ہالیووڈ کا عقیدہ مہدویت پر حملہ

  • ۳۷۳

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: عصر حاضر میں مہدویت کا موضوع اتنا اہم موضوع ہے کہ حتیٰ دنیا کی معروف ترین فلم انڈسٹری ہالیووڈ نے اس موضوع پر کئی فلمیں اور کمپیوٹر گیمز بنائی ہیں ہالیووڈ نے اس موضوع کی اہمیت کا احساس اور انسانی معاشرے پر اس کی تاثیر کا ادراک کرتے ہوئے مکمل پروگرامینگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔
اورسن ویلیس ( Orson Welles) ہالیووڈ فلم انڈسٹری کی ایک معروف یہودی شخصیت ہے جس کی فلم “Citizen Kane” دنیا کی بہترین اور معروف فلموں میں شمار کی جاتی ہے، اس نے “Nostradamus کی پیشن گوئیاں” کے نام سے ایک فلم بنائی ہے جس میں آخری زمانے میں ایک ایسے شخص کو منجی کے طور پر پہچنوانے کی کوشش کی ہے جس کا نام آخری پیغمبر کے نام پر ہوتا ہے اور وہ مسلمان ہوتا ہے۔ لیکن اس قدر قتل و غارت کرتا ہے اور لوگوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتا ہے کہ ہر کوئی اس سے نفرت کا اظہار کرتا ہے۔
اس کا لباس عربی لباس ہوتا ہے اور سر پر عربوں کی طرح دستار باندھے ہوتا ہے۔ یہ یہودی فلم ڈائریکٹر در حقیقت اس فلم کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ مسلمان جس کو منجی اور بشریت کو نجات دلانے والا کہتے ہیں وہ ہزاروں لوگوں کی جانیں لے گا اور ان کے خود کی ندیاں بہائے گا۔ وہ اس فلم کے ذریعے یہ کہنا چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں رہنے والے ۶۰۰ ملین مسلمان جو عظیم قدرتی ذخائر منجملہ تیل و گیس کی دولت کے مالک ہیں اس منجی کے حامی ہیں جو عالمی امن کے لیے خطرہ ہے لہذا مسلمانوں سے اس عظیم ثروت و دولت کو چھینا جائے تاکہ اگر ان کا منجی ظہور کرے تو ان کے پاس اس کی مدد کے کچھ بھی نہ ہو اور درنتیجہ وہ جنگ و جدال جو وہ کرنا چاہتا ہے نہ کر سکے۔
ویلیس نے اس فلم کے ذریعے آسکرز (Oscars) کا انعام بھی حاصل کیا ہے اور اس کے بعد اس نے “یامہدی” کے نام سے ایک کمپیوٹر گیم بھی بنائی ہے جس کا مقصد بھی مذکورہ منصوبہ بندی کے تحت بچوں اور نوجوانوں کو منجی یا مہدی سے دور کرنا اور اس کی نسبت ان میں نفرت پیدا کرنا ہے۔
‘اورسن ویلیس’ نے یہ فلم ایسے حال میں بنائی ہے کہ اسے منجی آخر الزمان کہ جس پر تمام ادیان الہی کے ماننے والے ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان اسے آخری نبی کی نسل میں سے سمجھتے ہیں کے بارے میں دقیق معلومات نہیں ہیں یا اگر معلومات ہیں بھی تو اس نے حقیقت کو چھپاتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کی نسبت اپنی دشمنی کو اس انداز سے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ منجی عالم بشریت اللہ کے اس آخری نمائندے کا نام ہے جو دنیا میں قتل و غارت پھیلانے اور خون کی ندیاں بہانے نہیں آئے گا بلکہ بشریت کو قتل و غارت اور فتہ و فساد سے بچانے آئے گا ظلم و ستم سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے پر کرنے آئے گا وہ مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی ثروت و دولت کا محتاج نہیں ہو گا بلکہ زمین اس کے لیے اپنے سارے خزانے اگل دے گی وہ اخلاق حسنہ اور پیار و محبت کے ذریعے دنیا کی تقدیر کو بدل دے گا۔ اس لیے کہ وہ اس نبی کا فرزند ہو گا جو نبی رحمت ہے اور اس خدا کا نمائندہ ہو گا ‘ارحم الراحمین’ ہے جس کی رحمت ہر چیز پر غالب ہے، “رحمتی وسعت کل شئی”۔ لہذا ہالیووڈ کی ایسی فلموں اور گیموں کا مقابلہ کرنا اور ان سے اپنے بچوں اور نوجوانوں کو دور رکھنا تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے اس لیے کہ عالمی صہیونیت ان آلات و ابزار کے ذریعے مسلمانوں کے عقائد کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کرنا چاہتی ہے اور مسلمان بچوں اور نوجوانوں کے اندر ان کے عقائد کی نسبت نفرت پیدا کرنا چاہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسرائیل میں بہائیت کے مرکزی ہیڈ کواٹر کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے؟

  • ۳۶۷


خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر؛ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے امریکہ کی جانب سے  اسلامی جمہوری ایران  کے جاسوسوں اور اسلامی جمہوریہ  کے حدود تجاوز کر نے والوں کے دفاع  کے سلسلہ سے   ۱۷  رمضان المبارک  ۱۴۰۳ ھ مطابق ۲۸ جون ؁۱۹۸۳ حکومت کے ذمہ داروں کے درمیان ایک خطاب کیا ، جس میں آپ نے اس وقت کے امریکی صدر جمہوریہ کی جانب سے  ساری دنیا سے بہائیوں کے لئے مدد کی گہار لگانے کے سلسلہ سے اس بات کی وضاحت کی کہ  بہائیوں کی جانب سے امریکی صدر جمہوریہ کی یہی حمایت  انکے جاسوس ہونے اور امریکیوں کے  بہائیوں سے مفاد کے وابستہ ہونے کو بیان کرتی ہے ۔
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے  رونالڈ ریگن  کی تقریر کہ جسے بعض ریڈیو  اسٹیشنز نے نشر کیا  کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے کنایہ آمیز انداز میں  کہا: یہ لوگ چونکہ مظلوم ہیں اور بالکل بھی جاسوس  نہیں ہیں، مذہبی مراسم کے علاوہ کسی چیز میں مشغول نہیں رہے، اس پر ایران نے انکے انہیں  مذہبی رسومات کی وجہ سے ۲۲ لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی ہے، یہ وہ بات ہے جس کی بنا پر ریگن نے ساری دنیا سے مدد کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ لوگ جاسوس نہیں ہیں ، یہ ایسے سیدھے سادے لوگ ہیں جنکی کسی بھی کام میں کوئی شمولیت یا دخالت نہیں ہے  اپنی تقریر میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے  اس بات کو بیان کرنے کے بعد بہت سنجیدگی کے ساتھ انکی پھانسی کی سزا کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ ہم نے  ہرگز انکے بہائی ہونے کی وجہ سے انہیں قید وحبس کا حکم نہیں دیا  بلکہ انکے ساتھ کچھ مسائل رہے ہیں، یوں بھی بہائی کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ بہائی ایک پارٹی ہے، ایسی پارٹی جسکی ماضی میں برطانیہ حمایت کرتا رہا ہے اور اب امریکہ نے اسے اپنی چھتر چھایہ میں لیا ہوا ہے  یہ لوگ  جاسوس بھی ہیں اور دیگر لوگوں کی طرح انکے عقائد میں بھی انحراف پایا جاتا ہے، یہاں پر  مسئلہ تو یہ ہے کہ انکے طرفدار جناب ریگن صاحب آپ جیسے لوگ ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ  انکی ایک مبہم و خاص صورت حال ہے،  ہمارے دشمنوں کو فائدہ پہنچانے میں  انکا کردار اس کے علاوہ کیا ہوگا کہ  ہماری مخبری کریں اور ہمارے اسرار کو دشمنوں تک منتقل کریں، اور ایرانی قوم و حکومت کے درمیان انکے ساتھ جاسوسی کریں ۔
سچ تو یہ ہے کہ  اسلامی جمہوریہ  کے معمار و بانی کا جوہر کلام یہ ہے کہ  بہائیوں کے ساتھ مقابلہ آرائی  کی وجہ انکے عقائد  کے انحراف کے علاوہ اور ماورا اسکے کے یہ بنیادی طور پر بہائیت کوئی مذہب نہیں ہے اور یہ ایک گمراہ و منحرف فرقہ ہے،  در اصل یہ ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کی جاسوسی کرتے ہیں  اور اسی وجہ سے  امریکہ و اسرائیل  بہائیوں کی حمایت کرتے ہیں ۔ اور اسلامی انقلاب کے ۴۰ سال گزر جانے کے بعد  بھی  اپنی ڈگر پر یہ کھیل جاری ہے اسلامی انقلاب کے چالیس سال  گزر جانے کے بعد بھی  یہی کھیل جاری ہے اور بہائی فرقہ  کہ جسکا مرکزی  دفتر اور ہیڈ کواٹر مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے حیفا شہر میں ہے، اسرائیل اور امریکہ کے لئے  جاسوسی کر رہا ہے اور اس گمراہ  فرقہ سے مقابلہ آرائی و تقابل کی بنیادی وجہ   یہی امام خمینی  رضوان اللہ تعالی  کے وہ خدشات ہیں جنہیں آپ نے اس فرقے کے بارے میں بیان کیا ہے ۔
.صحیفه امام خمینی، ج۱۷،ص۴۵۹
بہائیت  جنگی عزائم رکھنے والے کارزار پسند اسرائیل کی خدمت میں
گزشتہ چند دنوں قبل اسرائیل کے خود ساختہ جعلی  ملک کے نام نہاد وزیر اعظم  بنجامن  نیتن یاہو نے اسرائیلی سلامتی و تحفظ کے کالج کے اسٹوڈینس سے ملاقات کے دوران اس بات کا دعوی  کیا کہ ’’  فی الوقت دنیا کی واحد ایسی فوج جو اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے  اسرائیل کی فوج ہے ‘‘۔
لائق توجہ ہے کہ  بہائی فرقہ کا صدر دفتر اسرائیل میں ہے اور  صہیونیوں کی ممکل  حمایت و پشت پناہی میں اپنا کام کر رہا ہے ، بہائی ہر ۱۹ دن میں اپنے دفتری چارٹ کے مطابق  ’’ ضیافت و دعوت‘‘ کے تحت  اپنے تمام تر تعلقات و روابط  اور اپنی کارکردگی و اپنے ترویجی وتشہیری کاموں  حتی دوستانہ تعلقات و لین دین کو اوپر رپورٹ کرتے ہیں اور اس پروگرام میں حاصل ہونے والی تمام ہی معلومات اسرائیل کو ارسال کر دی جاتی ہیں، یہ اطلاعات ایک ایسے ملک کو پہنچتی   ہیں جو واضح طور پر اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلہ کی بات کر تا ہے۔
ہرچند بہائیت کا دعوی ہے کہ اسکے صدر دفتر کے مقبوضہ فلسطین میں ہونے کے باوجود  اسکا کوئی تعلق بھی وہاں کے سیاست مداروں سے نہیں ہے اوریہ دفتر محض جغرافیائی طور پر اس خطے میں واقع ہے، لیکن نیتن یاہو کی جانب سے اس دفتر سے متعلق افراد سے ملنا اور انکا نیتن یاہو سے ملاقات کرنا مرغے کی ایسی دم ہے جو چھپائےنہیں چھپتی اور اس دعوے کو باطل کر دیتی ہے کہ ہم نے مرغا چوری نہیں کیا ہے ہم قسم کھا سکتے ہیں، ایسے میں جو مرغے کی دم کو آستین سے باہر  دیکھ رہا ہے وہ قسم پر کیونکر یقین کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بہائی  بالقوہ طور پر  اسرائیل کی مخبری کرنے والے عناصر کے طور پر کام کر رہے ہیں  جو اسلامی جمہوریہ کے معاشرے کی مختلف سطحوں میں رسوخ کر کے  اسلامی جمہوریہ کی حاصل ہونے والی اطلاعات کو  دشمنوں تک منتقل کرتے ہیں ۔
اس وقت ملک کے حساس حالات کے باوجود ، اور اسرائیلی حکام کی جانب سے جنگ کی طرف اکسانے والی باتوں اور جنگ خواہانہ زبان استعمال  کرنے کے باوجود  ضروری ہے کہ  اسلامی جمہوریہ ایران کے ذمہ داران  چھوٹے چھوٹے جاسوسی کے نیٹ ورکس کی نقل و حرکت کو لیکر حساس رہیں، اس لئے کہ جب اس سے پہلے  بہائیوں کی جانب سے اسرائیل کی طرف خفیہ معلومات کا تبادلہ ہوتا تھا  اور اس پر اعتراض ہوتا تھا  تو یہ دعوی کیا جاتا  کہ ساری معلومات  اسرائیل ارسال نہیں کی جاتی ہیں بلکہ انہیں بہائیوں کے صدر دفتر بھیجا جاتا ہے، لیکن یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بہائیوں کا یہ صدر دفتر صہیونی رجیم کے  اہلکاروں اور حکام کی جانب سے  دائمی طور پر  زیر نظر رہتا ہے اور اسکی تفتیش ہوتی رہتی ہے ۔
بہائی  نظام اسلامی جمہوریہ ایران میں  رسوخ و نفوذ اور جاسوسی کے درپے
گمراہ بہائی فرقہ بہت ہی سسٹمیٹک  طریقے سے  اپنے جاسوسی کے کاموں کو انجام دیتا ہے اور یہ لوگ  اپنے مشن کو عملی کرنے کے لئے  اندر در آنے  کی فضاوں کو تلاش کرتے  رہتے ہیں ۔ اور انکا طریقہ کار یہ ہے کہ   ’’بیت العدل  اعظم  ‘‘نامی شورا کی جانب سے  (بہائیوں کا  اسرائیل میں واقع صدر دفتر ) ان خفیہ اطلاعات کے بل پر جو  بہائیوں کی جانب سے وہاں بھیجی جاتی ہیں    ایسی فضاوں کی نشاندہی کی جاتی ہے  جہاں سے گھس کر  اپنا کام کیا جا سکے نیز اس شوری کی جانب سے  اندر گھسنے کے لئے ضروری رخنوں کی نشاندہی کے ساتھ ایسی ہدایات بھی پیش کی جاتی ہے جنہیں  بیت العدل کی جانب سے ارسال کئے گئے  پیغامات کا نام دیا جاتا ہے اور یہ وہ پیغامات ہوتے ہیں  جنہیں  بہائیوں کی  جاسوسی سے  متعلق اور انکی تشہیری و ترویجی  فعالیت سے  متعلق ہدایات کے طور پر  بہائیوں تک  پہنچایا جاتا ہے ۔
مثال کے طور پر ۲۸ سمبر ۲۰۱۰؁ کو جاری ہونے والے ایک پیغام  میں جسے  اس گمراہ فرقے کے ایک دراز مدت  پروگرام کی ایک کڑی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، اس  پیغام  میں  ایسے دیہاتی علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں بہاہیت کو لیکر  اور اسکے ڈھانچے کو لیکر کوئی جانکاری نہیں پائی جاتی ہے اور اس پیغام میں انہیں علاقوں کو  ایسی  اہم فضا کے طور پر پیش کیا گیا ہے  جہاں یہ گمراہ فرقہ اپنی فعالیت انجام دے سکتا ہے من جملہ  تشہیری و ترویجی کاموں کے ساتھ ان علاقوں کو جاسوسی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ بہائیت کی جانب سے  جاری ہونے والے پیغامات کو اس نام سے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ وہ پیغامات ہیں جو بہائیت کے دنیا بھر میں پیروکاروں کے لئے ارسال کئے گئے ہیں لیکن بالکل واضح ہے کہ  ان پیغامات کا ہدف  و نشانہ اسلامی ممالک اور خاص طور اسلامی جمہوریہ  ہے  اس لئے کہ  بہائی اپنے وجود کا سرچشمہ  ایران ہی کو سمجھتے ہیں ۔ بیت العدل کی جانب سے جاری ہونے والے بہت سے  پیغامات  اور ہدایتوں میں  من جملہ ۲۰۱۰؁ کے  ۲۸ سمبر کو جاری ہونے والے پیغام  میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ  مختلف دیہاتوں میں  پھیل جائیں  اور  لوگوں کو اس فرقے کے سسٹم  میں داخل کریں اور اس طرح اپنے فرقے کی تبلیغ و ترویج سے متعلق  فعالیت کے دائرہ کو پھیلا دیں۔
اس پیغام کے ایک حصہ میں ملتا ہے ’’ اگر اس کام کا ایک نمونہ کسی ایک علاقہ میں تاسیس ہو گیا تو تیزی کے ساتھ دوسرے ہم جوار دیہاتوں میں  پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘ در حقیقت   بہائیوں نے  اس لئے اپنے کاموں کے لئے دیہاتوں کا انتخاب کیا ہے کہ  یہاں کی فضا  انکے مقاصد تک پہنچنے کے لئے مناسب ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس فضا کو اپنی کارکردگی  کا محور بناتے ہوئے  لوگوں کی نظروں سے دور اپنی جاسوسی مہم  کو وسعت بخشیں ۔ اب یہ اسلامی جمہوریہ کی خفیہ ایجنسیز اور قومی سلامتی سے متعلق مراکز اور ادارہ جات  پر ہے کہ وہ  اس گمراہ و خطرناک  فرقے کے بارے  میں اس طرح وارد  عمل ہوں کہ  لوگوں  کی سہولت اور انکے چین و سکون  پر حرف نہ آئے اور قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے  ایسے اقدام کئے جا سکیں جنکے چلتے  اس فرقے کی تبلیغ و ترویج  کا شکار ہو کر اس کی طرف مائل ہونے والے افراد کو اس میں شامل ہونے سے روکا جا سکے ۔
منبع: http://fna.ir/dauqch

 

ایران کے خلاف پابندیوں کی منظوری میں صیہونی لابی کا کردار

  • ۳۴۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ میں اسرائیلی حکومت اور یہودی لابی کی پالیسیوں کے گہرے اثر و رسوخ کے تناظر میں ، ایران کی طاقت کو محدود کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے کی غرض سے ’’ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا منصوبہ‘‘ بہترین آپشن سمجھا جاتا تھا جسے امریکہ کے ذریعے عملی جامہ پہنایا گیا۔  
اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایران کے خطرے کو بڑھاوا دینے اور ایران کے اقتدار کو محدود کرنے کی پالیسی کے بعد صہیونی لابی نے امریکہ کے اندر ایران کے خلاف پابندیوں کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا چاہا، اس مقصد کے پیش نظر آخری نتیجہ جو 76 صفحات پر مشتمل رپورٹ کی شکل میں سامنے آیا اور جس کا عنوان ہی "ایران پر جامع امریکی پابندیاں: ایکشن پلان" تھا کو کانگریس کے ممبروں کو پیش کیا گیا۔ اس کے بعد ، امریکی یہودی لابی نے ، سینیٹر ’الفونسو دماتو‘ [1] کو استعمال کرتے ہوئے ، امریکی کانگریس میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے،  ایران کے خلاف پابندیوں کا بل پاس کرانے میں کامیاب حاصل کی۔ یہ قانون "دماتو" کے نام سے مشہور ہوا۔

25 جنوری ، 1995 کو ، امریکی سینیٹر ، الفونسو دماتو ، جس نے ہمیشہ ایران پر تجارتی پابندیوں کی وکالت کی اور اسے صہیونی لابی کی حمایت حاصل تھی ، نے "AIPAC لابی" کے ذریعے ’’ایران کے خلاف جامع امریکی پابندیاں ، ایکشن پلان‘‘ کے عنوان سے اپنا منصوبہ شائع کیا۔ جس کے مطابق ، کوئی غیر ملکی شخص یا کمپنی اگر کوئی سامان یا ٹکنالوجی ایران کو برآمد کرتی ہے ، وہ 1979 کے منظور شدہ امریکی برآمدات انتظامیہ ایکٹ میں طے شدہ شقوں کے تحت امریکی پابندیوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔

16 مارچ 1995 کو ، ڈی اماتو بل پر سینیٹ کی سماعت کے دوران ، صہیونی لابی کے دباؤ نے ایران پابندیوں کے بل کو آگے بڑھانا جاری رکھا۔ اجلاس میں صہیونی لابی کے نمائندے "پیٹرک کلاؤسن" [2] نے استدلال کیا کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کو کم از کم دسیوں ملین ڈالر کا سالانہ نقصان ہو سکتا ہے اور ایرانی معیشت میں زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔

10 اپریل 1995 کو "یہودی انسٹی ٹیوٹ برائے امور قومی سلامتی " [3] ، نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد پیش کی۔ اسی سال 30 اپریل کو، کلنٹن نے ایران کے خلاف پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ پھر ، 6 مئی 1995 کو ، اس نے ایران میں تمام تجارتی اور سرمایہ کاری سرگرمیوں کو معطل کرنے کے لئے 12959 کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا۔
کلنٹن نے 30 اپریل 1995 کو ، اس حال میں کہ اس کے سر پر یہودی ٹوپی تھی، نیو یارک میں منعقدہ "ورلڈ یہودی کانگریس" [4] میں شرکت کے دوران کہا: "ایران مشرق وسطی میں قیام امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ میری انتظامیہ کے آغاز سے ہی ہم نے ایران کے واسطے کی جانے والی بین الاقوامی دہشت گردی کی حمایت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ "میں سرکاری طور پر اعلان کرتا ہوں کہ ہم ایران کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے تمام تعلقات منقطع کرتے ہیں ۔" بالآخر ، کلنٹن نے دوسرا ایگزیکٹو آرڈر ، نمبر 12959 جاری کیا  اور 6 مئی 1995 کو ، ایران کے ساتھ  کچھ مخصوص معاہدوں پر پابندی عائد کر دی۔
ریاستہائے متحدہ میں سب سے طاقتور صہیونی لابی آیپیک ’دماتو‘ منصوبے کی منظوری کے عمل میں ہمیشہ پیش پیش تھی۔ ’آئیپیک‘ کے ترجمان کا کہنا تھا: "کانگریس کے ممبران نے ایران کے خلاف پابندیوں کے بل کا ایک ایک بند ہمیں لکھ کر دیا‘‘۔
لہذا ، کھلے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں میں سب سے زیادہ کردار صہیونی لابیوں کا ہے اور ان کا مقصد ایران کی طاقت کو محدود کر کے صہیونی ریاست کو تحفظ بخشنا ہے۔  

 حواشی
1-فرمانروایان پنهان، حسین جعفری موحد، صص ۳۰۵ تا ۳۱۷.
2- «لابی یهودیان آمریکا، کارگزار تحریم ایران»، سید علی طباطبایی، صفحات 44-46 و 62-63 و 68.
3- «تحریم ایران، شکست یک سیاست»، حسین علیخانی، صفحات ۱۷۲و۱۷۶ و ۱۷۸ تا ۱۸۰.
4- «قانون داماتو، ایران یا اروپا»، سعید تائب، ص۳۰.

 

امریکی کانگریس میں صہیونی لابی کا اثر و رسوخ

  • ۳۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ امریکی مقننہ، دو ایوانوں؛ سینیٹ اور ایوان نمائندگان پر مشتمل ہے کہ جسے کانگریس کہتے ہیں۔ وفاقی قانون سازی کے اختیارات کانگریس کو دیئے گئے ہیں۔ جب ایک بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوتا ہے اور صدر کے ذریعہ اس کی تصدیق ہوتی ہے تو یہ قانونی شکل اختیار کرتا ہے۔ یعنی ، صدر کے دستخط سے منظور شدہ بل کو قانونی جہت ملتی ہے۔
 سینیٹ
امریکی کانگریس میں، خارجہ پالیسی سینیٹ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ آئین کے مطابق ، دیگر حکومتوں کے ساتھ امریکی معاہدوں کو سینیٹ کے دو تہائی ارکان کے ذریعہ منظور کرنا ضروری ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کو کریڈٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ معاہدے کو سینیٹ سے منظور نہیں کیا جاتا اور صدر کو مطلع نہیں کیا جاتا۔
سینیٹ نے مختلف شعبوں میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو مختلف موضوعات پر ماہرانہ رائے پیش کرتی ہیں۔ خارجہ پالیسی کی نگرانی سے متعلق سینیٹ کی سب سے بڑی اور اہم کمیٹی،  ’’کمیٹی برائے خارجہ پالیسی‘‘ (Committee on Foreign Relations) ہے ، جو معاہدے سے لے کر سرحدوں کی تبدیلی تک اور اقوام متحدہ سے متعلق امور تک دیکھ بھال کرتی ہے۔

ایوان نمائندگان
امریکی آئین کے مطابق ، ایوان نمائندگان کے اراکین کی تعداد 435 ہے ، جو ہر دو سال بعد منتخب ہوتے ہیں اور ان کا دوبارہ انتخاب لامحدود ہوتا ہے۔ ایوان نمائندگان کی صدارت اور ایوان کے اسپیکر اکثریتی پارٹی کے سینئر ممبر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس وسیع اختیارات ہیں، بشمول پارلیمانی اجلاسوں کا ایجنڈا طے کرنا، بحث کرنا یا ایجنڈے سے متعلق کسی موضوع کو ہٹانے کے لئے کوئی مقررہ مدت طے کرنا ان کے وظائف میں شامل ہے۔
آج ، نہ صرف امریکی سینیٹ امریکی خارجہ پالیسی کی نگرانی کرتا ہے، بلکہ ایوان نمائندگان بھی خارجہ امور کمیٹی کے ذریعہ خارجہ پالیسی پر نظارت رکھتا ہے۔
امریکی کانگریس اور فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کرنے میں صہیونیوں کی ضرورت کے پیش نظر ، امریکی مقننہ میں یہودی لابی کا اثر و رسوخ بہت اہم ہے۔ سب سے زیادہ طاقتور صہیونی لابی  AIPAC ، امریکہ کی خارجہ پالیسی کو درج ذیل شکلوں کے ذریعے متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ا) کانگریس میں اہم عہدوں پر عیسائی صہیونیوں کی موجودگی
امریکی مقننہ میں صہیونی لابی کی کامیابی کی ایک وجہ عیسائی صہیونیوں کی کانگریس کے ممبران کی حیثیت سے موجودگی ہے۔ مثال کے طور پر رچرڈ آرمی نے ستمبر 2002 میں اعلان کیا کہ ان کی پہلی ترجیح صہیونی حکومت کا تحفظ ہے۔
ب) کانگریس میں یہودی سینیٹرز اور نمائندوں کی موجودگی
امریکی کانگریس میں ایسے یہودی سینیٹرز اور نمائندے موجود ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتے اور حکومتی پالیسیوں کو صہیونی ریاست کے مفادات میں اسے تبدیل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

ج) کانگریس کے عملے کا استعمال
کانگریس کے اراکین ایسے قوانین منظور کرنے میں اکیلے عمل نہیں کرتے جو صہیونی ریاست کے مفاد میں ہوتے ہیں، بلکہ کانگریس کا عملہ اور ماہرین ، جو قانون سازی کے مرکز میں ہوتے ہیں ،قوانین کا رخ صہیونی حکومت کے حق میں موڑنے پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ قوانین کا مسودہ لکھنے ، کانگریس کے ممبروں کے ذریعہ عوامی تقریروں کے لیے مواد فراہم کرنے اور کانگریس پر دباؤ ڈالنے کے لئے کھلے خطوط لکھنے میں کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/ آیت اللہ علوی گرگانی

  • ۳۷۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ العظمیٰ علوی گرگانی عالم تشیع کے بزرگ عالم دین اور ان مراجع تقلید میں سے ایک ہیں جنہیں آیت اللہ بروجردی (رہ)، امام خمینی(رہ) اور آیت اللہ خوئی (رہ) کی شاگردی کا شرف حاصل ہے، اپنے اساتید اور دیگر بزرگ علماء کی طرح آپ بھی ہمیشہ عالم اسلام کے مسائل پر خاص توجہ دیتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے ان اہم مسائل میں سے ایک ہے جس نے آج تک تمام امت مسلمہ خصوصا ان افراد کا دل دکھایا ہے جو ملت فلسطین کے تئیں تھوڑا بہت بھی احساس رکھتے ہیں۔ شیعہ علماء کرام تو ان افراد میں سے ہیں جو ہمیشہ عالم اسلام کی مشکلات کو محسوس کرتے اور ان کی چارہ جوئی کے لیے جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔ آیت اللہ گرگانی نے بھی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ہمیشہ جد وجہد کی اور مختلف اوقات میں مختلف مناسبتوں سے اس موضوع پر بیانات جاری کئے:  
مثال کے طور پر آپ نے یوم القدس کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا: ماہ مبارک کا آخری جمعہ ہر سال امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اس الہی آواز کو زندہ کرتا ہے جس پر لبیک کہتے ہوئے مظلومین عالم خصوصا ملت فلسطین کی حمایت میں قدم اٹھایا جا سکتا ہے  وہ سرزمین فلسطین جو صہیونیوں کے ہاتھوں غصب ہوئی، وہ سرزمین جو مسلمانوں کی ایک مقدس ترین جگہ رہی ہے۔ ۱
اس مرجع تقلید نے صہیونیت مخالف بین الاقوامی یوتھ یونین کے ساتھ ہوئی ایک ملاقات میں مسئلہ فلسطین کے حل اور اسرائیلیوں سے نجات کا راستہ اتحاد بین المسلمین قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’اگر تمام امت مسلمہ یک مشت ہو جائے تو اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف کچھ کر نہیں پائے گا بلکہ اس کی نابودی بھی قریب ہو جائے گی۔ لیکن اگر مسلمان آپس میں پاش پاش رہیں گے اور ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں بٹائیں گے تو دشمن طاقتور ہو جائے گا۔ اسلامی قوموں کا اتحاد دشمن کی کمزوری اور اس کے ظلم کے خاتمے کا باعث بنے گا‘‘۔ ۲
یہ جان لینا دلچسپ ہو گا کہ آیت اللہ علوی گرگانی عالم اسلام کے ساتھ اسرائیل اور صہیونیزم کی دشمنی کو مسئلہ فلسطین میں منحصر نہیں سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کی نظر میں اسرائیلی کمپنیاں مسلمان ملکوں میں غیر سالم غذاؤوں کے ذریعے مسلمانوں کو مٹانے کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ آپ ایران میں استعمال ہونے والی غیر سالم غذاؤوں کے بارے میں کہتے ہیں:
’’پچاس سال سے ایران میں یہ سلسلہ چل رہا ہے انقلاب سے پہلے ایران میں غیر سالم خوراک کے لیے دشمنوں نے منصوبے بنائے تھے اور انہیں اجرا کیا تھا۔ اس دور میں بھی شہنشاہی حکومت علماء کو کہتی تھی تم لوگ کیوں اس بارے میں بولتے ہو اور کیوں اتنا سخت لیتے ہو؟ یہ کام ان کے تجارتی مفادات کا حصہ تھا جس کے پیچھے اسرائیل تھا اسرائیلی سرمایہ کاروں نے ایران میں اس چیز کا بیج بویا تھا۔ اب بھی ان مسائل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے اور یہ مشکلات وہیں سے جنم لیتی ہیں۔ ۳
حواشی
1 – https://www.mehrnews.com/news/4314866
2- http://qodsna.com/fa/321720
3- https://www.mashreghnews.ir/news/635248

 

 

مسئلہ فلسطین نے پیغمبر اکرم کا دل لہو کیا ہے: شہید مطہری

  • ۶۷۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شہید مرتضیٰ مطہری کی شہادت کے ایام ہیں اس مناسبت سے مسئلہ فلسطین سے متعلق شہید کے کچھ بیانات کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
’’اگر پیغمبر اکرم (ص) زندہ ہوتے تو آج کیا کرتے؟ کس مسئلہ کو اہمیت نہ دیتے؟ واللہ اور باللہ، میں قسم کھاتا ہوں کہ پیغمبر اکرم(ص) اپنی قبر مقدس میں بھی آج یہودیوں سے پریشان ہیں۔ یہ دو دو چار والا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی نہیں کہتا تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ میں اگر نہ کہوں تو خدا کی قسم گناہ کا مرتکب ہوا ہوں۔ جو بھی خطیب اور واعظ اگر اس مسئلے کے حوالے سے بات نہ کرے وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے ماوراء،  فلسطین کی تاریخ کیا ہے؟ فلسطین کا مسئلہ کسی اسلامی مملکت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک قوم و ملت کا مسئلہ ہے وہ قوم و ملت جسے ان کے گھروں سے زبردستی باہر نکالا گیا اور انہیں بے گھر کیا گیا۔
خدا کی قسم ہم اس قضیہ کے مقابلے میں مسئول ہیں۔ خدا کی قسم ہمارے دوش پر ذمہ داری ہے۔ خدا کی قسم ہم غافل ہیں۔ واللہ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے آج پیغمبر اکرم(ص) کے دل کو زخمی کیا ہے۔ وہ داستان جس نے حسین بن علی کے دل کو لہو کیا ہے فلسطین کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اپنی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہیں اگر ہم امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اہمیت دینا چاہتے ہیں تو سوچیں کہ اگر حسین بن علی آج زندہ ہوتے اور خود کہتے میرے لیے عزاداری کریں تو کون سا نوحہ پڑھنے کے لیے کہتے؟ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’ہائے میرا جوان اکبر‘‘ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’میری مظلوم زینب الوداع الوداع‘‘؟
اگر امام حسین آج زندہ ہوتے وہ یہ کہتے کہ میرے لیے عزاداری کرو میرے لیے ماتم کرو لیکن تمہارا نوحہ فلسطین ہونا چاہیے تمہارا نعرہ فلسطین ہونا چاہیے، آج کا شمر موشہ دایان ہے، ۱۴ سو سال پہلے والا شمر واصل جہنم ہو گیا آج کے شمر کو پہچانو، آج اس شہر کے در و دیوار فلسطین کے نعروں سے بھرے ہونا چاہیے، ہمارے ذہنوں میں اتنا جھوٹ بھر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ داخلی مسئلہ ہے عربوں اور اسرائیلیوں کا مسئلہ ہے۔
ہم اسلام اور پیغمبر خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ ہم نے مسلمان ہونے کے حوالے سے کیا کیا؟ خدا کی قسم ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر شرم آتی ہے، ہمیں اپنے علی بن ابی طالب کا شیعہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ آج کے بعد یہ داستان جو ہم علی ابن ابیطالب سے ممبروں پر نقل کرتے ہیں اس کے بعد اس کو نقل کرنا ہمارے لیے حرام ہے، کہ ایک دن علی بن ابی طالب نے سنا کہ دشمن نے اسلامی ممالک پر حملہ کیا ہے فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ دشمنوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کر کے ان کے مال کو لوٹ لیا ہے ان کے مردوں کو قتل کر دیا ہے اور ان کی عورتوں کو اسیر بنا لیا ہے،  ان کے زیورات چھین لیے ہیں، اس کے بعد فرمایا: «فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً مَا کَانَ بِهِ مَلُوماً بَلْ کَانَ بِهِ عِنْدِی جَدِیراً» اگر ایک مسلمان یہ خبر سن کر دق کرے اور مر جائے تو موت اس کے لیے سزاوار ہے۔
کیا ہمیں فلسطینیوں کی مدد نہیں کرنا چاہیے؟ کیا انہیں اپنے جائز انسانی حقوق لینے کا حق نہیں ہے؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہیے؟
ہمارے مراجع تقلید جیسے آیت اللہ حکیم نے صریحا فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص فلسطین میں مارا جائے وہ شہید ہے گرچہ نمازی نہ ہو، وہ شہید راہ حق ہے۔ لہذا آئیں اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم ان کے لیے کیا کر رہے ہیں، آج جو بڑی بڑی حکومتیں ہمارے مقابلے میں کھڑی ہیں اور ہماری تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں وہ جانتی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر غیرت نہیں ہے۔ امریکہ کو اسی بات نے جری بنایا ہے کہ مسلمان جماعت بے غیرت ہے ۔
کہتے ہیں کہ یہودی پیسے کے لیے مرتے ہیں، وہ پیسے کے علاوہ کچھ نہیں پہچانتے، ان کا خدا بھی پیسہ ہے ان کی زندگی بھی پیسہ ہے ان کی موت و حیات بھی پیسہ ہے یہ ٹھیک ہے اپنی جگہ درست ہے لیکن یہی یہودی اپنے یہودی بھائی پر کروڑوں ڈالر بھی خرچ کرتا ہے لیکن ہم مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر کتنا خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں؟
منبع:
حماسه حسینی، مرتضی مطهری، ج 1، ص 270-280

 

حماس کے سابق رکن کے ساتھ خیبر کی گفتگو/اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر اسرائیلی جادو کارساز

  • ۴۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عصر حاضر میں صہیونیزم مکڑے کے جال کی طرح پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اور حتیٰ ان ملکوں جو عرصہ دراز سے اسرائیل کے ساتھ معرکہ آرائی میں فرنٹ لائن پر تھے میں بھی اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اس حوالے سے حماس کے سابق رکن اور محقق ڈاکٹر مصطفیٰ یوسف الداوی کے ساتھ ایک گفتگو کی ہے۔ الداوی غزہ پٹی کے رہنے والے ہیں اور تاحال ۹ مرتبہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جیل جا چکے ہیں۔
سوال؛ اسلامی ممالک میں اسرائیل کس حد تک اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے کیا آپ اس حوالے سے کچھ وضاحت کریں گے۔
۔ اس میں کوئی شک نہیں فلسطین کے غصب ہونے اور صہیونی ریاست کی تشکیل پانے کے ابتدائی ایام سے لے کر آج تک کا یہ پیریڈ اس حکومت کے لیے ایک سنہری پیریڈ تھا۔ اس لیے کہ دشمن یہ احساس کرتا آ رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی راہ میں پائی جانے والی تمام رکاوٹوں کو دھیرے دھیرے ختم کر رہا ہے اور عرب ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پر آ رہے ہیں اور مزاحمتی محاذ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
دشمن کو یہ بھی سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ اب اسے بہت سارے عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو برملا کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔
دوسری جانب عرب ممالک بھی اپنی سیاسی، ثقافتی اور کھیل کود کی سرگرمیوں میں اسرائیل کو شرکت کی دعوت دینے میں کسی شرم و حیا کا احساس نہیں کر رہے ہیں اور اسرائیل کا پرچم عرب ممالک میں دیگر ملکوں کے پرچموں کے ساتھ بلند ہو رہا ہے۔
یہاں تک کہ اسرائیل کا قومی ترانہ بھی عرب ملکوں میں گایا جانے لگا ہے! اسرائیلیوں کا عربی دار الحکومتوں میں والہانہ استقبال ہونے لگا ہے!، اس کے علاوہ اسرائیل تاجروں کا عرب تاجروں کے درمیان بغیر کسی خوف و ہراس کے لین دین شروع ہو چکا ہے۔
البتہ یہ بات یاد رہے کہ یہ تمام طرح کے تعلقات اور روابط سرکاری سطح پر ہیں عرب ملکوں کے عوام ان سے فی الحال بیزار ہیں۔
حکومتیں اور حکمران ہمیشہ سے خیانتوں کا ارتکاب کرتے اور اسلامی اصولوں کو پامال کرتے رہے ہیں۔ صہیونی دشمن اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ عرب قوموں اور اسلامی ملتوں کی جانب سے مزاحمت اور مخالفت اپنی جگہ پر پوری قوت کے ساتھ باقی ہے اور تاحال وہ ان ملتوں کے درمیان اثر و رسوخ پیدا نہیں کر پائے ہیں۔ ابھی تک وہ جس میدان میں کامیاب ہوئے ہیں وہ صرف عرب حکام کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک معمول پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ بھی ان عرب حکمرانوں کے ساتھ جو یہ سوچتے ہیں کہ صہیونی ریاست ان کی دوست ہے اور ان کی حفاظت کے لیے اپنی جان چھکڑنے کو تیار ہے۔

جاری

یہودی اور بائیولوجیکل وار (۲)

  • ۳۹۵

گزشتہ سے پیوستہ

آیت اللہ طائب:

۲۔ نفسیاتی جنگ؛ اس جنگ میں کسی ظاہری ہتھیار کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ فلموں، ڈراموں، میڈیا، سوشل میڈیا، شبہات اور جھوٹ فراڈ وغیرہ وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ و فراڈ کی ایسی فضا بنائی جاتی ہے کہ انسان خود بخود منفعل ہو جاتا ہے اور کسی اقدام کی اس میں توانائی نہیں رہتی۔ فلموں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور ان کی سوچ کو چھین کو اپنی سوچ دی جاتی ہے۔ اسے نفسیاتی جنگ کہتے ہیں۔ نفسیاتی جنگ میں دشمن بہت آگے نکل چکا ہے پورا میڈیا دشمن کے پاس ہے، تمام ذرائع ابلاغ دشمن کے قبضے میں ہیں، جو وہ چاہتے ہیں وہ لوگوں تک پہنچ پاتا ہے تو ایسی صورت میں تقریبا نفسیاتی جنگ میں اس وقت دشمن جیت چکا ہے اور ہم مسلمان ہار چکے ہیں۔ اس لیے کہ گھر بیٹھے بیٹھے ہمارے بچوں، جوانوں، عورتوں سب کی فکروں پر دشمن کی سوچ حاوی ہو چکی ہے۔
۳۔  کیمیائی جنگ؛ کیمیائی جنگ سے مراد کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے کی جانے والی جنگ نہیں ہے وہ جنگ ہتھیاروں کی جنگ کے ذمرے میں آ جاتی ہے یہاں پر کیمیائی جنگ سے مراد وہ جنگ ہے جو زہریلے مواد کے ذریعے اپنے دشمن کو پسپا کرنے کے لیے کی جاتی ہے مثال کے طور پر گزشتہ دور میں جس بستی یا گاؤں کے ساتھ جنگ ہوتی تھی اس بستی کے پانی کو زہر آلود کر دیا جاتا تھا، اور آج مثلا اس بستی کی فضا کو زہرآلود کر دیا جاتا ہے۔
۴۔ حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار؛ کسی بیماری کو کسی علاقے میں پھیلا کر یہ جنگ لڑی جاتی ہے گزشتہ دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ دشمن اپنے حریف کی کسی بستی میں متعدی بیماری پھیلا دیتا تھا اور جس سے بستی کی بستیاں اجڑ جاتی تھیں۔
تاریخ میں طاعون کی بیماری کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جس کے ذریعے بہت سارے لوگ لقمہ اجل بن جاتے رہے ہیں۔ اسلام سے قبل بھی یہ بیماری موجود تھی اور بعد اسلام بھی حالیہ سالوں تک موجود رہی ہے، ۱۸ ھجری قمری کو دوسرے خلیفہ کے دور حکومت میں شام کے علاقے میں طاعون کی بیماری پھیلی جس کی وجہ سے بہت سارے اصحاب رسول جیسے معاذ بن جبل موت کا شکار ہو گئے۔ ۸۷ ہجری میں بھی عبد اللہ بن زبیر کے دور حکومت میں پھیلی اور کئی بستیوں کو اجاڑ دیا۔
لیکن ہمیشہ یہ سوال رہا ہے کہ کیوں ایسا ہوتا ہے اور اس طرح کی مسری اور متعدی بیماریاں کیسے وجود پاتی ہیں۔ لیکن طول تاریخ میں مسلمانوں کو جس قوم پر شک رہا ہے وہ یہودی قوم ہے۔ چونکہ گزشتہ دور میں بھی اکثر یہ بیماری مسلمان بستیوں یا عیسائی بستیوں میں پھیلتی تھی اور یہودی اس کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ شام میں یہودی بھی ان علاقوں میں زندگی بسر کرتے تھے جہاں طاعون کی بیماری پھیلی تھی مگر یہودی بہت کم اس بیماری کا شکار ہوئے۔ یوریشیا کے علاقے میں یہ بیماری پھیلی لیکن یہودی وہاں صحیح و سالم بچ گئے اسی وجہ سے یہودی ہمیشہ مشکوک نگاہ سے دیکھے جاتے تھے کہ کہیں یہ انہی کی کارستانیاں تو نہیں۔
انیسویں صدی میں اس وائرس کا انکشاف ہوا دوسری جنگ عظیم کے بعد طاعون کے وائرس کو طاقتور ملکوں نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں استعمال کرنے کا کام شروع کر دیا۔ جاپان نے طاعون کے وائرس سے تیار کیے بم اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے استعمال کیے۔ لہذا اس طرح کی جنگ کو حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیک وار کہتے ہیں۔

جاری

 

امریکہ کے صدور یہودیوں کے اشاروں پر چلنے میں مجبور ہیں: ڈاکٹر صفاتاج

  • ۴۱۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ میں حکومتی عہدیداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے یہودیوں کی طرف سے لابیاں تشکیل دینا اس ملک میں رائج امور کا حصہ ہے۔ امریکی حکومت پر صہیونی لابیوں کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ امریکی حکومت میں یہودیوں کو پوشیدہ حکمران سمجھا جا سکتا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اسی حوالے سے امریکی حکومتی نظام میں صہیونیت کے نفوذ کے موضوع پر ڈاکٹر مجید صفاتاج سے گفتگو کی ہے۔

خیبر: امریکی حکومت پر صہیونی اثر و رسوخ اور اس ملک کے حکمراں طبقے میں صہیونی لابیوں کی تشکیل کے حوالے سے آپ کا کیا نظریہ ہے؟
۔ امریکی حکومت کے تنظیمی ڈھانچے نے ابتدا سے ہی بہت سارے بااثر افراد اور گروپوں کی پالیسیوں کے اثرات قبول کرنے کی راہ ہموار کر رکھی ہے، اس ملک میں مفاد پرست گروہ منتخب نمائندوں اور ایگزیکٹو برانچ کے ممبروں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں ہمیشہ سے ہی دو جماعتیں؛ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہر ایک ایکزیکیٹو پاور اور سیاسی اقتدار استعمال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ لہذا، صہیونیوں کے لئے ہمیشہ ریاستہائے متحدہ امریکہ پر حکمرانی کرنے اور امریکی خارجہ پالیسیوں میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم رہا ہے۔
اس سلسلے میں، یہودی لابی اور صیہونی گروپوں نے ہر مرحلے اور ہر دور میں صیہونی منصوبوں کی حمایت کرنے کے لئے اپنی خواھش کے مطابق امریکی حکومتیں قائم کیں۔ اصولی طور پر، ریاستہائے متحدہ میں اقتدار میں آنے والی مختلف حکومتوں میں بااثر یہودی جماعتیں ہمیشہ سے شامل تھیں جو امریکی حکومت سے وابستہ تمام تنظیموں، اداروں ، معیشتوں اورحتیٰ فوجی امور میں کلیدی اور حساس عہدوں پر موجود تھیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے وائٹ ہاؤس کے فیصلہ سازی کے ان مراکز میں بھی کام کیا جو امریکی حکومت کے پالسیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یوں تو امریکی حکومت میں یہودیوں کا اثر و رسوخ ہمیشہ سے تھا مگر ۱۹ویں صدی عیسوی کے بعد تو امریکہ کی خارجہ پالیسی تقریبا یہودیوں کے ہی اختیار میں چلی گئی۔
ریاستہائے متحدہ کے صدور اپنی حکومت میں یہودیوں کی موجودگی کے بارے میں مختلف رائے رکھتے تھے اور ہیں۔ کچھ حکومت میں یہودیوں کی موجودگی کی مخالفت کرتے تھے ، جبکہ دوسرے یہودیوں میں سے اپنے نائبوں اور مشیروں کا انتخاب کرتے تھے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ صدور جو یہودیوں مشیروں کو انتخاب بھی کرتے تھے وہ صہیونی لابیوں کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا تھا۔

در حقیقت، امریکی صدر ’روزویلٹ‘ کے دور حکومت میں اس وقت صہیونی لابی کا گہرا اثر و رسوخ شروع ہوا جب ۱۹۱۲ میں اسرائیل کی تشکیل کے لیے بالفور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی صدر کی تصدیق درکار تھی۔ کیونکہ اگر امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو برطانیہ کی حکومت کبھی بھی بالفور اعلامیہ کو منظور کروانے میں کامیاب نہ ہوتی۔  
پہلی جنگ عظیم کے دوران، وائٹ ہاؤس میں یہودیوں کا ایک مضبوط دباؤ گروپ سامنے آیا، جو امریکہ کا سب سے طاقتور یہودی گروپ تھا۔  یہ گروپ فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے برطانوی اور امریکی حکومت کی حمایت حاصل کرنے میں موثر ثابت ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صہیونی اثر و رسوخ اس حد تک بڑھ گیا کہ ان کی حمایت کے بغیر کسی صدر کا انتخاب یا اس کی بقا ناممکن نظر آنے لگی۔

جاری
https://chat.whatsapp.com/HiMcVN8LrmFEjqVx12pmen

 

یہودی اور بائیولوجیکل وار (۱)

  • ۴۱۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار اس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں ظاہری ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے ایسے جراثیم استعمال کیے جاتے ہیں جو تیزی کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف بڑھ سکتے ہوں، ہوا کے ذریعے پھیل سکتے ہوں، سانس کے ذریعے پھیل سکتے ہوں یا ایک دوسرے کو چھونے کے ذریعے۔ گزشتہ دور سے دشمن ایک دوسرے کے خلاف جنگ کا یہ طریقہ استعمال کرتے آئے ہیں اور اس کی مثالیں کثرت سے تاریخ میں موجود ہیں۔ عصر حاضر میں پھیلی یا پھیلائی گئی اس بیماری کے بارے میں بھی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ بھی انسانیت کے دشمنوں کی جانب سے ایک قسم کی حیاتیاتی جنگ ہے۔ اس حوالے سے حوزہ علمیہ قم کے معروف استاد حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی طائب نے اپنے فقہ کے درس کے دوران ایک تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے جس کو مختلف حصوں میں قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کریں گے؛
کتاب و سنت کی روشنی میں کسی بھی چیز کے حکم کو معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس چیز کے بارے میں مکمل طور پر آشنائی حاصل کر لیں۔ اگر ہم جنگ کے احکام معلوم کرنا چاہیں، جہاد اور دفاع کے احکامات معلوم کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ پہلے دشمن کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کی قسموں کو پہچانیں پھر ان کا مقابلہ کرنے کے راستوں کو جان سکتے ہیں اور اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔
جہاد کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں؛ ابتدائی جہاد اور دفاعی جہاد۔
ابتدائی جہاد کفار و مشرکین کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام کی دعوت دینا اور عدالت برقرار کرنا کے معنی میں ہے جس میں جنگ کے آغاز گر مسلمان ہوتے ہیں اور مقصد کفر کا خاتمہ اور دین الہی کی گسترش ہوتی ہے، یہ جہاد اہل تشیع کے نزدیک امام معصوم کے عصر غیبت میں منتفی ہے چونکہ ابتدائی جہاد کے لیے نبی یا امام معصوم کا حکم ضروری ہے۔
لیکن دفاعی جہاد مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر دور میں موجود ہے اور ہر انسان پر فرض ہے۔ دشمن کے حملے کے مقابلے میں اپنے جان و مال اور اپنے دین و وطن کی حفاظت کرنا ایسا مسئلہ ہے جو عقلی اعتبار سے ثابت ہے اور آیات و روایات میں اس کی تصدیق کی گئی ہے۔
لیکن دفاعی جہاد کرنے سے پہلے دشمن کے حملوں کو پہچانا ضروری ہے کہ دشمن کتنے طریقے سے ہمارے اوپر حملہ ور ہو سکتا ہے۔ بطور کلی اگر دیکھا جائے تو دشمن نے ابھی تک چار طرح کی جنگیں کی ہیں؛
۱۔ ہتھیاروں کی جنگ؛ ہتھیاروں کی جنگ ہر دور میں متعارف ہے اور زمانہ قدیم سے آج تک جتنی جنگیں ہوئی ہیں وہ مختلف قسم کے ہتھیاروں سے ہی لڑی گئی ہیں صرف فرق یہ ہے کہ قدیم زمانے کی جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار تیر و کمان تھے لیکن آج میزائل اور ایٹم بم ہے۔ گزشتہ دور کی جنگوں میں دونوں فریقوں کو آپس میں لڑنے کے لیے میدان جنگ کا رخ کرنا پڑتا تھا لیکن آج گھر بیٹھے بیٹھے شہروں کے شہر برباد کیے جا سکتے ہیں۔
لہذا ہتھیاروں کی جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ملک کو اتنے ہی قوی ہتھیار بنانے پڑتے ہیں جتنے اس کے دشمن کے پاس ہیں اور یہ چیز متعارف ہے اور اسلام بھی اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے وہ ایسے ہتھیار بنا اور استعمال کر سکتا ہے جن سے دشمن کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے لیکن ایسے ہتھیار بنانے اور ان کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا جن سے اجتماعی قتل و بربادی ہو اور بے گناہ لوگ مارے جائیں۔

جاری