ابوظہبی کے تل ابیب سے تعلقات پر امارات کے دیگر حکمرانوں کا موقف

  • ۳۶۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب نیوز ایجنسی 21 کے جائزہ کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں اور ان کے قریبی افراد کی طرف سے سرکاری اور غیرسرکاری میڈیا پر جاری کردہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے ابوظہبی کے فیصلے پر اماراتی عہدیداروں اور لوگوں کے درمیان کافی حد تک اختلافات پائے جاتے ہیں۔

شارجہ، عجمان، راس الخمیہ، ام القیوین اور الفجیرہ کے حکمرانوں نے تل ابیب کے ساتھ ابوظہبی کے تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کی باضابطہ طور پر حمایت نہیں کی اور صرف حاکم امارات محمد بن راشد آل مکتوم  نے اپنے ٹویٹر میں لکھا ہے کہ ’’صلح پسند بہادروں کے نام تاریخ میں درج ہو جائیں گے‘‘۔ لیکن دیگر کسی نے خاموشی کا تالہ نہیں توڑا۔

عربی نیوز 21 نے المکتوم خاندان کے 33 افراد اور محمد بن راشد کے بیٹوں کے ٹویٹر اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ انسٹاگرام اکاؤنٹس بھی چیک کیے، ان میں سے کسی نے بھی ابوظہبی کی حمایت نہیں کی۔ دبئی کی صرف دو حکمرانوں کی بیٹیوں نے اس معاہدے کی حمایت کی ہے۔

شارجہ کے حکمران جو ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی ہیں ، نے عوامی تنقید کے فقدان کے باوجود ، دوسروں کے مقابلے میں ، تل ابیب کے ساتھ ابوظہبی کے تعلقات کے حوالے سے، اپنے سخترین موقف کا اظہار کیا۔ شارجہ کے حکمران کی اہلیہ شیخہ جواہر القاسمی کے موقف کو سی این این نیوز نے شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’قدس دار الحکومت کے ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی قیمت ہے۔"

جواہر القاسمی کے ٹویٹ میں مقبوضہ بیت المقدس کو حکومت کا دارالحکومت قرار دینے کے تناظر میں اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کی گئی ہے۔ شارجہ کے حکمران کی بیٹی نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ، لیکن معاہدے کے اعلان سے دو دن قبل انسٹاگرام پر لکھا، "میں فلسطین کی آزادی تک فلسطینی ہوں بیروت میں امن کے قیام تک لبنانی ہوں۔"
راس الخیمہ کے حکمران ، سعود بن صقر القاسمی نے اس معاہدے کو نظرانداز کیا ہے ، لیکن ان کے بیٹے محمد نے اس کی سختی سے حمایت کی اور اسرائیل  کے ساتھ باہمی رواداری کو ضروری سمجھا ہے۔

عربی نیوز 21  کی رپورٹ کے مطابق دیگر تمام شیوخ نے اس معاہدے کو نظر انداز کیا ہے اور اس کے اوپر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

متحدہ عرب امارات کے مخالفین کا کہنا ہے کہ محمد بن زید کی سربراہی میں ابو ظہبی نے متحدہ عرب امارات کی سپریم کونسل کے سات ممبران کے لئے کسی بھی ممکنہ کردار کو مسترد کردیا ہے ، جبکہ متحدہ عرب امارات کے سات ملکوں کے شیخوں کو حکومت کے فیصلوں میں شامل ہونا چاہئے تھا، لیکن ابوظہبی برسوں سے اپنے امور پر یکطرفہ فیصلہ کرتی آئی ہے۔

 

مکالمہ/واقعہ کربلا میں یہود و نصاریٰ کا کردار

  • ۴۹۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: تاریخ اسلام کے تلخ واقعات مخصوصا واقعہ کربلا کے پیچھے یہود و نصاریٰ کے خفیہ کردار پر اس لیے شک نہیں کیا جا سکتا کہ یزید ایک عیسائی ماں کا بیٹا تھا اور عیسائی پادریوں ’’یوحنا‘‘ اور ’’سرجیوس‘‘ نے اس کی تربیت کی تھی اور انہوں نے یزید کو اس طریقے سے پروان چڑھایا تھا کہ وہ بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر خلافت مسلمین کی مسند پر بیٹھ جائے لیکن خلافت کی اصلی لگام یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں میں رہے وہ خلافت کی اونٹنی کو جدھر موڑنا چاہیں موڑ سکیں۔ سرجیوس نے جب دیکھا کہ مرگ معاویہ کے بعد اسلامی حکومت کی لگام امام حسین (ع) اور اہل بیت رسول(ع) کے ہاتھ میں جا رہی ہے اور کوفیوں نے امام علیہ السلام کو اسلامی معاشرے کی رہبری کی دعوت دے دی ہے تو اس نے یزید کو امام حسین (ع) کے قتل پر آمادہ کر دیا اور کوفے کے پرآشوف ماحول کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے یزید کو پیشکش دی کہ عبید اللہ بن زیاد کو کوفے کا گورنر مقرر کرے۔(۱)
واقعہ کربلا میں یہود و نصاریٰ کے کردار کے حوالے سے ادیان و مذاہب کے محقق و ماہر حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد رضا طباطبائی کے ساتھ ایک گفتگو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے:
س: واقعہ عاشورا میں یہود و نصاریٰ کے کردار پر مختصر وضاحت کریں۔
اسلام کے ابتدائی دور میں یہود و نصاریٰ کا کیا کردار تھا اور پھر عصر امام حسین (ع) خصوصا واقعہ کربلا میں یہودیوں اور عیسائیوں نے کیا رول ادا کیا؟ یہ بہت ہی تفصیلی گفتگو ہے لیکن ہم یہاں پر صرف چند نکات کی طرف اشارہ کریں گے۔
قرآن کریم نے واضح لفظوں میں یہود و نصاریٰ کی اسلام دشمنی سے مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے: لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى، ذلِکَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا یَسْتَکْبِرُونَ (المائدة: ٨٢)
(آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں۔ یہ اس لیے کہ ان میں بہت سے قسیس اور راہب پائے جاتے ہیں اور یہ متکبر اور برائی کرنے والے نہیں ہیں۔)
قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں مسلمانوں کے تئیں سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی ہیں پھر مشرک اور نصرانی یعنی عیسائی۔
س؛ کیا امام حسین (ع) کے زمانے میں یہودی اور عیسائی کے دھڑے اور ٹولے اسلام کے خلاف کافی فعال تھے؟
۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں کچھ ایسے عیسائی ٹولے اسلامی معاشرے میں گہرا نفوذ رکھتے تھے جو اس زمانے کے یہودیوں سے متاثر تھے۔ یعنی وہ عیسائی جو یہودیوں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور یہودی انہیں پس پردہ حمایت کر رہے تھے بطور کلی اس دور کے عیسائی چند گروہوں میں بٹے ہوئے تھے:
۱: ایک گروہ جو خود کو سخت دیندار ظاہر کرتا اور اپنے دین کے تئیں انتہائی متعصب تھا یہاں تک کہ کبھی کبھی خود پیغمبر اسلام (ص) کو بھی نصیحت کرنے پہنچ جاتا تھا یہ وہ گروہ تھا جو عیسائیوں کی ممتاز شخصیتوں پر مشتمل تھا۔ یہ گروہ پیغمبر اکرم(ص) پر ایمان نہیں لایا لیکن آپ کے لیے احترام کا قائل تھا۔ اور مسلمانوں کو آزار و اذیت نہیں پہنچاتا تھا۔ اس گروہ کے بارے میں کافی واقعات تاریخ میں موجود ہیں کہ یہ لوگ مزین اور فاخر لباس کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے لیکن پیغمبر انہیں اجازت نہیں دیتے تھے۔
۲: حق طلب عیسائی گروہ جو عیسائیوں کے بعض عوام تھے ان میں سے اکثریت نے پیغمبر اکرم (ص) کی حقانیت کا مشاہدہ کرنے کے بعد اسلام قبول کر لیا انہیں میں سے ایک وہب ہیں جو کربلا میں امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہوئے۔
۳: تیسرا گروہ عیسائیوں کا وہ لوگ تھے جو دنیا کے حریص تھے انہیں زیادہ تر اپنی دنیا داری سے مطلب تھا وہ اسلام کی مخالفت بھی کرتے تھے تو اپنے دنیوی مفاد کی خاطر لیکن جب ان کے دنیوی مفادات خطرے میں پڑ جاتے تو اسلام کے مقابلے سے ہاتھ کھینچ لیتے جیسے نجراں کے نصاریٰ، مباہلے میں انہوں نے جب محسوس کیا کہ اگر پیغمبر اسلام(ص) کے مقابلے میں ڈٹے رہیں گے تو ان کی نابودی یقینی ہو جائے گی تو مباہلے کے بغیر فرار کر گئے۔ اس گروہ میں سے کچھ افراد ایسے تھے جو مسلمانوں کے اندر گہرا نفوذ رکھتے تھے ان کا مقصد اسلام کو مٹانا نہیں تھا بلکہ اسلام میں تحریف ایجاد کرنا تھا اسلام کو اس کے اصلی راستے سے منحرف کرنا تھا اسی وجہ سے انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے بعض اکابر صحابہ کے درمیان اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنا اور انہیں اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد خلفائے راشدین کو برسر اقتدار لانے میں ان کی زحمتیں رائگاں نہیں گئیں۔
۴: اس درمیان ایک چوتھا گروہ بھی تھا جو عیسائیوں اور یہودیوں کا مشترکہ گروہ تھا۔ یہ پیغمبر اسلام(ص) کو اپنا دشمن اور آپ کو یہودیت اور عیسائیت کی نابودی کا باعث سمجھتا تھا۔ مشرکین مکہ کو پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف جنگوں کے لئے ابھارنا ان کا کام تھا۔ اور اسی گروہ کے کچھ عناصر امیر شام کے مشیر تھے جو انہیں امیر المومنین علی علیہ السلام کے خلاف بغاوت پر اکساتے اور جنگوں میں امیر شام کی پشت پناہی کرتے تھے یزید بن معایہ کی تربیت میں ان کا گہرا کردار تھا اور اسی طرح واقعہ کربلا کے پسِ پردہ اور اصلی مہرے یہی لوگ تھے۔
س: کیا یزید کے نصرانی وزیروں کو بھی اس واقعہ میں ملوث مانا جا سکتا ہے؟
جی! میں گفتگو کو اسی رخ کی طرف لانا چاہ رہا تھا۔ یہود و نصاریٰ کے اس مشترکہ گروہ کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ امیر شام کے بیٹے یزید کی تربیت کرنا تھا۔ یا دوسرے لفظوں میں کہوں کہ امیر شام کے بعد آنے والے مسلمانوں کے خلفاء کی تربیت کرنا تھا جو انہوں نے کیا۔ میں آپ کو اس کی ملموس مثال پیش کرتا ہوں۔ سالہا قبل ایک ’’جوزف ولف‘‘ نامی ایک عیسائی پادری جس کا باپ یہودی تھا اور وہ خود نسل پرست عیسائیوں میں سے تھا، ایران کے صوبے فارس اور شیراز میں آیا۔ ۱۸۲۴ء میں یہ پادری ایران بوشہر میں وارد ہوا اور تہران، شیراز، کاشان اور کئی دیگر شہروں کا اس نے دورہ کیا۔ اور ان تمام شہروں میں موجود یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ اس نے ملاقاتیں کیں۔ اس نے پورے ایران پر اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لئے ایک انتہائی باریک اور خطرناک منصوبہ بنایا۔ آپ جانتے ہیں اس نے کیا کیا؟ اس نے وہی طریقہ اپنایا جو اس کے اجداد نے عصر امام حسین (ع) میں اپنایا۔ جس طریقے سے انہوں نے یزید کو تربیت کر کے مسند خلافت مسلمین پر بٹھا دیا تاکہ اسلام کی شبیہ بگاڑ کر رکھ دے اسی طرح اس شخص نے میرزا ابراہیم شیرازی نامی ایک شخص کو خود سے قریب کیا اسے تربیت کی اور میرزا ابراہیم شیرازی کو دربار شاہی سے جوڑا اور وہ بعد میں بادشاہ کے بیٹے کا خصوصی معلم قرار پایا وہ بیٹا جو بعد میں ایران کا شاہ بن گیا!
خود میرزا ابراہیم شیرازی کی ایک عیسائی عورت سے شادی کروائی جو ہالینڈ کی تھی اور اس سے ’جان‘ نامی بیٹا پیدا ہوا جو بعد میں تہران میں برطانیہ کی سفارت میں منشی اول کے عنوان سے کام کرتا رہا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ کسی مملکت کی اہم ترین شخصیت کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے اس طرح سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
س۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ یزید عیسائی ماں کا بیٹا تھا کیا یہ بات صحیح ہے؟
جی ہاں، یزید کی ماں عیسائی تھی ’میسون‘ اس کا نام تھا معاویہ نے یزید کی ماں کو اپنے دربار سے نکال کر اس کے قبیلے میں واپس بھیج دیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے غلام سے ناجائز تعلقات رکھتی تھی اور یزید بھی انہیں ناجائز تعلقات کا نتیجہ تھا جو میسون اپنے غلام سے رکھتی تھی۔
یزید کی دائیاں بھی عیسائی تھیں۔ میسون کا تعلق بنی کلاب قبیلے سے تھا، بنی کلاب عیسائی تھے۔ میسون ’بجدل کلبی‘ کی بیٹی تھی۔ بجدل کلبی خود بھی عیسائی تھی اور اس کا غلام بھی عیسائی تھا جو میسون کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرتا تھا یزید کا معلم بھی ادبیات عرب کا ایک ماہر شخص تھا جس کا نام ’اخطل‘ تھا۔ آپ غور کریں کہ یزید کو پورے ایک عیسائی ماحول میں تربیت ملی اور ایک خاص اہداف کے تحت اسے پالا پوسہ گیا، اسے رزم و بزم کے تمام اصول سکھائے گئے شراب خواری، میمون بازی، زناکاری، موسیقی اور ناچ و گانا اسکی عادت بنایا گیا، لیکن اسلام نام کی کوئی چیز اس نے اپنے دور تربیت میں نہیں سنی۔ یہی وجہ تھی کہ مرگ معاویہ کے بعد جب وہ مسند خلافت مسلمین پر بیٹھتا ہے تو یہی کہتا ’ماجاء نبی و لا وحی نزل‘ معاذ اللہ نہ کوئی نبی آیا اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی۔
س: کیا آپ ان مقاصد کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں جن کے تحت یہود و نصاریٰ نے یزید کی اس طرح تربیت کی؟
۔ کچھ مقاصد کی طرف گزشتہ گفتگو میں اشارہ کر چکا ہوں۔ یہود و نصاری کے نزدیک قوم پرستی اور نسل پرستی کا مسئلہ اہم مسئلہ ہے۔ وہ قوم جو نسلی حکومت کی قائل ہے اور کسی دوسری کی حکمرانی کو قبول نہیں کر سکتی۔ یقینا اگر آخری پیغمبر جناب اسحاق کی نسل سے ہوتے تو اس دور کے نسل پرست یہود و نصاریٰ دوسرے انداز میں ان تاریخی واقعات کے ساتھ پیش آتے۔ اس صورت میں وہ جنگیں اور وہ کینہ و حسد نہ ہوتا۔ لیکن خداوند عالم نے تاریخ اس طریقے سے رقم کی کہ مختلف قوموں کو منزل امتحان میں قرار دیا جا سکے۔ آپ قرآن کریم کو دیکھیں۔ مگر یہودی کتنے تھے کہ اتنی آیتیں قرآن کریم میں یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ چھے ہزار آیتوں میں سے تقریبا ۲ ہزار آیتیں یہود و نصاریٰ کے بارے میں ہیں۔ کیوں انہیں اتنی اہمیت دی گئی۔
انہیں مسائل کی وجہ سے اور پیغمبر اکرم(ص) کی تاریخ میں ان کی خطرناک سازشوں کی وجہ سے تاکہ مسلمان اس قوم اور اس کی اسلام مخالف سازشوں اور پروپیگنڈوں سے آگاہ رہیں۔ فرصت نہیں بچی کہ مطالب کو اور زیادہ واضح بیان کرتا۔ لیکن خواہش کرتا ہوں کہ ’سرجیوس‘ کے بارے میں قارئین مزید تحقیق کریں کہ اس نے دربار معاویہ و یزید میں کیا کچھ کیا؟
یہ کہ کیوں پیغمبر اکرم(ص) کے گرانقدر صحابی جناب ابوذر غفاری کو دربار عثمان میں صرف ایک اعتراض کی بنا پر جلاوطن کر کے ربذہ بھیج دیا جاتا ہے؟ یہ کہ کسی بھی حکومت میں اہم ترین عہدہ خزانہ داری کا ہوتا ہے، معاویہ کے دور حکومت میں خزانہ دار کون شخص تھا؟ کیوں عبید اللہ بن زیاد کو سرجیوس یا سرجون کے مشورے کے مطابق کوفہ کا گورنر بنایا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ وہ سوالات ہے جن پر غور کرنے سے واقعہ کربلا میں یہود و نصاریٰ کی پیوست جڑیں مزید واضح نظر آتی ہیں۔
بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمارے اختیار میں دیا۔
(1) http://jscenter.ir/judaism-and-islam/jewish-intrigue/3406