ترکی-یہودی تعلقات؛ تاریخ اور موقف میں اتار چڑھاؤ

  • ۳۷۷

 ترکی-اسرائیلی تعلقات، بالخصوص حالیہ ایک عشرے کے درمیان اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
اردوگان نے بار بار صہیونی ریاست کو شدید ابلاغیاتی حملوں کا نشانہ بنایا اور فلسطینیوں کے خلاف غاصب ریاست کے اقدامات کو مورد تنقید قرار دیا گیا ہے۔
تاریخ
۔ترکی اور صہیونی ریاست کے تعلقات 1949ع‍ میں قائم ہوئے اور اس زمانے میں ترکی نے پہلے اسلامی ملک کی حیثیت سے اس ریاست کو تسلیم کیا۔
۔فریقین کے درمیان تعلقات کو بہت تیزرفتاری سے فروغ ملا اور جب روابط تزویری (اسٹراٹجک) تعلقات کی سطح تک پہنچ گئے، ترک سفیر تل ابیب اور انقرہ میں اسرائیلی سفیر تعینات ہؤا اور بات سفارتکاروں کے تبادلہ ہؤا نیز مشترکہ اقتصادی اور عسکری مفادات کے خد و خال کے تعین کی نوبت بھی آن پہنچی۔
۔سنہ 2005ع‍ میں اس وقت کے ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرکے فلسطینیوں کے قصاب، آنجہانی ایریل شیرون سے ملاقات کی۔
۔ نیز اردوگان نے مقبوضہ سرزمین میں غاصب یہودی ریاست کے بانی تئودور ہرتزل کی قبر - نیز ہالوکاسٹ میوزیم - پر حاضری دی!
۔سنہ 2009ع‍ میں، غزہ پر یہودی جارحیت پر وقت کے ترک وزیر اعظم اردوگان کی شدید تنقید کے بعد، فریقین کے درمیان ابلاغیات تناؤ کا آغاز ہؤا۔
۔سنہ 2010ع‍ میں غزہ کی طرف جانے والے "آزادی بحری جہاز" - جس کا نام "مرمرہ جہاز" تھا - پر یہودی ریاست کے حملے اور اس کے کئی مسافروں کے قتل ہوجانے کے بعد، فریقین کے تعلقات بحران سے دوچار ہوئے۔
۔اس کے برعکس، کہ ترکی عرب ممالک کی طرف سے یہودی ریاست کی تعلقات کی بحالی کی مذمت کرتا ہے، لیکن ترکی اور یہودی ریاست کے تعلقات بدستور قائم ہیں اور یہ تعلقات مختلف سطوح پر جاری و ساری ہے۔

عسکری
۔ امریکہ کے بعد ترکی دوسرا بڑا ملک ہے جہاں یہودی ریاست کے اسلحے کے کارخانے موجود اور سرگرم عمل ہیں۔
۔ تجربات کے تبادلے نیز ہوابازوں کے تبادلے کے سلسلے میں ایک سال کے دوران کئی مرتبہ فریقین کے درمیان معاہدے منعقد ہوئے۔

معاشی
۔ یہودیوں کا مقبوضہ عربی-فلسطینی علاقہ، - جو جعلی ریاست "اسرائیل" - کہلاتا ہے ترکی ساختہ مصنوعات کی پانچویں بڑی منڈی ہے۔
۔ سنہ 2019ع‍ میں ترکی اور یہودی ریاست کے درمیان تجارتی تبادلوں کا حجم 6 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔

سیاسی
یہودی ریاست نے ترک دارالحکومت انقرہ میں اپنے سفارتخانے کو قائم رکھا ہے جیسا کہ ترکی نے صہیونی دارالحکومت تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ قائم رکھا ہؤا ہے۔


نئی صورت حال
 کچھ عرب ممالک نے یہودی ریاستوں کو تسلیم کیا اور کچھ پر تول رہے ہیں، حالات فلسطینیوں کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ دشوار ہیں؛ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ٹرمپ ہار گیا ہے اور 76 سالہ بائڈن بطور صدر منتخب ہؤا ہے، اردوگان عرب ریاستوں کی طرف سے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کے بحالی کی زبانی کلامی مذمت کررہے ہیں؛ لیکن چونکہ ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی چنداں دوستانہ نہیں رہے ہیں لہذا اخوانی صدر اردوگان نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے نئے صدر کے ساتھ بہتر تعلقات اور یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات میں استحکام لانے کے لئے تیار ہیں؛ گویا وہ بھی عرب ریاستوں کی طرح – جنہوں نے ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے - بائیڈن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہودی ریاست کی قربت حاصل کررہے ہیں۔ بندگلی وہابیت کو بھی درپیش ہے اور اخوانیت کو بھی۔۔۔ اگلے ایام مسلم امہ کے لئے دشوار اور قبلہ اول کے لئے بہت سخت ہیں، مسلم آمہ خاموش ہے اور اس کے حکمران یکے بعد دیگرے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے یہود و نصاری کی خوشنودی کے خواہاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب: فرحت حسین مہدوی

اسلام کے تئین غداری کی توجیہ کے لیے آل زائد اور آل خلیفہ کی کوشش

  • ۴۰۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مغربی کنارے کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کو رکوانے اور امریکی ایف ۳۵ جنگی طیارے خریدنے جیسے جھوٹوں کے ذریعے، امارات میں آل زائد اور بحرین می آل خلیفہ اس غداری اور خیانت کی توجیہ کی تلاش میں ہیں جو انہوں نے اسلام، امت مسلمہ اور فلسطین کے مقدسات کے ساتھ کی ہے۔
حالیہ دنوں اسرائیل کے وزیر جنگ بنی گینٹز نے سعودی اور اماراتی نامہ نگاروں کے ساتھ پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ تل ابیب کا عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا بنیادی مقصد ایران کے خلاف محاذ جنگ کو مستحکم بنانا تھا۔
انہوں نے کہا ، "ہمارے پاس ایران کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہے، لیکن بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے سے ایران کے خلاف دشمنانہ کاروائیوں کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ "
ایران اور مزاحمتی محاذ کے خلاف بحرین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اہم مسئلہ اس گٹھ جوڑ کا آشکارا ہونا ہے کہ جو ایران، مزاحمتی محاذ اور علاقے کی اقوام کے فائدے میں تمام ہوا ہے اس وجہ سے کہ خلیج فارس کے عرب ممالک قدس کی حمایت اور اسرائیل کے ساتھ دشمنی کے بارے میں اپنے لوگوں کے ساتھ جھوٹ سے کام نہیں لے سکیں گے۔
گینٹز جانتے ہیں کہ ان کا بیان اس بارے میں کہ یہ معاہدہ ایران کے خلاف جنگ کے محاذ کو مستحکم کرنا ہے محض جھوٹ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ اس معاہدے سے پہلے بھی جاری تھی اور صہیونی ریاست اور اس کے حامی مزدور ہمیشہ ایران اور مزاحمتی محاذ سے شکست کھاتے رہے ہیں اور آج ان کی فوج بقول ان کے اسرائیل کی شکست نا پذیر فوج شام میں حزب اللہ کے ایک مجاہد کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے اور یہاں تک کہ ۴۸ گھنٹے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے مقابلے میں ڈٹے رہنے کی توانائی نہیں رکھتی۔
آل زائد، آل خلیفہ اور آل سلمان گوسفندوں کے مانند ہیں کہ جو وہائٹ ہاؤس کی صف میں کھڑے ہیں تاکہ ٹرمپ آئندہ انتخابات میں دوبارہ وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے اور صہیونی ریاست کی حمایت کرنے میں ان کے سر قلم کریں۔
اسی وجہ سے ان گوسفندوں کو چاہیے کہ گینٹز اور اس جیسوں کی کھوکھلی حمایتوں پر بھروسہ نہ کریں اس لیے کہ گینٹز ایسا شخص ہے جو حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی کے جوانوں سے ڈر کر اپنا زیادہ وقت پناہ گاہوں میں گزارتا ہے۔

 

 

عرب امارات کی صہیونیت نوازی، امت میں نئے فتنے کا آغاز

  • ۴۱۱

بقلم عادل فراز

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ اور سفارتی تعلقات بحال کرکے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے ۔اسرائیل جوکہ فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ تسلط جمائے ہوئے ہے ،اس کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے۔اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا یہ بتارہاہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں پر استعمار کا کتنا اثر ہے ۔اس معاہدہ کے نفاذ کے وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز کی موجودگی بتارہی ہے کہ یہ سارا کھیل کس نے رچایا ہے ۔استعماری طاقتیں عالم اسلام کے خلاف متحد ہیں اور نام نہاد مسلمان حکومتیں ان کے تلوے چاٹ رہی ہیں تاکہ امت مسلمہ کے مفادات کا سودا کیا جاسکے۔ اس معاہدہ نے متحدہ عرب امارات کی منافقت اور اسرائیل نوازی کو بے نقاب کردیا۔ مشرق وسطیٰ پر تسلط کا یہ پورا اسکرپٹ استعماری آلۂ کاروں نے لکھاہے۔ چونکہ اسرائیل کے وجود کا مسئلہ مشرق وسطیٰ میں تسلیم ہوئے بغیر عالمی حیثیت اختیار نہیں کرسکتا لہذا پہلے مشرق وسطیٰ میں موجود اپنے زرخرید حکمرانوں کی زبان سے اپنے وجود کو تسلیم کروا کر عالمی حیثیت حاصل کرنے کی راہ میں پیش رفت کی گئی ہے ۔امن معاہدہ کے بعد اسرائیل سے براہ راست متحدہ عرب امارات پرواز شروع ہوچکی ہے ۔اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز نے کہاکہ ’یہ مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نیا سکرپٹ ہے۔‘ ظاہر ہے یہ اسکرپٹ عالم اسلام کے مفادات کے خلاف اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کی راہ میں بڑا قدم ہے ۔جارڈ کشنز نے اس معاہدے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا ہے جوکہ اس سے پہلے ’ صدی ڈیل ‘ کے اسکرپٹ کو بھی حتمی شکل دے چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور اس کے وجود کو عالمی حیثیت عطا کرنے میں جارڈ کشنز کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا مگر افسوس مسلمان حکمران ایسے استعماری عہدیداروں کی غلامی کو اپنے لئے باعث شرف سمجھ رہے ہیں۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور عالم اسلام کے اتحاد کے لئے اسکی کوششوں کے خلاف استعمار کا بڑا قدم ہے ۔ایران کی سیاست نے اکثر اسلامی ملکوں کو امریکہ و اسرائیل سے الگ تھلگ کر دیا تھا ۔اس معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات ان عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ منسلک کرنے کی جی توڑ کوشش کرے گا ۔ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی قربت میں اضافہ ضرور کیاہے مگر کیا ایران کی طاقت متحدہ عرب امارات کے لئے کسی خطرہ کی گھنٹی ہے؟ اگر اسلامی ملک ایک دوسرے سے اس قدر خوفزدہ ہیں تو ان کے اس خوف کا فائدہ اسرائیل جیسے ملک ضرور اٹھائیں گے ۔ایران امریکہ کے ذریعہ عائد کی گئی عالمی معاشی پابندیوں کا شکار ہے مگر اس نے کبھی استعمارکے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ۔اس کے عوام کی مقاومت عالم اسلام کے لئے بڑا سبق ہے ۔ایران میں جتنی بھی ترقی ہے وہ اس کےعوام کی مرہون منت ہے ۔مگر متحدہ عرب امارات نے یہ فیصلہ کرلیاہے کہ اس کی ترقی اسرائیل کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔لہذا اس نے عالم اسلام کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کےسامنے سرتسلیم خم کردیا۔ اس کے دورس نقصانات ہونگے جن کا اندازہ اسلامی دنیا کو ہونے لگاہے۔اس معاہدے کےبعد عرب ممالک یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کریں گے ۔مصر1979 اور اردن1994میں پہلے ہی اسرائیل کے وجود کو تسلم کرچکے تھے۔اب بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی اس ناپاک منصوبے کی تکمیل میں شامل ہوچکے ہیں۔
استعمار اس معاہدے سے عالم اسلام کی توجہ ہٹانے کے لئے کئی طرح کے محاذ پر کام کررہاہے۔ اول تو یہ کہ اس نے شیعہ و سنی مسلمانوں کے درمیان نفرت انگیزی شروع کردی ہے ،جس پر عرصۂ دراز سے لگام کسی جاچکی تھی ۔ایران اور شیعوں کے مراجع عظام کی کوششوں سے شیعہ و سنی بیحد قریب آچکے ہیں۔ استعمار کی آنکھوں میں یہ قربت کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اور اسکے وجود کے لئے بھی خطرہ ہے ،لہذا اس نے ایسے تکفیری گروہوں کو بڑھاوا دینا شروع کردیا ہے جو مسلمانوں کے درمیان نفرت اور شرانگیزی کو فروغ دے سکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ ای ،سرزمین عراق سے مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی سیستانی اور دیگر مراجع کرام نے شیعہ و سنی اتفاق و اتحاد کےلئے جتنی کوششیں کی ہیں وہ عالم اسلام کے لئے گرانقدر ہیں۔مراجع کا مشترکہ فتویٰ ہے کہ مقدسات اہلسنت و الجماعت کی توہین جائز نہیں ہے ۔اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص اہلسنت و الجماعت کی مقدس شخصیات کی اہانت کرتاہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ دشمن کا آلۂ کار ہے ۔اسی طرح اہلسنت و الجماعت کے درمیان بھی ایسے تکفیری فکر کے حامل افراد ہیں جو مسلمانوں کے متفقہ اورمشترکہ عقائد و مسلمات کے مخالف ہیں ۔جیساکہ حال ہی میں پاکستان میں ممنوعہ دہشت گرد تنظیم ’سپاہ صحابہ ‘ ،’جماعت الدعوۃ‘ جیسی دیگر تنظیموں نے استعمار کے اشارے پر یزید ملعون کی حمایت میں ریلی نکال کر شیعوں کے کفر کا اعلان کیا اور ان کے قتل کو جائز قراردیا۔اس اجلاس میں اتحاد اسلامی کے سب سے بڑےداعی رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف بھی نعرے بازی کی گئی ۔اس سے یہ ثابت ہوجاتاہےکہ ایسی نفرت انگیز اور شرپسند ریلیوں کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ۔افسوس یہ ہے کہ حکومت پاکستان ایسی دہشت گرد تنظیموں کہ جن پر وہاں پابندی عائد ہے،سرکاری سرپرستی میں شیعوں کے خلاف اور یزید معلون کی حمایت میں ریلی کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟ ۔سرکار کی اسی ڈھلائی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں شیعوں کی ٹارگیٹ کلنگ جاری ہے اور ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں۔ حکومت پاکستان کو ایسے شرپسندوں اور تکفیری گروہوں پر سختی کے ساتھ ضروری اقدام کرنا چاہئےورنہ یہ لوگ پاکستان کو یزید نوازی میں دہشت گردی کی بھٹّی میں جھونک دیں گے ۔
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ استعمار نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل چاہتاہے ۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا اور اسلامی دنیا میں پھوٹ ڈلوا کر اسرائیل کوان کے سروں پر مسلط کرنا اس کا بڑا ہدف ہے ۔استعمار اپنی ان کوششوں میں بڑی حدتک کامیاب ہے کیونکہ اس نے سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارت پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کر رکھاہے جو اس کے زرخریدغلام ہیں۔ ’صدی ڈیل ‘ جس کا مسودہ ابھی صیغہ ٔ راز میں ہے، اس کو تسلیم کروانے کے لئے بھی انہی مسلمان حکمرانوں کا سہارا لیا جارہاہے ۔جیساکہ بعض عرب ممالک منجملہ مصر اورسعودی عرب فلسطین مخالف’ صدی معاہدہ‘ کو پہلے ہی تسلیم کرچکے ہیں اور استعمار کے ساتھ مل کر فلسطین کے حقوق پر نقب زنی کررہے ہیں۔ بعض اسلامی ملکوں نے عرب امارات اوراسرائیل معاہدے کی ظاہری طورپر مخالفت کی ہے مگر ان کا عمل ان کے قول کےساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ استعمار کے ساتھ خفیہ روابط رکھتے ہیں اور اندرونی طورپر اس کے مفادات کی تکمیل میں مدد پہونچاتے ہیں۔اگر عالم اسلام ایسے منافقانہ کردار ادا کرنے والے مسلم ملکوں اور حکمرانوں کے خلاف متحد نہ ہوا تو انہیں عالمی سطح پر اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

 

 

قرآن کریم کی توہین تمام انبیاء کی توہین ہے

  • ۳۹۸

بقلم مرتضیٰ نجفی قدسی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: افسوس کے ساتھ ایک مرتبہ پھر بعض بظاہر متمدن ممالک میں قرآن کریم اور پیغمبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں جس کی ایک مثال سویڈن میں قرآن کریم کو جلایا جانا اور فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو میں پیغمبر اسلام کا کارٹون چھاپا جانا ہے اس توہین آمیز اقدام نے تمام اہل توحید اور انبیاء الہی کے ماننے والوں کے دلوں کو مجروح کیا ہے جبکہ ایسا جاہلانہ اقدام کسی بھی متمدن معاشرے کے شایان شان نہیں ہے۔

اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ بعض اسلام مخالف ایجنسیاں اس طرح کے پروپیگنڈے کرواتی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ دیگر ادیان کے پیروکار قرآن کریم کی نسبت شناخت اور معرفت بھی نہیں رکھتے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس جاہلانہ اقدام کے سامنے خاموشی اختیار کریں اور کوئی عکس العمل ظاہر نہ کریں۔
اگر عیسائی اور یہودی جان لیں کہ ان کے پیغمبروں کی سب سے اچھی تعریف قرآن کریم نے بیان کی ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ دسیوں بار، تو یقینا قرآن کا احترام کریں گے۔
ان کے لیے یہ جان لینا دلچسپ ہو گا کہ قرآن کریم میں ۲۶ پیغمبروں کے نام ذکر ہوئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ جناب موسی کا تذکرہ ہے یہاں تک کہ ۱۳۶ مرتبہ آپ کا نام قرآن کے ۳۶ سوروں میں ذکر ہوا ہے جو مجموعی طور پر ۴۲۰ آیات ہیں۔
حضرت موسیٰ (ع) کا قصہ، ان کی ولادت اور زندگی کے نشیب و فراز کو تفصیلی طور پر قرآن میں بیان کیا گیا ہے اور فرعون کے دور میں بنی اسرائیل کے افسوسناک حالات یہاں تک کہ جناب موسیٰ(ع) کا مصر سے نکلنا اور جناب شعیب کی بیٹی سے شادی کرنا، پھر جناب موسی کی جناب خضر (علہیما السلام) سے ملاقات، کوہ طور پر اپنے پروردگار سے گفتگو اور نور الہی کو دیکھنا اور پھر مقام رسالت پر فائز ہونا اس کے بعد لوگوں کو دعوت توحید دینا، فرعون کا مقابلہ کرنا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و تشدد سے نجات دلانا، اور پھر عصائے موسیٰ کا معجزہ اور ساحروں کا ایمان لانا، بنی اسرائیل کا مصر سے نکلنا اور دریائے نیل کا عصائے موسیٰ کے ذریعے شگافتہ ہونا، اور بنی اسرائیل کا دریا سے عبور کرنا اور فرعونیوں کا دریائے نیل میں غرق ہونا اور دسیوں واقعات دیگر جو قرآن کریم نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کئے ہیں۔
اسی طرح حضرت عیسی کا اسم مبارک ۲۵ مرتبہ عیسی کے نام سے اور ۱۳ مرتبہ مسیح کے نام سے ذکر ہوا ہے حضرت مریم (س) کا قصہ، جناب عیسی (ع) کی ولادت کا واقعہ اور ان سے متعلق دیگر تمام حالات قرآن کریم کی متعدد آیات میں بیان ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ خود حضرت مریم (س) کے نام سے ۹۸ آیتوں پر مشتمل ایک مکمل سورہ بھی قرآن میں موجود ہے۔ جس میں اس پاکیزہ خاتون کے حالات اور جناب عیسی کی ولادت اور گہوارے میں ان کا گفتگو کرنا بیان ہوا ہے؛«قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللَّهِ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا (۳۰) وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا»  حضرت عیسی نے گہوارے میں کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں کہ جس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے پیغمبر بنایا ہے۔
ان دو بزرگ اور اولوالعزم نبیوں کے واقعات جس طریقے سے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں توریت و انجیل میں بیان نہیں ہوئے چونکہ وہ تحریف کا شکار ہو گئیں اور حقائق کو موڑ توڑ کر ان میں بیان کیا گیا ہے حتیٰ کہ ان دو کتابوں میں انبیاء کو خطاکار اور گناہ گار بھی کہا گیا ہے جبکہ قرآن کریم تمام انبیاء کو معصوم قرار دیتا ہے خاص طور پر اولوالعزم انبیاء یعنی حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسی علیہم السلام، اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں خصوصی گفتگو کی ہے اور ان کی شخصیت کو پہچنوایا ہے۔
اس کے علاوہ، قرآن کریم میں ۴۳ بار جناب نوح، ۶۸ مرتبہ حضرت ابراہیم، ۲۷ مرتبہ جناب لوط، ۲۵ مرتبہ حضرت آدم، ۲۷ بار حضرت یوسف، ۱۲ مرتبہ جناب اسماعیل، ۱۷ مرتبہ جناب اسحاق، ۱۱ مرتبہ حضرت شعیب، ۱۷ مرتبہ حضرت سلیمان، ۱۶ بار حضرت یعقوب، ۵ بار حضرت یحییٰ، ۴ بار حضرت ایوب، ۹ بار جناب صالح، ۷ مرتبہ حضرت ہود، ۴ مرتبہ جناب یونس، ۱۶ مرتبہ حضرت داوود، ۲۰ مرتبہ جناب ہارون، ایک مرتبہ جناب عزیر، دو مرتبہ جناب ادریس، الیاس، الیسع اور ذوالکفل کا تذکرہ ہوا ہے۔
جبکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کا نام گرامی صرف ۴ بار قرآن میں آیا ہے اور ایک مرتبہ ’احمد‘ کے نام سے بیان ہوا ہے، البتہ دیگر القاب جیسے رسول اللہ، الرسول، النبی، اور امی متعدد آیات میں ذکر ہوئے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ گزشتہ انبیاء کے حالات پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم دراصل کتاب توحید ہے کتاب معرفت پروردگار ہے، جو انبیاء کی دعوت کے ڈھانچے میں بیان ہوئی ہے البتہ معاد اور قیامت پر عقیدہ جو انبیاء کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے بھی قرآن کے بیشتر حصے کو تشکیل دیتا ہے قرآن کریم کی صرف پانچ سو آیتیں ایسی ہیں جن میں شرعی احکام بیان ہوئے ہیں باقی سارا قرآن اخلاقیات و عقائد پر مبنی ہے۔ البتہ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ انبیاء کا ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ، عدالت اور انصاف کے نفاذ کے لیے جد و جہد، انسانی حقوق کا دفاع اور ظلم و تعدی کا مقابلہ کرنے کی تاکید جیسے موضوعات جو انبیا کی زندگی کا حصہ رہے ہیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں۔
اگر کوئی صحیح معنی میں گزشتہ انبیاء کو پہچاننا چاہتا ہے، حضرت عیسی، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء، نیز حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کے جانشینوں کو پہچاننا چاہتا ہے تو اسے ادھر اودھر بھٹکنے کے بجائے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ قرآن کریم اللہ کا پیغام ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے آیا ہے، اور انسان کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جانے کے لیے نازل ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے : «اللَّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ...»
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ وہ کتاب جو مجسمہ ہدایت ہو، جو نور کا پیکر ہو جو انبیاء کے واقعات پر مشتمل ہو، اس کی توہین کرنا انسانیت کے حق میں کس قدر ظلم ہے یہ شیطانوں کا کام ہے جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انسانیت ہمیشہ ظلمت اور تاریکی میں ڈوبی رہے تاکہ وہ ان پر آسانی سے اپنی ظالمانہ حکومتوں کو جاری رکھ سکیں، لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خدا کا وعدہ ہے کہ آخر کار روئے زمین پر صالح اور نیک لوگوں کی حکومت قائم ہو گی اور اس حقیقت کو نہ صرف قرآن بلکہ توریت اور زبور میں بھی بیان کیا گیا ہے «وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ» (انبیاء، ۱۰۵)  ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے۔ ظالم، جابر، ستمگر اور مستکبر حکمران جان لیں کہ قرآن کریم انہیں پانی کے بلبلوں سے تعبیر کرتا ہے کہ جو ایک پھونک سے نابود ہو جاتے ہیں یہ بیہودہ تلاش و کوشش کسی نتیجے تک نہیں پہنچے گی۔
«وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ».

مسئلہ فلسطین اور عرب عوام کی حساسیت

  • ۳۶۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج کے ذرائع ابلاغ کی ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ عام آدمی کو صحیح اور حقیقی واقعات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اطلاعات کے ذرائع پر سیاسی میلانات رکھنے والوں کو کنٹرول حاصل ہونے کی وجہ سے سچائی ایک نایاب شئے بن گئی ہے! مثال کے طور پر مغربی ذرائع ابلاغ، عرب اسرائیل جنگ، عربوں کی جانب سے تیل کی سربراہی پر پابندی، جس کی وجہ سے دنیا میں معاشی بے چینی پیدا ہوئی ہے، اس “ننھے منے” بے یارو مددگار اسرائیل کا ذکر خیر، جو ایسے دشمنوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہے جو اس کو تسلیم کرنے اور اس سے گفت و شنید کرنے سے انکار کرتے ہیں تاہم ان کی یہ معلومات، تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرتی ہیں اور جس حقیقت کو وہ یا تو دبا دیتے ہیں یا چھپا دیتے ہیں اور جس سے وہ خود بھی لاعلم ہیں وہ در اصل یہ ہے کہ “ننھا منا” اسرائیل، ایک ایسا ملک ہے جو ایک دوسرے ملک، فلسطین کا خاتمہ کر کے عالم وجود میں آیا ہے۔
جب ۱۹۴۸ میں ایک نئے ملک اسرائیل کی داغ بیل ڈالی گئی تو کئی مغربی حلقوں میں یہ سمجھا گیا تھا کہ یہ نئی مملکت، مشرق وسطیٰ میں استحکام و ترقی کا ایک وسیلہ ثابت ہو گی اور عرب، جلد یا بدیر اس کے وجود کو تسلیم کر لیں گے۔
لیکن چالیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی عرب اسی طرح غیر مصالحت پسند ہیں جس طرح کے وہ ابتدا میں تھے وہ لوگ جو مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور عربوں کی نفسیات نیز انسانی نفسیات سے فی نفسہ واقف ہیں اس بات کو تسلیم کریں گے کہ عرب، یورپی یہودیوں کو فلسطین میں کبھی بھی قبول نہیں کریں گے جس طرح کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ پر حملہ آور مسیحیوں کو یا سکندر اعظم کے زمانے کے یورپی مشرکین کو قبول نہیں کیا تھا۔
اسی طرح عرب، سلطنت عثمانیہ کے غیر ملکی مسلم ترکوں سے بھی نبرد آزما رہے ہیں جنہوں نے ان کی سرزمین پر برسہا برس حکومت کی۔ الجیریا میں عرب فرانس سے جس نے وہاں تقریبا ایک سو سال تک اپنا تسلط جمائے رکھا تھا اس وقت تک لڑتے رہے جب تک کہ انہوں نے فرانسیسیوں کو اس علاقے سے نکال باہر نہ کیا۔
ان واضح تاریخی حقائق کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے مسئلہ کو اس بنیاد پر حل نہ کیا جائے کہ فلسطین کے عوام کے مکمل حقوق، علاقائی سالمیت کے ساتھ وطن کی شکل میں بحال نہ کئے جائیں۔ بالفاظ دیگر فلسطینیوں کو ان کی مملکت واپس نہ کر دی جائے، مسئلہ فلسطین اپنی موجودہ شکل میں فی الحقیقت لاینحل معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ برطانیہ فلسطین کو اپنے انتداب سے نکال چکا ہے اس لیے اسرائیل کا مسئلہ عرب دنیا کے تعلق سے ایک ایسا قضیہ ہے جسے ادارہ اقوام متحدہ کو چکانا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ادارے نے ایسی قرار دادوں کی منظوری میں کافی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے کہ جن کا مقصد اس کا حل تلاش کرنا تھا۔ اگر ان قراردادوں کو روبہ عمل لانے کے لیے نیک نیتی سے ذرا سی بھی کوشش کی جاتی تو نتیجہ بہت شاندار ہوتا۔ لیکن یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
۱۹۴۷ء میں اور پھر ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے سنجیدگی سے یہ اعلان کیا کہ فلسطینی عرب مہاجرین کو اس بات کا پورا پورا حق ہے وہ اپنے گھروں کو واپس ہوں اور اگر وہ اس حق سے استفادہ کے خواہاں نہ ہوں تو ان کے مادی نقصانات کی مکمل پابجائی کی جائے۔ فلسطینی مہاجر نہ اپنے گھر لوٹے اور نہ ہی انہیں کوئی معاوضہ ملا۔ وہ اب بھی مہاجر ہیں۔ ابھی تلک یہ جلا وطن لوگ محتاج، مفلس، فلاکت زدہ، بھوکے اور بدحال ہیں، جو کمیونسٹ پروپیگنڈے کا آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ انسان کے انسانوں سے ظالمانہ سلوک کی بدترین مثال ہے۔
لیکن اس صورت میں کم از کم ایک امر باعث اطمینان یہ ہے کہ فلسطین بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے اور عربوں کی جانب سے اسرائیل کی مخالفت کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکر کمیونزم کے ملحدانہ عقیدے کی قبولیت بھی ان کی مخالفت کے جذبے کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بار ایک تحریری مقابلہ جو تمام قوموں کے ادیبوں کے لیے کھلا تھا، اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے منعقد کیا گیا کہ “ہاتھی” کے موضوع پر کس کے مضمون کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ ایک جرمن ادیب نے ایک پر مغز مقالہ، “ہاتھی، ایک وضاحتی مطالعہ” پیش کیا۔ فرانسیسی قلمکار نے ایک مختصر سا مضمون “ہاتھی کی جنسی زندگی” پر لکھا۔ ایک انگریز نے ایک مختصر معلوماتی کتابچہ “مجھے ہاتھی کا شکار کرنا پڑا” تیار کیا۔ ڈنمارک کے ایک باشندے نے پکوان کی ایک کتاب “ہاتھی کے گوشت کے قتلوں سے پکوان کے چالیس طریقے” تحریر کیا۔ لیکن اس مقابلے میں حصہ لینے والے واحد عرب نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا “مسئلہ فلسطین کے حل میں ہاتھی کا کردار”!۔
اس میں شک نہیں کہ یہ قصہ من گھڑت ہے لیکن یہ ایک موزوں طریقے پر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مملکت اسرائیل کے وجود کے تعلق سے عرب احساسات کس قدر شدید ہیں۔ بلاشبہ کوئی بھی عرب علانیہ طور پر اس بات کا اعتراف نہیں کر سکتا کہ ایک نئی آزاد مملکت “اسرائیل” وجود میں آ چکی ہے البتہ وہ جذباتی طور پر یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ طاقت کے ذریعے اس کو نیست و نابود کر دیا جائے۔
ساری دنیا خواہ کچھ ہی کہے، سچ پوچھئے تو آج بھی عربوں کے لیے در اصل اسرائیل ہی فلسطین ہے۔ جو ان کی دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور صدیوں سے محبت اور امن کی یہ سرزمین، مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر ایک مذہبی مسکن ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ فلسطین پر صہیونیوں کی گرفت غیر فطری ہے۔ آخر کب تک ایک “شائی لاک” “انطونیو” (ولیم شیکسپیئر کا ڈراما “وینس کا سوداگر” کے دو اہم کردار) کو اپنی گرفت میں رکھ سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد/ت/

 

مہدویت اور عیسائی صہیونیت

  • ۴۳۳

خیبر تجزیاتی ویب گاہ: خداوند عالم نے قوم بنی اسرائیل کو جو متعدد بشارتیں دیں، ان بشارتوں میں سے ایک پیغمبروں کا مبعوث کیا جانا تھا جو انہیں راہ حق کی طرف راہنمائی کرتے اور طاغوت کے ظلم و ستم سے انہیں رہائی دلاتے۔ لیکن اس قوم نے اللہ کے پیغمبروں کے مقابلے میں ایسا کردار ادا کیا کہ قرآن نے انہیں “پیغمبر کش” قوم کے نام سے یاد کیا ہے۔
خداوند عالم کی جانب سے قوم بنی اسرائیل کو دی جانے والی بشارتوں میں سے ایک آخری پیغمبر کی بعثت کی بشارت تھی۔ علاوہ از ایں خداوند عالم نے انہیں راہ حق پر گامزن رہنے کی صورت میں مزید دو وعدے دیئے ایک حضرت عیسی (ع) کی ولادت اور دوسرا مہدی موعود کا ظہور۔
عیسائیت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک “انتظار” ہے جو اسلام اور عیسائیت کے درمیان ایک مشترکہ عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں پروردگار عالم مومنین کی نسبت یہودیوں کی دشمنی کو بدترین دشمنی قرار دیتا ہے وہاں عیسائیوں کو اسلام سے نزدیک گردانتا ہے۔
َتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ (مائده: ۸۲)
(آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں۔)
خداوند عالم نے اس آیت میں مسلمانوں کو عیسائیوں کے ساتھ ملنسار اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کی دعوت دی ہے اور خاص طور پر اس اعتبار سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام امام مہدی موعود کے ساتھ ظہور کریں گے اور ان کے ساتھیوں میں سے ہوں گے، عیسائیوں کے ساتھ مہر محبت سے پیش آنا اور انہیں بھی انتظار کی راہ میں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہماری ذمہ داری ہے۔
مسلمانوں نے قرآن کریم کی اس اسٹریٹجک پالیسی کو نظر انداز کر دیا لیکن یہودیوں نے اس کے باوجود کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی دینے کی کوشش کی اپنی چالاکی اور زیرکی سے عیسائیوں کو اپنی مٹھی میں لے کر مسلمانوں کے خلاف محاذآرائی کے لیے اکسایا، یہودیوں نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان انتظار کا عنصر ایک مشترکہ عنصر ہے جو انہیں آپس میں قریب کر سکتا ہے لہذا انہوں نے انجیلی عیسائیوں جو ایک اعتبار سے صہیونی عیسائی بھی ہیں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ انجیلی عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (ع) اس وقت ظہور کریں گے جب یہودی بیت المقدس پر قابض ہوں گے۔ انجیلی عیسائی وہ بانفوذ گروہ ہے جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں حمایت کی اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اور ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کر کے ان کا حق ادا کیا۔
لہذا اگر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہمدلی اور باہمی تعاون وجود پا جائے تو یقینا یہ عالمی صہیونیت کے ضرر میں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

"ٹرمپ کی گائیں" کے ہاتھوں میں فلسطین کی قسمت ؟!

  • ۳۴۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: وہ ثبوت، جو سینئر اسرائیلی عہدیداروں کے بیانات میں دہرائے گئے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بحرین جلد ہی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ طور پر تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کرے گا۔ صہیونی عہدیداروں کے مطابق ، بحرین واشنگٹن میں "اسرائیل-متحدہ عرب امارات" امن معاہدے پر دستخط کے فورا بعد ہی اسرائیل سے اپنے تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کرے گا ، اس معاہدے پر  23 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں دستخط کئے جانے کی توقع ہے۔

ان تبدیلیوں کے بیچ ، عبرانی زبان کے ٹائمز آف اسرائیل اخبار نے خفیہ اطلاعات کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدہ دیگر خلیجی عرب ریاستوں خصوصا عمان ، بحرین اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، بحرین اور امارات کے برعکس، اپنے تعلقات معمول پر لانے کی خواہش ظاہر نہیں کر رہا ہے ، اور نارمل طور پر سعودی عرب اندرونی اختلافات کی وجہ سے سب سے آخری ملک ہو گا جو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا اعلان کرے گا۔

لندن کالج میں مشرق وسطی کے ایک محقق ، آندریاس گریک کا کہنا ہے کہ ، "بحرین سعودی-اسرائیلی رابطوں کا مرکز بن جائے گا۔"

بدقسمتی کی بات ہے کہ عربوں نے بھی مسئلہ فلسطین اور حتی کہ فلسطینیوں کی تقدیر کو "تیل والے شیخون" پر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود "معاشی بحران" اور "ٹرمپ کے انتقام کا خوف" سمیت جھوٹے بہانے اور دعوؤں کو لے کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ہیں۔

جب کہ وہ بخوبی واقف ہیں کہ "تیل والے شیخ" نہ صرف صہیونی ریاست کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ اس شیطانی حکومت کی بقا کے اہم عوامل کا حصہ ہیں۔ یہ تیل والے شیخ ہمیشہ امریکی اور صہیونی مفادات کی خدمت میں ہیں، اور آج وہ اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر اپنے آقاؤں یعنی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں جو سیاسی شکست اور مالی فساد میں گرفتار ہیں اپنے آقاووں کو بچانے کے لیے اگر چہ انہیں فلسطین کو داؤ پر ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تیل والے شیخ یہ بھول گئے ہیں کہ اسرائیل نے اب تک ان کے حق میں ایک گولی بھی نہیں چلائی ہے اور اسے خود زندہ رہنے کے لئے کسی حامی کی ضرورت ہے۔ چونکہ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ انہوں نے اپنے شہروں کو شیشے کے شہر بنا لیا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہیں اور شکاری کے لیے ان کو شکار کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔

اسرائیل اور عرب امارات کے مابین 25 سالہ خفیہ تعلقات

  • ۳۴۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے امارات کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے میں متحدہ عرب امارات کی ایف 35 جنگی طیارے کے خریدنے پر آمادگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تل ابیب کے ابوظہبی کے ساتھ 25 سال کے خفیہ تعلقات نے اس معاہدے کی راہ ہموار کی ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، اسرائیلی وزارت خارجہ کے رابطہ اور مواصلات کے دفتر کے سربراہ ایلیاو بینجمن نے بتایا کہ اسرائیل گزشتہ 25 سالوں سے ابوظہبی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی سفارتی کوششوں میں جٹا رہا ہے۔
روزنامہ ہاآرتض نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تل ابیب اور ابوظہبی کا معاہدہ کوئی ایسا اتفاق نہیں ہے جو ایک رات میں حاصل ہو گیا ہو بلکہ اس کے پیچھے 25 سال کی پشت پردہ زحمتیں ہیں جو اب مثمر ثمر واقع ہوئی ہیں۔
اس اخبار نے مزید لکھا ہے کہ مصر اور اردن کے برخلاف اسرائیل اور امارات کے مابین غیر عسکری خفیہ سفارتی تعلقات کافی عرصے سے برقرار تھے۔
ایلیاؤ بینجمن جو عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی برقراری کے عہدیدار ہیں نے امارات کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بتایا: ’’یہ سب اوسلو معاہدے کے بعد شروع ہوا ، جب وزیر خارجہ شمعون پیریز (وقت کے وزیر خارجہ) ہمارے پاس آئے اور ہمیں کہا کہ عالم اسلام کی طرف دروازے کھول دیں۔"
انہوں نے اس بارے میں مزید کہا: "ہم نے سینئر عہدیداروں کی اجازت سے واشنگٹن ، نیویارک اور ابوظہبی میں ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔" آہستہ آہستہ اور خاموشی سے ... پہلے زیادہ تر سرگرمیاں معاشی تھیں، جس کا مقصد سفارتی شعبے میں توسیع کرنا تھا۔ 2002 میں ، جب وہ دبئی میں الماس ایکسچینج قائم کرنا چاہتے تھے تو [اسرائیلی] صراف (اکسچینجر) راماتوگن کو ہم نے نمونہ قرار دیا  اور ہمیں وہاں ہمیں غیر متوقع کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ہم نے ان کے ساتھ کئی مذاکرات کئے اور دسیوں اسرائیلی تاجروں کو امارات میں تجارت کے لیے بھیج دیا۔‘‘
ہاآرتض کے مطابق صہیونی وزیر خارجہ نے بھی ان سالوں کوشش کی تاکہ 500 اسرائیلی کمپنیوں جن میں زیادہ تر عسکری نظام سے تعلق رکھتی تھیں کو امارات کی مارکیٹ میں اتار سکیں۔
اس صہیونی عہدیدار نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا متحدہ عرب امارات کی F-35 لڑاکا طیارے خریدنے کی خواہش، آئندہ امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل میں قبل از وقت ہونے والے انتخابات کے امکان پر اثرانداز ہوئی؟ کہا: کہا جا سکتا ہے کہ تمام ناممکن اتفاقات کے رخ پانے کے بعد یہ معاہدہ انجام پایا ہے۔
بینجمن نے اس بارے میں مزید کہا: "یہ ٹھیک ہے کہ وہ ایف 35 خریدنا چاہتے ہیں ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس مسئلے کے ساتھ ساتھ، الحاق کے منصوبے کا نفاذ یا عدم نفاذ کا مسئلہ بھی زیر غور تھا۔ نیز دیگر ممالک کے سربراہان بھی موجود ہیں جو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کیا نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ یہ سب درست ہے۔"
دو ہفتے قبل، واشنگٹن، ابوظہبی اور تل ابیب نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں، ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زائد اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ اس کے بعد باہمی تعاون سے کام کریں گے۔
گذشتہ روز صہیونی میڈیا نے متحدہ عرب امارات کی وزارت امور خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل ناصریہ شہر یا حیفا کی بندرگاہ میں قونصل خانے کے افتتاح کا خواہاں ہے۔

 

یہود و نصاریٰ کے ساتھ سیاسی تعلقات قرآن کریم کی رو سے

  • ۳۷۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آغاز اسلام کے دور کے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ پیغمبر اکرم (ص) کا یہود و نصاریٰ کے ساتھ برتاو تھا جس کی طرف قرآن کریم کی بعض آیتوں میں اشارہ ہوا ہے۔ آغاز اسلام میں پیغمبر اکرم(ص) پوری طاقت و توانائی کے ساتھ یہود و نصاریٰ کا مقابلہ کرتے تھے اور کبھی بھی ان کے سامنے اپنی کمزوری کا اظہار نہیں کیا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ (ص) ایسا نہ کرتے تو یہود و نصاریٰ کی سازشیں اور فتنہ انگیزیاں اسلام کو سخت نقصان پہنچاتیں۔
اس موضوع کے حوالے سے ہم نے حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی سے گفتگو کی ہے امید ہے کہ قارئین کرام کے لیے مفید واقع ہو گی۔
س۔ قرآن کریم میں سیاسی موضوعات کی کیا اہمیت ہے؟ کیا بطور کلی قرآن کریم کو سیاسی زاویہ نگاہ سے بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے یا صرف اخلاقی اور عقیدتی اعتبار سے ہی قرآن کریم کو دیکھنا چاہیے؟
قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی ہے اور اس سلسلے میں مختلف مسائل جن میں ثقافتی، اخلاقی، عقیدتی حتیٰ سیاسی بھی شامل ہیں کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہوا ہے۔ قرآن کریم کبھی تاریخ حقائق کو بیان کرتا ہے، کبھی حیوانوں کی سادہ مثالیں پیش کرتا ہے، کبھی بہت گہری اور دقیق مثالیں بھی دیتا ہے۔ جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لاَیَسْتَحْیی اَن یَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا؛ اللہ اس بات میں شرم محسوس نہیں کرتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کمتر کی مثال پیش کرے۔
قرآن کریم تاریخ کی کتاب نہیں ہے لیکن تاریخی مثالیں اور داستانیں بیان کرتا ہے۔ انسانی زندگی میں ہدایت کا ایک پہلو، سیاسی پہلو ہے کہ قرآن کریم نے اس کے بارے میں بھی مثالیں پیش کی ہیں۔ اس لیے کہ انسانی معاشرہ ایسا معاشرہ ہے جس میں سیاسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ قرآن میں صرف اخلاقی موضوعات کو بیان کیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے سیاسی مسائل کی طرف بھی قرآن کریم میں اشارات ملتے ہیں۔
س۔ قرآن معجزہ ہے لہذا سیاسی مسائل کا قرآن کے اعجاز سے کیا تعلق ہے؟
قرآن کریم کا اعجاز دو طرح کا ہے ایک قرآن کریم فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے جو اس کے الفاظ و ادبیات سے مربوط ہے۔ دوسرا قرآن کریم مطالب اور مفاہیم کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے۔ اگر چہ ظاہر قرآن بھی معجزہ ہے لیکن اس فصیح و بلیغ کتاب میں موجود مطالب بھی اپنی گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے معجزہ ہیں۔
اعجاز ہونے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے مطالب نئے، تازہ اور بدیع ہیں۔ اگر چہ قرآن کریم ۱۴ سو سال قبل نازل ہوا لیکن ابھی بھی اس کے مطالب تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ گویا آج ہی نازل ہوئے ہیں۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا کچھ اہم سیاسی مسائل جن سے آج ہمارا معاشرہ روبرو ہے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں یا نہیں؟ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ قرآن کریم کی آیتوں کی روشنی میں کیا ہم اسلامی معاشرے کے سیاسی مسائل کا تجزیہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ مثال کے طور پر آج کے ہمارے معاشرے کا اہم ترین مسئلہ، جوہری معاہدہ یا ہمارے اوپر لگائی گئی ظالمانہ پابندیاں ہیں جن کا براہ راست تعلق یہود و نصاریٰ سے ہے۔ اس موضوع کو ہم آغاز اسلام میں بھی درپیش آئے مشابہ مسائل سے تجزیہ و تحلیل کر سکتے ہیں جن کے پیچھے بھی یہود و نصاریٰ کا تھا۔ در حقیقت یہ ایک اعتبار سے قرآنی گفتگو بھی ہے اور ایک اعتبار سے تاریخی بھی۔ اور آغاز اسلام کے مسائل اور اس دور میں بھی مسلمانوں پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں کو آج کے مسائل سے ناطہ جوڑ کر بخوبی یہ تجزیہ کر سکتے ہیں کہ جب بھی حقیقی اسلام نے سر اٹھایا تو یہود و نصاریٰ نے اسے کچلنے کی کوشش کی۔
اس حوالے سے قرآن کریم سورہ مائدہ کی ۵۱ اور ۵۲ آیتوں میں مسلمانوں کی بہترین رہنمائی کرتا ہے ارشاد ہوتا ہے:
«یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَىأَوْلِیَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّـهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛
“اے ایمان والوں یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناو کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو ان ہی میں شمار ہو جائے گا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔”
آیت نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناو یعنی ان کے ساتھ معاملات میں خود کو کمزور مت سمجھو، البتہ آیت یہ نہیں کہتی کہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ گفتگو اور مذاکرات نہ کرو، ان کے ساتھ بالکل تعلقات نہ رکھو، بلکہ آیت میں تاکید اس بات پر ہے کہ ان کے مقابلے میں خود کو ضعیف مت سمجھو یعنی اگر تم انہیں اپنا سرپرست بنا لو گے تو تم ان کے سامنے کمزور اور ضعیف ہو جاو گے اور وہ تمہارے سر پر سوار ہو جائیں گے لہذا ان کے مقابلے میں خود کو قوی اور مضبوط کرو۔
آیت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ؛ یہ ایک دوسرے کے سرپرست اور ولی ہیں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم یہ سوچو کہ ہم عیسائیوں سے دوستی کر لیں گے اور وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے یہ غلط ہے یہود و نصاریٰ دونوں ایک ہیں بظاہر ممکن ہے ان کے بھی آپس میں اختلافات ہوں لیکن تمہارے ساتھ دشمنی کے مقام پر دونوں یک مشت ہیں۔
اس آیت نے ہمارے لیے موقف واضح کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ اپنی گفتگو اور مذاکرات میں یہ پیش نظر رہے کہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور دشمن کو دشمن سمجھ کر اس سے گفتگو کرنا چاہیے، پوری ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ ان سے گفتگو کرنا چاہیے تاکہ تمہیں کبھی وہ دھوکا نہ دے دیں، تمہارے اوپر سوار نہ ہو جائیں۔
اس کے بعد اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْإِنَّ؛ جو بھی تم میں سے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا ان ہی میں سے ہو جائے گا۔ یہ بہت ہی اہم نکتہ کی طرف اشارہ ہے اگر تم نے دشمن پر بھروسہ کر لیا تو تم بھی دشمن کی صف میں شامل ہو جاو گے۔ دشمن دشمن ہوتا ہے اس پر اعتماد کرنے والا اسلامی معاشرے سے دور ہو جاتا ہے۔ آیت یہ سمجھا رہی ہے کہ یہ بہت خطرناک موقع ہے یہاں پر لغزش اور گمراہی کا بہت امکان ہے۔ اگر دشمن کی باتوں میں آگئے اور اس پر بھروسہ کر لیا تو دشمن کی صف میں شامل ہو جاو گے۔ اور آخر میں ہے کہ «إِنَّ اللَّـهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛ خدا ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا۔
س۔ کیا قرآن کریم میں ایسے مسلمانوں کے حوالے سے بھی کچھ بیان ہوا ہے جو دشمن پر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں اور حکم خدا کی خلاف ورزی کر دیتے ہیں؟
قرآن کریم بعد والی آیت یعنی سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۲ میں اسلامی معاشرے کی فضا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بعض مسلمان دشمنوں کے مقابلے میں کیسا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: «فَتَرَى الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِمْ یَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ؛ “پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جا رہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردش زمانہ کا خوف ہے”۔
آیت کا یہ کہنا ہے جن لوگوں کا ایمان کمزور ہے وہ جلدی یہود و نصاریٰ کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں تم نے اتنا جلدی دشمن کی باتوں پر بھروسہ کر لیا تو کہتے ہیں: «یَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ؛ ہم گردش زمانہ سے ڈرتے ہیں۔ یا آج کی زبان میں کہا جائے کہ ہم پابندیوں سے ڈرتے ہیں۔ ایسے افراد کا ایمان ضعیف ہوتا ہے خدا پر ایمانِ کامل نہیں رکھتے۔ ایسے افراد کا کہنا ہے کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچائے گا، ہم اس سے گفتگو کرنے جاتے ہیں مذاکرات کرنے جاتے ہیں تاکہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائے کبھی ہمارے اوپر حملہ نہ کر دے کبھی ہمارے اوپر پابندیاں نہ عائد کر دے۔
آیت اس کے بعد مسلمانوں کو دلاسہ دیتی ہے اور فرماتی ہے: «فَعَسَى اللَّـهُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَیُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِی أَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ؛ پس عنقریب خدا اپنی طرف فتح یا کوئی دوسرا امر لے آئے گا تو یہ اپنے دل کے چھپائے ہوئے راز پر پشیمان ہو جائیں گے۔
آیت کا یہ حصہ مسلمانوں سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدا سے ناامید نہ ہوں خدا اپنی طرف سے کچھ ایسا کرے گا کہ ان کی مشکلات حل ہو جائیں گی تم اپنی مشکلات کے حل کے لیے دشمن کی طرف مت جانا دشمن تمہاری مشکلات حل نہیں کر سکتا بلکہ مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
اور جن لوگوں کا ایمان کمزور ہے اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دشمن کے ساتھ خفیہ قرار دادیں باندھتے ہیں لیکن بعد میں جب ظاہر ہوتا ہے تو پشیمان ہوتے ہیں۔ فَیُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِی أَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ؛
یعنی بعض لوگ جب معاشرے پر دشمن کی طرف سے دباو پڑتا ہے تو یہود و نصاریٰ کے ساتھ خفیہ تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعد میں جب یہ تعلقات کھل کر سامنے آتے ہیں تو شرمندہ اور پشیمان ہوتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دشمن پر کبھی بھی بھروسہ نہ کرنا، اس کے ساتھ گفتگو کرنے میں اس بات کی طرف توجہ رکھنا کہ وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمن کبھی بھی تمہارا نفع نہیں چاہے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی بین الاقوامی روابط کے حوالے سے بالکل یہی پالیسی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ دشمن کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا اس گفتگو کر سکتے ہیں لیکن اس کے سامنے دب کر نہیں، خود کو کمزور سمجھ کر نہیں۔ آپ ایک طرف سے معاہدے کے احترام پر تاکید کرتے ہیں اور دوسری طرف سے عہد شکن کے ساتھ سخت رویہ اپناتے ہیں، یہ دونوں نکات قرآن کریم کی روشنی میں ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ عہد شکنوں کے ساتھ سختی سے پیش آو، اور اگر انہوں نے عہد شکنی کر دی تو تم اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا۔
رہبر انقلاب کے فرمودات کوئی ان کے ذاتی نظریات نہیں ہیں بلکہ قرآنی مبنیٰ پر قائم ہیں۔ آپ نے متعدد بار کہا کہ ہم قدس کے غاصب اسرائیل کہ جسے ہم تسلیم نہیں کرتے کے علاوہ ہر کسی سے گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن گفتگو میں ہمارے ہوش و حواس سالم رہنا چاہیے، ہوشیاری سے کام لینا چاہیے کسی کو دشمن سے دوستی اور محبت کی تمنا نہیں ہونا چاہیے۔ دشمن کا کام دشمنی کرنا ہے یعنی دشمنی کا تقاضا ہی فتنہ افکنی، مکاری اور ضرر رسانی ہے لہذا ہمیں ہوشیاری سے کام لینا چاہیے اور اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کی میز پر بیٹھنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

 

فلسطین کے پیکر پر سعودی عرب کا پہلا زہر آلود خنجر

  • ۳۶۱

 

جن بہانوں کو لے کر متحدہ عرب امارات غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے آگے بڑھا انہیں بہانوں کو لے کر سعودی عرب نے فلسطین کے پیکر پر پہلا زہر آلود خنجر گھونپ دیا ہے۔  
سعودی عرب کی فضا سے عبور کر کے پہلا اسرائیلی طیارہ جب ابوظہبی ایئرپورٹ پر پہنچا تو اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ریاض حکومت نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کر دیا کہ اسرائیل اور عرب امارات اپنی پروازوں کے لیے سعودی فضا کا استعمال کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب سے متحدہ عرب امارات جانے والی "اسرائیل" سمیت تمام پروازوں کی منظوری کے بارے میں سعودی عرب کا یہ پہلا باضابطہ اعلان ہے اور یہ پروازیں درحقیقیت متحدہ عرب امارات اور صہیونی حکومت کے مابین تعلقات کو معمول پر لائے جانے کا عملی اقدام ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ "فیصل بن فرحان"  نے اس اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا: "مسئلہ فلسطین کے بارے میں سعودی عرب کا موقف اسرائیل اور عرب امارات کے مابین پراوزوں کے عبور کی اجازت دینے سے تبدیل نہیں ہو گا"۔  بن فرحان نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب ایئر لائنز کی عمومی تنظیم نے متحدہ عرب امارات کی ایئر لائنز کی درخواست پر اتفاق کرتے ہوئے سعودی آسمان سے متحدہ عرب امارات کی تمام ممالک کے لئے پروازوں کی منظوری جاری کر دی گئی ہے۔
ابوظہبی اور تل ابیب کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کا ذکر کرتے ہوئے، جسے فلسطینیوں اور اسلامی ممالک نے فلسطینی کاز اور اسلامی امت کی پشت پر خنجر گھوپنے سے تعبیر کیا ہے، سعودی وزیر نے کہا: " ایک پائیدار اور انصاف پسند عرب امن منصوبے کے قیام کے عمل میں تمام کوششیں قابل قدر ہیں۔"
دوسری جانب بحران سے دوچار قابض حکومت اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو نے ایک ویڈیو میں سعودی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے۔ ویڈیو میں، نیتن یاھو نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی طیاروں کو متحدہ عرب امارات کے لئے براہ راست پرواز کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
نیتن یاہو نے اس کے بعد ٹویٹر پر لکھا: "ایک اور بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل سے ابوظہبی اور دبئی کے لئے اسرائیل کی تمام پروازوں کے علاوہ دیگر ان ممالک کی پروازوں کی آمد و رفت کا راستہ ہموار ہوا ہے جو اسرائیل سے تعلقات رکھتے ہیں۔ ۔ "اس کامیابی سے پروازوں کی لاگت اور وقت میں کمی آئے گی، اور سیاحت میں نمایاں اضافہ ہوگا اور ہماری معیشت کو تقویت ملے گی۔ "
اس معاہدے کا اصلی مزہ تو صہیونی ریاست اور مجرم اسرائیلی ہی چھکیں گے اور فلسطین کے مظلوم عوام اور امت مسلمہ کو تو صرف نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔

آخر میں یہ کہنا بھی مناسب ہو گا کہ سعودی عرب کا اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضا سے اڑان بھرنے کی اجازت دینے پر مبنی فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر کے داماد اور سینئر مشیر جیرڈ کشنر نے سعودی عرب کی فضا سے امریکی اور اسرائیلی پروازوں کے عبور کی اجازت کا شکریہ ادا کیا۔ کشنر نے مزید کہا کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن معاہدے پر آئندہ مہینوں دستخط کئے جائیں گے۔