-
Tuesday, 1 September 2020، 10:55 PM
-
۳۶۱
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب نیوز ایجنسی 21 کے جائزہ کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں اور ان کے قریبی افراد کی طرف سے سرکاری اور غیرسرکاری میڈیا پر جاری کردہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے ابوظہبی کے فیصلے پر اماراتی عہدیداروں اور لوگوں کے درمیان کافی حد تک اختلافات پائے جاتے ہیں۔
شارجہ، عجمان، راس الخمیہ، ام القیوین اور الفجیرہ کے حکمرانوں نے تل ابیب کے ساتھ ابوظہبی کے تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کی باضابطہ طور پر حمایت نہیں کی اور صرف حاکم امارات محمد بن راشد آل مکتوم نے اپنے ٹویٹر میں لکھا ہے کہ ’’صلح پسند بہادروں کے نام تاریخ میں درج ہو جائیں گے‘‘۔ لیکن دیگر کسی نے خاموشی کا تالہ نہیں توڑا۔
عربی نیوز 21 نے المکتوم خاندان کے 33 افراد اور محمد بن راشد کے بیٹوں کے ٹویٹر اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ انسٹاگرام اکاؤنٹس بھی چیک کیے، ان میں سے کسی نے بھی ابوظہبی کی حمایت نہیں کی۔ دبئی کی صرف دو حکمرانوں کی بیٹیوں نے اس معاہدے کی حمایت کی ہے۔
شارجہ کے حکمران جو ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی ہیں ، نے عوامی تنقید کے فقدان کے باوجود ، دوسروں کے مقابلے میں ، تل ابیب کے ساتھ ابوظہبی کے تعلقات کے حوالے سے، اپنے سخترین موقف کا اظہار کیا۔ شارجہ کے حکمران کی اہلیہ شیخہ جواہر القاسمی کے موقف کو سی این این نیوز نے شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’قدس دار الحکومت کے ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی قیمت ہے۔"
جواہر القاسمی کے ٹویٹ میں مقبوضہ بیت المقدس کو حکومت کا دارالحکومت قرار دینے کے تناظر میں اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کی گئی ہے۔ شارجہ کے حکمران کی بیٹی نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ، لیکن معاہدے کے اعلان سے دو دن قبل انسٹاگرام پر لکھا، "میں فلسطین کی آزادی تک فلسطینی ہوں بیروت میں امن کے قیام تک لبنانی ہوں۔"
راس الخیمہ کے حکمران ، سعود بن صقر القاسمی نے اس معاہدے کو نظرانداز کیا ہے ، لیکن ان کے بیٹے محمد نے اس کی سختی سے حمایت کی اور اسرائیل کے ساتھ باہمی رواداری کو ضروری سمجھا ہے۔
عربی نیوز 21 کی رپورٹ کے مطابق دیگر تمام شیوخ نے اس معاہدے کو نظر انداز کیا ہے اور اس کے اوپر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
متحدہ عرب امارات کے مخالفین کا کہنا ہے کہ محمد بن زید کی سربراہی میں ابو ظہبی نے متحدہ عرب امارات کی سپریم کونسل کے سات ممبران کے لئے کسی بھی ممکنہ کردار کو مسترد کردیا ہے ، جبکہ متحدہ عرب امارات کے سات ملکوں کے شیخوں کو حکومت کے فیصلوں میں شامل ہونا چاہئے تھا، لیکن ابوظہبی برسوں سے اپنے امور پر یکطرفہ فیصلہ کرتی آئی ہے۔