ہندوستان کو طبقاتی و نسلی بھید بھاو سے ابھارنے میں مسلمانوں کا کردار

  • ۴۳۹

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج ہمارے ملک میں جو ہر طرف مسموم فضا چھائی ہوئی ہے اور بری طرح ہمیں چو طرفہ نشانہ بنایا جا رہا ہے اسکو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم بہت سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کریں کہ ہمیں کس طرح آگے بڑھنا ہوگا؟۔  مستقبل کے خطوط کی ترسیم کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ  جتنا ہو سکے میڈیا کے ذریعہ قلم و بیان کے ذریعہ اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کریں کہ ہم نے مذہبی و نسلی بھید بھاو سے کس طرح اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا جہاں سب مل جل کر ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں اور طبقاتی فاصلوں کی دیواریں ملک کی ترقی میں آڑے نہ آئیں ۔
 اگر ہمارے خلاف زہر بھرنے والی طاقتیں صرف اس چیز کو جان لیں کہ ہم نے نسلی و مذہبی و قومی ہماہنگی میں ایک لافانی کردار ادا کیا ہے تو انہیں خود اندازہ ہو گا کہ  اجتماعی و معاشرتی زندگی میں جس طاقت کو وہ لوگ ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں  اگر مسلمان اس ملک میں نہ آئے ہوتے تو ہرگز وہ اس گندے گٹر سے نہیں نکل سکتے ہیں  جہاں اس وقت چھوا چھوت کے تعفن میں پوری قوم کو مبتلا کئے انسانی صلاحیتوں گا گلا گھونٹ رہے تھے۔
چھوت چھات کی ایسی بیماری اس ملک کو لاحق تھی کہ قومیت کا تصور ہی مشکل ہو چکا تھا، ہندوستان کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ رہی کہ مسلمانوں نے اجتماعی زندگی کا شعور دیا چونکہ اسلام کی نظر میں نہ طبقاتی نظام کی کوئی حیثیت ہے نہ نسلی و قومی برتری کا تصور، اس دور میں جب ہندو مذہب کا طبقاتی نظام دبے کچلے لوگوں کو مزید دبا رہا تھا مسلمانوں نے یہ تصور پیش کیا کہ  کوئی شخص پیدائشی طور پر نہ تو ناپاک ہوتا ہے کہ اسے دھتکار دیا جائے اور نہ ہی جاہل ہوتا ہے کہ اسے علم حاصل کرنے کاحق ہی نہ ہو اور نہ ہی خاص پیشے خاص لوگوں کے لئے ہوتے ہیں، بلکہ ایک ساتھ سب ایک جگہ بیٹھ بھی سکتے ہیں کھا بھی سکتے ہیں ، امیر و غریب پہلو بہ پہلو بیٹھ بھی سکتے ہیں کام بھی کر سکتے ہیں ، ہندوستان کے طبقاتی نظام کے لئے یہ مساوات کا پیغام کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ وہ چیز ہے جسکا اعتراف ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے بھی یوں کیا ہے''  مسلمانوں کے عملی مساوات کے نظام نے ہندوں کے ذہنوں پر بہت گہرا رنگ چھوڑا خاص طور پر وہ ہندو جو اونچ نیچ کا شکار تھے اور برابری کے حقوق سے محروم تھے اسلام کے مساوات کے نظام سے بہت متاثر ہوئے'' {جواہر لعل  تلاش ہند ، ص ۵۲۶-۵۲۵ Discoery off india }
ہندوستان کی موجودہ فضا میں ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بنیادی مسئلہ کی  طرف لوگوں کی توجہات کو مبذول کرائیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے حقوق کی بازیابی کی جنگ کو بھی جاری رکھیں، اور پر امن طریقے سے مظاہرہ و احتجاج کرتے رہیں، اور ملک کو تقسیم کرنے والوں کو یہ سمجھا دیں کہ جب ہم نے کل دبے کچلے لوگوں کو سہارا دیا تو کیوں کر آج ہم ہر طرح کا ظلم سہہ سکتے ہیں اگر ہم دوسروں کو ظلم کی چلتی چکی کے پاٹوں کے درمیان سے نکال سکتے ہیں تو یقینا ایسانہیں ہو سکتا کہ خود کو ظلم و ستم کی چکی کے حوالے کر دیں ،ہماری آواز احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ ہم آئین کی رو سے  حاصل حقوق کی روشنی میں اپنے حق کے لئے اس وقت تک لڑتے رہیں گے ہم تک ہمارا حق ہمیں نہ مل جائے ۔

 

 

 

کورونا وائرس; پردے کے پیچھے بڑی سازش کا آغاز (پہلا حصہ)

  • ۴۳۰

بقلم جاوید حسن دلنوی کشمیری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  چین کے ووہان شہر میں شروع  ہونے والے کورونا وائرس کو امریکی فوج نے پھیلایا جو وہاں پر عالمی فوجی کھیلوں میں شرکت کیلئے گئی ہوئی تھی جس میں امریکہ نے کھلاڑیوں  کے بھیس میں ایک تربیت یافتہ فوجی دستہ بھیجا تھا جنہوں نے خفیہ طور پر وہاں کے ایک بازار میں جا کر اس وائرس کو کھانے والی چیزوں میں وارد کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ امریکا  کے فوجی کھلاڑی نہیں تھے بلکہ اسی خاص مشن کے لیے انہیں تربیت یافتہ بنا کے بھیجا گیا تھا۔ اس دوران امریکا کے ان جعلی فوجی کھلاڑیوں نے ایک تمغہ بھی حاصل نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کھلاڑی نہیں بلکہ جاسوس تھے جو اپنے اصل مقصد تک رسائی چاہتے تھے اور اس طرح بہت ہی تیزی سے اس وبا نے پھیلنا شروع کیا۔
 اس بات کا سنسنی خیز انکشاف حال ہی میں برطانیہ کے ایک معروف اخبار Independent نے  ایک مضمون کے ذریعے کیا ۔ اخبار کے مطابق  چین کے اقتصادی ڈھانچے کو عالمی سطح پر خراب کرنے کیلئے امریکا نے ایک بہت بڑے Biological war  کا آغاز کیا ہے ۔ جرمنی کے ایک جریدے نے بھی اس بات کا انکشاف کیا ہے  کہ یہ جراثیم برطانیہ کی فیکٹری میں بنایا گیا ہے  جسے سب سے پہلے زندانیوں پر آزمایا گیا تھا ،جس پر امریکا کے ایک دولت مند ترین شخص نے سرمایہ کاری کی تھی ۔ یہ وائرس ایک خاص طریقے کے DNA  کے ذریعے سے تیار کیا گیا ہے،  دوسری جانب ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ امریکا کا بنایا ہوا کارٹون The simpsons  جو آج سے سترہ سال پہلے بنایا گیا ہے جس میں اگر دقت سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ کارٹون  آج  کے اس کرونا  وائرس سے متعلق بنایا گیا ہے, کہ جس میں پروڈکٹس کو دوسرے ملکوں میں صادرات کر کے ایک مہلک بیماری کو پوری دنیا میں منتقل کیا جاتا ہے۔  مذکورہ کارٹون کو آپ نیٹ سے سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں، ادھر ٹرمپ  نے صدر بننے کے ساتھ ہی اعلان کیا تھا کہ انہیں اب اقتصادی جنگ چین سے کھیلنی ہوگی۔
 چین تجارت میں دنیا میں برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے جس کا مشرق وسطی میں کرونا وائرس کی  وجہ سے  اب برآمدات رکی ہوئی ہیں  اور تیس فی صد چین کی تجارت کا گراف نیچے کی طرف جا رہا ہے جو اس ملک  کے لئے بہت بڑا نقصان  تصور کیا جا رہا ہے، اگرچہ حال ہی میں چین نے وائرس کو کنٹرول کر کے عالمی تجارت میں واپسی کی ہیں، چین کی وزرات خارجہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے اور امریکا کو دھمکی بھی دی ہے کہ ان کے اس Bilogical war   کا جواب دیا جائے گا۔ اور کہا کہ انہیں باضابطہ طور پر اس کے ثبوت بھی ملے ہیں، امریکا چاہتا ہے کہ چین کے مقابلے میں اس وقت ہندوستان کو کھڑا کیا جائے تاکہ ان سے با آسانی اپنی منفعت لیتا رہے کیونکہ ھندوستان کی موجودہ حکومت نظریاتی طور پر امریکا اور اسرائیل کے بہت نزدیک ہیں لیکن حالیہ قرائن سے پتا چلتا ہے کہ چین کی قدرت کے آگے ہندوستان نہیں ٹک سکتا ہے،  واضح رہے کہ اس سے پہلے امریکی رجیم، دہشت گرد تنظیم داعش کو بھی اسی لئے وجود میں لائی تھی تاکہ تیل سے مالا مال مشرق وسطی کو رام کرکے ان سے اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکے، لیکن ایران کی طاقتور فوج  کی حکمت عملی نے  خطے میں داعش کی  درندہ صفت حکومت جو پوری انسانیت کی سلامتی کے لئے خطرہ تھی کو پوری طرح سے خاتمہ کیا جس کا عندیہ خود شھید سلیمانی نے دیا تھا ۔
 امریکا نے  Bilogical war کا آغاز دوسری عالمگیر جنگ  سے ہی شروع کیا تھا۔ اس کے بعد اس انسانیت مخالف کام کو انجام دینے کے لئے کئی اپنے حریفوں کو جو  ان کے لئے آنکھ کا کانٹا تھے جسمیں کیوبا کے معروف آزادی پسند انسان ’فیڑل کاسترو‘ ، وینزویلا کے صدر ’یوگا شاویز‘ قابل ذکر ہیں، ان کو اسی war  سے  نشانہ بنایا ۔ دوسری جانب امریکا نے سارس ، ایڈس ، برڈ فلیو  ،لندن فلو وغیرہ وائرس کو  وجود میں لاکر وقتا فوقتا اپنے اقتصادی مقاصد حاصل کئے ۔ اگرچہ ان وائرسوں سے شرح اموات کرونا کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی لیکن امریکا کو ان وائرس  سے
اتنے فائدے حاصل نہیں ہوئے جتنے اب  اس جدید ترین وائرس '' کرونا '' سے حاصل ہو رہے  ہیں۔ کرونا  اصل میں اتنا  بڑا  وائرس نہیں ہے جسے انسان کو ڈرنے کی ضرورت ہے، مگر  ایک سوچے سمجھے پلان کے مطابق امریکا نے اپنے استعماری میڈیا کو بھرپور پیسہ دیکر اسے دنیا میں وحشی اور ڈراونا ترین وائرس  کے طور پر پیش کیا ۔ اگرچہ اس کی اموات کی شرح برڈ فلیو سے تقریبا مساوی ہے ۔ کرونا وائرس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ  80  سال سے اوپر عمر والے افراد کو22در صد  70  اور 80 کے درمیان 8  ، 60 سے 70 والے 3.6 اور50 سے نیچے عمر رکھنے والے افراد کی شرح اموات1 فیصد جبکہ  10  سال کے نیچے والے کمسنوں کی اموات تحقیق کے مطابق صفر درصد بتائی جاتی ہیں ۔
 امریکا  نے کرونا وائرس سے اپنے دیرینہ اہداف حاصل کرنے کے حوالے سے ایک بڑی سازش  کا آغاز کیا ہے ۔ جس میں خاص طور پر چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی کو روک لگانی ہے ۔ اگرچہ وہ ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ چین نے فوری  طور پر اور بڑی سرعت سے  اس وبا پر مکمل طور پر کنٹرول کر لیا ہے ۔ اور ووہان شھر سے اسے آگے پھیلنے سے روک دیا ہے ۔ دوسری جانب چین کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران جو امریکا کا سب سے بڑا حریف ہے کو اس وبا سے شکار کرنا چاہا ۔ امریکا نے ایران میں انقلابی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے کرونا  پارلمینٹ تک پہنچایا اور یہاں تک کہ چند بڑی انقلابی شخصیات کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا۔  بتایا جاتا ہے کہ ایران میں اس وباء کو دسمبر میں ہی وارد کیا گیا تھا  اور spray  کے ذریعے اس مہلک وبا کو عمومی مقامات میں پھیلایا گیا تھا۔ جسکا  ایران کو بعد میں پتا چلا اس دوران پچاس سے زیادہ اموات ایران میں ہو چکی تھیں لیکن اس وقت اسے برڈ فلیو کا نام دیا گیا اگرچہ وہ کرونا وائرس سے ہی واقع ہوئی تھیں۔ جس کے بعد 3  جنوری کو انہوں نے  ایران کے طاقتور جنرل قاسم سلیمانی کو بھی شھید کیا تاکہ بیک وقت یہ اس ملک کو ایک بڑے بحران کا شکار بنا سکیں۔
دوسری جانب ایران کے غم و غصے کو روکنے  کے لئے کرونا نے بڑا کام کیا کہ ایران نے امریکی فوج کو خطے میں نکال باہر کرنے کی ٹھان لی تھی، تحقیقات سے پتا چلتا ہے امریکا نے پوری دنیا کے اقتصاد کو خراب کرنا ہے اور خود کو دنیا میں سپر پاور کے طور پر باقی رکھنا ہے ، کیونکہ اس وقت امریکا کی اقتصادی ناو ڈوبنے پر ہے جو وہ کرونا وائرس سے بچانا ہی نہیں بلکہ اسے مضبوط بھی بنانا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بیماری سے 70  سال سے اوپر کے افراد کو بھی صفحہ ہستی سے ہٹانا مقصود ہے کیونکہ امریکا اب سبکدوش (ریٹائرڈ) لوگوں کو سوشل سروسز اور میڈیکل سہولیات وغیرہ دینے سے عاجز آ چکا ہے۔   

جاری

 

اسرائیل کی تشکیل اور بہائیت و صہیونیت کے گہرے تعلقات

  • ۶۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائی فرقہ اگرچہ ابتدائے وجود سے ہی یہودیوں سے وابستہ تھا لیکن یہ گہرے تعلقات اس وقت وجود میں آئے جب یہ فرقہ ’روسی زارشاہی‘ سے جدا ہوا اور برطانوی سامراج سے جڑ گیا اور اس کے بانیان نے فلسطین میں سکونت اختیار کر لی۔ خیال رہے کہ فلسطین اس دور میں برطانوی قبضے میں تھا۔ ۱۹۴۸ میں برطانوی استعماری حکومت کی کوششوں اور فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے تعاون سے صہیونی ریاست تشکیل پائی۔ ہم اس مختصر تحریر میں بہائیت اور صہیونیت کے تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
آپ کے لیے یہ جاننا دلچسپ ہو گا کہ ’میرزا حسین علی نوری‘ یا وہی ’بہاء اللہ‘ نے صہیونی ریاست کی تشکیل سے پہلے اپنے پیروکاروں کو یہ خوشخبری اور بشارت دی تھی کہ یہودی حکومت تشکیل پائے گی اور سرزمین موعود یعنی فلسطین میں دوبارہ بنی اسرائیل کو عزت و سربلندی حاصل ہو گی۔ یہ دعویٰ اس قدر واضح تھا کہ حتیٰ اطالوی اخباروں نے بھی اس دور میں اس خبر کو شائع کیا۔
بہاء اللہ کے جانشین ’عباس افندی‘ اپنے باپ کی طرح بعض یہودی سربراہان جیسے ’اسحاق بن زوی‘ کے ساتھ ۱۹۰۹،۱۰ عیسوی کے دوران یعنی اسرائیل کی تشکیل سے ۴۰ سال قبل ملاقاتیں کرتے رہے اور ان کے مشوروں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔ وہ صہیونی ریاست کی تشکیل کے بارے میں اپنے ایک پیروکار ’حبیب مؤید‘ کے نام خطاب میں یوں پیش گوئی کرتے ہیں:
’’یہ فلسطین ہے، سرزمین مقدس، عنقریب یہودی قوم اس سرزمین پر واپس پلٹ آئے گی۔ اور داؤودی حکومت اور سلیمانی جاہ و حشمت قائم ہو گی۔ یہ اللہ کے سچے وعدوں میں سے ایک ہے اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ یہودی قوم اللہ کے نزدیک دوبارہ عزیز ہو گی اوردنیا کے تمام یہودی ایک جگہ جمع ہو جائیں گے۔ اور یہ سرزمین ان سے آباد ہو گی‘‘۔
عباس افندی روتھشیلڈ گھرانے سے بھی ملاقات کرتے تھے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انہوں نے حبیب مؤید کے نام ایک اور خط میں لکھا: ’’مسٹر روتھشیلڈ جرمنی کے ایک ماہر نقاش ہیں۔ انہوں نے حضور مبارک کے تمثال کی تصویر کشی کی ہے اور مجھے دعوت دی ہے کہ میں اس تصویر کے نیچے چند کلمے لکھوں اور وہ اس کا جرمنی میں ترجمہ کر کے شائع کریں‘‘۔
نیز افندی کی زوجہ ’روحیہ ماکسل‘ اپنی کتاب ’’گوہر یکتا‘‘ جو ان کے شوہر کی سوانح حیات پر مبنی ہے میں عباس افندی اور صہیونی رہنما ’موشہ شارٹ‘ کے درمیان گہرے تعلقات کا راز فاش کرتی ہیں۔
عباس افندی نہ صرف صہیونیوں کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے بلکہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ مثال کے طور پر بہاء اللہ ایک عیسائی نامہ نگار کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہتے ہیں:
"کچھ دن پہلے، ’کرمل‘ اخبار کے مالک میرے پاس آئے، تو میں نے ان سے کہا کہ اب دینی اور مذہبی تعصب کے خاتمہ کا دور ہے، انہوں نے کہا: یہودی دیگر جگہوں سے آ رہے ہیں اور یہاں زمین خرید رہے ہیں، بینک کھول رہے ہیں، کمپنیاں کھول رہے ہیں، فلسطین کو لینا چاہتے ہیں، اور اس پر سلطنت کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے کہا: یہ اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سرزمین میں حکومت کریں گے، یہ اللہ کا ارادہ ہے، کوئی ان کے مقابلے میں نہیں آ پائے گا، دیکھیں سلطان حمید اس جاہ و حشمت کے ساتھ کچھ نہ کر سکے‘‘۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظر اس بات پر یقین ہو جاتا ہے کہ بہائیوں اور صہیونی یہودیوں کے درمیان تعلقات مرزا حسین علی کے دور سے ہی موجود تھے، لیکن عباس افندی کے زمانے میں ان تعلقات میں مزید گہرائی اور گیرائی آئی۔ خیال رہے کہ عباس افندی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب صہیونی یہودی فلسطین میں یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے بھرپور جد و جہد کر رہے تھے۔
منبع: فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.

 

’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا صہیونی منصوبہ امت مسلمہ کے خلاف بھیانک سازش

  • ۵۹۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالمی صہیونیت کا “عظیم تر اسرائیل” کا منصوبہ اور اسے پورا کرنے کا عزم پوری امت مسلمہ کے خلاف ایک نہایت بھیانک منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو اسرائیلی قومی دستاویزات اور پالیسیوں میں سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمران اور علمائے دین و دانشور اگر یہ سوچتے ہیں کہ یہ منصوبہ محض کتابی ہے یا صرف پروپیگنڈہ ہے وہ اپنے کا دھوکہ دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت اور عالمی صہیونیت کے لیڈر اس دعویٰ پر پوری ضد سے قائم ہیں۔ وہ عظیم تر اسرائیل کو اپنا دائمی حق سمجھتے ہیں اور وقتا فوقتا اس کا برسر عام بھی اعلان کرتے ہیں۔ سپین کے مشہور میڈرڈ میں ۱۹۹۱ء میں جب اسرائیلیوں اور عربوں کے مابین “مشرق وسطیٰ کانفرنس” کو شروع ہوئے چھ دن گزرے تھے تو روزنامہ دی نیوز نے ۶ نومبر ۱۹۹۱ء کو یہ خبر شائع کی کہ “میڈرڈ میں اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک شمیر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل اپنی حدود کو ضرور وسیع کرے گا۔ توسیع کا علاقہ جنوب میں مصر سے لے کر شمال میں ترکی تک ہے اور اس میں شام، عراق، سعودی عرب، لبنان اور کویت کا بیشتر حصہ شامل ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ مشرق وسطیٰ میں ریاستی توسیع کا حق اسرائیل کو ہے اور امریکہ یا سوویت یونین کا اس معاملے میں کوئی حق نہیں۔
عظیم تر اسرائیل کے پرانے نقشے میں جو اسرائیلی رسالوں اور کتابوں میں اکثر ملتا ہے، مدینہ منورہ اسرائیلی حدود میں بتایا گیا ہے اب جدہ اور کچھ اور علاقے بھی اس میں شامل کر دئے گئے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنا مسلم دنیا کو تباہی میں دھکیلنا ہے۔ مسلم ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے ساتھ اضحاک شمیر کے اعلان کو ملا کر غور کریں تو عظیم اسرائیل کا فتنہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ پروفیسر للّی انتھل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “دی زاٹسٹ کنکشن” یعنی مخصوص صہیونی بندھن “نیویارک ۱۹۷۸” میں اسرائیل کی علاقائی توسیع کی حرص کے بارے میں یہ فکر انگیز جملہ لکھا ہے۔ “علاقائی توسیع کے صہیونی عزائم کی کوئی حد نہیں” یہ تبصرہ اور پروفیسر گاروڈی کا تبصرہ کہ “صہیونی ریاست اب تک ہر وہ مقصد پورا کرتی رہی ہے جس کا عزم اس نے برملا کیا تھا۔ حالانکہ اس کے کئی مقاصد دیومالائی اور فرضی تھے دیوانہ پن اور قیاس پر مبنی تھے تمام مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کے لیے ایک سنگین وارننگ ہے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ “عظیم تر اسرائیل” بنانے کی غرض سے اسرائیل نے ابھی تک اپنی ریاستی باؤنڈری یعنی زمینی حدود کو غیر متعین اور غیر واضح رکھا ہوا ہے جس طرح صہیونی لیڈروں نے دھوکے، دھشت گردی، حکمرانوں پہ دباؤ اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے ایک فرضی دعویٰ پر اسرائیل قائم اور تسلیم کروایا انہیں ہتھکنڈوں سے وہ “عظیم تر اسرائیل” کو تسلیم کروانے اور قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا سنگین اور ناقابل تلافی غلطی کا ارتکاب ہو گا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا عظیم تر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت اشد ضروری ہے کہ مسلم حکمران تدبر و حکمت سے کام لیں۔ ظلم و فریب سے بنی ہوئی جعلی اسرائیلی ریاست کو کسی قیمت پر قبول کرنا یا اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا کسی قیمت پر اسلامی حکمرانوں کی صلاح میں نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں صہیونیت کے مہا منصوبے کے مطابق مسلم ممالک میں مزید طوفانی بحران اٹھنے والے ہیں ان کا سامنا کرنے کے لیے مسلم ممالک میں باہمی اتحاد اور ہر مسلم ملک میں حکام اور عوام کی یکجہتی بہت ضروری ہے۔ مسلم عوام کو اسرائیل کبھی بھی منظور نہیں ہو گا۔ کیونکہ قرآن کریم کی رو سے بھی اس صہیونی ریاست سے مسلمانوں کے تعلقات ممنوع ہیں۔
منبع: اسرائیل کیوں تسلیم کیا جائے، تالیف: محمد شریف ہزاروی

 

ملک کے موجودہ حالات اور ہندوستان کی تعمیر میں مسلمانوں کے کردار کو بیان کرنے کی ضرورت

  • ۴۸۶

بقلم سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ملک و قوم کے حالات جس سمت میں جا رہے ہیں  انہیں دیکھتے ہوئے ہم سب پر لازم ہے  وطن عزیز کی تعمیر میں  اپنے کردار سے کو اہل وطن کے سامنے پیش کریں  بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ہم سے ناواقف ہیں ، ہماری ملک کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کو نہیں جانتے ،اور یہاں بات محض ناواقفیت کی نہیں ہے بلکہ مسلسل ایک ایسی  فکر بھی  کام کر رہی ہے جو ہماری تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کررہی ہے ، کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک قوم کی پوری تاریخ ، اسکے کارناموں اسکی تہذیب  کو نہ صرف منحرف ا نداز میں پیش کیا جا رہا ہے بلکہ  جہاں قربانیوں کا ذکر ہے وہاں جان بوجھ کر اسکی قربانیوںکو  نظر انداز کیا جا رہا ہے ، ایک قوم کی علمی و اقتصادی خدمات  کا باقاعدہ انکار کرنے کا رجحان پیدا ہو چلا ہے ، ہماری تاریخ کو اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گویا مسلمانوں کی حکومت کا دور  سامراجی دور تھا یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کی حکومت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی حکومت کو بھی سامراجی و بیرونی حکومت کے طور پر پہچنوانے کی کوشش کی جا رہی ہے  اور بالکل اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے  ہم نے ملک کی تعمیر میں کوئی حصہ ہی نہ لیا ہو  کوئی ایسا کام ہی نہ کیا ہو جس پر ہم فخر کر سکیں ،آزادی کی جنگ میں ہمارا کردار ہی نہ ہو  لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے ان پہلووں کو لوگوں کے سامنے لیکر آئیں جن سے ہمارے درخشان ماضی کا پتہ چلتا ہو جس سے ہماری قربانیوں کا پتہ چلے ،جب ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا ہم کہاں تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں اور اسی بنیاد پر ہمارے اندر مزید آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوگا ،اور ساتھ ہی ساتھ ہم اپنے آپ کو احساس کمتری سے بھی نکالنے میں کامیاب ہوں گے ۔
ہم نے جو کچھ ملک کو دیا ہے اسکی فہرست طولانی ہے  جسے اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ بہت ہی اختصار کے ساتھ کچھ ایسے اہم نکات کو بیان کیا جائے جسکے سبب لوگوں کو پتہ چل سکے کہ معاشرتی طور پر ہم نے ہندوستان سماج کو مستحکم کرنے میں کیا رول ادا کیا ہے  جیسے ملک کو چھوا چھوت اور طبقاتی اونچ نیچ سے نجات دلانے کی نتیجہ بخش کوشش کرنا ، یہ طبقاتی اونچ نیچ گرچہ اب بھی پائی جا رہی ہے لیکن اسے کم کرنے میں ہمارا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے ۔
اور یہ بات آج کے ہندوستان کے لئے بہت ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو مسلمانوں نے  بھید بھاو کے ختم کرنے میں کیا رول ادا کیا ہے اور کتنا مثبت کردار ادا کیا ہے جسکے سبب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکا ہے ۔
وہ لوگ جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے  پورا ہندوستان طبقاتی نظام کی زنجیروں میں جکڑ رہا تھا ان لوگوں کو مل جل کر آگے بڑھنے کا حوصلہ  دینے والے طبقاتی نظام کی دیواروں کو گرانے والے مسلمان ہی ہیں یہ وہ چیز ہے جس سے ہم پسماندہ قوموں اور مستضعفین کو بھی اپنے ساتھ شامل کر سکتے ہیں  اور مل جل کر موجودہ طبقاتی شگاف کے خلاف آواز احتجاج بلند کر سکتے ہیں ۔

 

اسلحے کی تجارت کی مافیا کا نشانہ تیسری دنیا کے ممالک

  • ۵۶۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسلحے کی تجارت بذات خود ایک ایسا خفیہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں تحقیق کرنا ایک دشوار کام ہے۔ خاص طور پر اس کی وسعت کی وجہ سے یہ کام مزید دشوار ہو جاتا ہے چونکہ دنیا کے ایک سو پچاس ممالک اور سیکڑوں کمپنیاں اور ہزاروں دلال اس تجارت میں شامل ہیں۔ سامراجی حکومتوں کے دور میں اسلحے کے بعض دلال دو فریقوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد ان سے استعمال نشدہ یا ناکارہ اسلحہ خرید لیتے ہیں اور اس کی مرمت کر کے دنیا میں انتہا پسند گروہوں کو بیچ دیتے ہیں یہ وہ تجارت ہے جو نہ سرکاری ہے اور نہ کبھی اس کی خبر آتی ہے۔  
دنیا میں ہتھیار بنانے اور بیچنے والے ممالک میں امریکہ ، روس ، فرانس ، برطانیہ ، چین ، جرمنی ، چیکوسلواکیہ ، اٹلی ، نیدرلینڈز ، سویڈن اور برازیل کا نام سر فہرست ہے جبکہ خریداروں میں ہندوستان ، عراق ، سعودی عرب ، شام ، مصر ، ترکی ، افغانستان اور خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔
مصر ، سعودی عرب ، اردن ، شام اور متحدہ عرب امارات نے سن ۱۹۸۱ سے ۱۹۹۱ کے دوران دولاکھ ساٹھ ہزار بلین ڈالر کا اسلحہ خریدا تھا۔  
اسلحہ کی خریداری کسی دوسرے جارح ملک کے مقابلے میں دفاع سے پہلے خود ملک کے اندرونی نظام کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ گوکہ مسلح افواج، حکمران حکومت کی طاقت اور اس کے اقتدار کا اصلی اڈہ ہوتی ہیں۔
بعض اوقات، سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے حکمران طبقے کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لئے بھی اسلحہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک ہھتیاروں کی کثیر تعداد میں پیداوار کر کے تیسری دنیا میں اسے فروخت کرنے کے لیے پہلے جنگیں چھیڑتے ہیں ایک ملک کو دوسرے ملک سے لڑاتے ہیں اور پھر انہیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔
اس دوران ، امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں ’رومن‘ اور ’جنرل ڈائنامکس‘ اور ’ایم ، سی ڈونیلی ، اور ’ڈگلس‘ نے آنے والے برسوں میں اپنے اسلحے کی برآمدات کو دوگنا کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
اس پالیسی کے بعد ۱۹۹۰ میں تیسری دنیا کے ممالک کو امریکی ہتھیاروں کی برآمد دوگنا ہوکر 18.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور بھاری ہتھیاروں کی برآمد میں ریاستہائے متحدہ امریکہ پہلے نمبر پر آیا۔
بالادست ممالک کا تسلط اسلحے کی برآمد تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات خود فوجیوں کا غیر قانونی استعمال بھی اسی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے جیسا کہ کیہان اخبار نے اپنے ایک مقالے میں لکھا: برطانوی ایم او ڈی پولیس افسران نے حالیہ دنوں میں لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں متعدد کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز پر چھاپہ مارا تاکہ بیس ملین پونڈ کے گھپلے کی تفصیلات جمع کر سکیں جو انہوں نے دلالوں کے استعمال اور حکومتی عہدیداروں کے تعاون سے برطانوی فوجیوں کو خلیج فارس کی جنگ میں دھکیلنے پر خرچ کئے تھے۔  
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی

 

دواؤں کی شیطانی تجارت کی عالمی منڈی

  • ۷۲۶


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دواؤں کی تجارت بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں عالمی سطح پر شروع ہوئی۔ جس کے بعد دنیا میں دواؤں کی بڑی بڑی کمپنیاں وجود میں آئیں۔ دوا ساز کمپنیوں نے کیمیکل مواد کی پیداوار کے لیے بڑے بڑے کارخانے کھولے۔ دنیا کے آٹھ ممالک؛ جرمنی، امریکہ، فرانس، اٹلی، سوئٹرزلینڈ، اسپین، برطانیہ اور جاپان میں دنیا کی تقریبا ۸۰ فیصد دوائیں تیار کی جانے لگیں۔
دوائیں بنانے والے دنیا کے ان اہم ترین ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے جس میں ۱۶ بڑے کارخانے ہیں جن میں سالانہ ۴۵۵۱۶ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد جرمنی ہے جس میں چار بڑی فکٹریاں ہیں جو ۶۸۶۶ ملین ڈالر کی سالانہ دوائیں بناتی ہیں۔ بعد از آں سوئٹرزلینڈ ہے جو ۳ فکٹریوں کے ذریعے ۸۹۷۴ ملین ڈالر اور برطانیہ چار کارخانوں کے ذریعے ۴۳۲۳ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کرتے ہیں اس کے بعد فرانس، جاپان، ہالینڈ اور اٹلی کا نمبر آتا ہے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۳۲ دوا ساز کمپنیاں سالانہ ۳۵ بلین ڈالر کی دوائیں عالمی منڈی میں سپلائی کرتی ہیں۔ سالانہ سیکڑوں ٹن کیمیکلز دواؤں کے نام پر جن میں پین کیلر، اینٹی بایٹک، سردرد کی دوائیں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں لوگوں کے جسموں میں وارد کئے جاتے ہیں۔ یہ کیمیکلز  ہزاروں قسم کی دواؤں کے نام سے دنیا میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور عالمی تجارتی منڈی میں اس تجارت سے ناقابل تصور منافع کمایا جاتا ہے۔
دوسرے ممالک میں دوا ساز کمپنیوں کے گمراہ کن کردار کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ سامراجی سرمایہ دارانہ معاشروں میں پیش کی جانے والی زیادہ تر دوائیں نہ صرف جانوروں پر بلکہ اقوام عالم اور بسا اوقات اپنے ہی لوگوں پر بھی آزمائی جاتی ہیں۔
لیکن دواؤں کے تجربے کے اصلی چوہے تو تیسری دنیا کے بے خبر لوگ، خاص طور پر خواتین اور بچے ہوتے ہیں، اور اس جرم میں شریک وہ ڈاکٹر، ہسپتال اور ادارے ہیں جو رشوت  کے بدلے ان دواؤں کو تجویز کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے نتیجے کو دوا ساز کمپنیوں تک پہنچاتے ہیں۔
اس قسم کے ٹیسٹ، جو خفیہ طور پر اور مریضوں کے علم کے بغیر کئے جاتے ہیں، نہ صرف بہت سارے موارد میں مریضوں میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات مریض کی موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔
اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ بہت ساری ایسی دوائیں جو سرمایہ دار ممالک میں خطرناک منفی اثرات رکھنے کی وجہ سے ان پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے لیکن دوسرے ممالک میں وہ دوائیں کثرت سے استعمال ہوتی رہتی ہیں اور تجارتی منڈی میں ان کا بازار گرم رہتا ہے۔ اور یہاں تک کہ بعض ممالک میں وہ دائیں بھی کثرت سے بیچی جاتی ہیں جن کے استعمال کی تاریخ بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
اس کی ایک مثال ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، سن ۱۹۸۴ میں ۴۶ فیصد دوائیں جو عالمی دوا ساز کمپنیوں کے ذریعے ہندوستان میں استعمال کی گئیں ان کے استعمال کی تاریخ گزر چکی تھی اور وہ اکسپائر دوائیں تھیں۔
۱۹۷۰ کی دہائی کے آغاز میں ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ میں ہزاروں قسم کی دوائیں اور ویٹامنز ایسے تقسیم کیے گئے جن میں الکحل (Alcohol) حد سے زیادہ استعمال کیا گیا تھا اور جو لوگ ان دواؤں کو ایک دو بار استعمال کرتے تھے وہ انکے عادی ہو جاتے تھے اور اس طرح سے شیطانی تجارت کو خوب رواج ملتا تھا۔
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی ص163

 

آیت اللہ طائب کے ساتھ گفتگو کا پہلا حصہ: عنقریب امریکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا اعتراف کرے گا

  • ۵۷۷

مجھے یقین ہے کہ یہ وائرس دشمنوں نے بنا کر پھیلایا ہے۔ ہمارے پاس اس بات پر دلائل ہیں لیکن فی الحال ہم انہیں پیش نہیں کر سکتے۔ عنقریب امریکی خود اس بات کا اعتراف کریں گے کہ انہوں نے یہ وائرس خود بنا کر پھیلایا ہے۔ البتہ جب وائرس چین میں پھیلنا شروع ہوا تھا تو دنیا کے بعض ماہرین جیسے روس نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ وائرس امریکہ میں بنایا گیا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ دنوں پوری دنیا اس بیماری کی لپیٹ میں آ چکی ہے اور ہر انسان ایک طرح کی دھشت میں مبتلا ہے لیکن بعض ممالک میں یہ بیماری جنگی صورت اختیار کر چکی ہے جن میں چین، اٹلی اور ایران سر فہرست ہیں۔
اس حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی طائب سے گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں۔
خیبر: یہ جو بیماری یا وائرس آج انسان کے دامن گیر ہوا ہے اور خاص طور پر اس وقت اس نے ہمارے ملک کو کافی نقصان پہنچایا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
آیت اللہ طائب: خداوند عالم فرماتا ہے: «أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ» کیا تم خیال کرتے ہوئے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے‘‘ (سورہ بقرہ ۲۱۴)۔ یعنی تم سوچتے ہو کہ جنت کا راستہ اتنا آسان ہے؟ تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہونا بہت آسان ہے؟ تم یہ سوچتے ہو کہ ان مصائب و آلام سے تم دچار نہیں ہو گے جن میں گزشتہ اقوام دوچار ہوئے تھے کیا تم نہیں سوچتے کہ جنت میں جانے کے لیے انسان کو بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں؟
خداوند عالم اس آیت میں آگے فرماتا ہے: «مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَ الضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ»  ’’انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس وقت تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟
گذشتہ اقوام نے جنت کی راہ میں اس قدر سختیاں اور پریشانیاں اٹھائیں کہ اپنے راستے سے منحرف ہو گئے اور شک میں مبتلا ہو گئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا کا وعدہ جھوٹا تھا( نعوذ باللہ)۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ باطل کو نابود کرنے میں ناتوان ہے؟ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ وہ مومنین جو اللہ کے رسول کے ساتھ ہوتے تھے اگر چہ منحرف نہیں ہوئے لیکن ان کی زبانیں بھی کھلنا شروع ہو گئیں اور کہنے لگے: پس اللہ کی نصرف کب پہنچے گی؟ اس کے بعد اللہ نے فرمایا: أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِیب ’’جان لو کہ اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے‘‘۔ در حقیقت خداوند عالم اس راستے کو جاری رکھنے کا حکم دیتا ہے۔
آج ہمارا ایک ایسے وائرس سے سامنا ہے جو پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے یہ ایسا وائرس ہے کہ اس نے ہر انسان کی زندگی کو متاثر کر دیا ہے۔ بہت سارے کام کاج بند ہو چکے ہیں، مسجدیں، امام بارگاہیں، نماز جمعہ و جماعت بند ہو چکی ہیں، لوگوں کی اکثریت خانہ نشین ہو چکی ہے اور بیماری اور موت سے جوجھ رہے ہیں۔

الہی امتحان
ہم ایسی قوم ہیں جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں یا حالات غیرمعمولی شکل اختیار کرتے ہیں تو آسمان کی طرف متوجہ ہوتے اور خدا و اہل بیت(ع) سے متوسل ہوتے ہیں۔ یہاں پر خداوند عالم کا یہ قول ہمیں سہارا دیتا ہے : «أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِیب» جان لو کہ اللہ کی نصرت قریب ہے۔
لیکن ایسا کیوں ہے؟
اس کے جواب میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خداودند عالم کلی طور پر مومنین کو یوں خطاب کرتا ہے کہ کمال کی راہ میں اور جنت تک پہنچنے کے لیے دنیا کی سختیوں اور پریشانیوں سے عبور کرنا پڑے گا۔ یعنی بغیر مشکلات اٹھائے ہوئے یہ سفر طے کرنا ممکن نہیں ہے۔ «یَا أَیُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَى رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلَاقِیهِ» ’اے انسان تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے اور اس سے ملاقات کرنے والا ہے‘ (سورہ انشقاق آیت ۶)۔ لہذا جب تک انسان اللہ سے ملاقات نہ کر لے یہ سختیاں اس کے دامنگیر رہیں گی۔
خداوند عالم اسی طرح سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے: «أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَکُوا أَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُونَ»  ’کیا لوگ یہ خیال کر رہے ہیں کہ وہ صرف اتنا کہہ دینے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائیں اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے‘۔ یعنی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے جب کلمہ پڑھ لیا اور زبان سے کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے تو کافی ہے اب ان سے کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا انہیں آزمایا نہیں جائے گا، خدا فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہے ایمان کے بعد ہی منزل امتحان شروع ہوتی ہے۔ اور یہ سنت الہی ہے اس قبل بھی اللہ نے ایسا ہی کیا «وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ‌ مِنْ‌ قَبْلِهِمْ» ’اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں‘ یعنی یہ امتحان اور آزمائش کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو صرف تمہارے لیے ہو بلکہ تم سے پہلے بھی جو قومیں آئیں وہ بھی اس منزل امتحان و آزمائش سے گزری ہیں۔
کیا آزمائش صرف مومنین کے لیے ہے؟
اب یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آزمائش صرف مومنین کے لیے ہے؟ یا سب لوگ اس آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں؟ تو جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ امتحان و آزمائش سب لوگوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دین الہی تمام لوگوں سے مربوط ہے۔ لیکن آزمائشیں مختلف ہیں۔ اللہ مومنین کو الگ طریقہ سے آزمائش کرتا ہے اور کفار کو الگ طریقہ سے۔
چونکہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک مومن ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے ہیں اور اللہ کا انکار کرتے ہیں۔ انہیں کفار کہا جاتا ہے۔ خداوند عالم کفار کو نعمتیں دے کر امتحان لیتا ہے یعنی انہیں نعمتوں میں غرق کر دیتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں کر پاتے اور وہ اسی کو اپنے لیے بہشت سمجھ بیٹھتے ہیں اور دینداروں پر ہسنتے ہیں جبکہ وہ خود منزل امتحان پر ہوتے ہیں۔ اور نعمتوں کی فراوانی اس لیے ان پر ہوتی ہے کہ وہ اسی دنیا میں اپنی مختصر زندگی میں عیش و نوش کر لیں اور آخرت کی ابدی زندگی میں خدا سے کچھ مطالبہ نہ کر سکیں۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ اللہ بہت مہربان ہے کبھی کبھی کافروں کو بھی جگانے کے لیے انہیں مشکلات میں گرفتار کرتا ہے تاکہ آخرت میں خدا کو یہ نہ کہہ سکیں کہ خدایا تو نے ہمیں متنبہ کیوں نہیں کیا؟ جیسا کہ خداوند عالم نے آل فرعون کو قحط میں مبتلا کیا تاکہ بیدار ہو جائیں۔
لہذا یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ کی آزمائشیں ہمارے لیے قطعی ہیں اور ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کے در سے جڑے رہیں اس سے غافل نہ ہوں اس کی یاد میں رہیں اور یہ چیز مومن کے لیے ترقی اور کمال کا باعث بنے گی اور اس معنوی کمال اور ترقی کا صلہ آخرت میں نظر آئے گا۔

بوڑھا سامراج اور استعماری طاقتیں

  • ۴۸۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برطانیہ ان سامراجی اور استعماری طاقتوں میں سے ایک ہے جس نے برصغیر کے سرمایے کو لوٹنے میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا۔ سالہا سال اس علاقے پر ناجائز قبضہ کر کے برصغیر کا سارا سرمایہ غارت کر لیا لیکن آخر کار ہندوستان کے عوام نے انقلابی تحریک وجود میں لا کر انگریزوں کو بظاہر اپنی سرزمین سے باہر کیا اور برصغیر سے سامراجی نظام کا خاتمہ کیا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ صہیونی دانشور اور سیاست دان سامراجی عناصر کے ہمراہ، قدیم الایام سے اپنے عالمی تسلط کے نظریے کے تحت برصغیر پر قبضہ جمانے کے لیے تزویری اقدامات انجام دینے کے قائل تھے اور برطانیہ کے ہندوستان پر قبضے کے دوران اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے اور سامراجی طاقت بھی اس راہ میں انہیں تعاون فراہم کرتی رہی۔ در حقیقت برطانیہ نے جب ہندوستان کو چھوڑا تو اسرائیل کے لیے ہندوستان میں مکمل فضا قائم ہو چکی تھی اس لیے بغیر کسی شور شرابے کے برطانیہ ہندوستان میں اپنا جانشین چھوڑنے پر کامیاب ہوا تاکہ قدس کی غاصب ریاست برصغیر مخصوصا بھارت کے سکیورٹی نظام میں اپنا گہرا نفوذ حاصل کر سکے۔
دوسری جانب سوویت یونین نے جب افغانستان پر اپنا تسلط ختم کیا تو امریکہ کو اس علاقے میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ امریکہ نے سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے بہانے سے، پاکستان میں اپنی امداد رسانی شروع کر دی۔ اور سوویت یونین کی شکست اور خاتمے کے بعد القاعدہ اور طالبان جیسے ٹولے وجود میں لاکر علاقے میں اپنی موجودگی کے لیے ایک نیا بہانہ تراش لیا۔ لہذا ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد پاکستان بھی علاقے میں دھشتگردی کا مقابلہ کرنے کی غرض سے امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ پاکستان پر جوہری تجربات کی بنا پر امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد تھیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے علاقے میں اپنی موجودگی کو بحال رکھنے کے لیے بعض مسائل سے چشم پوشی اختیار کر لی۔
تیسری جانب سعودی عرب نے برصغیر میں اہل سنت کی تمایلات اور رجحانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہابیت کو پھیلا دیا۔ سعودی عرب نے امریکہ کی حمایت کہ جو افغانستان پر قبضہ کرنے میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے دوران آغاز ہوئی، سے ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے حوزہ ہائے علمیہ کو اپنے اختیار میں لے لیا۔
علاوہ از ایں علاقے میں اسلامی انقلاب کے نفوذ کو روکنا بھی امریکی سعودی پالیسیوں کا ایک حصہ تھا۔
تنازعہ اور کشمکش
ہندوستان پر برطانیہ کے قبضے کے دوران برصغیر کا اکثر علاقہ ایک ہی جیوپولیٹک علاقہ شمار ہوتا تھا صرف نیپال اور بوٹان کے کچھ علاقے انگریزیوں والے ہندوستان سے باہر تھے۔ لیکن برطانیہ کے تسلط کے خاتمہ اور برصغیر کی تقسیم کے بعد، یہ علاقہ جنگ و جدال کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک کہ ہند و پاک کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ایک ملین سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
اس کے علاوہ، سری لنکا جو ۱۹۴۸ میں آزاد ہوا تقریبا دو دہائیوں سے تامل بدھسٹ انسٹی ٹیوٹ کی علیحدگی پسند تحریک کی بغاوت سے دوچار ہے۔ اس علاقے میں بنگلادیش حکومت نے بھی ایسے دور میں جنم لیا کہ مشرقی بنگال پاکستان کے زیر تسلط تھا اور ۱۹۷۱، ۷۲ کی جنگوں میں پاکستان سے الگ ہوا جس میں تقریبا پانچ سو افراد کا قتل عام ہوا۔
ایسے حال میں کہ آج استعماری حاکمیت کے دور سے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی بھی ہندوستان کی رگوں میں سامراجیت کا خون دوڑ رہا ہے بظاہر تو ہندوستانی سیاسی پارٹیاں بھارتی ہونے کے نام پر جمہوریت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں اور لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ریاستی حکومت تشکیل دیتی ہیں لیکن باطن میں ابھی بھی سامراجی فکر، سامراجی سوچ، سامراجی پالیسیوں اور قوانین پر عمل ہو رہا ہے۔ ابھی بھی بہت کچھ اصلاح کرنے کے لیے باقی ہے۔ برصغیر کا علاقہ دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کو تشکیل دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی خستہ حالی اور غربت و مفلسی دنیا کے لیے مثالی تصویر بن چکی ہے۔ ہند و پاک کا سارا بجٹ سرحدوں کے تحفظ اور عسکری طاقت کو مضبوط بنانے میں صرف ہوتا جا رہا ہے دوسری طرف اندرونی حالت یہ ہے کہ مذہبی اختلاف اور قومی فرقہ واریت اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ یہ تمام عوامل اس بات کا باعث بن رہے ہیں کہ برصغیر کے ممالک میں مزید دوریاں پیدا ہوں اور آپسی اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچے جبکہ علاقائی سطح پر اپنی شناخت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔

 

بھارت اسرائیل کے دوطرفہ تعلقات

  • ۳۹۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، بھارت اسرائیل تعلقات کا قیام مختلف عوامل کا حامل ہے دونوں فریق ان تعلقات کو صرف اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیل ہندوستان کو اسلحہ فروشی کی بہترین منڈی اور اپنے جنگی ہتھیاربیچنے کے لیے بہترین مارکٹ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جبکہ بھارت بھی اسرائیل کو فوجی ساز و سامان اور دفاعی میدان میں جدید ٹیکنالوجی جو امریکہ و یورپ سے اسے اتنی آسانی سے دستیاب نہ ہو پاتی کو فراہم کرنے والے دلال کے عنوان سے دیکھتا ہے۔
ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اور تبدیلی بھارت کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں گہرائی ہے کہ ایسے روابط بدرجہ اولیٰ ہندوستانی کی خارجہ سیاست کو متاثر کریں گے۔ البتہ ان روابط کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بھارت میں ہندو نسل پرستی عروج پا جائے گی اور اسلامی سماج زوال کا شکار ہو گا۔ (صدوقی، ۱۳۸۷؛ ۹۴)
اسرائیل اس وقت روس کے بعد بھارت کے نزدیک دوسرا فوجی شریک شمار ہوتا ہے۔ دونوں فریق میزائلی طاقت کو وسعت دینے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔
ہندوستان کی پی ٹی آئی نیوز ایجنسی نے جنوری ۲۰۰۴ میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان دفاعی قوت کو بڑھانے کے لیے قرار داد منظور کی گئی ہے۔ اس قرارداد پر بھارتی عہدیداروں اور صہیونی ریاست کے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے بنگلور میں دستخط کئے۔ اس معاہدے کے مطابق، جی ایس آئی ۴ سیٹلائٹ بھارتی خلائی ریسرچ آرگنائزیشن ۲۰۰۵ میں ایک اسرائیلی ٹیلی اسکوپ کو اپنے ساتھ خلاء میں بھیجے گا یہ ٹیلی سکوپ خلاء سے تصویربرداری پر قادر ہو گا اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات بھارتی اور اسرائیلی متخصصین کے ذریعے مورد تحقیق قرار پائیں گی۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان عسکری تعاون خاص طور پر خلائی میدان میں ستمبر ۲۰۰۷ میں اسرائیلی سیٹلائٹ کو خلاء میں بھیجنے پر منتج ہوا۔ بعض رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سیٹلائٹ کو بھیجنے کا اہم ترین مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی پلانٹ پر نظر رکھنا ہے۔ اس سیٹلائٹ کا ۳۰۰ کلو گرام وزن تھا اور ٹکسار اس کا نام۔ اس سے قبل بھی اسرائیل افق ۷ سیٹلائٹ کو خلاء میں بھیجنے کا تجربہ کر چکا تھا۔ لیکن دوسرا سیٹلائٹ کہیں زیادہ قابلیتوں اور صلاحیتوں کا مالک تھا خاص طور پر وہ راڈٓر ٹیکنالوجی سے لیس تھا۔ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس سے قبل بھی ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان عسکری میدان میں باہمی تعاون جاری تھا۔
اسرائیل کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ خصوصی تعلقات وجود میں لانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ تعلقات انفارمیشن ٹیکنالوجی، بالیسٹک میزائیل، خلائی پروگراموں اور اسلحہ سازی کی صنعت کے میدان میں تعاون کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔