مجھے یقین ہے کہ یہ وائرس دشمنوں نے بنا کر پھیلایا ہے۔ ہمارے پاس اس بات پر دلائل ہیں لیکن فی الحال ہم انہیں پیش نہیں کر سکتے۔ عنقریب امریکی خود اس بات کا اعتراف کریں گے کہ انہوں نے یہ وائرس خود بنا کر پھیلایا ہے۔ البتہ جب وائرس چین میں پھیلنا شروع ہوا تھا تو دنیا کے بعض ماہرین جیسے روس نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ وائرس امریکہ میں بنایا گیا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ دنوں پوری دنیا اس بیماری کی لپیٹ میں آ چکی ہے اور ہر انسان ایک طرح کی دھشت میں مبتلا ہے لیکن بعض ممالک میں یہ بیماری جنگی صورت اختیار کر چکی ہے جن میں چین، اٹلی اور ایران سر فہرست ہیں۔
اس حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی طائب سے گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں۔
خیبر: یہ جو بیماری یا وائرس آج انسان کے دامن گیر ہوا ہے اور خاص طور پر اس وقت اس نے ہمارے ملک کو کافی نقصان پہنچایا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
آیت اللہ طائب: خداوند عالم فرماتا ہے: «أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ» کیا تم خیال کرتے ہوئے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے‘‘ (سورہ بقرہ ۲۱۴)۔ یعنی تم سوچتے ہو کہ جنت کا راستہ اتنا آسان ہے؟ تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہونا بہت آسان ہے؟ تم یہ سوچتے ہو کہ ان مصائب و آلام سے تم دچار نہیں ہو گے جن میں گزشتہ اقوام دوچار ہوئے تھے کیا تم نہیں سوچتے کہ جنت میں جانے کے لیے انسان کو بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں؟
خداوند عالم اس آیت میں آگے فرماتا ہے: «مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَ الضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ» ’’انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس وقت تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟
گذشتہ اقوام نے جنت کی راہ میں اس قدر سختیاں اور پریشانیاں اٹھائیں کہ اپنے راستے سے منحرف ہو گئے اور شک میں مبتلا ہو گئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا کا وعدہ جھوٹا تھا( نعوذ باللہ)۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ باطل کو نابود کرنے میں ناتوان ہے؟ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ وہ مومنین جو اللہ کے رسول کے ساتھ ہوتے تھے اگر چہ منحرف نہیں ہوئے لیکن ان کی زبانیں بھی کھلنا شروع ہو گئیں اور کہنے لگے: پس اللہ کی نصرف کب پہنچے گی؟ اس کے بعد اللہ نے فرمایا: أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِیب ’’جان لو کہ اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے‘‘۔ در حقیقت خداوند عالم اس راستے کو جاری رکھنے کا حکم دیتا ہے۔
آج ہمارا ایک ایسے وائرس سے سامنا ہے جو پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے یہ ایسا وائرس ہے کہ اس نے ہر انسان کی زندگی کو متاثر کر دیا ہے۔ بہت سارے کام کاج بند ہو چکے ہیں، مسجدیں، امام بارگاہیں، نماز جمعہ و جماعت بند ہو چکی ہیں، لوگوں کی اکثریت خانہ نشین ہو چکی ہے اور بیماری اور موت سے جوجھ رہے ہیں۔
الہی امتحان
ہم ایسی قوم ہیں جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں یا حالات غیرمعمولی شکل اختیار کرتے ہیں تو آسمان کی طرف متوجہ ہوتے اور خدا و اہل بیت(ع) سے متوسل ہوتے ہیں۔ یہاں پر خداوند عالم کا یہ قول ہمیں سہارا دیتا ہے : «أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِیب» جان لو کہ اللہ کی نصرت قریب ہے۔
لیکن ایسا کیوں ہے؟
اس کے جواب میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خداودند عالم کلی طور پر مومنین کو یوں خطاب کرتا ہے کہ کمال کی راہ میں اور جنت تک پہنچنے کے لیے دنیا کی سختیوں اور پریشانیوں سے عبور کرنا پڑے گا۔ یعنی بغیر مشکلات اٹھائے ہوئے یہ سفر طے کرنا ممکن نہیں ہے۔ «یَا أَیُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَى رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلَاقِیهِ» ’اے انسان تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے اور اس سے ملاقات کرنے والا ہے‘ (سورہ انشقاق آیت ۶)۔ لہذا جب تک انسان اللہ سے ملاقات نہ کر لے یہ سختیاں اس کے دامنگیر رہیں گی۔
خداوند عالم اسی طرح سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے: «أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَکُوا أَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُونَ» ’کیا لوگ یہ خیال کر رہے ہیں کہ وہ صرف اتنا کہہ دینے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائیں اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے‘۔ یعنی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے جب کلمہ پڑھ لیا اور زبان سے کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے تو کافی ہے اب ان سے کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا انہیں آزمایا نہیں جائے گا، خدا فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہے ایمان کے بعد ہی منزل امتحان شروع ہوتی ہے۔ اور یہ سنت الہی ہے اس قبل بھی اللہ نے ایسا ہی کیا «وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ» ’اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں‘ یعنی یہ امتحان اور آزمائش کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو صرف تمہارے لیے ہو بلکہ تم سے پہلے بھی جو قومیں آئیں وہ بھی اس منزل امتحان و آزمائش سے گزری ہیں۔
کیا آزمائش صرف مومنین کے لیے ہے؟
اب یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آزمائش صرف مومنین کے لیے ہے؟ یا سب لوگ اس آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں؟ تو جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ امتحان و آزمائش سب لوگوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دین الہی تمام لوگوں سے مربوط ہے۔ لیکن آزمائشیں مختلف ہیں۔ اللہ مومنین کو الگ طریقہ سے آزمائش کرتا ہے اور کفار کو الگ طریقہ سے۔
چونکہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک مومن ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے ہیں اور اللہ کا انکار کرتے ہیں۔ انہیں کفار کہا جاتا ہے۔ خداوند عالم کفار کو نعمتیں دے کر امتحان لیتا ہے یعنی انہیں نعمتوں میں غرق کر دیتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں کر پاتے اور وہ اسی کو اپنے لیے بہشت سمجھ بیٹھتے ہیں اور دینداروں پر ہسنتے ہیں جبکہ وہ خود منزل امتحان پر ہوتے ہیں۔ اور نعمتوں کی فراوانی اس لیے ان پر ہوتی ہے کہ وہ اسی دنیا میں اپنی مختصر زندگی میں عیش و نوش کر لیں اور آخرت کی ابدی زندگی میں خدا سے کچھ مطالبہ نہ کر سکیں۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ اللہ بہت مہربان ہے کبھی کبھی کافروں کو بھی جگانے کے لیے انہیں مشکلات میں گرفتار کرتا ہے تاکہ آخرت میں خدا کو یہ نہ کہہ سکیں کہ خدایا تو نے ہمیں متنبہ کیوں نہیں کیا؟ جیسا کہ خداوند عالم نے آل فرعون کو قحط میں مبتلا کیا تاکہ بیدار ہو جائیں۔
لہذا یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ کی آزمائشیں ہمارے لیے قطعی ہیں اور ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کے در سے جڑے رہیں اس سے غافل نہ ہوں اس کی یاد میں رہیں اور یہ چیز مومن کے لیے ترقی اور کمال کا باعث بنے گی اور اس معنوی کمال اور ترقی کا صلہ آخرت میں نظر آئے گا۔