-
Wednesday, 25 March 2020، 04:12 PM
خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: محدثین کہتے ہیں کہ ایک بار سرزمین بیت المقدس میں طاعون کی وبا آئی جس میں کثرت سے لوگ جان بحق ہوئے ، حضرت داوٗد کا زمانہ تھا انہوں نے لوگوں سے کہا : پاک و پاکیزہ ہو کر بیت المقدس کی پہاڑی پر چلو اور رو رو کر خدائے رحیم سے رحم کی التجا کرو ۔ قوم داوٗد علیہ السلام نے ویسا ہی کیا سجدے میں اسوقت تک روتی رہی جب تک خدا نے طاعون کی بلا ان سے اٹھا نہیں لی ۔
جب تین دن عافیت سے گذر گئے تو حضرت داوٗد نے دوبارہ ان لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا ‘اللہ نے تم لوگوں پر رحم وکرم کیا لہٰذا تم لوگ دوبارہ اس کا شکریہ ادا کرو ، اور بطور شکریہ اس پہاڑی بیت المقدس کی بنیاد ڈالو۔
لوگوں نے اس تجویز کو قبول کیا اور اس طرح بیت المقدس کی تجدیدِ تعمیر کا کام شروع ہوا ، اس وقت اگر چہ حضرت داؤد کی عمر ایک سو ستائیس سال تھی لیکن اس کے باوجود اپنے کاندھوں پرپتھر اٹھا کر لائے اور قد آدم دیوار بلند کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ وحی کے ذریعہ اللہ نے خبر دی کہ اس تعمیر کی تکمیل آپ کے بیٹے سلیمان ؑ کے ہاتھوں ہوگی ، ایک سو چالیس سال کی عمر میں حضرت داؤد کی رحلت ہوئی اور حضرت سلیمان نے خدا کے گھر کو مستحکم و دیدہ زیب بنانے کیلئے دریاؤں سے جواہرات نکلوائے ، پہاڑوں کو کٹواکر رنگ برنگے پتھر ترشوائے ، زمین کی تہوں سے لعل و جواہر اکٹھا کرائے ، جنات و انسان و شیطان سب مل کر کام کرتے رہے جب عمارت مکمل ہو گئی تو بہترین مشک و عنبر سے معطر کرایا ۔
روئے زمین پر اس وقت بیت المقدس سے زیادہ کوئی خوبصورت عمارت نہیں تھی، اندھیری رات میں جواہرات کی چمک دمک سے عمارت تو عمارت ماحول چودھویں رات کا منظر پیش کرتا تھا ۔
بیت المقدس اسی شان و شوکت سے سالوں باقی رہا بخت نصر نے جب حملہ کیا تو سارے جواہرات لوٹ لئے ، دیواریں منہدم کرادیں ، شہر کو تاراج کردیا ۔