امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گرد ہیں، نہ کہ انصار اللہ

  • ۵۱۸

آسٹریلیائی صحافی کیتھلین جانسن نے ایک یادداشت میں لکھا، " سعودی عرب، امریکہ، اسٹریلیا، کینیڈا، فرانس اور ہر وہ ملک جو یمن میں مل کر جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے وہ دھشتگرد ہیں۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ آسٹریلیائی صحافی نے امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کو دھشتگرد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انصار اللہ دھشتگرد تنظیم نہیں ہے بلکہ وہ اپنے وطن کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے دھشتگرد وہ ہوتا ہے جو دوسرے کے گھر پر حملہ کرے نہ وہ جو اپنے گھر کو حملے سے بچائے۔
گزشتہ ہفتوں متعدد امریکی ذرائع ابلاغ نے یہ اطلاع دی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنوری ۲۰۲۱ میں اقتدار چھوڑنے سے قبل یمن کی انقلابی تنظیم انصار اللہ کو دھشتگرد تنظیم قرار دے کر انہیں عالمی دھشتگردوں کی فہرست میں شامل کر دیں گے۔
میلبورن میں مقیم آسٹریلیائی صحافی کیتھلین جانسن نے اس ممکنہ امریکی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے ، امریکہ، سعودی عرب، امارات اور مغربی باشندوں کو دھشتگرد قرار دیا ہے جو یمن میں آ کر لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ۲۰۱۵ میں سعودی عرب کے زیر قیادت حکومت کے صدر منصور الہادی کو یمنی عوام کے ذریعے اقتدار سے برکنار کرنے کے بعد تاحال سعودی عرب امریکی، عربی اور مغربی اتحادیوں کے بل بوتے پر یمن کو محاصرہ کئے ہوئے ہے اور مسلسل انہیں حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے جس کے نتیجے میں تاحال ہزاروں بے گناہ جانیں ضیاع ہو چکی ہیں اور موجودہ صورتحال یہ ہے کہ لوگ فقر و فاقہ سے مر رہے ہیں جبکہ ان کے پاس نہ کھانے پینے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی دارو دوا کا کوئی انتظام ہے۔
جانسن نے نیوزی لینڈ کی ویب سائٹ پر اس عنوان کے تحت کہ "ہم دھشتگرد ہیں" لکھا ہے کہ یمن کی عوامی تنظیم انصار اللہ دھشتگرد نہیں ہے بلکہ دھشتگرد وہ ہیں جو ان کے ملک میں مسلسل حملے کر رہے ہیں۔
آسٹریلیائی صحافی نے مزید لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے وقت میں یمنی تنظیم انصار اللہ کو دھشتگردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ کے سربراہ نے انتباہ کیا ہے اگر یہ ظالمانہ جنگ اسی طرح جاری رہی تو اڑھائی لاکھ سے زیادہ افراد یمن میں بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے۔ اور جنگ و محاصرے کی وجہ سے یمنی عوام کے لیے انسانی امداد فراہم کرنا ممکن نہیں ہے"۔
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اقوام متحدہ نے تاحال یمن میں امریکہ کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد کے ذریعے چھیڑی گئی جنگ کے نتیجے میں دو لاکھ تینتیس ہزار عام یمنی ہلاک ہو چکے ہیں۔

آسٹریلیائی صحافی نے مزید لکھا ، "ہم دہشت گرد ہیں (اس سے ہمارا مطلب یہ ہے) سعودی عرب ، ریاستہائے متحدہ ، برطانیہ، آسٹریلیا ، کینیڈا ، فرانس اور کوئی دوسرا ملک جس نے یمن میں ہولناک بڑے پیمانے پر جرائم کے ارتکاب کی سہولت فراہم کی ہے دھشتگرد ہیں۔ طاقت کا یہ گہرا عالمی اتحاد ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ "حوثیوں کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرنے کے لئے ایک خوفناک اور خونخوار امریکی سلطنت کا نظریہ اب تک کا سب سے دلچسپ مذاق ہے۔"

آسٹریلیائی صحافی نے کہا ، "ہم دہشت گرد ہیں۔" میں اپنی حکومتوں کی بجائے "ہم" کا لفظ استعمال کرتا ہوں ، کیوں کہ اگر ہم اپنی سویلین آبادی کے ساتھ ایماندار ہیں تو مجھے یہ کہنا چاہیے کہ ہم اس قتل عام (یمن میں) میں ملوث ہیں۔ "بلاشبہ ، یمن میں خوفناک اور بدترین صورتحال ہے جو اس وقت دنیا میں ہورہی ہے ، لیکن ہمارے معاشرتی شعور میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔"
انہوں نے لکھا ، "ہم میں سے بیشتر افراد نے بھوکے یمنی بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھی ہیں اور اپنے آپ سے کہا ، 'واہ ، یہ بہت افسوسناک ہے' اور پھر ہم نے دوبارہ کھیلوں اور دیگر بکواسوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کروائی۔

"ہم دہشت گرد ہیں ،" جانسن نے اس عنوان پر گفتگو جاری رکھتے ہو لکھا: ہاں ، یہ سچ ہے کہ ہم اس دھشت گردی میں پروپیگنڈا کرنے میں ملوث ہوچکے ہیں ، اور اگر نیوز میڈیا اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دیتا تو یمن ہماری توجہ میں سب سے آگے ہوتا ، لیکن نہ ہمارا میڈیا حقائق کو بیان کرتا ہے اور نہ ہم کبھی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ایسے معاشروں میں رہتے ہیں جو قتل و غارتگری کے خلاف کبھی نہیں اٹھتے بلکہ کبھی سوچتے بھی نہیں۔
انہوں نے مزید لکھا: "ہم دہشت گرد ہیں ، لیکن ہمیں دہشت گرد نہیں بننا چاہئے۔ ہمارے پاس جاگنے کے لیے ابھی بھی وقت ہے ہم خود کو جگائیں، اپنے دوستوں کو بیدار کریں، اپنے پڑوسیوں کو بیدار کریں کہ ہمارے حکمران انسانیت کی خدمت کے بجائے یمن اور اس طرح کے دیگر ممالک میں ہولناک کاروائیاں کرتے ہیں اور ہزاروں افراد کی زندگیاں ان سے چھینتے ہیں ۔"

آسٹریلیائی نامہ نگار نے کہا ، "اگر امریکی حکومت چاہے تو یمن کی خوفناک صورتحال کو فوری طور پر ختم کر سکتی ہے۔" لیکن امریکہ ایسا کر نہیں سکتا چونکہ اگر امریکہ یمن میں جنگ بندی کا حکم دے دے تو یمن میں حوثی اپنے ملک میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس جنگ کے فاتح کہلائیں گے جبکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی پسپائی کرنے پر مجبور ہوں گے جو امریکہ کے مفاد میں نہیں چونکہ سعودی عرب امریکہ کا اتحادی ہے۔
"یمن کے بارے میں خاموشی توڑ دو"۔ بائیڈن (جو امریکی میڈیا کے مطابق ، ملک کے اگلے صدر ہیں) پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس جنگ کے خاتمے کے اپنے انتخابی وعدے کو پورا کریں۔ جو جنگ بائیڈن اوبامہ انتظامیہ میں شروع ہوئی تھی اسے امریکہ کو ہی خاتمہ دینا ہو گا ۔
ترجمہ جعفری

 

کیا ایران شہید فخری زادے کا فوری انتقام لے گا؟

  • ۵۷۸

الیکٹرانک اخبار "رائے الیوم" نے لکھا ہے کہ جوہری سائنسدان " محسن فخری زادہ " کے قتل کا بدلہ یقینی ہے لیکن ایران کے رہنما امریکہ اور صہیونی ریاست کے جال میں نہیں پھنسیں گے اور عجلت سے کام نہیں لیں گے۔
اس اخبار نے ابتدا میں ایرانی سائنسدان کے قتل کی رپورٹ دینے کے بعد لکھا کہ یورپی اور اسرائیلی میڈیا نے اس دھشتگردانہ کاروائی کو مکمل کیوریج دی اور بہت ساری رپورٹوں میں یہ بیان کیا گیا کہ یہ قتل ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ اور موساد کے جاسوسی ایجنٹوں کے ذریعے انجام پایا تاکہ علاقے میں حالات کو تناؤ کا شکار بنائیں۔
 
رائے الیوم نے مزید زور دے کر کہا کہ موساد دہشت گرد تنظیم اب تک اسی طرح کی کاروائیاں کر چکی ہے اور اس سے قبل چار ایرانی سائنس دانوں کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کر چکی ہے اور وہ دیگر حساس اور اہم شخصیات کو مٹانے کے لئے اپنی کوششیں ترک نہیں کرے گی۔ اور اس بات کا قوی امکان پایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنی باقی ماندہ مدت میں اس کے مشابہ دیگر کاروائیاں کرنے سے گریز نہ کرے۔

اس کے بعد اخبار نے ایران کے انتقام کے معاملے پر توجہ دی اور لکھا ہے کہ جلد اور سخت انتقام کا امکان پایا جاتا ہے اور مقبوضہ علاقوں یا اس حکومت کے سفارت خانوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے، اور یہ اس سخت انتقام کا پیش خیمہ ہوگا جو جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد لینے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ جبکہ تاحال عراق میں امریکی اڈوں کو بڑے پیمانے پر میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور بغداد کے گرین زون پر مارٹر حملے کیے گئے، جہاں امریکی سفارت خانہ واقع ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کو اپنے 13 اڈوں کو کم کرکے تین اڈوں میں سمیٹنا پڑا ہے اور جنوری تک عراق سے 500 فوجی واپس بلانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

رائے الیوم نے پھر لکھا کہ ایران کے رہنما کبھی بھی امریکہ اور صہیونی حکومت کے جال میں نہیں آئیں گے اور دو اہم وجوہات کی بناء پر جلد جوابی کارروائی نہیں کریں گے: پہلی ، اس طرح کی کارروائیوں میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے وقت اور صحیح لوگوں کی ضرورت ہوگی۔ دوسری یہ ایران اپنے غصے کو پی کر انتقام کو موخر کرنے کے لیے آمادہ ہے اس لیے کہ اس کے بدلے میں اسے قابل قدر نتائج حاصل ہونے والے ہیں۔

اخبار نے آخر میں یہ لکھا کہ مذکورہ سطریں محض ایک تجزیہ ہیں اور پیش گوئوں پر مبنی ہیں ، لیکن آنے والے ہفتوں میں یقینا غیر متوقع واقعات سامنے آنے والے ہیں اور سخت انتقام یقینی ہے البتہ ہر قاعدہ میں استثناء کی گنجائش ہوتی ہے، اور اب تک بہت سارے ایرانی فوجی اور سیاسی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ خطے میں مزاحمتی گروپوں نے شہید محسن فخری زادے کے خون کا بدلہ لینے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس جرم کا بروقت اور مناسب انداز میں جواب دیں گے۔

 

نیتن یاہو کا دورہ حجاز

  • ۴۷۹


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کہا جاتا ہے کہ یہودی ریاست کی فوج کو اس دورے کی خبر نہیں دی گئی تھی؛ اور بن سلمان اس خبر کی اشاعت کا خواہاں تھا۔ بن یامین نیتن یاہو کو بظاہر اندرون ریاست شدید تنقید کا سامنا ہے اور سیکورٹی اداروں نے اس کے اس اقدام کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ صہیونی مبصرین کہتے ہیں کہ نیوم کے نئے سعودی شہر میں ملاقات کے افشا کے حوالے سے نیتن یاہو کے فیصلے نے بن سلمان کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہودی ریاست کے سیاسی ایجنڈے کو بھی منتازعہ بنایا ہے۔ وزیر جنگ بنی گانتز نے بھی اس خبر کے افشا کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ یہودی ریاست کے اخبار یسرائیل ہیوم نے کہا ہے کہ بن سلمان، نیتن یاہو کے ساتھ اپنی ملاقات کی خبر کی نشر و اشاعت کا خواہاں تھا اور یہ کہ یہ یہودی حکام کے ساتھ بن سلمان کی پہلی ملاقات نہ تھی۔
مغربی ایشیا کے امور کے سینئر تجزیہ نگار ڈاکٹر سید افقہی نے کہا: یہودی ریاست کا وزیر اعظم ایران اور محاذ مزاحمت کے خلاف محاذ قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے اور سعودی حکمرانوں سے تعلقات کی بحالی کا وعدہ لے کر اندرون خانہ اپنے ذاتی مسائل حل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کررہا ہے۔
ذرائع ابلاغ نے سوموار (23 نومبر 2020ع‍) کو خبر دی کہ نیتن نے یاہو اتوار کی شام کو خفیہ طور پر حجاز مقدس کے دور پر جاکر سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پامپیو اور یہودی ریاست کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے "موساد" کا سربراہ "یوسی کوہن" بھی اس موقع پر موجود تھے۔
یہودی ریاست کے وزیر تعلیم "یواف گالانت" نے سوموار کے دن اس دورے اور بات چیت کے سلسلے میں شائع ہونے والی خبروں کی تصدیق کردی۔
ادھر امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے بھی ایک سعودی اہلکار کے حوالے سے لکھا کہ یہودی وزیر اعظم اور سعودی ولیعہد نے تعلقات کی بحالی اور ایران کے بارے میں بات چیت کی ہے لیکن کسی مفاہمت نامے پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔
اسی سلسلے میں، اور اس حقیقت کے برعکس کہ وال اسٹریٹ جرنل سمیت مختلف ذرائع ابلاغ نے اس ملاقات کی تفصیلات بھی شائع کی ہیں، سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اپنے ٹوئیٹ پیغام میں اس دورے کی خبروں کی یکسر تردید کی ہے اور لکھا ہے: "میں نے مختلف ذرائع ابلاغ میں نیتن یاہو اور محمد بن سلمان کی ملاقات کے بارے میں کچھ رپورٹوں کا مشاہدہ ضرور کیا ہے لیکن ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور ملاقات میں صرف سعودی اور امریکی موجود تھے"۔
ادھر نیتن یاہو نے بھی اپنے دورہ حجاز اور سعودی ولیعہد کے ساتھ ملاقات کے بارے میں وضاحت دینے سے انکار کر دیا۔ اور ایک صہیونی اخبار نے بھی لکھا ہے کہ نیتن یاہو نے وزیر جنگ اور وزیر خارجہ کو اپنے دورے کے منصوبے سے آگاہ نہیں کیا تھا؛ اور وزیر جنگ "بنی گانتز" نے اس خفیہ دورے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "میں حجاز جانے والی خفیہ پرواز کے راز کے غیر ذمہ دارانہ افشا کی مذمت کرتا ہوں"۔
عراق کی النجباء اسلامی تحریک کے سیاسی شعبے نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا سعودی حکمرانوں کے اس اقدام کو خیانت اور غداری قرار دیا۔
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک نے حجاز مقدس میں بنی سعود کی طرف سے غاصب یہودی ریاست کے وزیر اعظم کی پذیرائی اور خیر مقدم کی شدید مذمت کی اور خبردار کیا کہ عرب حکام کی طرف سے یہودی ریاست کی غلامی اختیار کرنے موجودہ سلسلہ فلسطینی عوام پر وسیع اور طویل المدت یہودی جارحیت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عرب حکمران اور یہودی ریاست مل کر فلسطینی مظلومین کے خلاف وسیع جارحیت کے لئے ماحول سازی کررہے ہیں۔۔۔
ادھر حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ (حماس) کے راہنما اور سابق وزیر خارجہ محمود الزہار نے صہیونی وزیر اعظم کے دورہ حجاز پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ہمارا مسئلہ ملک حجاز نہیں ہے بلکہ مسئلہ وہ [سعودی] حکمران ہیں جو اس ملک پر مسلط ہوئے ہیں۔

جاری

 

موبائل اور کمپیوٹر سافٹ ویئرز اسرائیلی جاسوسی کے ہتھکنڈے

  • ۵۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل سے وابستہ بہت ساری کمپنیوں نے کمپیوٹر اور موبائل فون کے لیے ایسے سافٹ ویئر تیار کئے ہیں جن کے ذریعے وہ بآسانی صارفین کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔ ان کمپنیوں کا بظاہر جاسوسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں اسرائیلی جاسوسی ادارے انہیں خطیر رقم دے کر ان سے ایسے سافٹ ویئر تیار کرواتے ہیں جن کے ذریعے وہ جاسوسی کر سکیں۔ بظاہر یہ سافٹ ویئر کے میدان میں خود کو مستقل قرار دینے والی دنیا کی معروف کمپنیاں ہیں لیکن صہیونی ادارے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہو پاتی کہ جو سائٖٹ ویئر انسان کے موبائل فون میں ہے اس کے ذریعے صہیونی ادارے اس کی تمام معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
حال ہی میں سافٹ ویئر بنانے والی چند امریکی کمپنیوں کے بارے میں کچھ معلومات سامنے آئی ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ بظاہر یہ امریکی کمپنیاں ہیں لیکن ان کو چلانے والے صہیونی یہودی ہیں جو اس سے پہلے وہ اسرائیلی فوج کے سائبری اداروں میں ملازم رہے ہیں۔
اوناوو(Onavo) کمپنی
اوناوو کمپنی سافٹ ویئر بنانے والی وہ کمپنی ہے جس کی اسرائیلی فوج کے سپاہیوں نے بنیاد ڈالی۔ یہ کمپنی شروع شروع میں اسرائیل میں ایک مستقل کمپنی دکھائی دیتی تھی۔ اور فیس بوک نے ۲۰۱۳ میں اسے خرید لیا تھا۔ لیکن بعد میں جب فیس بوک کے صارفین نے اوناوو کمپنی کے جاسوسی کمپنی ہونے کا راز فاش کیا تو فیس بوک اس کے سافٹ ویئر ڈیلیٹ کرنے پر مبجور ہو گیا۔ (۱)
NSO Group
Omri Lavie نے اس کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ جریدہ فوربز کی رپورٹ کے مطابق، امری لاوی بھی اسرائیلی فوج کا آدمی ہے۔ جس نے آج تک کسی نامہ نگار کو انٹرویو نہیں دیا۔ اور اس کے بارے میں بہت کم اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ (۲) اس کی کمپنی اسرائیلی جاسوسی ادارے Ability Inc کے ساتھ بھرپور تعاون رکھتی ہے۔
اس سے قبل نیویورک ٹائمز نے بھی رپورٹ دی تھی کہ متحدہ عرب امارات نے اس کمپنی کے سافٹ ویئرز کے ذریعے قطری حکمرانوں کی جاسوسی کی ہے۔(۳)
 
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ۱۳ مئی ۲۰۱۹ کو اعلان کیا کہ این ایس او گروپ اپنی مصنوعات انسانی حقوق کو پامال کرنے والے ممالک کو بیچتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کی جاسوسی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس گروپ سے جاسوسی سرگرمیوں کو خاتمہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ (۴)
کینیڈا کی ٹورینٹو یونیورسٹی نے اپنی ایک تحقیق میں اعلان کیا کہ این ایس او گروپ اپنی مصنوعات کو بحرین، قزاقستان اور سعودی عرب جیسے ممالک کو دیتا ہے جو اپنے شہریوں کی جاسوسی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔(۵)
Palo Alto
پالو الٹو کمپنی بھی نیر زوک (Nir Zuk) نامی ایک اسرائیلی شخص کے ذریعے وجود میں لائی گئی۔ نیرزوک تل ابیب کے جنوبی علاقے میں پیدا ہوئے، انہوں نے ۱۹۹۰ سے ۱۹۹۴ تک اسرائیلی فوج کے سائبری شعبہ میں ٹریننگ حاصل کی۔ بعد از آں انہوں نے ۲۰۰۵ میں پالو آلٹو نامی کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ اس کمپنی کا اصلی دفتر کیلیفرنیا میں ہے۔ اس کمپنی کا مقصد سائبری حملوں کے مقابلے میں حفاظتی نٹ ورک قائم کرنا ہے۔ یہ کمپنی دنیا کے ۱۵۰ ملکوں میں ۶۰ ہزار کمپنیوں کو اپنا تعاون دیتی ہے۔ انتفاضہ الکٹرونیک ویبگاہ کے مطابق اس کمپنی کے مالک نے چونکہ اسرائیلی فوج کے سائبری شعبہ میں ٹریننگ حاصل کی ہے لہذا جو سافٹ ویئر یہ کمپنی تیار کر رہی ہے یقینا ان کے ذریعے جاسوسی کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ (۶)
 
حواشی
[۱] https://www.haaretz.com/.premium-facebook-buys-israeli-startup-onavo-for-150m-1.5273370
[۲] https://www.forbes.com/sites/thomasbrewster/2016/08/25/everything-we-know-about-nso-group-the-professional-spies-who-hacked-iphones-with-a-single-text/#3af074d73997
[۳] https://www.nytimes.com/2018/08/31/world/middleeast/hacking-united-arab-emirates-nso-group.html
[۴] https://www.amnesty.org/en/latest/news/2019/05/israel-amnesty-legal-action-stop-nso-group-web-of-surveillance/
[۵] https://citizenlab.ca/2018/09/hide-and-seek-tracking-nso-groups-pegasus-spyware-to-operations-in-45-countries/
[۶] https://electronicintifada.net/content/are-israels-spies-stealing-your-data/28051
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کیا یہ امریکی سیاست میں خوش آئند تبدیلی ہے؟

  • ۴۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ۔ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی پوری دنیا اور خاص طورپر مشرق وسطیٰ کے لئے خوش آئند مانی جارہی ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ کو شکست دیکر جو ئےبائیڈن امریکی صدارت کی کرسی حاصل کرچکے ہیں ۔جبکہ ٹرمپ نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں اور انہوںنے انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایاہے مگر انہیں اس سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔جوئےبائیڈین کی کامیابی کے بعدامید کی جارہی ہے کہ ٹرمپ کے دوراقتدار میںعالمی سطح پر جو بدامنی،ناچاقی ،سیاسی و تجارتی تعلقات میں کشیدگی، اور اقتصادی و معاشی بدحالی پھیل گئی تھی ،جو بائیڈن اس صورتحال پر جلد از جلد قابو پانے کی کوشش کریں گے ۔امریکہ ٹرمپ کو ان کے غیر عاقلانہ فیصلوں ،احمقانہ حرکتوں اور عالمی سیاست سے عاری سیاستمدار کی حیثیت سے کبھی بھلانہیں پائے گا ۔انہوںنے امریکی عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے تھے ،انکے پورے ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی اور عالمی سطح پر بھی انہوں نے امریکہ کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔یہ ایک ناقابل یقین حقیقت ہے کہ امریکی داداگیری اور اس کی طاقت کا دبدبہ ختم ہوچکاہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن امریکی طاقت کے دبدبے کی بحالی اور عالمی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے کونسی نئی حکمت عملی اختیار کریں گے ۔
قابل ذکر یہ ہے کہ ہند نژاد امریکیوں نے بھی بائیڈن کی کھل کر حمایت کی ہے ۔انہوں نے ’ہائو ڈی مودی‘ اور ’نمستے ٹرمپ‘ جیسےسیاسی اور ذاتی مفاد پر مبنی پروگراموں کو زیادہ اہمیت نہیں دی ۔جس علاقے میں ’ہائو ڈی مودی ‘ پروگرام منعقد ہوا تھا ،وہاں بائیڈن کو اکثریت حاصل ہوئی ہے ۔امریکی ہندوستانی عوام نے یہ ثابت کردیاکہ وہ جھوٹ اور فریب کی سیاست کو اکھاڑ پھینکنے میں یقین رکھتے ہیں ۔جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس پروگرام میں کھل کر ٹرمپ کی حمایت میں تقریر کی تھی ۔انہوں نے نعرہ دیا تھا کہ ’اس بار پھر ٹرمپ سرکار‘،مگر ٹرمپ کے حق میں وزیر اعظم مودی کی انتخابی تشہیر پر ہندوستانی عوام نے دھیان نہیں دیا ۔انہوں نے وہی فیصلہ لیا جو ان کے حق میں بہتر تھا ۔کیونکہ ٹرمپ کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ دوستی سے ہندوستان کو کوئی خاص اور بڑا فائدہ حاصل نہیں ہوا۔دونوں کے تعلقات ذاتی نوعیت کے تھے جس کا ہندوستانی مفادات کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔اس کے باوجود بھکتوں کی ٹولی ٹرمپ کی شکست سے آزردہ خاطر ہے ۔انہیں لگتاہے کہ بائیڈن ان کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوں گے ۔شاید انہیں علم نہیں ہے کہ ذاتی تعلقات اور دونوں ملکوں کی سالمیت پر مبنی سیاست دوالگ الگ چیزیں ہیں۔امریکہ نے ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کیاہے ۔بارہا ٹرمپ نے بھی اس دوہرے رویہ کا اظہار کیا مگر وزیر اعظم مودی اپنی ٹرمپ نوازی میں ان کے اس دوہرے رویے سے چشم پوشی کرتے رہے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی احمقانہ اور بصیرت سے عاری سیاست نے مشرق وسطیٰ کو بھی کم نقصان نہیں پہونچایا ہے ۔ایران اور چین کے ساتھ اس کے بگڑتے تعلقات پوری دنیا کے لئے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پرکیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔ساتھ ہی چین جیسے اقتصادی سُپر پاور کے ساتھ امریکی تعلقات میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ یہ دو اہم باتیں ہیں جن پر دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں ۔ٹرمپ نے یک طرفہ کاروائی کرتے ہوئے جوہری معاہدہ سے فرار اختیار کیا تھا ،جبکہ عالمی سیاست کے پیش نظر یہ فیصلہ درست نہیں تھا ۔عالمی سطح پر ٹرمپ کے اس فیصلے کی بھر پور مخالفت کی گئی مگر انہوں نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی زحمت نہیں کی ۔ایران پر مسلسل معاشی پابندیوں کے اضافے نے ایرانی عوام کو امریکہ سےبددل کردیا ہے ۔ خاص طرپر عراق میں جنرل قاسم سلیمانی کے قافلے پر بزدلانہ اوردہشت گردانہ حملے نے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھادی تھی۔جوابی کاروائی میں ایران نے عراق میں واقع امریکی’عن الاسد‘ ائیربیس پر میزائلوں سے حملہ کردیا تھا جس میں امریکی فوج کا بھاری نقصان ہوا تھا۔لہذا اب امریکہ ایران سے نرم گفتاری اور خارجہ سیاست میں تبدیلی کی امید نہیں کرسکتا جب تک اس کی طرف سے اس سلسلے میں پیش رفت نہیں ہوتی ہے۔ساتھ ہی روس کے بڑھتے ہوئے سیاسی و فوجی اثرات پر قابو پانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی صہیونت نوازی بھی کسی سے مخفی نہیں رہی ہے ۔وہ اپنے داماد جارڈ کشنز کی محبت میں صہیونی سیاست کا بری طرح شکار ہوئے ۔سب سے پہلے تو انہوں نے اسرائیل کو مستقل حیثیت دیکر عالم اسلام کے خلاف محاذ آرائی کی ۔یہ الگ بات ہے کہ اکثر مسلمان حکومتیں ان کی حمایت میں کھڑی ہوگئیں اور انہوں نے بھی اسرائیل کی مستقل حیثیت کو قبول کرنے میں تأمل سے کام نہیں لیا ۔مگر عالمی سطح پر مسلمان امریکی سیاست سے بدظن ہوگئے ہیں اور یہ پہلی بار ہواہے کہ دنیا کے تمام مسلمانوں نے مشترکہ طورپر امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کے خلاف آواز احتجاج بلند کی ۔اس مخالفت کو مسلمان ممالک کی حمایت سے الگ ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔دوسری طرف یروشلم کو اسرائیلی پایۂ تخت تسلیم کرنے کی امریکی سیاست کا اثر بھی مشرق وسطیٰ پر مرتب ہواہے ۔فلسطینی مقاومتی تنظیمیں اور فلسطین کے حامی دیگر ممالک بھی اس غیر سیاسی اقدام کے خلاف متحد ہوئے ہیں ۔جارڈ کشنز جو استعماری ایجنٹ ہے اور استعمار کے اشارے پر ہی اس نے ’صدی معاہدہ ‘ کا پلان ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ جاری کرواکے امریکہ کی صہیونیت نوازی کو طشت از بام کردیا تھا ۔’صدی معاہدہ‘ کو مقاومتی محاذ نےسراسر فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ قراردیا تھا مگر اسرائیل امریکہ کے تعاون سے اس معاہدہ کے نفاذ کے لئے ہاتھ پیر ماررہاہے ۔بائیڈن اس معاہدہ کے دورس نتائج سے باخبر ہیں۔اس معاہدہ پر ان کا مؤقف عالمی سیاست پر اثر انداز ہوگا ،اس لئے ابھی یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ جوئےبائیڈن فلسطین اور اسرائیل کو لیکر کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
عالمی و علاقائی مسائل سے ہٹ کر امریکہ کے داخلی مسائل بھی کم نہیں ہیںجن کو حل کرنا نومنتخب امریکی صدر کے لئے بڑا چیلینج ہوگا ۔کوڈ-19 ابھی ختم نہیں ہواہے ۔اس وباسے امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہے اور اموات کی شرح بھی قابل تشویش ہے ۔ٹرمپ نے کوڈ -19پر کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا ۔وہ ہمیشہ کی طرح لاپرواہ اور غیر ذمہ دار نظر آئے جس کا خمیازہ امریکی عوام کو بھگتنا پڑرہاہے۔ایمگریشن قانون میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس پر بائیڈن نے انتخابی تشہیر کے دوران بھی کھل کر بات کی تھی ۔نسلی و صنعتی مساوات امریکہ کے لئے ایک اہم موضوع ہے ۔اسقاط حمل کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے جس پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا ۔اقتصادی و معاشی بدحالی جو کورونا کے وبائی عہد میں اپنے عروج پر ہے ،ناٹو ممالک سے تعلقات میں کشیدگی جس کی ساری ذمہ داری ٹرمپ کی غیر ذمہ دارانہ سیاست پر عائد ہوتی ہے ،روس کے ساتھ تعلقات کی اہمیت اور روس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے مد نظر سیاسی حکمت عملی کی ترتیب نو،پرانے اور نئے تجارتی معاہدات پر غوروخوض،اور ایران و چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ،ایسے مسائل ہیں جن پر جوئےبائیڈن کی خصوصی توجہ ہوگی ۔ظاہر ہے بائیڈن کے پاس الہٰ دین کا چراغ نہیں ہے کہ وہ ٹرمپ کی خراب کردہ صورتحال پر اچانک ایک آدھ دن میں قابوپالیں گے ،لیکن اگر بائیڈن ان مسائل پر ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ کام کریں گے تو امید ہے کہ بہت جلد مثبت نتائج ظہور پذیر ہوں گے ۔

فرانسیسی نوجوانوں کے نام امام خامنہ ای کا مختصر پیغام آفاق عالم میں گونج اٹھا

  • ۳۴۶

گزشتہ سے پیوستہ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ان دنوں صہیونی-یہودیت کے خلاف اٹھنے والے جذبات یورپی عوام کے درمیان شدت سے ابھر چکے ہیں، اور یورپی حکومتوں کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے حساس مراکز میں صہیونی یہودیوں کی موجودگی کے خلاف احتجاج و اعتراض میں مسلسل تیزی آ رہی ہے۔ بطور مثال فرانس میں پیلی جیکٹوں والوں کی تحریک کا ایک اعلان شدہ بنیادی مقصد یہ ہے کہ اپنے ملک کے اقتصادی مراکز کو یہودی-صہیونیوں کے چنگل سے چھٹکارا دلائیں۔
ادھر جرمن وفاقی پارلیمان (German federal parliament OR Bundestag)، 598 عوامی نمائندوں سے تشکیل پائی ہے؛ تین کروڑ کی جرمن آبادی میں ایک لاکھ پچاس ہزار یہودیوں کا تناسب 0.5 فیصد ہے جبکہ 598 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں یہودی اراکین کی تعداد 100 اور تناسب 17 فیصد کے قریب ہے جبکہ زیادہ تر یہودی جرمن نژاد بھی نہیں ہیں۔
یا آج سے دو ہی دن قبل برطانوی لیبر پارٹی - جو کہ برطانیہ کی ایک بڑی اور قومی سطح کی جماعت ہے - کے سینئر رکن اور سابق سربراہ جیریمی کوربین (Jeremy Corbyn) کو - جو برطانیہ میں وسیع مقبولیت کے حامل بھی ہیں - صہیونیت کے خلاف احتجاج کی پاداش میں پارٹی سے نکال باہر کیا گیا ہے اور اس وقت برطانیہ میں یہودی-صہیونیت اور یہودی ریاست کی بےجا مداخلتوں کے خلاف وسیع احتجاجی لہریں اٹھ چکی ہیں جو پورے برطانیہ میں پھیل سکتی ہیں۔
6۔ رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام ایک اور اہم نکتے کا بھی حامل ہے - جس کو لُبِ لباب، اصلِ مَطلَب، حاصِلِ مَطلَب اور عصارہ یا نچوڑ بھی کہا جاسکتا ہے - اور وہ یہ کہ جیسا کہ رہبر انقلاب کا پیغام بخوبی واضح کررہا ہے کہ "فرانسیسی صدر کا مسئلہ بیان اور اظہار کی آزادی کا تحفظ نہیں ہے"، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر فرانس میں نہ صرف ہالوکاسٹ کے بارے میں تحقیق و تفتیش کو جرم سمجھا جاتا ہے بلکہ یہودی مقتولین کی تعداد میں شک و تردد اور کمی بیشی کو بھی، قابل گرفت جرم کیوں سمجھا جاتا ہے؟
امام خامنہ ای نے اپنے مختصر سے پیغام میں اس کڑوی حقیقت کو طشت از بام کردیا ہے کہ جس چیز نے فرانسیسی صدر اور دوسری مغربی ممالک کو تشویش اور خوف و دہشت کی اتہاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے، خالص محمدی اسلام کا روزافزوں فروغ ہے، وہی جس نے گذشتہ 41 برسوں کے دوران استکباری ممالک اور خونخوار اور لٹیرے صہیونی-یہودیوں کو شدید گھٹن میں مبتلا رکھا ہؤا ہے اور مسلسل بلندیوں کی طرف بڑھ رہا ہے یہاں تک کہ فلک میں شگاف ڈال دے اور عالمی نظآم کے لئے ایک نیا منصوبہ جاری کرے۔
اور بالآخر، یہ پیغام ایک اور اہم نکتے کا بھی حامل ہے جس پر وقت آنے پر روشنی ڈالیں گے۔

 

مختصر پیغام آفاقی اثرات (۲)

  • ۳۸۰

گزشتہ سے پیوستہ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج تک درجنوں نامور یورپی مؤرخین اور سینکڑوں مشہور اور ماہر پروفیسروں نے تاریخی دستاویزات کا جائزہ لیتے ہوئے ایسی دستاویزات فراہم کی ہیں جنہیں کوئی بھی تجزیہ نگار اور مؤرخ ان کی درستی اور صداقت میں شک نہیں کرسکتا۔ انھوں نے بالکل علمی روش سے ثابت کردیا ہے کہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل ایک جھوٹا افسانہ ہے؛ انسان سوزی کی بھٹیوں کا وجود تک نہیں تھا؛ انسانوں کے جلانے کے لئے بنائے گئے گیس چیمبرز کا وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب جھوٹے یہودی افسانوں کا حصہ اور صہیونیوں کی داستانیں ہیں، خالصتاً جھوٹی داستانیں، جعلی افسانے، جن کے مقصد [عالمی جنگ کے آٹھ کروڑ مقتولین کے قتل پر پردہ ڈالنے] سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؛ یہ افسانے عالمی جنگ کی بھینٹ چڑھنے والے بےگناہ انسانوں کی حق تلفی اور نہایت مجرمانہ فعل ہے۔ ان عظیم محققین میں سے پروفیسر راجر گارودی، (اور بعد از قبول اسلام رجا گارودی  Roger Garaudy یا Ragaa Garaudy)، پروفیسر ڈآکٹر رابرٹ فاریسن (Robert Faurisson)، پروفیسر اور کتاب " آؤشوِٹس کا جھوٹ (The  Auschwitz Lie) کے مصنف پروفیسر تھائیز کرسٹوفرسین (Thies Christophersen) شامل ہیں۔ البتہ راجر گارودی اور رابرٹ فوریسن دونوں فرانسیسی ہیں، دونوں جدیدترین ہیں اور دونوں سب سے زیادہ عبرت آموز ہیں۔
4۔ پروفیسر رابرٹ فوریسون فرانس کی مشہور لیون یونیورسٹی (University of León) کے استاد اور عالمی تاریخی دستاویزات کے ماہرترین تجزیہ نگار کے طور پر عالمی شہرت کے حامل شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنی علمی اور مستند تحقیقات کو اپنی کتاب "گیس چیمبرز کا مسئلہ" (The Problem of the Gas Chambers) میں مرتب کیا ہے۔  
انھوں نے ہزاروں دستاویزات کا جائزہ لیا ہے، اور تحقیق کے ان برسوں کے دوران تمام صہیونیوں کے افسانوں میں مذکورہ تمام مقامات - بشمول گیس چیمبرز، انسان سوزی کی جعلی بھٹیوں کا میوزیم، میونخ کے جعلی ڈاخاؤ حراستی کیمپ (Dachau concentration camp) وغیرہ - کا معائنہ کیا ہے اور سینکڑوں عینی شاہدین کے ساتھ بیٹھ کر نہایت باریک بینانہ روشوں سے، بات چیت کی ہے اور آخر کار بغیر کسی ذاتی رائے یا تجزیئے کے بغیر، اور صرف اور صرف دستاویزات کے زبانی، واضح کردیا ہے کہ نازی جرمنی میں یہودیوں کا قتل عام ایک عظیم تاریخی جھوٹ اور رائے عامہ کو دیا جانے والا شرمناک فریب ہے؛ اور اس طرح کا جھوٹ اور فریب وحشی صہیونیوں اور مکار یہودیوں سے بالکل بعید نہیں ہے اور وہ ان روشوں کو پوری تاریخ میں دہراتے رہے ہیں۔
بطور مثال فوریسن گیس چیمبرز کی جعلی تصویروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس دعوے کے مسترد کرتے ہوئے ناقابل انکار دستاویزات سے استناد کرکے، حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں: اگر یہ تصویریں حقیقت پر مبنی ہیں تو جرمن سپاہی مبینہ مہلک گیسوں سے بھرے ہوئے ہالوں میں ماسک اور کسی بھی قسم کی حفاظتی تدابیر اور منہ، ناک اور آنکھوں کے بچاؤ کے لئے کوئی اقدام کیئے بغیر، کھڑے نظر آرہے ہیں اور جن کیسوں سے وہ یہودیوں کو ہلاک کررہے ہیں وہ گیسیں ان کو ہلاک نہیں کررہی ہیں اور وہ بڑی تسلی کے ساتھ یہودیوں کی جان کنی کے مناظر کا نظارہ کررہے ہیں؟؟؟ انھوں نے کچھ صہیونی-یہودیوں کے دعوے کے موافق کچھ یہودیوں کا محاصرہ کرنے والے ٹینکوں کی حامل تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے ناقابل انکار دستاویزات کے سہارے کہتے ہیں کہ یہ ٹینک جرمن نہیں بلکہ برطانوی ہیں!!!
5۔ امام خامنہ ای مذکورہ سوال اٹھا کر ایک طرف سے فرانس اور دوسری یورپی حکومتوں کے ہاں کے آزادی بیان کے دعوے کو مضحک قرار دیتے ہوئے یورپی رائے عامہ - اور بطور خاص یورپی نوجوانوں کو - ہالوکاسٹ کے افسانے کا جائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں؛ کہ یقینا اس قسم کی تحقیقات کا فیصلہ کن نتیجہ یہ ہوگا کہ اس افسانے کی حقیقت فاش ہوجائے گی اور اس کا جعلی پن طشت از بام ہوجائے گا۔ البتہ امام خامنہ ای کا سوال ہالوکاسٹ کے جعلی پن پر ہی نہیں رکتا بلکہ آپ فرانسیسی حکومت سمیت یورپی حکومتوں کی سیاسی خودمختاری پر بھی سوال اٹھاتے ہیں، جہاں حتی کہ ہالوکاسٹ کے بارے میں شک و تردد بھی ایک جرم ہے۔

 

مختصر پیغام آفاقی اثرات (۱)

  • ۵۸۹

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے حال ہی میں فرانسیسی نوجوانوں کے نام اپنے ٹویٹ پیغام میں فرانس کی حساس ترین دکھتی رگ پر انگلی رکھی ہے اور جمہوریت اور اس ملک سمیت مغربی دنیا کی طرف کے جمہوریت اور آزادی بیان کے بےبنیاد دعوے کو چیلنج کردیا ہے۔ آپ فرانسیسی نوجوانوں سے فرماتے ہیں کہ "اپنے صدر جمہوریہ سے پوچھ لیجئے کہ ہالوکاسٹ میں شک و شبہہ کرنا جرم ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی شان میں گستاخی مُجاز ہے؟"
یہ ایک دو طرفہ سوال ہے جو نہایت زیرکی اور کیاست سے جنم  لے چکا ہے اور اس کے دونوں رخ فرانس کے شاتم سربراہ کے لئے شرمناک اور بدنام کنندہ ہیں۔ اس سلسلے میں کہنا چاہئے:
1۔ امام خامنہ ای بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کا پیغام جاری ہونے کے فورا بعد پوری دنیا کی وسعتوں میں پھیل جائے گا۔ یعنی یہ کہ اس پیغام کا خطاب صرف فرانسیسی نوجوانوں سے نہیں ہوگا لیکن رہبر انقلاب کے پیغام کا رخ فرانسیسی نوجوانوں کی طرف ہے۔ یہ پیغام صدر فرانس کو نہایت اعلانیہ طور پر تذلیل کرتا ہے اور اس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ "صدر فرانس اپنے اقدام کی خباثت سے بخوبی آگاہ تھا چنانچہ وہ اس قابل نہ تھا کہ امام خامنہ ای جیسی ہستی کے پیغام میں اس کو مورد خطاب قرار دیا جائے"۔
2۔ ہالوکاسٹ ایک عظیم تاریخی جھوٹ ہے اور بےشمار دستاویزات اور شواہد دستیاب ہیں جو اس صہیونی-یہودی افسانے کے جعلی پن کو ثابت کرتے ہیں۔ مغرب ہالوکاسٹ کے حوالے سے بہت فکرمند اور بےچین ہے اور اس کی بےچینی خوف و وحشت کے ساتھ گھل مل چکی ہے؛ اور اگر ایسا نہ ہوتا اور تحقیقات اور تجزیوں سے ہالوکاسٹ کے وقوع کی گواہی ملنے کا امکان ہوتا تو یقینی امر ہے کہ مغرب اور یہود کے سرکردگان نہ صرف اس بارے میں کسی تحقیق سے خوفزدہ نہ ہوتے، بلکہ دوسروں کو بھی اس قسم کی تحقیق کی دعوت دیتے اور انہیں اس کام کی ترغیب بھی دلاتے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس مختصر سے پیغام میں اس عظیم جھوٹ کے کیس کو دنیا والوں کے سامنے کھول دیا ہے۔ ایسا سیاہ اور شرمناک کیس، جس کے کھل جانے سے یہودی بھی اور ان کے حامی مغربی حکمران بھی، خوفزدہ ہیں۔
3۔ ہم نے قبل ازیں اخبار "کیہان" میں ہالوکاسٹ کے جعلی پن کے اثبات کے لئے بےشمار دستاویزات پیش کی ہوئی ہیں اور اس مضمون میں ہم ان دستاویزات کی طرف مختصر سا اشارہ کرتے ہیں۔
پیئر ایمانوئل ودال - نیکیٹے، (Pierre Emmanuel Vidal-Naquet)، اور سرج ویلز (Serge Weils) اور فرانسوا براریدا (François Braryda) نے فرانس کے یہودی ربی رینے - سیموئل سپراٹ (Rene-Samuel Sprat) کی سربراہی میں، دوسری جنگ عظیم میں "ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل عام کے جھوٹے افسانے" کو دستاویز بنا کر ایک قانون کا مسودہ تیار کرکے منظور کروایا اور [اس جھوٹ کو چھپانے کی غرض سے] اس قانون کے تحت "ہالوکاسٹ میں کسی بھی قسم کا شک کرنا، یا دوسری عالمی جنگ میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل کی تعداد میں کمی بیشی کرنا، نیز یہودیوں کے جلانے کے لئے گیس چیمبرز کی موجودگی میں شک کرنا، جرم سمجھا جائے گا اور جو بھی فرانس میں اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا اور مذکورہ تین موضوعات میں شک و تذبذب کا اظہار کرے گا، اس کو ایک مہینے سے ایک سال تک قید اور 2000 سے 3000 فرانک تک کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا"۔ بعدازاں امریکہ اور بین الاقوامی یہودی ایجنسی کے دباؤ کے تحت یہ قانون دوسرے یورپی ممالک میں منظور کروایا گیا، اور آج صورت حال یہ ہے کہ آج مبینہ ہالوکاسٹ اور اس کے پہلؤوں اور اجزاء میں کسی قسم کا شک و تردد یورپ کی حدود میں قابل گرفت جرم سمجھا جاتا ہے۔

 

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بنتا ماحول اور ہماری ذمہ داری

  • ۳۹۱

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
ہمارا ملک ایک متلاطم دور سے گزر رہا ہے ، ایسے دور سے جہاں چیخوں کے دوران حق بات کو دبانے کی کوشش کرنے والے کچھ بہروپیے شور شرابہ کے ذریعہ ہنگامہ آرائی کےذریعہ یہ چاہتے ہیں ایک ترقی پذیر ملک کو ایک پچھڑے ملک میں بدل دیں  ،لیکن یاد رکھیں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ شور شرابہ ہنگامہ آرائی کچھ دیر ہی رہ سکتی ہے ہمیشہ نہیں دوسری بات حق کی اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ سر ضرور اٹھاتا ہے ، اسے دبایا نہیں جا سکتا اسے کچلا نہیں جا سکتا ،ہمارے سامنے  ہاتھرس کا دل دہلانے والا واقعہ اور اس پر ناعاقبت اندیشوں کی سیاست بھی ہے اور ہمارے سامنے بابری مسجد کی کیس کی شنوائی کے بعد آنے والا فیصلہ بھی، ہاتھرس کے واقعہ کے سلسلہ سے زیادہ کچھ  کہنے کی ضرورت  نہیں جو بھی ہے سب کے سامنے ہے ہمیں ایسے میں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا دین اس قسم کے حوادث کے پیش نظر ہم پر کیا ذمہ داری عائد کرتا ہے ہمیں ان حالات میں  یہ جاننا ضروری ہے کہ  ہمارے دین کا مطالبہ ہم سے کیا ہے ؟
 جب ہم اپنے دین کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ دین واضح الفاظ میں یہی کہتا ہے کہ  کہیں ظلم ہو تو خبردار تم ایسی جگہ نظر نہ آنا جہاں ظالموں کا مسکن ہو ، ہمیشہ مظلوموں کی حمایت میں کھڑے نظر آنا اور انشاء اللہ ہم ہرگز اپنے دین کی تعلیمات کو فراموش نہیں کریں گے ، ان مظلوموں کے ساتھ ہر جگہ کھڑے رہیں گے جو اپنے حق کے لئے لڑ رہے ہیں چاہے وہ جہاں بھی ہوں ، اب جہاں تک بات مسلسل ہمارے خلاف بنتی ہوئی فضا کی بات ہے ، اور خاص کر بابری مسجد کے کیس کا مسئلہ تو یہ بھی سب پر واضح ہے کہ فیصلہ کے پیچھے یقینا ایک فیصلہ رہا ہوگا تبھی اس انداز میں عدالت نے اپنا موقف پیش کیا  ہے یہاں پر یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ ہمیں اپنی جوان نسل کو نئی پیڑی کو جگائے رکھنا ہوگا اسے بتانا ہوگا کہ ہم نے اس ملک کے لئے کیا قربانیاں دی ہیں ، گاندھی جی کے اصول کیا تھے اور یہ ملک کہاں جا رہا ہے  اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم خود ایک پختہ سیاسی تجزیہ کے حامل ہوں ، صرف نیوز چینلوں کی خبروں میں گم نہ ہو جائیں خود سمجھیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے.
کتنی عجیب بات ہے کہ بعض اپنے ہی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ چلو ایک عرصہ کا جھگڑا ختم ہوا فیصلہ تو آیا، یہ لوگ ہر بات میں ملک کی بہتری کی بات کرتے ہیں کہ لڑنے جھگڑنے سے کیا فائدہ؟ ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ لڑائی جھگڑے سے کیا فائدہ لیکن لڑائی جھگڑا الگ بات ہے حق کو حق کہنا ایک الگ معاملہ ہے ۔
بابری مسجد کے کیس کے حالیہ فیصلہ کو لیکر جو سوال ذہنوں میں آ رہے ہیں اسکا تعلق کسی مذہب یا خاص ذات سے نہیں ہے بلکہ ہر بیدار انسان سوال کر رہا ہے ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک مسجد کو گرانے کے سلسلہ سے عدالت کو کوئی ثبوت بھی نہیں ملتا جب کہ واضح ہے کہ مسجد کو توڑا گیا وہ اپنے آپ نہیں گری ، ایک طرف  لبراہن کمیشن کی رپورٹ ہے جو کہہ رہی ہے سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے ہوا دوسری طرف  اس رپورٹ  کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عدالت کا فیصلہ ہے ، کتنا عجیب ہے جہاں یہ نعرے لگ رہے ہو ں ایک دھکہ اور دو بابری مسجد توڑ دو اور نعرے لگانے والوں کی تصاویر انکی ویڈیو موجود ہوں اسکے باوجود عدالت کا فیصلہ انہیں کے حق میں آئے جو نعرے لگا رہے تھے تو ایسے میں سمجھ لینا چاہیے کہ معاملہ کیا ہے   اور ہمارا ملک اب کس ڈھرے پر چل پڑا ہے ، ایسے میں ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے جاگنے کی ضرورت ہے اس بات کے احساس کی ضرور ت ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور آگے کی ہو سکتا ہے ، ہمیں بیدار رہتے ہوئے اپنے اطراف و اکناف کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بزرگوں نے جس ملک کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں کچھ لوگ اگر وہاں انصاف کا خون کرکے اپنی جیت کا پرچم لہرا رہے ہیں تو یہ محض ہماری ہار یا انکی جیت کا معاملہ نہیں ہے یہ ایک ملک کی بقا اور اسکی سالمیت کا معاملہ  ہے لہذا ہمیں بغیر مشتعل ہوئے بغیر آپے سے باہر ہوئے اپنا ایک تجزیہ کرنا ہوگا کہ آج ہم اس مقام پر کیسے پہنچے کے کچھ لوگ ہمارے ہی ملک میں ہمارے خلاف فضا بنا کر جس طرف چاہیں ملک کو لے کر چل دیں ، یہ اس لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں ہم اہلبیت اطہار علیھم السلام کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں  اگر ہم اپنے وطن و ملک کی تعمیر و ترقی کی فکر نہ کریں گے تو کون کرے گا ؟

 

جوش میں ہوش کی ضرورت

  • ۴۲۵

بقلم سید نجیب الحسن زیدی

الحمد للہ اس بار بھی سید الشہدا علیہ السلام کا چہلم دنیا کے مختلف گوشوں میں کرونا کی وبا کے باوجود بہت ہی تزک و احتشام سے منایا گیا، شیعان اہلبیت اطہار علیھم السلام نے حفظان صحت کے اصولوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے اظہار عشق میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اتنی خطرناک وبا کے باوجود عراق میں ڈیڑھ کروڑ کے مجمع کا اکٹھا ہو جانا معمولی بات نہیں ہے،  عراق کا ذکر تو اپنی جگہ اس بار چہلم کے موقع پر پاکستان میں جو کچھ ہوا  وہ لائق تحسین ہے ،دوست داران اہلبیت اطہار علیھم السلام نے بلا تفریق مذہب و ملت  سعودی و یہودی  گماشتوں  کی جانب سے فرقہ واریت  کی لگائی آگ پر اپنے حلم و صبر سے اور بروقت اپنے موقف کے اظہار کے ذریعہ یوں پانی ڈال دیا کہ  ان کے سارے منصوبے خاک ہو گئے ، یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ ہے کہ سامراج کا مزاج ہے جب وہ ایک جگہ ناکام ہوتا ہے تو اسی سے ملتی جلتی دوسری جگہ پر  اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے لہذا ہمیں  بچے ہوئے ان ایام میں  جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات حسر ت آیات کے ساتھ سبط اکرامام مجتبی علیہ السلام کی شہادت  کے ایام بھِ ہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ ایسا کچھ نہ ہو کہ پاکستان  میں ناکام ہونے کے بعد سامراج کہیں ہمارے یہاں  انتشار پھیلانے کی کوشش نہ کرے وہ آگ جو وہاں شعلے نہ پکڑ سکی کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یہاں  پہنچ جائِے یقینا یزید لائق لعنت ہے تھا اور رہے گا  حسینت کے مقابل ہمیشہ یزیدیت کو شکست ہوتی رہی اور آگے بھی ہوگی ، ایسے میں ہمیں اس بات پر توجہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا موقف اور نظریہ تو واضح ہے نہ ہم یزیدیت  کے سامنے خاموش بیٹھ سکتے ہیں نہ یزید کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والوں کے لئے ہمارے دل میں کوئی جگہ ہے اور نہ ہی ہم بد سے بدتر حالات میں ولایت حید ر کرار ع کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کر سکتے ہیں ، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہمیں فتنے کو سمجھتے ہوئے ان لوگوں کو سمجھنا ہے جنکی تعداد بہت کم ہے اور وہ خود برادران اہلسنت کے درمیان منفور ہیں انکی کوئی جگہ نہیں لیکن ان کی کوشش یہ ہے کہ یہ باور کرایا جائے کہ یزید کو امیر ماننے والے کم نہیں ہیں  یزید کی غلطیوں کو مسترد کر کے اسے مجرم ماننے والے کم نہیں ہیں ۔ہمیں متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی طرح ایسا عمل نہ ہو کہ جس سے ان برادران اہلسنت کی دل آزاری ہو جو ہم سے زیادہ بڑھ چڑھ کر یزید کی حمایت کرنے والوں کے خلاف میدان میں ہیں اور ہم سے زیادہ کھل کر وہ حسینت کا دفاع کر رہے ہیں یہ سب ہمارے بھائی ہیں ، تھوڑا سا نظریاتی فرق ضرور ہے لیکن اگر ہم نے تھوڑا صبر و تحمل سے کام لیا تو یہ بھی ختم ہو جائے اس لئے کہ جو در حسین ع تک آ گیا اسے ظہیرقین  و حر بنتے دیر نہیں لگتی ،اور اس بات پر بھی توجہ رہے کہ یہ جو کچھ پڑوس میں ہو رہا ہے کہ مذہبی معاملہ نہیں ہے  یہ ایک سیاسی معاملہ ہے ، جو کچھ عربوں نے کیا ہے اور فلسطین کی پیٹھ میں جو خنجر مارا گیا ہے عین ممکن ہے  اسکی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ سب کھیل ہو رہا ہو ، لیکن ذلت کا یہ داغ ایسا داغ ہے جو یہ عرب ممالک اتنی آسانی سے نہیں مٹا سکیں گے اس لئے کہ اب ساری دنیا کے مسلمان بیدار ہو رہے ہیں اور حالات کا تجزیہ کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے ۔