بن سلمان کا ٹرمپ کے بغیر کوئی مستقبل نہیں!

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ محمد بن سلمان ، سعودی عرب کے نوجوان شہزادے کے لیے کیا ممکن ہے کہ وہ اتنی آسانی سے زمام حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے سکیں جبکہ آل سعود میں ان سے بڑے بڑے تجربہ کار اور سیاستدان موجود ہیں۔ بن سلمان کا حکومت پر قبضہ کر لینا اور ملک کے اندر یا باہر سے بالکل کسی اختلافی آواز کا نہ اٹھنا کیا تعجب کی بات نہیں ہے؟ اس کے پیچھے راز کیا ہے؟ اس سوال کا جواب بہت آسان اور مختصر ہے اور وہ یہ کہ صرف ٹرمپ کی وجہ سے ہے۔
اگر یہ ڈونلڈ ٹرمپ ، ریاستہائے متحدہ کے صدر نہ ہوتے تو کبھی بھی بن سلمان اپنے خواب پورے نہ کر سکتے اور کسی بھی صورت میں مافیا گینگ کے سرغنہ نہ بن پاتے۔
سعودی ولی عہد بن سلمان، ٹرمپ کو ایک ایسی سیڑھی کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے ذریعے وہ آسانی سے اقتدار کی کرسی پر قدم رکھ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ ٹرمپ کے دو عظیم اہداف کو عملی جامہ پہنائیں: پہلا ، امریکی معیشت میں بے انتہا ڈالروں کو انڈھیلنا اور دوسرا ، مسئلہ فلسطین پر خط بطلان کھینچنا۔ بن سلمان نے مسٹر ٹرمپ کی ان شرطوں کو پورا کرنے اور خود اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کی غرض سے سعودی عرب کا خزانہ خالی کر دیا ہے اور سیکڑوں ارب ڈالر ٹرمپ کی جیب میں بھر دئے ہیں۔
ٹرمپ کی یہ حیرت انگیز حمایت ، یہاں تک کہ وہ خاشقچی کے قتل میں بن سلمان کے ملوث ہونے سے متعلق امریکی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں، نے اس نوجوان شہزادے کو اس قدر جری کر دیا ہے کہ وہ سعد الجبری کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنے جا رہے تھے جو خاشقچی کے ساتھ کیا۔ بن سلمان کی دھمکی اس بات کا باعث بنی کہ الجبری کینیڈا فرار کر جائیں اور وہ وہاں امریکی فیڈرل کورٹ میں بن سلمان کے خلاف مقدمہ دائر کریں۔ جس کے نتیجے میں دو روز قبل بن سلمان اور ان کے ۱۳ ساتھیوں کو عدالت میں طلب کیا گیا۔
برطانوی مصنف اور صحافی ڈیوڈ ہرسٹ نے میڈل ایسٹ آئی ویب سائٹ پر لکھے گئے ایک مضمون میں سعد الجبری کے خطرات کو خاشقچی سے کہیں زیادہ خطرناک قرار دیا اور زور دیا کہ وہ بن سلمان کی بادشاہی کے لئے سب سے بڑا غیر ملکی چیلنج ہے ۔
برطانوی مصنف نے سعد الجبری کے لئے امریکی محکمہ خارجہ کی حمایت کی نشاندہی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ معاملہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ مہینوں سے متعلق ہوسکتا ہے، خاص طور سے چونکہ ٹرمپ کے ممکنہ جانشین ’جو بائیڈن‘ نے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں پہلے تو سعودی عرب کو اسلحہ بیچنا بند کرنا ہے اور دوسرے خاشقچی قتل کیس میں ملوث افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنا ہے۔  لہذا اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے چلے جاتے ہیں تو ، سی آئی اے اور امریکی محکمہ خارجہ کی پالیسی میں اہم تبدیلی سامنے آئی گی جس کے بعد محمد بن سلمان کے لئے مشکل حالات پیدا ہوں گے، چاہے وہ اس وقت تک خود کو سعودی عرب کے بادشاہ کے طور پر ہی کیوں نہ پیش کر دیں۔ سعودی بادشاہ کو بہر صورت علاقے میں خود کو بچانے کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے چونکہ چین اور روس کی حمایت حاصل کرنا سعودی عرب کے لیے آسان نہیں ہے۔ اور اگر ٹرمپ وہائٹ ہاؤس سے رخصت ہوئے تو اپنے ساتھ بہت ساروں کو رخصت کر دیں گے جن میں ایک بن سلمان بھی ہیں۔

 

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی