امریکہ کہاں جارہا ہے؟ (3)

  • ۴۱۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہم امریکیوں کو اپنے سیاسی نظام کی اصلاح کا اہتمام کرنا چاہئے، حق رائے دہی کی ضمانت فراہم کرنے کے لئے بھی اور جمہوری نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے بھی۔ نیز ہمیں رائے دہی کے حقوق کے بارے میں نئے قانون کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ قانون جنوبی محاذ کو نشانہ بنانے کی غرض سے 1965ء میں منظور ہؤا تھا۔ جس کے تحت اپنے حقوق سے محروم افریقی-امریکیوں نے، خانہ جنگی کے بعد کی تعمیر نو کے دور کے آخر تک، سفیدفام اشرافیہ کو برسراقتدار رہنے کا کا موقع فراہم کیا۔ لیکن آج غیر جمہوری رویے پورے ملک پر مسلط ہوچکے ہیں۔
ہمیں اپنی سیاست میں پیسے کے اثر و رسوخ کو کم کرنا پڑے گا: امریکہ جیسے معاشرے میں - جہاں اس طرح کی شدید عدم مساوات کی حکمرانی ہے - کسی بھی قسم کا کوئی دیکھ بھال کا نظام (مانیٹرنگ سسٹم) مؤثر نہیں ہے؛ اور جس نظام میں "ایک ڈالر ایک ووٹر" کا قاعدہ کارفرما ہو اور "ایک شخص ایک رائے" کا قاعدہ نظر انداز کیا جائے، وہ نظام ہیجان انگیزی، سیاست بازی اور عوام فریبی جیسے رجحانات کے پروان چڑھنے کے لئے ماحول فراہم کرتا ہے؛ تو ایسا نظام کیونکر ملکی مفادات کی ضمانت دے سکتا ہے؟
ہمیں عدم مساوات کے مختلف پہلؤوں کے توجہ دینا پڑے گی: ہم نے دیکھا کہ جو لوگ " Black Lives Matter" کے عنوان سے پرامن احتجاج کرنے والے زخمیوں کو علاج معالجے کی وہ سہولیات کبھی بھی میسر نہیں آئیں جو کانگریس کی عمارت (Capitol hill) پر حملہ کرنے والے سفید فام باغیوں کو فراہم کی گئیں اور پوری اقوام عالم نے دیکھا کہ امریکہ میں نسلی عدم مساوات کی جڑیں ملک کے تمام گوشوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
علاوہ ازیں کورونا کی وبا نے بھی ملک میں جاری معالجاتی عدم مساوات کو نمایاں کردیا ہے اور جس طرح کہ میں کہتا رہا ہوں، ملک میں جڑ پکڑنے والی عظیم عدم مساوات کا علاج کرنے کے لئے، چھوٹے چھوٹے اقدامات کافی نہیں ہیں۔
کانگریس [امریکی طاقت کی علامت ہے] پر حملہ ہوچکا ہے امریکی حکومت کی طرف سے اس واقعے سے نمٹنے کے لئے ہونے والے اقدامات سے اندازہ لگایا جاسکے گا کہ ملک کس طرف جارہا ہے؟ لیکن اگر ہم ٹرمپ کو جوابدہی پر مجبور نہ کریں اور ان بنیادی مشکلات کے لئے معاشی اور سیاسی اصلاحات کی راہ پر گامزن نہ ہوں، جنہوں نے ہمیں ٹرمپ جیسے زہریلے صدر تک پہنچایا تھا، تو روشن مستقبل تک پہنچنے تک پہنچنے کی امید بےجا ہوگی۔ بائڈن اگر صحیح راستے پر گامزن بھی ہوجائے، کم از کم چار سال کے عرصے میں امریکہ کو درپیش عشروں پر محیط مشکلات کا حل ممکن نہیں ہوگا۔
درست ہے کہ امریکی صدر جو بائڈن نے "معمول پر واپس آنے" کا وعدہ کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیچھے کی طرف پلٹنا اور حالات کو پہلے کے معمول کی طرف واپس نہیں لایا جاسکتا؛ دنیا بنیادی تبدیلی سے گذر رہی ہے اور اگلے چند برسوں میں دنیا بڑے بڑے اقدامات عمل میں لائے گی۔

امریکہ کہاں جارہا ہے؟ (۲)

  • ۴۱۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

دوسری طرف سے ٹیکنالوجی کی ترقی نے انہیں غلط معلومات کی نشر و اشاعت کا وسیع امکان فراہم کیا؛ اور امریکی سیاسی نظام - جو بہت زیادہ مال و دولت کے زیر تسلط ہے - نے ٹیکنالوجی کو خودسرانہ سرگرمیوں کا موقع فراہم کیا اور انہیں جوابدہی کی قید سے آزاد رکھا۔ اس سیاسی نظام کا دوسرا کام یہ تھا کہ اس نے پالیسیوں کے ایسے مجموعے کو مرتب کیا (جو کبھی نئولبرلزم بھی کہلاتا ہے) جو وسیع آمدنیوں اور سرمایوں کے منافع جات کو ان لوگوں کے منہ میں انڈیل دیتا تھا جو مختلف اداروں، مجموعوں اور کمپنیوں کی چوٹی پر براجماں ہوتے تھے؛ لیکن ان کے سوا دوسری تمام چیزوں کو ہر مقام پر، کسادبازاری میں گھرا چھوڑ دیتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ بعد "گرتی ہوئی متوقع عمر (life expectancy) اور صحت کے شعبے میں عدم مساوات، ایک ایسے ملک کی پہچان بن گئی جو سائنسی ترقی کے حوالے سے ترقی یافتہ سمجھا جاتا تھا۔ نئولبرلوں کا یہ دعوی کہ "دولت اور آمدنیوں کے منافع جات کا بہاؤ نچلے طبقات کی طرف ہوسکتا ہے" اصولی طور پر جعلی اور بےبنیاد تھا۔
بڑے پیمانے پر ساختی (structural) تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ، ملک کے وسیع حصے میں صنعتیں تباہ ہوگئیں اور جو لوگ ان صنعتوں کے پیچھے رہ گئے تھے، انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ جیسا کہ میں نے اپنی کتابوں "عدم مساوات کی قیمت" (The Price of Inequality) اور "لوگ، طاقت اور منافع" (People, Power and Profits) میں خبردار کیا ہے کہ اس ہلاکت خیز آمیزے نے ایک ممکنہ جھانسے باز شخص کو ایک بادآوَردہ موقع فراہم کیا تھا۔
جیسا کہ ہم نے مکرر در مکرر دیکھا ہے، امریکی کاروباری روح، اخلاقی رکاوٹوں کی عدم موجودگی میں، نیم حکیموں اور عطائیوں، ممکنہ غلط فائدہ اٹھانے والوں اور جھانسے بازوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار! کے لئے ایک زرخیز زمین مہیا کرتی ہے۔ پاگل، سماج دشمن اور خود شیفتہ (Narcissistic) ٹرمپ - جس کو نہ تو معاشیات کی کوئی سمجھ ہے اور نہ ہی وہ جمہوریت کے احترام کی ضرورت کا ادراک رکھتا ہے – بالکل مناسب وقت پر میدان میں آیا۔
[اس وقت] پہلی ذمہ داری اس خطرے کا خاتمہ کرنا ہے جو ٹرمپ نے امریکہ کے لئے پیدا کیا ہے۔ کانگریس کو چاہیے اسی وقت ٹرمپ سے وضاحت طلبی کرے اور اس کے بعد سینٹ بھی اس کی تأئید کرے اور یوں ٹرمپ کو ایک بار کسی وفاقی منصب تک پہنچنے سے روک لے۔ اگر اس حقیقت کو ثابت کیا جائے کہ "کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے"، تو اس کا جتنا فائدہ ڈیموکریٹس کو پہنچے گا اتنا ہی فائدہ ریپلکنز کو بھی پہنچے گا۔
امریکہ کے بنیادی مسائل حل ہونے سے پہلے ہمیں چین سے نہیں سونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بڑے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ ہمیں تشدد کی ترویج، اشتعال انگیزی، نسلی اور مذہبی منافرت اور سیاسی ہیرا پھیری سمیت سوشل میڈیا کے نقصانات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور "اظہار رائے کی آزادی کو جوابدہ کرنا چاہئے"۔

امریکہ کہاں جارہا ہے؟ (۱)

  • ۳۷۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پراجیکٹ سینڈیکیٹ (project-syndicate) نامی ویب گاہ نے یہودی امریکی ماہر معاشیات، کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر، متعدد کتب کے مصنف، نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات، جوزف اسٹگلٹز (Joseph Eugene Stiglitz) کا ایک کالم بعنوان " Whither America" میں لکھتے ہیں:
ہمیں اپنی سیاست میں پیسے کے اثر و رسوخ کو کم کرنا پڑے گا: امریکہ جیسے معاشرے میں - جہاں اس طرح کی شدید عدم مساوات کی حکمرانی ہے - کسی بھی قسم کا کوئی دیکھ بھال کا نظام (مانیٹرنگ سسٹم) مؤثر نہیں ہے؛ اور جس نظام میں "ایک ڈالر ایک ووٹر" کا قاعدہ کار فرما ہو اور "ایک شخص ایک رائے" کا قاعدہ نظر انداز کیا جائے، وہ نظام ہیجان انگیزی، سیاست بازی اور عوام فریبی جیسے رجحانات کے پروان چڑھنے کے لئے ماحول فراہم کرتا ہے؛ تو ایسا نظام کیونکر ملکی مفادات کی ضمانت دے سکتا ہے؟
صدر ٹرمپ کی اشتعال انگیزی کی بنا پر کیپیٹل ہل پر ان کے حامیوں کا حملہ، جمہوری اداروں پر ٹرمپ کی چار سالہ یلغار کا متوقع ثمرہ تھا اور اس طویل یلغار میں ریپلکن جماعت کے بیشتر اراکین بھی ٹرمپ کا ساتھ دیتے رہے؛ اور کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ٹرمپ نے ہمیں خبردار نہیں کیا تھا! کیونکہ ٹرمپ نے اپنے آپ کو پرامن انتقال اقتدار کا پابند نہیں بنایا تھا۔ ان کے بہت سارے ساتھی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے مفاد میں ٹیکسوں میں کمی، ماحولیاتی قواعد کو الٹا پلٹا کر نافذ کرنا، کاروباری اداروں سے متعلقہ عدالتوں میں "مہربان ججوں کی تقرری"، سے فائدہ اٹھا رہے تھے، جبکہ وہ جانتے تھے ہیں کہ "شیطان کے ساتھ کاروبار میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں کا یا تو یہ خیال تھا کہ وہ ٹرمپ کے چھوڑے ہوئے دندناتے اتنہاپسندوں کو قابو میں لائیں گے یا پھر یہ مسائل ان کے لئے اہمیت ہی نہیں رکھتے تھے۔
اب آپ دیکھ لیجئے کہ "امریکہ اس نقطے سے کہاں جارہا ہے؟ کیا آمریکا ایک وقتی لغزش کا نام ہے یا ایک زیادہ گہری قومی بیماری کا نام؟ کیا امریکہ پر اعتماد کرنا ممکن ہے؟ کیا ٹرمپ کو برسر اقتدار لانے والے چار سال بعد پھر بھی برسرقتدار آئیں گے؟ انہیں اقتدار تک پہنچـنے سے روکنے کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے؟
ٹرمپ مختلف قوتوں کی پیداوار ہے۔ ریپلکن جماعت گذشتہ 25 برسوں میں پہلی مرتبہ سمجھی تھی کہ وہ صرف اور صرف غیر جمہوری معیار کو قبول کرکے (یعنی لوگوں کی آراء (ووٹوں) کو کچل کر، پولنگ اسٹشینوں کی علاقہ بندی میں رد و بدل کر)، مذہبی انتہاپسندوں، سفیدفام نسل پرستوں اور قومی عوامیت پسندوں (Populists) جیسے غیر جمہوری طبقوں کو حلیف بنا کر، تجارت اور لین دین کے شعبے کے اشرافیہ کی نمائندگی کرسکے گی۔
البتہ عوامیت پسندی کی پالسیاں کاروبار تجارت کے اشرافیہ کے ہاں قابل قبول تھیں؛ لیکن اس میدان کے بہت سے زعماء نے کئی عشرے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے مہارتوں کے حصول میں صرف کردیتے تھے۔ تمباکو کی بڑی کمپنیوں نے انسانی صحت پر اپنی مصنوعات کے نقصان دہ اثرات کو مسترد کرنے کے لئے بڑی بڑی رقوم وکیلوں اور جعلی سائنس خرچ کی تھیں۔ تیل کی بڑی کمپنیاں بھی اسی طرح آب و ہوا کی تبدیلی میں رکازیاتی ایندھن کے کردار کو بالکل مسترد کرتی ہیں؛ چنانچہ ریپلکن جماعت جان گئی کہ "ٹرمپ وہی شخص ہے جس کی اس کو تلاش تھی"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی

امریکیوں کے زوال اور شکست و ریخت کا آغاز ہوچکا ہے/ شکست اور عراق سے انخلاء امریکیوں کا مقدر

  • ۴۱۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ
جنرل صفوی نے کہا:
- امریکیوں کے زوال و انحطاط اور شکست و ریخت کا آغاز ہوچکا ہے اور اس زوال و انحطاط کے دو – اندرونی اور بیرونی – پہلو ہیں: اس زوال کا ایک حصہ اسلامی انقلاب کے معرض وجود میں سے ہے لیکن ان دو جنگوں نے امریکیوں کی طاقت کو افول (ڈوبنے) و نزول سے دوچار کردیا۔
- امریکی غروب و افول الحاج قاسم سلیمانی کی کارکردگی کا نتیجہ ہے، جیسا کہ سوویت روس کی سرخ فوج نے افغانستان پر قبضہ کیا اور پھر افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہوئی امریکہ اس سے کہیں زیادہ رسوا ہوکر افغانستان سے بھاگ جائے گا اور جیسا کہ کسی زمانے میں برطانیہ نے غف افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا اور پھر ان دو ملکوں کے علماء نے برطانویوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور اور برطانیہ کو ان دو ملکوں سے بھاگنا پڑ؛ آج عراق ایک طاقتور ملک ہے اور امریکہ کو بھی طاقتور عراق سے بھاگنا پڑے گا۔
امریکہ کی تزویری غلطی اور داعش کی شکست کے نتیجے میں ایران علاقے کی پہلی طاقت کے طور پر ابھرا / شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس پر دہشت گردانہ حملہ، امریکہ اور اس کے خبیث اور بدطینت صدر کی تزویری شکست کا سبب بنا۔
- امریکہ-یہودی ریاست اور بعض عرب ممالک کی سازش کے نتیجے میں داعش معرض وجود میں آئی، ایران کو میدان میں کودنا پڑا اور داعش کو بھی اور مذکورہ سازشیوں کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا، ایران مغربی ایشیا کی پہلی طاقت کے طور پر ابھرا اور ایران کی طاقت، ایران سے عراق، شام، لبنان اور بحیرہ روم تک پھیل گئی۔ یہ بہت بڑی شکست تھی اس امریکہ کے لئے جو ایران کو شدید ترین دباؤ کا نشانہ بناکر اس کی طاقت کا خاتمہ چاہتا تھا۔
- شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں پر دہشت گردانہ حملہ امریکہ اور اس کے خبیث صدر کے لئے ایک تزویری شکست، تھا۔ امریکہ نے جرائم پیشگی کا ثبوت دیتے ہوئے نہایت بزدلانہ انداز سے شہید کیا؛ شاید بزدلی، حماقت، برائی اور جرائم پیشگی کے لحاظ سے ٹرمپ امریکہ کا بدترین صدر تھا۔
امریکی طاقت اندر سے منہدم ہوگی / نئی امریکی انتظآمیہ امریکی دبدبے اور بالادستی کے خاتمے کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
- امریکی نہیں جانتے تھے کہ شہید سلیمانی کا خون اسلامی امت کی روح و جان میں ابل پڑے گا؛ گوکہ ٹرمپ دیر سے سمجھا کہ کتنی بڑی غلطی کا مرتکب ہؤا ہے اور خود ہی دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کو امریکی اشرار، رہزنوں، دہشت گردوں اور درندوں سے اظہار نفرت کا سبب فراہم کرچکا ہے۔ ٹرمپی امریکی [نیز بائڈن کا امریکہ] اور اس کے خونخوار حواری "شہادت" کو کیا جانیں؟ وہ تو تیل اور ڈالر سے چپکے ہوئے ہیں؛ وہ حقیقتاً اس حقیقت کے ادراک سے عاجز ہیں کہ ان کی طاقت اندر ہی اندر سے کھوکھلی ہوکر شکست و زوال کا شکار ہوگئی ہے اور ان کی نام نہاد اور ظاہری طاقت کا زوال شروع ہوچکا ہے اور یہ حکومت کی تبدیلی اور نئے صدر کا انتخاب بھی امریکی دبدبے کے زوال و انحطاط کا راستہ نہیں روک سکتا۔ امریکی استکباری ریاست کا زوال اٹل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی

جنرل صفوی: امریکہ کا زوال شرع ہوچکا ہے/ امریکیوں کو شکست کھا کر عراق سے جانا پڑے گا

  • ۴۲۰

اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ رہبر انقلاب امام خامنہ ای (دامت برکاتہ) کے اعلی فوجی مشیر میجر جنرل رحیم صفوی نے کہا کہ امریکہ عراقیوں کے مقابلے میں شکست کھائے گا اور امریکیوں کو طاقتور عراق سے جانا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا زوال شروع ہوچکا ہے، اور یہ ملک دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا قابل نہیں رہا ہے یہاں تک کہ امریکہ کی نئی حکومت بھی امریکی دبدبے کے خاتمے کے عمل کا سدباب کنے سے عاجز ہے۔
جنرل صفوی نے شہید جنرل سلیمانی کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر جامعات کے انسانیاتی شعبوں کی نصابی کتب کے تحقیقی ادارے کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا:  
- میں لیفٹننٹ جنرل سلیمانی کو عرصہ 40 سال سے جانتا تھا اور آنا جانا رہتا تھا اور کئی برس دوش بدوش لڑے ہیں۔ اگر میں "مکتب سلیمانی" کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہوں تو کہنا چاہوں گا کہ "شہید سلیمانی کا مکتب، خالص اسلام کا مکتب، انقلاب اسلامی کا مکتب اور امام خمینی اور امام خامنہ ای کا مکتب ہے"۔
- ایک مکتب کا حاصل - اول: فرد کی اپنی شخصیت کی تشکیل، دوئم فرد کی فکر کی تشکیل، سوئم: اخلاق اور طرز سلوک اور چہارم: فرد کی کارکردگی میں - نمایاں ہوجاتا ہے۔
۔ شہید سلیمانی کی کارکردگی رہبر معظم امام خامنہ ای کی تدبیروں اور حکمت عملیوں سے متأثر اور امریکہ اور اس کے حلیفوں کی سیاسی اور فوجی تزویروں اور حکمت عملیوں کی ناکامی میں بہت زیادہ مؤثر تھی / امریکہ نے مکتب سلیمانی کے مقابلے میں تزویری شکست کھائی ہے۔
جنرل صفوی نے کہا:
- امریکہ نے دو مظلوم ممالک – افغانستان اور عراق – پر قبضہ کیا جس کا مقصد عالمی سطح پر امریکی بالادستی کی بنیاد رکھنا تھا، لیکن امریکہ اور اس کے حلیفوں کو شکست ہوئی جس کا سبب یہ تھا کہ الحاج قاسم سلیمانی نے رہبر معظم اور ہماری اعلی قومی سلامتی کونسل کی تدبیروں اور حکمت عملیوں کی روشنی میں اپنا کردار بطور احسن سرانجام دیا۔ گوکہ عراق اور افغانستان کی بہادر قوموں اور بزرگ علماء اور اہل دانش کی جدوجہد بھی بہت زیادہ مؤثر رہی؛ تاہم الحاج قاسم میدان جنگ میں حاضر تھے چنانچہ امریکیوں کو مکتب سلیمانی کے مدمقابل شکست فاش کھانا پڑی۔
- امریکی بہت نادان اور احمق ہیں، انھوں نے اپنے دو تزویری رقیبوں اور بڑی طاقتوں - معاشی لحاظ سے چین اور فوجی لحاظ سے روس - سے غفلت برتی۔ اقتصادی میدان میں چین اور فوجی میدان میں روس کی طاقت میں زبردست اضافہ ہؤا جبکہ امریکی افغانستان اورعراق میں جنگوں میں الجھے ہوئے تھے اور اس جنگ میں بھی وہ اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکے اور شکست سے دوچار ہوئے اور ان کی اس تزویری غلطی میں جیت اسلامی جمہوریہ ایران کی تھی کیونکہ وہ ایران کو نابود کرنا چاہتے تھے لیکن اپنے دوستوں کو نیست و نابود کر بیٹھے؛ اور اسلامی جمہوریہ کے سامنے سے بہت سی رکاوٹیں ہٹ گئیں۔
- دنیا بھر میں بھی اور خطے میں بھی امریکیوں سے اقوام عالم کی نفرت میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کی پالیسیوں سے نفرت بڑھ رہی ہے۔ ان ملکوں میں 30 ہزار سے زائد امریکی ہلاک ہوئے لیکن جو کچھ وہ حاصل کرنا چاہتے تھے، حاصل نہ کرسکے۔ کیا عراق اور افغانستان میں امریکی مفادات اور امریکیوں کے لئے امن قائم ہؤا؟ عراق اور افغانستان میں امریکیوں سے عمومی نفرت کا آغاز ہؤا، کیا امریکی اپنے لئے بالادست قوت حاصل کرسکے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی

ٹرمپ کی گرفتاری کا حکم! / ٹرمپ اپنے گھر میں بھی محفوظ نہ رہے گا

  • ۳۴۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ٹرمپ کی سیاسی حیات کے خاتمے کے نہایت شرمناک دن تیزی سے گذر رہے ہیں، ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا ہے، اور اس کے اندر تخریب کاری کا ارتکاب کیا ہے، اور دو پولیس والوں سمیت 4 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں، اور مبینہ امریکی جمہوریت رسوائے عالم ہوچکی ہے، اور پھر امریکہ کے صدر کے حامی، جو اسی کی دعوت پر کانگریس کی عمارت پر ہلہ بولنے آئے تھے، ہر طرف سے مورد الزام ٹہرائے جا رہے ہیں، منتخب صدر اور اس کی ڈیموکریٹ جماعت نیز بہت سے ریپبلکنز نے ان لوگوں کو غنڈے، دہشت گرد اور بدمعاش کہا اور آخرکار ٹرمپ نے بھی ان کو - یعنی اپنے ہی حامیوں کو - ان ہی القاب سے نوازا جس کی وجہ سے اگر مستقبل میں ریاست ہائے متحدہ کے خلاف کوئی تحریک چلتی ہے تو یقینا اس میں ٹرمپ کا مزید کوئی کردار نہیں ہوگا؛ ساتھ ہی ٹرمپ سے وضاحت طلبی (Interpellation) اور اس کی برطرفی کے لئے ماحول سازی بھی ہوئی اور اسی اثناء میں امریکی انتظامیہ کی تذلیل و تحقیر کا تازہ ترین نمونہ بھی سامنے آیا اور عراق کی اعلی عدلیہ کونسل نے مقاومت کے کمانڈروں پر دہشت گردانہ حملے کے مقدمے میں ٹرمپ کی گرفتاری کا حکم سنایا۔
مورخہ 7 جنوری 2021ء کے دن امریکی صدر کو مقاومت کے اعلی کمانڈروں پر دہشت گردانہ حملے اور ان کے قتل کے مقدمے میں مجرم ٹہرایا اور اپنے ملک کے فوجداری قانون کی دفعہ 406 کے تحت ٹرمپ کی گرفتاری کا حکم سنا دیا۔ ٹرمپ نے آج تک کئی مرتبہ اعلانیہ طور پر اس دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور ان کے قتل کا اعتراف کیا ہے اور اس بزدلانہ حملے پر فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہوئے شہید جنرل سلیمانی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف شیخیاں بگھارتا رہا ہے۔  
عدالت کے اسپیشل جج - جنہیں شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی تفتیش کے لئے مقرر کیا گیا تھا - شہید ابو مہدی المہندس کے اہل خانہ اور عینی گواہوں کے ابتدائی بیانات قلمبند کرنے کے بعد یہ فیصلہ جاری کیا ہے اور کہا کہ تحقیقات اس جرم میں شریک تمام عراقی اور غیر عراقی مجرموں کی شناخت کے لئے تحقیق کا سلسلہ بدستور جارہی رہے گا۔
عراقی کی رضاکار فوج، الحشد الشعبی نے عدالتی فیصلے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بہادر عراقی جج حیدر عبدالکریم ناصر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس فیصلے کے نفاذ کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے اور عراقی قوانین توڑنے والے غیر ملکی مجرموں کے خلاف اپنا حقیقی کردار آدا کریں گے۔
الحشد نے اعلان کیا کہ عراق انٹرپول کا رکن ہونے کے ناطے، بین الاقوامی پولیس سے مطالبہ کرے گا کہ عراقی حکومت کے ساتھ تعاون کرے اور عراقی عدلیہ کا یہ فیصلہ انٹرپول کو اس فیصلے کے نفاذ کا پابند بنائے گا اور اس فیصلے کی بنا پر، ٹرمپ کسی بھی صورت میں عراق میں داخل نہیں ہوسکے گآ۔
الحشد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے ان لوگوں کے خلاف ہیں جنہوں نے امریکیوں کے ساتھ تعاون کیا ۔۔۔ یہ محض عدلیہ کا جواب ہے۔ اگلا جواب امریکہ کے اندر سے ہوگا۔ لہذا ٹرمپ کو اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔  
عراقی عوام نے جنوری 2020ء میں امریکہ کے دہشت گردانہ حملے میں مقاومت اسلامی کے کمانڈروں کی شہدات کے بعد عراق کے بڑے چھوٹے شہروں میں مظاہرے کیے اور امریکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد عراقی پارلیمان نے عراق سے امریکیوں کے انخلاء کا قانون منظور کیا۔ 3 جنوری 2021ء مقاومت کے عظیم کمانڈروں کی شہادت کی برسی کے موقع پر بھی عراقی عوام نے بغداد کے میدان التحریر (آزادی اسکوائر) میں اجتماع کیا اور "کَلّا کَلّا آمریکا (امریکہ نامنظور)"، " کَلّا کَلّا اسرائیل (اسرائیل نامنظور)"، " کَلّا کَلّا آل السعود (آل سعود نامنظور)" اور "اللہ اللہ اللہ اکبر، امریکا شیطان الاکبر" کے نعرے لگائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی

ایران کے مقابلے میں امریکہ کی تنہائی

  • ۳۴۴

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایٹمی معاہدے کے رکن ممالک کے طور پر مشترکہ بیان میں سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کی مکمل پابندی پر زور دیا۔ ان ممالک نے یاددہانی کروائی کہ امریکہ آٹھ مئی 2018ء سے، مزید، ایٹمی معاہدے کا رکن نہیں ہے، لہذا امریکہ نے قراداد 2231 کے پیراگراف 11 کے تحت سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے نام جو مبینہ مراسلہ ارسال کیا ہے، اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہے اور اس مراسلے یا اس کے نتیجے میں اثرات و نتائج کی بنیاد پر ہونے والا کوئی بھی اقدام غیر قانونی ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے امریکہ کی ان رسوا کن ناکامیوں کو وسیع کوریج دی اور انفعالیت اور ذلت و خفت پر کاربند ممالک اور ذرائع ابلاغ کے سوا، باقی تمام ممالک و ذرائع نے اتفاق رائے کے ساتھ سلامتی کونسل، اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر امریکہ کی تنہائی اور خفت پر زور دیا۔ فارن پالیسی میگزین کی ویب گاہ نے بھی اپنے ایک تبصرے میں ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کی واپسی اور اسنیپ بیک مکانزم ایکٹویشن کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان امریکی کوششوں کو یکطرفہ اور تباہ شدہ کوششیں قرار دیا ہے اور لکھا ہے: "کسی بھی ملک نے اس سلسلے میں واشنگٹن کی پیروی نہیں کی اور یہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے لئے دنیا کے ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کی دعوت میں ٹرمپ کی آخری شکست تھی۔
روسی خبر ایجنسی اسپوٹنک (sputnik) نے لکھا: ٹرمپ دو سال قبل ایٹمی معاہدے سے علیحدہ ہو چکا تھا چنانچہ اقوام متحدہ کی پابندیاں پلٹانے کے سلسلے میں امریکی حکومت کی کوششیں بے معنی ہیں اور ایران کے خلاف امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی - جس سے ایران کا توڑنا مقصود تھا - پوری طرح ناکام ہوچکی ہے۔
ایسوشی ایٹڈ پریس کے سنیئر رپورٹر میتھیو لی (Matthew Lee) نے بھی اپنی یادداشت بعنوان:  "امریکہ کہتا ہے کہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں دوبارہ فعال کی گئی ہیں لیکن دنیا پوری، اونگ رہی ہے"، میں لکھا: دنیا کے ممالک - حتی کہ امریکہ کے یورپی حلیف - واشنگٹن کے اس دعوے کی مخالفت کرچکے ہیں کہ ایران پر اقوام متحدہ کی تمام تر پابندیوں کو پلٹا دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی

ایران کے مقابلے میں امریکہ کی تنہائی اور اقوام متحدہ میں پے درپے ناکامیاں

  • ۳۱۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کے مطابق، ایران پر ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر پابندی کی مدت 18 اکتوبر 2020ء کو اختتام پذیر ہونا قرار پائی تھی چنانچہ امریکیوں نے مورخہ 15 اگست 2020ء سے یورپ اور مغربی ایشیا و شمالی افریقہ میں گھر گھر گھومنے کا آغاز کیا۔ وہ ایران کے خلاف ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر لگی پابندی کی مدت بڑھانے کے لئے دوسرے ممالک کو اپنے ساتھ ملانے لئے کوشاں رہے مگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کو رسوا کن اور بھاری شکست ہوئی۔ اور صرف امریکی مندوب اور لاطینی امریکہ کے چھوٹے ملک جمہوریہ ڈومینیکن نے  امریکی مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ روس اور چین نے اس کی مخالفت کی  اور سلامتی کونسل کے گیار ہ رکن ممالک نے رائے دہی سے گریز کیا۔ روس اور چین کو ویٹو کا اختیار بھی استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ امریکہ 9 اراکین کی حمایت بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔
اس بھاری اور رسوا کن شکست کے بعد، امریکہ - جس نے اس سے پہلے دھمکی دی تھی - نے مطالبہ کیا کہ اسنیپ بیک میکانزم (اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کی یک لخت بازگشت) کے طریق کار کو فعال کیا جائے اور امریکی مندوب کیلی کرافٹ (Kelly Craft)  نے اپنے پہلے رد عمل کے طور پر کہا کہ اس کی حکومت اگلے ایام میں اس طریق کار کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی اور ایٹمی معاہدے کے تحت منسوخ ہونے والی پابندیوں کو دوبارہ پلٹائے گی۔
 پانچ دن بعد امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کو خط لکھ کر ایران پر ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور عالمی ادارے کو مطلع کیا کہ امریکہ ایران پر لگی تمام پابندیوں کو لوٹانا چاہتا ہے۔ اس خط کو ایک تیس روزہ عمل سے گذرنا چاہئے تھا جس کے بعد ایران کے خلاف لگی پابندیاں خودکار طور پر پلٹ جاتیں۔ لیکن امریکی استدلال غیر معقول تھا وہ  2016 میں ایٹمی معاہدے سے علیحدہ ہوچکا تھا لیکن شاید اپنی سابقہ عالمی بالادستی کے گھمنڈ میں آکر سمجھ رہا  تھا کہ کوئی بھی  اس کی ہر ناجائز بات  کی مخالفت نہیں کرے گا۔ بہرصورت وہ معاہدے میں شامل ہی نہیں تھا اور وہ اس میکانزم کو فعال نہیں کستا تھا  چنانچہ اس کا یہ خط بھی اس جگ ہنسائی کا سبب بنا اور اس کے روایتی حلیفوں نے اس کے روایتی مخالفین کے ساتھ مل کر اس کے خلاف ایک محاذ قائم کیاجس نے یک صدا ہوکر اس اقدام کو غیر قانونی، باطل اور بےاثر کردیا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوٹرش نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "میں، ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کے پلٹنے کے سلسلے میں امریکی دعوے کے بارے میں، کچھ بھی نہیں کرسکتا کیونکہ لگتا ہے کہ اس سلسلے میں غیر یقینیت پائی جاتی ہے"۔ چین اور روس نے بھی سلامتی کونسل کو مراسلے بھیج کر ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں پلٹانے کے سلسلے میں امریکی اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ خوسپ بوریل (Josep Borrell) نے اس امریکی اقدام پر اپنے رد عمل کے ضمن میں کہا: ایٹمی معاہدے کے مطابق ایران کے خلاف پابندیوں کی منسوخی کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی

امریکی زوال؛ عین الاسد میں تذلیل / امریکی صدر کو عراقی عدالت کی سنائی گئی سزا

  • ۳۵۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مقاومت کے کمانڈروں کی شہادت سے لے کر آج تک کے ایک سال میں امریکہ کو جن سیاسی اور عسکری ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، امریکی تاریخ میں ان کی مثالیں بہت کم ہیں۔
جنوری 2020 میں عراقی فوجی اڈے عین الاسد میں امریکی دہشت گرد کے قلب پر میزائل حملہ کیا گیا؛ جو مالی اور جانی نقصانات کے علاوہ پوری دنیا میں امریکی رعب و ہیبت کے ٹوٹ جانے پر منتج ہؤا۔ اس سے پہلے کبھی بھی کسی نے للکار کر امریکی مفادات پر حملہ نہیں کیا تھا۔
عین الاسد پر ایرانی حملے اور امریکی عسکری شکست کے بعد، امریکہ نے زیادہ سے زیادہ دباؤ اور ایٹمی معاہدے کے مکمل خاتمے کی پالیسی کے تحت، سیاسی میدان میں ایران پر لگی اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی کو جاری رکھنے اور ایران کے خلاف اسنیپ بیک میکانزم (Snapback mechanism) متحرک کرنے کی بہتیری کوششیں کیں جو ناکام ہو گئیں اور روایتی یورپی حامیوں نے بھی اسے تنہا چھوڑ دیا۔
ایک بہت ہی انوکھا واقعہ یہ تھا کہ عراقی عدلیہ نے شہدائے مقاومت کے قتل کے جرم میں امریکی صدر ٹرمپ کی گرفتاری کا حکم سنا دیا۔
یہ سارے واقعے بےمثل تھے، امریکی اقدامات اور بدمعاشیوں کے مقابلے میں ایران کی استقامت نے واضح کردیا کہ امریکی یَک قُطبیت (Unipolarity) کا دور گذر چکا ہے اور اس کو اب اپنے اقدامات کا جواب دینا پڑے گا اور ان کے عواقب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
"شہید سلیمانی آپریشن" علاقے میں امریکی موجودگی کے خاتمے کا آغاز
آٹھ جنوری 2020 بوقت صبح، "شہید سلیمانی آپریشن" کے دوران 13 "فاتح-313" اور "قیام" بیلیسٹک میزائل، شہید سلیمان، شہید ابو مہدی المہندس اور مقاومت کے دوسرے شہیدوں کے انتقام کے طور پر، بغداد سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع عین الاسد عراقی اڈے میں واقع امریکی عسکری اڈے پر داغے گئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب سپاہ قدس کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل الحاج قاسم سلیمانی اور عراق کی الحشد الشعبی کے نائب کمانڈر الحاج ابو مہدی المہندس اور مقاومت کو ساتھیوں پر ٹرمپ کے حکم پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد علاقے میں تناؤ کی کیفیت عروج کو پہنچ چکی تھی اور امریکی ایران کی انتقامی کاروائیوں کے خوف سے شیخیاں بھگارنے پر اترے ہوئے تھے۔
اس کے باوجود، ایران کے میزائل حملے کے بعد، امریکی صدر سمیت اس کے مہم جو مغربی معاون ممالک،  جو اس دن تک ایران کے خلاف شیخیاں بھگارنے اور دھمکیوں کی پالیسی پر گامزن تھے، اپنی دھمکیوں سے پیچھے ہٹ گئے۔
سیاسی اور عسکری مبصرین اور معاصر تاریخ پر نظر رکھنے والے دانشوروں کا خیال ہے کہ اس کے باوجود کہ امریکہ دنیا پر بالادستی کا دعویدار ہے لیکن جب اسلامی جمہوریہ ایران نے اس کے فوجی اڈے پر زبردست میزائل حملہ کیا تو وہ اس حملے کا جواب نہ دے سکا اور اسے اس حملے کا جواب دینے سے چشم پوشی اختیار کرنا پڑی جو گذشتہ سات عشروں کے دوران اپنی نوعیت میں عسکری لحاظ سے ایک انوکھا واقعہ ہے اور ایران نے اس حملے کے ذریعے علاقے پر امریکی بالادستی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی

ترکی-یہودی تعلقات؛ تاریخ اور موقف میں اتار چڑھاؤ

  • ۳۷۸

 ترکی-اسرائیلی تعلقات، بالخصوص حالیہ ایک عشرے کے درمیان اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
اردوگان نے بار بار صہیونی ریاست کو شدید ابلاغیاتی حملوں کا نشانہ بنایا اور فلسطینیوں کے خلاف غاصب ریاست کے اقدامات کو مورد تنقید قرار دیا گیا ہے۔
تاریخ
۔ترکی اور صہیونی ریاست کے تعلقات 1949ع‍ میں قائم ہوئے اور اس زمانے میں ترکی نے پہلے اسلامی ملک کی حیثیت سے اس ریاست کو تسلیم کیا۔
۔فریقین کے درمیان تعلقات کو بہت تیزرفتاری سے فروغ ملا اور جب روابط تزویری (اسٹراٹجک) تعلقات کی سطح تک پہنچ گئے، ترک سفیر تل ابیب اور انقرہ میں اسرائیلی سفیر تعینات ہؤا اور بات سفارتکاروں کے تبادلہ ہؤا نیز مشترکہ اقتصادی اور عسکری مفادات کے خد و خال کے تعین کی نوبت بھی آن پہنچی۔
۔سنہ 2005ع‍ میں اس وقت کے ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرکے فلسطینیوں کے قصاب، آنجہانی ایریل شیرون سے ملاقات کی۔
۔ نیز اردوگان نے مقبوضہ سرزمین میں غاصب یہودی ریاست کے بانی تئودور ہرتزل کی قبر - نیز ہالوکاسٹ میوزیم - پر حاضری دی!
۔سنہ 2009ع‍ میں، غزہ پر یہودی جارحیت پر وقت کے ترک وزیر اعظم اردوگان کی شدید تنقید کے بعد، فریقین کے درمیان ابلاغیات تناؤ کا آغاز ہؤا۔
۔سنہ 2010ع‍ میں غزہ کی طرف جانے والے "آزادی بحری جہاز" - جس کا نام "مرمرہ جہاز" تھا - پر یہودی ریاست کے حملے اور اس کے کئی مسافروں کے قتل ہوجانے کے بعد، فریقین کے تعلقات بحران سے دوچار ہوئے۔
۔اس کے برعکس، کہ ترکی عرب ممالک کی طرف سے یہودی ریاست کی تعلقات کی بحالی کی مذمت کرتا ہے، لیکن ترکی اور یہودی ریاست کے تعلقات بدستور قائم ہیں اور یہ تعلقات مختلف سطوح پر جاری و ساری ہے۔

عسکری
۔ امریکہ کے بعد ترکی دوسرا بڑا ملک ہے جہاں یہودی ریاست کے اسلحے کے کارخانے موجود اور سرگرم عمل ہیں۔
۔ تجربات کے تبادلے نیز ہوابازوں کے تبادلے کے سلسلے میں ایک سال کے دوران کئی مرتبہ فریقین کے درمیان معاہدے منعقد ہوئے۔

معاشی
۔ یہودیوں کا مقبوضہ عربی-فلسطینی علاقہ، - جو جعلی ریاست "اسرائیل" - کہلاتا ہے ترکی ساختہ مصنوعات کی پانچویں بڑی منڈی ہے۔
۔ سنہ 2019ع‍ میں ترکی اور یہودی ریاست کے درمیان تجارتی تبادلوں کا حجم 6 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔

سیاسی
یہودی ریاست نے ترک دارالحکومت انقرہ میں اپنے سفارتخانے کو قائم رکھا ہے جیسا کہ ترکی نے صہیونی دارالحکومت تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ قائم رکھا ہؤا ہے۔


نئی صورت حال
 کچھ عرب ممالک نے یہودی ریاستوں کو تسلیم کیا اور کچھ پر تول رہے ہیں، حالات فلسطینیوں کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ دشوار ہیں؛ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ٹرمپ ہار گیا ہے اور 76 سالہ بائڈن بطور صدر منتخب ہؤا ہے، اردوگان عرب ریاستوں کی طرف سے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کے بحالی کی زبانی کلامی مذمت کررہے ہیں؛ لیکن چونکہ ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی چنداں دوستانہ نہیں رہے ہیں لہذا اخوانی صدر اردوگان نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے نئے صدر کے ساتھ بہتر تعلقات اور یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات میں استحکام لانے کے لئے تیار ہیں؛ گویا وہ بھی عرب ریاستوں کی طرح – جنہوں نے ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے - بائیڈن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہودی ریاست کی قربت حاصل کررہے ہیں۔ بندگلی وہابیت کو بھی درپیش ہے اور اخوانیت کو بھی۔۔۔ اگلے ایام مسلم امہ کے لئے دشوار اور قبلہ اول کے لئے بہت سخت ہیں، مسلم آمہ خاموش ہے اور اس کے حکمران یکے بعد دیگرے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے یہود و نصاری کی خوشنودی کے خواہاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب: فرحت حسین مہدوی