-
Friday, 29 May 2020، 11:39 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
{ہم نے گزشتہ تحریر میں کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آج کے دور میں اسرائیل کیوں کرونا سے خطرناک تر ہے ، دلیل کے طور پر ہم نے لوین ناتھن کی جانب سے اسلامی مزاحمت کاروں کے خلاف عجیب و غریب قانون تجویز کئے جانے کی طرف اشارہ کیا جس کے بموجب شہادت طلبانہ کاروائی کرنے والے افراد کے گھر والوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی سزا تجویز کی گئی تھی اس تحریر میں ہم اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ عقل و منطق سے ماوراء یہ تجویز کیا کسی طرح قابل قبول ہو سکتی ہے اگر نہیں تو کیا یہ اس طرح کی باتیں کرنے والے دہشت گردی کی وائرس کو وجود بخشنے کا ذریعہ نہیں ہیں کیا ایسے میں ضروری نہیں ہے کہ ہم سب مل کر قدس کے پلیٹ فارم سے اس وائرس کے خلاف آواز اٹھائیں} ۔
آپ اندازہ لگائیں کہ اپنی ہی سر زمین کو حاصل کرنے کے لئے مزاحمت کرنے والوں کے لئے یہ سزا کونسی قانون کی کتاب میں ہے کہ شہادت طلبانہ کاروائی کرنے والوں کے گھر والوں کو پھانسی دے دی جائے ، ہر انسان جہاں اس بات پر حیران ہے وہیں آپ اس سزا کے پیچھے کتاب مقدس کی تعلیمات کو بھی دم بخود رہ جائیں گے چنانچہ ناتھن کی جانب سے ایک یہودی اخبار «فاروارڈ» کو اپنے دئیے گئے ایک انٹرویو کے دوران یہ بات بھی کہی جاتی ہے :
"غیر فوجی عام فلسطینیوں کے قتل کی پالیسی ، خودکش ( شہادت طلب ) حملوں کے مقابل ضروری انتباہ کو فراہم کرتی ہے !! لوین کی جانب سے اس سلسلہ میں اپنی کہی بات کو تلمودی نظر شمعا سے بھی جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے یعنی یہ وہ بات ہے جو اس سے قبل شمعا میں بیان ہو چکی ہے ۔یہ وہ نظریہ ہے جس کے بموجب یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ قوم جسکے شہری مارے جاتے ہیں یا معذور ہو جاتے ہیں انکے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک با مقصد ٹرر کے ذریعہ یا دیگر وسائل کی بنیاد پر اس بات پر مختار و آزاد ہوں کہ خودکش بمبار ( شہادت طلب ) کے پہلے درجہ کے رشتہ داروں جو کہ والدین ، بھائیوں اور بہنوں کو شامل ہے کو موت کے گھاٹ اتار دیں کاش کوئی اس عجیب و غریب نظریہ کو بیان کرنے والے کے سامنے ۲۵ فروری ۲۰۰۲ ء کا وہ واقعہ رکھے جب ایک میریام گلداشتاین نامی یہودی ہپرون کی ایک مسجد میں داخل ہوتا ہے اور ۴۰ فلسطینیوں کو نماز کی حالت میں شہید کر دیتا ہے اور عجیب بات ہے کہ اس کی ماں اپنے بیٹے کے اس عمل کی تحسین و تمجیدکرتی ہے اور اس پر افتخار کرتی ہے ۔ان سب چیزوں کے باوجود ، کیاکوئی منطق یہ کہتی ہے کہ اس اقدام کرنے والے میریام کے گھر والوں کو فورا موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے ؟
یہ تو محض افراطی یہودیوں کی ان فلسطینی مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت گری کا ایک نمونہ ہے کہ جنکا خانہ و کاشانہ یہودیوں کی نفرت کا شکار ہو گیا ۔
بڑی اچھی بات کہی'' فسلطینیوں کی نسل کشی نامی کتاب '' کے مصنف نے کہ "ناتھن لوین صاحب اس مذکورہ بالا واقعہ کے پیش نظر ضروری ہے کہ آپ اس قوم کے بارے میں جو اپنے حق اور اپنی سر زمین کا دفاع کر رہی ہے ایک نظر ثانی کریں اور ایسے نفسیاتی اقدامات سے پرہیز کریں جو یہودی جوانوں کے ذہنوں کو اکسانے کا سبب ہیں اب آپ اندازہ لگائیں یہ وائرس کتنا خطرناک ہے جو کہ دہشت گردی کو ایک تقدس فراہم کر رہا ہے ۔
یہ تو ایک مثال تھی اگر آپ صہیونی رہبروں کی باتوں کو سنیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے ،جہاں یہودیوں کو ایک جگہ لانے کے لئے خود انکی مرضی کی ضرورت بھی نہیں ہے بلکہ کچھ ہی لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے چنانچہ یہودیوں کی ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان کا امریکی و یہودیوں کے ایک مشترکہ اجتماع کا یہ بیان قابل غور ہے " صہیونیت کے اصولوں میں ایک اصول تمام یہودیوں کو اسرائیل لانا تھا، ہم مختلف گھرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمار ی مدد کریں تاکہ ہم انکے بچوں کو اسرائیل لے جا ئیں البتہ یاد رہے کہ اگر وہ ایسا نہیں بھی کریں گے تو ہم زبردستی انہیں اسرائیل لے جائیں گے ،، ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی اہداف کے امتداد میں یہودیوں کی اپنی رائے اور انکی اپنی نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہی وہ چیز ہے جس نے صہیونیوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے چنانچہ بیت المقدس میں عبری یونیورسٹی کے بانیوں میں ایک ڈاکٹر ماگنسس سلسلہ سے لکھتے ہیں : ہمارا ہمیشہ سے یہ خیال رہا کہ صہیونزم کی تحریک دنیا میں یہود مخالفت کے ختم ہونے کا سبب ہوگی لیکن آج ہم اس کا بالکل الٹا اثر دیکھ رہے ہیں ۔ صہیونیوں نے یہود مخالفت سے سب سے زیادہ ناجائز فائدہ ہٹلر کے سامنے آنے کے بعد اٹھایا، یہاں یہ تسلط پسندانہ عزائم یہودیوں کو نقصان پہنچانے کا سبب رہے ہیں وہیں یہ بات بھی ہے کہ اگر صہیونی نظریات سے ہٹ کر کوئی یہودیوں کے لئے آگے بھی آیا ہے تو اسے بھی مخالفت ہی کا سامنا کرنا پڑا ہے چنانچہ ماریس ارنسٹ رفیو جی اور ملک بدری امور سے متعلق بین الاقوامی ادارہ روزولٹ کے نمائندہ اس بارے میں کہتے ہیں : جب یہودیوں کے لئیے میں جرمنی میں ایک امن و سکون کی جگہ تلاش کر رہا تھا اس وقت یہودی میرے اس کام کے خلاف تھے اور میرا مذاق اڑا رہے تھے حتی شدت کے ساتھ میرے اوپر حملہ آور تھے ۔ اب آپ اندازہ لگائیں جو لوگ یہودیوں کے لئے ہی کام کر رہے تھے لیکن صہیونی نظریہ سے مکمل طور پر متفق نہیں تھے یہ تسلط پسندانہ عزائم رکھنے والے یہودی انکے بھی مخالف تھے یہ وائرس کتنا خطرناک ہےاسے سمجھنا ہو تو اس وائرس سے بری طرح متاثر ملک امریکہ کو ہی لے لیں جس کے بارے میں "صہیونی لابی اور امریکہ کے خارجی سیاست" نامی کتاب لکھنے والے دو عظیم قلمکاروں نے اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے کہ امریکہ صہیونی لابی کے آگے کتنا بے بس ہے۔
یاد رہے کہ یہ کتاب اوہ جوزف میئر شیمر(John Mearsheimer (/ mɪrʃhaɪmər /؛ اور اسٹیفن والٹ کی مشترکہ کاوش ہے دونوں ہی آر وینیل ہیریسن ڈسٹرکٹ میں ممتاز استاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں کتاب کے مصنفین کا مقصد اسرائیلی حکومت کی حمایت کے سلسلہ سے صہیونیوں کی غلط توجیہات اور نئے قدامت پسندوں کی اس ناجائز حکومت کی حمایت کے سلسلہ سے کی جانے والی تاویلوں کو آشکار کرتے ہوئے ان پر خط بطلان کھینچنا ہے ۔ اس کتاب میں واضح طو ر پر اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی سیاست مداروں نے عراق اور افغانستان میں ہزاروں لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا جبکہ صہیونی چھوٹی سی منظم لابی کے سامنے انکی گھگھی بندھی رہتی ہے اور انکی حقارت کی انتہا نہیں ۔
مصنفین کی نظر کے مطابق مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجی سیاست ہر ایک عامل سے زیادہ صہیونی لابی سے متاثر ہے یہاں تک کہ آخری چند دہایہوں میں خاص کر اسرائیل و عربوں کی جنگ کے دور سے اسرائیل سے تعلقات کا مسئلہ مشرق وسطی میں امریکہ کی بنیادی سیاست میں تبدیل ہو گیا ہے ۔
یہ کتاب ۲۰۰۶ میں چھپی ، اور اسکے مارکیٹ میں آنے کے بعد دنیا بھر میں مخالفین و موافقین کے درمیان بحث و گفتگو کا بازار گرم ہو گیا قابل ذکر ہے کہ ۲۰۰۶ ء میں ہی یہ کتاب کئی بار پرنٹ ہوئی اور اس کے ایڈیشن کے ایڈیشن ختم ہو گئے یہاں تک کے ۲۰۰۶ء میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب قرار پائی ۔
کتاب کے ایک حصہ میں ہمیں ملتا ہے" صہیونی لابی امریکہ میں اس قدر طاقت ور ہے کہ اس نے ناقابل خدشہ یہ عقیدہ لوگوں کے ذہنوں میں ترسیم کر دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے قومی مفادات ایک ہی ہیں '' واضح سی بات ہے کہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کے قومی مفادات کے پیش نظر تدوین پاتی ہے ، جبکہ یہ بات مشرق وسطی میں امریکی پالیسی پر صادق نہیں آتی اس لئیے کہ صہیونی رژیم کے مفادات کا تحفظ اس علاقہ میں امریکہ کی اصلی خارجہ پالیسی کا محور و مرکز ہے کتنی عجیب بات ہے دنیا کا سب سے طاقت ورمانا جانے والا ملک اتنا بے بس ہے کہ کہ امریکہ کی صدارت کے امیدواروں میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے چاہے وہ ریپبلکن ہوں یا ڈیموکراٹ کوئی بھی ایسانہیں جو صہیونیوں کو خشنود کئیے بغیر انکی رضایت کے بغیر انکی مالی حمایت کے بغیر الیکشن میں کامیاب ہونے کے بارے میں سوچ بھی سکے ۔ اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا جو ایک طرف تو کرونا کے وائرس سے لڑنے میں ناکام رہا ہے دوسری طرف کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس کو اپنے لئے نسخہ شفا بخش سمجھ بیٹھا ہے اور دونوں ہی وائرس ایسے ہیں جو مسلسل اسے تباہ کئے جا رہے ہیں ۔