متحدہ عرب امارات کی فلسطین کے خلاف سازشوں کی لمبی تاریخ

  • ۴۳۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حماس کے کچھ ذرائع نے بتایا کہ فلسطینی مزاحمت کے خلاف متحدہ عرب امارات کی سازش کی ایک لمبی تاریخ ہے اور ابو ظہبی کے حکمران کئی سالوں سے صیہونیوں کی خدمت کر رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات ، گر چہ حال ہی میں صہیونی ریاست سے تعلقات کو معمول پر لانے میں پیش قدم ہوا ہے لیکن فلسطینی مزاحمتی گروہوں پر عرب امارات کی جانب سے دباؤ ڈالے جانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔

متحدہ عرب امارات کی "عرب دنیا میں فلسطینی مزاحمت کی حمایت کے ذرائع کو ختم کرنے کے لئے گذشتہ دہائی میں وسیع کوششوں" پر تنقید کرتے ہوئے ، کچھ فلسطینی مزاحمتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ملک دوسرے عرب ملکوں کے مقابلے میں صہیونی ریاست کے مطالبات پر پورا اتر آیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی مزاحمتی گروہوں اور فلسطینی قوم کی حمایت کے حوالے سے متحدہ عرب امارات نہ صرف خاموش نہیں رہا بلکہ مزاحمتی گروہوں کے کمانڈروں کو گرفتار کر کے اور ان کی جائداد ضبط کرکے اسرائیل سے اپنی دلی محبت کا ثبوت دیتا رہا ہے۔  

موجودہ وقت میں متحدہ عرب امارات نے فلسطینیوں کے "اثاثوں کو تبدیل کرنے کا عمل روک دیا اور انہیں ضبط کرلیا۔" اس کے بعد اس نے حماس کے درجنوں رہنماؤں اور ان سے وابستہ افواج کو گرفتار کیا۔ ان میں سے متعدد افراد کو [اماراتی] سیکیورٹی خدمات نے ان کی کمپنیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جو حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کو امداد فراہم کرتی تھی۔  

ذرائع نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں مرنے والے افراد میں سے ایک حماس کے پولیٹیکل بیورو کے ممبر موسی ابو مرزوق کا رشتہ دار تھا۔ اس شخص کو عرب ممالک کی ثالثی کے بعد جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ فلسطینی کاروباری شخصیات عبد العزیز الخالدی ایک اور شخص ہے جسے 45 دن تک حراست میں لیا گیا اور اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ذرائع کے مطابق ، ابوظہبی عہدے داروں نے حماس سے وابستہ فلسطینی شخصیات کی ملکیت میں چار کمپنیوں کو بھی بند کردیا ، ان کی ملکیت ضبط کرلی اور ان کے مالکان کو اس بہانے سے برطرف کردیا کہ انہوں نے حماس کی حمایت کی ہے یا ان کے رشتہ دار اس تحریک کے ممبر ہیں۔

حماس کے ایک ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت، سعودی عہدیداروں کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ حماس کے قریبی رہنما اور فوجیں ملک کے اندر ہیں۔ اس کے نتیجے میں ریاض میں ان کے درجنوں افواج کو گرفتار کیا گیا۔ ذرائع نے وکی لیکس کی دستاویزات کی تصدیق کی ہے کہ سعودی عرب میں حماس فورسز کی نظربندی اور تشدد کے تحت اعتراف جرم کرنے کی ان کی مجبوری ہے۔

فلسطینی سکیورٹی ذرائع نے یہ بھی زور دیا کہ متحدہ عرب امارات نے حالیہ برسوں میں غزہ کی پٹی میں مزاحمتی گروپوں کی جاسوسی کے لئے کچھ فلسطینیوں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ان میں سے ایک نے یہ بھی اعتراف کیا کہ متحدہ عرب امارات کی انٹلیجنس سروس نے ان سے میزائلوں، راکٹ لانچروں اور قید صہیونی فوجیوں کے ساتھ ساتھ اس تحریک کے مالی تعاون کے ذرائع کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کو کہا ہے۔

الاخبار کے مطابق ، غزہ میں سنہ 2014 کی جنگ کے دوران ، حماس کی سکیورٹی فورسز کو پتہ چلا تھا کہ متحدہ عرب امارات ایک "خطرناک جاسوسی کا منصوبہ" بنا رہا ہے۔ جاسوسی متحدہ عرب امارات کے ریڈ کریسنٹ فیلڈ اسپتال کے زیراہتمام ہوئی۔ یہ ہسپتال انسان دوست امداد فراہم کرنے کے بہانے بنایا گیا تھا۔

حماس کی سکیورٹی فورسز نے دریافت کیا ہے کہ اماراتی کارکن تمام ملک کی انٹیلیجنس سروس کے افسر ہیں ، اور غزہ میں ان کا خفیہ مشن القسام بریگیڈ اور راکٹ لانچروں کے عہدوں سے متعلق معلومات اکٹھا کرنا ہے۔

حماس فورسز نے اماراتی افسران کے اصل نام دریافت کرنے کے بعد ان سے تفتیش بھی کی۔ اس کے بعد عرب ممالک نے ثالثی کی ، اور حماس نے انہیں رفح عبور کے راستے غزہ سے باہر جانے کی اجازت دی اور اپنا سارا سامان ضبط کرلیا۔

متحدہ عرب امارات اور صہیونی ریاست نے گزشتہ ہفتے کو امریکہ کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے توسط سے تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کیا ہے، اور یہ معاہدہ جلد ہی اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو کے ذریعہ امارتی ولیعہد کی موجودگی میں وائٹ ہاؤس میں ہوگا۔

 

بھارتی جارحیت، اسرائیل کا کردار

  • ۴۳۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کشمیر اور فلسطین کے مسائل میں بڑی مماثلت ہے، دونوں خطوں پر طاقتور قوتیں بالجبر قابض ہیں، مگر دونوں علاقوں کے نہتے عوام اس طاقت سے مرعوب ہوئے بغیر اس قبضے کی مخالفت اور مزاحمت کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں جھگڑے اکثریت پر مبنی مسلمان آبادیوں کیخلاف ہیں اور دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان ایک قدر مشترک مسلمانوں سے عداوت ہے۔ دوسری جانب عالمی ضمیر گہری نیند سو رہا ہے۔ سارے عالم اسلام میں ان دو مسائل نے ایک بڑے کرب، الم، غم اور غصے کی ایک مستقل فضا پیدا کر رکھی ہے، جو نوجوانوں کو تشدد کی راہ اپنانے کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ بھارت اور اسرائیل میں دفاعی تعاون قدیم ہے۔ ہم یہاں تین اہم واقعات کا ذکر کرینگے، جو اس تعاون کی گہرائی کا پتہ دیتے ہیں۔ ان دو ممالک کا پہلا تعاون ۱۹۷۱ء کی جنگ میں سامنے آیا، جب اسرائیل نے ایران کو بھیجا جانے والا اہم ترین جنگی ساز و سامان بھارت کو فراہم کر دیا۔ یہ تعاون اندرا گاندھی اور گولڈا مائر کے درمیان خصوصی رابطے نے ممکن بنایا۔ یہ تفصیلات سری ناتھ راگھوان کی کتاب “بنگلہ دیش کے قیام کی عالمگیر تاریخ “، جو اس موضوع پر مستندحوالہ ہے، میں درج ہیں۔
دوسرے، امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات جن کو بعد ازاں افشاں کیا جا چکا ہے کے مطابق اسرائیل نے جب عراق کے زیر تعمیر نیوکلیئر ریئکٹر کو تباہ کر دیا تو اس کے فوراً بعد سے بھارت اور اسرائیل ایک دوسرے سے تعاون اور منصوبہ بندی کرنے لگے کہ وہ کس طرح پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کا بھی عراقی حشر کر دیں۔ یہ منصوبے اس خیال سے دھرے رہ گئے کہ خطرات بہت زیادہ تھے یا قبل از وقت ان کی خبر پاکستان کو ہوگئی۔ ۱۹۹۰ء میں ایسی ایک کوشش اس وقت ناکام بنا دی گئی، جب پاکستان نے بھارت کو یہ انتباہ کیا کہ وہ زبردست جواب دے گا بلکہ شائد خود پہلے حملہ کر دے۔ تیسرے، اسرائیل نے بھارت کو کارگل کی جنگ میں ایسی مدد فراہم کی، جس نے اس کی نہایت کمزور حالت کو طاقت میں بدل دیا۔ انڈیا ٹو ڈے نے اپنی ۵ جولائی ۲۰۱۷ء کی اشاعت میں یہ حیران کن انکشاف کیا ہے کہ بھارتی فضائیہ اپنی زمینی فوج کو پاکستانی پوزیشنز کے متعلق صحیح معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہو رہی تھی اور اس کے میزائل بھی ٹھیک نشانے پر نہیں لگ رہے تھے۔
ایسی حالت میں اسرائیل نے بھارتی فضائیہ کو لیزر گائیڈڈ میزائل فراہم کر دیئے، جو میراج ۲۰۰۰H طیاروں میں لگا دیئے گئے۔ ان میزائلوں کیوجہ سے precision bombing کی گئی، جس نے پاکستان کی بلند و بالا پوزیشنز کی برتری کو ختم کر دیا، جبکہ اسے لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی۔ ماضی قریب میں اور خصوصاً مودی حکومت کے دور میں دونوں ممالک میں قربتیں تیزی سے بڑھی ہیں۔ اس ضمن میں بھارت اسرائیل سے جنگی ساز و سامان خریدنے والا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے جبکہ اسرائیل سے بھارت کی خریداری دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ ۲۰۱۲-۱۶ کے عرصے میں درآمد کئے جانے والے جنگی ساز و سامان کا ۴۱ فیصد اسرائیل سے خریدا گیا ہے۔ اس ساز و سامان میں بڑے مہلک اور تباہ کن ہتھیار مثلاً وسط فاصلے پر مار کرنے والے میزائل، لیزر گائیڈڈ میزائل، طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل اور ان کا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم، اواکس طیارے، ہیرون ڈرون، ریڈار اور دیگر ساز و سامان شامل ہے، جس میں سے اکثر ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ پیداوار کی بنیادوں پر خریدے گئے ہیں۔ ان تفصیلات سے بھارت کی حالیہ جارحیت میں اسرائیل کے کردار کو سمجھا جا سکتا ہے۔
رابرٹ فسک Robert Fisk ایک نڈر برطانوی صحافی ہیں، جو ایک طویل عرصے سے مشرق وسطٰی اور خصوصاً عرب، اسرائیل اور فلسطین تنازعے پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ اسرائیلی جارحیت کے بڑے ناقد ہیں اور موقر برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کیلئے لکھتے ہیں۔ ایک حالیہ مضمون میں فسک نے یہ ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل، پاک بھارت تنازعے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ فسک کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے بھارتی فضائی حملے کی خبر سنی تو انہیں یوں لگا کہ یہ خبر اسرائیل کے کسی فلسطینی علاقے یا شام میں حملے کی خبر ہے۔ اس خبر کے پہلے الفاظ تھے کہ “دہشت گردوں کے کیمپ پر حملہ”، ایک “کنٹرول و کمانڈ سسٹم ” تباہ کر دیا گیا، کئی “دہشت گرد” ہلاک کر دیئے گئے۔ ملٹری اس اطلاع پر کاروائی کر رہی تھی کہ “دہشت گرد” حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک “اسلامی جہادی” ٹھکانہ ختم کر دیا گیا تھا۔ آگے وہ لکھتے ہیں کہ “لیکن پھر اس میں بالاکوٹ کا نام آگیا۔ جو نہ غزہ میں تھا، نہ شام میں اور نہ ہی لبنان میں، بلکہ وہ پاکستان میں ہے۔ حیرت کی بات ہے، یہ کیونکر ممکن ہے کہ بھارت اور اسرائیل یوں خلط ملط ہو جائیں، لیکن اس خیال کو یونہی محو نہیں ہونے دینا چاہیئے۔ اڑھائی ہزار میل کے فاصلے پر تل ابیب میں واقع اسرائیلی وزارت دفاع اور نئی دہلی میں واقع بھارتی وزارت دفاع کے بیانیوں میں یکسانیت کی ایک معقول وجہ ہے۔
کئی مہینوں سے اسرائیل بڑی احتیاط اور چابکدستی سے خود کو قوم پرست بی جے پی حکومت کیساتھ ایک خاموش، غیر سرکاری، غیر تسلیم شدہ، لیکن سیاسی طور پر خطرناک، “اسلام مخالف اتحاد” میں صف آراء کر رہا تھا، جبکہ بھارت خود اسرائیل کی دفاعی پیداوار کی کھپت کی سب سے بڑ ی منڈی بن گیا ہے۔ یہ اتفاقیہ امر نہیں ہے کہ بھارتی پریس نے اس حقیقت کا خوب ڈھنڈورا پیٹا ہے کہ بھارتی ایئر فورس نے پاکستان کے اندر جیش محمد کے “دہشت گردوں” پر جو “اسمارٹ بم” گرائے ہیں، وہ اسرائیل کے تیار کردہ Rafael Spice-2000 تھے، لیکن جس طرح بہت سے اسرائیلی ان موقعوں پر مطلوبہ اہداف تباہ کرنے کی شیخیاں بگھارتے ہیں، بھارتی مہم جوئی بھی ایک خیالی پلاؤ ثابت ہوگی نہ کہ کوئی فوجی کامیابی۔ “۳۰۰-۴۰۰ دہشت گردوں” کی اسرائیلی ساختہ اور فراہم کردہ جی پی ایس گائیڈڈ بموں سے ہلاکت بالآخر کچھ درختوں اور پہاڑیوں کی تباہی سے زیادہ ثابت نہیں ہوگی، لیکن ۴۰ بھارتی فوجیوں کی ایک سفاکانہ کارروائی میں ہلاکت اور اس کی (مبینہ) ذمہ داری کی قبولیت اور بھارتی لڑاکا طیارے کا گرنا یہ حقیقی واقعات ہیں۔
۲۰۱۷ء میں بھارت اسرائیلی جنگی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار تھا۔ یہ ساز و سامان فلسطین اور شام میں مطلوبہ اہداف پر آزمایا ہوا ہے۔ اسرائیل کے پاس کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس نے یہ سامان میانمار کو کیوں بیچا ہے، جبکہ مغربی اقوام اس ملک پر اس وجہ سے تجارتی پابندیاں لگا رہے ہیں کہ وہ روہنگیا مسلمان اقلیت کی نسل کشی میں ملوث ہے۔ اس کے برخلاف بھارت سے خرید و فروخت کے معاملات کی ساری دنیا میں نمائش کی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے دونوں ملکوں کے “اسپیشل کمانڈوز” کی نغیو (Negev) صحرا میں مشقوں کی فلم بندی بھی کی ہے۔ یقیناً ان مشقوں میں اسرائیل نے بھارتی کمانڈوز کو وہ مہارت سکھائی ہے جو اس نے غزہ اور آبادی سے بھرے دیگر مقامات میں کارروائیاں کر کے حاصل کی ہے۔ برسلز کی محقق شائری ملہوترا نے اسرائیل کے موقر اخبار “حارٹز” میں لکھا ہے کہ بھارت دنیا میں مسلمانوں کی تیسری بڑی آبادی کا گھر ہے۔ “لیکن اسکے باوجود بھارت اور اسرائیل کا تعلق دائیں بازو کی دو جماعتوں بی جے پی اور لکہود پارٹی کے خیالات میں قدرتی ملاپ سے جوڑا جاتا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے ایک بیانیہ تشکیل دیا ہے، جس کے مطابق انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ قوم ظاہر کیا گیا ہے۔”
ملہوترا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے بھارت میں سب سے بڑے ممدوح وہ “انٹرنیٹ ہندو” ہیں، جن کو اسرائیل کی یہ ادا پسند ہے کہ جس طرح وہ فلسطینیوں کی پٹائی کرتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ بھارت اور اسرائیل کا تعلق ضرورت کے تحت نہ کہ نظریاتی بنیادوں پر ہونا چاہیئے، لیکن یہ بڑا مشکل ہے کہ صیہونیت کا کمبل ہندو قوم پرستی کے جسم سے جدا ہو جائے، کیونکہ بھارت کو وہ ہتھیار درکار ہیں، جو اس نے ابھی حال میں پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے استعمال کیے ہیں۔ “دہشت گردی کیخلاف جنگ” یا “اسلامک دہشت گردی” کیخلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ بظاہر ایک قدرتی امر ہے، لیکن یہ دونوں ممالک ایسے علاقوں کو نگین رکھنا چاہتے ہیں، جو ان کے مقبوضہ ہیں۔ آخری اہم حقیقت یہ ہے کہ بھارت، پاکستان اور اسرائیل تینوں ایٹمی قوتیں ہیں۔ یہ بات کشمیر اور فلسطین میں مشترک نہیں ہے اور یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیئے کہ بھارت میں ۱۸ کڑوڑ مسلمان بستے ہیں۔”
مندرجہ بالا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ بھارت اور اسرائیل مل کر کشمیر کے معاملے کو اسی انداز میں حل کرنا چاہتے ہیں، جس طرح اسرائیل نے فلسطین کا معاملہ کیا ہے۔ نیز یہ کہ حالیہ جارحیت میں اسرائیلی اسلحہ جس میں اسمارٹ بم بھی شامل ہیں، استعمال ہوا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف موثر دفاع کیا ہے بلکہ بھارت کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے فلسطینی تجربے کو ایک سطحی انداز میں کشمیر کے مسئلے پر منطبق نہ کرے، کیونکہ فلسطین کے مسئلے کے برخلاف، جہاں کوئی دوسرا ملک اس قضیے کا فریق نہیں ہے، یہاں پاکستان ایک مستند و عالمی سطح پر تسلیم شدہ فریق ہے۔ وہ ایٹمی طاقت بھی ہے اور اسرائیل کے فراہم کردہ ہر طرح کے تباہ کن اور مہلک ہتھیاروں سے لیس بھارت سے کسی طور بھی نہ صرف مرعوب نہیں ہوگا، بلکہ اس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بھارت کو زیادہ نقصان پہنچا دے۔ لہٰذا اسے اپنا جنگی جنوں ایک حد میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: وقار مسعود خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

قریب الموت امریکی ریاست کے تابوت میں آخری کیل کون ٹھونکے گا؟

  • ۳۸۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، امریکہ پر حکومت کرنے والی اشرافیہ نہایت کربناکی سے اس حقیقت کو سمجھ چکی ہے کہ امریکی طاقت سڑ چکی ہے اور اس کی طاقت کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کے پیدواری مراکز کی بیرون ملک منتقلی اور ملک کی نصف آبادی کی شدید غربت میں ابتلا کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔
حکومت کی خودتباہ کن (self-destructive) بندش ان بےشمار حملوں میں سے ایک ہے جو انتظامی شعبے کی افادیت کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ راستے، پل اور عمومی حمل و نقل کا نظام ویرانی کی طرف جارہا ہے، جس کی وجہ سے تجارت اور مواصلات کو مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومتی خسارہ مسٹر ٹرمپ کی طرف سے کمپنیوں پر عائد ٹیکس میں شدید کمی کے باعث ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔
مالیاتی نظام پر عالمی سٹہ بازوں کا قبضہ ـ جلدی یا بدیر ـ ایک نئی مالیاتی شکست و ریخت (meltdown) کی دہائی دے رہا ہے۔ جمہوری اداروں کا فساد و انہدام ـ جو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے دغاباز فنکاروں کو اقتدار کی چوٹی تک پہنچاتا ہے اور کمپنیوں کے مفادات کے پابند جو بائڈن اور نینسی پلوسی جیسے نااہل سیاستدانوں کو ان کے متبادل کے طور پر متعارف کراتا ہے، ـ ایک نئی مطلق العنانیت کو جنم دے کر مستحکم کر رہا ہے۔ حکومت کے ستون ـ منجملہ سفارتکاری کے کارگزار ـ نیز قانون ساز ادارے کھوکھلے ہوچکے ہیں لہذا صرف اور صرف ننگی عسکری قوت کو بیرونی اختلافات پر رد عمل ظاہر کرنے کے لئے میدان میں چھوڑ دیا گیا اور امریکہ کا گرتا پڑتا نظام صرف نہ ختم ہونے والی غیر مفید جنگوں کو ایندھن فراہم کررہا ہے۔
اندرونی انحطاط بھی بالکل بیرونی زوال کی طرح خوفناک ہے۔ تمام معاشرتی طبقات میں حکومت پر عدم اعتماد، وسیع البنیاد اداسی اور مایوسی، برآوردہ نہ ہونے والی توقعات کی وجہ سے جمود اور الجھاؤ، تلخی اور توہمات اور حقائق کی ایک آمیزش نمایاں ہو چکی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ سیاسی اور شہریتی گفتگو کی جڑیں حقائق میں پیوست نہیں ہیں۔
روایتی اتحادیوں نے امریکہ کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور ـ بالخصوص ماحولیاتی ـ المیوں سے نمٹنے میں بےبسی، منطقی اور دوراندیشانہ سیاست کے اعلان سے عاجزی کی وجہ سے وہ طاقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے جو امریکہ کے لئے سرمایہ حیات تھی۔ جارج آرول (George Orwell) لکھتے ہیں: “ایک معاشرہ اس وقت مطلق العنان ہوجاتا ہے جس کا ڈھانچہ بری طرح مصنوعی بن جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب اس معاشرے کا حکمران طبقہ اپنی کارکردگی کھو بیٹھتا ہے لیکن طاقت اور دھاندلی اور حیلہ گری اور مکاری کے ذریعے اقتدار پر براجماں رہتا ہے”۔ ہماری اشرافیہ ـ عرصہ ہوا کہ ـ دھوکہ دہی اور مکاری میں اپنی انتہا تک پہنچ چکی ہے اور طاقت کا استعمال وہ واحد ذریعہ ہے جو ان کے ہاتھ میں باقی ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ زخمی جانور ہے جو سکرات موت (death throes) کی حالت میں دھاڑ رہا ہے اور ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ یہ ملک اپنے آپ کو بہت بڑے نقصانات پہنچا سکتا ہے لیکن وہ ان نقصانات اور اپنے اوپر لگے زخموں سے صحت یاب نہیں ہوسکتا۔ یہ امریکی سلطنت کے اذیت ناک آخری ایام ہیں۔
مہلک ضرب تب اس کے پیکر پر لگے گی جب ڈالر عالمی زر مبادلہ کے طور پر زوال پذیر ہوگا، اور ڈالر کے زوال کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ڈالر کی تیزرفتار زوال پذیری شدید ترین کساد بازاری کا سبب فراہم کرے گی اور یہ کساد بازاری امریکہ کی بیرون ملک فوجی موجودگی کے فوری انقباض اور سکڑاؤ (contraction) کا تقاضا کرے گی۔
سیتھ اے کلیرمین (Seth Andrew Klarman) احتیاطی امدادی فنڈ ” باو پوسٹ گروپ” (Baupost Group) کے منتظم ہیں اور ان کا ادارہ ۲۷ ارب ڈالر کا مالک ہے؛ انھوں نے حال میں گریہ و زاری سے بھرپور ۲۲ صفحات پر مشتمل خط لکھ کر اپنے سرمایہ کاروں کے لئے بھجوا دیا ہے۔ انھوں نے اپنے خط میں اشارہ کیا ہے کہ ملک کے حکومتی قرضہ جات کی شرح سنہ ۲۰۰۸ع‍ سے سنہ ۲۰۱۷ع‍ تک، مجموعی ملکی پیداوار ۱۰۰ فیصد سے تجاوز کرچکی ہے اور یہ شرح کینیڈا، فرانس، برطانیہ اور اسپین کی شرح کے قریب پہنچ چکی ہے۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ قرضوں کا یہ بحران اگلے مالیاتی بحران کے لئے “بیج” کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ وہ عالمی سطح پر “سماجی پیوستگی” (social cohesion) کے بکھراؤ کو مسترد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “احتجاجات، بغاوتوں، اور بڑھتی ہوئی سماجی کشیدگیوں کے بیچ کاروبار ہمیشہ کی طرح جاری نہیں رہ سکتا”۔
انھوں نے مزید لکھا ہے: “کوئی بھی ایسا راستہ نہیں ہے جس سے اس حقیقت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے کہ قرضوں کی مقدار کس قدر بڑھ چکی ہے، لیکن یہ طے ہے کہ امریکہ افراط زر کے نقطے تک پہنچ جائے گا جس میں قرضوں کی منڈی ہمیشہ سے زیادہ بدگمان ہوگی، کیونکہ ہمیں ایسی شرح سود پر قرضہ نہیں دیا جائے گا جس کی ادائیگی سے ہم عہدہ برآ ہوسکیں۔ جس وقت اس قسم کا بحران ظہور پذیر ہوگا، تو امکان یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کے حالات سنوارنے میں کافی دیر کرچکے ہوں اور یہ گھر [ملک] سنبھالنا بھی دشوار ہوچکا ہوگا”۔
حکمران اشرافیہ عنقریب رونما ہونے والے مالیاتی بحران سے فکرمند ہوکر قانون کی مشکل اور سختگیرانہ روشوں کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، تا کہ اس مسئلے کا سد باب کرسکیں جو ان کے خیال میں عمومی بےچینی کا سبب بن سکتا ہے؛ وہ اسی واقعے کا راستہ روکنا چاہتے ہیں جس کی ابتدائی صورت امریکی اساتذہ کی ہڑتالوں اور فرانسیسی پیلی واسکٹوں والوں کے احتجاج میں دکھائی دے رہی ہے۔
نولبرالیت (Neo-liberalism) وہ نظریہ ہے جس کو حکمران اشرافیہ تسلیم کرتی ہے، لیکن یہ نظریہ سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کے ایک طبقے کے اندر غیر معتبر ہوچکا ہے۔ یہ صورت حال معاشرے کی اشرافیہ کو مجبور کررہی ہے کہ نوفسطائیوں (neo-fascists) ـ کے ساتھ ـ جن کی قیادت دائیں بازو کے قدامت پسندوں کے ہاتھ میں ہے ـ ناخوشایند اتحاد قائم کریں۔ یہ عیسائی شدہ فسطائیت (Christianized fascism) وسیع سطح پر ٹرمپ کے پیدا کردہ اعتقادی خلا کو پر کررہی ہے۔ یہ آئیڈیالوجی ـ نائب صدر مائیک پینس (Mike Pence)، وزیر خارجہ مائیک پامپیو (Mike Pompeo)، ٹرمپ کے نامزد کردہ سپریم کورٹ کے ایسوسی ایٹ جسٹس بریٹ کاوانو (Brett Kavanaugh) اور وزیر تعلیم بیٹسی ڈیواس (Betsy DeVoss) جیسے چہروں میں ـ مجسم ہوچکی ہے۔
جس وقت معیشت بحران سے دوچار ہورہی ہوتی ہے، جو چیز نہایت زہریلے انداز سے ابھر کر سامنے آتی ہے یہ ہے کہ یہ عیسائی فسطائیت معاشرے میں سے ـ انجیل کی تحریف شدہ اور بدعت آمیز تفسیر کی بنیاد پر، ـ مسلمانوں، پناہ گزینوں، فنکاروں اور دانشوروں کا قلع قمع کرتے ہوئے سرخ فام امریکیوں، اور نادار غیر سفید فام باشندوں میں سے چنے گئے “مجرموں” ـ کا صفایا کرنے نکلے گی ان پر سماجی جرائم پیشگی کا الزام لگائے گی، بہت سے جرائم کے لئے سزائے موت کو لازمی قرار دے گی۔ تعلیم و تربیت کا شعبہ، تاریخ سے سفید فاموں کی بالادستانہ تصور، دماغ شوئی (Brainwashing) یا ذہنی طرح بندی (intelligent design آفرینش ہوشمند یا ذہنی نمونہ سازی) کے تحت قرار پائے گا۔ جدید امریکہ کے مقدس ہڑوار کے سورما انیسویں صدی کی امریکی خانہ جنگی میں شمالی ورجنیا کے کمانڈر جنرل رابرٹ ای۔ لی (Robert Edward Lee)، سنہ ۱۹۵۰ع‍ کے عشرے کے امریکی سینیٹر جوزف آر۔ مکارتھی (Joseph Raymond McCarthy) اور سنہ ۱۹۶۹ع‍ سے سنہ ۱۹۷۴ع‍ تک امریکی صدر رہ کر واٹر گیٹ کی رسوائی کے نتیجے میں استعفا دینے والے صدر رچرڈ ایم۔ نکسن (Richard Milhous Nixon) جیسے لوگ ہونگے اور ریاست و حکومت سفید فام اکثریت کو مظلوم اور ہمیشہ نشانہ بننے والے طبقے کے طور پر نمایاں کرے گی۔
عیسائی فسطائیت مطلق العنانیت کی تمام دوسری اشکال کی طرح اپنے آپ کو ایک قے آور تقویٰ، امید افزا اخلاقی نیز جسمانی تجدید کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کرے گی۔ ثقافتی زوال جنسی جنون، ننگے تشدد اور افیونی دواؤں اور شراب نوشی کی لت، خودکشی، جوابازی وغیرہ کی عادت و آفت میں مبتلا فردی نااہلی کی تکریم و تعظیم اور ان مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی افراتفری اور انارکی اور سرکار کی نااہلی، ایک “مسیحی تقویٰ” کی طرف پلٹنے کی عیسائی فسطائیوں کے وعدے کو معتبر بنائے گی اور اس تقویٰ کے ذریعے تمام شہری اور شہریتی آزادیوں کو چھین لیا جائے گا۔
ہر مطلق العنان عقیدے کے وسط میں ایک دائمی [اعتقادی] چھان بین کا ادارہ بھی ہوتا ہے جو ان مبینہ خفیہ اور شرانگیز گروپوں کے خلاف سرگرم عمل ہوتا ہے جنہیں ملک کے انحطاط و زوال کا ملزم ٹہرایا جاتا ہے۔ نظریاتِ سازش (Conspiracy theories) ـ جنہوں نے مسٹر ٹرمپ کے نظریۂ کائنات کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے ـ کو مسلسل جنم دیا جاتا رہے گا۔ حکمرانوں کے نعرے معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دیں گے اور پارہ پارہ ہونے کا یہ عمل انفرادیت پسندی (individualism) اور فردی آزادی کی حمایت سے ان لوگوں کی اطاعت محض تک جو خدا اور قوم کی طرف سے بولتے ہیں؛ زندگی کے تقدس سے لے کر سزائے موت، پولیس تشدد اور بےلگام اور لامحدود عسکریت پسندی کی حمایت تک؛ شفقت و محبت سے ایک غدار اور بدعت گذار کا الزام لگنے کے خوف تک، جاری رہے گا۔ ایک قسم کی انتہاپسندانہ اور خوفناک مردشاہی کی تکریم کی جائے گی۔ تشدد، معاشرے اور دنیا کو “شر اور شیطان” سے بچانے کے وسیلے کے طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ عینی حقائق کو نیست و نابود یا تبدیل کیا جائے گا۔ جھوٹ کو حقیقت کا روپ دیا جائے گا۔ شناختی عدم آہنگی سیاسی زبان میں تبدیل ہوجائے گی۔ ملک جتنا زیادہ انحطاط و زوال کا شکار ہوگا اجتماعی مالیخولیا اور دماغی خلل کو زیادہ نشوونما ملے گی۔ یہ تمام چیزیں مختلف اشکال میں ہماری شکست خوردہ ثقافت اور دیوالیہ جمہوریت کے اندر موجود ہیں۔ ملک کی نئی کیفیت جس قدر ابھر کر سامنے آتی رہے گی اور مطلق العنانیت کا مرض جتنا پھیلتا رہے گا، یہ عناصر زیادہ سے زیادہ نمایاں ہونگے۔
مقتدر طبقے کے اراکین (oligarchs) تمام تر ناکام حکومتوں کی طرح اپنی مورچہ بند عمارتوں اور املاک کی طرف پسپا ہوجائیں گے، ان میں سے بہت سے تو ابھی سے اس کی تیاری کررہے ہیں، وہ ایسی جگہ پناہ لیں گے جہاں بنیادی خدمات، علاج معالجے کی سہولیات، تعلیم، پانی، بجلی اور سلامتی ـ جن کا عمومی معاشرے میں فقدان ہے ـ تک رسائی ممکن ہوگی۔ مرکزی حکومت کا کردار اپنے انتہائی بنیادی فرائض ـ یعنی اندرونی و بیرونی سلامتی اور ٹیکس جمع کرنے کی حد تک ـ محدود ہوجائیں گے۔ شدید غربت زیادہ تر شہریوں کی زندگی کو مفلوج کرکے رکھے گی؛ تمام تر خدمات ـ جو کسی وقت حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی تھیں، جیسے پانی، بجلی اور گیس سے لے کر ابتدائی امن و امان کی فراہمی کا کام ـ نجی اداروں کو سونپ دیا جائے گا اور یہ خدمات ان لوگوں کے لئے بہت زیادہ مہنگی پڑیں گی جو ضروری وسائل سے محروم اور غریب و نادار ہیں۔ سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر پڑے رہیں گے، جرائم کی شرح دھماکہ خیز حد تک بڑھ جائے گی۔ بجلی کا فرسودہ نیٹ ورک اور پانی کی فراہمی کا نظام ـ کمپنیوں کی کمزور اور ناقص کارگردگی کی وجہ سے ـ مسلسل منقطع اور متصل ہوتا رہے گا۔
ذرائع ابلاغ ننگے اور بےپردہ انداز میں جارج آرول کی فضا میں تبدیل ہوجائیں گے اور ایک روشن مستقبل کی لامتناہی تشہیر میں مصروف ہوجائیں گے اور یوں ظاہر کریں گے کہ گویا امریکہ ہنوز ایک بڑی طاقت ہے۔ سیاسی پروپیگنڈا خبروں کی جگہ لے لے گا ــ ایسی برائی جو اسی وقت بھی نہایت تیزی سے پھیل چکی ہے ـ جبکہ یہ ذرائع اصرار کررہے ہیں کہ ملکی معیشت بہتری کے دور سے گذر رہی ہے، یا پھر بہتری کے مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔
یہ ذرائع ابلاغ گہرائی کی طرف جانے والی سماجی ناانصافی اور عدم مساوات، سیاسی اور ماحولیاتی ابتری اور فوجی ہزیمتوں کے بارے میں کچھ کہنے لکھنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی کردار توہمات کو ہوا دینے سے عبارت ہے اور مقصد چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے اپنے برقی وسائل کے اسکرینوں پر نظریں جما‏ئے معاشرے کی توجہ اس کے قریب الوقوع زوال سے منحرف کرنا ہے تا کہ وہ اپنی حالت زار کو اجتماعی نہیں بلکہ شخصی مسئلہ سمجھیں؛ جبکہ ناقدین کو اس زوال کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا اور ان کی تنقید کو شدت سے سینسر (censor) کیا جائے گا۔ منافرت پھیلانے والے گروپ وسیع سطح پر سرگرم ہوں گے اور منافرت کا سبب بننے والے جرائم میں شدت آئے گی اور حکومت کی چشم پوشی کی وجہ سے ان گروپوں اور ان کے جرائم کو ضمنی طور پر تقویت ملے گی۔ اجتماعی فائرنگ کے واقعات رائج الوقت معمول بن جائیں گے۔ کمزور طبقات ـ منجملہ بچوں، عورتوں، معذوروں، مریضوں اور بوڑھوں ـ کا استحصال کیا جائے گا، اپنے حال پر چھوڑا جائے گا یا ان سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے گا۔ جن کے پاس طاقت ہے وہ قادر مطلق کا روپ دھار لیں گے۔
پیسہ ـ لوٹ کھسوٹ کے لئے ـ بدستور موجود ہوگا۔ کمپنیاں ہر چیز کو منافع کمانے کے لئے بیچ دیں گی۔ بدامنی میں بدلتی ہوا امن، قلت کا شکار اشیائے خورد و نوش، رکازی ایندھن (fossil fuel)، پانی، بجلی، تعلیم، طبی دیکھ بھال اور نقل و حمل، کے لئے، امریکی شہری مجبور ہونگے کہ ایسے قرضوں کے غلام بن جائیں جن کی ادائیگی ممکن نہ ہوگی اور جب ادائیگیوں سے عاجز آئیں گے تو ان کے ناچیز سرمایوں کو ضبط کیا جائے گا۔
ہمارے ملک میں قیدیوں کی تعداد، دنیا بھر کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے اور اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا اور ان شہریوں کی تعداد میں شدید اضافہ ہوگا جن کو ۲۴ گھنٹے الیکٹرانک مانیٹر پہننا پڑیں گے۔ بڑی کمپنیاں کسی قسم کا محصُول آمدنی (income tax) ادا نہیں کریں گی یا بہترین حالت میں صرف علامتی ٹیکس ادا کریں گی۔ وہ قانون سے بالاتر ہونگے اور ان کے پاس مزدوروں کے استحصال کا امکان میسر ہوگا جو کام کے عوض تھوڑی سے اجرت لینے پر مجبور ہونگے، وہ ماحولیات میں زہر بھر لیں گے اور ان کے کام پر کوئی نظارت اور نگرانی نہیں ہوگی۔
آمدنیوں میں عدم مساوات کا سلسلہ جاری رہے گا، مبلغ ۱۴۰ ارب ڈالر دولت کے مالک جیف بیزوس (Jeffrey Preston Bezos) سمیت دیگر مالیاتی دیو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جدید بردہ داروں (Modern Slaveholders) کی صورت اختیار کررہے ہیں۔ وہ بڑی مالیاتی سلطنتوں پر زعامت کریں گے، جہاں محروم مزدور چلتے ٹریلروں اور گاڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جبکہ دن کے ۱۲ گھنٹے وسیع و عریض اور مناسب ہواداری (ventilation) سے محروم گوداموں میں محنت و مشقت میں مصروف رہتے ہیں۔ ان مزدوروں کو زندگی گذارنے کے لئے کم از کم اجرت دی جاتی ہے اور ہر وقت رازدارانہ سماعت کی ڈیجیٹل آلات کے ذریعے ان کی رفت و آمد اور اٹھک بیٹھک کی نگرانی کی جاتی ہے؛ جب ناقابل برداشت مشقت ـ اور مسلسل جانکنی کی کیفیت ـ ان کی صحت اور سلامتی کو چھین لے گی تو انہیں برخاست کیا جائے گا۔ آمازون (Amazon) کے بہت سے کارکنوں کے لئے یہ کَل آج ہی ہے اور وہ عنقریب بےروزگار ہوجائیں گے۔
کام کاج سب کے لئے ـ خاص طور پر بالادست اشرافیہ اور بااختیار مینجروں کے لئے ـ غلامی اور بردہ داری کی شکل میں تبدیل ہوجائے گا [اور اس کے ذریعے محنت کشوں کو رعایا اور غلام بنایا جائے گا]۔ پروفیسر جیفری پففر (Jeffrey Pfeffer) اپنی کتاب “تنخواہ کے ایک چیک کے لئے جان کی بازی لگانا: جدید امریکی انتظام کیونکر مزدوروں کی صحت اور کمپنیوں کی کارکردگی کے لئے نقصان دہ ہے — اور ہم اس کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟” (۱) ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: “۶۱ فیصد مزدوروں اور کارکنوں نے کہا ہے کہ ان کے کام کے مقام پر موجود شدید دباؤ نے انہیں بیمار کردیا ہے اور ۷ فیصد نے کہا ہے کہ انہیں اسی وجہ سے اسپتال میں داخل ہونا پڑا ہے”۔ پففر لکھتے ہیں کہ جائے کار کا شدید دباؤ امریکہ میں سالانہ ۱۲۰۰۰۰ افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ چین میں شدید مشقت سے سالانہ مرنے والوں کی تعداد ۱۰ لاکھ تک ہے۔
یہ وہ دنیا ہے جو اشرافیہ نے قانونی طریقہ کار وضع کرکے اور امن نافذ کرنے والے اندرونی اداروں کی نفری تعینات کرکے ہماری آزادیاں چھیننے کے لئے پر تول رہی ہے۔
ہمیں بھی اس ناکام اور دیوالیہ ریاست (Dystopia) کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہونا چاہئے، محض اپنی بقاء کی خاطر نہیں بلکہ ایسا طریقہ کار بنانے کے لئے کہ اس مطلق العنان اور بےلگام طاقت کا راستہ روکیں اور اس کو گرا دیں جسے متوقعہ طور پر مقتدر اشرافیہ استعمال میں لانا چاہی ہے۔ روسی لکھاری الیگزینڈر ہرزن (Alexander Herzen) نے ۱۰۰ سال قبل انارکیوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے زار روس (Russian czar) کا تختہ الٹنے کی کیفیت کے بارے میں اپنے سامعین کو یاددہانی کرائی تھی کہ “تمہارا کام ایک مرتے ہوئے نظام کو نجات دلانا نہیں بلکہ اس کا متبادل لانا ہے؛ ہم ڈاکٹر نہیں ہیں بلکہ ہم مرض ہیں”، امریکہ کے موجودہ نظام کی اصلاح کی ہر کوشش دباؤ قبول کرکے، ہتھیار ڈال کر اطاعت گذاری قبول کرنے کے زمرے میں آتی ہے اور امریکی نظام کی اصلاح کے لئے ہونے والی تمام تر کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے اندر کوئی بھی ترقی پسند شخص پرچم اٹھانے، اس جماعت کا کنٹرول ہاتھ میں لینے اور ہمیں نجات دلانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ امریکہ میں صرف ایک حکمران جماعت ہے جو کہ کمپنیوں کی جماعت (corporate party) ہے۔ یہ جماعت ایک تنگ نظرانہ جنگ میں دونوں متنازعہ فریقوں کی نابودی کے اسباب فراہم کرسکتی ہے، جیسا کہ اس نے حالیہ حکومتی بندش کے دوران کرکے دکھایا۔ یہ جماعت اقتدار کے حصول کے لئے تنازعہ کھڑا کرسکتی ہے اور طاقت کو نیست و نابود کرسکتی ہے۔ یہ جماعت ایک [بظاہر] روادارانہ موقف اپنا کر حقوق نسوان، ۔۔۔ اور غیر سفید فام باشندوں کی سماجی حیثیت کی وکالت کار کے طور بھی ظاہر ہوسکتی ہے لیکن جنگ، اندرونی سلامتی اور کمپنیوں کی حکمرانی جیسے بنیادی مسائل کے سلسلے میں کسی قسم کی دو رائیں نہیں ہیں۔
ہمیں کمپنیوں کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے ایک منظم ترک موالات (civil disobedience) اور عدم تعاون کی بعض صورتوں پر عملدرآمد کرنا چاہئے۔ ہمیں فرانس میں جاری صورت حال کی طرح، وسیع اور مسلسل بےچینی پھیلا کر اپنے کمپنی کے مالک آقاؤں کو پسپا ہونے پر مجبور کرنا پڑے گا۔ ہمیں مستقل اور پائیدار اجتماعات (communities) قائم کرکے کمپنیوں کا سہارا لینے سے پرہیز کرنا پڑے گا۔ ہم جس قدر کمپنیوں کے کم محتاج ہونگے اتنے ہی آزاد ہونگے۔
یہ باتیں ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں پائی جاتی ہیں، اشیائے خورد و نوش کی پیداوار میں، تعلیم میں، صحافت میں، بیان اور فنکارانہ سرگرمیوں میں۔ زندگی کو سماجی اور اجتماعی ہونا چاہئے کیونکہ حکمران بھنیوں کے سوا کسی کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ تنہا جیئے اور زندہ رہے۔
ہم جس قدر ظاہرداری کریں گے اور تجاہل عارفانہ سے کام لے کر دعوی کریں گے کہ یہ ناکام، دیوالیہ اور خوفناک دنیا ہم سے دور ہے، اتنے ہی زیادہ غیر مستعد، غیر آمادہ، کمزور اور بےبس ہوجائیں گے۔ حکمران اشرافیہ کا اصل مقصد ہی ہمیں مصروف، خوفزدہ اور منفعل (passive) رکھنا ہے؛ جبکہ یہ حکمران اس اندھیری حقیقت کی زمین میں [ہمیں] کچلنے کے لئے دہشت ناک ڈھانچے تیار کررہے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ طاقت کو طاقت کے خلاف استعمال کریں، اپنی طاقت کو ان کی طاقت کے خلاف۔ ہم حتی اگر وسیع تر ثقافت کو تبدیل نہ بھی کرسکیں، یقینی طور پر اپنا بوجھ خود اٹھانے والے اور اپنے آپ کو پائیدار رکھنے والے حلقوں کی تخلیق کرسکتے ہیں، ایسے حلقے جن کے اندر ہم زیادہ سے زیادہ آزادی سے بہرہ ور ہوں۔
ہم دو طرفہ تعاون کی بنیاد پر ـ نہ کہ دو طرفہ [یا یکطرفہ] استحصال کی بنیاد پر ـ چھوٹی چھٹی چنگاریوں کو محفوظ کریں اور جو کچھ ہمیں درپیش ہے، اس میں یہی بھی ایک کامیابی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: کرس ہیجز Chris Hedges (Christopher Lynn Hedges) ۔۔۔ کرس ہیجز امریکی صحافی، پریسبیٹیریَن کلیسا میں خادم دین اور پرنسٹن یونیورسٹی کے جزو وقتی استاد ہیں۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

انگریزی مضمون کا لنک: yon.ir/kM7tO
فارسی ترجمے کا لنک: http://fna.ir/brdzkw
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱٫ Dying for a Paycheck: How Modern Management Harms Employee Health and Company Performance—and What We Can Do About It?

 

عطوان: فلسطینی کاز کا خاتمہ ایک "تاریخی دن" کہاں ہے؟

  • ۳۶۶

عرب دنیا کے مشہور تجزیہ کار اور مصنف نے امریکہ کے تحت نظر متحدہ عرب امارات اور صہیونی ریاست کے مابین انجام پائے معاہدے کو "غداری کا عروج" قرار دیا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب دنیا کے ایک مشہور تجزیہ کار اور مصنف "عبدالباری عطوان" نے لکھا ہے کہ اس سے قبل جتنے بھی معاہدے انجام پائے ان پر مصر، اردن اور فلسطینی اتھارٹی کے دستخط تھے اور آئندہ بھی تمام معاہدے جن کا ڈونلڈ ٹرمپ اور جرڈ کوشنر نے وعدہ کیا ہوا ہے وہ بھی ایسے ہی ہوں گے۔
عطوان نے لکھا: "یہ واقعی تکلیف دہ بات ہے کہ کچھ لوگ اس معاہدے پر خوشی منا رہے ہیں اور اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ" تاریخی معاہدہ " ہے اور عرب دنیا کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ لیکن میرا ایک سوال ہے،قدس، مسجد الاقصیٰ اور تمام اسلامی عربی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فلسطین کو بیچ ڈالنا کیا ایک ’تاریخی دن‘ ہے؟  کیا اسرائیل ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ایک عرب سنی رہنما کی تاج پوشی کر رہا ہے ایک نئے دور کا آغاز ہے؟  کیا یہ انصاف کے قیام کی طرف ایک بڑا قدم ہے؟ کونسا انصاف پسند معاہدہ ہے جس میں نہ قدس کا تذکرہ ہے، نہ فلسطین کا ذکر ہے، نہ عرب منصوبے کا نام ہے؟ برائے مہربانی اگر آپ ہمارے جذبات کا احترام نہیں کرتے تو کم سے کم ہمارے ضمیر کی توہین نہ کریں۔
اخبار " رائ الیوم " کے مطابق عطوان نے مزید لکھا: ہاں یہ اماراتی-اسرائیلی معاہدہ فلسطینی کاز کے لیے ایک دائمی امن کا باعث بنے گا اور وہ ہے ’فلسطینی کاز کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ‘ ،  اور شاید اس کی بہترین وضاحت خود نیتن یاہو نے کی جو کہا کہ "وہ اپنے تعلقات ہمارے ساتھ معمول پر لا رہے ہیں چونکہ ہم طاقتور ہیں اور وہ کمزور‘‘ ۔  لیکن نیتن یاہو ان عربوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے تعلقات اچھے بنا لیے ہیں یا مستقبل میں بہتر بنائیں گے نہ کہ وہ عرب جو اسرائیل کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے رہے اور غزہ کی پٹی سے نیتن یاہو پر بارش کی طرح میزائل برسائے جب وہ انتخاباتی مہم کے دوران تقریر کر رہے تھے اور اپنی جان بچا کر چوہے کی طرح بل میں گھس گئے۔
عرب دنیا کے اس مصنف نے مزید لکھا ہے کہ کچھ لوگ ٹیکس یا انعام کے طور پر واشنگٹن اور ٹرمپ کو نقد رقمیں ادا کرتے ہیں یا حمایت کے بدلے ان سے ہتھیار خریدتے ہیں اور اب یہی لوگ بالخصوص خلیج فارس کے ممالک خوف اور دھشت کے مارے یہی ٹیکس اور انعامات نیتن یاہو کو دیں گے تاکہ وہ انہیں ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھیں۔
عطوان نے مزید لکھا: "ہم جانتے ہیں کہ نتن یاہو اور ٹرمپ ، جو خود بحران زدہ ہیں ، اس معاہدے کے فاتح ہیں، خواہ یہ وقتی ہی کیوں نہ ہو ، لیکن اس معاہدے پر دستخط کرنے سے متحدہ عرب امارات کو کیا فائدہ حاصل ہوا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ متحدہ عرب امارات جو تیل سے مالا مال ایک ملک ہے اس نے فرانس ، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں اور اس کی سرزمین پر ان کے متعدد فوجی اڈے ہیں ۔ایک ہفتہ قبل اس کے وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے خوشگوار ماحول میں ملاقات کی تھی۔

دنیائے عرب کے ممتاز تجزیہ کار نے یہ ذکر کرتے ہوئے کہ عام طور پر امن معاہدوں پر دشمنوں کے ساتھ جنگ یا تناؤ کے بعد دستخط ہوتے ہیں یہ سوال اٹھایا کہ کیا متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں تھا یا ایسی جنگ میں داخل ہونے جا رہا تھا جس سے ہم لاعلم تھے۔
انہوں نے مزید کہا: "آج ہم عراق، لیبیا ، یمن اور شام کی تباہی اور فلسطینی عوام کی بھوک اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ساتھ غداری کی وجوہات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں‘‘۔
عبد الباری عطوان نے آخر میں یہ لکھا کہ سن 1982 میں لبنانی شکست نے اسلامی مزاحمت کو جنم دیا ، اور جون 1967 میں فلسطینی مزاحمت تشکیل پائی اور 2000 میں کیمپ ڈیوڈ کے سازشوں سے دوسرا مسلح انفتاضہ شروع ہوا۔ یہ امت ایک پختہ اور مستحکم اعتقاد کی مالک ہے اور مستقبل میں بھی کسی قیام سے گریز نہیں کرے گی۔

 

 

لبنان کے خلاف فرانس، امریکہ اور سعودی عرب کا اتحاد

  • ۳۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فارس نیوز ایجنسی کے مطابق ، لبنان کے وزیر اعظم ’’حسان دیاب‘‘ جو بیروت دھماکے کے بعد سخت دباؤ میں تھے نے بالآخر پیر (کل) کو استعفیٰ دے کر اگلی حکومت کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے تاکہ ملک کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔
روزنامہ " الاخبار " نے اپنی ایک رپورٹ میں لبنان کی موجودہ صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے، فرانسیسی صدر "ایمانوئل میکرون" نے ایسے وقت میں لبنان کا اچانک دورہ کیا کہ لبنان کی صورتحال بحرانی کیفیت کا شکار تھی انہوں نے بجائے اس کے کہ موجودہ حکومت کو سہارا دیں اور دھماکے میں اتنی جانوں کے ضیاع پر تعزیت پیش کریں مخالف سیاسی پارٹیوں اور گروہوں کو حکومت کے خلاف مشتعل کر دیا۔  ایسے میں حسن دیاب کو ان لوگوں کو جواب دینا پڑا جو ان کے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر انہیں قربانی کا بکرا بنانے کی سازش رچا رہے تھے ، لہذا انہوں نے قبل از وقت الیکشن کا بم پھوڑ دیا۔ لیکن جب پارلیمنٹ کے اسپیکر ’نبیہ بری‘ نے "اتحادیوں سے مشورہ کیے بغیر یہ اعلان کر دیا کہ وہ جمعرات کے روز موجودہ حکومت کو بیروت دھماکے کے حوالے سے مواخذہ کرنے کا قصد رکھتے ہیں تو حسن دیاب استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔
لبنانی حکومت کے استعفے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، فرانسیسی وزارت خارجہ نے یہ اعلان کیا کہ میکرون کے لبنان دورے کا مقصد پورا ہو گیا ہے لہذا جلد ہی نئی حکومت تشکیل دی جائے گی۔ بیان میں آئندہ حکومت کے چیلنجوں کو ’بیروت کی تعمیر نو‘ اور ’لبنانی عوام کے مطالبات کا جواب‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ اگر چہ بظاہر فرانس کے منصوبے کے مطابق لبنان کی سیاسی پالیسی ایک قومی حکومت کی تشکیل کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم اعلیٰ سیاسی ذرائع کے مطابق فرانس لبنان میں قومی حکومت کی تشکیل کا خواہاں نہیں ہے بلکہ امریکہ اور سعودی عرب کے ہمراہ ایسی حکومت کی تشکیل پر زور دے رہا ہے جو ان کے مفاد میں ہو اور مزاحمتی گروہوں کو کمزور بلکہ غیر مسلح کرے۔
اسی سلسلے میں ریاض کے قریبی ذرائع نے یہ بھی کہا کہ فرانس نے لبنان کے لئے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا اور یہ سچ نہیں ہے کہ پیرس نے قومی اتحادی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ایسی حکومت "دوسری بغاوت" کا باعث بنے گی۔ ذرائع نے مزید کہا: "فرانسیسی کسی بہانے قومی اتحاد کی حکومت کے اس نظریہ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میکرون کے الفاظ کی غلط ترجمانی کی گئی ہے۔"
الاخبار نے لبنان میں ہونے والے واقعات اور فرانسیسی منصوبے کے بارے میں سعودی عرب کے مؤقف کو باخبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ریاض کے لئے سب سے بڑا مسئلہ "حزب اللہ کا غلبہ اور اس کے تئیں مشیل عون کی حمایت ہے‘‘۔
لبنانی سیاسی ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکیوں فرانسیسیوں اور سعودیوں نے ’نواف سلام‘ کو مستقبل کی لبنانی حکومت کے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار نامزد کیا ہے ۔ لیکن ممکن ہے مشیل عون اپنے قانونی اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگلے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے کوئی ریڈ لائن متعین کر دیں۔ لیکن بہر صورت سیاسی خلا سے بچنے کے لیے جلد ہی ایک نئی حکومت کی تشکیل لازمی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ، موجودہ حالات کے پیش نظر لبنان کا مستقبل دو ممکنہ صورتوں پر مبنی ہے:
پہلی صورت؛ ابتدائی پارلیمانی انتخابات کا نفاذ۔ اس منصوبے پر عمل درآمد سنجیدہ نہیں لگتا کیوں کہ لبنان کو بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے، ان میں سے پہلی مشکل نئے انتخابی قانون پر اتفاق ہے۔

دوسری صورت؛ نئی حکومت کا قیام یا سیاسی نظام کی تنظیم نو ، جو ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے ’طائف‘ معاہدے کی طرح طویل مدتی گفتگو اور مشاورت کی ضرورت ہے۔ ایک ہی آپشن باقی رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنا استعفیٰ واپس لے لے، جو آسان نہیں ہے لہذا ملک کی صورتحال وہی ہے جو سعد الحریری کے استعفیٰ کے بعد پیش آئی تھی ، لیکن اس بار مسئلہ صرف حکومت کی تشکیل کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ بیروت دھماکے میں جانوں کے ضیاع اور بھاری نقصانات کا بھی ہے۔ چونکہ متاثرہ افراد کے اہل خانہ انتقام کے خواہاں ہیں۔
ایسے میں لبنان کے حالات کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بھارتی میڈیا استعمار کے شکنجے میں۔ دوسرا حصہ

  • ۳۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ گزشتہ سے پیوستہ

اگر میڈیا سید مقاومت سید حسن نصراللہ کا ظالم اور دہشت گرد ابوبکر بغدادی سے مقایسہ کرنے سے پہلے ان کے خدمات اور ایثار کی تاریخ کا مطالعہ کرلے تو شاید اتنی بڑی غلطی کے مرتکب نہ ہوں ۔مگر جہاں میڈیا ہائوس جھوٹ اور فریب کے سہارے چل رہے ہوں وہاں حقیقت جاننے کی للک کسے ہوتی ہے ۔داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو لبنان میں حزب اللہ کے جوانوں نے شکست دی ہے ۔شام اور عراق میں دہشت گردوں سے مقابلہ آرائی میں حزب اللہ کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں ۔درجنوں محاذ ایسے ہیں جہاں آج بھی اس کے جوان حالت جنگ میں ہیں ۔چونکہ یہ تمام محاذ اسرائیل اور امریکہ کے تیار کردہ ہیں ،اور حزب اللہ کے جوان انکی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ،لہذا اس دشمنی میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قراردیدیا گیا تاکہ عالمی سطح پر حزب اللہ کو تنہا کردیا جائے ۔یہی رویہ استعماری طاقتوں نے ایران کے ساتھ اختیار کیا ہواہے ،کیونکہ ایرانی جوانوں نے حزب اللہ کے جوانوں کی طرح استعماری منصوبوں کو خاک میں ملا دیاہے ۔اسرائیل جس کی فوجی طاقت کا دنیا لوہا مانتی ہے اس نام نہاد عظیم طاقت کو اگر کسی نے ذلت و پستی کے تحت الثریٰ میں پھینک دیاہے تو وہ حزب اللہ کے جوان ہی ہیں ۔لہذا استعمار نے اپنی پوری طاقت حزب اللہ کے خلاف جھونک دی ہے ۔وہ اپنے میڈیا ہائوسیز کے ذریعہ حزب اللہ کے خلاف جھوٹی خبریں پلانٹ کرتے ہیں ،ہر پروگرام میں اس کے جوانوں کو دہشت گرد اور ظالم قرار دیا جاتاہے تاکہ دنیا کی ہمدردی حاصل کی جاسکے ۔یہ وہی پرانا کھیل ہے جو فلسطین پرقبضے کے وقت کھیلا گیا تھا اور ’ہولوکاسٹ‘ کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ عالمی سطح پر یہودی ایک مظلوم قوم قراردیدی گئی ۔یہودیوں کی مظلومیت کا فائدہ ’صہیونیوں ‘ نے اٹھایا اور آج فلسطین کی زمینوں پر جسے ہم ’اسرائیل ‘ کے نام سے جانتے ہیں ،یہودیوں کی تعداد ’نا‘ کے برابر ہے ۔اسرائیل نے ایک الگ تھلگ ریاست کے قیام کے لئے ہر طرح کے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیا اور لے رہاہے اسی طرح اسلامی مقاومتی تنظیموں کو بدنام کرنے اور عالمی سطح پر انہیں الگ تھلگ کرنے کے لئے ہر طرح کے گھنائونے پروپیگنڈے کررہاہے ۔ورنہ ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا تھاکہ ایک ملک کے کمانڈر( قاسم سلیمانی) پر بزدلی کے ساتھ ہوائی حملہ کرکے شہید کردیا جائے اور اس کے بعد دنیا کی ساری ہمدردیاں امریکہ اور اسرائیل کے حق میں ہوں۔
اب عالم یہ ہے کہ استعماری طاقتوں کے پرفریب منصوبوں کا شکار ہمارا قومی میڈیا بھی ہوچکاہے ۔کیونکہ ہمارا ملک اسرائیل نوازی میں اپنی ساری حدیں پار کرچکاہے ۔ہماری عوام کو یہ باور کرادیا گیاہے کہ ہماری ترقی اسرائیل کی دُم سے بندھی ہوئی ہے ۔وہ دن دور نہیں جب ہم اس کے دوررس نتائج بھگتیں گے ۔
جس وقت وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کے دورے پر تھے،اس وقت ہمارا قومی میڈیا اسرائیل نوازی میں فلسطینی مقاومتی تنظیموں کو دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیمیں ثابت کرنے پر تُلا ہوا تھا ۔میڈیا کے بقول اسرائیلی ایجنسی’ موساد‘ ایک مظلوم ایجنسی ہے جس پر فلسطینی مقاومتی تنظیمیں جب چاہتی ہیں دہشت گردانہ حملے کرتی ہیں اور اس کے فوجیوں اور جوانوں کا قتل عام کردیتی ہیں۔یہ ایک ایسا سفید جھوٹ تھا جسے بے بنیاد حقائق اور موساد کے اشارے پر ہندوستان میں پھیلایا گیا ۔وزیر اعظم مودی اسرائیل میں تھے اور ہم ہندوستان میں اسرائیل کی مظلومیت کی داستان سن رہے تھے ۔حیرت ہے میڈیا اس قدر بے ضمیر اور بے غیرت کیسے ہوسکتاہے ؟۔کیا اس میڈیا کو فلسطینی عوام کی مظلومیت اور مقاومت نظر نہیں آتی ۔وہ صہیونی قوم جو فلسطین کی زمین پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے اس کو فلسطینی زمین کا مالک قراردینا کہاں کا انصاف ہے ۔فلسطین کی نہتی عوام اسرائیل مہلک ہتھیاروں کا مقابلہ اینٹ اور پتھروں کے ذریعے کررہی ہے ،اس کے جوان ،بچے ،بوڑھے اور خواتین کو بے دریغ قتل کیا جارہاہے ، ان کے گھروں پر اسرائیلی فوجیوں کا قبضہ ہے ،وہ آزادانہ زندگی بسر نہیں کرسکتے بلکہ ان کے بچوں کا مستقبل خوف کے سائے میں ہے،ایسی فلسطینی عوام کو دہشت گرد کہہ کر ہمارا قومی میڈیا اپنے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو خود ہی نوچ کر پھینک دیتاہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے وقت ہی ہمیں یہ باور ہو گیاتھاکہ ہمارے قومی میڈیا کی رہی سہی آزادی بھی سلب کرلی گئی ہے ۔اب ہم وہ دیکھیں گے جو استعماری طاقتیں دکھانا چاہتی ہیں ۔حزب اللہ کے جنرل سکریٹری سید حسن نصراللہ کو بدنام کرنے کے لئے جس طرح جھوٹی خبروں کو میڈیا نےنشر کیاہےاس سے معلوم ہوتاہے کہ میڈیا ہائوسیز پر سرمایہ داروں کے تسلط اور ان کے مفادات نے میڈیا کی آزادی کو کتنا متاثر کیاہے ۔اس میڈیا کو ہم ’ رٹّوطوطا‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
میڈیا کوایسی بے بنیاد اور پروپیگنڈہ خبریں نشر کرنے پر شرم آنی چاہئے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ عہد میں میڈیا کا وقار تباہ ہوچکاہے ۔دانشور طبقہ میڈیا کی خبروں پر یقین نہیں کرتا اور نہ اسکے پروپیگنڈے کا شکار ہوتاہے ۔مگر اس دانشور طبقے کی تعداد بہت محدود ہےاور سماج میں اس کا کردار بھی بہت زیادہ نہیں رہ گیاہے ۔جمہوریت میں اصل کردار عوام کا ہوتاہے اور عوام کی ۸۰ فیصد سے زیادہ آبادی علم و دانش سے محروم ہے ۔وہ میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ پیش کئے جارہے مسخ شدہ حقائق کو درست تسلیم کرتی ہے ۔ہندوستان میں جمہوریت کے زوال میں بڑا کردار میڈیا نے ادا کیاہے اوراس کے لئے تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بھارتی میڈیا استعمار کے شکنجے میں۔ پہلا حصہ

  • ۳۹۱

بقلم عادل فراز

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہندوستانی میڈیا پوری طرح استعماری طاقتوں اور سرمایہ داروں کے شکنجے میں ہے ۔اس کی آزادی اور حق بیانی کی طاقت سلب کی جاچکی ہے ۔اس وقت ہمارا قومی میڈیا فاشسٹ طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکا ہے ۔ان کے پاس عوام کے لئے معلوماتی خبروں ،تحقیقاتی مباحثات اور معیاری پروگراموں کے بجائے فرقہ پرستی اور اشتعال انگیزی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔کیونکہ میڈیا کے تمام تر بڑے بڑے ادارے اور نیوزایجنسیاں سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں۔یہ سرمایہ دار اپنے مفادات کے خلاف نہیں جاسکتے لہذا ایسی خبریں اور پروگرام پلانٹ کئے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر عوام اسی جھوٹ کو حقیقت سمجھتی ہے اور پلانٹ خبروں پر اعتبار کرلیتی ہے۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ تاریخی واقعات و حقائق کو پوری طرح مسخ کرکے پیش کیا جارہاہے ،فرقہ پرستی کو علی الاعلان ہوا دی جارہی ہے اور سماج کو تقسیم کرنے کا کھیل کھیلا جارہاہے مگر عوام اس پورے کھیل کی سچائی سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے لےرہی ہے ۔ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے ۔یہ صورتحال میڈیا نے پیدا کی ہے اور اس کے ذمہ دار وہ سرمایہ دار ہیں جو بڑے بڑے میڈیا ہائوسیز کے مالک ہیں۔ یہ تمام میڈیا ہائوسیز نیوز ایجنسیوں کے محتاج ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام تر بڑی نیوز ایجنسیاں استعمار کی ملکیت ہیں ۔استعماران نیوز ایجنسیوں کے ذریعہ دنیا کی بڑی آبادی کی سماعتوں اور قوت فیصلہ پر مسلط ہوچکا ہے۔جھوٹی خبریں پلانٹ کی جاتی ہیں ،خود کو مظلوم ثابت کرکے دنیا کی ہمدردی حاصل کی جاتی ہے ،اپنی فوجی طاقت اور اقتصادی عظمت کا بکھان کیا جاتاہے ۔اپنے دشمنوں کو دہشت گرد اور دہشت گرد دوستوں کو مصلح جہان کہہ کر متعارف کروایا جاتاہے ۔استعمار کی جاری کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں وہی تنظیمیں شامل ہیں جو اس کے مفادات کے خلاف لڑ رہی ہیں اوراس کے دنیا پر حکومت کے خواب کو ڈرائونا خواب بنا دیاہے ۔ایسی ہی ایک تنظیم کا نام ہے’’ حزب اللہ ‘‘۔حال ہی میں لبنان کے قومی دارالحکومت بیروت میں ہوئے دھماکے کے بعد عالمی سطح پر جس طرح ’حزب اللہ ‘ کو گھیرنے کی کوشش کی گئی وہ اسی منصوبے کا حصہ ہے ۔
ہمارا قومی میڈیا بھی لبنان کے دارلحکومت بیروت میں ہوئے دھماکوں کا ذمہ دار ’حزب اللہ ‘ کو قراردے رہاہے ۔جبکہ لبنان کی حکومت اورانٹلیجنس نے اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا ۔مگر میڈیا کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ لبنان حکومت اور وہاں کی انٹلیجنس کا موقف کیاہے بلکہ وہ تو اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لئے ان کے میڈیا ہائوسیز کی پلانٹ خبروں کو نشر کرکے اپنی غلامی کا ثبوت دے رہاتھا۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ کے سلسلے میں ’ٹی وی 9 بھارت ورش ‘ نے جس طرح کی خبریں نشر کی ہیں وہ اس کی اسرائیل نوازی اور حقیقت سے بے خبری کی دلیل ہے ۔حزب اللہ ایک جمہوری پارٹی ہے جس کے اراکین لبنان کی قومی اسمبلی میں موجود ہیں ۔اگر حزب اللہ دہشت گرد تنظیم ہے تو پھر لبنانی حکومت نے اس پر پابندی عائد کیوں نہیں کی؟ یا پھر ساری دنیا کا ٹھیکہ امریکا اور اسرائیل نے لے رکھاہے کہ وہ جسے چاہیں گے دہشت گرد قرار دیں گے اور جس دہشت گرد کو چاہیں گے دنیا پر امن کا نمائندہ بناکر مسلط کردیں گے ؟۔حزب اللہ اپنی سرحدوں کے تحفظ اور اسلامی اصول و اقدار کی پاسبان تنظیم ہے ۔ظلم و دہشت گردی کے خلاف اس کے جوانوں کی مقاومت اور ایثار نے ساری دنیا کو حیران کیاہے ۔اگر مظلوموں اور مستضعفین کی حمایت اور ان کا تحفظ کرنا امریکہ اور اسرائیل کی نگاہوں میں دہشت گردی ہے تو پھر یہ دہشت گردی امریکہ اور اسرائیل کے نام نہاد انصاف سے ہزار ہا درجہ بہتر ہے ۔کیا میڈیا نہیں جانتا کہ عالمی دہشت گردی کے فروغ میں اسرائیل اور امریکا کا کردار کیاہے ؟۔ طالبان سے لیکر داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ کہاں سے میسر آرہی ہے ؟ صدام حسین ،اوسامہ بن لادن ،ملا عمر اور ابوبکر بغدادی جیسے دہشت گردوں کا سرغنہ کون ہے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک نے دہشت گردوں کی فیکٹری قائم کی ہے جہاں ابوبکر بغدادی اور اوسامہ بن لادن جیسے دہشت گرد تیار کرکے اسلامی ملکوں میں بھیجے جاتے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جاسکے ۔ان دہشت گردوں کے ذریعہ جب یہ استعماری طاقتیں اپنے ہدف کو پالیتی ہیں تو انہیں ظالمانہ طورپر قتل کردیا جاتاہے ۔صدام حسین جو امریکہ کا پالتو تھا ،جیسے ہی امریکہ کو یہ احساس ہواکہ اب صدام اس کے مفادات کو نقصان پہونچا سکتاہے ،فرضی دلائل کے ساتھ پورے عراق کو تباہ و برباد کردیاگیا۔یہی صورتحال ابوبکر بغدادی اور ملا عمر و اسامہ بن لادن جیسے دہشت گردوں کے ساتھ اختیار کی گئی ،جبکہ یہ تمام دہشت گرد امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ تھے ۔

جاری

 

چین ایران کا عظیم اتحاد، ٹرامپ اور مودی دیکھتے رہو - دوسرا حصہ

  • ۳۷۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

ہندوستان کے لئے ، چابہار بندرگاہ نہ صرف افغانستان کو تیل کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے اور افغانستان اور وسطی ایشیا رسائی حاصل کرنے کے عنوان سے اہمیت کی حامل تھی بلکہ پاکستان کے گوادر بندرگاہ کے وزن کو کم کرنا ہندوستان کے لیے زیادہ اہم تھا۔
ایران کے لئے، چابہار بندرگاہ پہلی سمندری بندرگاہ تھی جس سے وہ کمرتوڑ پابندیوں سے نکلنے کے لیے کوئی چارہ جوئی کر سکتا تھا اور اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی سہولت فراہم کر سکتا تھا۔

تاہم ، یہ منصوبہ جلد ہی جمود کے دور میں داخل ہوگیا۔ 2017 میں ، ٹرمپ نے ایران کے جوہری معاہدے کے خلاف موقف اختیار کر کے اس سے نکلنے کی سعی شروع کر لی۔ دوسری جانب چابہار بندرگاہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اسے استفادے میں لانے کے لیے نجی کمپنیوں کی شراکت کی ضرورت تھی، لیکن نجی کمپنیوں نے نئی امریکی پابندیوں کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے ہندوستانی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کیا۔

2018 میں ، ٹرمپ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگئے اور اسی سال ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی گئیں۔ لیکن افغانستان کی تعمیر نو میں چابہار کے ممکنہ کردار کی وجہ سے، اس بندرگاہ کو امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ کر دیا گیا۔

اس چھوٹ کے باوجود ، ہندوستان چابہار کے لئے نجی شراکت دار ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ یہاں تک کہ بندرگاہ کو درکار سامان اور آلات و ابزات فراہم کرنے سے بھی قاصر رہا۔ گذشتہ موسم گرما میں ، یہ رپورٹ سامنے آئی کہ نئی دہلی نے اس منصوبے سے متعلق اپنے وعدوں کو 2017 سے پورا نہیں کیا ہے۔

اس بندرگاہ میں کنٹینر ٹریفک بہت کم ہے اور چابہار اس وقت اپنی سالانہ گنجائش کے 10٪ سے بھی کم کام کررہا ہے۔ برآمدات کی کم مقدار کا مطلب یہ ہے کہ جہاز بغیر مال کے چلتے ہیں اور اس وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔

بھارت نے بظاہر چابہار میں ریلوے کی تعمیر میں کوئی پیشرفت نہیں کی اور ایران خود اس منصوبے کو انجام دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔ نیز، ہندوستانی کمپنیاں جو تھوڑا بہت گیس کے میدان میں کام کرنے کے لیے آگے بڑھی تھیں انہوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ ایسے میں تہران ایک نئے پارٹنر کو تلاش کرنے پر مجبور ہوا۔
ایران نے چین کو اپنا پارٹنر بنا کر بہت ساری مشکلات کا راہ حل تلاش کر لیا ہے چین اگر چاربہار بندرگاہ کو مکمل کر کے ایران میں سرمایہ کاری شروع کر لیتا ہے اور ایران کے ذریعے وہ مشرقی وسطیٰ اور یورپ میں مکمل طور پر گھسنے کے لیے اپنا زمینی راستہ تیار کر لیتا ہے تو پھر چین کی راہ میں امریکہ کیا امریکہ کا باپ بھی روڑے نہیں اٹکا سکے گا اور نتیجہ میں امریکہ چین کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور تو ہو گا ہی مگر ایران بھی چین کے سہارے علاقے میں بڑی طاقت کی صورت میں ابھرے گا۔ ایشیا میں چین ایران اور روس کا اتحاد امریکہ اور یورپ کو ناکو چنے چبوانے کے لیے کافی ہو گا۔

 

چین ایران کا عظیم اتحاد، ٹرامپ اور مودی دیکھتے رہو - پہلا حصہ

  • ۴۲۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی جریدہ نیشنل انٹرسٹ (The National Interest) میں ’روپرٹ اسٹون‘ نے "چین اور ایران کے عظیم اتحاد کے لئے تیار ہو جائیں" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے:

چین کو کنٹرول کرنے میں بھارت امریکہ کا اہم شراکت دار ہے۔ لیکن ایران کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی نے خطے میں نئی دہلی کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے ، اور اس وقت تہران سے اہم مراعات حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔

چین اور ایران کے مابین 25 سالہ معاہدے کی اطلاعات نے واشنگٹن کو مشتعل کردیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹرمپ کی تہران کو تنہا کرنے کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔

لیکن ریاستہائے متحدہ واحد ملک نہیں ہے جو چین-ایران عظیم اتحاد کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔ بھارت نے بھی ایران میں مختلف سرمایہ کاری کی ہے جو ایران اور چین کے مابین معاشی تعلقات میں توسیع کی وجہ سے خطرہ میں ہے۔

انتباہی نشانیاں پہلے سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، جب سے چین کی ایران میں سرمایہ کاری کی بات شروع ہوئی ہے مبینہ طور پر ہندوستانی کمپنیوں نے ایران میں اپنی نقل و حرکت روک دی ہے۔ موجودہ صورتحال نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ بیجنگ ہندوستان کو ایران سے نکال باہر کرے گا۔

حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایران چین معاہدے نے نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سرحدی تنازعات میں اضافہ کے ذریعہ نہ صرف ہند چین تعلقات اس وقت تناؤ کا شکار ہیں ، بلکہ نئی دہلی کو اپنے پڑوس میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں طویل عرصے سے تشویش ہے۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ نئی دہلی کا یہ خوف کہ چین بھارت کو ایران سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہا ہے بے بنیاد نہیں ہے۔ ایران میں ہندوستانی منصوبے حقیقت میں مشکلات سے دوچار ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ مشکلات امریکی پابندیوں کا نتیجہ ہیں، نہ صرف چین کی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش۔ در حقیقت ، چین-ایران معاہدہ اس سے کہیں کم اہمیت کا حامل ہے جتنا میڈیا اسے اہمیت دے رہا ہے۔

ہندوستان نے کئی دہائیوں سے ایران میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوشش کی، اور 2015 میں جوہری معاہدے کے بعد ایرانی معیشت کے خلاف پابندیوں کے خاتمے سے بھارت کی تلاش و کوشش میں تازہ جان آ گئی تھی۔

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران جوہری معاہدے کے بعد تیزی سے ایران کے قریب ہونے کے لیے قدم اٹھایا۔ تہران کے پاس بہت سارے قدرتی ذخائر ہیں جن میں توانائی کے وافر وسائل بھی شامل ہیں۔ نیز پاکستان کو نظر انداز کر کے ایران، افغانستان اور وسطیٰ ایشیا میں قدم رکھنے اور اپنی برآمدات بہم پہنچانے کے لیے بھارت کے پاس اس سے اچھا آپشن نہیں تھا۔

ہندوستانی کمپنیوں نے تہران کے ساتھ گیس کے حوالے سے اپنے پرانے معاہدوں کو دوبارہ بحال کیا۔ اس کے علاوہ 2016 میں ، مودی نے اپنے ایرانی اور افغان ہم منصبوں کے ساتھ ہندوستان اور افغانستان کے مابین ایک نیا تجارتی روٹ قائم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس مقصد کے لئے ، ہندوستان نے ایران کے جنوب مشرق میں چابہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری پر اتفاق کیا اور چابہار سے افغان سرحد تک ایک ریلوے لائن تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔

جاری

 

امریکی ریاستی دھشتگردی اور علاقے میں افراتفری

  • ۴۳۷


بقلم افتخار جعفری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دہشت گردی کسی بھی ایسے دشمنانہ اقدام سے عبارت ہے جو کسی شخص یا قوم کے لیے دھشت اور خوف کا سبب بنے یا جسمانی یا نفسیاتی اذیت و آزار کا باعث بنے۔ لیکن ریاستی دہشت گردی سے مراد ایسی کوئی بھی کارروائی ہے جو حکومتیں اپنے شہریوں کے خلاف یا غیر ملکی گروہوں اور ریاستوں کے خلاف اپنے ملک میں یا پرائے ملک میں کسی خاص مقصد کے پیش نظر انجام دیتی ہیں۔  
اگر ہم اس تعریف کو ریاستہائے متحدہ امریکہ پر لاگو کرنا چاہیں تو ہمیں واشنگٹن کی اس پالیسی کی متعدد مثالیں ملیں گی جو بیرونی ممالک ، اداروں اور جماعتوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا حقیقی ترجمان ہیں، لیکن کیا امریکی لڑاکا طیاروں کے ذریعے لبنان جانے والے ایرانی مسافر بردار طیارے کو ہراساں کیا جانا امریکہ کی ریاستی دھشتگردی کا حصہ ہے؟ درج ذیل موارد پر غور کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو سکتا ہے؛  
- ایرانی طیارہ ایک مسافر بردار طیارہ تھا نہ کہ ایک فوجی طیارہ ، اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ امریکہ نے ماہان ایئر لائن کو بھی اپنی پابندیوں کا حصہ بنا رکھا ہے اور اس وجہ سے ماہان ایئرلائن کے جہاز کو ہراساں کرنے یا اسے دھشتگردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جبکہ ایسا کرنا امریکہ کے لیے بالکل قانونی اقدام نہیں تھا چونکہ امریکی پابندیاں صرف اور صرف امریکہ کے لیے قانونی ہیں کسی دوسرے ملک کا ان پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے چونکہ دنیا کے دیگر ممالک بالکل امریکی قوانین کے پابند نہیں ہیں، امریکی پابندیاں سوفیصد امریکی مفاد میں ہیں نہ کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے مفاد میں۔  
- ایرانی مسافر بردار طیارہ شام کے اوپر پرواز کر رہا تھا ، جس کا مطلب ہے کہ یہ ریاستہائے متحدہ کے آسمان پر نہیں اڑ رہا تھا ، اور اس پرواز کو ملکی ایئرلائنز ادارے سے متعلقہ تمام بین الاقوامی تنظیموں کے اتفاق رائے کے مطابق انجام دیا گیا تھا۔ تاہم ، شام کی فضائی حدود میں امریکی لڑاکا طیاروں کی موجودگی بین الاقوامی قوانین اور ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور مسافر طیارے پر اس کا حملہ ریاستی دہشت گردی کے تناظر سے باہر نہیں ہے۔ چونکہ امریکہ اپنے اس اقدام کی توجیہ میں کہتا ہے کہ اس کے جنگی طیارے شام میں داعش کے خلاف اتحاد میں شمولیت کی غرض سے موجود ہیں جبکہ اس اتحاد کو نہ تو عالمی برادری کی نظر میں قانونی حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی نظر میں۔
۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ایرانی مسافر طیارے پر حملے کے بارے میں لبنان میں شام کے سفیر نے کہا ہے کہ میڈیا رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ شام کا دفاعی سسٹم کبھی دھوکہ سے اس جہاز کو دشمن کا طیارہ سمجھ کر اس پر فائر نہ کر دیتا۔  اس وجہ سے امریکہ لڑاکا طیاروں نے اس کی حفاظت کے لیے اس کے اطراف کو گھیر لیا!۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ وہ طیارہ جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنے مشخص اور معلوم رووٹ پر چل رہا ہو اسے شام کا دفاعی سسٹم دشمن کا طیارہ سمجھ سکتا ہے اور جو امریکی طیارے غیر قانونی طور پر شام کے آسمان پر پروازیں کرتے ہیں انہیں شام کا دفاعی سسٹم دشمن کا طیارہ نہیں سمجھتا؟۔
بہر حال یہ فعل بین الاقوامی قوانین کی نظر میں ایک جرم سمجھا جاتا ہے اور ذمہ دار شخص کو بین الاقوامی فوجداری قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہئے ۔ جیسا کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے زور دیا ہے کہ قانون شکنی کرنے والوں کو کسی تباہی کا سبب بننے سے پہلے روکنا ہو گا۔
مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں ، مسافر بردار طیارے پر حملہ ریاستی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہے ، اور یہ امریکہ کی خصلت ہے جو کئی دہائیوں سے ایران کے خلاف ہر طرح کی دہشت گردی ، خصوصا معاشی ، سیاسی اور عسکری دھشتگردی کرتا آیا ہے۔
۔ یہ فطرتی بات ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ، اپنی داخلی پریشانیوں اور چیلنجوں کے باوجود، علاقے میں تناؤ پیدا کرنے، انتشار پھیلانے اور دوسرے ممالک کو مشتعل کرنے کے در پہ ہے۔
- یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ امریکہ وہی پلان اور منصوبہ جو سمندری حدود میں لاگو کرتا تھا وہی فضائی حدود پر بھی لاگو کرے، یعنی ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ امریکہ سمندری حدود میں ایرانی کشتیوں کو ہراساں کرتا تھا اور انہیں دھشتگردانہ کاروائیوں کا نشانہ بناتا تھا ویسے ہی اب فضائی حدود میں بھی ایرانی جہازوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں ایران کو کسی نئی حکمت عملی پر عمل کر کے عالمی دھشتگرد سے اپنی جان چھڑانی ہو گی۔
بہر کیف، ایسے اقدامات کا نتیجہ بہت ہی بدتر ہو سکتا ہے۔ کسی بھی صورت میں ، دونوں ممالک کے مابین تناؤ ریاستی دہشت گردی کی سطح تک نہیں پہنچنا چاہئے اور عام شہریوں کو اس دھشتگردی کا نشانہ نہیں بننا چاہیے ورنہ امریکی مسافر بردار طیارے بھی ایران کی قریبی فضائی حدود سے گزرتے ہیں تو ایران کے لیے بھی جوابی کاروائی کرنا اور امریکی طیاروں کا نشانہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان عوام کا ہے اور مسافروں کی جانوں کو خطرہ ہے چاہے ایرانی طیارے ہوں یا امریکی طیارے دونوں پر عام لوگ سوار ہوتے ہیں۔ لیکن دونوں صورتوں میں ذمہ داری امریکہ پر عائد ہو گی لہذا عالمی برادری کو بین الاقوامی قوانین کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے امریکہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہو گا۔ ورنہ نتائج بہت برے ثابت ہو سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔