-
Wednesday, 25 March 2020، 10:35 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسلحے کی تجارت بذات خود ایک ایسا خفیہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں تحقیق کرنا ایک دشوار کام ہے۔ خاص طور پر اس کی وسعت کی وجہ سے یہ کام مزید دشوار ہو جاتا ہے چونکہ دنیا کے ایک سو پچاس ممالک اور سیکڑوں کمپنیاں اور ہزاروں دلال اس تجارت میں شامل ہیں۔ سامراجی حکومتوں کے دور میں اسلحے کے بعض دلال دو فریقوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد ان سے استعمال نشدہ یا ناکارہ اسلحہ خرید لیتے ہیں اور اس کی مرمت کر کے دنیا میں انتہا پسند گروہوں کو بیچ دیتے ہیں یہ وہ تجارت ہے جو نہ سرکاری ہے اور نہ کبھی اس کی خبر آتی ہے۔
دنیا میں ہتھیار بنانے اور بیچنے والے ممالک میں امریکہ ، روس ، فرانس ، برطانیہ ، چین ، جرمنی ، چیکوسلواکیہ ، اٹلی ، نیدرلینڈز ، سویڈن اور برازیل کا نام سر فہرست ہے جبکہ خریداروں میں ہندوستان ، عراق ، سعودی عرب ، شام ، مصر ، ترکی ، افغانستان اور خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔
مصر ، سعودی عرب ، اردن ، شام اور متحدہ عرب امارات نے سن ۱۹۸۱ سے ۱۹۹۱ کے دوران دولاکھ ساٹھ ہزار بلین ڈالر کا اسلحہ خریدا تھا۔
اسلحہ کی خریداری کسی دوسرے جارح ملک کے مقابلے میں دفاع سے پہلے خود ملک کے اندرونی نظام کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ گوکہ مسلح افواج، حکمران حکومت کی طاقت اور اس کے اقتدار کا اصلی اڈہ ہوتی ہیں۔
بعض اوقات، سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے حکمران طبقے کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لئے بھی اسلحہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک ہھتیاروں کی کثیر تعداد میں پیداوار کر کے تیسری دنیا میں اسے فروخت کرنے کے لیے پہلے جنگیں چھیڑتے ہیں ایک ملک کو دوسرے ملک سے لڑاتے ہیں اور پھر انہیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔
اس دوران ، امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں ’رومن‘ اور ’جنرل ڈائنامکس‘ اور ’ایم ، سی ڈونیلی ، اور ’ڈگلس‘ نے آنے والے برسوں میں اپنے اسلحے کی برآمدات کو دوگنا کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
اس پالیسی کے بعد ۱۹۹۰ میں تیسری دنیا کے ممالک کو امریکی ہتھیاروں کی برآمد دوگنا ہوکر 18.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور بھاری ہتھیاروں کی برآمد میں ریاستہائے متحدہ امریکہ پہلے نمبر پر آیا۔
بالادست ممالک کا تسلط اسلحے کی برآمد تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات خود فوجیوں کا غیر قانونی استعمال بھی اسی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے جیسا کہ کیہان اخبار نے اپنے ایک مقالے میں لکھا: برطانوی ایم او ڈی پولیس افسران نے حالیہ دنوں میں لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں متعدد کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز پر چھاپہ مارا تاکہ بیس ملین پونڈ کے گھپلے کی تفصیلات جمع کر سکیں جو انہوں نے دلالوں کے استعمال اور حکومتی عہدیداروں کے تعاون سے برطانوی فوجیوں کو خلیج فارس کی جنگ میں دھکیلنے پر خرچ کئے تھے۔
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی