-
Tuesday, 11 August 2020، 01:08 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فارس نیوز ایجنسی کے مطابق ، لبنان کے وزیر اعظم ’’حسان دیاب‘‘ جو بیروت دھماکے کے بعد سخت دباؤ میں تھے نے بالآخر پیر (کل) کو استعفیٰ دے کر اگلی حکومت کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے تاکہ ملک کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔
روزنامہ " الاخبار " نے اپنی ایک رپورٹ میں لبنان کی موجودہ صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے، فرانسیسی صدر "ایمانوئل میکرون" نے ایسے وقت میں لبنان کا اچانک دورہ کیا کہ لبنان کی صورتحال بحرانی کیفیت کا شکار تھی انہوں نے بجائے اس کے کہ موجودہ حکومت کو سہارا دیں اور دھماکے میں اتنی جانوں کے ضیاع پر تعزیت پیش کریں مخالف سیاسی پارٹیوں اور گروہوں کو حکومت کے خلاف مشتعل کر دیا۔ ایسے میں حسن دیاب کو ان لوگوں کو جواب دینا پڑا جو ان کے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر انہیں قربانی کا بکرا بنانے کی سازش رچا رہے تھے ، لہذا انہوں نے قبل از وقت الیکشن کا بم پھوڑ دیا۔ لیکن جب پارلیمنٹ کے اسپیکر ’نبیہ بری‘ نے "اتحادیوں سے مشورہ کیے بغیر یہ اعلان کر دیا کہ وہ جمعرات کے روز موجودہ حکومت کو بیروت دھماکے کے حوالے سے مواخذہ کرنے کا قصد رکھتے ہیں تو حسن دیاب استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔
لبنانی حکومت کے استعفے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، فرانسیسی وزارت خارجہ نے یہ اعلان کیا کہ میکرون کے لبنان دورے کا مقصد پورا ہو گیا ہے لہذا جلد ہی نئی حکومت تشکیل دی جائے گی۔ بیان میں آئندہ حکومت کے چیلنجوں کو ’بیروت کی تعمیر نو‘ اور ’لبنانی عوام کے مطالبات کا جواب‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ اگر چہ بظاہر فرانس کے منصوبے کے مطابق لبنان کی سیاسی پالیسی ایک قومی حکومت کی تشکیل کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم اعلیٰ سیاسی ذرائع کے مطابق فرانس لبنان میں قومی حکومت کی تشکیل کا خواہاں نہیں ہے بلکہ امریکہ اور سعودی عرب کے ہمراہ ایسی حکومت کی تشکیل پر زور دے رہا ہے جو ان کے مفاد میں ہو اور مزاحمتی گروہوں کو کمزور بلکہ غیر مسلح کرے۔
اسی سلسلے میں ریاض کے قریبی ذرائع نے یہ بھی کہا کہ فرانس نے لبنان کے لئے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا اور یہ سچ نہیں ہے کہ پیرس نے قومی اتحادی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ایسی حکومت "دوسری بغاوت" کا باعث بنے گی۔ ذرائع نے مزید کہا: "فرانسیسی کسی بہانے قومی اتحاد کی حکومت کے اس نظریہ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میکرون کے الفاظ کی غلط ترجمانی کی گئی ہے۔"
الاخبار نے لبنان میں ہونے والے واقعات اور فرانسیسی منصوبے کے بارے میں سعودی عرب کے مؤقف کو باخبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ریاض کے لئے سب سے بڑا مسئلہ "حزب اللہ کا غلبہ اور اس کے تئیں مشیل عون کی حمایت ہے‘‘۔
لبنانی سیاسی ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکیوں فرانسیسیوں اور سعودیوں نے ’نواف سلام‘ کو مستقبل کی لبنانی حکومت کے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار نامزد کیا ہے ۔ لیکن ممکن ہے مشیل عون اپنے قانونی اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگلے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے کوئی ریڈ لائن متعین کر دیں۔ لیکن بہر صورت سیاسی خلا سے بچنے کے لیے جلد ہی ایک نئی حکومت کی تشکیل لازمی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، موجودہ حالات کے پیش نظر لبنان کا مستقبل دو ممکنہ صورتوں پر مبنی ہے:
پہلی صورت؛ ابتدائی پارلیمانی انتخابات کا نفاذ۔ اس منصوبے پر عمل درآمد سنجیدہ نہیں لگتا کیوں کہ لبنان کو بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے، ان میں سے پہلی مشکل نئے انتخابی قانون پر اتفاق ہے۔
دوسری صورت؛ نئی حکومت کا قیام یا سیاسی نظام کی تنظیم نو ، جو ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے ’طائف‘ معاہدے کی طرح طویل مدتی گفتگو اور مشاورت کی ضرورت ہے۔ ایک ہی آپشن باقی رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنا استعفیٰ واپس لے لے، جو آسان نہیں ہے لہذا ملک کی صورتحال وہی ہے جو سعد الحریری کے استعفیٰ کے بعد پیش آئی تھی ، لیکن اس بار مسئلہ صرف حکومت کی تشکیل کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ بیروت دھماکے میں جانوں کے ضیاع اور بھاری نقصانات کا بھی ہے۔ چونکہ متاثرہ افراد کے اہل خانہ انتقام کے خواہاں ہیں۔
ایسے میں لبنان کے حالات کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔