-
Wednesday, 3 February 2021، 12:31 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مقاومت کے کمانڈروں کی شہادت سے لے کر آج تک کے ایک سال میں امریکہ کو جن سیاسی اور عسکری ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، امریکی تاریخ میں ان کی مثالیں بہت کم ہیں۔
جنوری 2020 میں عراقی فوجی اڈے عین الاسد میں امریکی دہشت گرد کے قلب پر میزائل حملہ کیا گیا؛ جو مالی اور جانی نقصانات کے علاوہ پوری دنیا میں امریکی رعب و ہیبت کے ٹوٹ جانے پر منتج ہؤا۔ اس سے پہلے کبھی بھی کسی نے للکار کر امریکی مفادات پر حملہ نہیں کیا تھا۔
عین الاسد پر ایرانی حملے اور امریکی عسکری شکست کے بعد، امریکہ نے زیادہ سے زیادہ دباؤ اور ایٹمی معاہدے کے مکمل خاتمے کی پالیسی کے تحت، سیاسی میدان میں ایران پر لگی اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی کو جاری رکھنے اور ایران کے خلاف اسنیپ بیک میکانزم (Snapback mechanism) متحرک کرنے کی بہتیری کوششیں کیں جو ناکام ہو گئیں اور روایتی یورپی حامیوں نے بھی اسے تنہا چھوڑ دیا۔
ایک بہت ہی انوکھا واقعہ یہ تھا کہ عراقی عدلیہ نے شہدائے مقاومت کے قتل کے جرم میں امریکی صدر ٹرمپ کی گرفتاری کا حکم سنا دیا۔
یہ سارے واقعے بےمثل تھے، امریکی اقدامات اور بدمعاشیوں کے مقابلے میں ایران کی استقامت نے واضح کردیا کہ امریکی یَک قُطبیت (Unipolarity) کا دور گذر چکا ہے اور اس کو اب اپنے اقدامات کا جواب دینا پڑے گا اور ان کے عواقب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
"شہید سلیمانی آپریشن" علاقے میں امریکی موجودگی کے خاتمے کا آغاز
آٹھ جنوری 2020 بوقت صبح، "شہید سلیمانی آپریشن" کے دوران 13 "فاتح-313" اور "قیام" بیلیسٹک میزائل، شہید سلیمان، شہید ابو مہدی المہندس اور مقاومت کے دوسرے شہیدوں کے انتقام کے طور پر، بغداد سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع عین الاسد عراقی اڈے میں واقع امریکی عسکری اڈے پر داغے گئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب سپاہ قدس کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل الحاج قاسم سلیمانی اور عراق کی الحشد الشعبی کے نائب کمانڈر الحاج ابو مہدی المہندس اور مقاومت کو ساتھیوں پر ٹرمپ کے حکم پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد علاقے میں تناؤ کی کیفیت عروج کو پہنچ چکی تھی اور امریکی ایران کی انتقامی کاروائیوں کے خوف سے شیخیاں بھگارنے پر اترے ہوئے تھے۔
اس کے باوجود، ایران کے میزائل حملے کے بعد، امریکی صدر سمیت اس کے مہم جو مغربی معاون ممالک، جو اس دن تک ایران کے خلاف شیخیاں بھگارنے اور دھمکیوں کی پالیسی پر گامزن تھے، اپنی دھمکیوں سے پیچھے ہٹ گئے۔
سیاسی اور عسکری مبصرین اور معاصر تاریخ پر نظر رکھنے والے دانشوروں کا خیال ہے کہ اس کے باوجود کہ امریکہ دنیا پر بالادستی کا دعویدار ہے لیکن جب اسلامی جمہوریہ ایران نے اس کے فوجی اڈے پر زبردست میزائل حملہ کیا تو وہ اس حملے کا جواب نہ دے سکا اور اسے اس حملے کا جواب دینے سے چشم پوشی اختیار کرنا پڑی جو گذشتہ سات عشروں کے دوران اپنی نوعیت میں عسکری لحاظ سے ایک انوکھا واقعہ ہے اور ایران نے اس حملے کے ذریعے علاقے پر امریکی بالادستی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی