بر صغیر صہیونیت کے خلاف جدوجہد کا گہوارہ

  • ۳۴۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برصغیر پاک و ہند دنیا کے اہم ترین علاقوں میں سے ہے جو سو سال سے زائد برطانوی استعمار کے تجربے سے گذرا ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں استعمار مخالف جذبات بہت قوی ہیں۔ یہی جذبات ہندوستان سے انگریزی استعمار کے نکال باہر کئے جانے کا سبب بنے ہیں۔ اس اثناء میں ـ مسلمان، جو ہندوستان پر انگریزی استعمار کے قبضے کے وقت اس خطے کے حکمران تھے، انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد کا ہراول دستہ سمجھے جاتے تھے، اور جتنا کہ انھوں نے استعماری قبضے سے نقصانات اٹھائے اتنے ہی وہ استعمار کے خلاف جدوجہد میں کوشاں رہے۔ اسی بنا پر برصغیر کے مسلمان استعمار کے خلاف جدوجہد کے لحاظ سے عالم اسلام میں اہم کردار اور مقام رکھتے ہیں۔
عالم اسلام میں استعمار کی اہم ترین نشانیوں میں سے ایک صہیونی ریاست کا قیام ہے؛ ایک جعلی ریاست جسے امریکہ اور برطانیہ کی استعماری طاقت نے علاقے میں اپنے مفادات کے حصول اور عالم اسلام پر دباؤ کے لئے قائم کیا۔
امام خمینی (قدِّسَ سِرُّهُ) نے سنہ ۱۹۷۳ع‍ میں امریکہ و کینیڈا میں مقیم مسلم طلبہ کے جواب میں نہایت اختصار اور عمدگی کے ساتھ قدس شریف پر قابض ریاست کی حقیقت یوں بیان کی ہے:
… اسرائیل مغرب و مشرق کے استعماری ممالک کے فکری تعاون کا فطری زائیدہ تھا، کیونکہ انھوں نے اسرائیل قائم کرکے عالم اسلام کے استحصال، تباہی، نوآبادکاری اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا اہتمام کیا اور آج ہم بوضوح دیکھتے ہیں کہ تمام تر استعماری فریق اس کی مدد کررہے ہیں۔
برصغیر کے مسلمان ابتداء ہی سے شدت کے ساتھ فلسطینی کاز کی حمایت اور صہیونی ریاست کے مد مقابل کھڑے ہوگئے۔ سنہ ۱۹۱۹-۱۹۲۴ع‍، برعظیم ہند، ایک زبردست اسلامی تحریک ـ بعنوان “تحریک خلافت” ـ کا شاہد تھا جو برطانیہ کی یلغار کے مقابلے میں خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لئے شروع ہوئی تھی اور اسی اثناء میں انگریزوں اور یہودی ایجنسی کے ہاتھوں بیت المقدس پر قبضے کی صلیبی ـ صہیونی سازش کے خلاف شدید اور مصالحت ناپذیر جدوجہد کررہی تھی۔ ([۱])
معاصر ہندو محقق اور شمالی مشرقی شیلانگ کی ہل یونیورسٹی ([۲]) کے اسسٹنٹ پروفیسر سندیپ چاولہ، اپنے مقالے “فلسطین ۱۹۲۰ع‍ کی دہائی کے دوران ہندوستانی پالیسی کی روشنی میں” لکھتے ہیں کہ ترکی میں آتا تورک (مصطفی کمال پاشا) کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کے زوال کے اعلان کے بعد، اصولی طور پر ہندوستان میں موجود تحریک خلافت کا بنیادی موضوع (جو در حقیقت “خلافت عثمانیہ کی بقاء” کا تحفظ تھا) مسئلۂ فلسطین اور صہیونی سازش کی مذمت میں بدل گیا۔ انھوں نے ۱۹۲۰ع‍ سے ۱۹۳۱ع‍ تک صہیونیوں کے خلاف مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی جدوجہد کی رپورٹ دی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس جدوجہد کی دور رس لہریں کس طرح حتی کہ (گاندھی سمیت) انڈین نشینل کانگریس کے قائدین اور (چلمس فورڈ [Chalmers Ford] سمیت) اس قلمرو میں موجود اہم برطانوی اہلکاروں کو اپنے پیچھے کھینچتی رہی تھیں۔ ([۳])
خلافت کی اسلامی تحریک کی لہروں کی وسعت ہندوستان کی سرحدوں کو پار کررہی تھی چنانچہ اس تحریک کے زعماء (منجملہ: مولانا شوکت علی، عبد الرحمن صدیق اور چوہدری خلیق الزمان) عالم اسلام کی عمومی کانفرنس (المؤتمر الاسلامی العام) میں بھی فعالانہ شریک تھے۔ المؤتمر الاسلامی العام اپنی نوعیت میں دنیائے اسلام کی پہلی کانفرنس تھی جو “ثورۃ معروف براق” کے بعد اسلامی اہداف اور صہیونیت مخالف مقاصد کے لئے ماہ رجب المرجب سنہ ۱۳۵۰ھ / دسمبر ۱۹۳۱ع‍ میں فلسطین کے مجاہد اور مشہور مفتی الحاج امین الحسینی کی سربراہی میں بیت المقدس میں تشکیل پائی۔ حتی کہ تحریک خلافت کے مشہور راہنما مولانا محمد علی جوہر کا مدفن بھی شہر قدس میں واقع مسجد الاقصی کے حرم شریف کے مغربی برآمدے میں قرار پایا، تاکہ اس حقیقت کی علامت ہو کہ عالم اسلام کے ساتھ قدس شریف اور مسجد الاقصی کا رشتہ نہایت مضبوط اور جدائی ناپذیر ہے؛ نیز مُہرِ بُطلان ہو اس سرزمین پر صہیونیوں کی للچائی نظروں پر۔
بیت المقدس میں عمومی اسلامی کانفرنس کی تشکیل کی سوچ نے ـ مولانا محمد علی کی وفات کے بعد، ان کے بھائی مولانا شوکت علی کے ساتھ مفتی الحاج امین الحسینی کے رابطے اور بات چیت کے نتیجے میں، ـ جنم لیا، اور ان ہی رابطوں کے بعد مذکورہ کانگریس دسمبر سنہ ۱۹۳۱ع‍ کو منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کے مشہور مسلم راہنماؤں کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے مختلف اسلامی ممالک کے راہنماؤں نے شرکت کی۔ ([۴])
مذکورہ کانفرنس قدس شریف پر صہیونیت کی حکمرانی کے خلاف جدوجہد میں ایک بڑا قدم تھی جس نے مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی اور اتفاق رائے اور اس مسئلے کی طرف بہت سے غیر مسلموں کی توجہ کے اسباب فراہم کئے۔
جارج اتونیوس نے کہا تھا: “بجا ہے کہ اس کانفرنس کو اسلامی تحریکوں کے نئے دور کا آغاز سمجھا جائے۔۔۔ اور میں بلا شک اس کانفرنس کو حالیہ برسوں میں مسلمانوں کی نہایت تعمیری کوشش سمجھتا ہوں”۔ ([۵])
فلسطین میں برطانوی ہائی کمشنر نے بھی خبردار کیا تھا کہ اگر بیت المقدس میں اس قسم کے اجتماعات کو دہرایا جائے “تو اس صورت میں یہ سرزمین یہودیوں کی نہ رہے گی”؛ چنانچہ یہ کانفرنس، جو منصوبے کے مطابق ہر دو سال ایک بار بیت المقدس میں منعقد ہونا تھی، اور حتی کہ اس کے لئے ایک سیکریٹریٹ یا قائمہ کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا، اس کے بعد کبھی بھی دہرائی نہ جاسکی؛ اور متعلقہ ادارہ جات و دفاتر بھی سنہ ۱۹۳۷ع‍ میں الحاج امین الحسینی کی جلاوطنی کے بعد ہمیشہ کے لئے ختم ہوئے۔ ([۶])
ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں میں صہیونیت مخالف جذبات اس زمانے سے آج تک، کم و بیش، باقی ہیں اور کبھی کبھی حساس مواقع پر آتشفشان کی طرح فوران پھٹ پڑتے ہیں۔ چنانچہ اگست ۱۹۷۷ع‍ میں جب (چھ روزہ عرب ـ اسرائیل سے شہرت پانے والے صہیونی وزیر دفاع) موشے دایان نے اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی سے درخواست کی کہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم کریں، تو ڈیسائی نے ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان ان ہی صہیونیت مخالف جذبات و احساسات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہندوستان میں رہنے والے آٹھ کروڑ مسلمان ہمارے اور آپ کے خوابوں کے شرمندہ تعبیر ہونے میں رکاوٹ ہیں۔ ([۷])
سنہ ۱۹۴۷ع‍ میں پاکستان کی تاسیس عمل میں آئی تو یہ نو زائیدہ اسلامی ریاست برصغیر میں صہیونیت کے خلاف مسلمانوں کے جذبات و احساسات کے اظہار کا مرکز بن گئی۔ نومبر ۱۹۴۷ع‍ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی مندوب نے عرب اور ہندوستانی مندوبین کے ساتھ مل کر فلسطین کی تقسیم اور اس کے ایک حصے میں اسرائیلی ریاست کی تاسیس کے بل کی مخالفت کی؛ اور مذکورہ بل کے ظالمانہ ہونے کے سلسلے دوسرے ممالک کے مندوبین کو قائل کرنے میں قابل قدر کردار ادا کیا۔ (اگرچہ اسرائیل کے مخالفین کی یہ کوشش، صہیونیت کے حق میں اقوام متحدہ پر شدید امریکی دباؤ کی وجہ سے مطلوبہ نتائج تک نہ پہنچ سکی، اور قدس شریف تقسیم ہوا تا کہ اس کے دیگر اجزاء کو بھی صہیون کا اژدہا نگل سکے)۔ ([۸]) بعدازاں جمادی الاول سنہ ۱۳۷۱ھ / ۱۹۵۲ع‍ میں پہلی اسلامی کانفرنس الحاج امین الحسینی کی سربراہی میں، پاکستان کے اس وقت کے دارالحکومت کراچی میں منعقد ہوئی اور ۳۶ اسلامی ممالک سے شخصیات اور جدوجہد کرنے والی سرگرم تنظیموں نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور عالم اسلام کے مسائل ـ بالخصوص صہیونیت کے چنگل میں قدس شریف کی اسیری ـ کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا۔ ([۹]) اس کانفرنس میں شرکت کرنے والی شخصیات میں عراق کے نامور شیعہ مصلح آیت اللہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء بھی شامل تھے جن کا طویل خطبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور خطبے کا متن بھی مستقل طور پرچھپ کر شائع ہوا۔ ([۱۰]) علامہ کاشف الغطاء وہی شخصیت ہیں جنہوں نے ـ اس کانفرنس سے ۲۰ سال قبل ـ سنہ ۱۹۳۱ع‍ میں بیت المقدس میں منعقدہ عمومی اسلامی کانفرنس کے دوران مسجد الاقصی میں نماز جماعت کی امامت سنبھالی اور نماز کے بعد اسلامی ممالک کے ۱۵۰ سے زائد نمائندوں اور بیس ہزار سے زائد نمازگزاروں کو اپنا آتشیں خطبہ دیا، اور سامعین کے دلوں میں عظیم جذبہ پیدا کیا۔ ([۱۱])
کراچی کانفرنس نے استعمار اور صہیونیت کے خلاف امت اسلامی کی ناقابل سمجھوتہ جدوجہد   کا ثبوت دیا اور اس حقیقت کو عیاں کیا کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے نقطۂ ارتکاز و اجتماع کے طور پر، اسرائیل کے وجود اور دنیا اور علاقے میں صہیونیوں کی خواہشوں، منصوبوں اور مفادات کے مد مقابل نہ صرف ایک رکاوٹ بلکہ ان کے لئے ایک عظیم خطرہ ہے۔ عراق میں اخوان المسلمین کے قائد اور اس ملک کی جمعیت برائے آزادی فلسطین کے راہنما محمد محمود صواف ـ جو خود اس کانفرنس میں شریک تھے ـ نے پاکستان کے شمال مغرب اور افغانستان کے مشرق میں پٹھان مسلم قبائل کے نمایاں اور متاثر کن جذبات کی نہایت عمدگی سے تصویر کشی کی ہے۔ ([۱۲])
پاکستانی مسلمانوں نے قدس کاز اور فلسطین کاز کی حمایت اور قدس کی غاصب ریاست کا مقابلہ کرنے پر مسلسل تاکید کی ہے۔ پاکستان ان اسلامی ممالک میں سے ہے جنہوں نے قدس کی غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کیا اور اس کے غاصب ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی سفارتی رابطہ نہیں ہے۔
امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) نے جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس اور فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا دن قرار دیا تو اس اعلان نے پاکستانی مسلمانوں کے صہیونیت مخالف جذبات کو تقویت پہنچائی اور ان جذبات کو سمت دی، تاکہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اس عظیم اسلامی تقریب میں فعالانہ شرکت کریں اور کردار ادا کریں۔
حواشی
[۱]۔ اس تحریک کے سلسلے میں مزید مطالعہ کرنے کے لئے رجوع کریں علی ابوالحسنی کی کتاب “مہاتما گاندھی، اسلام کے ساتھ ہم دلی اور مسلمانوں کے ساتھ ہمراہی” کے چھٹے حصے کی طرف۔ یہ حصہ تحریک خلافت میں گاندھی کے موقف اور ہندوستان کی برطانوی حکومت سے عدم تعاون، کے سلسلے میں ہے۔ (۱۹۱۹ ـ ۱۹۲۲)
[۲]۔ North Eastern Hill University, Shillong, Meghalaya, India۔
[۳]۔ رجوع کریں: مشیر الحسن، ہندوستانی نوآبادی میں اسلامی تحریک اور قومی رجحانات (مجموعۂ مضامین) ص ۳۷ تا ۵۲۔
[۴]۔ اسعدی، بیت المقدس، ص۹۸ تا ۱۰۰۔
[۵]۔ Antonius, Annual Report to the Institute of Current World Affairs for Year ending September 30, 1932, in Antonius-Oxford; alse copy in Israel State Archives (Jerusalem), Division 65 (Antonius Papers), file 707; cited in Kramer, Islam Assembled۔
[۶]۔ وہی ماخذ، ص۱۰۱۔
[۷]۔ المجتمع، العلاقات الهندیة ـ الاسرائیلیه ومخاطرها علی دول العالم الإسلامی، ص۲۱۔
[۸]۔ زعیتر، فلسطین کی سرگذشت یا استعمار کے کالے کرتوت، ص۳۲۹ ـ ۳۳۴؛ رجاء (روجے) گارودی، اسرائیل اور سیاسی صہیونیت کا مقدمہ، ص۵۱ ـ ۵۰؛ گریش اور ویڈال، فلسطین ۱۹۷۴، ص ۳۳ ـ ۳۲۔
[۹]۔ ر۔ک: نطق تاریخی حضرت آیت‌الله کاشف الغطاء در کنفرانس اسلامی پاکستان، ص۲۔
[۱۰]۔ رجوع کریں: ‌آقا بزرگ طہرانی، نقباء البشر، ج۲، ص۶۱۷۔ علامہ کاشف الغطاء نے اس کے دو سال بعد بھی ۲۰ جمادی سنہ ۱۳۷۳ھ کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو خط لکھ کر، امریکہ کے ساتھ پاکستان کے فوجی معاہدے پر کڑی نکتہ چینی کی اور لکھا: اس میں شک نہیں ہے کہ امریکی حکومت خدا اور رسول خدا(ص) کی دشمن ہے، کیونکہ اس نے عدل و انصاف کے راستے سے تجاوز کیا اور مسلمین کے خلاف بالعموم اور عربوں کے خلاف بالخصوص ظلم و ستم کا رویہ اپنایا۔ فلسطین کو زبردستی ان سے چھین لیا اور یہودیوں کو بخش دیا اور کو اسلحہ اور مالی امداد دے کر تقویت پہنچائی۔ (رجوع کریں: کاشف‌الغطاء، نمونہ ہائے اخلاقی در اسلام، ص۸۸ ـ ۸۹۔)
[۱۱]۔ ‌آقا بزرگ طہرانی، نقباء البشر، ج۲، ص۶۱۷۔
[۱۲]۔ صواف، نقشہ ہائے استعمار در راہ مبارزہ با اسلام، ص۳۰۳ ـ ۳۰۱۔

بقلم ڈاکٹر محسن محمدی
ترجمہ فرحت حسین مھدوی

 

اسرائیل کے خفیہ عقوبت خانوں میں کیا ہو رہا ہے؟

  • ۳۶۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ جو تمام ممالک کے قید خانوں پر نگرانی رکھتی ہے نے ۲۰۰۹ میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خفیہ عقوبت خوانوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہ ملنے پر تنقید کی۔ داستان کچھ یوں تھی کہ اس تنظیم کے زیر نگرانی کام کرنے والی “تشدد کے خلاف کمیٹی” نے اسرائیلی حکومت سے اس کے تمام قید خانوں کا دورہ کرنے کی اجازت مانگی لیکن اسرائیل نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
اسرائیلی حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کو ایک خط کے ذریعے اطلاع دی کہ بعض عقوبت خانے فی الحال خالی ہیں لیکن ۲۰۰۶ میں لبنان کے ساتھ ہوئی جنگ کے دوران کچھ قیدی ان میں موجود تھے۔ لیکن اس کمیٹی کو اجازت نہ ملنے پر خدشہ لاحق ہوا کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے۔
یہ قید خانے در حقیقت پچھلے دور میں عربوں اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے بنائے گئے تھے اور ان میں مسلمانوں پر ایسا تشدد کیا جاتا تھا کہ ۱۹۹۹ میں حتیٰ اسرائیلی سپرئم کورٹ اس تشدد کو بند کروانے پر مجبور ہوا۔
خفیہ قید خانے
پہلی بار “ہاموکوڈ” نامی انسانی حقوق تنظیم نے اس وقت اسرائیل میں ان عقوبت خانوں کا سوراغ لگایا جب دو چچازاد فلسطینی بچے فلسطین میں گرفتار کر لئے گئے اور ان کا پتہ کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ کافی تلاش و جستجو اور اسرائیلی عہدہ داروں پر کافی دباو ڈالے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ان دو بچوں کو ایک خفیہ جگہ پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس قید خانے کا صحیح ایڈرس نہیں مل سکا۔ صرف اتنا بتایا گیا کہ کسی ایسی خفیہ جگہ پر قید ہیں وہ یروشلم سے سوکلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
ہامو کوڈ کی سربراہ “ڈالیا کرشٹائن” کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت اس قید خانے کی طرف متوجہ ہوئے جب دوسری جیلیں بھر جانے کی وجہ سے کچھ فلسطینی قیدیوں کو غلطی سے ان خفیہ عقوبت خانوں کی طرف لے جایا گیا۔ محترمہ کرشٹائن ان قیدخانوں کے بارے میں کہتی ہیں: ان قید خانوں میں Guantanamo جیل سے زیادہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اس لیے کہ ان قید خانوں کا کبھی کسی نے جائزہ نہیں لیا۔
رپورٹ کے مطابق وہ دو بچے ’محمد‘ اور ’بشیر ید اللہ‘ نام کے تھے۔ ان بچوں کو دو الگ الگ ایسے خلیوں میں رکھا گیا جن میں نہ کوئی کھڑکی تھی اور نہ روشنی، اور انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور زد و کوب کیا جاتا تھا حتیٰ بیت الخلاء تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ ان کے گھر والوں کو مار دئے جانے کی دھمکی دی جاتی تھی۔
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی
اسرائیل ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ ’ایشیی مناخیم‘ کا اس تشدد کے بارے میں کہنا ہے: ہم نے متعدد بار اقوام متحدہ میں رپورٹ دی ہے کہ ان قید خانوں میں غیرقانونی اور بےدردی سے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن ہماری آواز کبھی سنی نہیں گئی اس لیے کہ اسرائیل کسی بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی سپرپاور طاقت امریکہ اس کی حامی ہے۔ لہذا اگر اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کوئی چیز منظور کی جاتی ہے تو امریکہ اس کو آسانی سے ویٹو کر دیتا ہے۔
………….

 

سینچری ڈیل منصوبے کی شکست کے لیے پانچ عملی اقدامات

  • ۴۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے فلسطین علماء کونسل کے ترجمان اور مشاورتی کمیٹی کے سربراہ شیخ ’محمد صالح الموعد‘ کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کی ہے جسے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے؛
خیبر: حالیہ دنوں بحرین میں اقتصادی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے جو امریکی منصوبے صدی کی ڈیل کے نفاذ کے لیے مقدمہ کہی جا رہی ہے۔ آپ کی نظر میں اسلامی عربی معاشرے کو اس منصوبے سے مقابلے کے لیے سیاسی، ثقافتی، عسکری اور سفارتی اعتبار سے کیا اقدامات انجام دینا چاہیے؟
۔ صدی کی ڈیل کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر کافی تلاش و کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا سب سے پہلی چیز اسلامی عربی اتحاد ہے جو اس منصوبے کے مد مقابل تشکیل پانا چاہیے۔ دوسرے بین الاقوامی سطح پر کانفرنسیں کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرے سینچری ڈیل کے مخالف گروہوں کو جگہ جگہ احتجاجی جلسے جلوس نکال کر اپنا موقف ظاہر کرنا چاہیے۔ چوتھے یہ کہ علمائے دین کو صہیونی ریاست کے ساتھ روابط برقرار کرنے کی حرمت پر فتاوا دینا چاہیے۔ تمام علمائے دین کو اس کے خلاف موقف اپنانا چاہیے۔ یہ چیز کافی موثر ثابت ہو گی۔ پانچویں یہ کہ اسلامی عربی امت اعتراض آمیز حرکات انجام دے، اور صرف مذمت کرنے پر اکتفا نہ کرے۔ سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں تک ہمیں اس اقدام کے خلاف اعتراض کرنا چاہیے۔ ملت فلسطین بھی اس راستے میں مکل تیاری رکھتی ہے اور واپسی ریلیوں کے ذریعے صہیونیوں کے مقابلے میں کھڑی ہے۔ فلسطینیوں کی اس راہ میں حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔
خیبر: امریکہ نے صہیونی ریاست کے تحفظ کے لیے مقبوضہ گولان پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا اور اسرائیلی حکام نے بدلے میں ان پہاڑیوں کا نام ٹرمپ کے نام پر رکھ دیا، آپ کا ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف کیا رد عمل ہے؟
۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو اقدام بھی صہیونی دشمن کے فائدے میں انجام پائے گا وہ فلسطین پر کاری ضربت ہو گی اور ہم صہیونیوں کے اس وسعت طلبانہ نقشے کو قبول نہیں کر سکتے۔ یہ نہ صرف فلسطین کی زمینوں کو واپس نہیں کر رہے ہیں بلکہ عربی سرزمینوں جیسے گولان شام کا حصہ ہے پر بھی غاصبانہ قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صہیونیوں نے گولان پہاڑیوں کا نام ٹرمپ رکھ کر ان کے عمل کی جزا دینا چاہی ہے لیکن شام کے عوام انہیں اس کام کی اجازت نہیں دیں گے وہ قومی اور اسلامی اتحاد کے ذریعے گولان پہاڑیوں کو واپس لے لیں گے۔ اسی طرح فلسطینی بھی غزہ پٹی، مغربی کنارے اور ۱۹۴۸ کی دیگر فلسطینی اراضی کو واپس لیں گے اور دشمن کو اس ملک سے نکال باہر کریں گے۔ یہ جنگ نسلوں کی جنگ ہے اور دشمن کا ہماری زمینوں میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔
خیبر: کیوں امریکہ نے سینچری ڈیل کے نفاذ کے پہلے مرحلے میں مسئلہ اقتصاد کو مرکزیت دی اورامریکہ اس طریقے سے ظاہر کر رہا ہے کہ گویا وہ فلسطینیوں کی اقتصادی مدد کرنا چاہتا ہے؟
۔ اس کانفرنس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو سینچری ڈیل کے لیے مقدمہ قرار دی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق دلوانے کے بجائے مسئلہ فلسطین کو خاتمہ دینا ہے۔ ہم اس کانفرنس میں شرکت کی مذمت کرتے ہیں اور اس میں شرکت کو فلسطین، قرآن، اسلام اور خون شہدا کی نسبت خیانت جانتے ہیں۔ ٹرمپ اس کانفرنس کے عناوین کو دلچسپ بنا کر اس کے مقاصد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کانفرنس کا اصلی مقصد مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ تمام عالم اسلام اور عرب، فلسطینیوں کا ساتھ دیں اور اس کانفرنس کی مذمت میں اپنی صدائے احتجاج بلند کریں۔
خیبر: سینچری ڈیل کی مخالفت ایسا عامل ہے جس سے تمام فلسطینی گروہوں میں اتحاد پیدا ہو چکا ہے۔ آپ اس وحدت کو امریکی صہیونی سازشوں کے مقابلے کے لیے کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۔ ہم اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے صہیونی سازشوں کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان کے شروع میں صہیونیوں کے خلاف کچھ کاروائیاں انجام پائیں جو ان کی پسپائی کا سبب بنیں اور ایک بڑی کامیابی ہمیں حاصل ہوئی۔ دشمن فلسطینیوں کے اتحاد اور ان کی متحدانہ کاروائیوں سے خوف کھا گیا اور یہ وحدت دشمن سے مقابلے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور دوسری جانب فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے واپسی ریلیاں بہت ہی حائز اہمیت ہیں۔ ہمارا شعار صہیونی دشمن کا مقابلہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ عربوں، مسلمانوں نیز اسلامی جمہوریہ ایران سب کو یکسو موقف اپنانا چاہیے تاکہ سینچری ڈیل کو شکست سے دوچار کر سکیں۔ اگر چہ یہ جنگ طولانی جنگ ہے لیکن حق صاحبان حق کو مل کر رہے گا۔
خیبر: بہت بہت شکریہ

 

تکفیری افکار کی ترویج میں عالمی صہیونیت کا کردار

  • ۴۴۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: وہابی اور تکفیری افکار اور گروہوں کو وجود میں لانے اور انہیں شیعت کے خلاف استعمال کرنے میں عالمی صہیونیت کا کیا کردار رہا ہے اس کے بارے میں حجت الاسلام و المسلمین حدادپور جہرمی کے ساتھ خیبر ویب گاہ کے نمائندے نے ایک گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
خیبر: وہابیت کو وجود میں لانے اور وہابی فکر کو ترویج دینے میں صہیونیت کا کیا کردار رہا ہے اس کے بارے میں کچھ بیان کریں۔
۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس موضوع پر ہم نے پہلے بھی گفتگو کی ہے اور اسی ویب سائٹ پر اسے شائع بھی کیا گیا میں اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سوال کے جواب کو پانچ حصوں میں عرض کرنا چاہوں گا۔
شیعہ سنی اتحاد استکباری طاقتوں کی سب سے بڑی پریشانی
۱۔ شیعہ سنی معاشرے پر نگاہ دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کا چہرہ بہت ہی مطمئن، برادرانہ اور غیر انقلابی ہے، غیر انقلابی ہونے سے مراد ایران کا اسلامی انقلاب نہیں ہے بلکہ انقلاب سے مراد قیام اور تحریک ہے۔ اسی وجہ سے اہل سنت کبھی بھی شیعوں کے مقابلے میں کھڑے نہیں ہوئے۔ البتہ شیعہ و سنی علمائے دین ایک دوسرے کے ساتھ مکاتبات کرتے رہے ہیں اور یہی چیز ان دو گروہوں کے مشترکہ دشمنوں کے لیے ہمیشہ خطرے کی گھنٹی رہی ہے۔
۲۔ اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان اتحاد مشترکہ دشمن کے لئے سب سے بڑا خطرہ رہا ہے لہذا دشمنوں نے اس خطرے کو دور کرنے کے لیے شیعوں اور سنیوں کے درمیان دوگروہوں کو جنم دیا تاکہ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کریں۔ شیعوں کے درمیان بہائیوں اور اہل سنت کے درمیان وہابیوں کو جنم دیا۔
وہابیت اہل سنت کا نقلی چہرہ
وہابیت در حقیقت انقلاب اور حکومت کے جذبے کے ساتھ اہل سنت کا ایک نقلی اور بناوٹی چہرہ ہے۔ لہذا نقلی چہرے نے اسلحہ اٹھایا اور حکومت کی تشکیل کے لیے جد و جہد شروع کی اور بین الاقوامی سیاسی میدان میں داخل ہوئے۔
۳۔ اہل سنت سے سامراجیت، یہودیت، عیسائیت اور صہیونیت کو کوئی خطرہ نہیں تھا، ابھی بھی یہی صورتحال ہے، اور اہل سنت کی تعداد بڑھنے یا گھٹنے سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہذا یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہابیت اور بہائیت کو صرف اس لیے جنم دیا گیا تاکہ شیعوں کو کمزور بنا سکیں۔ اس لیے کہ بہت سارے اہم اور موثر مفاہیم جیسے جہاد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، عدل و انصاف کا قیام، سامراجیت کا مقابلہ، انقلاب، مستضعفین کی حکومت وغیرہ سب شیعہ مکتب فکر کا حصہ ہیں۔
لہذا یہ کہنا صحیح ہے کہ وہابیت ہو یا بہائیت ہو دونوں گروہوں کو شیعت کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا اور اس مسئلے کا شیعہ سنی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ شیعہ سنی اتحاد طول تاریخ میں اپنی جگہ مسلّم رہا ہے اور یہ گروہ اسی اتحاد کی رسی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
وہابی طرز تفکر میں مفہوم شہادت
۴۔ دشمنوں کی کوشش رہی ہے کہ شیعت کے مقدس ترین مفاہیم جیسے شہادت میں تحریف پیدا کریں اور ان کا اصلی چہرہ بگاڑ کر رکھ دیں۔ مفہوم شہادت ایسا مقدس مفہوم ہے جو استقامت، پائیداری اور انتظار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ شہادت کو دوسرے لفظوں میں شیعت کی تسبیح کے دھاگے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ تمام ائمہ طاہرین درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں لیکن اہل سنت کے ائمہ میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں اور لفظ شہید کو شیعوں کے لیے، امام علی علیہ السلام اور خصوصا امام حسین علیہ السلام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اہل سنت کا فقہی مبنیٰ یہ ہو کہ شہید وہ ہوتا ہے جو میدان جنگ میں شہید ہو یا تلوار سے شہید ہو تب بھی اہل تشیع کے ائمہ ہی اس مفہوم کے مصادیق قرار پائیں گے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفہوم شہادت اہل تشیع سے ہی مخصوص ہے۔
لیکن دشمنوں نے یہ کوشش کی کہ شہادت کے مفہوم کو عقل و منطق اور فقہی مبانی سے دور کر کے اسے دوسرے فرقوں میں بھی عام کردیں۔ نتیجہ کے طور پر ہر دھشتگرد کو، ہر طرح کے قاتلانہ حملے میں مرنے والے کو، خودکش حملہ کرنے والے کو یا اس طرح کی دھشتگردانہ کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے کو شہید کا نام دے کر اسے سعادت اور جنت کے بشارت دے دیں۔
خیبر: ان باتوں کے پیش نظر یہ بتائیں کہ عالمی صہیونیت کس حد تک شیعت کے مقدسات کا چہرہ بگاڑنے میں کامیاب ہوئی ہے؟
۔ عالمی صہیونیت نے شیعت کے مقدس مفاہیم کو بگاڑنے کی بہت کوشش کی لیکن جتنی انہوں نے کوشش کی اتنا کامیاب نہیں ہوئے آپ اسی مفہوم شہادت کو لے لیں انہوں نے کتنی کوشش کی کہ عراق و شام میں ہلاک ہونے والے تکفیریوں کو شہید کا لقب دیں اور اس مقدس مفہوم کا چہرہ مسخ کر دیں۔ لیکن میں پوری تحقیق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ صرف چند ایک وہابی علما اس بات کے معتقد ہیں کہ عراق و شام میں ہلاک ہونے والے تکفیری شہید ہوئے ہیں لیکن اہل سنت کے اکثر بزرگ علما کا ماننا ہے کہ ان لوگوں کا خون رائیگاں گیا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں کوئی شیعہ عالم دین تکفیریوں کے مقابلے میں جانیں قربان کرنے والے شیعہ مجاہدوں کے خون کے رائیگاں جانے کا قائل نہیں ہے بلکہ سب کا ان کی شہادت پر اتفاق ہے۔
حقیقی تشیع کو مٹانے کے لیے تکفیری تشیع کے ایجاد کی کوشش
۵۔ پانچویں اور آخری بات جو گفتگو کا ایک نیا باب ہے اور اس موضوع پر مستقل گفتگو کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت دقیق معلومات ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل میں کچھ ایسے دینی مدارس اور تحقیقی مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ تشیع کے نام سے ایک نیا فرقہ وجود میں لایا جائے۔
اس لیے کہ اہل سنت کے اندر وہابیت اور اہل تشیع کے اندر بہائیت جیسے فرقے پیدا کر کے وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے اور ان منصوبوں میں دشمن بری طرح سے ناکام ہوئے ہیں لیکن اب جو فرقہ ایجاد کیا جا رہا ہے وہ تکفیری تشیع کا ہے افراطی تشیع کا ہے، یعنی شیعت کے اندر ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جو عقلانیت سے دور ہو اور احساسات و جذبات کی بنا پر انتہا پسندی کی جانب آگے بڑھے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہے کہ فرقہ یمانی، فرقہ سرخی اور فرقہ شیرازی انہیں کوششوں کا نتیجہ اور انہیں مراکز کی پیداوار ہیں۔
یمانی، سرخی اور شیرازی فرقے عالمی صہیونیت کے تازہ ترین ہتھکنڈے
حال حاضر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان تین فرقوں نے پوری ہم آہنگی کے ساتھ تین الگ الگ جگہوں پر اپنی سرگرمیاں شروع کر لی ہیں، فرقہ سرخی نے عراق میں، فرقہ یمانی نے ایران میں اور فرقہ شیرازی نے یورپ اور کچھ مرکزی شہروں جیسے قم، مشہد، کربلا اور نجف میں۔
آج دشمن ان تین فرقوں کو مضبوط بنانے میں انتھک کوشش کر رہا ہے اور شیعوں کے اصلی مراکز کے اندر ان کا نفوذ پیدا کر رہا ہے یعنی ممکن ہے کہ آپ کو حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف کے اندر بھی ان افکار کے حامل لوگ مل جائیں۔
لہذا اگر ہم مذکورہ ان پانچ نکتوں کو ایک دوسرے کے کنارے رکھ کر دیکھیں گے تو آپ اس نتیجہ تک پہنچے گے کہ صہیونیت کے شر سے نجات اللہ کی آخری حجت کے ظہور تک ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ رہبر انقلاب اسلامی کی پیش گوئی کے مطابق صہیونیت کا اصلی گڑھ یعنی اسرائیل نابودی کی طرف گامزن ہے لیکن صہیونی فکر کا دنیا سے خاتمہ نہیں ہو گا یہ جنگ امام زمانہ (عج) کے ظہور تک جاری رہے گی۔
خیبر: بہت بہت شکریہ

 

اسرائیل میں عورتوں کی اسمگلنگ

  • ۳۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل ان ممالک میں سے ایک ہے جن میں جسم فروشی قانونی عمل ہے چونکہ لوگ اس کاروبار کو پسند کرتے ہیں۔ اسرائیل میں اس کاروبار نے مساج پارلر، ڈانس اور کلب وغیرہ کے عنوان سے رونق پائی ہے اور سالانہ ہزاروں عورتیں اور بچے اس بازار کا سامان فراہم کئے جانے کے عنوان سے دوسرے ملکوں سے اسمگلنگ کئے جاتے ہیں۔
اسرائیل میں اسمگلنگ کا نشانہ بننے والی لڑکیاں اور بچے غریب اور جنگ زدہ ملکوں سے فراہم کیے جاتے ہیں۔ عورتیں اور بچے جو یا چورا کر لائے جاتے ہیں یا انہیں ایک بہتر زندگی کی امید دلا کر اسمگلنگ کیا جاتا ہے وہ امیگریشن کمپنیوں کے ذریعے اغوا کئے جاتے ہیں۔ وہ افراد جو ملک سے نکلنے کے بعد جنسی خواہشات کا شکار بنائے جانے کے لیے فروخت کئے جاتے ہیں مشرقی یورپ، جنوبی امریکہ اور خود امریکہ سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
"آنا" ان لڑکیوں میں سے ایک ہے جو اس کھیل کا کھلونا رہی ہے۔ اس نے عدالت میں اعتراف کیا کہ "شولا" نامی ایک لڑکی نے اس سے کہا تھا کہ اسرائیل میں بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کے لیے اچھے پیسے ملتے ہیں۔ لہذا اس نے اسرائیل جانے کا ارادہ کر لیا اس کو جہاز کا ٹیکٹ دے دیا گیا اور وہ اسرائیل کے جہاز پر سوار ہو گئی لیکن جب جہاز زمین پر بیٹھا تو معلوم ہوا کہ وہ مصر کے ایئر پورٹ پر بیٹھا ہے مصر سے کچھ خاص لوگوں نے اسے لیا اور اسرائیل لے کر پہنچے، اسرائیل ہوٹل پر پہنچتے ہی اسے ننگا کر دیا گیا اور اس کے بعد جو پارٹی پہلے سے وہاں موجود تھی اس کے ہاتھوں اسے بیچ ڈالا گیا۔
"ماریو" نامی اسرائیلی اسمگلر عورت لڑکیوں کو اسمگلنگ کرنے کے بارے میں کچھ اہم نکات کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن ہم ان کو یہاں بیان کرنے سے قاصر ہیں البتہ اس کے آخری جملے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں وہ کہتی ہے:
"لڑکیوں کو ننگا کر کے کمرے کے بیچ میں کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اسمگلرز ہر ایک کی قیمت لگاتے ہیں اور پھر خریدار انہیں خرید کر لے جاتے ہیں"۔  
وہ عورتیں اور لڑکیاں جو ان طائفوں سے بھاگنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں وہ پولیس کی گرفت میں آ جاتی ہیں اور پولیس انہیں مجرم کے عنوان سے قید کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ جو ہاٹلائن انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے بتائی گئی وہ یہ ہے کہ جب ۴۰ فیصد قید عورتوں سے انٹرویو لیا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ پولیس اہلکار اور پولیس آفیسر طوائف خانوں کے مستقل گاہک ہیں۔ یہاں تک کہ پولیس آفیسر "موشہ نیراھی" کو ایک کانفرنس میں اقرار کرنا پڑا کہ اسرائیل میں عورتوں کی اسمگلنگ ایک ایسا جرم ہے جو منظم اور قانونی ہے۔

دنیا میں سیکس کی تجارت نے عالمی انسانی معاشرے کو ایک عظیم خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اس لیے کہ اس عمل نے انسان کی قدر و قیمت کو ایک بے جان سامان کی حد تک گرا دیا ہے اور عورتوں کو صرف اپنی جنسی خواہشات پورا کرنے کے لیے عالمی منڈی میں ایک بے جان شئی کی طرح خرید و فروخت کیا جاتا ہے۔ اس خطرے سے اسرائیل اور یہودی برادری سمیت دنیا کے بہت سارے دیگر ممالک بھی دوچار ہیں چونکہ اس تجارت میں ملوث افراد کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ عورت کس ملک سے ہے اور کس مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔
 
منبع:
http://khbn.ir/JXd1FkD
http://khbn.ir/brpv
http://khbn.ir/4lpkT
www.something jewish. Co. Uk hasddi westbrook

جنسی غلامی امریکہ کی ماڈرن تجارت

  • ۳۹۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ جو آج ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے اگر اس کی ترقی کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ملک کی ساری ترقی اور پیشرفت استعماریت اور سامراجیت کی مرہون منت ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جس کی تاریخ انسانوں کی تجارت اور نسل پرستی جیسے غیر انسانی عمل سے جڑی ہوئی ہے۔ آج اگر چہ غلاموں کی خرید و فروخت اور نسل پرستی پچھلے سالوں کی طرح اس ملک میں رائج نہیں ہے لیکن انسان فروشی کا اپڈیٹ ورژن یعنی جنسی غلامی یا سیکس کی تجارت دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر انجام پا رہی ہے۔ اس شرمناک تجارت میں خرید و فروخت کیا جانے والا سامان نہ صرف مرد و عورت ہیں بلکہ کم سن اور نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔
جنسی غلامی انسانی اسمگلنگ کا ایک پروڈیکٹ
جنسی غلامی کہ جو انسانی اسمگلنگ کا ایک پروڈیکٹ ہے نے عورت کو ایک طرح سے ’بے جان سامان‘ میں بدل دیا ہے۔ غربت اور مفلسی کا شکار ممالک سے عورتوں اور لڑکیوں کو اسمگلنگ کر کے مغربی اور امریکی ممالک میں لے جایا جاتا اور وہاں جنسی غلامی کے طور پر بے جان سامان کی طرح انہیں بازاروں میں فروخت کیا جاتا ہے، اورجنسی ہوس پرست یا دولت کے پوجاری ان عورتوں کی خریداری کر کے یا اپنے استعمال میں لاتے ہیں یا ان سے جنسی افعال کا ارتکاب کروا کر ان کی ویڈیوز کو مجازی دنیا میں پھیلا کر پیسہ کماتے ہیں۔
اس درمیان امریکہ جو دنیا پوری میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اس حوالے سے اس کی صورتحال تو بہت ہی بدتر ہے  «ABC News» نے جو ۲۰۰۶ میں رپورٹ شائع کی اس کے مطابق سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ عورتوں، لڑکیوں اور بچوں کو امریکہ اسمگلنگ کیا جاتا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں بعض بچوں کی عمر ۹ سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی وزارت عدلیہ نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ہر سال تین لاکھ امریکی صرف جنسی افعال کے ارتکاب کے لیے اسمگلروں کے دھندے کا نشانہ بنتے ہیں۔
عصمت فروشی کی آزادی
سوال یہ ہے کہ امریکہ یا دیگر ممالک میں کیا چیز باعث بنی کہ آج اس قدر دنیا میں عصمت فروشی کا بازار گرم ہو چکا ہے؟ عصمت فروشی کی آزادی کا سب سے پہلا عامل اور سبب مساج کے بازار کو گرم کرنا ہے۔ مساج کے عمل کو قانونی شکل ملتے ہی عصمت فروشی کا کام شروع ہو گیا اور لوگ بدن کے مساج کے بہانے بدکاری کو رواج دینے لگے۔ اور بظاہر مساج دینے لیکن حقیقت میں عصمت فروشی کے لیے لڑکیوں کی امریکہ میں اسمگلنگ کا دھندا کافی زور پکڑ گیا۔ دوسرا بڑا سبب خود میڈیا اور سوشل میڈیا ہے جس نے انٹرنٹ، اخباروں، جریدوں حتیٰ کتابوں کے ذریعے ننگی تصاویر، پوسٹر اور سیکسی فیلمیں شائع کرکے لوگوں میں اس بدکاری کو رواج دیا۔ در حقیقت اگر مرد عورت کو صرف جنسی ہوس کو پورا کرنے کا آلہ سمجھے گا تو پیسے یا ہر دوسری قیمت پر اسے حاصل کرکے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کرے گا۔
انسانیت سے عاری اس دردناک و تلخ حقیقت نے جتنا منافع سرکاری اور غیرسرکاری عہدیداروں کو دیا ہے اتنا کسی دوسری تجارت نے نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اس عمل کی روک تھام کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے دنیا میں جنسی غلامی، لڑکیوں کی اسمگلنگ اور سیکس کی تجارت دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

 بقلم میلاد پور عسگری
منابع:
www.humanevents.com/article. Phpsid=39032
www.msmagazine.com

 

عالمی معیشت کی رگ حیات یہودی تاجروں کی مٹھی میں

  • ۳۲۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پندرہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی تک یہودیوں نے ابربیان جزیرہ سے مغربی اور شمالی ممالک کی طرف کثرت سے نقل مکانی کی۔ اس نقل مکانی سے سرمایہ داری کے جدید نظام کو وجود بخشنے میں ایک طرف یہودیوں کو اچھا خاصا موقع مل گیا دوسری طرف یہودیوں کو مالی ڈھانچے مضبوط بنانے میں کافی مدد مل گئی۔
عبری زبان کی یروشلم یونیورسٹی کے مورخین نے یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عصر جدید کی معیشت میں یہودیوں کے بنیادی کردار میں سب سے زیادہ موثر گردانا ہے۔(۱) بحیرہ روم کی بندرگاہوں پر ہسپانوی اور پرتگالی یہودیوں کا تسلط علاقے میں انجام پانے والے تجارتی امور کو بے حد متاثر کرتا ہے۔
مشرقی بندرگاہوں پر قابض یہودی مغرب کے ساتھ تجارت میں واسطہ ہونے کا کردار ادا کرتے تھے اور ہالینڈ اور برطانیہ کے اکثر تجارتی کمپنیوں کے نمائندے جو بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں جیسے فلسطین، لبنان، شام اور اردن پر تجارتی سرگرمیاں انجام دیتے تھے سب یہودی تھے۔
پولینڈ کے یہودی جرمنی کے یہودیوں کے مال سے فائدہ اٹھاتے تھے اس طریقے سے پوری دنیا کی تمام تجارتی شاہراہوں پر یہودیوں کا قبضہ تھا جس کے بعد ایک منظم اور منسجم بین الاقوامی چینل وجود میں آیا جس کے ہر اہم نقطے اور مرکز پر یہودیوں نے اپنا قبضہ جما لیا۔
آج دنیا کی معیشت کی تمام رگہائے حیات یہودیوں کے پنجے میں ہیں دنیا کے تمام بڑے اقتصادی مراکز پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور تمام بین الاقوامی تجارتی تنظیمیں یہودیوں کے ذریعے کام کر رہی ہیں۔(۲)
[۱]Judaica,vol. 3, p. 167 / 5
[۲] Judaica, vol. 11, p. 1024.
………………

 

کیا فلسطین کے انتخابات واقعا نجات دہندہ ہیں؟

  • ۳۴۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پچھلے کچھ دنوں، اسلامی تحریک الفتح میں فلسطینی قومی مفاہمت کے نئے سربراہ ، ’جبریل رجوب‘ نے تمام عرب رہنماؤں کو اہم پیغامات ارسال کیے ہیں جن میں انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ فلسطینی امن ٹرین صدارتی، پارلیمانی اور قومی انتخابات کی جانب حرکت میں آ چکی ہے اور اب کوئی اسے روک نہیں سکتا۔
جبریل رجوب جو تحریک حماس کے ساتھ مکمل بات چیت کے لئے استنبول گئے ہوئے ہیں اپنے روایتی حریف ’محمد دحلان‘ کی جگہ لینے کے لیے مشترکہ عربی، اسرائیلی اور امریکی منصوبے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  
محمد دحلان امارات، سعودی عرب، مصر اور اسرائیل کے حامیوں میں سے ہیں۔ جبریل رجوب موجودہ حالات میں حماس کو اپنی نجات کا راستہ سمجھتے ہیں اور بخوبی واقف ہیں کہ مفاہمت اور انتخابات اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا بہترین اور سالم طریقہ ہے۔ چونکہ الفتح خود اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہے۔  جبکہ حماس تاحال ہم آہنگ اور مضبوط ہے، اور اختلاف رائے تحریک کو تقسیم نہیں کرسکا، اور اگر فلسطینی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہوتے ہیں تو ، دنیا اور عرب لامحالہ ایک ایسی حکومت کے مقابلے میں کھڑے ہوں گے جو قانونی انتخابات سے وجود میں آئی ہو۔ اگرچہ فلسطینی فریقوں کو یقین ہے کہ اتحاد اور قانونی اداروں کی بحالی سے کوئی فرار نہیں ہوگا ، تاہم یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ فلسطینی جماعتوں اور گروپوں میں سے ہر کوئی اختلافات کا طبل بجائے۔ مثال کے طور پر ، حماس الفتح کی ضروریات سے بخوبی واقف ہے، لہذا وہ اپنے شرائط کو اس تحریک پر مسلط کرسکتی ہے۔ حالانکہ ان شرائط پر حد سے زیادہ اصرار مذاکرات کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔ حماس اب یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ امن اور صلح کی مخالفت کے اس کے اصول درست تھے، اور یہ آئندہ انتخابات میں اس کی بڑے پیمانے پر عوامی حمایت کی ضمانت دے سکتا ہے، کیونکہ عوام کبھی بھی ان لوگوں کی تلاش نہیں کریں گے جنھوں نے خود ہی اپنے عہدوں کی شکست کا اعتراف کیا ہے۔

یقینا، ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات الیکشن سے پہلے دینے کی ضرورت ہے ، جیسے: اگلے انتخابات کی زیادہ سے زیادہ حد کیا ہے؟ کیا اوسلو معاہدہ، جو ان کے اصل مالکان نے قابض حکومت کے ذریعہ پامال کرنے کے بعد فراموش کر دیا تھا، کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟ اور آخر کار سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کے شرائط کے مطابق ، مغربی کنارے ، غزہ اور قدس میں بیک وقت انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟ کیا صہیونی حکومت قدس میں انتخابات کرانے کی اجازت دے گی - جس کا امکان بہت کم ہے؟ کیا قدس کو انتخابات سے خارج کر دیا جائے گا یا اس کے لئے علیحدہ طریقہ کار پر غور کیا جائے گا؟ تحریک فتح کے پاس اپنے خدشات ہیں۔ کیا دحلان اور ان کے حامیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے گا؟ اگر وہ پچھلی پارلیمنٹ کی بنسبت زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ کیا فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ، محمود عباس کی سربراہی میں ، رجوب اور ان کی اہم فکر جماعتیں دحلان کے ہم خیال ممبروں یا حماس تحریک میں اپنے مخالفین سے اتحاد کریں گے؟
ان سوالوں کے جواب دینا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ لیکن یہ سوالات اٹھائے جانے کا جو چیز باعث بنے ہیں وہ رجوب کے حالیہ بیانات ہیں جن میں انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو انتخابات سے کوئی روک نہیں سکتا۔  اس دوران میں ایک سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا صہیونی حکومت قدس یا مغربی کنارے میں انتخاب کی اجازت دے گی؟ اور کیا یہ انتخابات سالم، شفاف اور سب کے یہاں قابل قبول ہوں گے؟
فلسطین کی موجودہ صورتحال خوفناک اور سمجھ سے باہر ہے ، لہذا پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں مفاہمت کے منصوبے کے لئے وسیع تر تحقیق اور مطالعہ کی ضرورت ہے۔

 

ہالی ووڈ دنیا جنسی اسکینڈلز اور ناجائز تعلقات سے لبریز

  • ۳۷۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی ریاست گورجیا (Georgia) نے اپنے تازہ ترین اقدامات میں ابارشن کے ممنوع ہونے کا قانون منظور کیے جانے کی خبر دی ہے۔ اس خبر کے شائع ہونے کے ساتھ ہی امریکہ میں فلم سازی کی دو بڑی کمپنیوں؛ نٹ فلیکس (Netflix) اور ڈسنی (Disney ) نے اعلان کیا ہے کہ اگر اس ریاست میں یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو انہیں یہ ریاست چھوڑنا پڑے گی۔
ڈسنی کے سربراہ ’’باب ایگر‘‘ (Bob Iger) (۱)جن کا تعلق یہودی مذہب سے ہے نے رائٹرز کے ساتھ گفتگو میں کہا:
’’اس قانون کی منظوری کے مخالف فنکاروں کی درخواست کا احترام کرتے ہوئے ہم اس قانون کی منظوری کے بعد گورجیا کو چھوڑ دیں گے‘‘۔
امریکی ریاست گورجیا فلم سازی کی صنعت میں امریکہ کا دھڑکتا دل ہے چونکہ اس ریاست میں فلم انڈسٹریوں کے لیے ٹیکسز اور مالیات کی ادائیگی معاف ہے۔ اس وجہ سے ہالی وڈ کی دو معروف فلمیں Avengers اور Black Panther اسی ریاست میں بنائی گئی ہیں۔ (۲)
دو سوالات
۱۔ امریکہ کے لیبرل معاشرے اور انفرادی آزادی کے پیش نظر کیوں ایسے قانون کی منظوری کا اقدام عمل میں لایا جا رہا ہے؟
۲۔ دو بڑی فلم ساز کمپنیوں کی اس قانون کے ساتھ مخالفت کی وجہ کیا ہے؟ اور اس کے پیچھے کون سی وجوہات پوشیدہ ہیں؟
پہلے سوال کا جواب
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ابارشن عورتوں کے لئے بہت سارے جسمانی نقصانات کا حامل ہے۔ عام طور پر جو عورتیں یہ اقدام کرتی ہیں انہیں سینے، رحم اور بچے دانی میں کینسر کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ رحم سے باہر حاملہ ہو جانے کا احتمال، افسردگی کا حملہ، رحم میں سوراخ ہونے اور دوبارہ حاملہ نہ ہونے کے خطرات بھی ابارشن کے نتائج میں شامل ہیں۔ (۳)
دوسرا مسئلہ جسمانی نقصانات سے قطع نظر ابارشن کے اخراجات بھی امریکی ہسپتالوں میں اپنی جگہ کافی زیادہ ہیں اور پھر ابارش کی وجہ سے معاشرے کو براہ راست بہت ساری مشکلات جیسے آبادی میں کمی، لیبر کا نہ ملنا وغیرہ وغیرہ کا سامنا ہے جو ملکی پالیسیوں کے برخلاف ہیں۔
امریکہ میں بچہ لانا
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سماج میں آبادی بڑھانے کی بالکل ترغیب نہیں دلائی گئی۔ دوسری جانب سے ریچارڈ نیکسن کے دورہ صدارت میں ابارش کو جرم ہونے کی حالت سے نکال دیا گیا اور امریکہ اور دیگر ممالک میں راکفلر کمیشن کے ذریعے آبادی کنٹرول کی پالیسیوں کو عمل میں لایا گیا۔
بطور مثال امریکہ میں ملازم حاملہ عورتوں کو وضع حمل کے دوران دی جانے والی چھٹی بند کر دی گئی جو یقینا حقوق نسواں کی کھلی مخالفت تھی۔
امریکہ میں ہم جنس پرستی کا رواج
امریکہ اور دیگر ممالک میں ہم جنس پرستی کا رواج بھی انہی غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے پھیلا ہے۔ البتہ امریکہ میں مہاجرین کی کثرت اور آبادی میں بھی کچھ اضافہ ہونے کی وجہ سے اس ملک کو کبھی آبادی میں کمی یا لیبر کی کمی کا احساس نہیں ہوا۔ لیکن جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ جدید تحقیقات کے مطابق پڑھے لکھے معاشرے میں یا سفید پوست سماج میں آبادی کا تناسب بہت کم ہوتا جا رہا ہے اور دوسری جانب سے مہاجرین یا سیاہ پوست اقلیتوں کی آبادی کثرت سے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ چیز ممکن ہے اس ملک کے مستقبل میں آبادی کے تناسب کا نقشہ بدل دے اور یقینا اگر ایسا ہوا تو امریکی سیاست میں بھی قابل توجہ تبدیلیاں نظر آ سکتی ہیں۔(۴)
اسی وجہ سے امریکہ نے ۲۰۱۷ سے اپنی آبادی بڑھانے کی پالیسیوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے، حاملہ خواتین کے لیے چھے ہفتے کی چھٹی منظور کر دی گئی ہے اور حتیٰ کہ غیر سرکاری اداروں میں بھی اس قانون پر عمل کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس بنا پر امریکی ریاست گورجیا میں ابارشن کے قانون کی منظوری اسی مقصد کے پیش نظر ہو سکتی ہے۔ (۵)
دوسرے سوال کا جواب
اس سوال کے جواب میں کہ کیوں دنیا کی دو بڑی فلم ساز کمپنیوں نے اس قانون کی مخالفت کی ہے اور حتیٰ کہ اس ریاست کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کی واضح دلیل ہالی ووڈ یا دنیا کی دیگر بہت ساری فلم ساز انڈسٹریوں میں پائی جانے والی مشکل ’جنسی تعلقات‘ ہے۔ جنسی اسکینڈل اور ناجائز تعلقات فنکاروں، اداکاروں اور فلمی ڈائریکٹروں کی زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ عامل ہے جو ان کمپنیوں کی اس وقت رسوائی کا سبب بن سکتا ہے جب ابارش کی ممنوعیت کا قانون لاگو ہو جائے۔ لہذا انہیں اپنی بہتری اسی میں دکھائی دیتی ہے کہ وہ ایسی ریاست کو چھوڑ دیں جس میں انہیں میڈیا کے سامنے رسوا ہونا پڑے۔
ہالی ووڈ اداکاروں اور فنکاروں میں جنسی فساد
ہالی ووڈ اداکاروں اور فنکاروں میں جنسی فساد کا پایا جانا کوئی نئی اور نرالی چیز نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال نیویارک ٹائمز نے ۲۰۱۷ میں امریکن فلم پروڈیوسر ’ہاروی وینسٹائن‘ (Harvey Weinstein) کے جنسی اسکینڈل سے نقاب ہٹا کر پیش کی۔ نیویارک ٹائمز کا یہ اقدام باعث بنا کہ دیگر کئی اداکاروں جیسے بن افلک (Ben Affleck) ، الیور اسٹن(Oliver Stone )، ڈاسٹن ہافمن (Dustin Lee Hoffman) )، کوئین اسپیسی (Kevin Spacey) کے جنسی اسکینڈلز اور اخلاقی برائیاں بھی کھل کر سامنے آئیں۔ واینسٹائن ہالی ود کی معروف کمپنی میرامکس(Miramax) کے بانی تھے کہ جب ۵۰ سے زائد عورتوں جن میں معروف ادا کارہ آنجلیا جولی اور گوئیٹ پالٹرو بھی شامل تھیں نے اپنے ساتھ کئے گئے ناجائز تعلقات سے پردہ ہٹایا تو وینسٹائن اپنی کمپنی سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔ (۶)
معروف ہالی ووڈ پروڈیوسرز کے ذریعے عورتوں پر جنسی تشدد
دو سال پہلے گلڈن گلوب (Golden Globe) تقریب کے دوران بعض مرد و عورتیں سیاہ لباس پہن کر تقریب میں حاضر ہوئیں۔ ان میں دو معروف اداکارہ ’فرانسیس مک ڈورمینڈ‘ ( Frances McDormand) اور سورشا رونن (Saoirse Ronan) بھی شامل تھی جو اس فیسٹیول تقریب میں پہلے انعامات حاصل کرنے کی حقدار ہوئیں۔ ان کے سیاہ لباس پہننے کی وجہ (#Me too) کمپین کی حمایت کرنا تھیں جو ہالی ووڈ میں عورتوں پر جاری جنسی تشدد کے خلاف چلائی گئی تھی۔ (۷)
ہالی ووڈ کی حالت اس قدر افسوس ناک ہے کہ معروف یہودی اداکارہ نیٹیلی پورٹمن (Natalie Portman) نے اپنے ہر پروجیکٹ میں مردوں کے ذریعے جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا اعتراف کیا اور کہا کہ ۱۰۰ سے زیادہ مرتبہ مجھے جنسی تشدد کا شکار بنایا گیا۔ (۸)
امریکی مصنف برنڈی نائٹ کے بقول:
’’ہالی ووڈ دور سے ایک رنگ برنگی اور ثروت و شہرت سے لبریز صنعت نظر آتی ہے لیکن جب آپ اس کے اندر گھسیں گے تو آپ کو ذلت، رسوائی اور غیر اخلاقی برائیوں کے سوا اس میں کچھ نظر نہیں آئے گا‘‘۔
البتہ ہالی ووڈ میں اخلاقی فساد کا مسئلہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی امریکہ کی یہ صنعت اس مشکل سے دوچار رہی ہے اور بہت ساری کتابیں بھی اس بارے میں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اسکاٹ باورز کی تالیف ’ہالی ووڈ میں میری زندگی کے اتفاقات اور فلمی ستاروں میں خفیہ جنسی روابط‘ ( طبع ۲۰۱۲)، امریکی سینما کے اداکار کنٹ انگر کی تالیف ’ہالی ووڈ بیبلن‘(طبع ۱۹۸۱) اور جیمز رابرٹ پریش کی تالیف ’ہالی ووڈ کی طلاقیں‘ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
آٹھ بار طلاق
ہالی ووڈ میں حالات اس قدر شرمناک ہیں کہ پریش کہتے ہیں: ہالی ووڈ کے ستاروں کی ذاتی زندگی میں مشکلات اتنی زیادہ ہیں کہ حتیٰ بعض عورتوں نے ۸، ۹ بار طلاق لئے ہیں۔ (۹)
علاوہ از ایں، ڈسنی کمپنی کی جانب سے اخلاقی فساد کی حمایت بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس نے اس سے قبل اپنی مصنوعات کہ جس کے اصلی مخاطب بچے ہیں میں جنسی مسائل کی ترویج کے علاوہ ۱۹۹۶ میں ہم جنس بازوں کی کانفرنس کو مالی امداد بھی دی۔
ڈسنی انٹرنٹ کی دنیا میں پورن فلموں کو پھیلانے کی حمایت کرنے اور بچوں کو جنسی مسائل اور شہوت انگیز شارٹ نہ دکھانے کی مخالفت کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈسنی کے یہودی منیجنگ ڈائریکٹر مائکل اسنر نے ۲۰۱۱ میں ایک رپورٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ اس کمپنی کے ۶۳۰۰۰ اراکین میں سے ۴۰ فیصد ہم جنس پرست ہیں۔ (۱۰)
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈسنی کہ جس کے تمام سرکردہ یہودی ہیں کے ایسے اقدامات عالمی صہیونیت کی پالیسیوں کا حصہ ہیں جو تلاش و کوشش کرتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں فساد و تباہی پھیلا کر انہیں اخلاقی برائیوں میں الجھائے رکھیں اور خود ان پر حکومت کریں۔
حواشی
۱ – http://jewishbusinessnews.com/2015/02/05/bob-iger-talks-live-streaming-for-disneys-channels/.
۲- https://ir.voanews.com/a/netflix-disney-abortion-laws/4938954.html.
۳- https://www.chetor.com/129580.
۴- http://cpdi.ir/news/content/3029.
۵- https://www.tasnimnews.com/fa/news/1396/02/02/1386833.
۶- https://www.mashreghnews.ir/news/807044.
https://www.mizanonline.com/fa/news/430698.
۷- افکار نیوز، فرهنگ هنر، تاثیر رسوایی جنسی هالیوود بر پوشش بازیگران در گلدن گلوب/تصاویر، شناسه خبر: ۷۰۱۳۲۴ .
https://www.afkarnews.com
https://www.mashreghnews.ir/news/818301.
۸- https://www.mashreghnews.ir/news/801399.
۹- http://www.shafaf.ir/fa/news/108226.
۱۰- http://jc313.ir/?newsid=56.

 

قدس کی صدائے استغاثہ پر مسلمان خاموش کیوں؟

  • ۳۶۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قدس، قبلہ اول اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا دوسرا حرم ہے، یہ فلسطین کے ان دسیوں لاکھ مسلمانوں کی اصل سرزمین ہے، جنہیں عالمی استکبار نے غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں آج سے ۷۰ سال قبل سنہ ۱۹۴۸ء میں اپنے وطن سے جلاوطن کرکے قدس کو غاصب صہیونیوں کے تصرف میں دے دیا تھا۔ اس سامراجی سازش کیخلاف فلسطینی مسلمانوں نے شروع سے ہی مخالفت کی اور ان مظلوموں کی قربانی اور صبر و استقامت کے سلسلے میں پوری دنیا کے حریت نواز، بیدار دل انسانوں نے حمایت کی اور اسی وقت سے فلسطین کا مسئلہ ایک سیاسی اور فوجی جدوجہد کے عنوان سے عالم اسلام کے سب سے اہم اور تقدیر ساز مسئلے کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔ خدا نے وعدہ کیا ہے “اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثبات قدم عطا کر دے گا۔”
اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کے مسلمان ایک ہو جائیں، مذہب اور اعتقادات کے اختلافات کو الگ رکھ کر حریم اسلام کے دفاع و تحفظ کیلئے اسلام و قرآن اور کعبہ و قدس کے تحفظ کیلئے، جو پورے عالم اسلام میں مشترک ہیں، وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک اور ایک ہو جائیں اور کفار و منافقین کو اسلامی مقدسات کی پامالی کی اجازت نہ دیں تو کیا مجال ہے کہ دو ارب سے زائد مسلمانوں کے قبلۂ اول پر چند لاکھ صہیونیوں کا تصرف، قتل عام اور غارتگری کا سلسلہ باقی رہ سکے۔ مگر جو بات امت مسلمہ کو خون کے آنسو رلاتی ہے، وہ علاقے کے عرب ممالک کے حکمرانوں کا منافقانہ رویہ ہے۔ عرب ممالک کے سربراہ یوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دے کر اس کیلئے شب و روز کوششیں کرتے ہیں اور پورے عالم اسلام میں اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر مدد مانگتے ہیں، لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا رویہ ہمیشہ منافقانہ رہا ہے۔
جیسا کہ سعودی شہزادے کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں صاف بیان سامنے آیا کہ فلسطین کیساتھ جنگ کی صورت میں وہ یہودیوں اور اسرائیلی جمہوری خواہشات کا ساتھ دیں گے۔ شہزادے کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی صورت میں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی مخالفت کے لئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کو روکنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ ایک جانب سعودی حکام خود کو اسلام، قرآن اور سرزمین نبوت اور حرمین شریفین کا خادم اور نمائندہ کہلاتے ہیں اور دوسری جانب اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو یہ کسی مذہبی اور سماجی سانحے سے کم شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل سے سعودی عرب کے تعلقات نہ صرف مسلم امہ بلکہ خود سعودی بادشاہت کیلئے بھی بہت نقصان دہ ثابت ہونگے اور اس سے سعودی بادشاہت ملک کے اندر بھی تنہائی کا شکار ہو جائیگی۔ مسلم امہ کبھی بھی اس چیز کو قبول نہیں کریگی اور سعودی عوام بھی اس بات کو قبول نہیں کریگی کہ سعودی بادشاہت چوری چھپے یا اعلانیہ اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلقات قائم رکھے۔
عالمی اداروں کی خاموشی، عرب حکمرانوں کا منافقانہ رویہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کیلئے میدان عمل میں آجائے۔ تل ابیب اور واشنگٹن کے تعلقات ہمیشہ وسیع پہلوؤں کے حامل رہے ہیں، کیونکہ جو بھی صدر امریکہ میں برسر اقتدار آتا ہے، اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اسرائیل کیساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں دوسرے پر سبقت لے جائے۔ اسی سبب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات سے پہلے بھی اور وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے بعد بھی کھل کر اسرائیلی حکومت کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے امریکہ کی سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کے برخلاف قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ فلسطین منتقل کر دے گا۔ ٹرمپ حکومت، اسرائیل کیلئے بلا عوض امداد میں اضافے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیلی حکومت کو سالانہ تین ارب ڈالر بلاعوض امداد دی جاتی ہے، جس کا بڑا حصہ فوجی ساز وسامان پرخرچ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ سالانہ اربوں ڈالر آسان شرائط پر اسرائیل کو قرض دیتا ہے، جن سے اسرائیلی حکومت مغربی ملکوں کے جدید ترین اسلحے خریدتی ہے۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت کرکے فلسطینیوں کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے، فلسطین پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے، لیکن حیرت کا مقام ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلم یہ حقیقت مانتے ہیں کہ فلسطین میں ظلم ہو رہا ہے، مگر پھر بھی اسلامی دنیا خاموش ہے۔ اسرائیلی جارحیت کی کسی بھی عرب ملک نے اب تک مذمت نہیں کی، کیونکہ اب ان بادشاہتوں اور اسرائیل میں ان کی دوستی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اسرائیل ان کی بادشاہت کے تسلسل کا گرنٹر بن چکا ہے۔ اسرائیل کی جارحانہ اور دہشتگردانہ پالیسیوں اور عزائم سے واضح طور پر ایسا لگتا ہے کہ غاصب اسرائیل صرف فلسطین پر غاصبانہ تسلط تک محدود نہیں رہنا چاہتا بلکہ وہ پوری دنیا کو اپنا غلام بنا کر اس پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج مشرق وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے، جنوبی ایشیا کا حال بھی اسی طرح ہے اور اگر ان تمام معاملات کی تحقیق کی جائے تو تمام تر سازشوں کے تانے بانے اسرائیل تک جا ملتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی سمجھدار اور باشعور ریاستیں مل کر بیٹھ جائیں اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے امن کیلئے خطرہ، غاصب اسرائیلی ریاست کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور اسرائیلی ہٹ دھرمی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسرائیل کیخلاف سخت سے سخت کارروائی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کو بین الاقوامی کنٹرول میں لیا اور دنیا کے امن کو یقینی بنایا جائے۔ متعدد مرتبہ خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ اس بات کا انکشاف کرچکے ہیں کہ اسرائیل مہلک اور خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ دو سو سے زائد ایٹم بم رکھتا ہے، آخر اسرائیل کو ۲۰۰ ایٹم بم رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے، یہ اسرائیل ہی ہے کہ جس نے سرزمین فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے بعد سے متعدد مرتبہ فلسطینیوں کو نہ صرف کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بنایا ہے بلکہ آج کے دن تک خطرناک اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف عمل ہے، جبکہ دنیا کی مقتدر قوتیں جو بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے تو نظر آتی ہیں، لیکن دراصل اسرائیلی سفاک ریاست کے سامنے بے بس ہیں، جو اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگانے تو کیا اس کے ہتھیاروں کے بارے میں تذکرہ کرنا بھی گوارہ نہیں کرتی ہیں کہ کہیں خطرے کا رخ ان ہی کی طرف نہ ہو جائے۔
اسرائیل ہی وہ ناجائز ریاست ہے، جو فلسطینی زمین پر غیر قانونی بستیاں تعمیر کر رہی ہے۔ اسرائیل کی ناجائز رژیم نے تقریباً ۷ ہزار فلسطینیوں کو قید، فلسطینی پناہ گزینوں کو واپسی کے حق سے محروم، اپنے ہی شہروں میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا ہے، یہاں تک فلسطینی عوام کو بیت المقدس ان کے اپنے دارالحکومت میں جانے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اسرائیلی ناجائز حکومت کے اہم وزراء یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ مستقبل میں فلسطینی نام کی کوئی بھی ریاست نہیں ہوگی اور بیت المقدس کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست امن و امان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ امریکہ اور برطانیہ غزہ میں مظلوم فلسطینی بچوّں کے قتل عام کی باضابطہ طور سے حمایت کر رہے ہیں۔ اگر دنیا کے کسی گوشے میں ایک جانور کو مار دیا جائے تو اس کا دنیا بھر میں پرچار کرتے ہیں، لیکن غزہ پر غاصب صہیونی حکومت کے حالیہ حملوں اور خاص طور سے فلسطینی معصوم بچوں کا قتل عام ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
اقوام عالم غزہ میں درد ناک واقعات کا مشاہدہ کر رہی ہیں کہ نام نہاد انسانی حقوق کے دعویدار ممالک اور تنظیموں کو، مغرب خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کے حامی قصّابوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کا منظر گویا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ غزہ میں غاصب صہیونی حکومت کے جرائم پر عالمی برادری کی معنی خیز خاموشی، دنیا کی تلخ حقیقت کی ہولناک تصویر ہے۔ غزہ میں صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملوں پر اسرائیل کے حامی مغربی ذرائع ابلاغ ایسی حالت میں چپ سادھے ہوئے ہیں، جب کہ صہیونی معاشرے میں ہر قسم کی اخلاقی برائیاں اور بدعنوانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ جرائم مقبوضہ فلسطین میں انجام پا رہے ہیں۔ اس کے باوجود صہیونیوں کو ہر حالت میں مغرب کی حقوق انسانی کی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے، حتیٰ مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی نوجوان کو زندہ جلا دینے پر مبنی صہیونی آبادکاروں کا وحشیانہ اقدام بھی مغربی ممالک کے نام نہاد انسانی حقوق کے حامیوں کے ضمیر کو بیدار نہ کر سکا اور صہیونزم کے حامی ذرائع ابلاغ نے تو گویا اس جارحیت کو دیکھا ہی نہیں۔
بلا شبہ غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں فلسطینی عورتوں اور بچوں کا قتل عام، مغرب میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے دم توڑنے کا غماز ہے اور غزہ میں انجام دی جانے والی وحشیانہ کارروائیوں میں اسرائیل کے حامی خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ بھی شریک ہیں۔ غزہ ایسی حالت میں صہیونی فوجیوں کے حملوں کا نشانہ بن رہا ہے جبکہ ۲۰۰۶ء سے اسرائیل نے اس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر غاصب صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملے، جنگی اور انسانیت کیخلاف جرائم کا حقیقی مصداق ہیں اور مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی غزہ کی حالیہ صورت حال کے مقابلے میں خاموشی نے مغرب میں انسانی حقوق پر خط تنسیخ کھینچ دیا ہے اور یہ تنظیمیں صرف استکباری طاقتوں کے ناجائز مفادات کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ اسرائیل کا مفاد اسی میں ہے کہ عرب ملکوں پر طاغوتوں اور ڈکٹیٹروں کی حکومت قائم رہے۔ یہ ڈکٹیٹر بڑی شدت سے جمہوریت اور آزادی کے مخالف ہیں اور اسرائیل کے مفادات کا تقاضا ہے کہ عرب ملکوں میں اسی طرح کے حکمران برسر اقتدار رہیں۔
واضح رہے کہ عرب ملکوں اور قدس کی غاصب حکومت کے درمیان کئی برسوں سے خفیہ تعلقات ہیں، جو اب دنیا پر آشکار ہوچکے ہیں۔ ستاون ممالک کی اسلامی اتحادی افواج کی ٹھیکیدار سعودی عرب کی حکومت جو خود کو خادمین حرمین شریفین کہتی ہے، فلسطین کے موقف پر خاموشی اختیار کئے بیٹھی ہے، جو کہ بلاشبہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے مفاد میں ہے۔ جیسا کہ سعودی شہزادے کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں صاف بیان سامنے آیا کہ فلسطین کیساتھ جنگ کی صورت میں وہ یہودیوں اور اسرائیلی جمہوری خواہشات کا ساتھ دیں گے۔ شہزادے کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی صورت میں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی مخالفت کے لئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کو روکنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ اگر تیسری دنیا کے کسی ملک اور خصوصاً کسی اسلامی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو ساری دنیا بہت شور مچاتی ہے، لیکن اگر خود ان سپر پاورز اور ترقی یافتہ ممالک کے ہاں ایسا کچھ ہو جائے تو ایسا سنّاٹا چھا جاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
انسانیت کیخلاف ہونیوالے جرائم میں امریکہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس میں سیاہ فاموں اور مسلمانوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، ان ترقی یافتہ ممالک میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی کو کیوں نظر نہیں آتیں؟ افغانستان، یمن، شام، مصر، لیبیا، فلسطین اور کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی پامالیوں اور ان میں موجود سپر پاورز کے کردار پر کوئی واویلا کیوں نہیں مچایا جاتا؟ دنیا میں بسنے والے وہ انسان جن کا خون انتہائی سستا سمجھا جاتا ہے، ان میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں، فلسطین میں پوری پوری جیتی جاگتی ہنستی بستی آبادی کو سیکنڈز میں خون میں نہلا دیا جاتا ہے، شہر کے شہر بمباری کرکے ہموار کر دیئے جاتے ہیں، لیکن کسی انسانی حقوق کی تنظیم کے پیٹ میں درد تک نہیں ہوتا، کوئی سپر پاور دیگر معاملات کی طرح خدائی فوجدار بن کے میدان میں نہیں کودتی بلکہ بعض اوقات ظالم کے ہاتھ مزید مضبوط کرتے دکھائی دیتی ہے۔ ابھی تک تو متواتر اسرائیلی حکومتیں کسی نہ کسی طرح یورپ کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہیں کہ ان کی جانب سے کسی بھی قسم کا سیاسی دباؤ اسرائیل کو امن مذاکرات کے عمل سے باہر کر دے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ امن مذاکرات کا یہ عمل بہت عرصہ پہلے ہی اپنا برائے نام وجود بھی کھو چکا ہے، اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی حد کر دی، شیر خوار بچوں کو بھی نہیں بخشا، کمسن لڑکے لڑکیوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس کی جیلوں میں جہاں درجنوں فلسطینی مرد و خواتین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، وہیں دو سو سے زائد کمسن بچے بھی اپنے ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کا قصور یہ ہے کہ انہیں اپنی مقدس اراضی سے پیار ہے۔ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ کیلئے وہ اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اسرائیلی پولیس اور سکیورٹی فورسز کا ظلم و بربریت بڑھ جاتا ہے تو یہ معصوم اپنے ہاتھوں میں پتھر لئے یا پھر غلیلوں سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ویسے بھی اسرائیلی فورسز کے عصری اسلحہ کے سامنے ان پتھروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، پھر بھی کمسن فلسطینیوں کی جانب سے برسائے جانے والے سنگ اسرائیلی فورسز کا غرور و تکبر خاک میں ملا دیتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی سنگدلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطینی کمسنوں کو اغوا کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں بند کر دیتی ہے۔
ان بچوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ یہودی آبادیوں پر دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنا رہے تھے یا اس منصوبہ کا حصہ تھے، جو یہودیوں کی تباہی و بربادی اور ہلاکتوں کیلئے بنایا گیا تھا۔ حقوق انسانی کے تحفظ کا دعویٰ کرنیوالا امریکہ فلسطینی بچوں کو جیلوں میں ڈالے جانے سے متعلق اسرائیلی مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کے استحصال کیخلاف آواز اُٹھانے کی جرأت ہی نہیں، اس جرم میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی شامل ہے اور اس کا ثبوت امریکی حکومت کی خاموشی ہے۔ اس ایسوسی ایشن کا یہ بھی الزام ہے کہ امریکہ اسرائیل کی بربریت پر تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے، لیکن اس کے برعکس اسرائیل کے تشدد اور ظلم و جبر کی جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں تو ان کی مذمت کرنے میں وہ کسی قسم کی تاخیر نہیں کرتا۔ یہ دراصل امریکی حکومت کا دوغلا پن ہے۔
ایک طرف تو مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف درد اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کی سرپرستی والے عرب ممالک مسلمانوں کے ابدی اور دائمی دشمن اسرائیل کیساتھ گہری دوستی اور تعلقات قائم کر رہے ہیں اور اسرائیل کے شوم منصوبوں کو عرب ممالک میں نافذ کرکے اسرائیل اور امریکہ سے شاباش حاصل کر رہے ہیں۔ کیا اسرائیل نے کسی عرب سرزمین پر غاصبانہ قبضہ نہیں کیا۔؟ اسلامی مقدسات کی توہین نہیں کی؟ فلسطینی بچوں کو بے رحمی کیساتھ قتل نہیں کیا۔؟ مسلمانوں کیساتھ عرب حکمرانوں کی خیانت طشت از بام ہوگئی ہے۔ واضح ہوگیا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حامی عرب ممالک پر امریکہ اور اسرائیلی مزدوروں کا قبضہ ہے، جو امریکہ اور اسرائیل کی نیابت میں اسلامی ممالک پر جنگ مسلط کر رہے ہیں اور علاقہ میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری