امریکہ کہاں جارہا ہے؟ (۱)

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پراجیکٹ سینڈیکیٹ (project-syndicate) نامی ویب گاہ نے یہودی امریکی ماہر معاشیات، کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر، متعدد کتب کے مصنف، نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات، جوزف اسٹگلٹز (Joseph Eugene Stiglitz) کا ایک کالم بعنوان " Whither America" میں لکھتے ہیں:
ہمیں اپنی سیاست میں پیسے کے اثر و رسوخ کو کم کرنا پڑے گا: امریکہ جیسے معاشرے میں - جہاں اس طرح کی شدید عدم مساوات کی حکمرانی ہے - کسی بھی قسم کا کوئی دیکھ بھال کا نظام (مانیٹرنگ سسٹم) مؤثر نہیں ہے؛ اور جس نظام میں "ایک ڈالر ایک ووٹر" کا قاعدہ کار فرما ہو اور "ایک شخص ایک رائے" کا قاعدہ نظر انداز کیا جائے، وہ نظام ہیجان انگیزی، سیاست بازی اور عوام فریبی جیسے رجحانات کے پروان چڑھنے کے لئے ماحول فراہم کرتا ہے؛ تو ایسا نظام کیونکر ملکی مفادات کی ضمانت دے سکتا ہے؟
صدر ٹرمپ کی اشتعال انگیزی کی بنا پر کیپیٹل ہل پر ان کے حامیوں کا حملہ، جمہوری اداروں پر ٹرمپ کی چار سالہ یلغار کا متوقع ثمرہ تھا اور اس طویل یلغار میں ریپلکن جماعت کے بیشتر اراکین بھی ٹرمپ کا ساتھ دیتے رہے؛ اور کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ٹرمپ نے ہمیں خبردار نہیں کیا تھا! کیونکہ ٹرمپ نے اپنے آپ کو پرامن انتقال اقتدار کا پابند نہیں بنایا تھا۔ ان کے بہت سارے ساتھی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے مفاد میں ٹیکسوں میں کمی، ماحولیاتی قواعد کو الٹا پلٹا کر نافذ کرنا، کاروباری اداروں سے متعلقہ عدالتوں میں "مہربان ججوں کی تقرری"، سے فائدہ اٹھا رہے تھے، جبکہ وہ جانتے تھے ہیں کہ "شیطان کے ساتھ کاروبار میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں کا یا تو یہ خیال تھا کہ وہ ٹرمپ کے چھوڑے ہوئے دندناتے اتنہاپسندوں کو قابو میں لائیں گے یا پھر یہ مسائل ان کے لئے اہمیت ہی نہیں رکھتے تھے۔
اب آپ دیکھ لیجئے کہ "امریکہ اس نقطے سے کہاں جارہا ہے؟ کیا آمریکا ایک وقتی لغزش کا نام ہے یا ایک زیادہ گہری قومی بیماری کا نام؟ کیا امریکہ پر اعتماد کرنا ممکن ہے؟ کیا ٹرمپ کو برسر اقتدار لانے والے چار سال بعد پھر بھی برسرقتدار آئیں گے؟ انہیں اقتدار تک پہنچـنے سے روکنے کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے؟
ٹرمپ مختلف قوتوں کی پیداوار ہے۔ ریپلکن جماعت گذشتہ 25 برسوں میں پہلی مرتبہ سمجھی تھی کہ وہ صرف اور صرف غیر جمہوری معیار کو قبول کرکے (یعنی لوگوں کی آراء (ووٹوں) کو کچل کر، پولنگ اسٹشینوں کی علاقہ بندی میں رد و بدل کر)، مذہبی انتہاپسندوں، سفیدفام نسل پرستوں اور قومی عوامیت پسندوں (Populists) جیسے غیر جمہوری طبقوں کو حلیف بنا کر، تجارت اور لین دین کے شعبے کے اشرافیہ کی نمائندگی کرسکے گی۔
البتہ عوامیت پسندی کی پالسیاں کاروبار تجارت کے اشرافیہ کے ہاں قابل قبول تھیں؛ لیکن اس میدان کے بہت سے زعماء نے کئی عشرے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے مہارتوں کے حصول میں صرف کردیتے تھے۔ تمباکو کی بڑی کمپنیوں نے انسانی صحت پر اپنی مصنوعات کے نقصان دہ اثرات کو مسترد کرنے کے لئے بڑی بڑی رقوم وکیلوں اور جعلی سائنس خرچ کی تھیں۔ تیل کی بڑی کمپنیاں بھی اسی طرح آب و ہوا کی تبدیلی میں رکازیاتی ایندھن کے کردار کو بالکل مسترد کرتی ہیں؛ چنانچہ ریپلکن جماعت جان گئی کہ "ٹرمپ وہی شخص ہے جس کی اس کو تلاش تھی"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی