ہندوستان کی قدیم تہذیب کے تحفظ میں دینی مدارس کا کردار

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ہندوستان ایسی سرزمین کا نام ہے جس کی تہذیب و ثقافت تین ہزار سال پرانی ہے بلکہ اس دور سے ملتی ہے جب حضرت انسان نے اس کار گہہ حیات میں قدم رکھا اور خالق کائنات نے انسانی پیکر کو حیات بشری کا لباس پہنایا۔ تاریخ نے اس سرزمین کے دامن میں بے شمار گلہائے رنگارنگ کھلائے اور تہذیب و ثقافت کے بے بہا موتی بکھیرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کو عجائب گھر کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کی یہ قدیمی تہذیب و ثقافت مصری، سمیرین، آشوری، کلدانی، ایرانی اور یونانی تہذیبوں کے ساتھ آمیختہ ہو کر ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے اسی وجہ سے بھارتی تہذیب میں مذکورہ تہذیبوں کے مشترکہ نمونے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اس سرزمین کی انوکھی تہذیب و ثقافت کے تحفظ میں دینی مدارس کا کردار بھی اپنی جگہ محفوظ ہے۔ دینی مدارس نے ہندوستانی تاریخ اور تمدن کو دینی تعلیمات کے ہمراہ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے میں بے حد سرمایہ لٹایا ہے۔ جہاں ہندوستان میں دینی مدارس نے اسلامی تہذیب کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا وہاں گنگا جمنی تہذیب کو بھی پروان چڑھایا۔ دینی مدارس چاہے اہل سنت و الجماعت مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں چاہے شیعہ مکتب فکر سے دونوں مکاتب کے مدارس نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو مغربی تہذیب کی یلغار اور سیاہ آندھیوں سے محفوظ رکھنے میں بے مثال کردار پیش کیا ہے۔ لہذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس سرزمین کے دینی مدارس اور حوزات علمیہ نہ صرف مذہبی تعلیمات کی ترویج میں کوشاں رہے بلکہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں بھی موجود خلاؤں کو پر کیا اور معاشرے کے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سدھار لانے کی کوشش کی۔ یہ علمی مراکز ممتاز طلاب کی تربیت کے ذریعے معاشرے کی ثقافت کو رونق بخشتے اور ایسے افراد کو معاشرے کے حوالے کرتے ہیں جو دینی اور ثقافتی یلغاروں کے مقابلے میں مضبوط ڈھال بن کر جہاں دین کی پاسبانی کرتے ہیں وہاں معاشرے اور ملک کی تہذیب کو بھی شرپسندوں اور انتہاپسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
دینی مدارس کا بھارت کی سرزمین میں روشن اور درخشاں ماضی پایا جاتا ہے بڑے بڑے مجتہد ان مدارس نے جنم دئے اور ایسے قیمتی اور گرانقدر کتب خانے وجود میں لائے جن میں ایسی بےبدیل کتابیں مہیا ہیں جو دنیا کے بڑے بڑے کتب خانوں میں موجود نہیں ہیں۔ ہندوستان میں علم کلام اور فقہ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ ظہور اسلام کے ابتدائی ادوار سے آغاز ہو گیا تھا، اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ و نقلیہ کے فروغ کے لیے مختلف مدارس اور حوزات علمیہ وجود میں لائے گئے تاکہ دینی تعلیمات کے حصول کے شائقین ایک ساتھ مجتمع ہو کر علوم الہیہ سے اپنی تشنگی بجھائیں اور بھارت کی سرزمین پر توحید پرستی کا پرچم لہرایا۔
اگر ہندوستان کے دینی مدارس کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں تمام مسلمان چاہے شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل سنت و الجماعت سے، مشترکہ مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن دھیرے دھیرے اختلافات وجود میں آنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے اور دینی مدارس شیعہ و سنی مدارس کی شکل میں پھیلتے گئے۔ بہر صورت دونوں طبقے کے دینی مدارس میں اپنے اپنے اعتبار سے اسلامی علوم کو ترقی ملتی گئی اور فقہ و حدیث و تفسیر کی تعلیم کے علاوہ علم ریاضیات، علم ہیئت، علم منطق اور اسلامی فلسفہ جیسے علوم بھی خصوصا شیعہ مدارس میں رائج ہو گئے۔ ہندوستان کے معروف شیعہ مدارس میں حوزہ علمیہ “سلطان المدراس” کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اہل تشیع کے دینی مدارس میں علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم نے شیعہ ثقافت کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان مدارس نے ایسے عظیم علماء اور دانشوروں کی تربیت کا سامان فراہم کیا جنہوں نے عالم اسلام کی فکری اور عقیدتی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ (۱)
برصغیر میں شیعہ نوابوں نے بھی دینی مراکز کی تعمیر اور ممتاز علمی شخصیات کی تربیت میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا یہاں تک کہ ہندوستان کے دینی مدارس اور علماء کو حوزہ علمیہ نجف اشرف کی علمی اور مالی حمایت حاصل ہو گئی۔ یہ حمایت اس بات کا سبب بنی کہ ہندوستان کے علمی مراکز اور کتب خانے ایک قسم کی مرکزیت حاصل کر جائیں اور علامہ امینی جیسی شخصیت کو الغدیر کی تدوین کے لیے ہندوستان کا سفر کرنا پڑ جائے۔
اسلامی انقلاب ایران کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں ہندوستان کے شیعہ مدارس کی حد اکثر تعداد ۲۰ عدد تھی لیکن اس وقت ہندوستان میں ۷۰ سے زیادہ دینی مدارس پائے جاتے ہیں۔ یہ دینی مدارس کہ جن میں سے بہت سارے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے تعمیر ہوئے ہیں بالعموم ہندوستانی معاشرے میں اتحاد اور اتفاق کی فضا قائم کرنے اور بالخصوص شیعہ سماج میں بالیدگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
شیعہ مدارس کے علاوہ اہل سنت و الجماعت کے دینی مدارس کو بھی ہندوستان میں بہت بڑی مرکزیت حاصل ہے یہاں تک کہ کئی دیگر ممالک کے طلاب بھی ان مدارس سے کسب فیض کرنے ہندوستان جاتے ہیں۔ دار العلوم دیوبند اور جامعہ رضویہ بریلوی اس مکتب فکر کے دو اہم مدارس شمار ہوتے ہیں۔
۱ سفربه سرزمین هزار آیین، گزارش سفر آیت الله مصباح یزدی به هندوستان, ص ۱۵۲  تا ۱۵۴
بقلم: حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے شعبہ برصغیر اسٹڈیز ڈیسک گروپ کے ڈائریکٹر

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی