چین ایران کا عظیم اتحاد، ٹرامپ اور مودی دیکھتے رہو - پہلا حصہ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی جریدہ نیشنل انٹرسٹ (The National Interest) میں ’روپرٹ اسٹون‘ نے "چین اور ایران کے عظیم اتحاد کے لئے تیار ہو جائیں" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے:

چین کو کنٹرول کرنے میں بھارت امریکہ کا اہم شراکت دار ہے۔ لیکن ایران کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی نے خطے میں نئی دہلی کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے ، اور اس وقت تہران سے اہم مراعات حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔

چین اور ایران کے مابین 25 سالہ معاہدے کی اطلاعات نے واشنگٹن کو مشتعل کردیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹرمپ کی تہران کو تنہا کرنے کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔

لیکن ریاستہائے متحدہ واحد ملک نہیں ہے جو چین-ایران عظیم اتحاد کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔ بھارت نے بھی ایران میں مختلف سرمایہ کاری کی ہے جو ایران اور چین کے مابین معاشی تعلقات میں توسیع کی وجہ سے خطرہ میں ہے۔

انتباہی نشانیاں پہلے سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، جب سے چین کی ایران میں سرمایہ کاری کی بات شروع ہوئی ہے مبینہ طور پر ہندوستانی کمپنیوں نے ایران میں اپنی نقل و حرکت روک دی ہے۔ موجودہ صورتحال نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ بیجنگ ہندوستان کو ایران سے نکال باہر کرے گا۔

حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایران چین معاہدے نے نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سرحدی تنازعات میں اضافہ کے ذریعہ نہ صرف ہند چین تعلقات اس وقت تناؤ کا شکار ہیں ، بلکہ نئی دہلی کو اپنے پڑوس میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں طویل عرصے سے تشویش ہے۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ نئی دہلی کا یہ خوف کہ چین بھارت کو ایران سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہا ہے بے بنیاد نہیں ہے۔ ایران میں ہندوستانی منصوبے حقیقت میں مشکلات سے دوچار ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ مشکلات امریکی پابندیوں کا نتیجہ ہیں، نہ صرف چین کی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش۔ در حقیقت ، چین-ایران معاہدہ اس سے کہیں کم اہمیت کا حامل ہے جتنا میڈیا اسے اہمیت دے رہا ہے۔

ہندوستان نے کئی دہائیوں سے ایران میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوشش کی، اور 2015 میں جوہری معاہدے کے بعد ایرانی معیشت کے خلاف پابندیوں کے خاتمے سے بھارت کی تلاش و کوشش میں تازہ جان آ گئی تھی۔

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران جوہری معاہدے کے بعد تیزی سے ایران کے قریب ہونے کے لیے قدم اٹھایا۔ تہران کے پاس بہت سارے قدرتی ذخائر ہیں جن میں توانائی کے وافر وسائل بھی شامل ہیں۔ نیز پاکستان کو نظر انداز کر کے ایران، افغانستان اور وسطیٰ ایشیا میں قدم رکھنے اور اپنی برآمدات بہم پہنچانے کے لیے بھارت کے پاس اس سے اچھا آپشن نہیں تھا۔

ہندوستانی کمپنیوں نے تہران کے ساتھ گیس کے حوالے سے اپنے پرانے معاہدوں کو دوبارہ بحال کیا۔ اس کے علاوہ 2016 میں ، مودی نے اپنے ایرانی اور افغان ہم منصبوں کے ساتھ ہندوستان اور افغانستان کے مابین ایک نیا تجارتی روٹ قائم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس مقصد کے لئے ، ہندوستان نے ایران کے جنوب مشرق میں چابہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری پر اتفاق کیا اور چابہار سے افغان سرحد تک ایک ریلوے لائن تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔

جاری

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی