اسرائیل کے خفیہ عقوبت خانوں میں کیا ہو رہا ہے؟

  • ۳۶۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ جو تمام ممالک کے قید خانوں پر نگرانی رکھتی ہے نے ۲۰۰۹ میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خفیہ عقوبت خوانوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہ ملنے پر تنقید کی۔ داستان کچھ یوں تھی کہ اس تنظیم کے زیر نگرانی کام کرنے والی “تشدد کے خلاف کمیٹی” نے اسرائیلی حکومت سے اس کے تمام قید خانوں کا دورہ کرنے کی اجازت مانگی لیکن اسرائیل نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
اسرائیلی حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کو ایک خط کے ذریعے اطلاع دی کہ بعض عقوبت خانے فی الحال خالی ہیں لیکن ۲۰۰۶ میں لبنان کے ساتھ ہوئی جنگ کے دوران کچھ قیدی ان میں موجود تھے۔ لیکن اس کمیٹی کو اجازت نہ ملنے پر خدشہ لاحق ہوا کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے۔
یہ قید خانے در حقیقت پچھلے دور میں عربوں اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے بنائے گئے تھے اور ان میں مسلمانوں پر ایسا تشدد کیا جاتا تھا کہ ۱۹۹۹ میں حتیٰ اسرائیلی سپرئم کورٹ اس تشدد کو بند کروانے پر مجبور ہوا۔
خفیہ قید خانے
پہلی بار “ہاموکوڈ” نامی انسانی حقوق تنظیم نے اس وقت اسرائیل میں ان عقوبت خانوں کا سوراغ لگایا جب دو چچازاد فلسطینی بچے فلسطین میں گرفتار کر لئے گئے اور ان کا پتہ کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ کافی تلاش و جستجو اور اسرائیلی عہدہ داروں پر کافی دباو ڈالے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ان دو بچوں کو ایک خفیہ جگہ پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس قید خانے کا صحیح ایڈرس نہیں مل سکا۔ صرف اتنا بتایا گیا کہ کسی ایسی خفیہ جگہ پر قید ہیں وہ یروشلم سے سوکلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
ہامو کوڈ کی سربراہ “ڈالیا کرشٹائن” کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت اس قید خانے کی طرف متوجہ ہوئے جب دوسری جیلیں بھر جانے کی وجہ سے کچھ فلسطینی قیدیوں کو غلطی سے ان خفیہ عقوبت خانوں کی طرف لے جایا گیا۔ محترمہ کرشٹائن ان قیدخانوں کے بارے میں کہتی ہیں: ان قید خانوں میں Guantanamo جیل سے زیادہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اس لیے کہ ان قید خانوں کا کبھی کسی نے جائزہ نہیں لیا۔
رپورٹ کے مطابق وہ دو بچے ’محمد‘ اور ’بشیر ید اللہ‘ نام کے تھے۔ ان بچوں کو دو الگ الگ ایسے خلیوں میں رکھا گیا جن میں نہ کوئی کھڑکی تھی اور نہ روشنی، اور انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور زد و کوب کیا جاتا تھا حتیٰ بیت الخلاء تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ ان کے گھر والوں کو مار دئے جانے کی دھمکی دی جاتی تھی۔
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی
اسرائیل ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ ’ایشیی مناخیم‘ کا اس تشدد کے بارے میں کہنا ہے: ہم نے متعدد بار اقوام متحدہ میں رپورٹ دی ہے کہ ان قید خانوں میں غیرقانونی اور بےدردی سے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن ہماری آواز کبھی سنی نہیں گئی اس لیے کہ اسرائیل کسی بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی سپرپاور طاقت امریکہ اس کی حامی ہے۔ لہذا اگر اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کوئی چیز منظور کی جاتی ہے تو امریکہ اس کو آسانی سے ویٹو کر دیتا ہے۔
………….

 

اسرائیل میں عورتوں کی اسمگلنگ

  • ۳۸۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل ان ممالک میں سے ایک ہے جن میں جسم فروشی قانونی عمل ہے چونکہ لوگ اس کاروبار کو پسند کرتے ہیں۔ اسرائیل میں اس کاروبار نے مساج پارلر، ڈانس اور کلب وغیرہ کے عنوان سے رونق پائی ہے اور سالانہ ہزاروں عورتیں اور بچے اس بازار کا سامان فراہم کئے جانے کے عنوان سے دوسرے ملکوں سے اسمگلنگ کئے جاتے ہیں۔
اسرائیل میں اسمگلنگ کا نشانہ بننے والی لڑکیاں اور بچے غریب اور جنگ زدہ ملکوں سے فراہم کیے جاتے ہیں۔ عورتیں اور بچے جو یا چورا کر لائے جاتے ہیں یا انہیں ایک بہتر زندگی کی امید دلا کر اسمگلنگ کیا جاتا ہے وہ امیگریشن کمپنیوں کے ذریعے اغوا کئے جاتے ہیں۔ وہ افراد جو ملک سے نکلنے کے بعد جنسی خواہشات کا شکار بنائے جانے کے لیے فروخت کئے جاتے ہیں مشرقی یورپ، جنوبی امریکہ اور خود امریکہ سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
"آنا" ان لڑکیوں میں سے ایک ہے جو اس کھیل کا کھلونا رہی ہے۔ اس نے عدالت میں اعتراف کیا کہ "شولا" نامی ایک لڑکی نے اس سے کہا تھا کہ اسرائیل میں بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کے لیے اچھے پیسے ملتے ہیں۔ لہذا اس نے اسرائیل جانے کا ارادہ کر لیا اس کو جہاز کا ٹیکٹ دے دیا گیا اور وہ اسرائیل کے جہاز پر سوار ہو گئی لیکن جب جہاز زمین پر بیٹھا تو معلوم ہوا کہ وہ مصر کے ایئر پورٹ پر بیٹھا ہے مصر سے کچھ خاص لوگوں نے اسے لیا اور اسرائیل لے کر پہنچے، اسرائیل ہوٹل پر پہنچتے ہی اسے ننگا کر دیا گیا اور اس کے بعد جو پارٹی پہلے سے وہاں موجود تھی اس کے ہاتھوں اسے بیچ ڈالا گیا۔
"ماریو" نامی اسرائیلی اسمگلر عورت لڑکیوں کو اسمگلنگ کرنے کے بارے میں کچھ اہم نکات کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن ہم ان کو یہاں بیان کرنے سے قاصر ہیں البتہ اس کے آخری جملے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں وہ کہتی ہے:
"لڑکیوں کو ننگا کر کے کمرے کے بیچ میں کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اسمگلرز ہر ایک کی قیمت لگاتے ہیں اور پھر خریدار انہیں خرید کر لے جاتے ہیں"۔  
وہ عورتیں اور لڑکیاں جو ان طائفوں سے بھاگنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں وہ پولیس کی گرفت میں آ جاتی ہیں اور پولیس انہیں مجرم کے عنوان سے قید کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ جو ہاٹلائن انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے بتائی گئی وہ یہ ہے کہ جب ۴۰ فیصد قید عورتوں سے انٹرویو لیا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ پولیس اہلکار اور پولیس آفیسر طوائف خانوں کے مستقل گاہک ہیں۔ یہاں تک کہ پولیس آفیسر "موشہ نیراھی" کو ایک کانفرنس میں اقرار کرنا پڑا کہ اسرائیل میں عورتوں کی اسمگلنگ ایک ایسا جرم ہے جو منظم اور قانونی ہے۔

دنیا میں سیکس کی تجارت نے عالمی انسانی معاشرے کو ایک عظیم خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اس لیے کہ اس عمل نے انسان کی قدر و قیمت کو ایک بے جان سامان کی حد تک گرا دیا ہے اور عورتوں کو صرف اپنی جنسی خواہشات پورا کرنے کے لیے عالمی منڈی میں ایک بے جان شئی کی طرح خرید و فروخت کیا جاتا ہے۔ اس خطرے سے اسرائیل اور یہودی برادری سمیت دنیا کے بہت سارے دیگر ممالک بھی دوچار ہیں چونکہ اس تجارت میں ملوث افراد کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ عورت کس ملک سے ہے اور کس مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔
 
منبع:
http://khbn.ir/JXd1FkD
http://khbn.ir/brpv
http://khbn.ir/4lpkT
www.something jewish. Co. Uk hasddi westbrook

جنسی غلامی امریکہ کی ماڈرن تجارت

  • ۳۹۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ جو آج ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے اگر اس کی ترقی کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ملک کی ساری ترقی اور پیشرفت استعماریت اور سامراجیت کی مرہون منت ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جس کی تاریخ انسانوں کی تجارت اور نسل پرستی جیسے غیر انسانی عمل سے جڑی ہوئی ہے۔ آج اگر چہ غلاموں کی خرید و فروخت اور نسل پرستی پچھلے سالوں کی طرح اس ملک میں رائج نہیں ہے لیکن انسان فروشی کا اپڈیٹ ورژن یعنی جنسی غلامی یا سیکس کی تجارت دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر انجام پا رہی ہے۔ اس شرمناک تجارت میں خرید و فروخت کیا جانے والا سامان نہ صرف مرد و عورت ہیں بلکہ کم سن اور نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔
جنسی غلامی انسانی اسمگلنگ کا ایک پروڈیکٹ
جنسی غلامی کہ جو انسانی اسمگلنگ کا ایک پروڈیکٹ ہے نے عورت کو ایک طرح سے ’بے جان سامان‘ میں بدل دیا ہے۔ غربت اور مفلسی کا شکار ممالک سے عورتوں اور لڑکیوں کو اسمگلنگ کر کے مغربی اور امریکی ممالک میں لے جایا جاتا اور وہاں جنسی غلامی کے طور پر بے جان سامان کی طرح انہیں بازاروں میں فروخت کیا جاتا ہے، اورجنسی ہوس پرست یا دولت کے پوجاری ان عورتوں کی خریداری کر کے یا اپنے استعمال میں لاتے ہیں یا ان سے جنسی افعال کا ارتکاب کروا کر ان کی ویڈیوز کو مجازی دنیا میں پھیلا کر پیسہ کماتے ہیں۔
اس درمیان امریکہ جو دنیا پوری میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اس حوالے سے اس کی صورتحال تو بہت ہی بدتر ہے  «ABC News» نے جو ۲۰۰۶ میں رپورٹ شائع کی اس کے مطابق سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ عورتوں، لڑکیوں اور بچوں کو امریکہ اسمگلنگ کیا جاتا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں بعض بچوں کی عمر ۹ سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی وزارت عدلیہ نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ہر سال تین لاکھ امریکی صرف جنسی افعال کے ارتکاب کے لیے اسمگلروں کے دھندے کا نشانہ بنتے ہیں۔
عصمت فروشی کی آزادی
سوال یہ ہے کہ امریکہ یا دیگر ممالک میں کیا چیز باعث بنی کہ آج اس قدر دنیا میں عصمت فروشی کا بازار گرم ہو چکا ہے؟ عصمت فروشی کی آزادی کا سب سے پہلا عامل اور سبب مساج کے بازار کو گرم کرنا ہے۔ مساج کے عمل کو قانونی شکل ملتے ہی عصمت فروشی کا کام شروع ہو گیا اور لوگ بدن کے مساج کے بہانے بدکاری کو رواج دینے لگے۔ اور بظاہر مساج دینے لیکن حقیقت میں عصمت فروشی کے لیے لڑکیوں کی امریکہ میں اسمگلنگ کا دھندا کافی زور پکڑ گیا۔ دوسرا بڑا سبب خود میڈیا اور سوشل میڈیا ہے جس نے انٹرنٹ، اخباروں، جریدوں حتیٰ کتابوں کے ذریعے ننگی تصاویر، پوسٹر اور سیکسی فیلمیں شائع کرکے لوگوں میں اس بدکاری کو رواج دیا۔ در حقیقت اگر مرد عورت کو صرف جنسی ہوس کو پورا کرنے کا آلہ سمجھے گا تو پیسے یا ہر دوسری قیمت پر اسے حاصل کرکے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کرے گا۔
انسانیت سے عاری اس دردناک و تلخ حقیقت نے جتنا منافع سرکاری اور غیرسرکاری عہدیداروں کو دیا ہے اتنا کسی دوسری تجارت نے نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اس عمل کی روک تھام کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے دنیا میں جنسی غلامی، لڑکیوں کی اسمگلنگ اور سیکس کی تجارت دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

 بقلم میلاد پور عسگری
منابع:
www.humanevents.com/article. Phpsid=39032
www.msmagazine.com

 

عالمی معیشت کی رگ حیات یہودی تاجروں کی مٹھی میں

  • ۳۲۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پندرہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی تک یہودیوں نے ابربیان جزیرہ سے مغربی اور شمالی ممالک کی طرف کثرت سے نقل مکانی کی۔ اس نقل مکانی سے سرمایہ داری کے جدید نظام کو وجود بخشنے میں ایک طرف یہودیوں کو اچھا خاصا موقع مل گیا دوسری طرف یہودیوں کو مالی ڈھانچے مضبوط بنانے میں کافی مدد مل گئی۔
عبری زبان کی یروشلم یونیورسٹی کے مورخین نے یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عصر جدید کی معیشت میں یہودیوں کے بنیادی کردار میں سب سے زیادہ موثر گردانا ہے۔(۱) بحیرہ روم کی بندرگاہوں پر ہسپانوی اور پرتگالی یہودیوں کا تسلط علاقے میں انجام پانے والے تجارتی امور کو بے حد متاثر کرتا ہے۔
مشرقی بندرگاہوں پر قابض یہودی مغرب کے ساتھ تجارت میں واسطہ ہونے کا کردار ادا کرتے تھے اور ہالینڈ اور برطانیہ کے اکثر تجارتی کمپنیوں کے نمائندے جو بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں جیسے فلسطین، لبنان، شام اور اردن پر تجارتی سرگرمیاں انجام دیتے تھے سب یہودی تھے۔
پولینڈ کے یہودی جرمنی کے یہودیوں کے مال سے فائدہ اٹھاتے تھے اس طریقے سے پوری دنیا کی تمام تجارتی شاہراہوں پر یہودیوں کا قبضہ تھا جس کے بعد ایک منظم اور منسجم بین الاقوامی چینل وجود میں آیا جس کے ہر اہم نقطے اور مرکز پر یہودیوں نے اپنا قبضہ جما لیا۔
آج دنیا کی معیشت کی تمام رگہائے حیات یہودیوں کے پنجے میں ہیں دنیا کے تمام بڑے اقتصادی مراکز پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور تمام بین الاقوامی تجارتی تنظیمیں یہودیوں کے ذریعے کام کر رہی ہیں۔(۲)
[۱]Judaica,vol. 3, p. 167 / 5
[۲] Judaica, vol. 11, p. 1024.
………………

 

مسجد الاقصیٰ کی تاریخی حیثیت

  • ۴۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلہ اول کہا جاتا ہے۔ اسے اسلامی نقطۂ نظر سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مقدس ترین مقام کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مسجد فلسطین کے دارالحکومت بیت المقدس کے مشرقی حصے میں واقع ہے، جس پر اس وقت اسرائیل کا قبضہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کے اندر پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، البتہ اس کے وسیع صحن بھی موجود ہیں، جن میں ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن حکیم کی سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ آیت رسول اسلامؐ کے واقعۂ معراج کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ واقعہ اپنے مقام پر جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و فضیلت پر دلالت کرتا ہے، وہاں مسجد اقصیٰ کے فضل و شرف کا بھی غماز ہے۔ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔ “پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے اردگرد کو ہم نے برکتوں والا بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھا سکیں، بے شک وہ وہی ہے جو سمیع بھی ہے بصیر بھی۔”
مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلہ اول اس لیے کہا جاتا ہے کہ معراج شریف میں نماز کے فرض ہونے کے بعد سولہ سے سترہ ماہ تک مسلمان اسی مسجد کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، بعدازاں مدینہ شریف میں ایک نماز کے دوران میں قبلہ کی تبدیلی کا حکم آگیا اور خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا گیا۔ تاہم ایک عرصے تک پیغمبر اسلام ؐاور مسلمانوں کا قبلہ رہنے کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کو ایک خاص مقام حاصل ہوگیا۔ احادیث کے مطابق مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی کی طرف سفر کرنا باعث برکت ہے۔ شیعہ روایات کے مطابق مسجد کوفہ کو بھی ان بافضیلت مساجد میں شمار کیا گیا ہے، جن کی طرف سفر کرنا باعث برکت ہے۔ بیت المقدس مختلف ادوار میں مختلف اقوام کے زیر اقتدار رہا ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کو اس شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ پھر ایک مدت تک بنی اسرائیل صحرائوں میں بھٹکتے رہے، بعدازاں وہ اس شہر کی طرف آئے اور اسے فتح کر لیا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں اس شہر میں یہودیوں کی حکومت رہی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی زندگی میں تو یہودیوں نے ان پر ظلم و ستم روا رکھا اور ان کے الہیٰ مقام و مرتبہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، لیکن بعدازاں ایک عرصہ تک مسیحیوں کی بھی اس شہر پر حکومت رہی۔ ۱۵ ہجری میں خلیفہ ثانی کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا۔ صخرہ، مسجد اقصیٰ کے قریب وہ مقام ہے، جہاں سے نبی کریمؐ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ آج کل دنیا میں الاقصیٰ کے ذکر کے ساتھ جو تصویر آنکھوں کے سامنے ابھرتی ہے، وہ اسی مقام کی ہے، جس کے اوپر عبدالمالک بن مروان کے دور میں ایک گنبد تعمیر کر دیا گیا تھا۔ مسجد اقصیٰ سے یہ مقام چونکہ بہت قریب ہے، اس لیے یہی مسجد بعد میں مسجد اقصیٰ کہلائی۔
فلسطین کی آبادی نے رفتہ رفتہ اسلام قبول کر لیا۔ اس طرح سے فلسطین کی سرزمین آغوش اسلام میں آگئی۔ یہودیوں کی مختصر آبادی کے علاوہ عیسائیوں کی بھی کچھ آبادی اس سرزمین پر ہمیشہ موجود رہی۔ رسول اسلامؐ سے پہلے چونکہ یہ سرزمین ہمیشہ انبیاء کا مرکز رہی ہے، اس لیے دنیا کے تین بڑے ادیان کے نزدیک یہ آج بھی محترم ہے۔ شاید دنیا میں کسی اور سرزمین کو یہ خصوصیت اور حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ مسجد اقصیٰ کا بانی کون ہے، بعض لوگ حضرت آدمؑ کو، بعض حضرت ابراہیمؑ کو اور بعض حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس کا بانی قرار دیتے ہیں، اسرائیل بھی حضرت یعقوبؑ ہی کا نام ہے اور آپؑ ہی کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ آپؑ کی اولاد میں سے حضرت سلیمانؑ نے بھی یہاں معبد تعمیر کیا۔ اسی کو ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت سلیمان نے اس معبد کی تجدید کی، جسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا یا جو پہلے سے یہاں پر موجود تھا۔
یہودی چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے، اس لیے وہ چیزیں جو ان دو ہستیوں سے مربوط ہیں، ان کے احترام کے بھی قائل نہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت جس جگہ پر مسجد اقصیٰ موجود ہے، اسی کے نیچے ہیکلِ سلیمانی کی عمارت موجود ہے۔ اسی لیے ان کی خواہش یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کو گرا کر ہیکلِ سلیمانی کو بحال کیا جائے۔ یزید بن معاویہ کے بعد مروان بن حکم نے حکومت سنبھال لی، چونکہ یزید کے بیٹے نے تخت حکومت پر بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ مروان کی حکومت زیادہ دیر نہ رہی۔ اس کی وفات یا ایک قول کے مطابق قتل کے بعد حکومت عبدالملک بن مروان کے ہاتھ آگئی۔ اس کے دور حکومت کے آغاز میں مکہ مکرمہ پر حضرت عبداللہ ابن زبیر کی حکومت تھی۔
حج کے موقع پر وہ اپنی طرف حاجیوں کو دعوت دیتے تھے۔ عبدالملک کو یہ گوارا نہ تھا کہ شام سے جانے والے لوگوں کو وہ اپنی طرف مائل کر لیں۔ اُس نے مناسب سمجھا کہ لوگوں سے کہا جائے کہ مسجد اقصیٰ بھی مسجد حرام ہی کی طرح عظمت رکھتی ہے۔ حج کے لیے اس کی طرف بھی جایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو شروع کروائی، گنبد صخرہ بھی بہت خوبصورت بنوایا، تعمیر کا کام البتہ اس کے دور میں مکمل نہ ہوسکا، اس کے بیٹے ولید بن عبدالملک نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر مکمل کروائی۔ عباسی حکمران ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کروائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے اس کے اندر بہت سی تبدیلیاں کیں، کئی نئی عمارتیں بھی بنائیں، بعدازاں صلاح الدین ایوبی نے ۱۱۸۷ء میں عیسائیوں کو شکست دے کر بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور اسلامی آثار کو بحال کر دیا۔ اُسی نے مسیحی نشانات سے مسجد کو پاک کروایا۔
تحریر ثاقب اکبر

 

ایران کے ساتھ امریکہ کی جنگ کیوں نہیں ہو گی؟

  • ۳۲۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جب ہم ایک سیاسی اقدام کی بات کرتے ہیں تو در حقیقت ہم نے دو دوسرے عناصر کو مد نظر رکھا ہے جو اس سیاسی اقدام میں مضمر ہیں۔ اول وہ فاعل جس نے یہ سیاسی اقدام انجام دیا ہے اور دوئم وہ ارادہ اور فیصلہ ہے جو اس اقدام کے پیچھے کارفرما ہے۔ ان دو عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہئے کیونکہ اقدام کرنے والا ضرورتا اپنے ہی ارادے اور فیصلے پر عمل نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات افراد کسی اور کے ارادے اور فیصلے کے تابع ہیں۔ جس طرح کہ شاہ ایران محمد رضا پہلوی کی فوج امریکی ارادے پر عمان کے علاقے ظفار کی جنگ میں کود پڑی یا حسنی مبارک کے دور کے مصر نے یہودی ریاست کی نیابت میں غزہ کا محاصرہ کرلیا۔
اجازت دیجئے کہ سوال: “جنگ کیوں نہیں ہوگی؟” کا جواب دینے کے لئے اپنے آپ کو امریکیوں کے فیصلہ سازی کے کمرے کر اندر فرض کریں اور ان کی طرف سے فیصلہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس فرض کے ساتھ کہ امریکہ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
وہ دو طریقوں سے ایران پر فوجی حملہ کرسکتے ہیں۔ ویت نام ۱۹۵۵ع‍، افغانستان ۲۰۰۱ع‍ اور عراق ۲۰۰۳ع‍ کے بعد امریکیوں کا تجربہ یہ ہے کہ ابتداء میں اپنی پراکسی فورسز کو روانہ کریں۔ اگرچہ اوباما اور ٹرمپ کے انتخابی نعروں میں ایک نمایاں نعرہ یہ تھا کہ وہ ان علاقوں سے نکل کر چلے جائیں گے۔ علاقے میں امریکہ کے اہم مہرے سعودی عرب، امارات اور اسرائیل ہیں۔
تو ہم جو امریکی ڈسیجن روم میں بیٹھے ہیں کیا ان تین مہروں کو ایران کی طرف حرکت میں لائیں؟ جبکہ سعودی عرب اور امارات کو یمنی ڈرون حملوں کا سامنا ہے۔۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سعودی ولیعہد ایم بی ایس نے ۲۰۱۸ع‍ میں امریکہ کا ایک طویل المدت دورہ کیا جس کے دوران تفصیلی منصوبے بنائے گئے اور ایم بی ایس خیر سے ایران پر حملہ کرنے کا ایک جامع منصوبہ لے کر ریاض واپس آ گئے لیکن ان کے خیرمقدم کے لئے یمنی مجاہدین نے کچھ میزائلوں کا رخ ریاض کی طرف کیا، تمام دفاعی نظامات کا ستیا ناس ہوا اور ریاض کی فضاؤں کو خراشا گیا اور یوں “ایران پر حملے کا سعودی منصوبہ” اسی مختصر سے خیرمقدم کی وجہ سے چوپٹ ہوا۔ یہ وہ ممکنہ سعودی کاروائی تھی جس کی طرف اسی سال مئی میں مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا تھا۔ میزائل اور ڈرون یعنی سعودی اور امارات کے تیل کے ذخائر کو خطرہ، یعنی تیل کی قیمتوں کا امریکی کنٹرول سے خارج ہوجانا۔ اور پھر سعودی اور امارات کی افواج سے زیادہ پیشہ ور اور زیادہ جذبۂ جنگ سے مالامال تو ان کی مشترکہ دست پروردہ دا‏عش کے دہشت گرد تھے جو سعودیوں اور اماراتیوں کے اسلحے سے لیس ہوئے اور لڑتے لڑتے تقریبا دو ملکوں پر قابض بھی ہوئے مگر پھر اچانک مزاحمت کے دستے میدان جنگ میں اترے اور نقش بدل گیا اور جو سعودیوں اور اماراتیوں سے زیادہ پیشہ ور تھے اور ان سے زیادہ بےجگری سے لڑتے تھے، نہ صرف اپنی مقبوضہ سرزمینوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ ان ملکوں میں مزاحمت کی فوج باضابطہ طور پر تشکیل پائی اور آج عراق اور شام باضابطہ اور اعلانیہ طور پر محاذ مزاحمت کے اہم اراکین ہیں، یہاں تک کہ پامپیو ایران کو پیغام پہنچانے کے لئے جرمنی کا دورہ منسوخ کرکے عراق چلے آتے ہیں۔ اب ۲۱ مارچ ۲۰۱۹ع‍ کو مشہد میں عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران  رہبر انقلاب امام خامنہ ای کی ضمنی دھمکی بھی سمجھ میں آتی ہے جہاں آپ نے فرمایا کہ “سعودی سرزمین کا انجام محاذ مزاحمت کے مجاہدوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ امارات تو ویسے بھی شیشے کی عمارت ہے اور اس میدان میں اس کی صورت حال بہت زیادہ زد پذیر ہے۔
جبکہ امریکی پراکسی فورسز میں تیسرے عنصر یعنی یہودی ریاست کی صورت حال اور بھی عجیب ہے۔ ایک ہی ہفتہ قبل اس نے ایک بار پھر غزہ میں اپنی رقیب مزاحمتی فورسز پر حملہ کیا اور صرف دو دنوں میں شکست قبول کرنے پر مجبور ہوئی۔ یہودی ریاست کے کرتے دھرتوں کے اپنے اعتراف کے مطابق کم از کم ۴۹۰ میزائلوں نے آئرن ڈوم نامی میزائل و فضائی دفاعی نظام کو پیچھے چھوڑ دیا اور ابھی اسے ایک عرصے تک اپنے زخم چاٹنے سے فرصت تک نہیں ہے۔ حماس سے کچھ ہی فاصلے پر شمال کی طرف لبنان کی حزب اللہ ہے جو تمام تر ہتھیاروں اور وسائل سے لیس ہوکر مقبوضہ فلسطین سے چپک کر اسرائیلیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اور اس ایک خاص نکتے کا بھی اضافہ کریں کہ جیسا کہ سید حسن نصر اللہ نے یہودی ریاست کو دھمکی دی ہے “اگر کوئی جنگ شروع ہوجائے تو اسرائیل کو اندر سے جواب ملے گا”۔ اور پھر ان نکات کے ساتھ ساتھ شام میں ٹی فور کے ایرانی اڈے پر یہودی ریاست کے حملے کے زخموں سے ابھی خون رس رہا ہے۔ جو میزائل انھوں نے پھینکا تھا اس کے جواب میں جولان کے علاقے میں ۶۰ سے زائد اسرائیلی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور یوں ایک میزائل حملے پر ۶۰ سے زائد جوابی حملے ہوئے۔ جولان میں تباہ ہونے والے ٹھکانوں میں موساد کا ایک خفیہ اڈہ بھی شامل تھا؛ اور پھر بہت بعید از قیاس ہے کہ اسرائیلیوں نے کردستان کی تقسیم کا منصوبہ بھلا دیا ہو جس کے جواب میں تکریت اور اس میں موجود تیل کے کنؤیں پر الحشدالشعبی کی مجاہد فورسز یعنی اسلامی محاذ مزاحمت کے ہاتھوں میں آزاد ہوئے۔ چنانچہ ان تین نیابتی فورسز کو ایران کی طرف حرکت دینا ممکن نہیں ہے اور یوں حالات امریکہ کے حق میں آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔
یا یہوں کہئے کہ امریکیوں کو اپنے نیابتی یا پراکسی عناصر کو حرکت دینے کی راہ میں دو مسائل کا سامنا ہے: اول یہ کہ ان مہروں میں سے ہر ایک کو محاذ مزاحمت کے ایک یا چند کھلاڑیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؛ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ مہرے جہاں بھی کسی میدان میں کود پڑے ہیں، اس علاقے سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس بار یہ لوگ اپنی تعیناتی کے مقام یا اپنے ممالک یا زیر قبضہ ممالک سے جب اس میدان جنگ میں اتریں گے تو یقینا انہیں کھو دیں گے اور واپسی کے لئے ان کے پاس کوئی سرزمین نہ ہوگی۔ چنانچہ پراکسی مہروں کو ایک طرف رکھا جاتا ہے یا انہیں اس جنگ سے میں کودنے سے معاف کیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ براہ راست اس جنگ میں کود جائے تو کیا ہوگا؟ تو ایرانی کمانڈروں کا جواب یہ ہے کہ جس قدر کہ امریکی سازوسامان، فضائیہ اور میزائلوں کے اڈے، زمینی اہداف نیز سمندری بیڑے ہمارے قریب تر ہونگے اسی تناسب سے صحیح نشانے پر لگنے والے میزائلوں، ڈرون طیاروں اور عاشورا نامی تیزرفتار اور ہر دم تیار کشتیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ یقینا امریکہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ نامہ نگاروں کے کیمرے اس کے طیارہ بردار جہازوں کے ڈوب جانے کی تصویروں کو ذرائع ابلاغ کی زینت بنا دیں کیونکہ اس صورت میں اس کی تنکوں کے سہارے فوجی طاقت کی حقیقت فاش ہوکر رہ جائے گی۔
امریکہ اور یہودی ریاست نے عرصہ دراز سے آئرن ڈوم نامی میزائل دفاعی سسٹم کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے مگر حالیہ مختصر سی لڑائی میں اس کی حقیقت پہلے سے کہیں زیادہ عیاں ہوئی اور محاذ مزاحمت کے داغے گئے ۷۰۰ میزائلوں میں سے ۴۹۰ میزائل اپنے متعینہ اہداف کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوئے، تو امریکہ کے دیوہیکل بحری جہاز تو ایرانی دفاعی افواج کے لئے کافی بڑے اور غیر متحرک اہداف سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ امریکہ کی نیابت میں کردار ادا کرنے والے ممالک بھی ہیں جن سے اگر امریکیوں نے ایرانی اہداف پر حملہ کیا تو یہ ممالک بھی امریکی سرزمین کے زمرے میں آئیں گے اور عالمی اخلاقیات و قوانین کی رو سے ان پر بھی جوابی حملے جائز تصور کئے جائیں گے؛ چنانچہ یہ ممالک بھی امریکی پراکسی فورس کے طور پر ایران کے ساتھ براہ راست جنگ میں الجھے بھی بھی زیادہ محفوظ بھی نہیں رہ سکیں گے اور پراکسی فورسز پھر بھی جنگ میں شامل تصور کی جائیں گی۔
چنانچہ جنگ نہیں ہوگی کیونکہ جب آپ امریکہ کی آنکھ سے میدان جنگ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں کہ جنگ شروع ہونے کی صورت میں مغربی ایشیا اور خلیج فارس میں امریکی موجودگی جاری رہنے کا امکان بہت زیادہ کمزور ہوجائے گا، بالکل اسی طرح جس طرح کہ شام میں جنگ شروع ہونے کی وجہ سے امریکہ کے سات ٹریلین اخراجات کے باوجود، آخر کا اسلامی مزاحمت کا پرچم مغربی ایشیا کی چوٹی پر لہرایا گیا۔
بقلم: کمیل خجستہ
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

۷۱ سالہ اسرائیل؛ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور

  • ۴۳۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی ریاست نے حالیہ دنوں اپنی عمر کے ۷۱ سال مکمل ہونے کا جشن منایا تاکہ اس کے حکمران کچھ دیر کے لیے اپنے درپیش چیلنجیز کو بھول سکیں۔ اسرائیل کا وزیر اعظم اور دیگر عہدیدار ہمیشہ اس ریاست کی موجودگی کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل کی عمر کو آگے بڑھائیں اور اس کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں لمحہ بھر کے لیے کوتاہی نہ کریں۔
صہیونیوں نے فلسطینی عوام کے “حق واپسی” پیدل مارچ کو سختی سے سرکوب کرتے اور مظاہرین کو جنگی گولیوں کا نشانہ بناتے اور ہر دن اپنے آقا امریکہ کے ساتھ روابط کا طبل بجاتے ہیں تاکہ اسرائیل کی حیات کے جاری رہنے پر اطمینان حاصل کر سکیں۔
ان تمام چیزوں کے باوجود اسرائیل کی زندگی ہمیشہ سے ایک بہت بڑے چیلنج کے روبرو ہے اور علاقے میں اس کی موجودیت رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے چیلنج کی جاتی ہے۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای اکثر اوقات اپنے بیانات میں تاکید کرتے ہیں کہ اسرائیل کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے اور یہ ریاست عنقریب نابودی کا شکار ہو گی۔
کبھی رہبر انقلاب اسلامی، صہیونیوں کی مقبوضہ فلسطین میں اپنی حاکمیت جاری رکھنے کے لیے تمام تر تلاش و کوشش کے باوجود، اس رژیم کے زوال کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
“یہ سفاکی اور جارحیت، غاصب رژیم کے رہنماوں اور حامیوں کو مقصد تک نہیں پہنچا پائی ہے، برخلاف اقتدار اور استحکام کی احمقانہ آرزو کے جو خبیث سیاست باز صہیونی ریاست کے لیے اپنے ذہنوں میں پالتے رہتے ہیں یہ رژیم دن بدن زوال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے”۔
اور کبھی رہبر انقلاب قرآن کریم کی آیت سے استناد کرتے ہوئے اسرائیل کی نابودی کا یوں وعدہ دیتے ہیں: “اس میں شک نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیل کے شجرہ خبیثہ “اجتثت من فوق الارض ما لها من قرار” کی کوئی بنیاد اور اساس نہیں ہے لہذا بغیر شک کے اسے نابود ہونا ہے”۔
کیا چیز سبب بنی ہے کہ صہیونی ریاست جسے بظاہر دنیا کی سب سے بڑی استعماری طاقت کی حمایت حاصل ہے اور جو عظیم مالی ذخائر اور فوجی قوت کی حامل ہے اس طریقے سے زوال اور نابودی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے؟
اسرائیل کو کچھ بیرونی اور کچھ اندرونی چیلنجیز کا سامنا ہے جن کی وجہ سے اسرائیل موت کے دلدل میں گرفتار ہو چکا ہے۔ یہ وہ چلینجیز ہیں جن سے صہیونی ریاست ۷۱ سال سے روبرو ہے اور معلوم نہیں کب یہ اسرائیل کی نابودی کو یقینی بنا دیں۔
اسرائیل کا غیر قانونی ہونا ایک دائمی چیلنج
اسرائیل اپنی تشکیل کے روز اول یعنی ۱۹۴۸ سے اب تک اس مشکل سے گرفتار ہے کہ وہ ایک غیر قانونی ریاست ہے۔ اسی وجہ سے ابتدائی دنوں میں ہی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل مخالف لہر وجود میں آئی اور اس کا نتیجہ اسرائیل کے خلاف جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔ اگر چہ اس جنگ میں اسرائیل کو ہی کامیابی نصیب ہوئی لیکن اس کے بعد اسلامی انقلاب کا وجود اسرائیل کی حیات کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آیا۔
ایران میں اسلامی جمہوریہ کا قیام اور علاقے کے دیگر علاقوں میں انقلابی افکار کی ترویج صہیونی ریاست کی مقبولیت کی راہ میں سد باب بن گئی جس کی وجہ سے اب تک اسرائیل اس مشکل کو حل کرنے پر قادر نہیں ہو سکا۔
اسرائیل کے پاس خود کو بچانے کا واحد راستہ امریکہ کی پناہ حاصل کرنا تھا لہذا امریکہ ۷۱ سال سے ایک بڑے بھائی کی طرح اس یہودی ریاست کی حمایت کر رہا ہے۔ لہذا یہ پوری جرئت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو یہ یہودی ریاست اب تک صفحہ ہستی سے محو ہو چکی ہوتی۔
اسرائیل کو درپیش اندرونی چلینجز
اسرائیل کو نہ صرف بیرونی چیلنجیز کا سامنا ہے بلکہ وہ اندرونی طور پر شدید مشکلات سے دوچار ہے، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سے لے کر فوجی چھاونیوں اور اداروں میں جنسی فساد کا پھیلاو، رشوت خواری اور کام چوری جیسے مسائل اندرونی طور پر اسرائیل کے لیے سخت چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
اسرائیل ایسے حال میں اپنی ۷۱ سالہ عمر کا جشن منا رہا ہے کہ چاروں طرف سے اس پر موت کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ دنیا میں انگشت شمار ریاستوں کے علاوہ اسرائیل کا کوئی حامی نہیں ہے، اسرائیل کی فوجی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ کمزور پڑ چکی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج میں جنسی فساد حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ وہ فوج جو علاقے میں سب سے زیادہ قوی اسلحے کی حامل ہے مزاحمتی گروہوں کے چند میزائلوں اور راکٹوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے اور دو دن کی جنگ کے بعد جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
اسرائیل کو درپیش چیلنجیز کی طرف مختصر نگاہ دوڑانے سے بخوبی یہ جانا جا سکتا ہے کہ صہیونی ریاست زوال کی طرف گامزن ہے اور اس کے عہدیدار جو اسرائیل کی نجات کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں وہ اب کارآمد ثابت نہیں ہوں گے اور اسرائیل کی نابودی بحمد اللہ یقینی ہے۔

بقلم مجید رحیمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ٹروجن ہارس اور ایران کا بھوت

  • ۴۲۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی کارستانیوں کو کون نظر انداز کر سکتا ہے، پورے پورے الیکشن سے لیکر کسی بھی ملک کی دفاعی پالسیی  تک پر سوشل میڈیا کا اثر انداز ہونا  ایک عام بات ہے۔
اگر ہم سوشل نیٹ ورک کی سائٹس پر ایک معمولی سی  نظر ڈالیں گے تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا کہ کہنے کو تو یہ سوشل میڈیا ہے لیکن اسکا  پورا پلیٹ فارم  ان لوگوں  کے ہاتھوں میں ہے جو کہیں نہ کہیں سے استعمار و سامراج کے ہاتھوں کھلونے بنے ہوئے اسکے کاموں کو آگے بڑھا رہے ہیں ، کہیں یہ کھلونے  استعماری مفادات کے حصول کو یقینی بنا رہے ہیں  تو کہیں خود سامراج کھلم کھلا اپنے شطرنجی مہرے سجائے لوگوں کے ذہن و دل و دماغ کو مختلف بہانوں سے کنڑول کر رہا ہے  چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کا اصل پلیٹ فارم  سامراج کے ہاتھوں میں ہے اور سماجی رابطوں کی زیادہ تر سائٹس بھی  وہیں سے آپریٹ ہوتی ہیں وہ لوگ بہت ہی سادہ ہیں جو یہ مان کر چلتے ہیں کہ سوشل میڈیا محض اطلاع رسانی کا ایک ذریعہ ہے اور اسکے ذریعہ ہم ایک دوسرے سے جڑ تے ہیں  ، حقیقت تو یہ ہے کہ  زیادہ تر سوشل میڈیا کی سائٹس  عالمی سامراج کے  ہاتھوں میں ایک ایسے آلے اور ذریعہ کے طور پر کام کر رہے ہیں  جنکے ذریعہ  استکباری  مفادات کے حصول کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے  اور اپنی خاص اسٹراٹیجی کے تحت یوں استعمال کیا جاتا ہے کہ لوگ خود چل کر سامراج کے  دیو کے چرنوں میں اپنا سر رکھ دیتے ہیں اور سوچتے ہیں ہم کسی دیوتا  پر پھول چڑھا رہے ہیں ، چنانچہ آپ دیکھیں ایک طرف داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ بھی سوشل میڈیا کے استعمال کے سلسلہ سے کھلا نظر آتا ہے تو دوسری طرف انکی مذمت کرنے والے اور انکے خلاف مواد فراہم کرنے والوں  کی پوسٹیں بھی گردش کرتی نظر آ رہی ہیں  چنانچہ ،مغرب  کی جانب سے دہشت گرد عناصر کے  سوشل میڈیا کے دھڑلے سے استعمال پر خاموشی  اس  فرض کی تقویت کا سبب ہے کہ آج عالمی سامراجیت دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے شئیر کئے جانے والے مفاد کو اپنے حق میں دیکھ رہی ہے اسی لئے انکے پھیلاو کو لے کر کوئی ٹھوس قدم اٹھتا نہیں دکھتا  ۔آپ تکفیری گروہوں کو ہی لے لیں جنہوں نے زیادہ تر شدت پسندانہ کاروائیوں کو سوشل میڈیا پر پھیلایا ہے  جبکہ  یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ ہر پیج اور ہر سائٹ  کے قوانین میں یہ بات ہے کہ  کسی  بھی طرح کے شدت پسندانہ مواد کو شائع نہیں ہونے دیا جائے گا ، آپ نے بارہا سنا ہوگا کہ شدت پسندانہ تنظیموں کی طرف شک کی سوئی گھوم جانے کی بنیاد پر مختلف اکاونٹس کو بلاک کر دیا گیا خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق سپاہ پاسداران  سے جڑے اکاونٹس  یا حزب اللہ سے جڑے پیجز جبکہ ان اکاونٹس میں ایسا مواد کہیں نظر نہیں آئے گا جہاں وسیع پیمانے پر  اجتماعی پھانسیوں کے مناظر ، موت کے گھاٹ اتارے جانے کے مناظر ،اپنے ہی علاقے ،یا مقبوضہ علاقے کے لوگوں کے اور اسیروں کے سروں کے اتارنے کے مناظر ، انکے اعضا کو کھانے اور چبانے کے مناظر  دکھا کر لو گوں میں دہشت پھیلائی جا رہی ہو ۔ کیا یہ اپنے آپ میں عجیب نہیں ہے کہ ایک طرف تو داعش جیسی تکفیری تنظیموں کے لئے اتنی فراخدلی ہے کہ ہر طرح کے ویڈیوز آپکو ہر جگہ معمولی سرچ پر مل جائیں گے  جبکہ  دوسری طرف انہیں  تہذیب و تمدن کے دیوتا  بنے مغربی ممالک نے ایسے اکاونٹس کو بند یا بلا ک کر دیا جن کے بارے میں انہیں لگا کہ اسکا تعلق اسلامی جمہوریہ سے ہے ۔ آپ ثبوت کے طور پر  دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے ایسے پیجز ہیں جنہیں محض اس بنیاد پر بند کیا گیا ہے کہ انکا تعلق ایران سے ہے  [۱]  چنانچہ  آپکو  حزب اللہ ،و حماس کے بعض بہت سے ایسے پیجز مل جائیں گے جو اب دسترس میں نہیں ہیں ۔اب ہر انسان کے سامنے ایک سوال ہے کہ آخر معاملہ کیا ہے ؟ کیوں اسلامی جمہوریہ ایران ہی ٹارگٹ پر ہے، اسے ہی ایک بھوت کے طور پر کیوں پیش کیا جا رہا ہے جس سے مقابلہ نہیں کیا تو یہ سب کو کھا جائے گا  ، اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ایران نواز افراد  یا ایک ہی مسلک کے لوگوں کو کھٹکتی ہو بلکہ ایسی چیز ہے جسے خود وہی لوگ اپنے آپ بیان کر رہے ہیں جو استعمار و سامراج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور خود کو دنیا میں حقیقت پسند و منصف مزاج کہتے ہیں  ، ابھی کچھ دنوں  قبل ہی بی بی سی نے ایک تجزیہ  اس عنوان کے تحت پیش کیا تھا کہ[۲] Why the WhatsApp spies may have eyes on Iran ’’ واٹس ایپ جاسوس ایران پر کیوں نظریں گاڑے ہوئے ہیں؟‘‘ اس تجزیہ سے پتہ چلتا ہے سوشل میڈیا اور سماجی رابطوں پر کس طرح ایران کا بھوت سوار ہے  آپ ذرا  بی بی سی بیورو چیف واشنگٹن، پال دانهار[۳] کا یہ تجزیہ ملاحظہ فرمائیں  جو انہوں نے خاص کر واٹس اپ کے سلسلہ سے کیا ہے
وہ لکھتے ہیں :
’’اخبار فائنینشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیکرز نے واٹس ایپ کی سکیورٹی میں پائی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند صارفین کے موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز تک رسائی حاصل کر کے ان میں نگرانی کے سافٹ ویئر انسٹال کیے۔
اس حملے کی تصدیق واٹس ایپ نے بھی کی اور تسلیم کیا کہ کچھ ’مخصوص صارفین‘ کو نشانہ بنایا گیا ۔اطلاعات کے مطابق یہ حملہ ایک اسرائیلی سکیورٹی فرم ’این ایس او گروپ‘ کی جانب سے بنائے گئے سافٹ ویئر سے کیا گیا ہے۔
اب اس سارے معاملے میں کڑیاں ملانے کا وقت ہے۔واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو ‘سبوتاژ’ کرنے کی کوشش، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کی کڑیاں ہیں اور مشرق وسطیٰ میں تنازع کے مرکزی کردار اسرائیل، ایران اور سعودی عرب ہیں۔‘‘
بظاہر تو جس طرح سے وہ کڑی سے کڑی ملا رہے ہیں اس حساب سے  ایران کا بھوت کافی خطرناک دکھ رہا ہے  اس لئے کہ اسرائیل و سعودی عرب تو ایک ہی مقام پر ہاتھ میں ہاتھ دئیے کھڑے ہیں رہ جاتا ہے ایران جو دونوں ہی کی یلغار کی زد پر ہے لیکن یہاں پر کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ جب حملہ  اسرائیلی ساخت کے سافٹ وئیر سے انجام دیا گیا ہے تو سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ سافٹ وئیر حملہ آوروں تک کیسے پہنچا ؟ کیا اسرائیل اتنا بھولا ہے کہ کسی بھی سافٹ  وئیر کو کسی کے بھی حوالے کر دے ؟
حملہ کیسے ہوا ؟
واٹس پر حملے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ہیکرز نے واٹس ایپ کی وائس کال سروس کو استعمال کرتے ہوئے صارفین کے آلات کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں کال نہ بھی اٹھائی جائے تو بھی سافٹ ویئر انسٹال ہو جائے گا اور فون سے اس کال کا ریکارڈ بھی غائب ہو جائے گا۔واٹس ایپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی سکیورٹی ٹیم نے پہلے اس خامی کی شناخت کی جس کے بعد یہ معلومات انسانی حقوق کی تنظیموں، چند سکیورٹی فرموں اور امریکی محکمہ داخلہ کو بھی دی گئیں۔کمپنی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’اس حملے میں اس نجی کمپنی کی مہرِ تصدیق موجود ہے جو حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسے جاسوسی کے نظام پر کام کرتی ہے جو موبائل فون کے آپریٹنگ سسٹم پر قابو پا لیتا ہے۔‘
فرم نے سکیورٹی کے ماہرین کے لیے ہدایات بھی شائع کیں جس میں ان خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔جبکہ اسرائیلی این ایس او گروپ، جو ماضی میں ’سائبر آرمز ڈیلرز‘ کے طور پر پہچانا جاتا تھا، کا ایک بیان میں کہنا تھا ’این ایس او کی ٹیکنالوجی لائسنس یافتہ ہے اور اسے حکومتوں اور ایجنسیوں کو استعمال کرنے کا اختیار ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔ ان کا کہنا تھا ’ادارہ اس سسٹم کو نہیں چلاتا اور لائسنسنگ اور چھانٹی کے کڑے مراحل کے بعد خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ عوامی تحفظ کے مشن کے دوران کیسے ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے۔ ہم غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو کارروائی بھی کرتے ہیں جس میں نظام کی بندش بھی شامل ہے۔‘ ‘
یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس لائسنس اور سسٹم کی بات ہو رہی ہے اس کے کرتا دھرتا  اب تک اس حملے کی وجوہات بتانے میں ناکام کیوں ہیں ؟ جبکہ یہ اتنی خطرناک بات ہے کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جہاں تک  سافٹ وئیر بنانے والی کمپنی کا سوال ہے تو اسی تجزیہ میں پال دانهار[۴] لکھتے ہیں : ’’این ایس او گروپ ہیکنگ کے سافٹ ویئرز بناتی ہے اور اسے حکومتوں کو بیچتی ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔مگر یہ بھی اہم ہے کہ ان کو اس ٹیکنالوجی کو دیگر ممالک کو بیچنے کا برآمدی لائسنس اسرائیلی حکومت سے صرف اس صورت میں ملتا ہے جب یہ باور ہو جائے کہ اس کی فروخت سے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا‘‘۔ خود ہی بی بی سی کے یہ تجزیہ نگار  مختلف آگے چل کر اعتراف کرتے ہیں کہ ’’اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں ایران اور خلیجی ممالک کو اس کی فروخت نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ ماضی میں خلیجی ریاستوں کا فلسطین اسرائیل تنازع میں اسرائیل کے خلاف ہونا ہے۔عرب سپرنگ کے بعد خلیجی ریاستوں (ماسوائے قطر) نے مسئلہ فلسطین کو ترک کر دیا اور ایران کے خلاف اسرائیل کی طرف ہو گئے۔اس سست رفتار تبدیلی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور ان کی جانب سے اپنی انتظامیہ میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور مشیر قومی سلامتی جون بولٹن جیسے متعدد ایران مخالف نمائندوں کی تعیناتی سے تیز کر دیا تھا۔
اس متعلق بہت سی قیاس آرائیاں ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے خلیج میں اپنے نئے دوستوں سے تعلقات بنانے کے لیے این ایس او گروپ کو اپنے ان ہیکنگ سافٹ ویئرز کو خلیجی ممالک کو بیچنے کی اجازت دی ہو گی۔
اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ اطلاعات کے مطابق اس واٹس ایپ ہیکنگ حملہ کا نشانہ بننے والے وہ وکلا تھے جو خلیجی ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہے تھے۔ جن میں ایک سعودی نژاد اور دوسرا قطری شہری ہے۔‘‘
مذکورہ بالا جملوں سے واضح ہے کہ دبے الفاظ میں پال دانهار کو بھی اعتراف ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور حقیقت میں اس حملے کے تانے بانے اسرائیل سے جا کر جڑتے ہیں یہ اور بات ہے کہ لوگوں کی توجہات کو ہٹانے کے لئے بیک وقت مکمل طور پر فوکس ایران کی طرف ہو گیا ہے اور اسے ایسے خطرناک بھوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو لوگوں کی نجی زندگی میں بھی داخل ہو سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے اور اس نظر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ جتنے بھی سوشل رابطے کے ذرائع ہیں سب کنٹرول میں  رہیں  ۔ان تمام باتوں کی وجہ بھی  اسرائیل کا وہ خوف ہے جو پیر سے دانتوں تک مسلح ہونے کے بعد بھی اسے نہیں چھوڑ رہا  چنانچہ پال دانهار خود اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیں ’’اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا واحد مقصد ایران کو محدود کرنا بنا لیا ہے۔ اور وہ اسے اسرائیل کی سالمیت کے لیے واحد خطرہ قرار دیتے ہیں۔‘‘
یہاں تک تو بات اسرائیل کی ہے اسے ایران کو ایک بھوت کے طور پر اس لئے پیش کرنا ہے کہ اس کے لئے تو حقیقت میں ایران ایک بھوت سے کم نہیں جو بھوت اسے دکھ رہا ہے وہ سبکو دکھانا چاہتا ہے اور بتانا چاہتا ہے کہ یہ بھوت اگر ہم پر حملہ آور ہو سکتا ہے کہ کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ درمیان میں سعودی عرب کا معاملہ کیا ہے تو سعودی عرب کے سلسلہ سے وہ اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیں ’’سعودی حکمرانوں کو دو خطرات کا سامنا ہے، ایک بیرونی اور ایک اندرونی۔ بیرونی خطرے میں ایران جبکہ اندرونی خطرہ اخوان المسلمین سے ہے۔سعودی حکمران ایران کی فوجی قوت سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ اخوان المسلمین سے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان کی حکمرانی کے متبادل کے طور پر سیاسی اسلام پیش کرتے ہیں.‘‘ سعودی اور اسرائیل کی جانب سے ایران سے ڈر اور خوف کے چلتے ایسی فضا کی فراہمی تو واضح ہے جس میں یہ دونوں ہی ملک مشترکہ خطرے سے مقابلہ کے لئے ایک دوسرے کا تعاون کریں  اور دونوں ہی اپنے اپنے مذہبی دستورات کو نظر انداز کرتے ہوئے  فی الوقت ایران کی بڑھتی طاقت کو لگام دینے کی کوشش کریں لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں پر امریکہ کو کیا حاصل ہے ؟ اور وہ کیوں ان دونوں ملکوں کے ساتھ ایران کے پیچھے پڑا ہے ، تو اسکا جواب ایک الگ اور مستقل تحریر کا طالب ہے فی الحال مختصر طور پر اتنا ہی کہ اسرائیل امریکہ کی  ناجائز اولاد ہے جسے  بڑی مشکل سے امریکہ نے پال پوس کر خطے میں بڑا کیا ہے ، اب اگر اس پورے خطے میں امریکہ کی اس اولاد کو کسی سے خطرہ لاحق ہے تو وہ ہے ایران  علاوہ از ایں امریکہ کی چودراہٹ کے سامنے بھی اگر کوئی ملک ڈٹا ہوا دکھتا ہے تو بھی ایران ہی ہے دوسری طرف صورت حال  یہ ہے کہ یوں تو ہر امریکی حکومت کی پالیسی ایران کے خلاف ہی رہی ہے لیکن بقول پال دانهار’’
ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں‘‘۔
پال دانهار  موجودہ صورت حال کو اناوں کی جنگ کا نام دیتے ہوئے آگے لکھتے ہیں کہ ’’، اس نئی ’اناؤں کی جنگ کے محور‘ میں سب ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہوئے خود کو مجموعی طور پر ایران کے خلاف مکمل طور پر متحد کر رہے ہیں[۵].‘‘
اناوں کی جنگ کی جہاں تک بات ہے تو ہمیشہ ہی رہی ہے لیکن اس میں اتنی شدت کیوں ہے اس سے پردہ ہٹاتے ہوئے پال دانهار لکھتے ہیں :’’کچھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، کچھ تیل اور گیس کی قیمت میں ملوث ہیں اور چند سیاسی تجارت میں مصروف ہیں جیسا کہ امریکہ سعودی عرب کے لیے کر رہا ہے جب اس نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوشش کی‘‘۔
اب وہی ہو رہا ہے جو عراق پر حملے سے قبل ہوا تھا۔ جو بھی خفیہ معلومات ایران کے خلاف گھما پھرا کر استعمال کی جا سکتیں ہیں انھیں ایران پر دباؤ یا قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔حالات بھی ویسے ہی بنائے جا رہے ہیں جیسے عراق جنگ کے وقت بنائے گئے تھے۔اب فرق یہ ہے کہ اُس وقت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش تھے جو اس جزوی نظریے کے حامی تھے کہ یہ ان کی قسمت ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لائیں۔ اور اس میں صدام حسین کو نکالنا شامل تھا۔مگر امریکہ کے موجودہ صدر بالکل بھی نظریاتی شخصیت کے مالک نہیں۔ ان کے دور صدارت میں امریکی سیاست لین دین کے تعلق پر چل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی خارجہ امور پالیسی میں ’سب سے پہلے امریکہ‘ ہے اور اگر انھیں اکسایا نہ جائے تو وہ مشرق وسطی میں ایک اور جنگ شروع نہیں کریں گے‘‘۔
یہاں تک توساری کہانی سمجھ میں آتی ہے  کہ لین دین کی سیاست میں  جہاں ٹرنپ کو فائدہ نظر آ رہا ہے اسی ڈگر پر پوری امریکی سیاست کا رخ مڑتا جا رہا ہے لیکن یہ چو طرفہ طور پر ایران کا بھوت سب پر کیوں سوار ہے تو ظاہر ہے جب ایران سے مقابلہ کی بات ہے تو یہ مقابلہ کسی بھی عنوان سے ہو سکتا ہے اور کوئ بھی رخ اختیار کر سکتا ہے جنگ بھی اسکا ایک مفروضہ ہے ایسے میں ضروری ہے کہ اس مفروضے پر عمل کی صورت میں  کوئی ایسا کام کیا جائے جو کسی ممکنہ جنگ کا جواز بن سکے  اس کے لئے اپنے سر پر سوار بھوت کو ہر ایک کے سر پر سوار کرنا ضروری ہے اور یہ دکھانا ضروری ہے کہ ہم  ایران پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ سب ساری دنیا کے لئے فائدہ کے لئے ہے ،ایران کا بھوت میڈیا کے ذریعہ بنا کر لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ  ہر خطرناک حادثہ کو ایران سے جوڑا جائے ،جیسا کہ ابھی سعودی اور امارات کے آئل ٹکینکروں پر حملوں کے بعد ہوا   اور شک کی سوئی  ایران کی طرف گھما دی گئی جبکہ ایران نے واضح الفاظ میں اسکی مذمت کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں تحقیقات کا مطالبہ رکھ دیا  جس نے واضح کر دیا کہ جھوٹ پر مبتنی سیاست کبھی سچائی کے مقابل نہیں کھڑی ہو سکتی
ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلاو کہ سچ لگنے لگے اور اب یہی ہو رہا ہے اسی لئے واٹس اپ پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے کہ جو کچھ بھی ایران کے خلاف ملے اسے اکھٹا کر لو آگے کام آ سکتا ہے  پال دانهار نے بھی اپنی تحریر کے آخری حصے میں ، ایران کو دنیا کے سامنے ایک خطرہ کے طور پر پیش کرنے اور ممکنہ جنگ  میں دھکیلنے کے لئے سوشل میڈیا و واٹس کی جاسوسی کو ایک حربے کے طور پر پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں ’’اس کے لیے تہران پر کسی بہت برا الزام لگانے ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ انٹیلی جنس جمع کرنا ہے اور انٹیلی جنس جمع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے اتحادیوں کے لیے خطے کے بہت سے لوگوں پر جاسوسی کرنے کی کوشش کریں۔ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ٹروجن ہارس نامی وائرس کی مدد سے ہمارے سمارٹ فونز ہیک کرنا ہے جن کو ہم سب رضاکارانہ طور پر ساتھ لیے گھومتے ہیں[۶]‘‘۔
ٹروجن  ہارس کا وائرس ہو یا دیگر جرثومے یہ ایک حقیقت ہے کہ سچائی اور حقیقت کو کسی چیز سے بدلا نہیں جا سکتا ہے اور حق کو کسی بھی طرح دبایا نہیں جا سکتا ہے جس طرح کل ساری دنیا تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی انقلاب کو کامیابی سے نہ روک سکی آج بھی اسلامی انقلاب کے سورج کی کرنوں کو دنیا میں پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا  اور وہ دن اب دور نہیں جب لوگ بھوت آیا بھوت آیا کہنے والے بھوت کو ٹروجن ہارس جیسے وائرس کے ساتھ دھر دبوچیں گے ۔
حواشی
[۱]  ۔ فرصت¬ها و تهدیدات اطلاعاتی  امنیتی شبکه¬های اجتماعی مجازی، مرتضی روشنی ، ص۹۸٫
[۲]  ۔ https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
[۳]  ۔ By Paul Danahar BBC Washington Bureau Chief  ، نامہ نگار پال دانهار واشنگٹن میں بی بی سی امریکہ کے بیورو ایڈیٹر ہیں اور سنہ ۲۰۱۰ سے ۲۰۱۳ کے درمیان بی بی سی مشرق وسطی کے بیورو چیف بھی رہ چکے ہیں
[۴]  ۔ https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
[۵]  ۔ https://www.bbc.com/urdu/science-48277352
https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
[۶]  ۔ https://www.bbc.com/urdu/science-48277352
https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد/

 

دعوی “آزادی” کا “اطفال پنجروں میں”

  • ۱۸۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی حکام اور پریزیڈنٹ ٹرمپ کے جنونی عاشقوں کے دعوؤں کے برعکس، امریکہ نہ اس وقت اور نہ ہی ماضی کے کسی مرحلے میں، “سرزمین آزادی اور سورماؤں کا گھر” ہے اور نہ تھا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ۲۴۳ سال کی تاریخ میں انجام پانے والے شرمناک ترین امریکی اقدامات کا تعارف کروایا جاسکے۔ کیونکہ ہمیں شرمناک اعمال اور افسوسناک رویوں سے مالامال تاریخ کا سامنا ہے چنانچہ ہمیں مجبورا ایک فہرست میں سے کچھ اقدامات کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
امن پسند لکھاری اور انسانی حقوق کے کارکن رابرٹ فینٹنیا (Robert Fantina) نے دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک کے شرمناک ترین اور قبیح ترین امریکی اقدامات کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ متبادل موضوعات لامتناہی نظر آرہے ہیں، لیکن ان اقدامات میں سے بعض کچھ یوں ہیں: جوزف مک کارتھی کی جادوگر کُشی یا کمیونسٹ کُشی کا دور [اس دور میں بےشمار امریکیوں پر جادوگری یا کمیونزم کا الزام لگا کر تشدد اور قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا]، کوریا کی جنگ، اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے افریقی نژاد امریکیوں کے ساتھ امریکی پولیس کی سنگ دلانہ کاروائیاں، ویت نام کی جنگ، ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے امریکیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیاں، ڈومینیکن جمہوریہ، انگولا، کمبوڈیا، نکاراگوا، لاوس، لبنان، گریناڈا، عراق (دو مرتبہ)، افغانستان، لیبیا، شام، یمن پر الگ الگ حملے۔
ذیل کے تمام واقعات میں امریکہ نے کمیونزم مخالف مداخلتوں میں رابطہ کار (coordinator) کے ظاہری عنوان سے، جمہوری انداز سے منتخب حکومتوں کی کایا پلٹ اور استبدادی خونخواروں کی حمایت کے سلسلے میں اقدامات کئے ہیں:
گھانا، انڈونیشیا، کانگو جمہوریہ، جمہوریہ برازیل، چلی، ارجنٹائن، ال سلواڈور، یوگوسلاویا، کولمبیا۔
ان فہرستوں کو پھر بھی جاری رکھا جاسکتا ہے اور مزید ممالک اور علاقوں کو بھی ان میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن آج میری توجہ ایک نئی، خاص ہلا دینے والی غیر انسانی اور بےرحمانہ پالیسی پر مرکوز ہے جو اس وقت نافذ کی جا رہی ہے اور لگتا ہے کہ امریکی عوام یا تو اس پالیسی سے بےخبر ہیں یا اس کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ میرا مطلب امریکہ ـ میکسیکو سرحد پر بچوں کی ان کے اہل خانہ سے جدائی اور بچوں کو پنجروں میں بند رکھنے کی پالیسی ہے۔
کیا یہ امریکی رویہ کسی بھی انسان کے جذبات کو مجروح نہیں کررہا ہے؟ گھرانے شکست و ریخت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، شیرخوار بچوں سمیت ان افراد کو ماؤں کی آغوش سے الگ کیا جارہا ہے جو بچپن کے ایام سے گذر رہے ہیں اور انہیں پنجروں میں بند کیا جارہا ہے۔ امریکیوں کے حراست کے دوران ان بچوں میں سے متعدد بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کیا عنوان “پنجروں میں بند بچے” کسی کو بھی متاثر نہیں کررہا ہے؟
بعض اوقات خاندانوں کے بارے میں کچھ جذباتی رپورٹیں پڑھنے کو ملتی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو پنجروں میں رکھا ہوا ہے۔ بعض اوقات رپورٹیں صرف اس وقت شائع ہوتی ہیں جب کوئی بچہ ان پنجروں میں مر جاتا ہے۔ کچھ مرتکبین کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ان پر مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں اور سب ان پر لعنت ملامت کرتے ہیں؛ بعدازآں ایسے کچھ بچوں کو یتیم خانوں اور نرسریوں کے سپرد کیا جاتا ہے جو ان دہشتناک حالات سے گذرے ہوتے ہیں، اس امید سے کہ وہاں ان کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھا جائے گا۔
بایں حال، جب یہ سلوک امریکی حکومت انجام دیتی ہے، تو پھر یہ اقدامات بالکل قابل قبول ہیں۔ اطفال کو بچوں کی آغوش سے جدا کرنا، والدین کو بچوں کی نگہداشت کی جگہ سے بےخبر رکھنا اور انہیں پنجروں میں بند کرنا۔ اگر یہ بچے مر جائیں تو یہ بہت بری بات ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟
اس طرح کے واقعات امریکہ میں اور بعض دوسرے ممالک میں معمول کے عین مطابق ہیں۔ اگر کوئی شخص ذاتی طور پر کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ دل دہلا دینے والے جرم شمار کیا جاتا ہے لیکن اسی جرم کا ارتکاب کوئی حکومت کرے تو بالکل قانونی اور قابل قبول ہوگا۔ آیئے ذرا قتل کے مسئلے پر روشنی ڈالیں۔ امریکہ میں قتل کی شرح بہت زیادہ ہے؛ لیکن قتل کے یہ واقعات اس کشت و خون کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جس کا ارتکاب امریکی حکومت کرتی ہے۔ جب تک کہ ایک شخص یونیفارم میں ملبوس ہوتا ہے اور اس کے ہاتھوں جان گنوانے والا شخص کوئی امریکی شہری نہ ہو (اگرچہ اس عجیب قاعدے سے کچھ متعینہ استثنائات بھی ہیں) ایک شخص کا قتل نہ صرف جرم نہیں ہے بلکہ قاتل سورما اور وطن پرست کہلاتا ہے۔
کچھ تخمینوں کے مطابق امریکی حکومت نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک پوری دنیا میں دو کروڑ سے زائد انسانوں کو قتل کیا ہے۔ جب اغواکاروں نے طیارے اغوا کرکے مشرقی امریکہ کے تین مقامات کو نشانہ بنایا اور ۳۰۰۰ افراد مارے گئے تو امریکہ نے بدلہ لینے کے لئے دو جنگوں کا آغاز کیا۔ ان دو جنگوں میں آج تک مارے جانے والے افراد کی تعداد ۱۱ ستمبر کے مقتولین سے ایک ہزار گنا زیادہ ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ امریکی عوام اس حقیقت کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
سنہ ۱۹۹۵ع‍ میں ٹیموتھی میک ویئی (Timothy James McVeigh) نے اوکلاہوما شہر (Oklahoma City) کی ایلفریڈ پی مورہ وفاقی عمارت بم دھماکہ کرکے ۲۰۰ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ عمل بھیانک اور ناقابل دفاع تھا جو مک ویئی کی پھانسی پر منتج ہوا؛ تاہم جب امریکی حکومت دنیا کے گوشے گوشے میں عمارتوں پر بمباری کرتی ہے یا پھر شام، فلسطین، عراق، افغانستان اور کئی دوسرے ممالک میں رہائشی علاقوں، اسپتالوں، اقوام متحدہ کے زیر نگرانی پنا گزینوں کے کیمپوں پر بمباری کرنے والی قوتوں کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرتی ہے، کسی کو بھی دہشت گردی یا قتل کے الزام کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ میک ویئی کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد امریکی حکومت کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔
لیکن، آیئے امریکہ میں پنجروں میں بند کئے جانے والے بچوں کی طرف پلٹتے ہیں۔ انسانوں کی پنجروں میں بندش امریکی حکمرانوں کے ہاں کوئی نیا رویہ نہیں ہے۔ دوسری جنگ کے دوران ہزار ہزار جاپانی نژاد امریکیوں کو پنجروں میں بند رکھا گیا۔ وہ میکسیکن بچوں کی طرح بنی نوع انسان سے پست نوعیت کے موجودات سمجھے جاتے تھے چنانچہ انہیں پاگل کتوں کی طرح پنجروں میں بند کرنا قابل قبول عمل سمجھا جاتا تھا۔
کہاں ہے اس اقدام سے انسانوں کا غیظ و غضب اور نفرت کا اظہار؟ اپنے اپ سے پوچھنا چاہئے کہ “میں امریکہ کی اس پالیسی کے خلاف ـ جس کے تحت وہ بےگناہ بچوں کو والدین سے جدا کرتا ہے اور انہیں پنجروں میں بند کرتا ہے ـ سڑکوں پر مظاہرہ نہیں کرتا؟ میں کیوں راضی ہوجاتا ہوں کہ ان مسائل سے آنکھیں چرا لوں جبکہ یہ بچے اپنے پنجروں میں بدترین بدسلوکیوں کا شکار ہو رہے ہیں؟ مجھ پر کیا آپڑی ہے کہ اپنی خاموشی سے اس صورت حال سے چشم پوشی کررہا ہوں؟
یہ وہ روش سے جس کے ذریعے “ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی عظمت رفتہ کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں”۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو ان کے نادان، احمق، نسل پرست، زن بیزار اور اسلامو فوبیا پر یقین رکھنے والا ووٹ بینک کی مدد سے انجام پارہے ہیں۔
اس طریقے سے ہی امریکی حکومت ایک بار پھر فسطائیت (fascism) کو روزمرہ کے فیشن میں تبدیل کرنا چاہتی ہے اور کم پڑھے لکھے یورپی نژاد سفید فام امریکی باشندوں ـ جو امریکہ میں صحتمند شہری سمجھے جاتے ہیں ـ کو دوسرے شہریوں کے مد مقابل لا کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ اسی بنا پر نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ کو ـ خواہ اچھے خواہ برے (اور بطور معمول بدترین) مقاصد کے لئے ـ عالمی سطح پر محسوس کیا جارہا ہے اور امریکی صدر کی منظور کردہ نسل پرستی ہر جگہ ـ کسی طرح ـ قانونی حیثیت حاصل کررہی ہے۔
لیکن یہ بات ہرگز نہیں بتائی جاتی کہ یہ اقدامات یہاں اس نام نہاد “سرزمین آزادی اور سورماؤں کے گہوارے” میں ہو رہے ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں حکومت باضابطہ اور سرکاری طور پر میکسیکن بچوں کو پنجروں میں بند کرتی ہے اور ایک کیل کانٹے سے مسلح اسرائیلی فوجی کی طرف پتھر پھینکنے والے فلسطینی بچوں کے لئے ۱۵ سال قید کی سزا کے اخراجات بھی ادا کرتی ہے۔ یہ امریکہ ہے جو یمن میں اسکول کے بچوں کے ذبح ہونے سے چشم پوشی کرتا ہے اور اس بچوں کے اس قتل کے اخراجات بھی ادا کرتا ہے؛ بچوں کے ذبح کا یہ واقعہ کچھ عرصہ قبل اس وقت پیش آیا جب سعودیوں کے امریکی ساختہ طیارے نے اسکول بس کو ـ جو اسکول کے طالبعلموں سے بھری ہوئی تھی ـ امریکی ساختہ بم کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ۴۰ بچے قتل ہوئے اور چند ہفتے قبل ایک دوسرے واقعے میں اسکول کی بچیوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ۱۳ بچیاں زندگی کی بازی ہار گئیں اور یمن میں یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس کے باوجود ٹرمپ کے بہی خواہ ـ شہریوں کے بیچ بھی اور کانگریس میں بھی ـ جب ٹرمپ کو امریکی پرچم کو گلے لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اپنی آنکھوں کو پرنم کردیتے ہیں؛ اور جب ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر بےفائدہ دیوار تعمیر کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا بجٹ منظور کروانے کے لئے امریکی کانگریس کو مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔
وہ اس کی حمایت کرتے ہیں جب وہ سفیدفام نسل پرستوں اور نسل پرستی کے مخالفین کے درمیان تنازعے کے سلسلے میں کہہ دیتے ہیں کہ “اچھے لوگ دونوں فریقوں میں موجود ہیں”۔
ان تمام اقدامات کے بعد اور کونسا ایسا عمل ہونا باقی ہے جو امریکی شہریوں کو غفلت اور بے اعتنائی کی اس گہری نیند سے جگا دے؟ اگر بےگناہ بچوں کو پنجروں میں بند کرنے کا عمل امریکیوں کو نہ جگا سکا ہو تو میں کم از کم یہ تصویر کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کے بعد اور کونسا ایسا واقعہ ہوسکتا ہے جو امریکی عوام کو بیدار کرے؟

بقلم رابرٹ فینٹینا (Robert Fantina) قلمکار اور بین الاقوامی امن اور انسانی حقوق کے کارکن
ترجمہ فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورس: https://www.globalresearch.ca/caging-children-land-free/5676628

اسرائیل کا سیاسی نفوذ

  • ۳۱۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کا علاقے میں چونکہ کوئی سیاسی مقام نہیں ہے، حکومت کے لیے زمین بھی اس کے پاس پہلے تو غصبی ہے اور جو ہے وہ بھی وسعت کے اعتبار سے بہت کم ہے اور ہمیشہ جراحت پذیر اور مشکلات کا شکار ہے اس وجہ سے اسرائیل اپنی سکیورٹی اور سالمیت کو پہلی ترجیح دیتا ہے۔ اس کے سیاسی انحصار، بایو ٹکنالوجی اور مزاحمتی گروہوں کی نو حاصل توانائی کی وجہ سے اسرائیل کے لیے فوجی نفوذ کا کوئی امکان نہیں پایا جاتا۔ مذہبی اعتبار سے بھی یہودیوں کے نسل پرست ہونے کی بنا پر دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں تبلیغ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ البتہ جاسوسی کے راستے سے اسرائیل دوسرے ملکوں میں نفوذ پیدا کرتا ہے جو تقریبا تمام ملکوں کا رائج طریقہ ہے۔(۱)
ان مشکلات کے پیش نظر جن سے اسرائیل دوچار ہے اس کے لیے واحد راہ حل اپنی اقتصادی اور انرجی ڈپلومیسی کو تقویت پہنچانا ہے۔ صہیونی ریاست امریکہ جیسی طاقت کی پشت پناہی میں، صنعتی اور علمی بنیادوں کو مضبوط کر کے ان ممالک کی تلاش میں جاتا ہے جن کے نزدیک اسرائیل کا ناجائز ریاست ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ در حقیقت اس طریقے سے اسرائیل سیاسی میدان میں اترنے کی کوشش کرتا ہے، اپنی معیشت کو رونق دیتا اور اپنے لیے اقتصادی اور سیاسی حامی تلاش کرتا ہے۔
اسرائیل کافی عرصے تک اپنی حاکمیت کے تحفظ کے لیے امریکہ اور دیگر ایٹمی طاقتوں کی حمایت کا محتاج ہے۔ دوسری طرف سے صہیونی ریاست خام تیل اور گیس کی کمی کا شکار ہے اور ان ذخائر کی نسبت اس کی ضرورت دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اس وجہ سے اس کے پاس تنہا راستہ ’انرجی ڈیپلومیسی‘ (Energy diplomacy) کی تقویت ہے۔
خام تیل اور گیس کے ذخائر اس قدر آج دنیا والوں کے لیے اہم ہو چکے ہیں کہ ان کے لیے ریڈ لائن شمار ہوتی ہے اور وہ اس کی وجہ سے تمام اجتماعی سیاستوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب یورپی یونین نے روس کے ساتھ گیس کی وابستگی کو کم کرنے کا ارادہ کیا تو جرمنی نے کھلے عام اس کی مخالفت کی۔
اسرائیل میں انرجی ڈپلومیسی(Energy diplomacy)
اسرائیل میں خام تیل اور گیس کے ذخائر بہت ہی محدود ہیں۔ خام تیل کا ایکسپورٹ اس وقت روک دیا گیا ہے لیکن گیس کا ایکسپورٹ ابھی جاری ہے۔ اس ریاست میں توانائی کا استعمال اور اس کی ڈیمانڈ، پیداوار سے کہیں زیادہ ہے لہذا اسرائیل مجبور ہے کہ توانائی کے ذخائر کو امپورٹ کرے۔ در حقیقت قومی سلامتی کا مسئلہ اور توانائی کا فقدان اس بات کا باعث بنا ہے کہ اسرائیل انرجی ڈپلومیسی کو فعال کرے اور اسے حیاتی بنائے۔ اسی وجہ سے اس رژیم نے خام تیل اور گیس کے میدان میں اپنی سرگرمیوں کو مشرق وسطیٰ کے تین علاقوں قطر، بحیرہ روم (قبرص اور یونان) اور یوروشیا (روس، قزاقستان اور آذربائیجان) میں شروع کر دیا ہے۔ اندرونی توانائی کی پیداوار کے علاوہ ان سرگرمیوں کی کچھ اہم وجوہات ہیں؛ ان میں سے ایک وجہ اسرائیل کا تنہائی سے خود کو نکالنا ہے اور عالمی مارکیٹ میں داخلے کے لیے میدان فراہم کرنا ہے۔ البتہ اس چیز کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ڈپلومیسی اقتصادی نفوذ کے بغیر محال ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے لیے گیس کی ضرورت کو پورا کرنے والا ایک اہم ملک آذربائیجان ہے اس کی وجہ سے آج سوول( (sovil سے مربوط کمپنیاں آذربائیجان میں موجود ہیں۔(۲)
حواشی
۱ – جغرافیای سیاسی اسرائیل، حمیدی نیا، حسین، علوم سیاسی: مطالعات منطقه ای، زمستان۱۳۹۰، شماره ۴۲و۴۳، ص ۴۲-۱۷٫
۲- دیپلماسی انرژی اسرائیل: مبانی و اهداف منطقه ای، نیاکوئی، سید امیر، کریمی پور، داود، فصلنامه علوم سیاسی: تحقیقات سیاسی و بین المللی، بهار۹۴، شماره ۲۲، ص ۵۸-۲۷٫
۳- استراتژی اسرائیل در منطقه خاورمیانه و تاثیرات آن بر جمهوری اسلامی ایران، ملکی، محمد رضا، فصلنامه علوم سیاسی، تابستان۸۶، شماره۶، ص ۶۶-۲۳٫
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔