس حصے میں دکھائی دے رہی ہیں؟
یہ وہ دور ہے جس میں ہمیں شرافت و عزت کی لذت چکھنے کے مجاز نہیں ہیں۔ شرمناک ہے کہ امریکی صدر ایک عظیم اسلامی اور عربی حکومت کے بارے میں بات کرتے ہوئے تذلیل، اہانت اور بےشرمی کے لب و لہجے میں بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ “تم کمزور اور ضعیف ہو لہذا اپنی حفاظت کی قیمت ادا کرو ورنہ تمہارا تخت و تاج برباد ہو کر رہے گا”۔ اور کہتا ہے: “تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ اپنی دولت اور اپنی قوم کا رزق ہمارے سپرد کرو، تمہاری قوم کو اس دولت سے استفادہ کرنے کا حق نہیں ہے؛ لہذا ہم تمہیں آخری قطرے تک دوہ لیں گے”۔
ایسا زمانہ ہے کہ امریکی حکومت آگے ہمارے قبلہ اول، “قدس” اور ہمارے مقدسات کو ہمارے دشمنوں کے سپرد کرتی ہے، جبکہ ہمیں خاموش رہنا پڑ رہا ہے اور ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، بلکہ ہم خاموشی سے بھی زیادہ تلخ اقدامات تک بھی کرلیتے ہیں اور قدم آگے بڑھاتے ہیں اور ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے ایک امت کی حیثیت سے ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈال سکیں۔ یہودی ریاست ہماری دیرینہ دشمن ہے لیکن ہم اس کے قریب ہوجاتے ہیں اور ایک اسلامی ملک کے خلاف ـ جو کہ ہمارے ساتھ اسلامی اقدار اور حیات باہمی کے لحاظ سے شریک و رفیق ہے ـ اس ریاست کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
عربوں کی جوانمردی کہاں رخصت ہوکر گئی ہے، لاکھوں فلسطینی، شامی اور عرب پناہ گزین، خانہ و کاشانہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں لیکن عرب ممالک کی سرحدیں ان کے لئے بند کی جاچکی ہیں وہ نہ تو یورپ جاسکتے ہیں نہ عرب ممالک میں داخل ہوسکتے ہیں اور کچھ کیمپوں میں کسمپرسی اور ذلت و خفت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور بدترین نسلی امتیازات کا شکار ہیں: عرب عربوں کے ساتھ نسلی اور قومی امتیاز برتتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی پامال شدہ شرافت کی تلاش میں سمندر کے راستے یورپ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں لیکن سمندر کی لہریں انہیں نگل لیتی ہیں اور ان کے بچوں کی تصویریں اخبارات کی کمائی کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔
کیا حاتم طائی ایک عربی افسانوی شخصیت کا نام ہے یہ وہ ایک اسثنائی شخصیت ہے؟ کیا جزیرہ نمائے عرب میں انصار و مہاجرین کی داستان ایک حادثانی کہانی ہے جو اگر رسول اللہ(ص) نہ ہوں تو اسے دہرایا نہیں جاسکتا؟
اے عرب حکمرانو! تم نے ایران کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا اس بہانے کہ ایران عرب ممالک میں مداخلت کررہا ہے، کوئی حرج نہیں لیکن کون سی چیز لے کر ایران کے خلاف لڑوگے؟ کیا اسرائیل کی فوجی طاقت کے ذریعے یا امریکی پابندیوں کے ذریعے، یا عوام کو ایرانیوں کے مذہب کے خلاف اکسا کر، جو تمہارے عوام میں سے بہت سوں کا مذہب بھی ہے؟
یہ عظمت و شرافت اور یہ عزت و آبرو اور یہ خودمختاری کے تحفظ کے لئے جنگی رویے کا مظاہرہ صرف ہمارے پڑوسی ملک ایران کے خلاف نظر آتا ہے، لیکن ہمارے یہاں کچھ دشمن ہیں جنہوں نے ہماری سرزمینوں کو غصب کرلیا ہے، ہماری ناموس کی بےحرمتی کرچکے ہیں، ہماری عورتوں اور بچیوں کو قید میں رکھے ہوئے ہیں اور ہمارے بچوں کے قاتل ہیں، اور ہم ان کے آگے گویا کسی قسم کی عزت و آبرو نہیں رکھتے!
کیا ہمیں اپنی طاقت، اپنا اسلحہ اور اپنی شجاعت (!) کو اپنے کمزور اور غریب یمنی بھائیوں کو جتانا چاہئے؟ حالانکہ یمن ـ جب تک کہ عربوں کے ہاتھوں اپنے عوام کے سروں پر ویران نہیں ہوا تھا ـ خوش بخت یمن کے عنوان سے مشہور تھا؛ یعنی ہماری طاقت و عظمت صرف یمنی بچوں کے قتل عام کے لئے ہے؟
میری خواہش ہے اے عرب حکمرانو کہ واشنگٹن میں جو شخص تمہاری تذلیل کرتا ہے، اس کے سامنے ڈٹ جاؤ کیونکہ تم اپنے عوام کی معیشت سے اپنی حفاظت کررہے ہو، اور ہم دنیا کے عوام کے آگے شرمندگی محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہم زیرہ نمائے عرب سے محبت کرتے ہیں اور اس خطے کے عوام نابود ہونے والی عربی امت کا حصہ ہیں۔
اب ہمیں بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ کیا واقعی اگر ٹرمپ سعودی حکومت کی حمایت چھوڑ دے تو وہ دو ہفتوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکے گی؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ ریاض کس ملک کے حملے کا نشانہ بنے گا؟ اگر ٹرمپ ریاض کی حمایت سے پسپا ہوجائے تو کیا ایران سعودی عرب کے خلاف جنگ کا آغاز کرے گا؟ ہمارا خیال ہرگز یہ نہیں ہے، ہمیں یقین ہے کہ ایران کبھی بھی عرب ممالک پر حملہ نہیں کرے گا، بلکہ ممکن ہے کہ معاملہ بالکل برعکس ہوجائے اور ایران سعودی حکومت کی مدد کو آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک امریکی بلیک میلنگ سے دوچار ہیں؛ اور ہم وہ قوم ہیں جس نے سر تسلیم خم کیا ہوا ہے۔
عرب حکمرانو! کیا اپنے آپ سے پوچھنا چاہوگے کہ تم نے کس طرح شام کے خلاف ابلاغیاتی اور سفارتی جنگ کا آغاز کیا اور شام کو کئی چھوٹے چھوٹے فرقہ وارانہ ممالک میں تقسیم کرنا چاہا تاکہ وہ ابد تک ایک دوسرے سے لڑیں؟ تم نے کیونکر شام میں دہشت گرد ٹولوں کو اسلحہ پہنچایا جبکہ تم نے ان بےپناہ فلسطینی عوام کی حمایت سے اجتناب کیا جو فلسطینی سرزمین کے مالک اور تمہارے مقدسات کے نگہبان ہیں؟
تم یہ بتاؤ کہ تم نے کیونکر خلیج فارس تعاون کونسل کے اندر ہی اندر ایک دوسرے کو بےاعتبار کرنے کے لئے نہایت پیشہ ورانہ انداز سے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا؟ جبکہ عرب ممالک کے کسی عادلانہ مسئلے کو آگے بڑھانے کے معاملے میں تم نے کبھی بھی اس طرح کی پیش ورانہ مہارت کا مظاہرہ نہیں کیا؟
ٹرمپ ہم سے تحقیر و تذلیل کی بشرمانہ لب و لہجے سے مخاطب ہے اور ہم اس کے ساتھ شراکت اور اپنے رابطے کے استحکام پر فخر کرتے نہیں تھکتے، یہی ٹرمپ اپنے دشمن “ایران” کے بارے میں بولتے ہوئے احترام کے ساتھ بات کرتا ہے، اور اس ملک کے راہنماؤں سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور ایران بھی اس کی اس خواہش کو مسترد کرتا ہے؛ یہی امریکی صدر جو اس انداز سے عرب ممالک کا مالک بن کر ان کے حکمرانوں کی توہین کرتا ہے، ایران کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہے اور ایران اس کی دعوت کو مسترد کرتا ہے؛ اور جان لو کہ اگر امریکہ کے ساتھ کوئی سودا کریں تو یہ تم عربوں کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہوگا اور اس نئے سودے کی بنیاد پر تمہیں شاہ کے زمانے کی طرح ایران کے سامنے ہاتھ اٹھانے پڑیں گے اور سر تسلیم خم کرنا پڑے گا۔
ہم حسد کی نظر سے ایران کو دیکھتے ہیں، ایسا ملک جو اپنی اندرونی طاقت کے بل بوتے پر مزاحمت کرتا ہے، استقامت کرتا ہے، اور ڈٹا ہوا ہے اور خوداعتمادی کی برکت سے پابندیوں کے آگے صبر کرتا ہے اور خود ہی اپنا بچھونا اور اپنا قالین خود بناتے ہیں، اپنی غذا خود تیار کرتے ہیں اور اپنی ضرورت کا اسلحہ خود تیار کرتے ہیں تا کہ ان کی قومی عزت و آبرو محفوظ رہے۔
اے عرب حکمرانو! ایران کو دیکھو کہ کس طر عسکری میدانوں میں داخل ہوجاتا ہے اور وہاں کامیاب ہوجاتا ہے اور اپنے ترپ کو پتوں کی تعداد کو بڑھا لیتا ہے، اور سفارتکاری کے میدان میں بھی اپنے رقیبوں کے آگے بھی اپنے احترام کو محفوظ رکھتا ہے لیکن آج ہم عرب کس کے ہاں قابل احترام سمجھے جاتے ہیں؟
http://fna.ir/bp0hhy
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی