یہودی مسلمین کے ازلی ابدی دشمن (3)

  • ۳۵۳


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یورپ میں یہودیوں سے نفرت کو ضد سامیت (Anti-Semitism یا یہودی دشمنی) کہا جاتا ہے جو مغربی قوانین میں جرم ہے اور یہودی ضد سامیت کے مسئلے کو اٹھا کر اپنی مظلومیت کی اداکاری کرتے رہے ہیں لیکن شاید آج تک کسی نے یہ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ یہودیوں سے نفرت میں خود یہودیوں کا کتنا کردار ہے؟ اور کیا دنیا والوں کی یہودی دشمنی میں ان کا کوئی کردار ہے یا واقعی وہ مظلوم ہیں؟
اس میں شک نہیں ہے کہ یہودیت ایک دین نہیں بلکہ قومیت ہے اور ایک ایک امت نہیں بلکہ ایک قبیلہ یا ایک قوم ہے اور یہ وہ بات ہے جس پر یہودی خود اصرار کرتے ہیں اور جو نسلا بنی اسرائیل میں سے نہ ہو وہ یہودی نہیں ہوسکتا۔ ان کی نسل ماں سے چلتی ہے اور یہودی جب نسلی تفاخر پر اتر آتے ہیں تو کہتے ہیں: میں اپنی ماں کا بیٹا ہوں، میں یہودی ہوں"؛ اور نسل پرستی گویا کہ یہود کی بقاء کا مسئلہ ہے چنانچہ یہودی نسل پرستی اہم ترین یہودی تعلیمات میں شمار ہوتی ہے؛ یہاں تک کہ یہود کی تاریخ میں یہود اور نسل پرستی کو کہیں بھی الگ الگ نہیں دیکھا جاسکا ہے اور جہاں بھی یہودی تھے وہاں نسل پرستی بھی تھی۔
یہ یہودی عقیدہ ـ کہ وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر نسل اور برتر نسل سمجھتے ہیں ـ ان کے دوسرے عقائد پر چھتر کی طرح سایہ فگن ہے یہاں تک کہ انھوں نے دین موسی علیہ السلام کو اپنی نسل پرستی میں محصور کررکھا ہے اور اگر کوئی غیر یہودی [اور غیر اسرائیلی] شخص دین یہود قبول کرنا چاہے تو قابل قبول نہیں ہے؛ اسی بنا پر وہ دوسری اقوام میں جاکر اپنی تعلیمات کی تبلیغ نہیں کرتے [اور اگر کہیں نفوذ و رسوخ کرنا مقصود ہو تو عیسائیت کی تبلیغ کرواتے ہیں کیونکہ عیسائیت یہود کے چنگل میں اسیر ہے اور وہاں سے وہ اپنے اہداف و مقاصد بآسانی حاصل کرلیتے ہیں] وہ دین یہود کو بنی اسرائیل تک محدود گردانتے ہیں۔ اس خاص قسم کے رویے کی بنا پر دوسری اقوام و ملل میں انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور چونکہ وہ دوسروں کو نفرت و تذلیل کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو نسل برتر سمجھتے ہیں اسی بنا پر ان سے نفرت ایک فطری امر ہے اور  دنیا کے لوگ ہرگز اس شخص اور جماعت سے محبت نہیں کرسکتے جو اپنی نسل کو دوسروں سے اعلی و افضل سمجھتی ہے [نفرت محبت نہیں لایا کرتی]۔ اسلام نسل پرستی کے خلاف شدید جدوجہد کا قائل ہے اور نسل پرستی کو شرک کا ایک شعبہ سمجھتا ہے۔ (8)
یہودی نسلی برتری کے زعم کی نفی کرنے والی آیات میں سے ایک آیت میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:
*"قُلْ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ أَوْلِیَاء لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ؛*
کہہ دیجئے کہ ای یہودیو! اگر تم گمان کرتے ہو کہ  سب لوگوں کو چھوڑ کر [صرف] تم ہی اللہ کے دوست ہو لوگوں کے بغیر تو پھر موت کی تمنا کرو [اور اپنے محبوب کے پاس جانے کی آرزو کرو] اگر تم [اپنے دعوے میں] سچے ہو۔ (9)
ارشاد ہوتا ہے:
*"وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُم بِذُنُوبِکُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَن یَشَاء وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاء وَلِلّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَإِلَیْهِ الْمَصِیرُ؛*
اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ ان سے کہئے (پوچھئے) پھر خدا تمہیں تمہارے گناہوں پر سزا کیوں دیتا ہے؟ (کہہ دیجئے کہ نہیں) بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے محض بشر (انسان) ہی ہو۔ وہ جسے چاہتا ہے، بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے۔ سزا دیتا ہے اور اللہ ہی کے لئے ہے، سلطنت آسمانوں کی، زمین کی اور  اس کی جو کچھ ان کے درمیان ہے، اور سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے"۔ (10)
مذکورہ آیت کے کی تفسیر میں بیان ہؤا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے یہودیوں کی ایک جماعت کو اسلام کی دعوت دی اور انہیں اللہ کے عذاب سے خبردار کیا تو انھوں نے کہا: ہمیں دھمکی نہ دیں کیونکہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں؛ اگر وہ ہم پر غضبناک ہو بھی جائے تو اس کا غضب اس باپ کی طرح ہے جو اپنے بیٹے پر غضبناک ہوجاتا ہے یعنی یہ غصہ جلد ہی ٹھنڈا ہوجائے گا۔ (11)
قرآن کریم کی بعض آیات نیز یہودی ذرائع میں یہودیوں کی نسلی برتری کے دعؤوں کی طرف اشارہ ہؤا ہے: "برگزیدہ قوم" وہ عنوان ہے جو تورات اور تلمود میں دکھائی دیتا ہے، یہاں تک کہ دنیا کے لوگوں کے یہودی قاموس میں دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: اسرائیلی اور غیر اسرائیلی۔۔۔ یہ یہودی عقیدہ کہ وہ "برگزیدہ قوم" ہیں، یہودی مذہب میں ایک بنیادی اصول ہے: تلمود میں ہے کہ "یسرائیل (بنی اسرائیل) زیتون کے دانے کی مانند ہیں کیونکہ زیتون دوسرے مواد کے ساتھ مخلوط ہونے کا امکان نہیں رکھتا"۔ (12)
یہ یہودی عفیدہ ان کے اعمال اور  فردی و معاشرتی سلوک میں ظاہر ہوچکا ہے یہاں تک کہ قرآن کریم اس کے کچھ نمونوں کا تذکرہ کرتا ہے؛ منجملہ سورہ مائدہ میں ان کے ایک بےبنیاد دعوےے اور موہوم امتیازی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
*"وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ؛؛*
اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ (13)
یہی ایک ہی ان موہوم امتیازی خصوصیت نہیں ہے جو یہودی اپنے لئے بیان کرتے ہیں بلکہ دوسری آیات میں بھی ان کے اس قسم کے دعؤوں کی طرف اشارہ ہؤا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی آیت 111 میں ان کا یہ دعوی بیان ہؤا ہے کہ "ہمارے سوا کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا اور قرآن نے ہی ان کا یہ دعوی باطل کردیا ہے:
*"وَقَالُواْ لَن یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَن کَانَ هُوداً أَوْ نَصَارَى تِلْکَ أَمَانِیُّهُمْ قُلْ هَاتُواْ بُرْهَانَکُمْ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ؛*
اور وہ (یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں کہ کوئی ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گا مگر وہی جو یہودی یا نصرانی ہو گا۔ یہ ان کی خیال بندیاں اور خالی تمنائیں ہیں۔ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل پیش کرو۔"
اور اسی سورہ مبارکہ کی آیت 80 میں یہودیوں کے اس دعوے کی طرف اشارہ ہؤا ہے کہ "جہنم کی آگ معدودے چند روز ہی انہیں جلا سکے گی" اور خداوند متعال ان پر اس حوالے سے ملامت کرتا ہے:
*"وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّاماً مَّعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللّهِ عَهْداً فَلَن یُخْلِفَ اللّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ؛*
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ گنتی کے چند دنوں کے سوا دوزخ کی آگ ہمیں چھو بھی نہیں سکتی (اے رسول) آپ ان سے کہیے! کیا تم نے خدا سے کوئی عہد و پیمان لے لیا ہے کہ خدا کبھی اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا؟ یا اللہ کے ذمے وہ بات لگا رہے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے"۔
زیر بحث آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود میں نسلی امتیاز کی روح ـ جو دنیا بھر میں بہت زیادہ بدبختیوں کا سبب بنی ہوئی ہے ـ ابتداء ہی سے ان کے اندر موجود ہے اور وہ ابتداء ہی سے بنی اسرائیل کی نسل کے لئے موہوم امتیازی خصوصیات کے قائل تھے اور ہیں۔ بدقسمتی سے یہ روح آج بھی یہودیوں پر حکمرانی کررہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل نامی غاصب ریاست ہی اسی نسل پرستانہ روح کی تخلیق ہے۔
وہ نہ صرف اس دنیا میں اپنے لئے برتری کے قائل ہیں بلکہ ان کا وہم ہے کہ نسلی امتیاز آخرت میں بھی ان کی مدد کو آئے گی اور ان کے گنہگار لوگ دوسری قوموں کے گنہگاروں کے برعکس کچھ ہی دن سزا پائیں گے اور یہی غلط وہمیات ہی ہیں جن کی بنیاد پر ان کے ہاتھ مختلف قسم کے جرائم سے آلودہ ہوچکے ہیں اور دنیا بھر میں انسانیت کی بدبختیوں کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ (14)
امر مسلّم ہے کہ جو قوم اتنے سارے دعؤوں اور سراسر غرور و تکبر میں ڈوبی ہوئی ہو وہ کبھی بھی ایسے پیغمبر کی اطاعت نہیں کریں گے جو ان کی قوم و قبیلے سے تعلق نہ رکھتا ہو اور اگر کوئی پیغمبر ان کے قبیلے کا ہو بھی تو وہ اسی صورت میں اس کی اطاعت کریں گے کہ ان کے مفادات کا تحفظ کرے ورنہ وہ اسے قتل بھی کرسکتے ہیں اور اس حقیقت کے ثبوت بھی قرآن نے بیان کئے ہیں۔ (15)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔ تفسیر نمونہ، ناصر مکارم شیرازی، دار الکتب الإسلامیة - تهران، چاپ اول، 1374 ش ، ج1، ص 358 ۔
9۔ سورہ جمعہ، آیت 6۔
10۔ سورہ مائدہ، آیت 18۔
11۔ مجمع البیان فی تفسیر القرآن، فضل بن حسن طبرسی، انتشارات ناصر خسرو، تهران، چاپ سوم، 1372 ش، ج 3، ص 272۔ ذیل آیه 18 سوره مائده۔
12۔ موسوعه الیهود، ج5، ص 72 به نقل از پیامبر و یهود حجاز، ص 37 ۔
13۔ سورہ مائده، آیت 18۔
14۔ تفسیر نمونہ ، ج 1، ص 324 و 325۔
15۔ سورہ آل عمران، آیت 112؛ سورہ مائدہ، آیت 70۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد

یہودی مسلمین کے ازلی ابدی دشمن (2)

  • ۳۳۴

حسد زوال کا سبب
حسد الحاد اور دین سے فررار کی جڑوں میں سے ہے اور اس کو دنیا پرستی کا ایک شعبہ سمجھا جاسکتا ہے، یہاں تک امام جعفر صادق علیہ السلام اس کو کفر کی جڑ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
*"وَاِیَّاکُمْ اَنْ یَحْسُدَ بَعْضُکُمْ بَعْضاً فَإِنَّ الْکُفْرَ أَصْلُهُ الْحَسَد؛*
کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی دوسرے پر حسد برتے کیونکہ کفر کی جڑ حسد ہے۔ (2)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت سے قتل یہودی ایسے پیغمبر کا انتظار کررہے تھے جن کے سائے میں وہ مستقبل میں اپنی سیادت و زعامت کی توقع رکھے ہوئے تھے۔؛ چنانچہ وہ کفار سے کہا کرتے تھے "کہ ہم بہت جلد خاتم الانبیاء کی نبوت تسلیم کرکے تم پر فتح پائیں گے"؛ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی  بعثت ہوئی تو انھوں نے آپ(ص) کی بیعت قبول کرنے سے انکار کیا اور حیلوں بہانوں سے کام لینے لگے۔ چنانچہ خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
*"وَلَمَّا جَاءهُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَکَانُواْ مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِینَ کَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءهُم مَّا عَرَفُواْ کَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّه عَلَى الْکَافِرِینَ؛*
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آگئی جو ان کے پاس والی کتاب (تورات) کی تصدیق کرتی ہے باوجودیکہ اس کے آنے سے پہلے خود یہ لوگ کافروں کے خلاف اس کے ذریعے سے فتح و ظفر طلب کیا کرتے تھے۔ مگر جب وہ (پیغمبر) ان کے پاس آگئے جنہیں وہ پہچانتے تھے تو اس کے منکر ہوئے۔ پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو"۔ (3)
اس آیت کریمہ میں خداوند متعال یہودیوں کی ہٹ دھرمیوں اور ہواپرستیوں کی طرف اشارہ فرماتا ہے وہ یہ کہ یہ لوگ تورات کی بشارتوں کی روشنی میں پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ و آلہ کے منتظر تھے اور حتی کہ ایک دوسرے کو بھی فتح و نصرت کی خوشخبریاں دے رہے تھے اور مدینہ میں ان کے قیام کا ایک سبب بھی یہی تھا کہ وہ جانتے تھے کہ پیغمبر خاتم (ص) اسی شہر میں ہجرت کرکے تشریف فرما ہونگے؛ لیکن جب اسلام کا طلوع ہوچکا اور پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ و آلہ نے ظہور فرمایا اور یہودی آپ(ص) کی حقانیت سے بھی آگاہ ہوئے اور دین اسلام کو تورات کی نشانیوں کے موافق پایا تو منکر ہوگئے۔ (4)
اگلی آیت میں خداوند متعال یہودیوں کے کفر کا سبب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
*"بِئْسَمَا اشْتَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن یَکْفُرُواْ بِمَا أنَزَلَ اللّهُ بَغْیاً أَن یُنَزِّلُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَى مَن یَشَاء مِنْ عِبَادِهِ فَبَآؤُواْ بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُّهِینٌ"؛*
[سو] کس قدر بری ہے وہ چیز جس کے عوض ان لوگوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالی ہیں کہ ناروا انداز سے ضد اور سرکشی کی بنا پر اللہ کی اتاری ہوئی آیات کا انکار کردیا اور معترض تھے کہ خداوند متعال کیوں اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنی آیات اتارتا ہے، تو وہ اس رویے کے نتیجے میں (خدا کے ) غضب بعد از غضب کے سزاوار ہوئے اور کافروں کے لئے خوار کردینے والا عذاب ہے۔ (5)
اس سلسلے میں روایات و احادیث بھی موجود ہیں جن میں سے یہاں دو نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں:
الف) "جب عیسائی راہب بحیرا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو طفولت میں ہی پہچان لیا تو ابوطالب علیہ السلام کو شام کا سفر جاری رکھنے سے منع کیا اور کہا: اس کو یہود سے بچائے رکھیں کیونکہ وہ عرب ہیں اور یہودی چاہتے ہیں کہ نبی موعود بنی اسرائیل سے ہوں چنانچہ وہ ان پر حسد کریں گے"۔ (6)
ب) مورخین اور مفسرین ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ یہود اسلام سے قبل اوس و خزرج سے کہا کرتے تھے: "ہم پیغمبر خاتم یا پیغمبر موعود کے واسطے سے تم پر غلبہ کریں گے؛ لیکن پیغمبر(ص) کی بعثت کے بعد اپنی ہی بات کے انکاری ہوئے۔ معاذ بن جبل اور بشر بن براء نے ان سے کہا: تقوا سے کام لو اور اسلام قبول کرو! کیونکہ تم خود ہی ـ اس وقت جب ہم مشرک تھے ـ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی شخصیت کی توصیف کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ مبعوث ہونگے اور ان کی مدد سے ہم تم پر غلبہ پائیں گے۔ سلام بن مشکم یہودی نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا: جس کی بات ہم کرتے تھے وہ محمد(ص) نہیں ہیں، وہ ہمارے لئے کوئی ایسی چیز نہیں لائے ہیں جو ہمارے لئے جانی پہچانی ہو! یہیں سورہ بقرہ کی آیت 89 نازل ہوئی۔ (7)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔ علامه مجلسی، بحار الأنوار، مؤسسة الوفاء، بیروت - لبنان، 1404ھ‍  ج 78، ص 217۔
3۔ سورہ بقرہ، آیت 89۔
4۔ تفسیر نور، قرائتی محسن، مرکز فرهنگی درسهایی از قرآن، تهران، چاپ یازدهم، 1383، ج 1، ص345۔ به نقل از تفسیر نور الثقلین۔
5۔ سورہ بقرہ، آیت 90 ۔
6۔ الطبقات الکبری، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدالله البصری الزهری، دار صادر، بیروت، ج1، ص123۔
7۔ سیرة ابن هشام، ج1، ص547؛ التبیان، ج1، ص365؛ درالمنثور، ج1، ص 196۔ به نقل از پیامبر و یهود حجاز،ص 99۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد

یہودی مسلمین کے ازلی ابدی دشمن (۱)

  • ۳۷۴

گوکہ آج کل کئی مسلم ممالک پر مسلط حکمرانوں نے امریکی ـ اسرائیلی بساط پر جوا کھیلتے ہوئے اسرائیل نامی یہودی ریاست کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانا شروع کی ہیں لیکن اس سے یہود کی ازلی ابدی دشمنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا صرف اتنا ہوا ہے کہ یہودیوں کی ریشہ دوانیوں کو تقویت ملی ہے اور زیادہ آسانی سے اپنے مقاصد حاصل کررہے ہیں اور اس وقت ان کا سب سے بڑا مقصد فلسطین پر قابض یہودی ریاست کا بچاؤ ہے جس کے زوال کی پیشینگوئیاں اب تل ابیت تک بھی پہنچ چکی ہیں۔
آج یہود امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی کی بدولت زیادہ اعلانیہ انداز سے تمام انسانی حدود کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھ رہے ہیں؛ یہاں تک کہ جہاں بھی مسلمانوں پر دینی امتیاز کی بنا پر اور حتی کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر کوئی ظلم ہورہا ہے، جہاں بھی انہیں تنگ کیا جارہا ہے، ان کی معیشت تنگ کی جارہی ہے یا انہیں دہشت گردی جیسے اقدامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہودیوں کا نقش پا بوضوح نظر آتا ہے۔
یہودی بطور خاص اسرائیل نامی غاصب اور طفل کش اور نسل پرست ریاست کے ظلم و ستم کا ایک نمایاں ترین نمونہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم ہے جو سالہا سال سے جاری اور سیاسی اور ابلاغی حلقوں کی زینت ہے۔ ایسا ظلم جس کی طرف سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ امام سید روح اللہ خمینی (قدس سرہ) نے دی۔ انھوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے ہی نہیں بلکہ 1963 میں تحریک اسلامی کے آغاز سے مسلمانوں کے درمیان یہودی ریاست کے مظالم کے فراموش ہونے کے سلسلے میں خبردار کیا، مسلمانان عالم کو یہودی صہیونیت کی ریشہ دوانیوں کے سامنے فروعی اختلافا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہونے کی دعوت دی اور اس امر کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے رمضان المبارک کے آخری روز جمعہ [جمعۃ الوداع] کو یوم القدس منانے کا اعلان کیا جو سال بسال وسیع سے وسیع تر سطح پر منایا جارہا ہے اور فلسطینی ملت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی بیداری کا سبب بنا ہؤا ہے۔  
یہودیوں نے ـ غیر دینی اور غیر انسانی اقدامات اور مسلم ممالک کے استبدادی حکام کو امریکہ اور یورپ کی مدد سے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرکے مسلم اقوام اور محاذ مزاحمت کے خلاف اندرونی محاذ قائم کرکے اور بظاہر مسلمان دہشت گردوں کی ہمہ جہت مدد و حمایت کرکے ـ علاقے کو حساس بحرانی صورت حال سے دوچار کردیا ہے اور اور علاقائی بحران کو صرف اپنی مذموم اور موذی بقاء کی خاطر بین الاقوامی بحران میں تبدیل کردیا ہے۔ اگرچہ بہت سے یہودیوں کا کہنا ہے کہ ان کا صہیونیت اور اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے دور میں بھی تھے ایسے منصف یہودی جو بعد میں مسلمان ہوگئے یا مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ دشمنی پر مبنی نہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں دونوں قسموں کے یہودی کردار ایک جیسے تھے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے اور پھر قرآن نے یہود کو مؤمنین کا شدید ترین دشمن قرار دیا ہے اور کسی بھی منبع نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ آیت کسی خاص زمانے تک محدود تھی اور اس کی افادیت کا دور گذر چکا ہے۔
خداوند متعال قرآن کریم میں یہود کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: "لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُواْ؛ یقیناً آپ یہودیوں اور مشرکین کو ایمان والوں کا شدید ترین دشمن پائیں گے"۔ (1)
جی ہاں، یہودی مسلمانوں کے دشمن ہیں لیکن اس دشمنی کے اسباب کیا ہیں؟ مسلم امت اور قوم یہود کے درمیان ایسا کیا مسئلہ گذرا ہے کہ اسلام کو 14 صدیوں سے اس قدر شدید یہودی غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ اور آخر کار یہ کہ اسلام کے ساتھ یہودی عداوت کی جڑ کیا ہے؟
اس مقالے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور مؤمنین کے ساتھ یہود کی دشمنی کو قرآن کی روشنی میں زیر غور لانے کی کوشش ہوئی ہے؛ کہ یہ قوم ـ جو حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیمات اور تورات کے متن کی روشنی میں صدیوں سے سرزمین حجاز میں آپ(ص) کے ظہور کا انتظار کرتی رہی تھی ـ آپ(ص) کی بعثت کے بعد آپ(ص) سے دشمنی کیوں کرنے لگی، اور بکثرت رکاوٹیں کھڑی کرکے اسلام کے فروغ کا راستہ روکنے کے لئے کوشاں ہوئی، یہاں تک اللہ تعالی نے مذکورہ بالا آیت میں اسے مشرکین کے برابر مسلمانوں کا بدترین اور شدید ترین دشمن قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد
...........
1۔ سورہ مائدہ، آیت 82۔

صہیونی معاشرے میں فقر و تنگدستی

  • ۴۰۸

بقلم سعید ابوالقاضی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل میں فقر و تنگدستی کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیلی اعلی عہدیداروں نے بارہا نیتن یاہو سے ملک میں غربت کے گراف کو کم کرنے کی تاکید کی ہے۔
اسرائیلی بچے کوڑے دانوں میں کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرتے ہیں
اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت نے ایک تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کو شائع کر کے مقبوضہ فلسطین میں غربت کے حیران کن اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔
اس ادارے کی رپورٹ میں آیا ہے کہ لاکھوں بچے اس علاقے میں غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
لیٹٹ ادارے کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین کی آبادی میں سے ۲ ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جن میں ایک ملین تین لاکھ ادھیڑ عمر کے افراد ہیں اور بقیہ بچے ہیں۔ بطور کلی ایک چہارم صہیونی یہودی معیشتی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ ایک چوتھائی صہیونی بچے رفاہی فلاح و بھبود کے محتاج ہیں۔ اور ان میں سے ایک تہائی سے زیادہ کو ایک وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۵/۷ فیصد بچے کوڑے دانوں اور سڑکوں کے کناروں پر کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیلی بچوں کی حالت زار
لیٹٹ ادارہ جو دس سال سے زیادہ عرصے سے اسرائیل کی معیشت اور اس ریاست میں پائی جانے والی غربت پر تحقیقات انجام دے رہا ہے، اس نے ۲۰۱۵ میں ایک رپورٹ میں شائع کیا کہ اسرائیل کی کل آبادی میں سے ایک ملین ۷۰۹ ہزار ۳۰۰ افراد جو تقریبا ۲۲ فیصد کا گراف ہے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق یہودی گھرانوں میں بچوں کی صورتحال تشویشناک ہے اس لیے کہ ہر تین اسرائیلی بچوں میں ایک بچہ غریب ہے۔ اور یہاں تک کہ ۴ / ۳۴ فیصد بچے بغیر ناشتہ کئے اسکولوں میں جاتے ہیں۔ جبکہ ۱ / ۱۱ فیصد بچوں کے والدین انہیں تین وقت کا کھانا کھلانے کی توانائی نہیں رکھتے۔ نیز ۱ / ۱۱ فیصد والدین اپنے بچوں کے لیے طبی سہولیات فراہم کرنے کی توانائی بھی نہیں رکھتے۔
سیاسی پارٹیوں کا حکومت سے غربت کے خاتمے کا مطالبہ
پچھلے کچھ سالوں میں بہت سارے اسرائیلی جرمنی اور امریکہ جا چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی معاشی پریشانیوں کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین چھوڑ رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں زیادہ ٹیکسوں اور کم اجرت کی وجہ سے اسرائیلیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
لیبر پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار اسحاق ہرٹزک نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو کا غربت کے مسئلے سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غربت اسرائیل کے لئے اسٹریٹجک خطرہ ہے۔
لیبر پارٹی کے ایک اور سینئر عہدیدار ، ایسٹک شمولی نے بھی اقتصادی مسائل کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔ شمولی نے کہا ، “اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ غریبوں کی اکثریت محنت کش لوگ ہیں ، اور ۵٪ غریب بچے ہیں جو باہر جا کر کام کرتے ہیں۔” غربت کے خاتمے اور عدم مساوات کو کم کرنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ معاشرتی اہداف کو قانون میں شامل کرے۔ ہمارے پاس حکومت کے کافی کھوکھلے بیانات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شہید فخری زادے کے قتل پر صہیونی جنرل کا اعتراف

  • ۴۱۱

صہیونی ریاست کے ایک ریٹائرڈ جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کے جوہری اور دفاعی سائنسداں ایک پیچیدہ کاروائی کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے گئے۔

اسرائیلی فوجی انٹلیجنس سروس (آمان) کے سابق سربراہ اور اسرائیل انسٹی ٹیوٹ برائے داخلی سیکیورٹی اسٹڈیز (آئی این ایس ایس) کے موجودہ سربراہ "عاموس یادلن" نے کہا ہے کہ ایران سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے شائد موجودہ امریکی انتظامیہ کے خاتمے تک انتظار کرے۔

اخبار " یروشلم پوسٹ " نے لکھا ہے کہ "یادلین" نے ہفتے کی شام ایک پریس کانفرنس میں اسرائیلی میڈیا سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی: "جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے فورا بعد امریکہ نے ذمہداری قبول کی تو ایران نے دسیوں میزائل عراق میں امریکی اڈے پر داغ دئیے، لیکن ابھی کوئی بھی فخری زادے کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا ہے لہذا یہ امکان پایا جا رہا ہے کہ ایران ٹرمپ انتظامیہ کے خاتمے تک صبر کرے اس لیے کہ وہ نہیں چاہے گا کہ ٹرمپ جاتے جاتے ایران کے لیے کوئی بڑی مشکل کھڑی کر دے"۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ایران کے خیال میں، صہیونی حکومت شہید فخری زادے کے قتل کی ذمہ دار ہے ، کہا: "تل ابیب نے اس کارروائی کی ذمہداری قبول نہ کر کے تہران کو موقع دے دیا ہے کہ وہ ردعمل کا اظہار کرنے کے لیے عجلت سے کام نہ لے"۔

جوہری پروگرام کو مستحکم کرنے کی شکل میں رد عمل

یروشلم پوسٹ کے مطابق "یادلن" نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ شاید ایران کا سخت ردعمل اسرائیل پر میزائل حملہ ہوگا ، مزید کہا: "البتہ، ایران صرف اپنے جوہری پروگرام میں تیزی لا کر رد عمل ظاہر کرسکتا ہے ، جیسا کہ محسوس ہو رہا ہے، اور مئی 2019 کے بعد سے ایران ایسا کر رہا ہے. وہ موجودہ سطح سے کہیں زیادہ [یورینیم] کی افزودگی کرسکتے ہیں اور زیادہ جدید سینٹرفیوج انسٹال کرسکتے ہیں۔ "یہ ایک اسٹریٹجک اقدام یا رد عمل ہوگا۔"

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی سفارت خانوں یا کلیدی شخصیات پر حملہ کرنے کے آپشن کو سنہ 2010-2011 میں کئے گئے متعدد ایرانی جوہری سائنسدانوں کے قتل پر ہونے والے رد عمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
 انہوں نے مزید کہا کہ لبنان ، شام ، عراق ، یمن یا کسی اور جگہ پر ایران کے حامی گروہوں کے ذریعے حملہ کروا کر بھی ایران اپنا انتقام لے سکتا ہے۔  

صہیونی حکام اپنا منہ بند رکھیں!

اس رپورٹ کے مطابق ، صہیونی حکومت کے اس سابق سیکیورٹی اہلکار نے شہید فخری زادے کے قتل کے چند گھنٹوں بعد "بنیامن نیتن یاہو" کے ذوق دار تبصرے کا ذکر کرتے ہوئے ، حکومت کے موجودہ عہدیداروں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا منہ بند کردیں اور کچھ ظاہر نہ کریں کیونکہ اب تک انہوں نے حد سے زیادہ بول دیا ہے۔

انھوں نے اس دعوے کا اعادہ کرتے ہوئے کہ ایران میں ایک خفیہ جوہری پروگرام موجود ہے اور کوئی بھی ایران کے خفیہ جوہری پروگرام سے واقف نہیں ہے، کہا کہ "بغیر شک کے فخری زادہ جوہری سائنسداں اور ایران کے ایٹمی پلانٹ کو منظم کرنے والا شخص تھا"۔

اس ریٹائرڈ صہیونی جنرل نے شہید فخری زادہ کا موازنہ شہید حج قاسم سلیمانی سے کرتے ہوئے کہا ، "اس حقیقت کے باوجود کہ ایرانیوں کو اس کا کوئی متبادل مل جائے گا ، لیکن اس کی صلاحیتوں اور مہارتوں کا بدل نہیں ملے گا۔"

"ایرانی جوہری سائنسدان کے قتل کے وقت کے بارے میں ، یادلن نے کہا ،" وہ اس وقت متعدد اور پیچیدہ کاروائی کے نتیجے میں مارا گیا ہے چونکہ اس طرح کی منظم کاروائی کرنے کے لیے طویل مدت اور وسیع منصوبے کی ضرورت تھی" ۔

انہوں نے اس قتل میں اسرائیل کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اگر دوسرے فریق جیسے امریکہ، سعودی عرب یا دیگر ایران مخالف اس کاروائی میں شامل ہوتے تو زیادہ وقت لگتا اور کچھ خصوصی شرائط کی ضرورت ہوتی، تاکہ سب فریق گرین سیگنل دکھاتے"۔

خیال رہے کہ ایک مغربی انٹیلیجنس عہدیدار نے ہفتے کی شام یہ بات واضح کردی تھی کہ صہیونی حکومت نے ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لئے فخری زادہ کا قتل ایک طویل مدت منصوبہ کے بعد کیا۔

اسلام کے ساتھ یہودیوں کی دشمنی

  • ۳۵۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسلام کے ساتھ یہودیوں کی دشمنی ظہور اسلام سے ماقبل کے زمانے کی طرف پلٹتی ہے۔ اس دشمنی کی بنیادی وجہ ان کی مادیت پرستی اور قدرت طلبی ہے جو اس بات کا بھی سبب بنی کہ دین مسیحیت کو اصلی راستے سے منحرف بھی کر دیں اور الہی پیغمبروں کے قتل کا بھی اقدام کریں۔ ذیل میں اسلام کے ساتھ یہودیوں کی دشمنی کی اہم ترین وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛
۱۔ یہودی اسلام کی نسبت جو شناخت رکھتے تھے اس کی وجہ سے انہوں نے اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ کا انتخاب کیا چونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام کو مدینے سے عروج ملے گا اگر وہ پیغمبر اسلام پر ایمان لانے کا ارادہ رکھتے تو مکہ میں سکونت اختیار کرتے اور آخری پیغمبر کا انتظار کرتے۔
۲۔ یہودیوں نے بہت کوشش کی کہ پیغمبر اسلام (ص) دنیا میں نہ آنے پائیں، اس وجہ سے انہوں نے آپ کے اجداد اور پھر خود آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے یہاں تک کہ جناب عبد المطلب آپ کی جان کی حفاظت کے لیے مجبور ہوئے آپ کو مکہ سے باہر ایک دایہ کے حوالے کریں۔
۳۔ پیغمبر اکرم(ص) کے مدینہ ہجرت کے بعد یہودیوں نے آپ پر ایمان لانے کے بجائے آپ کی مخالفت شروع کر دی لہذا پیغمبراکرم مجبور ہوئے ان کے ساتھ سخت پیمان باندھیں اور پیمان شکنی کی صورت میں تلوار سے ان کا جواب دیں۔
۴۔ کفار کے ساتھ ہوئی مسلمانوں کی جنگوں جیسے احد و احزاب میں بھی یہودیوں نے مشرکین مکہ کا ساتھ دیا۔
۵۔ مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کے تینوں قبیلوں نے پیغمبر اکرم کے ساتھ عہد شکنی کی اور آپ نے سختی کے ساتھ ان کا جواب دیا اور انہیں مدینے سے نکال باہر کیا۔(۱)
ان تمام دشمنیوں کی وجہ سے قرآن کریم نے مشرکین کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو مومنین کا بدترین دشمن قرار دیا؛
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُواْ؛ (۲)
یہودیوں نے نہ صرف باہر سے اسلام کا مقابلہ کیا اور مسلمانوں کے خلاف صف آرائی کی بلکہ بہت سارے یہودی لبادہ اسلام اوڑھ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوئے اور ان کے سیاسی اور ثقافتی نظام میں نفوذ حاصل کیا اور یہودیت کے انحرافی افکار کو اسلامی ثقافت میں داخل کرنا شروع کیا۔ اسلامی تعلیمات و ثقافت میں یہودی افکار کا نفوذ اس قدر زیادہ تھا کہ آج اسلامی روایات میں ایک کثیر تعداد اسرائیلیات کے نام سے جانی جاتی ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس دور میں جب خلفائے راشدین نے نقل حدیث کو ممنوع کر دیا تھا اور کوئی مسلمان راوی حدیث پیغمبر بیان کرنے کی جرئت نہیں کر سکتا تھا، بعض تازہ مسلمان شدہ یہودی جیسے کعب الاحبار اور ابوہریرہ کو نقل حدیث کی اجازت تھی۔(۳)
ایسے حالات میں اسلامی معاشرہ حقیقی اسلامی تعلیمات سے اس قدر دور ہو جاتا ہے کہ فرزند رسول خدا کا قتل تقرب الہی کی خاطر انجام پاتا ہے!!!۔

بقلم ڈاکٹر محسن محمدی
حواشی
[۱] . مزید مطالعہ کے لیے رجوع کریں کتاب دشمن شدید،‌ مهدی طائب، ص۸۰-۱۴۰٫
[۲] – مائده، آیه ۸۲٫
[۳] . اسرائیلیات وتاثیر آن بر داستان¬های انبیاء در تفاسیر قرآن،‌ حمید محمدقاسمی،‌ سروش، تهران، ۱۳۸۰٫
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بحری قزاقوں نے برطانیہ کو کس طرح بچایا؟

  • ۳۷۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ؛
برطانیہ نے اسی زمانے میں جو اگلا قدم سمندروں پر تسلط جمانے اور ہسپانیہ اور پرتگال کو پیچھے دھکیلنے کے لئے اٹھایا وہ ہسپانیہ کے بادشاہ فلپ دوم ([۱]) کے عظیم بحری بڑے کو شکست دینے سے عبارت تھا۔ فلپ دوم جو لاطینی امریکہ سے مشرق بعید تک، وسیع سرزمینوں پر حکمرانی کررہا تھا، اور اپنی بحریہ کے خلاف برطانوی قزاق فرانسس ڈریک کے حملوں سے تنگ آگیا تھا، نے جزیرہ برطانیہ پر حملے کا حکم دیا۔
طے یہ پایا تھا کہ عظیم ہسپانوی بحریہ خلیج ٹیمز پر حملہ کرکے برطانوی سرزمین پر چڑھ دوڑنے کے لئے ضروری امکانات فراہم کرے اور بالآخر ۱۵۰۰۰ پورپی سپاہی برطانیہ میں اتر کر لندن کی طرف پیشقدمی کریں۔
حملہ آور پسپانوی بحری بیڑا ۱۳۰ جنگی جہازوں اور ۲۰ ہزار ملاحوں پر مشتمل تھا۔ یہ بیڑا بغیر کسی رکاوٹ کے  آبنائے ڈوور ([۲]) پہنچا لیکن نہایت خطرناک مقام پر فرانسس ڈریک کے حملے سے دوچار ہوا۔ ڈریک نے رات کی تاریکی میں ۳۰ توپوں سے لیس چھوٹی چھوٹی کشتیوں سے ہسپانوی جہازوں پر پیچھے سے حملے کئے اور جہاں تک ممکن تھا انہیں نشانہ بنایا اور لوٹ لیا۔
ہسپانوی بحریہ پسپا ہوکر فرانسیسی بندرگاہ “کالے” ([۳]) میں رک گئی اور اس بار برطانیہ کے گرد کا چکر کاٹ کر ایک بار پھر بخت آزمائی کا فیصلہ کیا لیکن اس مرتبہ بھی اس شدید آندھی اور انگریزی کشتیوں کے چھاپہ مار حملہ کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سے جہاز آئرلینڈ کی پتھریلی چٹانوں سے ٹکرا کر تباہ ہوئے اور ملاحوں کا قتل عام ہوا اور جو ملاح زندہ بچے تھے انہیں آئرلینڈ کے مقامی لوگوں نے قتل کیا۔
بالآخر ہسپانوی بیڑا ـ جبکہ اپنی نصف نفری اور جہازوں کو کھو چکا تھا ـ واپس اپنی بندرگاہ پر واپس آیا۔ اس شکست کے بعد ہسپانوی بحریہ کبھی بھی اپنی کمر کو سیدھا نہیں کرسکا اور دنیا کے سمندروں پر تسلط کو عملی طور پر برطانیہ کے سپرد کردیا۔
دوسری طرف سے برطانیہ نے ایران کی صفوی سلطنت کے تعاون سے بندر گمبرون ([۴]) کو پرتگیزوں سے خالی کروا کر انہیں خلیج فارس سے مار بھگایا اور یوں ہندوستان اور مشرق بعید میں پرتگیزی نوآبادیاتی دور کے اختتام کی بنیاد پڑی۔ بس تھوڑے سے وقت کی ضرورت تھی کہ برطانیہ ہندوستان کے علاقے پر مسلط ہوکر دنیا کی اصلی استعماری طاقت میں بدل جاتا۔
عظمت جو بحری ڈاکؤوں کے مرہون منت تھی
یہ مختصر سی تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ کے استعمار اور دولت سمیٹنے کا اہم ترین دور الیزبتھ اول اور سمندری قزاقوں کے براہ راست تعاون کا نتیجہ تھا۔
لوٹ مار اور ڈاکہ زنی سے حاصل ہونے والی اصل آمدنی البتہ کبھی بھی برطانوی عوام کی جیب میں نہیں گئی بلکہ بلاواسطہ طور پر نجی کمپنیوں کی تجوریوں میں جاتی رہی اور ان تمام کمپنیوں میں انگریزی شاہی دربار بنیادی حصہ دار ([۵]) تھا۔
ان ہی غارتگریوں اور ڈکیتیوں ہی سے حاصل ہونی والی کمائی نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانیہ میں صنعتی انقلاب کو ممکن اور مغرب کو دنیا کا پہلے درجے کا سرمایہ دار بنایا۔ شاید اس داستان کا مضحک ترین نکتہ یہ ہو کہ برطانیہ نے فرانسس ڈریک کے جہاز کا ایک مکمل نمونہ تعمیر کرکے دریائے ٹیمز میں اتارا۔ وہی جہاز جو ڈریک کی ڈاکہ زنی کے عروج کے زمانے میں گولڈن ہنڈ ([۶]) کہلاتا تھا۔ یہ جہاز شاید برطانوی عوام نیز دنیا بھر کے انسانوں کو یاددہای کروا رہا ہے کہ جو کچھ بھی برطانیہ کے پاس ہے وہ سب بحری ڈاکؤوں کی کمائی ہے۔ چوری اور لوٹ مار سے حاصل ہونے والا مال، جس نے برطانیہ کو پانچ بڑی طاقتوں کے زمرے میں لاکھڑا کیا ہے؛ اور خبردار کررہا ہے کہ آج کا برطانیہ فرانسس ڈریک جیسے ڈاکو کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے چوری اور ڈکیتی سے توبہ کی ہو، لہذا خبردار رہئے، گوکہ یہ قزاق اب کمزور ہوچکا ہے لیکن آج بھی قزاق ہی ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں مقبوضہ جبل الطارق کے ساحل پر ایران کے سوپر ٹینکر پر برطانوی کے حکمران قزاقوں کے حملے کے بعد ایرانی طلبہ نے تہران میں برطانوی سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کیا اور برطانوی سفیر کو بحری قزاقوں کا جھنڈا بطور تحفہ عطا کیا!
حواشی
[۱]۔ Philip II of Spain
[۲]۔ Strait of Dover
[۳]۔ Port of Calais
[۴]۔ موجودہ بندر عباس جس کو پرتگیز سامراجیوں نے کیکڑوں کی بہتات کی وجہ سے کیکڑوں کی بندرگاہ (Porto de Camarão) کا نام دیا تھا جس کی وجہ سے ـ شاید ـ مقامی لوگ اسے “گمبرون” کہتے تھے۔
[۵]۔ Shareholder
[۶]۔ Golden Hind
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مہدی پورصفا
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

وہ زمانہ جب بحری قزاق الیزبتھ کے اخراجات پورے کرتے تھے

  • ۴۲۲

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: گزشتہ سے پیوستہ
الیزبتھ کے برسراقتدار آنے کے وقت انگلستان کی آبادی بیس لاکھ سے بھی کم تھی اور الیزبتھ کی سلطنت کے آغاز میں لندن کی آبادی ۹۰۰۰۰ نفوس پر مشتمل تھی جو کہ اس کی سلطنت کے آخر میں ڈیڑھ سے دو لاکھ تک بڑھ گئی اور آبادی میں یہ اضافہ ہزاروں بحری قزاقوں اور بحر اوقیانوس کے پار علاقوں پر قبضے کے شوقین مہم جوؤں کی وسیع نقل مکانی کا نتیجہ تھا۔ لندن ان دنوں شدید طبقاتی نظام سے متاثر تھا جس کے مغرب میں صاحب ثروت لوگوں کا بسیرا تھا جبکہ مشرقی علاقہ بےشمار غرباء اور مساکین کا مسکن بنا ہوا تھا اور اس کی واحد بندرگاہ بھی دریائے ٹیمز ([۱]) کے ساحل پر واقع تھا جس کی مالک ایسٹ انڈیا کمپنی تھی۔
الیزبتھ بر سر اقتدار آئی تو انگلستان کی معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی اور دربار کے اخراجات اس زمانے میں تین لاکھ پونڈ تک پہنچ چکے تھے جنہیں پورا کرنا مشکل ہورہا تھا چنانچہ ملکہ برطانیہ نے سب سے آسان راستے کا انتخاب کیا اور یہ آسان راستہ بحری قزاقوں کے ساتھ معاہدہ اور سمجھوتہ کرکے دوسری سرزمینوں پر قبضے کا منصوبہ تھا۔
ملکہ کے درندہ کتّے کون تھے؟
بحری جہاز لوٹنے کے سلسلے میں ملکہ الیزبتھ اول کے دو اصلی اتحادی سر جان ہاکنز ([۲])  و سر فرانسس ڈریک ([۳]) تھے اور یہ دونوں کیریبین سمندر کے قزاقوں میں شامل تھے اور چالیس سال تک سمندروں میں ملکہ الیزبتھ اول کے درندہ کتے سمجھے جاتے تھے۔
ہاکنز ـ جس کو جنوبی امریکہ کے ساتھ برطانیہ کی آزاد تجارت کا بانی کہا جاتا ہے۔ غلاموں کی تجارت کی سرپرستی الیزبتھ کی طرف سے اسی شخص کو سونپ دی گئی تھی۔ اس شخص نے پہلی بار سنہ ۱۵۶۳ع‍ میں ملکہ الیزبتھ کے شخصی حکم اور لندن مارکیٹ کے سرمائے پر، تین جہازوں اور ۱۰۰ ملاحوں کے ساتھ افریقی ملک سیرالیون ([۴]) سے ۵۰۰ افراد کو غلام بنا کر یا اغوا کرکے، ہیٹی ([۵]) میں فروخت کردیا اور پھر اپنے جہازوں پر سامان تجارت لاد کر لیورپول ([۶])  پہنچا دیا۔ ہاوکینز کا اگلا سفر گینیا [۷] کے سواحل کی جانب تھا۔ اس “سامان تجارت” پر ۳۰۰۰ پاؤنڈ سرمایہ کاری کی گئی تھی جس کا ایک تہائی حصہ ملکہ الیزبتھ نے ادا کیا تھا اور اس تجارت کی کمائی میں وہ براہ راست شریک تھی۔ یہ غلاموں کی برطانوی تجارت کا آغاز تھا جو انیسویں صدی عیسوی کے وسط تک جاری رہی۔ [اور آج بھی مختلف شکل و صورت میں جاری ہے، کیونکہ کسی وقت قزاقوں کی سلطنت کو تیسری دنیا کے انسانوں کی جسمانی طاقت کی ضرورت ہے اور آج ان کی فکری اور فنی طاقت کی ضرورت ہے جس سے وہ آج بھی فائدہ اٹھا رہی ہے]۔
دوسری طرف سے فرانسس ڈریک بھی الیزبتھ کی سرپرستی اور سرمایہ کاری کے سائے میں بحری رہزنی میں مصروف تھا۔ ڈریک ـ جس نے اپنے کام کا آغاز ایک باربردار بحری جہاز سے کیا تھا ـ ہسپانوی جہازوں کو لوٹنے کے لئے ایک بیڑا تشکیل دیا اور ہسپانوی جہازوں پر حملوں اور قتل و غارت اور لوٹ مار کا آغاز کیا۔ اس بیڑے کی تشکیل کے لئے مجموعی سرمایہ ۵۰۰۰ پاؤنڈ تک پہنچتا تھا جس کا آدھا حصہ ملکہ الیزبتھ نے ادا کیا جس سے قزاقوں کی سلطنت کی ملکہ نے چھ لاکھ پاؤنڈ کا خطیر سرمایہ کمایا۔
ڈریک نے صرف ایک حملے میں ایک پسپانوی جہاز کو لوٹ کر ۲۵۰۰۰ پیسو ([۸]) خالص سونا ہتھیا لیا۔ نیز یہ شخص غلاموں کی تجارت میں بھی کردار ادا کرتا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لئے پرتگال کی افریقی نوآبادیوں کے دیہی علاقوں کو لوٹ لیا کرتا تھا۔ ہسپانوی قافلوں پر ڈریک کے مسلسل حملوں کے باعث شاہ ہسپانیہ نے اس کے سر کے لئے انعام مقرر کیا جبکہ دوسری طرف سے ملکہ انگلستان نے سنہ ۱۵۸۰ع‍ میں  اس کو “سر Sir” کا خطاب عطا کیا اور ۱۵۸۸ع‍ میں یہ سمندری ڈاکو برطانوی بحریہ کا نائب کمانڈر مقرر ہوا۔
جیمز مل ([۹]) لکھتا ہے کہ فرانسس ڈریک سنہ ۱۵۸۰ع‍ میں انگلستان واپس آیا تو ملکہ الیزبتھ نے اس کا استقبال کیا جبکہ ڈریک ہسپانوی جہازوں سے لوٹی ہوئی ۵۰۰۰۰۰ پاؤنڈ سونا اور بڑی مقدار میں مال و اسباب ساتھ لایا تھا اور یوں ملکہ صاحبہ کے دربار کے پورے سال کے اخراجات پورے ہو گئے۔
مؤرخ ارنسٹ مینڈل ([۱۰]) لکھتا ہے: سنہ ۱۵۵۰ع‍ کے لگ بھگ، انگلستان کو سرمائے کی شدید قلت کا سامنا تھا؛ تو پسپانیہ کے بحری بیڑوں کے لوٹنے کے لئے برطانیہ کی طرف سے بحری قزاقی ـ جو کارپوریشنوں اور مشترکہ کمپنیوں کی صورت میں انجام پاتی تھی ـ نے اس صورت حال کو اچھی طرح سے بدل دیا۔ انجام پانے والے تخمینوں کے مطابق برطانیہ کے سرکاری بحری ڈاکؤوں نے ملکہ الیزبتھ کے زمانے میں ایک کروڑ بیس لاکھ پاؤنڈ کی براہ راست دولت اس ملک کے خزآنے میں منتقل کردی۔
قدم بڑھاؤ نئی دنیاؤں پر قبضہ کرنے کے لئے
ملکہ الیزبتھ کا دوسرا اقدام ـ جو پھر بھی سمندری قزاقوں اور داکؤوں کی مدد سے شروع ہوسکا ـ جیووانی کابوتو کی مہم جوئیوں کے تسلسل میں نئی سرزمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی ۔ سنہ ۱۵۸۵ع‍  میں سر والٹر ریلے ([۱۱]) نے ملکہ الیزبتھ کی براہ راست حمایت کے بدولت موجودہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرزمین پر پہلی برطانوی نوآبادی پر قبضہ کیا اور ملکہ الیزبتھ اول ـ جو اس وقت کنواری ملکہ!! ([۱۲]) کہلواتی تھی ـ کے اس لقب کی مناسبت سے اس نوآبادی کا نام “ورجنیا” ([۱۳]) رکھا۔
ریلے نے سرمائے جمع کرنے کے لئے متعدد کمپنیاں قائم کی گئیں جن میں سب سے پہلی کمپنی ورجینیا کمپنی تھی جس نے پہلی بار زرعی کھیتیاں افریقہ سے لائے گئے غلاموں کی افرادی قوت کی بنیاد پر تشکیل دیں۔ ان ہی دریافتوں کے تسلسل میں نیو فاؤنڈ لینڈ، برمودا، بارباڈوس، بہاماس، میساچوسٹس، اینٹیگوا، بیلیز اور جمیکا سمیت بےشمار نوآبادیاں دریافت ہوئیں۔
حواشی
[۱]۔ River Thames
[۲]۔ John Hawkins (naval commander)
[۳]۔ Francis Drake
[۴]۔ Sierra Leone
[۵]. Haiti
[۶]۔ Liverpool
[۷]۔ Guinea
[۸]۔ Peso
[۹]۔ James Mill
[۱۰]۔ Ernest Mandel
[۱۱]۔ Walter Raleigh
[۱۲]۔ Virgin Queen
[۱۳]۔ Virginia
…………..

 

کشمیر اور فلسطین کی مشترکہ سرنوشت

  • ۳۰۰

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: کشمیر اور فلسطین کی ناگوار اور تلخ تاریخ نے عالم اسلام اور دنیائے عرب کے دلوں کو مجروح کر دیا ہے۔ یہ دونوں مسلمانوں کی ایسی سرزمینیں ہیں جو ۷۰ سال سے غاصب سامراجی طاقتوں کے ظلم و جور کی چکی میں پس رہی ہیں۔ اور ظلم و جور کے ایسے ایسے دردناک واقعات تاریخ نے اپنے دامن میں ثبت کئے ہیں جن کو سن کر بدن لرز اٹھتا ہے اور روح کانپ جاتی ہے۔ ۷۰ سال قبل امت مسلمہ کے یہ دونوں دھڑکتے دل اس وقت چکنا چور ہوئے جب بوڑھے استعمار برطانیہ نے ان پر غیروں کو مسلط کرنے کی سازش رچائی۔
برطانیہ کی ظالمانہ اور شیطانی سنت یہ ہے کہ وہ جس اسلامی علاقے سے اپنا قدم باہر رکھتا ہے وہاں آگ کی چنگاری پھینک دیتا ہے اور پھر دور سے اس پر تیل چھڑکتا رہتا ہے یہاں تک کہ یہ چنگاری ایسی بھڑکتی آگ میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ جسے مہار کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ کشمیر اور فلسطین دو ایسی اسلامی سرزمینیں ہیں جن سے نکلتے وقت برطانیہ نے آگ کی چنگاریاں پھینک دیں اور آج تک ان پر تیل چھڑکتا آیا ہے۔ غیروں کو ان پر مسلط کر کے، ایجنسیوں کو فعال کرکے، انہیں اسلحے سے لیس کر کے وہاں کے مقامی لوگوں کے خون سے ندیاں بہاتا اور ان کی عصمتوں کی دجھیاں اڑاتا آیا ہے۔ آج نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف بھارت پر برسر اقتدار انتہا پسند تنظیم ’آر ایس ایس‘ کشمیر پر اپنا مکمل تسلط جما رہی ہے اور دوسری طرف یہودی انتہا پسند حکومت فلسطین کو مکمل طور پر ہتھیانے میں کوشاں ہے۔
فلسطین اور کشمیر دو ایسی سرزمینیں ہیں جن پر تقریبا ایک ہی سال افتاد پڑی۔ اس لیے کہ ۱۹۴۷ میں ہی برطانوی سامراج نے فلسطین کو تقسیم کرنے اور کشمیر کو متنازع جگہ قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک عظیم جنگ کے بعد ہزاروں مظلوم عوام بے گھر ہوئے، سیکڑوں قتل عام ہوئے اور ہندوستان کشمیر کے وسیع علاقے پر مسلط ہو گیا اور اپنی فوج کے ذریعے اس علاقے میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا انہیں اذیتیں پہچنانا شروع کر دیں اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ جس کی وجہ سے کشمیر میں مسلمانوں نے اپنے تحفظ کی خاطر بندوق اٹھا لی اور بھارتی فوج کا مقابلہ کرنا چاہا لیکن بھارت نے اس دفاعی تدبیر کو دھشتگردی کا نام دیا اور کشمیروں کو دھشتگرد قرار دے کر ہندوستان کے ہندووں کو کشمیروں کے خلاف اکسایا۔
دوسری جانب فلسطین میں برطانیہ نے اپنا شیطانی حربہ اپناتے ہوئے انتہا پسند یہودیوں کو فلسطینیوں پر مسلط کیا اور دنیا بھر کے یہودیوں کا فلسطین ہجرت کے لیے راستہ کھول دیا۔ اور انہیں اسلحے سے لیس کرکے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف کھڑا کر دیا۔ اپنے ٹریننگ سنٹروں کے دروازے یہودیوں پر کھول دیے اور مسلمانوں کی زمینیں غصب کر کے یہویوں کے لیے مکانات تعمیر کروا دیے۔ اور آخر کار خون کی ندیاں بہا کر اور مسلمانوں کا قتل عام کر کے انہیں سرزمین فلسطین سے نکال باہر کیا اور صہیونی ریاست ’اسرائیل‘ کو تشکیل دے دیا۔ اس روز سے آج تک اسرائیل فلسطین میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ملت فلسطین کی نابودی کے در پہ ہے۔
کشمیر اور فلسطین کی مشترکہ سرنوشت
آج کشمیر اور فلسطین ایک ہی سرنوشت سے دوچار ہیں ایک ہی طرح کی مصیبت میں گرفتار ہیں دونوں اپنے تشخص کو بچانے اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے متعین کرنے کے لیے میدان جنگ میں برسرپیکار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کی تقدیر میں یہی لکھا ہوا تھا کہ ایک ہی سال میں ایک ہی دشمن کے ذریعے ان کے خلاف سازش رچائی جائے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ بنایا جائے۔ اس لیے کہ ان کے پیچھے جو خفیہ ہاتھ ہیں وہ ان کی نابودی چاہتے ہیں۔ اور یہ اس وقت ہوا جب بھارت اور صہیونی ریاست دونوں کو امریکہ کی جانب سے اطمینان حاصل ہو گیا کہ کوئی بھی ان کے مقابلے میں نہیں آئے گا اور ان کے خلاف زبان اعتراض نہیں کھولے گا اور عرب اور مسلمان تو خود آپس میں اتنا الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے اندر تو کسی دشمن کی دھمکی کا جواب دینے کے لیے ذرا سی سکت بھی باقی نہیں رہی۔
ایک ہاتھ اور ایک فکر
ہمیں یہ یقین کر لینا چاہیے کہ وہ ہاتھ جو جگہ جگہ ہمارے حقوق اور ہمارے مقدسات کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے اور وہ فکر جو ہمارے اسلامی ممالک کی بربادی پر تلی ہوئی ہے وہ ایک ہی ہاتھ اور ایک ہی فکر ہے۔ جنگ و جدال اور فتنہ وفساد جس کو میراث میں ملا ہے۔ ایک طرف کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ ہٹوا کر اور دوسری طرف فلسطین میں صدی کی ڈیل کا منصوبہ رچا کر شائد وہ اپنی آخری آرزووں کو پہنچنا چاہتے ہیں لیکن انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ دونوں سرزمنیں ہمارے عقائد کا حصہ ہیں ہماری عزت و آبرو ہیں ہماری قوم جان تو دے سکتی ہے مگر عزت نہیں لٹا سکتی ۔ جنہوں نے یہ کھیل کھیلا ہے وہ بہت جلد اپنے کئے پر پچھتائیں گے۔ خدا کے فضل و کرم سے وہ صبح بہت نزدیک ہے جب وعدہ الہی محقق ہو گا کامیابی کی نوید آئی گی اور ہم سرزمین کشمیر و فلسطین میں آزادی کا پرچم لہرائیں گے۔

بقلم ڈاکٹر مصطفیٰ یوسف اللداوی

 

بحری قزاقوں نے کس طرح جزیرہ انگلینڈ کو سلطنت برطانیہ میں تبدیل کیا؟

  • ۳۵۰

انگریزوں نے یہودی مربیوں کی مدد سے دنیا کے بہت سے ممالک پر قبضہ کرکے انہیں نوآبادیات میں تبدیل کیا اور عشروں نہیں بلکہ صدیوں تو ان کے وسائل کو لوٹا، یہ سب کو معلوم ہے مگر برطانوی حکومت ـ جو اب ایک ڈوبتے ہوئے جزیرے تک محدود ہوچکی ہے مگر دنیا بھر کی شرانگیزیوں میں بدستور کردار ادا کررہی ہے، دعوی کرتی ہے کہ اس کے اسلاف نے ان ممالک کو آباد کیا ہے اور ان پر قبضہ چھوٹی سی شیطانی حکومت کے لئے مفید نہیں بلکہ نقصان دہ رہا ہے!!! لیکن حال ہی میں ایک بھارتی نژاد امریکی پروفیسر نے اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا کہ صرف برصغیر سے برطانیہ نے ۴۵ ٹریلین ڈالر کی دولت غارت کردی ہے اور یوں یہ رسوائے زمانہ سلطنت ـ جس کو بوڑھا استعمار یا بوڑھی لومڑی یا بوڑھا لگڑبگڑ بھی کہا جاتا ہے ـ مزید رسوا ہوگئی؛ لیکن کم ہی کسی کو معلوم ہے کہ یہ اس سلطنت کی بنیاد بحری قزاقوں کی مدد سے رکھی گئی ہے اور صنعتی انقلاب کے دور میں اس کی عظمت سمندری قزاقوں کی لوٹ مار اور ملکہ الیزبتھ کے ساتھ ان کے باہمی سازباز کی مرہون منت ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: “کیریبین سمندر کے قزاق” ([۱]) کی فلم سیریز ہالی ووڈ کا مقبول ترین فلمی سلسلہ اور دنیا بھر میں بحری سفر کی تاریخ کا ایک حصہ ہے جس میں تخیل کا ذائقہ بھی ملا دیا گیا ہے۔ نمی میں ڈوبے ہوئے جنوبی امریکی سواحل، ان قلعوں کے ساتھ جہاں سے سلطنت برطانیہ کے سپاہی ـ اور یقینی طور پر بحری قزاق ـ بحرالہند کے اہم ساحلی علاقوں پر فرمانروائی کرتے تھے اور عشرتکدوں میں جاکر لوٹے ہوئے مال سے حاصل آمدنی کو اڑا دیتے تھے۔
یہ ایک چمکتی دمکتی تصویر ہے جو کہ ظاہری پرفریبیوں کے برعکس تاریخی واقعات سے زمین و آسمان کے فاصلے جتنی مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی سلطنت نہ صرف بحری قزاقوں کی دشمن نہیں ہے بلکہ اعلانیہ طور پر ـ اپنے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لئے ـ بحری قزاقوں کی حلیف بن جاتی ہے۔ اور ان حلیف قوتوں (یعنی سلطنت برطانیہ اور بحری قزاق) نے نہ صرف دنیا کے پانیوں پے برطانوی تسلط کو یقینی بنایا بلکہ اس اتحاد نے برطانیہ کے مہنگے شاہی دربار کے اخراجات برداشت کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
یورپیوں کے ہاتھ لاطینی امریکہ سے ایک ٹریلین ڈالر کی چوری
بحری قزاقوں کی عجیب داستان کا نقطہ آغاز گرینیڈا یا غرناطہ میں پایا جاسکتا ہے۔ جب کاسٹیلا ([۲]) کی ملکہ ایزابیلا دوم ([۳]) نے ۲ جنوری ۱۴۹۲ع‍ کو اپنے شوہر فرمانڈو ([۴]) کے ہمراہ جزیرہ نمائے ایبری ([۵]) میں ـ نو مہینوں سے جاری محاصرے کے بعد ـ مسلمانوں کی حکمرانی کی آخری نشانیوں کو بھی مٹا کر رکھ دیا۔ سات مہینے بعد اگست ۱۴۹۲ع‍ کو کریسٹوفر کولمبس ([۶]) نامی اطالوی مہم جو ایزاببلا اور فرمانڈو کی طرف سے سمندری مہم پر روانہ ہوا تا کہ افسانوی ہندوستان کو لوٹ کر برطانوی بادشاہوں کے خزانے کو مالامال کرسکے۔ ہندوستان اس سرزمین کا نام تھا جس کی تصویر صلیبی جنگوں کے زمانے سے یورپی شہسواروں کے ذہن میں ابھرتی رہی تھی۔
جزیرہ نمائے ایبری کے دوسرے گوشے میں پرتگال کے بادشاہ مانوئیل ([۷]) نے ـ جو ایزابیلا اور فرمانڈو کے نقشے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا ـ سنہ ۱۴۹۸ع‍ میں ـ کولمبس کی مہم کے پانچ سال بعد، واسکو ڈے گاما ([۸]) کی مدد سے ہندوستان کا راستہ تلاش کیا۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس تاریخ سے دنیا بھر میں بحری تسلط کی بنیاد پر یورپیوں کی لوٹ مار کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوا ہے۔
واسکو ڈے گاما براعظم افریقہ کا چکر کاٹ کر اس خشکی کے آخری نقطے کو نیک امیدوں کا راس ([۹]) کا نام دے کر مشرقی افریقہ کی پر رونق بندرگاہوں تک پہنچا۔ مشرقی افریقہ میں ممباسا ([۱۰]) اور مالنڈی ([۱۱]) تھے جہاں سے وہ ہندوستان کے مالابار ([۱۲]) کے علاقے کی کالی کوٹ ([۱۳]) بندرگاہ تک پہنچا اور آخرکار سنہ ۱۴۹۹ع‍ میں عظیم دولت لے کر لزبن ([۱۴]) واپس آیا۔ اس کے بعد پرتگالی بادشاہ نے تیرہ جہازوں پر مشتمل ایک بڑا بحری بیڑا “پیدرو کابرال” ([۱۵]) نامی مہم جو کی سرکردگی میں مشرق کی طرف روانہ کیا اور اس بار یہ بیڑا سنہ ۱۵۰۰ع‍ میں برازیل پہنچا اور کابرال نے اس سر زمین کو پرتگال کے بادشاہ کے نام سے متبرک کیا!!!
بحر ہند اور لاطینی امریکہ میں بحری سلطنت قائم کرنے کے سلسلے میں پرتگالیوں کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ہسپانویوں نے بھی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ سنہ ۱۵۱۸ع‍ میں ہسپانوی مہم جو ہرنان کورٹیس ([۱۶]) نے اپنا سفر مغرب کی طرف کولمبس کے راستے پر شروع کیا۔ وہ ابتداء میں انٹیلیز اکبر ([۱۷]) تک پہنچا اور ۱۳ مارچ ۱۵۱۹ع‍ کو ۵۰۰ مسلح افراد کے ساتھ میکسیکو کے ساحل پر اترا۔ یہ حملہ لاطینی امریکہ میں آزتکوں ([۱۸]) کی صاحب ثروت سلطنت کے خلاف ایک طویل جنگ کا آغاز ثابت ہوا۔ آزتک سلطنت سائنسی اور اقتصادی حصولیابیوں کے لحاظ سے پورے یورپ سے بہت آگے تھی لیکن ان کے پاس بندوق نہ تھی اور یہ مسئلہ یورپیوں کے ہاتھوں آزتک سلطنت کے زوال اور مقامی باشندوں کے اجتماعی قتل پر منتج ہوا۔ اسی تسلسل میں ایک ہسپانوی فوجی فرانسسکو پیزارو ([۱۹]) نے پرو ([۲۰]) پر قبضہ جمایا۔ یوں پورا بر اعظم امریکہ دو یورپی سلطنتوں یعنی ہسپانیہ اور پرتگال کے زیر نگیں آیا اور اس علاقے میں قتل اور لوٹ مار کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔
ان ممالک سے لوٹی گئی دولت کے سلسلے میں واضح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہے لیکن بعض تاریخی تخمینوں کے مطابق لاطینی امریکہ سے چوری ہونے والے سونے اور جواہرات کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر سے تجاوز کرتی ہے۔
اس عظیم دولت پر ـ جو چھینی گئی یا لوٹی گئی یا چوری کی گئی ـ جدید یورپی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی  جس کو یورپی بڑے فخر سے نشاۃ ثانیہ ([۲۱]) کا نام دیتے ہیں! اور تشخص باختہ مشرقی اقوام بھی اس سے مرعوب ہوجاتی ہیں۔
ایک استعماری طاقت میں تبدیل ہونے کے لئے انگریزوں کا پہلا قدم
اسی زمانے میں ایک ملک اور بھی تھا جو لاطینی امریکہ اور ہندوستان کی عظیم دولت لوٹنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ برطانوی بادشاہ ہینری ہشتم ([۲۲]) نے ـ جو اپنے پرتگالی اور ہسپانوی ہم منصبوں کے حسد میں مبتلا ہوچکا تھا ـ وینس کے رہائشی اطالوی مہم جو جیووانی کابوتو ([۲۳]) کو یورپ کے دوسرے بندرگاہی شہر بریستول ([۲۴]) کے تاجروں کے ہمراہ بحر اوقیانوس ([۲۵]) روانہ کیا۔ یہ اطالوی مہم جسے انگریز اپنی تاریخ میں جیووانی کابوتو کا نام دیتے ہیں،  ہینری ہشتم کے حکم پر سمندروں میں اترا تا کہ ہر اس سرزمین پر قبضہ کرلے جو مشرکین [یعنی غیر عیسائیوں] کے قبضے میں تھی۔
کایوتو نے نوا اسکوشیا ([۲۶]) میں واقع کینیڈا کے جزیرے کیپ برتون کیپ بریٹن ([۲۷]) پہنچ کر اس کو ہینری ہشتم کے نام پر اپنی ملکیت میں لے لیا۔ اس کے باوجود پرتگال اور ہسپانیہ کے ساتھ رقابت و مسابقت کے سلسلے میں برطانیہ کی انتہائی سنجیدہ کوششوں کا دور الیزبتھ اول ([۲۸]) کے زمانے سے شروع ہوا ایک ایسی لڑکی جو انگلستان میں کیتھولک مذہب کے خاتمے کی ہینروی ہشتم کی کوششوں کا ثمرہ تھی اور اسی ہی کے زمانے میں امریکی ساحلی علاقوں میں برطانوی کالونیاں قائم کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع ہوئیں۔
حواشی
[۱]۔ Pirates of the Caribbean
[۲]۔ Castilla
[۳]۔ Isabella II of Spain
[۴]۔ Francisco de Asís María Fernando de Borbón
[۵]۔ Iberian Peninsula
[۶]۔ Christopher Columbus
[۷]۔ Manuel I, the Fortunate
[۸]۔ Vasco da Gama
[۹]۔ The Cape of Good Hope (“Cabo de Boa Esperanca”).
[۱۰]۔ Mombasa
[۱۱]۔ Malindi
[۱۲]۔ Malabar region
[۱۳]۔ Calicut
[۱۴]۔ Lisbon
[۱۵]۔ Pedro Álvares Cabral
[۱۶]۔ Hernán Cortés
[۱۷]۔ Greater Antilles
[۱۸]۔ Aztecs
[۱۹]۔ Francisco Pizarro
[۲۰]۔ Peru
[۲۱]۔ Renaissance
[۲۲]۔ Henry VIII of England
[۲۳]۔ Giovanni Caboto انگریزی میں: John Cabot
[۲۴]۔ Bristol
[۲۵]۔ Atlantic Ocean
[۲۶]۔ Nova Scotia
[۲۷]۔ Cape Breton Island
[۲۸]۔ Elizabeth I of England
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔