-
Sunday, 7 June 2020، 04:57 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گا: تاریخ عالم کے مطالعہ کے دوران ہم قوموں، اخلاقی اصول و ضوابط اور مذاہب کے عروج و زوال کے پیش منظر میں انسانی ترقی کے بارے میں شکوک و ابہام کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ بسا اوقات ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آیا ہر نسل کا اپنے آپ کو ’’جدید اور ترقی یافتہ‘‘ قرار دینے کا دعویٰ محض بے کار اور روائتی طور پر ڈینگ ہانکنے کے مترادف تو نہیں؟
چونکہ ہم نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اب تک کے تاریخی اداوار کے دوران انسانی فطرت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے اس لیے تمام تر تکنیکی ترقی کو محض یہ سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ یہ تو پرانے مقاصد، اشیاء کے حصول، یا جنس مخالف تک رسائی، مقابلہ میں کامیابی وجنگ میں فتح، کے حصول کے نئے ذرائع ہیں۔ موجودہ صدی میں ہم جن بہت سے حقائق سے روشناس ہوئے ہیں ان میں سے ایک حوصلہ شکن انکشاف یہ بھی ہے کہ سائنس انسانی احساسات و جذبات کے بارے میں غیر جانبدار ہے۔ یہ جس قدر مستعدی سے مریضوں کو صحت یاب کر سکتی ہے اسی تیزی سے انسانوں کو موت کے گھاٹ بھی اتار سکتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تعمیر کی نسبت تخریب کا عمل سائنس زیادہ تیز رفتاری سے کر سکتی ہے، فرانس بیکن کا یہ فخریہ مقولہ آج کس قدر غیر اہم لگتا ہے کہ ’’علم طاقت ہے‘‘۔ ۔۔۔
بلا شبہہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم نے ترقی کی ہے لیکن یہ ترقی بھی قباحتوں سے خالی نہیں ہے۔ سہولتوں اور آسائشوں نے ہماری جسمانی قوت برداشت اور اخلاقی طاقت کو کمزور کر دیا ہے ہم نے اپنے ذرائع آمد و رفت کو بہت ترقی دے دی ہے لیکن ہم میں سے ہی کچھ لوگ ان ترقی یافتہ ذرائع کو جرائم کے ارتکاب اور اپنے ساتھی انسانوں کی یا خود اپنی ہلاکت کے لیے استعمال کرتے ہیں ہم نے اپنی رفتار کو دگنا، تگنا بلکہ سوگنا بڑھا لیا ہے لیکن اس عمل کے دوران ہم نے اپنے اعصاب تباہ کر لیے ہیں ہم میں اور عہد وحشت کے انسانوں میں رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے یہ درست ہے کہ ہم جدید طب نے بہت زیادہ ترقی کی ہے لیکن علاج معالج کی اس ترقی کو ہم اسی وقت ہی سراہنے کے قابل ہونگے اگر اس کی بنا پر اصل امراض سے بھی بدتر ذیلی اثرات پیدا نہ ہوں۔ نئی نئی بیماریوں اور جراثیم کی روز افزوں مزاحمت کے خلاف ڈاکٹروں کی تندہی اور مشقت بلاشبہ قابل تعریف ہیں اور ہم طبی سائنس میں ترقی کے باعث اوسط انسانی عمر میں اضافہ کے لیے شکرگزار ہوں گے بشرطیکہ زندگی میں ہونے والا یہ اضافہ محض بیماری معذوری اور اداسی کے بوجھل لمحے نہ ہوں۔
آج روئے زمین پر ہونے والے روزمرہ کے واقعات کے بارے میں ہمارے باخبر رہنے اور ان کو بیان کرنے کی صلاحیت پہلے سے سوگنا بڑھ گئی ہے۔ لیکن کبھی کبھار ہمیں اپنے اپنے آباؤ اجداد پر رشک آتا ہے جن کے پرسکون ماحول میں اپنے گاؤں کی کوئی خبر سن کر دھیما سا خلل پڑ جاتا تھا۔
اگر چہ ہم نے ہنرمند کاریگروں اور درمیانہ طبقے کے حالات کو قابل رشک حد تک بہتر بنا لیا ہے۔ لیکن ہمارے شہروں میں گندگی اور غلیظ گلیوں اور قابل نفرت تاریک بستیوں کے ناسور پل رہے ہیں۔
ہم مذہب سے چھٹکارا پانے کی خوشی میں خوب بغلیں بجاتے ہیں لیکن کیا ہم مذہب سے علیحدہ کوئی ایسا فطری ضابطہ اخلاق تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس میں اتنی قوت ہو کہ وہ ہماری اشیاء کے حصول، جھگڑالوپن، اور جنسی جبلتوں کو قابو میں رکھ سکے۔ تاکہ ہم اپنے جبلی تقاضوں کے زیر اثر اپنے اس تمدن کا لالچ، جرم اور جنسی بے راہ روی کی دلدل میں نہ دھکیل دیں؟
کیا ہم نے مذہبی تعصب اور نارواداری کو بالکل خیرباد کہہ دیا ہے یا پھر یہ تعصاب اب قومی نظریاتی اور نسلی منافرتوں میں بدل گئے ہیں؟ کیا ہمارے اخلاق و عادات اور اطوار پہلے کی نسبت بہتر ہیں یا بدتر؟ انیسویں صدی کے ایک سیاح کا کہنا ہے:
’’جوں جوں ہم مشرق سے مغرب کو جائیں تو اخلاقی طور پر اطوار بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں۔ یہ ایشیا میں برے یورپ میں بدتر اور امریکہ کی مغربی ریاستوں میں بدترین ہیں‘‘۔
اب تو مشرق بھی اس معاملہ میں مغرب کی پیروی کر رہا ہے!
کیا ہمارے قوانین مجرموں کو معاشرے اور ریاست کے مقابلے میں بہت زیادہ تحفظ فراہم نہیں کرتے؟
کیا ہم نے اپنے آپ کو اپنے ظرف سے زیادہ ذہنی آزادی نہیں دے دی؟
کیا آج ہم ایسی اخلاقی اور سماجی ابتری کے دہانے پر نہیں کھڑے جہاں اپنے بچوں کی بے راہروی سے خوفزدہ ہو کر والدین دوبارہ مذہب/ کلیسا کی طرف رجوع کریں اور ان میں نظم و ضبط اور اخلاق کی بحالی کے لیے مطلق ذہنی آزادی سے دستبردار ہو کر مذہب کا سہارا لیں گے؟
جاری
اقتباس از
(تاریخ عالم کا ایک جائزہ، ول ڈیورانٹ، صفحہ ۱۲۶ سے ۱۲۸ تک)