برطانیہ کا ایشیائی تجارت پر تسلط کا نقطہ آغاز

  • ۴۱۹


بقلم میلاد پور عسگری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سولہویں صدی عیسوی تک ایشیا میں تجارت مسلمان تاجروں کے ہاتھ میں تھی۔ یہاں تک کہ مغربی بازار بھی ایشیائی تجارت سے بے حد متاثر تھے۔ اس درمیان جینوا اور وینس کے تجار اور اٹلی کے یہودی سب سے زیادہ دلالی کا کام کرتے تھے اور مسلمانوں کے تجارتی سامان کو مغربی بازار میں منتقل کرتے تھے۔
ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کے صرف تین بنیادی راستے تھے اور اٹلی سے جڑے ہوئے تھے اور یورپ کے دیگر ممالک کو ایشیائی سامان خریدنے کے لیے اٹلی ہی جانا پڑتا تھا بلکہ یوں کہا جائے کہ اٹلی یورپ کو ایشیا سے ملانے والا تنہا ملک تھا۔ یہ چیز اس بات کا باعث بنی کہ یہ ملک اپنے زمانے میں مغربی سیاست اور کلچر کے مرکز میں تبدیل ہو جائے۔ ایک جرمن محقق ’’زیگریڈ ہونکہ‘‘ کے بقول اگر مسلمانوں کی تجارت نہ ہوتی تو مغرب، آج مغرب نہ ہوتا۔
تجارت کے ان راستوں میں ایران اپنی دوبندر گاہوں؛ ہرمز اور کیش کی وجہ سے رابطہ کردار ادا کر رہا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ایران اس تجارت کے قلب میں واقع تھا۔ اسی وجہ سے بعد میں پرتگالیوں اور ہالینڈیوں نے ایران کی طرف بھی ہاتھ بڑھانا شروع کر دئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ صدی وہ صدی ہے جس میں مغرب کی تجارت یہودیوں کے ذریعے عروج پکڑ رہی تھی۔
الزبتھ اول کا دور (۱۶۰۳-۱۵۵۸) برطانوی نوآبادی سلطنت کی شروعات تھی۔ اسی دور میں سلطنتی خاندان نے مغرب میں ’غلاموں‘ کا تجارت کا کاروبار شروع کیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب یہودیوں نے برطانوی دربار میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ملکہ سے خود کو اتنا نزدیک کیا کہ وہ عبری زبان سیکھنے کی شوقین ہو گئی۔
جب الزبتھ نے برطانیہ کی حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی تھی تب اس ملک کی معیشت انتہائی بدحالی کا شکار تھی لہذا درباری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سمندروں میں تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا تھا یا پھر غلاموں کی تجارت کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کئے جاتے تھے۔ اس دور میں ’’سر جان ہاوکینز اور سر فرانسیس ڈریک‘‘ ملکہ کے نزدیک دو اہم افراد شمار ہوتے تھے، ہاوکینز نے برطانیہ اور جنوبی امریکہ کے درمیان تجارتی سلسلہ کی بنیاد رکھی علاوہ از ایں الزبتھ کے ذریعے انجام پانے والی غلاموں کی تجارت کی سرپرستی بھی ان کے ذمہ تھی۔ ’ڈریک‘ بھی ان ایام میں ملکہ کا درباری کتا تھا جو ان کے حکم سے تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالتا تھا۔
برطانیہ کی سمندری ڈاکہ زنی ۱۵۷۸ سے شروع ہوئی جس کا سلسلہ امریکہ کی سرحد تک جڑا ہوا تھا۔ یہ چیز باعث بنی کہ اس ملک خصوصا ملکہ کے دربار کو فراوان مال و دولت حاصل ہو سکے۔ برطانیہ کی یہ غارتگری اور اقتدار میں وسعت اس بات کا سبب بنی کہ ہسپانیہ کا بادشاہ، ایشیا اور امریکہ کے درمیان اپنے تجارتی واسطہ کا تحفظ کرے جو البزتھ کے نزدیک سخت دشمنی کا باعث بنا۔
ہسپانیہ کے زیر تسلط مغربی علاقوں میں ملکہ الزبتھ کے شرانگیز کارنامے سبب بنے کہ ۱۵۸۵ میں ان دوملکوں کے درمیان بیس سالہ طولانی جنگ کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ بیس سال جنگ کے بعد برطانیہ کی بحریہ ہسپانیہ کی طاقتور کشتی ’آرماڈا‘ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ برطانیہ کا ایشیا اور آدھی دنیا کی تجارت پر سوسالہ قبضے کا نقطہ آغاز تھا۔
منبع: زرسالاران یهودی و پارسی، شهبازی، عبدالله، موسسه مطالعات و پژوهش‌های سیاسی، تهران، چاپ اول: ۱۳۷۷، ص۷۰-۴۱٫

 

ابوظہبی کے تل ابیب سے تعلقات پر امارات کے دیگر حکمرانوں کا موقف

  • ۳۷۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب نیوز ایجنسی 21 کے جائزہ کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں اور ان کے قریبی افراد کی طرف سے سرکاری اور غیرسرکاری میڈیا پر جاری کردہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے ابوظہبی کے فیصلے پر اماراتی عہدیداروں اور لوگوں کے درمیان کافی حد تک اختلافات پائے جاتے ہیں۔

شارجہ، عجمان، راس الخمیہ، ام القیوین اور الفجیرہ کے حکمرانوں نے تل ابیب کے ساتھ ابوظہبی کے تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کی باضابطہ طور پر حمایت نہیں کی اور صرف حاکم امارات محمد بن راشد آل مکتوم  نے اپنے ٹویٹر میں لکھا ہے کہ ’’صلح پسند بہادروں کے نام تاریخ میں درج ہو جائیں گے‘‘۔ لیکن دیگر کسی نے خاموشی کا تالہ نہیں توڑا۔

عربی نیوز 21 نے المکتوم خاندان کے 33 افراد اور محمد بن راشد کے بیٹوں کے ٹویٹر اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ انسٹاگرام اکاؤنٹس بھی چیک کیے، ان میں سے کسی نے بھی ابوظہبی کی حمایت نہیں کی۔ دبئی کی صرف دو حکمرانوں کی بیٹیوں نے اس معاہدے کی حمایت کی ہے۔

شارجہ کے حکمران جو ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی ہیں ، نے عوامی تنقید کے فقدان کے باوجود ، دوسروں کے مقابلے میں ، تل ابیب کے ساتھ ابوظہبی کے تعلقات کے حوالے سے، اپنے سخترین موقف کا اظہار کیا۔ شارجہ کے حکمران کی اہلیہ شیخہ جواہر القاسمی کے موقف کو سی این این نیوز نے شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’قدس دار الحکومت کے ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی قیمت ہے۔"

جواہر القاسمی کے ٹویٹ میں مقبوضہ بیت المقدس کو حکومت کا دارالحکومت قرار دینے کے تناظر میں اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کی گئی ہے۔ شارجہ کے حکمران کی بیٹی نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ، لیکن معاہدے کے اعلان سے دو دن قبل انسٹاگرام پر لکھا، "میں فلسطین کی آزادی تک فلسطینی ہوں بیروت میں امن کے قیام تک لبنانی ہوں۔"
راس الخیمہ کے حکمران ، سعود بن صقر القاسمی نے اس معاہدے کو نظرانداز کیا ہے ، لیکن ان کے بیٹے محمد نے اس کی سختی سے حمایت کی اور اسرائیل  کے ساتھ باہمی رواداری کو ضروری سمجھا ہے۔

عربی نیوز 21  کی رپورٹ کے مطابق دیگر تمام شیوخ نے اس معاہدے کو نظر انداز کیا ہے اور اس کے اوپر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

متحدہ عرب امارات کے مخالفین کا کہنا ہے کہ محمد بن زید کی سربراہی میں ابو ظہبی نے متحدہ عرب امارات کی سپریم کونسل کے سات ممبران کے لئے کسی بھی ممکنہ کردار کو مسترد کردیا ہے ، جبکہ متحدہ عرب امارات کے سات ملکوں کے شیخوں کو حکومت کے فیصلوں میں شامل ہونا چاہئے تھا، لیکن ابوظہبی برسوں سے اپنے امور پر یکطرفہ فیصلہ کرتی آئی ہے۔

 

ذبح اسماعیل(ع) سے ذبح عظیم تک یہودی ریشہ دوانیاں

  • ۴۹۱

ایام اور مہینے اور مناسبتیں آتی ہیں اور ہم ان سے گذر جاتے ہیں لیکن ہم ان سے غفلت برتتے ہیں، رمضان سے، عید قربان سے، عید غدیر سے اور محرم سے، اسباب کے انکشاف کی طرف توجہ نہیں دیتے، صرف تکریم و تعظیم شعائر کو مقص قرار دیتے ہیں؛ خوشی مناتے ہیں یا پھر سوگ مناتے ہیں، اسی وجہ سے ہم انفعالیت کا شکار ہیں، اور واقعات و حوادث کے حلقے کھو جاتے ہیں۔
ہم انسان کے آنے اور جانے کے سلسلے میں اللہ کی تقدیر عام اور الہی منصوبے سے بےخبر ہیں، اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور عوام کی غفلت [منشیوں اور مستوفیوں کی لکھی ہوئی تاریخ کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والے اور انسان کی حیات و ممات کے لئے اللہ کی متعین کردہ تقدیر عام سے بےخبر] صاحبان قلم اور واعظین و خطباء کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ اسی وجہ سے عوام واقعات کی ظاہری صورت کو مطمع نظر قرار دیتے ہیں اور واقعات کی حقیقت کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ روایات و احادیث میں اللہ کی تقدیر عام اور عام منصوبہ واضح ہے اور انبیاء اور اولیاء کی میراث کے طور پر اسلاف سے اخلاف کی طرف منتقل ہوکر آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ ـ جو دین کی تکمیل کے لئے آئے ہیں ـ تک پہنچ چکا ہے اور بالآخر بالواسطہ طور پر اوصیائے نبی علیہم السلام کے توسط سے پیغمبر کے وصی آخرالزمان تک ـ جو کہ صالحین کی عالمی حکومت کو قائم کرنے والے ہیں ـ تک منتقل ہوچکا ہے۔
ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام دین اسلام کے بانی ہیں، اور یہ دین دوسرے قدم میں، بعثت محمدی(ص) کے ذریعے مکمل طور پر ظہور پذیر ہوا ہے۔
ابراہیم(ع) کے زمانے میں بنی نوع انسان کے مسقبل کے سلسلے میں ظہور کے زمانے اور صالحین کی عالمی حکومت کے قیام تک کا الہی منصوبۂ عام بیان ہوا اور چند خاص اعمال اور مناسب کے ذریعے اس کی ابتدائی بنیادیں استوار ہوئیں جو آج بھی بطور یادگار زندہ ہیں لیکن تاریخ کے اسی حصے میں اس کے خلاف بنی اسرائیل اور یہود کی سازشوں کا بھی آغاز ہوا۔
ذبح اسماعیل(ع) کا واقعہ گذشتہ اور موجودہ حالات کی شناخت کے سلسلے کا کلیدی نکتہ ہے لیکن یہود نے اس الہی منصوبے کو منحرف کرکے ذبح اسماعیل کو ذبح اسحاق(ع) کے عنوان سے پیش کیا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ذبح اسماعیل(ع) کا واقعہ منیٰ میں رونما ہوتا ہے، لیکن یہودیوں نے اس موضوع کو بدل کر بیت المقدس کو مقام واقعہ قرار دیا۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جیسا کہ متون اور منابع میں بیان ہوا ہے، خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا کام ابراہیم(ع) اور اسماعیل(ع) نے سرانجام دیا اور یوں انھوں نے عالمی دین کے مرکز کا تعین کردیا، لیکن پھر بھی یہودیوں نے واقعات اور تاریخ میں تحریف اور ہیراپھیری کرکے اورشلیم (یا یروشلم) کو عالمی حکومت کے مرکز کے طور پر متعارف کرایا۔
اس زمانے میں حضرت اسماعیل(ع) حجر اسماعیل میں دفن ہوئے تا کہ بنی اسماعیلی عالمی حکومت کا قطب اور مرکزی نقطہ متعین ہوجائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں بنی اسرائیل کے کانوں میں سرگوشی ہوتی ہے کہ عالمی حکومت کا مرکز اورشلیم اور ہیکل سلیمانی کی قربانگاہ ہے۔ اسی بنا پر آج یہودی اور صہیونی عیسائی بنی اسرائیل کی ظالمانہ عالمی حکومت کے قیام کے لئے اورشلیم کے معبد کی تعمیر کے درپے ہیں اور ہرمجدون (Armageddon ) کی لڑائی کی تمہیدیں فراہم کررہے ہیں اور وہ سب کچھ جو وہ آج کررہے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں۔
یہودیوں کے پاس ـ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے سے لے کر رسول اللہ(ص) کی بعثت تک ـ ۶۰۰ سال کی فرصت تھی کہ وہ نبی آخر الزمان(ص) کے استقبال کے لئے تیاری کریں لیکن چونکہ وہ جانتے تھے کہ عالمی حکومت کی تاسیس کا اختیار بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہوجائے گا، لہذا انھوں نے حسد سے کام لے کر اپنی پوری قوت مجتمع کرکے نبی آخر الزمان کی ولادت، اسلام کامل کی تشکیل اور نبی اکرم(ص) کے اوصیاء کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔
آج جو کچھ بھی مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ، عراق، لبنان، شام، فلسطین اور یمن میں ہورہا ہے، پورا کا پورا بنی اسرائیل کے تحریفی منصوبے کا حصہ ہے۔ وہ بنی اسماعیل کے تمام مواقع اور طاقت کے مراکز کو غصب کرکے تاریخ کا رخ بدلنا چاہتے ہیں اور تاریخ کے مختلف مواقع ـ بالخصوص آج کی تاریخ میں جبکہ حق و باطل کے چہرے بالکل عیاں ہوچکے ہیں ـ میں مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور اٹھا رہے ہیں۔
عید قربان، عید غدیر، ایام عزاء و محرم و صفر میں ہمیں حقائق کی یاددہانی نہ کرائی جائے اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا راز بیان نہ کیا جائے تو ہماری تمام زحمتیں بےسود ہونگی اور ہمارے جشن اور ہماری عزاء کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ عاشوراء کے واقعے میں یزید اصلی کردار نہیں ہے وہ تو ظالموں اور ستمگروں کا ایک معمولی سا گماشتہ ہے، چنانچہ ہمیں آگے جاکر واقعۂ عاشورا کے اصل کرداروں کو تلاش کرنا پڑے گا اور پوری تاریخ کا جائزہ لے کر اصل مجرموں کی شناخت کرنا پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یقینا جب ہم عزاداری کے ایام میں واقعۂ عاشورا کے اسباب کو جان لیتے ہیں تو یہودی کردار پہلے سے بہت زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور ہم بہ آسانی جان لیتے ہیں کہ عاشورا کی تاریخ میں تحریف کا اصل مقصد یہ ہے کہ یزید کے آقاؤں کے کردار کو چھپایا جائے ورنہ تو شیعیان کوفہ کو شہادت حسین(ع) کا ملزم نہ ٹہرایا جاتا، بات یہ ہے کہ کوفہ میں ہزاروں یہودیوں کی سکونت کو تاریخ کے صفحے سے مٹا دیا جائے اور کربلا کے واقعے میں ان کے کردار کو خفیہ رکھا جائے ورنہ تو مسلمان خلیفہ کے عنوان سے حکومت کرنے والے یزید اور اس کے اسلاف کی رسوائی ہوگی۔
۔۔۔۔
ڈاکٹر شفیعی سروستانی / ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

عاشوراء کی تاریخ میں تحریف کا مقصد یہودی کردار کی پردہ داری

  • ۴۰۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایک سوال ہر محقق اور مؤرخ کے ذہن میں اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ امت مسلمہ میں یہودی اثر و رسوخ کا آغاز کب سے ہوا؟ تو جواب یہ ہے کہ اگر تاریخ سے رجوع کیا جائے تو بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہودی ـ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی ولادت سے باخبر تھے، اور انہیں معلوم تھا کہ آپ مدینہ ہجرت کریں گے اور آگے کیا ہوگا اور قرآن کریم کی گواہی کے مطابق تو “وہ لوگ جنہیں اللہ نے کتاب دی ہے، اس رسول کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بلاشبہ ان میں ایک جماعت دانستہ طور پر حق کو چھپاتی ہے”۔ (۱) چنانچہ تاریخ بیان کرتی ہے کہ یہودی علماء نے رسول اللہ(ص) کی ولادت کے وقت مکہ مکرمہ میں حاضر ہوکر آپ کے بارے میں تحقیق کی اور حتی کہ آپ کی زیارت بھی کی۔
مروی ہے کہ حضرت محمد(ص) کی ولادت کے بعد، ایک روز ایک یہودی عالم دارالندوہ میں حاضر ہوا اور حاضرین سے پوچھا کہ “کیا آج رات تمہارے ہاں کسی فرزند کی ولادت ہوئی ہے؟”، سب نے نفی میں جواب دیا۔ کہنے لگا کہ اگر نہیں ہوئی ہے تو فلسطین میں ہوئی ہوگی، ایک لڑکا جس کا نام “احمد” ہے اور یہود کی ہلاکت اسی کے ہاتھوں ہوگی۔ پوچھ گچھ کے بعد معلوم ہؤا کہ عبداللہ بن عبدالمطلّب کے ہاں ایک لڑکے کی ولادت ہوئی ہے۔ یہودی عالم کی درخواست پر اسے نومولود کے پاس لے جایا گیا۔ وہ طفل کو دیکھتے ہی بےہوش ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا: خدا کی قسم نبوت قیامت تک بنی اسرائیل سے چھین لی گئی۔ یہ وہی شخص ہے جو بنی اسرائیل کو نیست و نابود کرے گا۔ قریش نے یہ خبر سن کر خوشی کا اظہار کیا تو اس شخص نے کہا: خدا کی قسم! جو سلوک یہ بچہ تمہارے ساتھ کرے گا مشرق اور مغرب والے اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ (۲)
اس کے بعد یہودیوں نے جس طرح کہ حضرت ہاشم، حضرت عبدالمطلب اور حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب پر قاتلانہ حملے کئے تھے، جب آپ اپنی رضاعی ماں کے پاس تھے تو آپ کے قتل کا بھی بندوبست کیا اور ساتھ ہی مدینہ میں وہ اوس و خزرج سے کہتے رہے کہ ایک نبی کا ظہور ہورہا ہے جس کی ہم حمایت کریں گے۔۔۔ لیکن جب آپ مدینہ تشریف لائے تو ان کی سازشیں شروع ہوئیں اور جنگ بدر کے بعد تمام جنگوں میں قریش کو اکساتے رہے؛ جنگ احزاب قریش اور مسلمانوں کی آخری جنگ ثابت ہوئی اور اس کے بعد مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی براہ راست جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا جو فتح خیبر تک جاری رہا۔
مذکورہ بالا سطور سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے عرب اور قریش کے درمیان کافی اثر و رسوخ بڑھایا تھا اور جن مشرکین کو وہ مسلمانوں کے خلاف لڑاتے رہے تھے وہی بعد میں طوعاً یا کرہاً مسلمان ہوئے لیکن یہودیوں سے ان کے تعلق کے خاتمے کی کوئی خبر تاریخ میں درج نہیں ہوئی چنانچہ سوال کا جواب یہ ہوگا کہ امت مسلمہ میں یہودیوں کا نفوذ اور اثر و رسوخ تاریخ اسلام سے بھی زیادہ پرانا ہے۔
بایں حال جب ہم اموی اور عباسی منشیوں اور مستوفیوں کی لکھی ہوئی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو بڑے بڑے لکھاری یہودی نفوذ کی پردہ پوشی کرتے نظر آتے ہیں اور چلتے چلتے یہ تاریخ جب کربلا اور عاشورا تک پہنچتی ہے تو سرکاری منشیوں اور درباری علماء کی لکھی تاریخ میں یہودیوں کا کردار چھپانے کے لئے بطور مثال شیعوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ گوکہ یہودی کردار چھپانے کے ساتھ ساتھ اموی کردار کو بھی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے یا یوں کہئے کہ یہ دو کردار اس قدر یکسان ہیں کہ ایک کے کردار کو چھپاتے ہوئے دوسرے کے کردار کو بھی چھپایا جاسکتا ہے، لیکن تاریخ جس کی بھی لکھی ہوئی ہو، کچھ حقائق ادھر ادھر سے مل ہی جاتے ہیں جو گوکہ تاریخ کربلا کے ضمن میں بیان نہیں ہوئے لیکن دوسرے واقعات کے تذکرے میں ان کا پتہ مل ہی جاتا ہے۔
(جاری ہے)
حواشی
۱۔ الَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ وَإِنَّ فَرِیقاً مِّنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ یَعْلَمُونَ (سورہ بقرہ، آیت ۱۴۶)
۲۔ کلینی، الکافی، ج۸، ص۳۰۰؛ طوسی، الامالی، صص ۱۴۵ و ۱۴۶۔

 

عزاداری کی نعمت اور عزاداروں کی ذمہ داریاں

  • ۴۸۵

خیبر تجزیاتی ویب گاہ: ہم ایک بار پھر ان شہیدوں کا غم منا رہے ہیں جنہوں نے چمن اسلام کی اپنے خون سے آبیاری کر کے قیامت تک کے لئیے ہرا بھرا کر دیا۔
نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے اس کی حفاظت بھی اتنی ہی سخت ہوتی ہے نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے اس کا شکر بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے ۔
عزاداری ایک نعمت :
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نعمت عزاداری کے سلسلہ سے فرماتے ہیں:
’’عزاداری اور مصائب اہل بیت اطہار علیھم السلام ایک ایسی خداداد نعمت ہے کہ جو بارگاہ خداوندی میں شکریے کے شایان شان ہے ‘‘۔آپکی نظر میں تحریک عاشورا کا پیغام، اسلامی تحریکوں کا فروغ ہے اور آپ کربلا و عزاداری کی نعمت کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اس نعمت کے حساس ہونے کو ہم اس وقت درک کرتے ہیں جب ہم جان لیں کہ خدا کی نعمتوں کے مقابلے میں بندگان خدا کی ذمہ داری شکر و سپاس اور اس کی بقا کی کوشش کرنا ہے۔ اگر کسی کے پاس نعمت نہ ہوتو اس سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا لیکن جس کے پاس نعمت ہے اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا ۔ شیعوں کے لئے ایک عظیم نعمت، محرم ،عاشورا اور مجالس عزا ہے۔ یہ عظیم نعمت، دلوں کو اسلام و ایمان کے ابلتے ہوئے چشمے سے متصل کرتی ہے ۔ اس نعمت نے وہ کام کیا ہے کہ اسکی بنا پر تاریخ کے دوران ظالم حکمرانوں، کو عاشورا اور قبر امام حسین علیہ السلام سے خوف لاحق رہا ہے۔اس نعمت سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے ۔ خواہ وہ عوام یا علماء، اس نعمت سے ضرور بہرہ مند ہوں ۔ عوام اس طرح سے بہرہ مند ہوں کہ ان مجالس سے دل وابستہ کرلیں اور مجالس امام حسین علیہ السلام کا انعقاد کریں۔ لوگ عزاداری کا اہتمام مختلف سطح پر زیادہ سے زیادہ کریں ۔کربلا کا واقعہ تاریخ بشریت کے لئے ایک درس ہے اور اس سے وابستگی بھی مسلمانوں حتی حریت پسند غیر مسلموں کے لئے بھی ہر دور میں باعث سعادت رہی ہے ‘‘۔
غم سید الشہداءلا زوال متاع حیات :
رہبر انقلاب اسلامی کی مذکورہ بالا گفتگو کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یقینا غم حسین علیہ السلام کی نعمت کوئی معمولی نعمت نہیں ہے ایک ایسا قیمتی و لازوال متاع حیات ہےجس کے بل پر زندگی میں حرکت و انقلابی آھنگ پیدا ہوتا ہے جس کے دم پر ایک ایک مردہ قوم میں نئی روح جاگتی ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ میں ارتقاء کے بغیر حیات کوئی معنی نہیں رکھتی ۔
یہ وہ غم ہے جو ظاہر و باطن میں انسان کے وجود میں ایک ایسا انقلاب پربا کر دیتا ہے کہ انسان بغیر قدروں کے ساتھ جینے کو موت سے عبارت جانتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہر مکتب خیال کے افراد اس کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں ۔
اس غم کی عمارت ان انسانی بنیادوں پر قائم ہے کہ جہاں، مذہبی، نسلی اور لسانی تنگ نظری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا یہ ہر ایک کے دل کی آوا ز ہے حسینیت نے اسلام کی وسیع النظری عام کرنے اور انسانی فطرت کو بیدار کرکے تمام انسانوں کو اسلام کا ہمدم و ہم درد بنانے میں بڑی مدد کی ہے اس انقلاب کے اصولی و منطقی طرز عمل نے اسے ایک مثالی حیثیت بخشی ہے اور اسی لئیے دنیا کی اہم انقلابی تحریکوں میں اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے چنانچہ جس وقت ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا مہاتما گاندھی نے کہا تھا : ” حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے ” اور پنڈت نہرو نے اقرار کیا تھا کہ ” امام حسین (ع) کی شہادت میں ایک عالمگیر پیغام ہے ۔” ” ہیروز ورشپ ” کے مصنف کارلائل نے مانا تھا کہ ” شہادت حسین (ع) کے واقعہ پر جس قدر غور و فکر کیاجائے گا اسی قدر اس کے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائیں گے ۔
عزاداری شہادت امام حسین علیہ السلام کے سلسلہ سے غور و فکر کا ایک موقع ہے ، ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والے مظلوم کے ساتھ جذبات کے بندھن کو مضبوط کرنا اور ستمگرو ظالم کےخلاف احتجاج کرناہے ۔ اور استاد شہید مرتضی مطہری کے بقول ” شیہد پر گریہ اس کے ساتھ میدان کارزار میں شرکت کے مترادف ہے” اس بناء پر عزاداری کے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرنے والوں میں جو معنوی تبدیلی رونما ہوتی ہے اس سے سماجی تبدیلیوں کے لئے حالات سازگار ہوتے ہیں اور در حقیقت امام حسین علیہ السلام کے اہداف و مقاصد کے تحفظ کے لئے حالات فراہم ہوتے ہیں ۔ شہیدوں کا غم اور خاص طور پر سید الشہدا حضرت امام حسین کا غم ، کربلا کے عظیم واقعے کو زندہ جاوید بنانے کا ذریعہ ہے اس غم سے عزاداروں اور حق کے پیشواؤں کے درمیان باطنی بندھن قائم ہوتاہے اور ساتھ ہی عوام میں ظلم و ستم سے مقابلے کی روح زندہ ہوتی ہے۔
گریہ و زاری تحفظ مکتب حسینیت کا سبب :
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:اس گریہ و زاری اور نوحہ و ماتم کے ذریعے ہم حسینی مکتب کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ اب تک کرتےآئے ہیں۔
مکتب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کا تحفظ، اہل بیت کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے ذریعے کیا گیا ہےاور اس لحاظ سے کہ ظالم حکمرانوں نے پیہم اس ثقافت کومحو اور نیست ونابود کرنے کی کوشش کی ہے اس لئے مظلوم کربلا کی عزاداری نے خود بہ ہمہ جہت جہادی رنگ اختیار کرلیا ہے۔ عزاداری اور گریہ کا ایک خاص پہلو، ظلم و ستم مخالف جذبے کو زندہ رکھنا ہے۔
مکتب ع کربلا میں عبادت کو اسلامی معاشرے کے معنوی و اخلاقی فضائل اور دینی تعلیمات میں سر فہرست قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی عزت و سربلندی ان کے ایمان اور معنویت کی مرہون منت ہے ۔
عزاداری پاسبان مقصد سید الشہداء:
کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد، اسلامی معاشرے کو درپیش خطروں کو دور کرنا تھا ۔ روح کی بالیدگی اور معنویت کی طرف رجحان کربلا کا وہ عظیم سرمایہ ہے جو کسی اور کے پاس نہیں اسی لئیے ہماری تہذیب میں اس غم کی بہت قیمت ہے اور ہماری ثقافت میں مذہبی پیشواؤں اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار کی مجالس اور عزاداری کا انعقاد، عبادت ہے ۔ اس لئے کہ عزاداری، معنویت میں فروغ کا باعث ہوتی ہے اور انسان کو انسانیت کے اعلی ترین مدارج تک پہنچانے میں مدد دیتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری اور حزن واندوہ، باطنی تغیر وجود میں آنے اور اس کے ساتھ ہی انسان کے روحانی کمال کا باعث ہوتا ہے ۔اور اس سے انسان میں تقوی اور انسان کو خدا سے نزدیک کرنے کے مقدمات فراہم ہوتے ہیں۔ اسی طرح، عوام بھی اس مظلوم کے ساتھ، جو عقیدے کی راہ میں موت کو سعادت اور ستمگر کے سامنے تسلیم ہو جانے کو باعث ننگ و عار قرار دیتا ہے، اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اور ظلم کے خلاف جدو جہد کرنے اور ظالموں سے کوئی ساز باز نہ کرنے کو اپنا شعار بناتے ہیں ۔ اور یہی وفاداریاں ہی ہیں جو قوموں کو، استعمار گروں کے حرص و طمع کے مقابلے میں محفوظ رکھتی اور سامراج کے اثرو رسوخ کی راہوں کو بند کردیتی ہیں۔
سید الشہداء کی تحریک کی کامیابی اور انقلاب اسلامی:
کیایہ اس انقلابی تحریک کی کامیابی نہیں کہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے ذریعہ سے لڑی گئی جنگوں کے بعد آج تاریخ میں نہ ان کے کمانڈروں کا تذکرہ ہے نہ نامور شہسواروں کا لیکن حسین کے ۷۲ جانثار ہر صاحب احساس کے دل کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں ۔
کیوں نہ ہو توحید و حق گوئی اس انقلابی تحریک میں عملی طور پرنمایاں نظر آتے ہیں اور اسی سبق نے ایران کے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کو یقینی طور پر کربلا کے درس سے الہام لینے اور اس واقعہ کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے کیونکہ اسلامی انقلاب نے کربلاسے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اسی کو اپنے لئے نمونہ قرار دیا ایران کے عوام نے اسلامی انقلاب کو آسانی سے کامیاب نہیں بنایا ہے اس نے اپنے ملک میں جو اسلامی نظام قائم کیا ہے وہ آسانی سے ممکن نہیں ہوا ہے ۔ گذشتہ ۳۹برسوں میں ایران کے عوام نے اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور جب تک قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا کوئی طاقت نہیں ہے اس انقلاب کو گزند پہنچا سکے اس لئیے کہ کربلا قربانیوں کے تسلسل کا نام ہے۔
عزم زینبی اور ہماری سنگین ذمہ داری :
حضرت امام حسین علیہ السلام نے جو انقلاب میدان کربلا میں بپا کیا تھا اس کی حفاظت میں امام زین العابدین اور جناب زینب کبری سلام اللہ علیھما نے جو قربانیاں دی ہیں وہ کربلا کے میدان میں قربانی دینے والوں کی قربانیوں سے کہیں زیادہ سخت و دشوار تھیں اور یہی بات ہماری ذمہ داری کو بھی بڑا کر دیتی ہے کہ قربانیوں کے بعد ان کی حفاظت کرنا بہت دل گردے کا کام ہے یہ کام زیینبی کام ہے اسکو انجام دینے کے لئیے عزم زینبی کی ضرورت ہے ۔ اگر ایران و عراق اور شام میں استعماری گماشتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کربلا کے جانباز سپاہی اپنی تاریخ خود رقم کر سکتے ہیں اور اپنے بیدار قائد کی رہبری میں کربلا والوں کے درس سے الہام لیتے ہوئے اپنی تقدیر خود لکھ سکتی ہے اور انکا دنیا کی کوئی بھی طاقت کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی تو ہم بھی اپنے سماج و معاشرہ میں ایک انقلابی روح بیدار رتے ہوئے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کر سکتے ہیں اس لئیے کہ جہاں کربلا انقلابی آہنگ و جذبہ کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے وہیں دشمن کو پہچاننے کا بھی ایک بہترین موقع ہے یزید شمر، ابن زیاد و عمرسعد صرف وہی نہیں تھے جو سن اکسٹھ ہجری میں کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر ظلم کرنے کے لئے موجود تھے بلکہ آج بھی یزید، شمر، حرملہ، ابن زیاد اور عمرسعد پائے جاتے ہیں جو اسلام کو مٹانے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے طاقت کے ہر حربے کا استعمال کر رہے ہیں آج بھی وقت کے یزید کربلا کے پیغام کو مٹانے کے در پئے رہتے ہیں آج بھی وقت کے ابن زیاد ہر اس تحریک اور انقلاب کو نابود کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو عاشورا سے درس لے کر آگے بڑھ رہی ہو۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت کا بھی یزید و شمر و حرملہ و ابن زیاد پیغام حسینیت کو نہیں روک سکا تھا اورآج کے بھی یزید عاشورا کے آفاقی پیغام کو نہیں روک پا رہے ہیں اگرچہ پیغام کربلا پرعمل کرنے والوں کو اس کے لئے بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے اورفوجی سیاسی اور اقتصادی طور پر سامراجی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن مصباح الہدی و سفینۃ النجات کی نصرت و مدد کے زیرسایہ حسینیت کے پیرو بڑی سے بڑی مشکلات کا بہت ہی ڈٹ کر مقابلہ کررہےہیں اور تمام مسائل و مصائب کاسامنا خندہ پیشانی کے ساتھ کرتے ہوئے ارتقاء کے مراحل کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ آج کون نہیں جانتا کہ اگرکل یزید اور اس کے کارندے ابن زیاد و حرملہ شمر جیسے فاسق و فاجر و بدشعار عناصر اسلام کے دشمن تھے تو آج امریکہ اور اس کے اتحادی خاص کر آل سعود و صہیونی حکومت و انکے کماشتے دین اسلام کے کھلے دشمن ہیں اور اگر آج دنیا میں توحیدی و اسلامی نظام سے عالمی سامراج کی کھلی دشمنی ہے تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ جہاں بھی کربلائئی فکر کا وجود ہے سامراج کو اندازہ ہے کہ یہ فکر کبھی بھی انکے دنیا بھر میں پھیلے گماشتوں کو تخت حکومت سے نیچے پھینک کر اللہ کی کبریائی کا پرچم لہرا سکتی ہے لہذا عالمی سامراج کی سازشوں کو سمجھنا تمام حسینیوں اور مسلمانوں پر فرض و لازم ہے اور اگر اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی کوتا ہی کی گئی تو رسول اسلام امام حسین اور سب سے بڑھ کرخدا کے حضور کو سب کو جواب دینا ہوگا آج محرم اور کربلا جب سب کو ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دے رہا ہے اور دشمنوں کے چہروں پر پڑی ہوئی نقاب کو اتار پھینکنے کے لئے آگے قدم بڑھانے کا حکم دے رہا ہے تو ایسے میں اگر ہم امام عالی مقام کے عاشق ہونے کا دم بھرتے ہیں تو عملی طور پر اپنے آپ کو بہرحال ثابت کرنا ہوگا۔ آج کربلا کی قربانیوں کی روشنی میں عراق وشام فلسطین اور افغانستان و پاکستان سمیت دنیا کے دیگر علاقوں میں وقت کے یزیدیوں کے ظلم کے خلاف سب کو آواز بلند کرنا ہوگا اسی صورت میں عزاداری اور محرم کا حق ادا ہو سکے گا۔ کیونکہ عزاداری نام ہے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور مظلوم کی مظلومیت کو عام کرنے کا ۔
بقلم سید نجیب الحسن زیدی

 

کربلا کی انقلاب آفریں بنیادیں

  • ۴۱۴

خیبر تجزیاتی ویب گاہ: واقعہ کربلا اگر چہ سن ۶۱ ہجری میں رونما ہوا اور طلوع آفتاب سے لیکر عصر عاشور کا سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے سب کچھ ختم ہو گیا لیکن عاشور کا یہ ایک دن دنیا زمانے پر محیط ہو گیا اور ایک مشعل فروزاں کی صورت تاریخ میں درخشاں و تابندہ ہے اور کوئے حق و حقیقت کو تلاش کرنے والوں کے لئے نور افشانی کر رہا ہے ۔
سید الشہداء علیہ السلام نے حق پرستوں کے باطل پرست طاقتوں سے تقابل کی ایسی حکمت عملی اپنے خون شہادت سے حیات انسانی کے لوح زریں پر رقم کر دی کہ رہتی دنیا تک حق پرستوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ اور تعداد میں کم ہوتے ہوئے بھی اکثریت کو خون کی دھار سے مات کر دینے کا عزم سکھاتی رہے گی ، شک نہیں کہ شہید قلب تاریخ ہے اور تاریخ کے دل ہونے کا مطلب ہے اس کے بغیر تاریخ مردہ ہے ۔ اس کے بغیر تاریکی ہی تاریکی ہے شہید وہ نور ہے جو ظلمت میں چمکتا ہے تو ظلمت کدے ویران ہو جاتے ہیں وہ فریاد ہے جو سکون و جمود میں بلند ہوتی ہے تو تہجر و جمود کے پہاڑ پانی پانی ہو جاتے ہیں اور ہر طرف حرکت ہی حرکت ہوتی ہے ۔
کربلا کی یہ آفاقیت ہے کہ ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ کہ اسکا رنگ پھینکا نہیں پڑتا بلکہ ہر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اور نکھار پیدا ہوتا جاتا ہے ۔ اور ہر آنے والا موسم عزا پچھلے سال سے با رونق و با عظمت ہوتا ہے اس لئیے کہ ہرآنے والا عزا کا موسم اپنے ساتھ زندہ قدروں کو لیکر آتا ہے جس میں کربلا سے جڑے واقعات ہمیں عالی ترین انسانی قدروں کے تحفظ کا درس دیتے ہیں ۔
حق و باطل کے مقابلہ میں مکتب شہادت کی جاودانگی ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ دنیا کے تمام مکاتب فکر کے درمیان اپنے اس لازوال مکتب سے تعلق خاطر پر فخر کریں اور کوشش کریں کہ اس کی تعلیمات کو عام کیا جا سکے ۔
تحریک کربلا انسانیت کے لئیے لا زوال نمونہ :
تاریخ انسانیت میں جتنی بھی الہی تحریکیں رونما ہوئی ہیں جنکے اندر ایک پاکیزگی و تقدس کا عنصر شامل رہا ہے اور انہوں نے انسانیت کے لئے کچھ کیا ہے، چاہے وہ تحریک ابراہیمی ہو یا فرعون وقت کے مقابل جناب موسی کا انقلابی آہنگ ان ابتداء آدم سے آج تک رونما ہونے والی ہر تحریک کا اگر کہیں نچوڑ نظر آتا ہے تو وہ کربلا ہے، اور اسکی دلیل کربلا کی یہ چار بنیادیں ہیں
۱۔ عشق الہی ونفاذ عدالت :
اس لئیے کہ یہ وہ تحریک ہے جس میں محض اور محض ذات پروردگار محور قرار پائی اور اسی لئیے اس کی بنیاد عدالت پر ہے اور کیوں نہ ہو جب انسان عشق الہی میں ڈوب کر بندگی کی راہوں میں قدم رکھے گا تو اسکا لازمہ ہی ظلم و ستم سے مقابلہ اور توحید کے پرچم کو بلند کر کے دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے کی صورت میں سامنے آئے گا ۔
۲۔آفاقیت وجاودانگی :
کربلا کوئی ۶۱ ہجری کا واقعہ نہیں آج بھی نظام ظلم کے خلاف اس کی گھن گرج کو سنا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دہشت و وحشت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بجلی کی مانند کہیں گرج و روشنی دکھائی دیتی ہے تو کربلا پر منتہی ہوتی ہے۔
۳۔ مفاد پرستی کے مقابل حق پرستی کی منطق :
آج جب لوگ عقل و منطق کی لگام ہر اس جگہ چھوڑ دیتے ہیں جہاں ان کے مفادات عقل و منطق و اصولی بات سے ٹکرا جائیں اسی مقام پر کربلا اعلان کرتی ہے کہ ہرگز حق پرستی کا سودا کسی بھی چیز سے ممکن نہیں کہ حق پرستی سے بڑھ کر قیمتی کچھ نہیں ہے اس لئیے کہ کربلا بندگی کا وہ مزاج حاکم ہے جہاں خود کو آگے رکھ کر بندگی نہیں بلکہ خود پر دوسروں کو مقدم کر کے اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے یہاں کہیں وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ [۱] کی عملی تصویر ملتی ہے تو کہیں ویطعمون الطعام علی[۲] حبہ کا مزاج حاکم ہے۔
مفاد پرستی کا گزر یہاں کہاں، یہاں تو سب کچھ قربان کر دینے کے بعد بھی احساس ندامت رہتا ہے کہ مالک قربانی تو دے دی لیکن معلوم نہیں حق ادا ہوا یا نہیں ؟
۴۔ بصیرت و عمق :
بصیرت و گہرائی کربلا کی وہ بنیاد ہے جو اس تحریک کو ہر دیگر واقعہ و تحریک سے ممتاز بناتی ہے اس لئے کہ جس عمق و بصیرت کا مظاہرہ کربلا والوں نے کیا اس کی نظیر کہیں اور نظر نہیں آتی یہ وہ بصیرت جسے کہیں قرآن نے جناب ابراہیم کے لئے رشد[۳] کی حیثیت سے بیان کیا ہے تو کہیں سورہ کھف میں و زدناھم ھدی [۴]کے ذریعہ اس کی نشاندہی کی ہے اور اسی بنیاد پر یہ واقعہ گزر زمان کے ساتھ پرانا نہیں ہوتا بلکہ ہر نیا طلوع ہونے والا سورج اس کی تازگی وطراوت کا سبب بنتا ہے۔
کربلا کی یہ وہ چار بنیادیں جنکی بنا پر آج ہر عدل و انصاف پر مبتنی دنیا میں اٹھنے والی ہر تحریک اپنے اندر وہ جوالا مکھی لیکر آتی ہے کہ قصر ستم و جور پر لرزا طاری ہو جاتا ہے ۔
ہمارے لئے کربلا کا وجود ایک بہت بڑا سرمایہ ہے جو حقیقی تصور حیات سے آشنا کر کے ہمیں کیڑے مکوڑوں کی زندگی سے علیحدہ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس جگہ کھڑے نظر آتے ہیں جہاں کسی پر ظلم ہو رہا ہو کوئی ہو یا نہ ہو کربلائی تعلیمات ہم سے یہ کہتی ہیں کہ وہاں تم سب سے پہلے پہونچو جہاں انسانیت کو تمہاری ضرورت ہو اور رخسار ستم پر پڑنے والا سب سے پہلا طمانچہ بھی تمہارا ہی ہونا چاہیے ۔
کربلا سے باطل پرست طاقتیں اس لئے ڈرتی اور گھبراتی ہیں کہ کربلا ان کے چہرے نقاب الٹ کر انکی حقیقت کو ظاہر کرنے والی تحریک کا نام ہے کل بھی دشمنوں نے کربلا کی آواز کو دبانےکی کوشش کی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔
آج ایک بار پھر کربلائی مزاج کا ہم سے مطالبہ ہے دشمنوں کے حیلوں اور انکی نیرنگی چالوں سے نہ گھبراتے ہوئے جہاں بھی ظلم ہو ظالم کو بے نقاب کرنا تمہاری ذمہ داری ہے ۔ میانمار و میں روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام پر دیگر لوگوں نے بھی زبانی جمع خرچی کی اور کربلائی طرز فکر نے بھی اسکی مخالفت کے ساتھ عملی چارہ جوئی کی جہاں کربلائی فکر حاکم تھی وہاں سے ضرورت مندوں کے لئے رسدبھی ارسال کی گئی، حکومتی پیمانہ پر ہم نوا ملک کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بھی بنا پارلیمنٹ سے لیکر وزارت خارجہ تک نے سلامتی کونسل و اقوام متحدہ اور ان کے مربوط اداروں میں مکاتبات بھی کئے اور سوچی جیسی سفاک کے چہرہ سے یہ کہہ کر نقاب بھی الٹی گئی کہ اس بے رحم عورت کی بے رحمی نوبل انعام کا خون کر دیا اور اسکی بے رحمی کو بھی واضح کیا گیا لیکن افسوس چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر بکھیڑا کھڑا کر دینے والا میڈیا خاموش رہا اور اسے زبانی جمع خرچ کرنے والے ایسے ممالک تو ضرور نظر آئے جو پہلے ہی امریکہ کی گود میں بیٹھے ہیں اور اس کے اشاروں کے بغیر ان کے یہاں پتہ بھی نہیں ہلتا لیکن انہیں کربلائی فکر رکھنے والا وہ ملک نظر نہیں آیا جس نے حکومت کی ہر سطح پر میانمار کے سلسلہ سے عملی اقدامات کئیے جسکا ایک ثبوت بنگلا دیش کو بھیجی جانے والی امدادی کھیب ہے جو روہنگیائی مسلمانوں ہی کے لئیے بھیجی گئی جو بنگلا دیش میں انتہائی بری حالت میں اپنے بھائیوں کی مدد کا انتظار کر رہے تھے۔ علاوہ از ایں یمن کے مظلوم عوام کی مدد ہو، کہ غزہ میں محصور فلسطینی بھائیوں کی پرسان حالی وہی ملک آگے نظر آتا ہے جسکا انقلاب کربلا سے فروغ حاصل کرنے کے بعد آج دنیا کا تنہا انقلاب ہے جو اپنے بل پر تمام محاصروں کے بعد کھڑا ہوا توحید پروردگار کا ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے ۔ اور یہ محض خاص انقلاب کی بات نہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق ہو بلکہ جہاں بھی کربلا ہے وہاں یہی چیز حاکم ہے کربلائی مزاج ہم سے جہاں ظالموں سے مقابلہ کی دعوت دیتا ہے او ر مظلوم کے ساتھ دینے اور مظلومین جہان کی حمایت میں اٹھ کھڑے رہنے کا مطالبہ کرتا ہے وہیں ہم سے یہ بھی کہتا ہے کہ اپنے اطراف میں رونما ہونے والی دشمن کی شاطرانہ چالوں پر نظر رکھو اور ہرگز انہیں اپنے ہدف میں کامیاب نہ ہونے دو کہ کربلا کی بنیادوں میں ایک اہم عنصر بصیرت و عمق ہے جسکا فقدان یزیدیت کے مسلط ہونے کا سبب بنتا ہے ۔
حواشی :
[۱] ۔ َوالذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۰ۭۣ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ , ترجمہ : اور جو پہلے سے اس گھر (دارالہجرت یعنی مدینہ) میں مقیم اور ایمان پر قائم تھے، وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آیا ہے اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دے دیا گیا اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں پاتے اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں ۔ سورہ حشر آیت ۹
[۲] ۔ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا
اِنَّمَا نُـطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُکُوْرًا
۔ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں ۔
۔ (وہ ان سے کہتے ہیں ) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں ، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔ ۸،۹ سورہ انسان
[۳] ۔ وَلَـقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰہِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ
اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے کامل عقل عطا کی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔ انبیاء ۵۱
[۴] ۔ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَہُمْ بِالْحَقِّ اِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًى
وَّرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰـہًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا
۔ ہم آپ کو ان کا حقیقی واقعہ سناتے ہیں ، وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی۔
۔ اور جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا پس انہوں نے کہا: ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے، (اگر ہم ایسا کریں ) تو ہماری یہ بالکل نامعقول بات ہو گی۔ ۱۳ ۔ ۱۴ کھف
بقلم سید نجیب الحسن زیدی

 

کربلا اور انتظار کے درمیان الہی سنتوں کا رابطہ

  • ۴۱۳

خیبر تجزیاتی ویب گاہ: ہر پر بار سماج و معاشرے میں رائج ثقافت و فرھنگ کے ریشے اور اس کی بنیادیں ماضی کے اقدار و تحفظات میں پنہاں ہوتی ہیں گرچہ معاشرہ آج کی فضاوں میں سانسیں لے رہا ہے آج کی دنیا میں جی رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے ماضی سے علیحدہ ہو کر نہیں جیتا اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ ہو اپنے ماضی کو فراموش کر کے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ ہر معاشرہ اپنے وجود کو منوانے کے لئے اپنی تاریخ کا محتاج ہے اپنے ماضی کی خدمتوں کو یاد رکھے بغیر دو قدم نہیں چل سکتا اور اسی بنا پر ایک سماج و معاشرہ کے آئندہ کے خطوط کو آنے والے سے زیادہ گزشتہ کل میں پنہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ معاشرہ کے طول و عمق عرض پر مشتمل تینوں ابعاد کو گزشتہ کل متعین کرتا ہے جس کے بغیر معاشرہ کی تعمیر ممکن نہیں ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ گرچہ تمام کے تمام ہی انسانی معاشرہ اپنی ایک متعین سمت رکھتے ہیں اور انکے اپنے اپنے مثبت و منفی پہلو ہوتے ہیں جنہیں وہ حال کے آئینہ میں دیکھ کر مستقبل کے لئے ایک بہتر کل کی تشکیل کے لئے کام میں لاتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا معاشرہ ہمارے سامنے نہیں ہے جس کے کل کی تعمیر میں تخیلات و توہمات کا دخل نہ ہو خیال پردازی نہ ہو موہومات نہ ہوں اس لئے کہ ان کے ساتھ دو بڑی مشکلیں ہوتی ہیں؛
۱۔ انکا ماضی قوت و ضعف کا مجموعہ ہوتا ہے جس میں بہت ضروری ہوتا ہے کہ بر وقت مثبت اور مضبوط پہلووں کو صحیح و بجا طور پر منتخب کیا جائے۔
۲۔ یہ مستقبل کو لیکر جو خواب دیکھتے ہیں اس کی حقیقی پیرایہ میں ایک بازبینی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انکی آرزوں کو عملی ہونے کا موقع مل سکے ۔
انہیں معاشروں میں ایک ایسا سماج بھی ہے جسکا ماضی بھی درخشاں ہے جس کا مستقبل بھی روشن ہے جس کے کل کی ضمانت بھی موجود ہے جسکے گزشتہ کل کی ضمانت اسکی درخشاں تاریخ ہے یہی وہ معاشرہ ہے جو اپنے گزشتہ کل کی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے آنے والے کل کے لئے ایک مضبوط نظام حیات دے سکتا ہے۔ یہ وہ سماج ہے جسکا ماضی بھی درخشان ہے جسکا مستقبل بھی روشن ہے اگر ہم ایسے سماج کو ڈھونڈنے نکلیں تو ملے گا یہ وہ سماج ہے جس کی جڑیں امامت و ولایت میں گڑی ہیں یہ وہ سماج ہے جس کے ماضی میں حرکت ہے جوش ہے ولولہ ہے قربانیاں ہیں شہادتیں ہیں مقتل ہے دار و رسن ہے اور یہ ہر جگہ سر بلند ہے یہ وہ معاشرہ ہے جسکے پاس چودہ ایسے ہدایت کے سلسلہ ہیں جن سے ایسا نور ساطع ہے جو قیامت تک کے لئے رشد و ہدایت کی راہ کو نورانی کرتا رہے گا۔ اس معاشرہ میں حرکت بھی ہے خاموشی و سکوت بھی، عزم جہادی بھی ہے تقیہ بھی شھادت بھی ہے زندان و قید بھی، اس معاشرہ کا نصف النہار کربلا ہے ۔
کربلا وہ سلسلہ ہے جس نے آنے والی نسلوں کو ایک ایک زنجیر کے حلقے کی صورت میں دوسرے سے جوڑ کر رکھا اور یہی وجہ ہے کہ جہاں پر اس سماج و معاشرہ کی اعلی ترین تشکیل ہے ظہور امام عصر علیہ السلام کی شکل میں وہاں بھی یہی کربلا کا سورج جگمگاتا نظر آ رہا ہے
تحریک کربلا اور عقیدہ مھدویت اس سماج کے دو ایسے حقیقی عناصر و رکن ہیں جنکے بغیر اس معاشرہ کو سمجھنا مشکل ہے جب اس معاشرہ کی ایک سمت کربلا ہے دوسرے سمت مھدویت ہے تو اب ضروری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ کل ہمارا ہوگا۔
ایک شیعہ معاشرہ میں کربلا اور انتظار دو الک الگ قضایا نہیں ایک دوسرے سے جڑے مفاہیم ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں کربلا ہمارا ماضی ہے ظہور امام عصر علیہ السلام ہمارا مستقبل ہے۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی حکومت کا قیام بغیر کربلا کے بغیر نا مفہوم ہے، تصور حکومت مستضعفین ایک ایسا تصور ہے جس کی پشت پناہی خلا میں نہیں حقیقت کی فضاوں میں ہے لہذا ضروری ہے کہ کل کی تعمیر کے لئے ہمارا ماضی ہمارے سامنے واضح ہو ۔
جب ہم کربلا کے سلسلہ سے غور کرتے ہیں اور اپنے اس درخشان ماضی کو دیکھتےہیں تو ہمیں ایک الہی نظام نظر آتا ہے پروردگار کی کچھ سنتیں نظر آتی ہیں اس کے امتحان کا ایک نرالا انداز نظر آتا ہے جو ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ سنتیں تکرار ہو سکتی ہیں یہ امتحان پھر ہو سکتا ہے لہذا ہمیں خود کو تیار رکھنا ہے ۔
قیام حسینی و مھدوی میں الہی سنتوں کا وجود اور ہماری ذمہ داریاں :
فلسفہ تاریخ اور اجتماعی مطالعات کے سلسلہ سے ہونے والی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے الہی سنتیں اور اس کی جانب سے ہونے والے امتحانات نہ تبدیل ہونے والے قوانین کی شکل میں حوادث و واقعات پر حاکم ہیں اور قرآن کریم کی بہت سی آیات کریمہ سنن الہی کے ایک قانونی مدار میں حرکت کرنے کو بیان کر رہی ہیں ۔
سماج و معاشرہ کو ایک خاص قانون [۱] کے تحت چلانے کے سلسلہ سے قرآن کریم اور دیگر اسلامی متون میں جو کلمہ استعمال ہوا ہے اسے سنت کہا گیا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن کریم میں نقل ہونے والے قصص، حوادث اور تاریخی واقعات اپنے دور کے کسی ایک خاص گروہ یا ایک خاص دور سے متعلق ہونے کے باوجود اسی سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر عمومیت پائی جاتی ہے۔
اور ہر دور کے انسانوں کے لئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم انسانوں کو ترغیب دلاتا ہے کہ کائنات کے بارے میں غور کیا جائے اور دنیا میں سیر و سفر کے ذریعہ اللہ کی نعمتوں کے سلسلہ سے اپنے مشاہدات کی روشنی میں حقائق کا ادراک کیا جائے حتی گزشتہ لوگوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور اپنے لئے سعادت و کمال کی راہوں کا انتخاب کیا جائے ۔
تاریخی واقعات کے سلسلہ سے قرآنی ہدایات کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ کے ان اہم واقعات میں جو انسانی زندگی کے سلسلہ سے ایسے راہنما اصول پیش کرتے ہیں جن پر چل کر بشریت کمال واقعی تک پہنچ سکتی ہے ایک بے نظیر واقعہ کربلا ہے جو گرچہ بہت مختصر سے عرصہ میں رونما ہوا لیکن اپنے اندر صدیوں پر محیط ایسی تعلیمات لئے ہوئے ہیں جسکی روشنی میں بشریت کو معراج ملتی رہے گی ۔اس مختصر سے واقعہ میں امتحان الہی کے دشوار و عالی ترین نمونے موجود ہیں جو حق و باطل کے معرکہ کے درمیان متجلی ہوتے ہیں کربلا کے بعد ایک اور پروردگارکی عظیم سنت جسے دنیا میں جاری و ساری ہونا ہے اور جس میں بنی نوع بشر کو اپنا دشوار ترین امتحان دینا ہے ظہور امام زمان عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ہے جس میں ساری دنیا میں عدالت کا پرچم لہرائے گا اور برسوں سے ظلم و ستم کی چکی میں پستی بشریت کو جام عدالت سے سیراب کیا جائے گا ۔اب چاہے واقعہ کربلا ہو یا ظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا مرحلہ دونوں ہی میں ہم سب کا امتحان ہے بس فرق یہ ہے کہ واقعہ کربلا میں امتحان ہو چکا ہے اور ظہور کے بعد امتحان ہونا باقی ہے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ ہم ان الہی سنتوں کو سمجھیں اور جانیں جو کربلا میں نافذ تھیں اور بعد کربلا ظہور امام زمانہ عج کے وقت دوبارہ تکرار ہوں گی یقینا کربلا میں رائج الہی سنتوں کی امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قیام عدالت پر تطبیق ہماری نصرت امام کی راہ میں معاون و مددگار ہوگی ۔
[۱] . تفصیل کے لئے رجوع کریں ، محمد نوری ، عبر ھای عاشورا ، ص ۲۴
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

 

امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر ایک عظیم انسانی تمدن کی تشکیل کا نقطہ آغاز

  • ۵۷۱

خیبر تجزیاتی ویب گاہ: کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے ۲۸ رجب کو سفر اس لئے کیا کہ یزید کی بیعت کے انکار  کے بعد کوئی چارہ کار نہیں تھا لہذا آپ نے خاموشی کے ساتھ مدینہ کو ترک کر دیا کہ یزید کی بیعت کا سوال یزید کی طرف سے ہو چکا تھا اور مدینہ میں رہنا آپ کے لئے خطرہ سے خالی نہیں تھا ،  آپکو اپنی جان کا خوف تھا لہذا آپ نے خاموشی کے ساتھ  مدینہ سے نکل جانا ہی بہتر سمجھا جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اگر خود امام حسین علیہ السلام کے سفر کی کیفت کو دیکھ لیں تو اندازِ سفر بتائے گا کہ ہرگز امام حسین علیہ السلام کے مقصد سفر پر  انکی توجہ نہیں گئی ہے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے خاموشی سے سفر نہیں کیا اسکی دلیل یہ ہے کہ پورا قافلہ  لیکر آپ نکلے ہیں  ایسا قافلہ جس میں ۲۵۰ گھوڑے ہیں ۲۵۰ ناقے ہیں جن میں ۷۰ ناقے تو وہ ہیں جن پر خیموں کے پردے  ، طنابیں ، اور خیموں سے متعلق صرف ساما ن لدا ہوا تھا  ۴۰ ناقے وہ تھے جن پر برتن اور دیگر گھریلو وسائل اور اسلحے وغیرہ تھے ۳۰ ناقوں پر پانی کی مشکیں تھیں جبکہ ۱۲ ناقے وہ تھے جن پر لباس وغیرہ تھے ۵۰ ناقے وہ تھے جن پر ہودج ، اور مخدرات عصمت و طہارت کے استعمال کے وسائل تھے [۱] اتنے بڑے قافلہ کا خاموشی کے ساتھ نکلنا نا ممکن تھا دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے کسی تاریک راستہ کا انتخاب نہیں کیا اور آپ کو مشورہ دینے والوں نے مشورہ بھی دیا کہ آپ بھی ویسے ہی مدینہ سے نکل جائیں جس طر دیگر عبداللہ بن زبیر وغیرہ نے کیا لیکن آپنے واضح طور پر اعلان کر دیا میں ہرگز ایسا نہیں کرونگا اس کا مطلب اتنا تو واضح ہے کہ امام حسین علیہ السلام مدینہ سے کسی ڈر اور خوف کی وجہ سے نہیں نکلے اور نہ ہی بیعت ِ یزید سے بچنے کے لئے نکلے  اور نہ محض بیعت اس سفر کی مکمل علت ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ امام حسین علیہ السلام ایک مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور وہ سوال ِ بیعت کی صورت آپ کو مل گیا لہذا آپ نے واضح طور پر پہلے تو انکار بیعت کیا اور اتنا انتظار کیا کہ لوگوں میں بات مشہور ہو جائے کہ امام حسین علیہ السلام نے بیعت سے انکار کر دیا ہے اور اسکے بعد مدینہ کو چھوڑنے کافیصلہ کر لیا گو کہ لوگوں کو ایک اشارہ دیا اب یہ وقت مدینہ میں محفوظ بیٹھنے کا نہیں بلکہ کربلا سجا نے کے عزم کے ساتھ اٹھ کر یزیدی نظام حکومت کے خلاف قیام کا وقت ہے.
لہذا کہا جاسکتا ہے امام حسین علیہ السلام نے محض سوال ِ بیعت کی بنا پر مدینہ نہیں چھوڑا بلکہ ظالمانہ حاکمیت  کے خلاف آپ پہلے سے ہی قیام کا ذہن بنا چکے تھے سوال ِ بیعت اتنا ضرور کیا کہ آپ کو وہ موقع فراہم کر دیا  جو آپ کے سفر کا نقطہ آغاز بنتا اور آپ نے مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کے ذریعہ کربلا کی تعمیر کی صورت اسکا آغاز کر دیا  ۔
اہتمام سفر
امام حسین علیہ السلام کا سفر ایک تاریخی حادثہ نہیں ہے جس طرح کربلا ایک تاریخی حادثہ نہیں ہے بقول رہبر انقلاب اسلامی ” کربلا ایک تاریخی حادثہ نہیں ایک تمدن ہے ایک ایسی تہذیب سے عبارت ہے جس نے  دائمی تحریک کی صورت  امت اسلامی کے لئے سرمشق کا کام کیا ہے [۲] اورکربلا کا  عظیم تمدن  کا وارث ہونا   ایک لازوال تہذیب کا  ترجمان ہونا امام حسین علیہ السلام کے اہتمام سفر سے واضح و آشکار ہے  سفر  کے آغاز میں جن شخصیتوں کو آپ نے اپنے ہمراہ لیا ہے اور جس انداز سے عظیم اسلامی تمدن کے ارکان کو ۷۲ جانثاروں کے صورت سجایا ہے وہ اس کی نظیر نہیں ملتی لہذا ایک نظر آپ کے ہمراہ جانے والوں پر ڈالیں تو بہت کچھ پتہ چل جاتا ہے کہ آپ مدینہ سے کیوں نکل رہے تھے ، کیامحض یہ ڈر اور خوف تھا یا پھر ایک لازوال تمدن کی تشکیل کے لئے ضروری عناصر کو اپنے دور اندیشی اور حکمت عملی کے تحت ساتھ لینا تھا  جب ہم آپ کے سفر  کی تاریخ اور سفر میں ساتھ جانے والے افراد پرنظر ڈالتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ  ۲۸   رجب کو ۶۰ ہجری میں امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ کا قصد کیا [۳] ایک قول کے مطابق آپ ۲۹ رجب المرجب کی رات مدینہ سے نکل گئے [۴] اس سفر میں روایات کے مطابق آپکے ہمراہ عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب سلام اللہ علیہا جناب ام کلثوم، حضرت عباس ع   جناب علی اکبر  اورآپکے دیگر اہل خانہ موجود تھے جناب زینب سلام اللہ علیہا اور جناب ام کلثوم کو ملا کر آپکے ۱۳ بہنیں اس سفر میں آپ کے ساتھ تھیں ، اہل حرم میں جناب زیننب و ام کلثوم سلام اللہ علیہا کے علاوہ امیر المومنین علیہ السلا کی بہن جمانہ بنت ابوطالب ع اور ۹ کنیزیں آپ کے ہمراہ مدینہ سے  نکلے ، اس چھوٹے سے قافلے میں امام حسن مجتبی علیہ السلام کی بعض  زوجات کے علاوہ ۱۶ افراد وہ تھے جنکا تعلق جناب امام مجتبی علیہ السلام و خانوادہ جناب مسلم بن عقیل سے تھا اصحاب ِ با وفا کے علاوہ ۱۰ غلام بھی آپکے ہمراہ تھے [۵]
مرگ معاویہ اور سوال بیعت
تاریخ کہتی ہے  رجب کی درمیانی تاریخوں میں اور بنا بر نقلے ماہ رجب کے اختتام سے آٹھ دن قبل امیر شام ہلاک ہوا اور اسکا بیٹا تخت حکومت پر بیٹھا یزید نے حکومت سنبھالتے ہی والی مدینہ کو خط لکھا کہ امام حسین علیہ السلام ، عبد اللہ بن عمر عبد اللہ بن زبیر اور عبد الرحمن بن ابی بکر سے بیعت لے لو یا انکے سروں کو میرے لئے بھیج دو ، یہ وہ مقام ہے جہاں مدینہ کے والی ولید نے مروان سے پوچھا کہ کیا کیا جائے تو مروان نے کہا قبل اس کے کہ یہ افراد حاکم شام کی موت سے باخبر ہوں انہیں بلا لو ، چنانچہ رات ہی میں ولید نے اپنا آدمی  امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیج دیا ، آپ اس وقت اپنے نانا کے مرقد پر تھے جب ولید کی طرف سے پیغام امام حسین علیہ السلام کو پہنچا تو آپ نے فرمایا: میں گھر جا کر جلد ہی ولید کے پاس پہنچونگا [۶]
اس مقام پر دیگر ان افراد کی گفتگو قابل غور ہے جن سے یزید نے بیعت کا مطالبہ کیا تھا چنانچہ امام حسین علیہ السلام کے یہ کہنے کے بعد عمر بن عثمان جو ولید کی جانب سے پیغام لیکر آیا تھا پلٹ گیا  ، اب جن لوگوں کوبلایا گیا تھا امام حسین علیہ السلام کے علاوہ سب کی گھبراہٹ و پریشانی دیکھنے لائق تھی  عبد اللہ بن زبیر نے کہا : یا اباعبد اللہ ولید کی جانب سے آنے والے بے ہنگم پیغام نے مجھے پریشان کر دیا ہے آپ کیا سوچ رہے ہیں کیا فیصلہ کیا ہے ؟ امام حسین علیہ السلام نے معاملہ کی نزاکت کو فورا بھانپ کیا اور فرمایا: میرا گمان ہے کہ امیر شام ہلاک ہو گیا ہے اور ولید نے ہمیں یزید کی بیعت کے لئے بلایا ہے  [۷] امام حسین علیہ السلام کی جانب سے یہ خبر سنائے جانے کے بعد  عبداللہ بن عمر اور عبد الرحمن بن ابی بکر کا رد عمل یہ تھا کہ انہوں نے کہا ہم اپنے گھروں کو جاتے ہیں اور دروازہ خود پر بند کر لیں گے جبکہ ابن زبیر نے کہا ہرگز میں یزید کی بیعت نہیں کرونگا ، لیکن ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو ولید کے دربار میں پہنچ کر اس سے پوچھتا  کہ تونے کیوں بلایا ہے ؟ یا ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم بیعت نہ کریں گے  صرف امام حسین علیہ السلام تھے جنہوں نے کہا مجھے  ولید کے پاس جانا ہی ہوگا اسکے علاوہ چارہ کار ہی نہیں ہے [۸] آپ بیت الشرف میں آئے اور تیس لوگوں کو اپنے ساتھ لیا جنہوں نے اسلحوں کو ساتھ باندھا انہیں لیکر چلے اور کہا کہ تم لوگ باہر ہی رکو اگر میری آواز بلند ہو جائے تو اندر آ جانا  شیخ مفید نے ارشاد میں ولید کے دربار میں جاتے ہوئے امام حسین کی جانب سے کچھ مسلح جوانوں کو لیکر چلنے کے سلسلہ سے لکھا ہے :
امام حسین علیہ السلام کو جب معاملہ کا پتہ چلا تو آپ نے اپنے نزدیکی ساتھیوں کو حکم دیا کہ اپنے اسلحوں کو اٹھا لیں اور کہا کہ ولید نے مجھ سے اس قسم کی درخواست کی ہے جسے لیکر میں آسودہ خاطر نہیں ہوں وہ مجھے ایسے کام پر مجبور کرےگا جسے میں قبول نہیں کر سکتا اور میں اس سے محفوظ نہیں ہوں لہذا تم لوگ میرے ساتھ چلو اور دروازے کے باہر ٹہر جاو اگر میری آواز بلند ہو جائے تو اندر چلے آنا [۹]۔
اسکے بعد  امام حسین علیہ السلام ولید کے دربار پہنچے آپ نے دیکھا کہ مروان بھی وہیں بیٹھا ہے ، ولید نے امیر شام کی ہلاکت کی خبر دی آپ نے کلمہ استرجاع زبان پر جاری کیا ،اس کے بعد ولید نے یزید کے مکتوب کے بارے میں بتایا کہ آپ سے یزید نے بیعت کا مطالبہ کیا ہے یہ وہ مقام ہے جہاں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : مجھے نہیں لگتا کہ تو خفیہ طریقے سے میری بیعت پر راضی ہو بلکہ تو یہی چاہے گا کہ میں یزید کی بیعت علنی طور پر لوگوں کے سامنے کروں [۱۰] ولید نے کہا جی ایسا ہی ہے جیسا آپ نے فرمایا   تو آپ نے جواب دیا   پس صبح تک صبر کر اور اس بارے میں اپنی رائے کو دیکھ [۱۱] ولید نے کہا آپ جائیے یہاں تک کے ہم لوگوں کے درمیان آپ سے ملاقات کریں  اس مقام پر  مروان نے کہا  ، اس وقت انہیں مت جانے دے ، اگر ابھی حسین ع کا ہاتھ بیعت کے لئے نہ لے سکا تو کبھی ایسا نہیں ہوگا  مگر یہ کہ دونوں طرف سے بہت خون بہے گا ابھی اگر بیعت نہ کریں تو سر قلم کر دے ، یہ وہ مقام ہے جہاں آپ مروان کی گستاخی پر سخت غضباک ہوئے اور آپ نے فرمایا :  ائے نیگوں چشم ماں کے بیٹے تو مجھے قتل کرے گا خدا کی قسم تو جھوٹا ہے[۱۲] نہ تجھ میں طاقت ہے اور نہ اس میں طاقت ہے  اسکے بعد آپ نے یہ تاریخی جملے  ارشاد فرمائے :
ہم اہلبیت نبوت ہیں ، معدن رسالت ہیں ملائکہ ہمارے آتے جاتے ہیں ، خدا نے خلقت پر ہمیں مقدم کیا ہے اورہم پر ختم کیا ہے  اور یزید شراب پینے والا فاسق لوگوں کو ناحق قتل کرنے والا  علنا فسق وفجور کرنے والا ہے مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا لیکن تو بھی صبح کرے گا ہم بھی کریں گے تو بھی دیکھے گا ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم مین خلافت او ربیعت کا زیادہ حقدار کون ہےیہ کہہ کر امام علیہ السلام اپنے چاہنے والوں کے ساتھ باہر نکل گئے [۱۳] تاریخ کہتی ہے ماہ رجب کے تین دن بچے تھے جب آپ نے یہ اقدام کیا۔
جب صبح ہوئی تو امام حسین علیہ السلام گھر سے نکلے  مدینہ کے ایک کوچےمیں مروان سے سامنا ہوا مروان نے کہا ائے ابا عبد اللہ آپ کو نصیحت کرتا ہوں میری نصیحت کو قبول کر لیں ، امام علیہ السلام نے فرمایا: تیری نصیحت کیا ہے ؟ مروان نے کہا یزید کی بیعت کر لیں آپ کے لئےدنیا و آخرت میں بہتری کا سبب ہے  امام علیہ السلام نے کلمہ استرجاع جاری کرتےہوئے فرمایا  جب امت پر یزید جیسے حاکم مسلط ہو جاءیں تو اسلام پر سلام ہو میں نے اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سےسنا ہے کہ آپ نے فرمایا: آل سفیان پر خلافت حرام ہے۔ [۱۴]
اسکے بعد آپ نے مدینہ کو ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے نانا کے مزار پر آئے اور دو شب آپ اپنے نانا کے مزار پر ہی تا دیر رہے تاریخ میں آپ کی اپنے نانا سے گفتگو نقل ہوئی ہے اسکے بعد آپ نے مدینہ کو چھوڑ دیا۔ [۱۵]
امام علیہ السلام کی جانب سے  مکہ کی طرف ہجرت میں ایک اہم بات مکہ تک جانے والی اصلی شاہراہ کا انتخاب ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے خوف و ڈر سے ایسا نہیں کیا بلکہ اسکی حکمت کچھ اور تھی اور امام لوگوں تک پیغام پہنچانا چاہتے تھے کہ میں کسی کے خوف سے مدینہ کو ترک نہیں کر رہا ہوں ورنہ چھپنے چھپاتے نکلتا بلکہ ایک عظیم مقصد کو لیکر چل رہا ہوں جبکہ لوگوں نے آ پ کو رائے دی تھی کہ آپ خاموشی سے پوشیدہ طور پر کسی اور راستہ سے نکل جائیں جس طرح عبد اللہ ابن زبیر نے کیا لیکن امام علیہ السلام نے منع کر دیا۔ [۱۶]
لوگوں کے نظریں ظاہری سفر اور ظاہری اسباب کو دیکھ رہی تھیں جبکہ امام علیہ السلام کی نظریں ایک عظیم تمدن کی تشکیل کو دیکھ رہی تھیں جو مدینہ سے اس طرح آپ کے نکلنے کے ساتھ ہی  تشکیل پانا شروع ہو گیا اور دوران سفر آپ کے خطبات ، مکہ میں آپ کے خاص انداز گفتگو خاص کر خطبہ منی  و منازل کربلا میں آپکے بیانات کی روشنی میں بارور ہوتا ہواعصر عاشور آپ اور آپ کے با وفا اصحاب کی شہادت پر تمام ہوا اور آج تک باقی ہے  اور جہاں جہاں بھی یزیدیت کے مظالم ہیں وہاں وہاں  گلشن شہادت میں اسی تمدن کے پھول کھلتے نظر آ رہے ہیں چاہے وہ ارض شام ہو ، بحرین  ویمن ہو عراق ہو یا فلسطین  ہر جگہ ایک ہی نعرہ ہے ہیات منا الذلہ ۔۔۔
حواشی:
[۱]۔ مدینہ سے مدینہ ص ۷۷ ص ۹۰ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ، بیت الاحزان ، عبد الخالق بن عبد الرحیم یزدی، مقتل الحسین ، ابو مخنف، تاریخ ابن اعثم کوفی وغیرہ
[۲]  ۔http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=34556
[۳] ۔ ارشاد، جلد ۲ ص ۳۴، اعلام الوری ، جلد ۱ ص ۴۳۵، بحار الانوار، جلد ۴۴ ص ۳۲۶، روضہ الواعظین ، ص ۱۷۱، مقتل الاحسین ، ص ۷ ، تاریخ طبری، جلد ۴ ص ۲۵۲
[۴]  ۔ فیض العلام ، ص ۳۲۹
[۵] ۔ تقویم شیعہ، ص ۲۲۴
[۶]  ۔ سوف أذهب إلیه بعد ذهابی الى البیت ، منتهى الآمال فى تواریخ النبى و الآل علیهم السلام (فارسى)، جلد ‏۲، صفحه ۶۹۹ – ۶۹۸
[۷]  ۔ «أظنّ أنّ طاغیتهم قد هلک فبعث إلینا لیأخذنا بالبیعة لیزید، منتهى الآمال فى تواریخ النبى و الآل علیهم السلام (فارسى)، جلد ‏۲، صفحه ۶۹۹ – ۶۹۸
[۸]  ۔ «لا حیلة لنا الّا الذهاب ایضا
[۹]  ۔ الإرشاد ترجمه رسولى محلاتى، جلد ‏۲، صفحه ۳۰
[۱۰]  ۔ انّی لا أراک تقنع ببیعتی لیزید سرّا حتى أبایعه جهرا فیعرف ذلک الناس، منتهى الآمال فى تواریخ النبى و الآل علیهم السلام(فارسى)، جلد ‏۲، صفحه ۷۰۰ – ۶۹۹ – منتهى الآمال فى تواریخ النبى و الآل علیهم السلام(عربی)، جلد ‏۱، صفحه ۵۵۵ – ۵۵۴
[۱۱]  ۔ فتصبح و ترى رأیک فی ذلک،  ایضا
[۱۲]  ۔ یا ابن الزرقاء ویل لک أ أنت تأمر بضرب عنقی و قتلی أم هو؟ کذبت و اللّه و لؤمت: یا بن الزّرقاء ایضا
[۱۳]  ۔ ایّها الامیر انّا أهل بیت النبوة و معدن الرسالة و مختلف الملائکة و بنا فتح اللّه و بنا یختم و یزید رجل فاسق شارب الخمر قاتل النفس المحرّمة معلن بالفسق و مثلی لا یبایع بمثله و لکن نصبح و تصبحون و ننظر و تنظرون أیّنا أحقّ بالخلافة و البیعة، ثم خرج (علیه السّلام) مع اصحابه و موالیه ، ایضا
[۱۴]  ۔ انّا للّه و انّا إلیه راجعون و على الاسلام السلام اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید و لقد سمعت جدّی رسول اللّه (صلّى اللّه علیه و آله) یقول: الخلافة محرّمة على آل أبی سفیان. ایضا
[۱۵]  ۔ فخرج الحسین [علیه السّلام‏] من تحت لیلته هذه [الثانیة] و هی لیلة الأحد لیومین بقیا من رجب سنة ستّین [من الهجرة] ببنیه و إخوته و بنی أخیه و جلّ أهل بیته، إلا محمد بن الحنفیّة و هو یتلو هذه الآیة: :« فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً یَتَرَقَّبُ قالَ رَبِّ نَجِّنِی مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِین (سوره مبارکه قصص، آیه ۲۱)» فلمّا دخل مکّة تلا هذه الآیة: «وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقاءَ مَدْیَنَ قالَ عَسی رَبِّی أَنْ یَهْدِیَنِی سَواءَ السَّبِیلِ.(سوره مبارکه قصص ، زندگانى چهارده معصوم علیهم السلام (ترجمه إعلام الورى) ، صفحه ۳۱۷
[۱۶]  ۔ ترجمه مقتل مقرم، صفحه ۶۰

 

ناجائز تحفے کا انجام؛ ٹرمپ گولان کے قضیے کے ناکام کھلاڑی

  • ۳۵۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے سے وابستہ کچھ عرب حکام کی مدد سے قدس شریف کو یہودی ریاست کا حصہ قرار دے کر امریکی سفارتخانے کی وہاں منتقلی کا اعلان کیا؛ بعد ازاں امریکی وزیر خارجہ کے دورہ مقبوضہ فلسطین کے دوران پامپیو نے ٹرمپ کو یہودیوں کی مدد کے لئے اللہ کا بھیجا ہوا سورما قرار دیا جس کے بعد ٹرمپ نے باقاعدہ طور پر ـ ایک بار پھر بین الاقوامی قواعد و اخلاقیات کو کچلتے ہوئے ـ شام کی گولان پہاڑیوں کے یہودی ریاست کی قلمرو میں ضم کرنے کے نیتن یاہو کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے اس علاقے پر غاصب ریاست کے قبضے کو تسلیم کیا ہے۔ جس کے بعد ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا ہے جو در حقیقت صدی کی ڈیل ـ یعنی ٹرمپ ڈیل ـ کا حصہ ہے۔ اس موضوع کو مختلف پہلؤوں کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے:
پہلا پہلو:
ٹرمپ گولان [جولان] کے مقبوضہ علاقے پر غاصب یہودی ریاست کی حکمرانی کو تسلیم کرکے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتے جس کو نصف صدی سے مسلسل تقویت ملی ہے اور وہ یہ کہ “گولان شام کا اٹوٹ انگ ہے جس پر یہودی ریاست نے قبضہ کر رکھا ہے”، یہ مسئلہ [یعنی گولان پر یہودی ریاست کا غیر قانونی قبضہ] اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں ـ اور سب سے بڑھ کر سنہ ۱۹۸۰ع‍ میں منظور شدہ قرارداد نمبر ۴۹۷ نیز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں سے ثابت ہے۔
دوسرا پہلو:
ٹرمپ کو گولان پر غاصب یہودی ریاست کی حکمرانی کو تسلیم کرکے مخالفتوں کی ایک عظیم عالمی لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے حتی کہ امریکہ کے یورپی حلیف ان کے اس اقدام کی شدید مذمت کررہے ہیں۔ امریکہ ـ جسے پہلے ہی عالمی بداعتمادی کا سامنا ہے ـ کی عالمی اعتمادی میں مزید شدت آئے گی۔
تیسرا پہلو:
ٹرمپ نے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے اس فیصلے سے پہلے موضوع کا اچھی طرح سے جائزہ لیا تھا اور یہ کہ ان کے اس فیصلے کا سبب یہ تھا کہ یہودی ریاست شام میں ایران کے مقابلے میں اپنے دفاع کا پورا حق رکھتی ہے؛ لگتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ اس اقدام کے ذریعے عالمی سطح پر اپنے رقیب ملک “روس” کے ساتھ ایک مسابقتی کیس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ اگلے مرحلے میں متعدد نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں:
پہلا نتیجہ:
گولان پر غاصب یہودی ریاست کی حکمرانی تسلیم کرنے کے سلسلے میں ٹرمپ کا فیصلہ خطے ـ یا حتی کہ شام میں ـ امریکی مفادات کے لئے ناگزیر ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ جیسا کہ رپورٹوں سے ظاہر ہے، یہ فیصلہ غاصب یہودی ریاست کے اگلے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے لئے ایک تحفہ ہے ایک دوست اور حلیف [ٹرمپ] کی طرف سے ایک دوست اور حلیف [نیتن یاہو] کے لئے۔
یقینا نیتن یاہو اگلے انتخابات میں ترپ کے اس پتے سے ضرور فائدہ اٹھائے گا اور ساتھ ہی ٹرمپ غاصب یہودی ریاست کے مفادات کے سب سے بڑے نگہبان کے طور پر ابھریں گے؛ اور جو کچھ یہ غاصب ریاست امریکہ کے ساتھ ستر سالہ دوستانہ تعلقات سے حاصل نہیں کرسکی ہے، ٹرمپ یہودی لابیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وہ سب کچھ یہودیوں کو تحائف کے طور پر پیش کریں گے اور یہ تحائف عالمی سیاست کی سطح پر امریکہ کا اعتبار مخدوش سے مخدوش تر کریں گے۔
دوسرا نتیجہ:
امریکی انتظامیہ نے [ٹرمپ کے دعوے کے برعکس] یقینی طور پر اس اقدام کے عواقب اور انجام کا جا‏ئزہ نہیں لیا ہے؛ ایسی انتظامیہ جس کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہے سوا اس کے کہ ان تمام منصوبوں پر عملدرآمد کرے جن کا تعلق یہودی ریاست اور نیتن یاہو کے مفادات سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں؛ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ گولان پر یہودی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے ٹرمپ کے اقدام کا انجام امریکہ کے لئے بھی اور ٹرمپ کے لئے بھی بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔
تیسرا نتیجہ:
اگر ٹرمپ اس اقدام کو فلسطین کے سلسلے میں صدی کی ڈیل کی تمہید کے طور پر استعمال کرنا چاہیں اور قدس اور جولان کے بعد ـ تیسرے مرحلے کے طور پر ـ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا حق بھی چھیننا چاہیں تو یقینا حالات مزید بحران اور تناؤ کا شکار ہوجائیں گے اور یہ تناؤ ایک فوجی تقابل کی صورت میں نمایاں ہوسکتا ہے، اور عین ممکن ہے کہ یہودی ریاست ایسے کسی تقابل کی صلاحیت نہ رکھتی ہو اور ایسے کسی تقابل سے پیدا ہونے والے حالات کو قابو میں نہ لا سکے۔
اور اگر امریکہ گولان کے مسئلے کو شام کے سلسلے میں روس کے خلاف دباؤ کا ذریعہ بنانا چاہے، تو بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ باوجود اس کے کہ روس اور شام کے بہت سے مفادات مشترک ہیں؛ تاہم ترپ کا پتہ ماسکو کے ہاتھ میں نہیں بلکہ دمشق اور تہران کے ہاتھ میں ہے۔
علاوہ ازیں، دائمی ابدی تاریخی حقیقت یہ ہے کہ گولان ایک شام کا حصہ ہے جس پر قبضہ ہوا ہے اور جس کو آزاد ہونا چاہئے۔ چنانچہ ٹرمپ کا یہ اقدام روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ـ بغیر کسی اضافی خرچ کے ـ کو ایک ترپ کا پتہ بطور تحفہ دے گا جسے وہ یوکرین کے ساتھ جزیرہ نمائے کریمیا کے تنازعے میں استعمال کریں گے۔ بےشک گولان پر یہودی ریاست کی حکمرانی کو تسلیم کرکے، معقول نہیں ہوگا کہ ٹرمپ پیوٹن سے جزیرہ نمائے کریمیا ترک کرنے کا مطالبہ کریں!
ان ساری باتوں کے علاوہ، ٹرمپ ٹرمپ نے اپنے دوست نیتن یاہو کو مدد فراہم کرکے اپنے آپ کو بھی اور نیتن یاہو کو بھی عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے؛ یہودی ریاست کو گولان سے انخلاء کے حوالے سے عالمی دباؤ کا سامنا نہیں تھا اور گولان پر یہودی قبضے کے سلسلے میں تقریبا خاموشی تھی اور صرف شامی حکومت گولان کی آزادی پر زور دیتی رہی تھی جبکہ اس وقت نیتن یاہو بھی اور ٹرمپ بھی الزامات کا نشانہ بن رہے ہیں اور عالمی سطح پر گولان پر یہودی ریاست کے قبضے کے خاتمے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں اور حالات وہ ہرگز نہیں ہیں جن کی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو توقع تھی۔
ان مسائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے اقدام کا الٹا انجام شاید توقعات سے کہیں زیادہ بڑا ہو اور انہیں مستقبل قریب میں حالات سدھارنے کے لئے کچھ بڑی پسپائیاں کرنا پڑیں جن کے بارے میں کچھ کہنا فی الحال قبل از وقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
العالم ٹی وی نیٹ ورک
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونی رژیم اور پاکستان میں تکفیری ٹولے

  • ۴۱۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پاکستان میں تکفیری گروہوں کا وجود عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت اور علاقائی بلکہ بین الاقوامی ممالک کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ تکفیریت ایک ایسا ناسور بن چکی ہے جس پر نہ صرف عالم اسلام کا بہت بڑا سرمایہ لٹ رہا ہے اور عظیم طاقت صرف ہو رہی ہے بلکہ اسلامی ممالک میں یہ خانہ جنگی میں تبدیل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے مسلمان اپنے اصلی دشمن صہیونیت سے غافل ہو چکے ہیں اور اس خانہ جنگی میں گرفتار ہیں۔
تکفیری ٹولیوں کی سرگرمیاں فقط دینی نقطہ نظر یا قومی اور علاقائی زاویہ نگاہ سے قابل ادراک نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے کردار کا جائزہ لینا بھی بہت اہم ہے۔ کلی طور پر پاکستان میں انتہا پسند گروہوں کی تشکیل اور ان کی تقویت کی ایک اہم ترین وجہ یہ ہے کہ بیرونی طاقتیں پاکستان کے سماجی و ثقافتی حالات سے اپنے مفادات کے لیے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (۱)
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لہذا قدس کی غاصب ریاست کا ایک مشن یہ تھا کہ وہ اس ملک کے حالات سے فائدہ اٹھائے اور اس میں سرگرم تکفیری ٹولوں کو اسلام کے خلاف استعمال کرے۔
امریکہ تکفیری ٹولوں کو وجود میں لانے والا اور افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کی بنیاد ڈالنے والا ایسا ملک ہے جو اسرائیل کی اسٹریٹجیک میں برابر کا شریک ہے لہذا اس مسئلہ میں عالم اسلام کے اندر امریکہ اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیل کے سعودی عرب کے ساتھ غیررسمی تعلقات وسیع پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ سعودی عرب بھی پاکستان میں انتہا پسندی کی بنیادوں کو مضبوط بنانے والا اہم ترین ملک ہے جس نے وہابیت اور سلفیت کی فکر کو اس ملک میں رواج دیا ہے۔
لیکن پاکستان میں تکفیری ٹولوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت بہتر سمجھ میں آتے ہیں جب یہ جان لیا جائے کہ ان تکفیری گروہوں کے اصلی ٹھکانے ’’پشتون قبائل‘‘ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ قبائل درج ذیل اعتبار سے صہیونی ریاست کے لیے اہمیت کے حامل ہیں؛
۱۔ پاکستان کے تکفیری ٹولے ایک انتہائی حساس جغرافیائی خطے میں واقع ہیں یعنی وہ صہیونیت کے سخت ترین دشمن ممالک ایران اور پاکستان کے درمیان واقع ہیں۔ لہذا صہیونی ریاست کی حامی ایک طاقت کا اس علاقے میں وجود پانا اس رژیم کی اسٹریٹیجک پالیسی کی گہرائی میں اضافہ کرتا ہے۔ ڈیڑہ اسماعیل خان، ہنگو اور پاراچنار میں شیعہ مخالف سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کے دھشتگردانہ اقدامات کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔
۲۔ تکفیری ٹولے آئیڈیالوجی کے اعتبار سے شیعہ مخالف ہیں۔ دوسری جانب سے شیعہ، صہیونی ریاست کے دشمن اور ایران کے حامی ہیں۔ اس اعتبار سے بھی تکفیری ٹولے صہیونی ریاست کے دشمنوں کے مقابلے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
۳۔ تکفیری ٹولے کہ جنہیں جہاد کے ایک خاص مفہوم کے تحت تربیت دی گئی ہے اور ان کی زندگی ہتھیاروں کے ساتھ گزری ہے بغیر اسلحہ کے ان کا جینا ممکن نہیں ہے۔ لہذا اس اعتبار سے بھی یہ گروہ صہیونی ریاست کے اسلحے کی خرید و فروخت کے لیے مناسب بازار ہیں۔
صہیونی ریاست بمبئی کے قومی تحقیقاتی مرکز کے ذریعے انجام پائی تحقیقات کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے پشتون قبائل کو یہ متعارف کروانا چاہتی ہے کہ یہ قبائل در اصل یہودی قبائل تھے۔ اس اعتبار سے وہ ان قبائل کو یہودی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہودی تنظیمیں اور مراکز پاکستان اور افغانستان میں موجود پشتون قبائل کے سرکردوں کو متعدد بار ٹیلی فون کر چکی ہیں۔ اسرائیل میں کچھ غیر سرکاری ادارے ہیں جو گمشدہ یہودی قبائل کے بارے میں تحقیقات کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گمشدہ یہودی قبائل ساتویں صدی قبل میلاد عیسی مسیح، آشوریوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے تھے اور اس کے بعد پوری دنیا میں پھیل گئے لیکن ابھی بھی انہوں نے اپنی یہودی عادتیں نہیں چھوڑی ہیں۔ یہودیوں کی منجملہ عادتوں میں سے بعض عادتیں یہ ہیں: انتہا پسندی، تعصب، قوم پرستی، عورت کا احترام نہ کرنا، عورتوں کی خرید و فروخت کرنا، قبائلی جنگ، بھائی کی بیوی سے شوہر کی موت کے بعد بیاہ کرنا، قتل و غارت کا شوق، اپنی درینہ رسم و رسومات جیسے مخصوص لباس، ٹوپی کا پہننا، شادی بیاہ میں مردوں کا ناچ کرنا اور قومی برتری کا احساس وغیرہ پشتون قبائل میں ابھی بھی موجود ہیں۔ (۲)
یہ بات اس لیے قابل اہمیت ہے کہ ’دین یہود‘ قوم پرستی کا دین ہے اور اس میں تبلیغ نہیں پائی جاتی اسی وجہ سے مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے ہمیشہ اس مشکل سے دوچار ہیں کہ وہ اصالتا یہودی نہیں ہیں۔
حواشی
۱. Guilian Denoeux, “The Forgotten Swamp: Navigating Political Islam”, p71, Middle East Policy, Vol. 9, No. 2, 2002.
۲۔ ر.ک:پشتون¬ها قبیله گمشده اسرائیلی، علی ملستانی، ۱۳۸۸ (http://www.afghanpaper.com/nbody.php?id=7204)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔