صلیبی جنگیں اور یہودیوں کی سودخوری

  • ۴۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں اور یورپی حکمرانوں کا آپسی رشتہ ۹ ویں صدی عیسوی کی طرف پلٹا ہے۔ لیکن یہ رشتہ اس وقت مزید گہرا ہو جاتا ہے جب دسویں اور گیارہویں صدی میں ان کے باہمی تجارتی امور بین الاقوامی سطح تک پھیل جاتے ہیں۔ سن ۱۰۸۴ میں جرمنی کے شہر ‘اسپیر’ کا حاکم یہودیوں کو اس شہر میں اقامت پذیر ہونے کی اجازت اور سماجی اور اقتصادی میدان میں سرگرمیوں کی مطلق آزادی دے دیتا ہے یہاں تک کہ یہودیوں کے ساتھ ان کے دین یہودیت کے قوانین کے مطابق برتاو کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کے لیے یہ کھلی فضا اور ماحول اس بات کا سبب بنا کہ جرمنی میں رہنے والے یہودیوں نے بغداد اور اندلس میں بسنے والے یہودیوں کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ جوڑ کر سود کی بنا پر تجارت کا ایک عالمی چینل قائم کیا۔
گیارہویں صدی کے اواخر میں صلیبی جنگوں کے آغاز سے ہی یہودیوں کے درمیان سود خوری کی بیماری تیزی سے پھیل گئی جس کی بنا پر وہ یورپ کی معیشت میں اپنا پنجہ گاڑنے میں کامیاب ہوئے۔ مغربی فوجیں جنگی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پیسے کے ضرورتمند تھیں۔ یہودی ان کی اس ضرورت کو پورا کرتے اور جنگوں کے بعد مال غنیمت سے سود سمیت اپنے اصلی سرمایہ کو واپس لے لیتے۔ لہذا اندلس پر حملے اور سمندر پار علاقوں پر ہسپانیہ اور پرتگال کی جارحیت میں یہودیوں کی سرمایہ کاری اہم کردار ادا کرتی تھی۔
در حقیقت مغربی یہودی، مشرقی یہودیوں کے ساتھ گہرے اور وسیع تعلقات کی بنا پر شہہ سواروں (۱) کی مالی امداد کرتے تھے اور مقابلے میں جنگوں سے حاصل شدہ مال غنیمت سے اپنا حصہ لیتے تھے یا جنگ کے بعد اپنے ابتدائی سرمایے کا سود دریافت کر لیتے تھے۔ البتہ شہہ سواروں کے لیے بھاری مقدار میں سود کی ادائیگی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھی۔ اس لیے کہ ان کے پاس لوٹا ہوا مال اس قدر زیادہ ہوتا تھا کہ وہ اصلی سرمایے کو سود کے ساتھ واپس لوٹانے کے علاوہ حکومت کے خزانوں کو بھی بھر دیتے تھے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ عیسائیوں اور غیر یہودیوں کو سود پر پیسہ دینے اور ان سے جتنا ممکن ہو سود کمانے کا جواز حتیٰ یہودیوں کی فقہ میں موجود ہے اور یہودی ربیوں “یعقوب بن مہ یر” اور ” داوود کہمی نور بونی” نے اس بارے میں فتاویٰ بھی دئے ہیں۔
لیکن یہ نکتہ حائز اہمیت ہے کہ سود خوری عیسائیت میں بھی اسلام کی طرح حرام اور ممنوع ہے۔ لہذا مغربی ممالک میں سود خوری عیسائیوں کے اندر اس وقت رائج ہوئی جب مغرب پر سیکولر نظام حکومت حاکم ہوا اور دین اور شریعت کو حکومتی سسٹم سے نکال باہر کر دیا گیا۔
ترجمہ؛ خیبر تحقیقاتی ٹیم


منبع: زرسالار یهودی و پارسی، شهبازی، عبدالله، ج۲، ص۱۰۹-۱۰۶٫
۱۔ یہ ایک اعزازی خطاب ہے جو کسی بادشاہ یا سیاسی رہنما کی طرف سے کسی بھی ایسے شخص کو عطا کیاجاتاتھا جو بلاواسطہ یا بالواسطہ فوج یا ملک کی خدمت بالخصوص فوجی خدمت انجام دیتاتھا۔ عمومی طور پر صلیبی جنگوں کے دوران ہیکل کے لیے جنگ لڑنے والوں کے لیے یہ لقب/خطاب استعمال ہوتاتھا۔ قرون وسطیٰ متوسط میں کمتر درجے کے اشرافیہ کو بھی بطور شہہ سوار خدمتگار تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم بعد کے زمانے میں یہ خطاب /لقب اعلیٰ پائے کے گھڑسواروں اور مسیحی جنگجوؤں کے لیے شاہی ضابطہءاخلاق/قانون کی صورت اختیار کرگیا۔ زمانہء جدید اولیٰ میں یہ خطاب خالصانہ طور پر ایسے لوگوں کو دیا جاتاتھا جو بادشاہ کے احکام کی تعمیل کرتے تھے بالخصوص برطانوی دربار میں بادشاہ کے لیے خدمت کرنے( خواہ وہ خدمت جنگ کی صورت میں ہو یا دیگر صورت میں ) والے افراد کو دیاجاتا تھا اور بدلے میں انکو جاگیریں عطاکی جاتی تھیں جہاں وہ لوگوں پر حاکم ہوتے تھے۔

 

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا برصغیر میں نقطہ آغاز

  • ۳۹۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برطانیہ کی بیرون ملکی تجارت کی تاریخ در حقیقت تیرہویں صدی عیسویں اور ‘لندن تجارتی کمپنی’ کی طرف پلٹتی ہے۔ سولہویں صدی میں برطانیہ کے روس کے ساتھ تجارتی تعلقات، بھارت اور ایران کے ساتھ تجارت کا بھی نقطہ آغاز شمار ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے جس انگریز نے بھارت کا سفر کیا وہ “توماس اسٹفنس” (۱۵۷۹) تھے۔
کچھ عرصہ تجارتی سرگرمیوں کے بعد، ۳۱ دسمبر ۱۶۰۰ میں الزبتھ کے حکم سے لندن تجارتی کمپنی نے انڈیا کے ساتھ باضابطہ تجارتی معاملات شروع کئے۔ درحقیقت یہ کمپنی وہی “ایسٹ انڈیا کمپنی” تھی جس نے بعد میں ہندوستان کو اپنا مرکز انتخاب کیا۔ اس کمپنی نے اس وقت جنم لیا جب ۲۱۸ انگریز تاجروں نے الزبتھ کو خط لکھا کہ وہ برصغیر میں ایک تجارتی کمپنی کی تاسیس کے ذریعے ایشیا کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ کمپنی برطانوی ملکہ کے براہ راست حکم سے وجود میں آئی اور اس کا اکثر منافع برطانیہ کی حکومت کو جاتا تھا۔ یہ کمپنی بہت جلد اس قدر طاقتور ہو گئی کہ سالانہ دس ہزار اشرفیاں حکومت کے خزانے میں دیتی تھی۔ اور یہ اشرفیاں ان رشوتوں کے علاوہ تھیں جو یہ کمپنی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حکومتی کارندوں کو دیتی تھی۔ اور رشوتوں کا یہ سلسلہ سبب بنا کہ حکومت برطانیہ شدت سے اس کمپنی سے وابستہ ہو جائے۔ لہذا اس دوران (۱۶۸۵-۱۶۶۰م) میں حکومت برطانیہ اور خود ملکہ کی جانب سے اس کمپنی کو حاصل حمایت قابل تعجب نہیں ہے۔ اس کی اصلی وجہ یہ تھی کہ یہ تعلق اور وابستگی دوطرفہ تھی، ایک طرف سے برطانوی بادشاہ کو اس کمپنی کے پیسے اور دولت کی ضرورت تھی اور دوسری طرف سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو حکومت کی سیاسی حمایت درکار تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا نفوذ اس قدر وسیع ہو گیا تھا کہ “چارلز دوم” کے دور میں اس کمپنی نے زمینیں قبضانے کے حق سے لیکر، اعلان جنگ اور ملک کے اندرونی امور اور عدلیہ تک امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے مشرقی ایشیا یا برصغیر میں تجارتی نفوذ بڑھانے کے لیے پہلی تلاش و کوشش، ‘جان میلڈن ہال (John Mildenhall) نامی شخص کو بھیجنے کے ذریعے شروع ہوتی ہے۔ لیکن ‘میلڈن ہال’ کی تلاش و کوشش پرتگالیوں کی مخالفتوں کی وجہ سے مثمر ثمر واقع نہیں ہوتی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی دوسری مرتبہ ۱۶۰۸ میں سورت بندرگاہ پر اپنا لنگر ڈال کر اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن پھر بھی پرتگالیوں کے نفوذ کی وجہ سے اسے ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن آخر کار ۱۶۱۲ میں یہ کمپنی گجرات کے حاکم کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد اس کی اجازت سے سورت بندرگاہ پر اس کی کشتیاں لنگر ڈالنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
اسی فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت برطانیہ اپنا سفیر ‘جھانگیر’ بادشاہ کے دربار میں بھیجتی ہے جس کے بعد بنگال اور ہندوستان کے دوسرے شہروں میں انگریزوں کی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جب انگریز پرتگالیوں کو شدید شکست سے دوچار کرتے ہیں اور ‘بندرگاہ ہرمز’ سے انہیں باہر نکالنے میں ‘شاہ عباس صفوی’ کی مدد کرتے ہیں۔ انگریزوں کو اس کے بعد پرتگالیوں سے کوئی خوف نہیں رہتا۔ اور اس طریقے سے ایسٹ انڈیا کمپنی بندرگاہ سورت پر اپنا دائمی قبضہ جما لیتی ہے اور اسے اپنی تجارت کا مرکز بنا لیتی ہے۔
برطانوی ملکہ الزبتھ اول کی قائم کردہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۶۰۰ء میں جب برصغیر کی سرزمین پر پاؤں رکھا تھا تو کسی کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سورت اور مدراس میں مسالہ جات کے تجارتی مراکز قائم کرنے والی یہ بے ضرر سی کمپنی کسی دن پورے ہندوستان پر برطانوی راج کی راہ ہموار کر دے گی اور مستقبل میں اس خطے کے لوگ معاشی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی لحاظ سے انگریزوں کی غلامی میں چلے جائیں گے۔ کاروبار کے لیے آنے والی اس کمپنی نے ۱۶۸۹ میں علاقائی تسخیر شروع کر دی۔ یہ نوے برسوں پر محیط عرصہ ہے کہ یہ کمپنی سرمایہ کاری اور کاروبار کے پس پردہ رہی۔ بعدازاں جنگ پلاسی جیسی لڑائیاں چلتی رہیں اور آخر کار ۱۸۵۷ء کے بعد پورے ہندوستان پر کنٹرول حاصل کر لیا گیا۔
تحریر؛ میلاد پور عسگری
زرسالاران یهودی و پارسی، شهبازی، عبدالله، ج۱، موسسه مطالعات و پژوهش‌های سیاسی، تهران، چاپ اول: ۱۳۷۷،ص۷۹-۷۸٫
۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امریکی سلطنت یا ابھی یا کبھی نہیں

  • ۳۴۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں سے میں بات چیت کرتا ہوں، ان میں سے بہت سوں کا خیال ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کا تعلق جمہوریت، قومی سلامتی یا شاید دہشت گردی یا آزادی یا خوبصورتی یا کسی اور چیز سے ہے۔ عجیب خیال ہے یہ، یہ سارے واشنگٹن کے حبدار ہیں۔ کچھ تو واضح طور پر حیران و پریشان ہیں جنہیں امریکہ کے بین الاقوامی رویوں میں کوئی نمونہ عمل نظر نہیں آتا لیکن اس صورت حال کی وضاحت آسان ہے۔
البتہ اس صورت حال کا سبب “سلطنت” ہے جس کی طرف رغبت بنی نوع انسان کے فکری مجموعے کا قدیم اور ذاتی جزء ہے: سلطنت اشکانیان (یا سلطنت پارثاوا یا پارت یا پارث)، (۱) سلطنت روم (۲)، آزٹیک سلطنت (۳)، سلطنت ہیبسبرگ (۴) اور سلطنت برطانیہ اور ان سلطنتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست۔
جب سوویت اتحاد کا خاتمہ ہوا تو امریکہ ایسی پوزیشن میں تھا کہ حقیقتا ایک عالمی سلطنت قائم کرسکتا تھا؛ ترقی یافتہ ممالک عملی طور پر امریکہ کے خراج گزار تھے اور ان میں سے بہت سے امریکی سپاہیوں کے قبضے میں تھے؛ جیسے: پورا یورپ، کینیڈا، جاپان، جنوبی کوریا، لاطینی امریکہ، سعودی عرب اور آسٹریلیا۔ اسی اثناء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ زبردست معیشت اور سب سے بڑی فوجی طاقت کا مالک تھا؛ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف (۵)، نیٹو (شمالی اوقیانوسی معاہدے کی تنظیم)، (۶) ڈالر اور سوِفٹ، (۷) الغرض سب کچھ اس کے کنٹرول میں تھا اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی دوسروں پر فوقیت رکھتا تھا؛ روس افراتفری کا شکار تھا اور چین ایک نقطہ تھا دور افتادہ افق میں۔
)یہودی لابیوں کے سب سے اہم ادارے( آیپیک (۸) جیسے طاقت کے مراکز نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا لیکن اصل یلغار عراق پر حملے سے شروع ہوئی۔ نہ کہتے ہوئے بھی ظاہر ہے کہ امریکہ کی موجودہ خارجہ پالیسی کرہ ارضی پر تسلط کی حکمت عملی پر مرکوز ہے۔ حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اس موضوع سے بےخبر ہیں۔
دنیا کا دارومدار تیل پر ہے۔ تیل کے سودوں پر کنٹرول، ان ممالک پر تقریبا مطلق قابو رکھنے پر منتج ہوتا ہے جن کے پاس تیل نہیں ہے۔ (بطور مثال اگر جاپانیوں کو تیل کی منتقلی رک جائے تو وہ بہت جلد ایک دوسرے کو کھا لیں گے۔) سعودی عرب امریکہ کا ایک زیر حمایت ملک (۹) ہے، اور عراق پر گذرنے والی صورت حال کو دیکھ کر وہ بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر وہ تیل کی پیداوار اور فروخت بند کردے تو ممکن ہے کہ امریکہ کے زیر قبضہ آجائے۔ امریکی بحریہ [بقول مضمون نویس] آسانی کے ساتھ آبنائے ہرمز سے بعض ممالک یا تمام ممالک کی طرف جانے والے تیل بردار جہازوں کا راستہ روک سکتی ہے۔
۱۱۔ عراق کی تباہی کا ایک اصل مقصد اس ملک کے تیل کو اپنے ہاتھ میں لینا اور تیل پیدا کرنے والی ایک اہم طاقت “ایران” کی سرحدوں پر اپنی فوج کی تعیناتی سے عبارت تھا۔ ایرانیوں پر بھوک مسلط کرنے کی موجودہ کوشش ایران میں ایک کٹھ پتلی حکومت کو برسر اقتدار لانے کی غرض سے ہورہی ہے۔ حال ہی میں جنوبی امریکی ملک ونزویلا (۱۰) میں بغاوت کروانے کا مقصد بھی تیل کے عظیم ذخائر کے حامل ایک اور ملک پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ یہ عمل لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک کے خوفزدہ کرنے کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور اس طرح سے انہیں دکھایا جاسکتا ہے کہ یہ واقعہ ایسے ہر ملک کے اندر رونما ہوسکتا ہے جو واشنگٹن کے لئے مسائل پیدا کرنا چاہے۔ امریکی فوجی نائجیریا میں کیا کرتے ہیں؟ آپ اندازہ لگائیں کہ نائیجریا میں ایسی کونسی چیز ہے؟
یاد رکھیں کہ عراق اور ایران، تیل کے ذخائر کے ساتھ ساتھ، جُغ سیاسی (۱۱) لحاظ سے بھی ایک عالمی سلطنت کے لئے حیاتی اہمیت رکھتے ہیں؛ علاوہ ازیں امریکہ میں یہودیوں کی بہت طاقتور موجودگی بھی اپنے مقاصد کے لئے مشرق وسطائی جنگوں کی حمایت کرتی ہے گوکہ اسلحہ تیار کرنے والی کمپنیوں کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ “خدا کے تمام فرزند سلطنت کے عاشق ہیں”۔
بڑی سلطنت کے غلبے کے لئے، روس اور چین ـ جن میں مؤخر الذکر ملک حیرت انگیز رقیب بھی ہے ـ کو بےاثر کرنا چاہئے۔ کارزار کا نتیجہ روس کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے توڑ دینا ہے۔ اسی اثناء واشنگٹن اپنی کرائے کی ملیشیا “نیٹو” پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اپنا دائرہ مشرق کی طرف پھیلا دے؛ پولینڈ میں امریکی افواج کو تعینات کرنا چاہتا ہے اور ایک خلائی کمان قائم کرنے کے درپے ہے جس کا واحد مقصد روس کو خوفزدہ یا بلیک میل کرنا اور درمیانی فاصلے سے تک مار کرنے والے میزائلوں کے معاہدے (۱۲) سے الگ ہونا چاہتا ہے، علاوہ ازیں وہ اپنے یورپی خراج گزاروں کو روس کے ساتھ تجارتی تعلقات وتعاون سے بھی بازرکھنا چاہتا ہے۔
اس کے باوجود، چین امریکی سلطنت کے پھیلاؤ کی راہ میں کلیدی رکاوٹ ہے: چنانچہ اسے چین کی ساتھ تجارتی جنگ کی طرف بڑھنا چاہئے؛ امریکہ کو چین کی معیشت اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا راستہ روکنا چاہئے اور ہاں اب “اسی وقت” اسے یہ کام سرانجام دینا چاہئے کیونکہ اسے مزید کوئی بھی موقع نہیں ملے گا۔
موجودہ دور سلطنت امریکہ کے لئے ایک اہم تاریخی موڑ ہے۔ امریکہ تجارت کے لحاظ سے بھی ـ اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی ـ چین کے ساتھ رقابت کی صلاحیت نہیں رکھتا اور واشنگٹن اس حقیقت سے واقف ہے۔ چینی معیشت کی امتیازی خصوصیات بہت بنیادی ہیں: بہت بڑی آبادی اور بہت باصلاحیت اور مستعد افرادی قوت، ایک بڑی معیشت منافع کمانے کے لئے، جو اندرونی سطح پر بھی اور بیرون ملک بھی، بہت بڑی سرمایہ کاریوں کے امکانات فراہم کرتی ہے۔ ایک مستحکم حکومت جو مستقبل کے لئے بہت مناسب منصوبہ بندیاں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امریکہ کیا ہے؟ اس سے کہیں زیادہ ٹوٹتی ہوئی طاقت، جو یہ نظر آتی ہے۔ امریکہ کسی وقت اقتصادی لحاظ سے بھی، بہتر مصنوعات کے لحاظ سے بھی اور بہتر قیمتوں کے لحاظ سے بھی فوقیت رکھتا تھا، عظیم فاضل تجارتی آمدنی سے بہرہ ور تھا اور بہت کم کہیں اسے اپنے راستے میں کوئی رقیب نظر آتا تھا۔ آج اس ملک میں صنعتی انہدام کاری ہوچکی ہے۔ اسے ایک عظیم تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور یہ سارے مسائل ایک حد سے زیادہ اور قابو سے باہر قرضوں کا سبب بنتا ہے۔ اس ملک میں تیار کردہ مصنوعات ـ جو دنیا والے کسی دوسرے ملک سے کم قیمت پر فراہم نہیں کرسکتے ـ بہت محدود ہیں۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی تجارتی طاقت ایک پیداواری قوت سے ایک صارف کی سطح تک تنزلی کا شکار ہوچکی ہے۔ واشنگٹن تمام ممالک سے کہتا ہے کہ “اگر جو ہم چاہتے ہیں نہ کرو تو تمہاری مصنوعات نہیں خریدیں گے”۔ ایک اٹل (۱۳) [کہلوانے والے] ملک کو ایک اٹل منڈی بھی ہونا چاہئے۔ چند ممالک ایسے ہیں کہ جہاں امریکی مصنوعات اہمیت رکھتی ہیں لیکن اگر آج امریکہ اپنی مصنوعات چین کو بیچنا بند کردے تو چین بمشکل کوئی امریکی مصنوعات کی کمی محسوس کرے گا جبکہ اگر چین سے خریداریاں بند کرے تو چین کی معیشت سست پڑ جائے گی۔ قابل غور ہے کہ محصولات میں اضافہ، چینی مصنوعات کی عدم خریداری کا صرف ایک راستہ ہے۔
چونکہ امریکہ کی مسرف اور فضول خرچ منڈی دوسرے ممالک کے لئے بنیادی عنصر سمجھی جاتی ہے، تو وہ ویسا ہی عمل کرتے ہیں جیسا کہ ان سے کہا جاتا ہے تاہم ایشیائی منڈیاں ترقی کررہی ہیں اور ایشیائی مصنوعات کے مالکان بھی ترقی کررہے ہیں۔
امریکہ کی مسابقت پذیری (۱۴) میں کمی آنے کے بعد، واشنگٹن آہنی مکے کے حربوں کا سہارا لیتا ہے اور اس ملک کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس صورت حال کا ایک اہم نمونہ پانچویں نسل کا انٹرنیٹ ہے، ایک بہت بڑا سودا، جس میں ہواوی (۱۵) کمپنی آگے آگے ہے۔ واشنگٹن اچھی قیمت پر بہتر مصنوعات پیش کرنے سے عاجز ہے اور انتہائی عاجزی کی حالت میں اپنے خراج گزار ممالک کو ـ اپنی مصنوعات کے نہ بکے جانے کی مصیبت کے پیش نظر ـ ہواوی کے ساتھ لین دین سے باز رکھتا ہے۔ امریکی ناامیدی، عاجزی اور بےبسی کو آپ یہاں بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ واجب الوجود یا اٹل (۱۶) [کہلوانے والا] ملک اپنے خراج گزار اور فرمانبردار ملک کینیڈا کو مجبور کرتا ہے کہ ہواوی کمپنی کے بانی کی بیٹی کو حراست میں لے لے۔
مد و جزر سلطنت امریکہ ہی کی طرف پلٹ آتا ہے۔ دو عشرے قبل یہ بات مہمل لگتی تھی کہ چین ٹیکنالوجی کے لحاظ سے امریکہ کے ساتھ مسابقت کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے؛ لیکن آج چین انتہائی تیزرفتاری سے ترقی کررہا ہے۔ یہ ملک سوپر کمپیوٹرز، چاند پر اترنے والی مشینوں (۱۷) کی تیاری اور پانچویں نسل کے انٹرنیٹ کے سلسلے میں امریکہ کے شانہ بشانہ بڑھ رہا ہے اور جینیات (۱۸) کے شعبے میں نیز عالمی درجے کی چپ سیٹس (۱۹) نیز اسمارٹ فون کی تیاری میں پہل کارانہ کردار کا حامل ہے۔ ایک دو عشرے مزید گذریں گے تو امریکہ اس میدان میں بالکل پیچھے رہ جائے گا۔
امریکی انحطاط و زوال زیادہ سے زیادہ اسی ملک سے جنم لے چکا ہے۔ امریکہ اپنی حکومت عام انتخابات کے بجائے ریاستی نمائندوں کے درمیان مسابقت کے ذریعے منتخب کرتا ہے۔ امریکہ کا تعلیمی نظام سماجی انصاف کے شعبے کے بوالہوسوں کا شکار ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید تباہی کی طرف گامزن ہے۔ واشنگٹن اپنے بنیادی ڈھانچے اور اقتصاد کی بہتری کے بجائے فوجی قوت پر خرچ کرتا ہے یہ سلسلہ سیاسی حوالے سے انارکی اور افراتفری کا باعث بنتا ہے، اس ملک کی کوئی ثابت سیاست نہیں ہے اور ہر نئی حکومت اس کی پالیسیوں کو تبدیل کردیتا ہے۔
سلطنت (۲۰) کا سب سے پہلا قاعدہ یہ ہے کہ “اپنے دشمنوں کو متحد نہ ہونے دو”؛ لیکن واشنگٹن کے مسلسل دباؤ کے تحت، روس، چین اور ایران امریکی سلطنت کے خلاف ایک اتحاد قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر ایران، یورو ـ امریکی معاشی دنیا سے قریب تر ہوتا تو حالات بہت بہتر ہوتے لیکن یہودی ریاست (اسرائیل) امریکہ کو ہرگز ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہی رویہ روس کے ساتھ بھی روا رکھا گیا ہے، ایسا ملک جو نسلی لحاظ سے یورپ سے قریب تر ہے نہ کہ چین سے۔ امریکہ عملی طور پر اور بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ سائبریا کے نہایت وسیع اور خالی علاقوں کی سرحدیں گنجان آباد چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ واشنگٹن نے یکسان طور پر اپنے دشمنوں اور اتحادیوں کو پابندیوں کا نشانہ بنا کر عالمی معیشت سے ڈالر کے حذف کئے جانے کے عمل کی رفتار تیزتر کررہا ہے اور اس حقیقت کی عملی تصدیق کررہا ہے کہ امریکہ کسی کا اتحادی نہیں بلکہ “آقا” ہے۔
یا ابھی یا پھر کبھی بھی نہیں
اگر امریکہ اپنی عظیم مگر رو بہ زوال طاقت کی مدد سے پوری دنیا کو اپنا پابند بنانے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے تو ایشیا کی ابھرتی طاقتیں اس کو ڈبو دیں گی۔ حتی کہ بھارت بھی بڑے سے بڑا ہوتا جارہا ہے۔۔۔ صورت حال یہ ہے کہ یا تو امریکی اقتصادی پابندیاں دنیا کو زیر کرلیں گی؛ یا امریکہ عالمی جنگ کا آغاز کرے گا؛ یا پھر امریکہ مختلف ملکوں میں بٹ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارسی ماخذ: http://fna.ir/brykcd
انگریزی ماخذ:  unz.com/freed/the-empire-now-or-never
نویسنده: فریڈ ریڈ  (FRED REED) اخبارنویس، مصنف و مترجم
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Parthian Empire
۲۔ Roman Empire
۳۔ Aztec Empire
۴۔ Habsburg Empire
۵۔ International Monetary Fund [IMF]
۶۔ The North Atlantic Treaty Organisation [NATO]
۷۔ Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication [SWIFT]
۸۔ امریکی ـ اسرائیلی تعلقات عامہ کمیٹی “آی پیک” (American Israel Public Affairs Committee [AIPAC])
۹۔ Protectorate
۱۰۔ Venezuela
۱۱۔ Geopolitical
۱۲۔ Intermediate-Range Nuclear Forces Treaty [INF treaty]
۱۳۔ Indispensable
۱۴۔ Competitiveness
۱۵۔ Huawei
۱۶۔ Indispensable
۱۷۔ Moonlanders
۱۸۔ Genetics
۱۹۔ Chipsets
۲۰۔ Empire
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد/ت/۱۰۰۰۱

 

شام میں صہیونی حکومت کی اسٹراٹیجی

  • ۳۴۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شام سے امریکہ و اسرائیل کا ایک پرانا اختلاف رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس تنازعہ و اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ شام مشرقی بلاک کے ٹوٹنے سے قبل سوویت یونین کے حلیفوں اور متحدوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب دنیا ایک قطبی ہو گئی تو امریکہ نے کوشش کی کہ شام کو علاقے میں اپنے متحدین میں شامل کر لے، لیکن اس درمیان جدید روس کے ساتھ ہم پیمان ہونے سے ہٹ کر ایران و عراق کے مابین آٹھ سالہ جنگ میں عراق کے ساتھ اختلاف کی بنیاد پر شام، ایران کو اسلحوں کے ذریعہ امداد پہونچاتا رہا اور یہ بات ایران کی امریکہ سے دشمنی کے چلتے امریکہ کو پسند نہ آئی، البتہ یہ وہ باتیں ہیں جو صہیونی حکومت کے بارے میں امریکہ و شام کے ما بین اختلافات سے ہٹ کر ہیں ۔
شام اور اسرائیل کے ما بین اختلافات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ صہیونی حکومت کی امریکہ و برطانیہ کی حمایت میں تشکیل کے بعد، شام بھی دیگر عربی ممالک کی طرح جہان عرب کی قیادت کے دعوے کے پیش نظر اسرائیل کے ساتھ شدید مخالفت کرنا شروع کر دیتا ہے، صہیونی حکومت اور شام کے ما بین اختلافات جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ سے اور بھی شدید ہو جاتے ہیں اور یہ اختلافات صیہونی حکومت اور شام کے ما بین خطے میں ایک دائمی مشکل میں ڈھل جاتے ہیں۔ مغربی ایشیاء میں بہار عربی کے شروع ہونے کے ساتھ شام میں بھی داخلی طور پر جنگ چھڑ جاتی ہے اور شام داخلی خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا ہے، اور داعش کے اس جنگ میں کود پڑنے کے بعد حالات نہ صرف شام کے لئے بلکہ پورے خطے اور خاص کر امریکہ و اسرائیل کے لئے تشویشناک ہو جاتے ہیں، باوجودیکہ داعش اسرائیل و امریکہ کے ذریعہ وجود میں آتی ہے اور انہیں کے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئے اسے علاقے میں کھڑا کیا جاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ انکے کنڑول سے نکل جاتی ہے ۔
اس لحاظ سے کہ شام کی علاقے میں ایک اسٹراٹیجک حیثیت ہے، یہ تمام آشوب و مارکاٹ اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ ترکی، روس، ایران اور عراق جیسے ہم پیمان اور پڑوسی ملک راست طور پر فوجی مداخلت کرنا شروع کر دیں اور یہ مداخلت شروع بھی ہو جاتی ہے، اگرچہ فی الوقت داعش تیزی کے ساتھ کمزور پڑ رہی ہے اور اسد رجیم نے اپنی کھوئی ہوئی پاور اپنے حامیوں کی مدد سے دوبارہ حاصل کر لی ہے لیکن اسکے باوجود ،یہ مذکورہ ممالک حکومت مخالف عناصر اور داعش اور دیگر تکفیری گروہوں کے بچے کچے لوگوں سے مقابلہ آرائی میں مشغول ہیں، اور یہ مسئلہ اس بات کا سبب بنا ہے کہ حالات و شرائط چنداں اسرائیل و اسکے متحدین کے حق میں نہ ہوں ۔
اسرائیل کے وزیر دفاع موشہ یعلون کا ماننا ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے احتمالی نتائج تین حالتوں سے باہر نہیں ہیں ، ۱۔ بشار اسد کی کامیابی، ۲۔ بشار اسد کے مخالف دھڑے اور شدت پسندوں کی کامیابی، ۳۔ شام کی ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا ہر صورت میں اسرائیل کو نقصان اٹھانا پڑے گا، اگر اسد کو کامیابی نصیب ہوتی ہے تو نئی حکومت ہر وقت سے زیادہ موجودہ حالات میں خود کو ایران کا مقروض تسلیم کرے گی ، اور شدت پسند و افراطی گروپس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتاکہ انکا موقف کیا ہوگا ؟ اگر شام کے ٹکڑے ہوتے ہیں تو بھی کلی طور پر دو حصے ہونا نا گزیر ہیں۔ ۱۔ افراطی و شدت پسند ۲۔ ایران کا طرفدار ، چاہے شام ٹوٹنے کے بعد شدت پسندوں کے ہاتھوں جائے یا ایران کی طرف جھکاو رکھے دونوں ہی صورتوں میں اسرائیل ہی کو نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ لہذا اسرائیل کی کوشش ہے کہ اس جنگ میں سنجیدہ طور پر حصہ نہ لے، لیکن چونکہ وہ حزب اللہ، اور ایران کی شام میں سرگرمیوں کو لیکر لاتعلق نہیں رہ سکتا ،اسی لئے وقتا فوقتا شام میں موجود ایران اور حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہتا ہے لیکن خیال رکھتا ہے کہ یہ حملے محدود پیمانے پر اس طرح ہوں کہ اسرائیل پر حملے کا سبب نہ بنیں، اور ایران و اسرائیل کے ما بین ڈائریک جنگ کے احتمال کو کم سے کم پر پہنچایا جا سکے ، ان تمام باتوں کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اس تنازعہ میں اسرائیل ۴بڑے اہداف کو لیکر چل رہا ہے ۔
۱۔ ایران کو کنڑول کرنا اور ایرانی اسلحوں کو لبنان کی حزب اللہ ملیشیا اور فلسطین کے مزاحمتی محاذ تک پہنچنے سے روکنا
۳۳ روزہ لبنان کی جنگ اور ۲۲ روزہ غزہ میں اسرائیل کی بری طرح شکست ، صہیونی حکومت کے طاقت کے غرور کے ٹوٹنے اور علاقے میں اسکے جعلی شان و شوکت کے محل کے زمیں بوس ہونے کے علاوہ اس بات کا سبب بھی ہوئی کہ جنگ کا دائرہ اسرائیلی شہروں تک کھنچتا چلا جائے، یہ بات سبب بنی کہ یہ لوگ شیعت کے ہلال کے خطر ے کی طرف متوجہ ہوں اور اسی بنا پر شام ایک غیر معمولی رول ادا کرنے کے سبب انکی توجہات کا مرکز بنا ، یہی سبب ہے کہ اسرائیل اور اسکے متحدین و حلیفوں نے مزاحمتی محاذ کو الگ تھلک کرنے کے لئے اور ایران کو علاقے میں تنہا کرنے کے لئے داعش کی داغ بیل ڈالی ، لیکن یہ لوگ نہیں جانتے تھے انکا یہ کام انکے گلے کی ہڈی بن جائے گا اور علاقے میں ایران اور مزاحمتی محاذ کے مزید اثر و رسوخ کے پھیلنے کا سبب بنے گا ، اور یہی ہوا داعش کی شکست کے بعد شام میں ایران کا اثر و رسوخ مزید بڑھ گیا اور مزاحمتی محاذ تک اسلحوں کا پہنچانا اور بھی آسان ہوتا چلا گیا اور عسکری سازو سامان و اسلحوں کی ترسیل مزید آسانی کے ساتھ انجام ہوتی گئی، اسکے علاو ہ ایران اسرائیل کے ساتھ مشترکہ محاذ و سرحد کا حامل ہو گیا، اور یہ وہ چیز تھی جو اسرائیل کے شدید اضطراب کا سبب تھی ، اس لئے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کے شمالی شہروں پر حملوں کا امکان فراہم ہو گیا ہے اور ایران آسانی کے ساتھ اسرائیل پر اپنا شکنجہ کس سکتا ہے اور اسرائیل پر دباو بنانے کے ساتھ اسرائیل کے احتمالی حملوں کے سلسلہ سے ایک دفاعی رول ادا کر سکتا ہے ، اور اپنی عسکری طاقت کے بل پر اسرائیلی حملوں کو روکنے کا سبب بن سکتا ہے ۔
۲۔روس کے سیاسی اور عسکری نفوذ و اثر کو کم سے کم کرنا
شام میں روس کی عسکری موجودگی کا ایک سبب “طرطوس “کی بندرگاہ ہے ایسی بندرگاہ جو کہ مدتوں پہلے سے ہی روسی بحریہ کے اس ملک کے ساحلوں پر موجودگی کا ضامن ہے ، دوسرا سبب روس اور امریکہ کے درمیان اختلاف کا پایا جانا ہے ، امریکہ دنیا میں یک قطبی نظام کا خواہاں ہےاور اسی سبب مغربی ایشیاء کے مسائل میں دخالت کرنے کے لئے اسے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے ، اور بغیر روک ٹوک وہ جہاں چاہتا ہے دخالت کرتا ہے اسکے مقابل روس نے علاقے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے مقصد کے تحت اپنے ہم نواوں و ہم پیمانوں یعنی ایران اور شام کے ساتھ تعاون کی حکمت عملی اختیار کی ہے ۔
روس کا شام میں عسکری وجود اسرائیل کے لئے شدید طور پر سر درد کا سبب ہے ، کیونکہ روس، ایران اور حزب اللہ کی جانب سے اسد حکومت کی حمایتوں کا تسلسل اسد کی حکومت کی کامیابی اور شام میں ایک شیعہ طاقت کے اقتدار میں آنے کا سبب ہوگا، وہ بھی ایسی حکومت جو شدید طور پر اسرائیلی حکومت کے خلاف ہے ۔
دوسری طرف اسرائیل نہیں چاہتا کہ حزب اللہ یاخونت جیسے اینٹی کشتی کروز میزائل اور پی ۸۰۰ جیسے اینٹی طیارہ میزائل سے لیس ہو جسے روس نے اسد کی فوج کو دے رکھا ہے، اسی طرح صہیونی حکومت کی کوشش ہے کہ عسکری سازو سامان و اسلحے حزب اللہ تک نہ پہنچ سکیں، اور ان سب کے درمیان روسی افواج کی شام میں موجودگی نے اسرائیل سے آزادی عمل کو سلب کر رکھا ہے، اس لئے کہ اسرائیل کے ممکنہ اقدامات جان بوجھ کر یا بھولے بھٹکے روسی افواج سے سیدھی مڈبھیڑ کا سبب بن سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ۲۴ نومبر ۲۰۱۵ء میں نیتن یاہو نے روس کا سفر کیا تاکہ ایک فضائی، بحری اور مقناطیسی معاہدہ کرکے راست طور پر آپسی مڈبھیڑ سے پرہیز کیا جاسکے، اس لئے کہ روس کے موقف اور اسکے فیصلوں میں تبدیلی کو لیکر اسرائیلی وزیر اعظم کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے ۔
 ۳ ۔اسد کی متزلزل حکومت کی ایک نسبی حمایت
اسرائیل کے سامنے موجودہ راہ حلوں میں ایک یہ ہے کہ اسد رجیم کی مخالفت کے ساتھ اس حکومت کے گرنے سے ممانعت کی جائے اور ایسا کچھ نہ ہو کہ یہ رجیم سقوط کر جائے، اس لئے کہ اسکے گرتے ہی یہ علاقہ بری طرح نا امن ہو جائے گا اور اسرائیل پر حملہ کا احتمال زیادہ ہو جائے گا ، دوسرے الفاط میں کہا جا سکتا ہے کہ اسد اور ایران کی فورسزکے بارے میں تو تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں لیکن تکفیری و سلفی عناصر کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتاہے کہ وہ کیا کر بیٹھیں ۔ البتہ اس حمایت کا مطلب اسد رجیم سے موافق ہونا یا ااسکی حمایت کرنا نہیں ہے ۔
بلکہ یہ اس لئے ہے کہ وہاں پر خانہ جنگی چلتی رہے کیونکہ اسد کی فورسز اور تکفیریوں یا اسد مخالف فورسز کے بارے میں جنگ و لڑائی اس بات کا سبب ہوگی کہ مشرق وسطی میں اسرائیل توجہات کے مرکزیت سے خارج ہو جائے گا اور اسکا تحفظ یقینی ہو جائے گا ۔
۴۔ جولان کی پہاڑیوں کے سلسلہ سے شام کے دعوے کی قانونی حیثیت کو بے دم کرنا
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا شام میں داخلی جنگ کے شروع ہونے سے پہلے اسد اور اسرائیل کی فورسز جولان کی پہاڑیوں پر ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھیں ،ایک جنگ کو چھیڑنا اور اسد کے مخالفوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا ذکر شدہ باتوں کے علاوہ ایک ایسا بہانہ تھا کہ شامی فورسز اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے جولان کی پہاڑیوں کو چھوڑ دیں اور اسرائیل کی سرحدیں پر سکون و محفوظ ہو جائیں [۱]۔
حاصل کلام
جو کچھ ہم نے بیان کیا اسکی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے پاس ایران اور مزاحمتی محاذ سے مقابلہ کے لئے بہت زیادہ آپشنز نہیں بچے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی کوشش ہے کہ ایران کے دشمنوں جیسے سعودی عرب کے ساتھ مشرکہ تعاون کو بڑھا کر اور شمالی سپر جیسے آپریشنز کو انجام دے کر مزاحمتی محاذ اور ایران کی شام میں دخالت کو کم کرے اور دوسری طرف اسد مخالف گروہوں کو اسلحوں ، خفیہ معلومات ، اور فوجی تربیت وغیرہ کی فراہمی کے ذریعہ شام کی داخلی جنگ کی آگ کو بھڑکائے رکھا جا سکے [۲] البتہ یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل سے ایران و لبنان کی جنگ کا احتمال موجودہ شرائط میں نا ممکن نظر آتا ہے ، ایران کے اپنی داخلی معیشتی مشکلات ،اور شام میں ایک تھکا دینے والی جنگ ، نیز اقوام متحدہ میں یمن کےحوثیوں کو میزائلوں کی فراہمی کی فائل کا کھلا ہونا یہ وہ اسباب ہیں جنکے پیش نظر ایران اسرائیل کے ساتھ ایک نئی جنگ نہیں چھیڑے گا ، دوسری طرف اسرائیل بھی لبنان کی حزب اللہ کی میزائلی طاقت، اور نامنظم و گوریلا جنگوں میں حزب اللہ کی صلاحیت و طاقت کے پیش نظر نیز ، باختری وغزہ ،شام ، اور لبنان کی شکل میں موجودہ سہ رخی محاذ کی بنا پر جنگ چھیڑنا نہیں چاہے گا ، کیونکہ یہ سہ رخی محاذ خود بخود اسرائیل کی جانب سے جنگ چھیڑے جانے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا [۳]۔
[۱] ۔ موسسه رند، ترجمه: مرکز بررسی های استراتژیک ریاست جمهوری، «منافع و گزینه های اسرائیل در سوریه»، لَری هانور، ترجمه: محسن محمودی، جواد عرب یار محمدی، انتشار ۲۰۱۶م.
[۲] ۔۲۳۳۴http://theinternational.ir/west-of-asia/item/
[۳] ۔ https://iramcenter.org/fa/israels-policy-towards-hezbollah-after-the-end-of-the-syrian-war/
– فصلنامه پژوهش‌های انقلاب اسلامی، نقش قدرت‌های تاثیرگذار در بحران سوریه و تحلیل ژانوسی از منافع ملی ایران، اختیار امیری، رضا، دوست محمدی، حسین، تابستان۹۶، شماره ۲۱، ص۶۹-۴۱٫
– فصلنامه مطالعات منطقه‌ای، تاثیرات تضعیف سوریه بر امنیت اسرائیل، رابینویچ، ایتمار، ترجمه: منصور براتی، زمستان۹۵، شماره ۶۳، ص۹۴-۷۳٫
۴- فصلنامه پژوهش‌های انقلاب اسلامی، نقش قدرت‌های تاثیرگذار در بحران سوریه و تحلیل ژانوسی از منافع ملی ایران، اختیار امیری، رضا، دوست محمدی، حسین، تابستان۹۶، شماره ۲۱، ص۶۹-۴۱٫
۵- فصلنامه مطالعات منطقه‌ای، تاثیرات تضعیف سوریه بر امنیت اسرائیل، رابینویچ، ایتمار، ترجمه: منصور براتی، زمستان۹۵، شماره ۶۳، ص۹۴-۷۳٫
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جرمنی؛ یورپ میں یہودی ریاست کا پچھواڑا

  • ۳۲۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی ریاست (اسرائیل) جرمنی میں بہت سے ثقافتی سرگرمیاں بجا لاتی ہے، اسرائیلی فنکاروں کی حمایت کرتی ہے اور جرمنی کے ساتھ فنکاروں نیز فنکارانہ کاوشوں [فلموں وغیرہ] کا تبادلہ کرتی ہے۔ جرمنوں کی سرزمین میں بصری فنون کی نمائشیں لگاتی ہے؛ یہودی ریاست کی تھیئٹر گروپ جرمنی کے دورے کرتے ہیں، یہودی ریاست کی فلم کمپنی جرمنی کے مختلف میلوں میں شرکت کرتی ہے، نیز موسیقی کے فنکاروں اور لکھاریوں کی حمایت کا حمایت کرتی ہے۔ یہ سب برلن میں یہودی ریاست کے سفارتخانے کے ثقافتی شعبے کے معمول کی سرگرمیاں ہیں۔
اس کے علاوہ علاوہ بریں، ہر سال جرمن ـ اسرائیل میلہ (۱) بھی جرمنی وزارت ثقافت کی مالی حمایت سے منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں برلن میں مقیم اسرائیلی فنکاروں کی کاوشیں پیش کی جاتی ہیں۔ اس میلے کا آغاز سنہ ۲۰۱۵ع‍ سے ہوا ہے۔ ہر سال یہ میلہ ایک خاص موضوع متعین کرکے منایا جاتا ہے؛ مثال کے طور پر سنہ ۲۰۱۷ع‍ کا میلہ اتفاق ، ادغام (۲) کے موضوع پر منایا گیا۔ اس موضوع کے انتخاب کا مقصد یہودی ریاست کے فنکاروں کو جرمنی کے فنکارانہ ماحول کے قریب لانا تھا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون
جرمنی میں یہودی ریاست کے سفارتخانے کی ویب گاہ کے مندرجات کے مطابق، یہودی ریاست اور جرمنی سائنس اور ٹیکنالوجی کے بہت سارے شعبوں میں قریبی تعاون کررہے ہیں۔ اسرائیلیوں کا دعوی ہے کہ امریکہ کے بعد، سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے، جرمنی دوسرا بڑا ملک ہے جو ان کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ اس تعاون کا آغاز سنہ ۱۹۵۰ع‍ کی دہائی کے آخری برسوں سے ہوا ہے۔ ہالوکاسٹ کے بعد بہت سوں نے یہودی ریاست اور جرمنی کے درمیان تعلق بنانے کی کوشش کی۔ سنہ ۱۹۶۴ع‍ میں جرمن ادارہ “میکس پلانک سوسائٹی برای فروغ سائنس” (۳)، امریکی ادارہ “مینروا فاؤنڈیشن” (۴) اور یہودی ریاست کا ادارہ “وائزمین انسٹٹیوٹ آف سائنس” (۵) بھی میدان میں آئے اور فریقین کے ماہرین اور محققین کے درمیان تعاون کے لئے پروگرام مرتب کئے۔
آج یہودی ریاست اور جرمنی کے درمیان سائنس کے شعبوں میں تعاون بہت وسیع ہے اور “مینروا فاؤنڈیشن”، “جرمن وفاقی وزارت تعلیم و تحقیقات اور اسرائیلی وزارت سائنس کے درمیان تعاون کے پروگرام”، “جرمن ـ اسرائیلی فاؤنڈیشن برائے سائنسی ترقی و تحقیقات”، “مستقبل کے سلسلے میں جرمن ـ اسرائیل تعاون کے پروگرام” اور “صنعتی تحقیقات میں جرمن ـ اسرائیل تعاون” کی مالی امداد سے مختلف پروگراموں اور منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔
اس سلسلے میں مینروا فاؤنڈیشن، اہم ترین ادارہ ہے جو یہودی ریاست اور جرمنی کے درمیان تعاون کی حمایت کرتا ہے۔ یہ ادارہ جو اپنا سالانہ بجٹ جرمن حکومت سے وصول کرتا ہے، جرمنی اور یہودی ریاست کے محققین اور ماہرین کے درمیان بات چیت کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ یہ ادارہ نوجوان جرمن اور اسرائیلی محققین کو یہ امکان فراہم کرتا ہے کہ ۶ سے ۳۶ مہینوں تک کے عرصے میں میزبان ملک کے تحقیقاتی مراکز میں کام کریں۔ اس ادارے نے آج تک ۱۴۰۰ جرمن اور اسرائیلی محققین کی حمایت کی ہے۔ یہ اسکالرشپس [یا وظائف] نوجوان جرمن اور اسرائیلی سائنسدانوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ میزبان ریاست [ملک] کے محققین و ماہرین کے ساتھ قریبی تعلق برقرار کریں۔
تحقیقاتی منصوبے
ادھر جرمن وزارت تعلیم و تحیققات اور یہودی ریاست کی وزارت سائنس، تحقیقاتی منصوبوں کی پشت پناہی کے سلسلے میں آپس میں تعاون کررہی ہیں۔ تعاون کا یہ سلسلہ سنہ ۱۹۷۳ع‍ سے شروع ہوا ہے اور اس کا مقصد ان تحقیقاتی منصوبوں کی حمایت کرنا ہے جو حیاتیاتی ٹیکنالوجی (۶)، توانائی، ماحولیات، محیطیات یا سمندری علوم، (۷)، زمینیات (۸)، علم طب، جدید مواد (۹) اور نینو مواد (۱۰) اور لیزر ٹیکنالوجی (۱۱) سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ علاوہ “جرمن- اسرائیلی فاؤنڈیشن برائے سائنسی تحقیق اور ترقی” (۱۲)، جس کی بنیاد سنہ ۱۹۸۶ع‍ میں رکھی گئی ہے، بھی جرمنی اور یہودی ریاست کے مشترکہ تحقیقی منصوبوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اس ادارے کے ٹرسٹ بورڈ میں چار اسرائیلی اور چار جرمن شامل ہیں۔ اس ادارے کا مجموعہ سرمایہ ۱۶ کروڑ یورو ہے جو فریقین کے تعلیمی حکام کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ اس ادارے نے آج تک ۳۶۰۰ منصوبوں کی حمایت اور پشت پناہی کی ہے۔
“مستقبل کے منصوبوں کے سلسلے میں جرمن ـ اسرائیل تعاون پروگرام” (۱۳) بھی فریقین کے حکام کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ اس پروگرام کی بدیاد سنہ ۱۹۷۷ع‍ میں جرمن وزارت تعلیم و تحقیق نے رکھی تھی۔ اس پروگرام کے مطابق، مستقبل کے بارے میں کسی بھی منصوبے پر عملدرآمد کے لئے ۱۰ لاکھ ڈالر بجٹ کے طور پر مدنظر رکھے جاتے ہیں۔ یہ رقم عرصہ پانچ سال تک درخواست دہندگان کے سپرد کی جاتی ہے۔
نیز جرمنی اور یہودی ریاست کے حکام صنعتی شعبے کی تحقیق کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں یہودی ریاست کی وزارت صنعت و تجارت اور جرمنی کی وزارت تعلیم و تحقیق نے جون سنہ ۲۰۰۰ع‍ میں صنعتی تحقیق کے شعبے میں تعاون کے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کئے۔ اس مفاہمت نامے کے مطابق، فریقین نے فیصلہ کیا کہ ۱۳ لاکھ یورو صنعتی تحقیقات کے لئے مختص کیا جائے۔ اس رقم کو چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتی تحقیق اور نئے کاموں کے آغاز پر خرچ ہونا چاہئے۔ اس کام کا مقصد الیکٹرانک، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات، بائیوٹیکنالوجی اور ماحولیاتی ٹیکنالوجی کی حمایت کرنا ہے۔
وائزین سائنس انسٹٹیوٹ
وائزمین انسٹٹیوٹ آف سائنس بھی یہودی ریاست کے اہم ترین سائنسی اداروں میں شامل ہے جو جرمنی کی جامعات اور تحقیقی مراکز کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ یہ ادارہ مقبوضہ فلسطین میں واقع ریحوووت (۱۴) نامی شہر میں واقع ہے اور یہودی ریاست کے سائنسی حلقوں میں بےپناہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس ادارے کے نئے تحقیقی منصوبے بیماریوں کے انسداد کے لئے نئے راستوں کی تلاش، ریاضیات اور کمپیوٹر سائنس کے کلیدی مسائل کے جائزے اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے نئی حکمت عملیاں تلاش کرنے پر مرکوز ہیں۔ یہ ادارہ صرف ان جرمن طالبعلموں کو تعلیم و تحقیق کے مواقع فراہم کرتا ہے جو ایم ایس سی، ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی سطح پر مختلف سائنسی شعبوں میں تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔
تعلیمی وظائف (۱۵)
برلن میں یہودی ریاست کے سفارتخانے کی ویب گاہ کے مطابق، یہ ریاست مقبوضہ سرزمین میں تعلیم کے جرمن شائقین کو وظیفہ اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہے۔ یہ وظائف ان جرمن طالبعلموں کو دیئے جاتے ہیں جو “تاریخ یہود، بین الاقوامی تعلقات، سیاسیات، عبرانی زبان اور زبان و ادب کے مضامین میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ وظائف ان جرمن طالبعلموں کو دیئے جاتے ہیں جن کی عمریں ۳۵ سال سے زیادہ نہ ہوں اور انگریزی اور عبرانی زبان میں مہارت کاملہ رکھتے ہوں۔
یہودی ریاست یہ وظائف مختلف طریقوں سے جرمن طالبعلموں کو دے دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک وظیفہ وہ ہے جو ایک تعلیمی سال (آٹھ مہینوں) کے لئے اس ریاست میں حصول تعلیم کے رضاکار جرمن طالبعلموں کو دیا جاتا ہے جن میں ایم ایس سی، ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے طالبعلم نیز مختلف شعبوں کے محققین شامل ہوتے ہیں۔ جن طالبعلموں کو اس کورس میں داخلہ ملتا ہے وہ ماہانہ ۸۵۰ ڈالر وظیفہ لیتے ہیں اور ان کا ﺻﺣت کا بیمہ بھی کروایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، مقبوضہ فلسطین جانے اور جرمنی واپس آنے کے اخراجات ان طالبعلموں کو خود برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین میں عبرانی اور عربی زبان کی تعلیم
تعلیمی وظائف کے علاوہ مقبوضہ فلسطین پر مسلط یہودی ریاست جرمن طالبعلموں کو عبرانی اور عربی زبانیں سیکھنے کے لئے بھی وظائف دیتی ہے۔ جرمن طالبعلموں کو مختصر عبرانی کورس میں شرکت کے لئے حیفا یونیورسٹی میں داخلہ دیا جاتا ہے؛ اس کورس کے شرکاء کو ہفتہ وار ۳۰۰ ڈالر بطور وظیفہ دیئے جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں، اس ریاست کی دوسری یونیورسٹیاں بھی بین الاقوامی طلبہ کو عبرانی اور عربی زبانوں کے کورس فراہم کرتی ہیں۔ یہ کورسز مختلف یونیورسٹیوں میں معمول کے مطابق مختصر مدت کے لئے منعقد کروائے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رپورٹ: برلن میں ایرانی سفارتخانے کے ثقافتی شعبے کا جائزہ
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://iqna.ir/fa/news/3786199
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Israel-Deutschland Festival Berlin
۲۔ integration
۳۔ Max-Planck-Gesellschaft zur Förderung der Wissenschaften e. V. [MPG] (Max Planck Society for the Advancement of Science)
۴۔ Minerva Stiftung [Minerva Foundation]
۵۔ מכון וייצמן למדע = Weizmann Institute of Science
۶۔ Biotechnology
۷۔ Oceanography
۸۔ Earth sciences
۹۔ Advanced materials
۱۰۔ Nanomaterials
۱۱۔ Laser technology
۱۲۔ Deutsch-Israelische Stiftung für Wissenschaftliche Forschung und Entwicklung [GIF]
۱۳۔ stiftung deutsch-israelisches zukunftsforum
۱۴۔ רְחוֹבוֹת = Rehovot
۱۵۔ Scholarships

 

امریکہ کو طاقت کے دائرے سے کس نے نکال باہر کیا؟

  • ۳۵۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سنہ ۱۹۷۹ع‍ میں، ایران میں ایک دینی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا تو بہت سوں نے پیش گوئی کی کہ دنیا میں بڑی تبدیلیوں کی آمد ہے اور دنیا کے بہت سے ہوشمند نے کہا کہ زمانہ ـ مزید ـ پرانے ڈگر پر نہیں چلے گا۔ اسلامی انقلاب ایسے ملک میں رونما ہوا تھا جس کو مغرب کی اصطلاح میں تیسری دنیا کا ملک کہا جاتا تھا اور یہ ملک ایک وابستہ ملک تھا اور مغربی و مشرقی طاقتوں کے پاس دنیا پر مسلط تھیں جن کے پاس “ناخواستہ واقعات” کا سد باب کرکے محو و نابود کرنے کا بھرپور تجرجہ رکھتی تھیں؛ جنہوں نے اپنی پوری طاقت فوری طور پر میدان میں پہنچا دی مگر انہیں راستے کے کٹھن ہونے کا بھی اندیشہ تھا اور “ایران کی عظیم دینی روداد” کے نتائج سے بھی خائف تھیں۔
ہیملٹن جارڈن (۱) نے اپنی کتاب “بحران: کارٹر کی صدارت کا آخری سال” (۲)، میں صدر جمی کارٹر (۳) کے حوالے سے لکھا ہے کہ “ہمیں ایک عظیم سردرد کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور ہمارے پاس اسے روکنے کے لئے کافی وسائل نہیں ہیں”۔ تہران میں سفارتخانے کے نام پر امریکی جاسوسی کے گھونسلے میں تعینات جاسوسوں کو یرغمال بنایا گیا تو جمی کارٹر کو جب امام خمینی (قدس سرہ) کے نام ایک خط لکھنا پڑا اور اپنے نقادوں کے ایک وفد کو ایک انجیل اور ایک کیک دے کر تہران روانہ کرنا پڑا تو اسلامی انقلاب کے رہبر نے وفد اور اس کے لائے ہوئے تحائف کو مسترد کردیا، تو سب لوگ بھانپ گئے کہ حالات بالکل نئے ہیں جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب کو ایران کے اندر بھی زبردست قومی بنیادیں فراہم تھیں اور اس کے قومی اہداف و مقاصد بھی عظیم تھے، چنانچہ یہ ایک انتہائی طاقتور انقلاب تھا اور “عدل و انصاف” اور “آزادی” اس کے دو اہم بنیادی عناصر تھے لیکن اسی اثناء میں یہ ایک “عالمی انقلاب” سمجھا جاتا تھا اور امریکہ اور دوسری طاقتوں کا مسئلہ بھی اسی موضوع سے جنم لیتا تھا۔ یہ انقلاب نہ صرف “غیر وابستہ تحریک” (۴) کی تشکیل میں بروئے کار آنے والی فکر کی مانند، سلامتی کے شعبے میں بلاکوں اور طاقتوں کی پیروی کی نفی کررہا تھا بلکہ عالمی “تخمینوں [اندازوں] اور تعلقات” کی تبدیلی کے لئے میدان میں آیا تھا؛ امریکیوں کی مشکل کا آغاز اسی نقطے سے ہوا۔
امریکہ کے لئے کسی بھی قومی ـ اور اصطلاحا “غیر وابستہ” ـ انقلاب کو لگام دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا؛ اس نے سنہ ۱۹۷۳ع‍ میں چلی (۵) کے غیر وابستہ قومی انقلاب کو تین سال کے بعد، گرا دیا اور اس کے پاس اس طرح کے درجنوں تجربات اور بھی تھے: مصر میں جمال عبدالناصر، سابق یوگوسلاویہ میں مارشل ٹیٹو (۶)، بھارت میں نہرو اور انڈونیشیا میں سوئیکارنو کی کو لگام دینا اس کے لئے بہت آسان تھا جیسا کہ وہ جمال عبدالناصر، نہرو اور سوئیکارنو کی جگہ اپنی پسند کے لوگوں کو عشروں تک برسر اقتدار رکھ چکا تھا لیکن اس کو یہاں ایک ایسے انقلاب کا سامنا تھا جس کا نعرہ اور مدعا ہی کچھ اور تھا۔ یہ انقلاب پوری دنیا کو اپنے ساتھ ملا رہا تھا اور اس کا سامنا کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔
اس انقلاب نے “اسلام کا پرچم”، “امریکہ اور یہودی ریاست کا مقابلہ کرنے کا پرچم” اور “اغنیاء پر فقراء کے غلبے” کا پرچم اٹھا کر، ان کروڑوں انسانوں کی توجہ بہت تیزی کے ساتھ اپنی جانب مبذول کروائی جو کسی وقت قوم پرستانہ، اشتراکی اور لبرل تحریکوں سے وابستہ ہونے کے بعد ناامید ہوکر پلٹ آئے تھے اور اپنے آغاز ہی سے اُس وقت کی سب سے بڑی طاقت یعنی امریکہ کو چیلنجوں سے دوچار کردیا تھا۔
آج امریکی طاقت کے انحطاط و زوال اور اس کی بڑی طاقت ہونے کے دور کے اختتام کی باتیں ہورہی ہیں، لیکن جو لوگ تیزبین تھے، وہ ایران میں اسلامی انقلاب کے کامیاب ہوتے ہی اس کو ـ بطور بڑی طاقت” ـ امریکہ کے دورِ زوال کا آغاز قرار دیا تھا۔ پال کینیڈی (۷) نے سنہ ۱۹۸۷ع‍ میں شائع ہونے والی اپنی کتاب “بڑی طاقتوں کا عروج و زوال” (۸) میں لکھا ہے: “امریکہ متناسب زوال کے دور میں داخل ہوچکا ہے اور لمبی مدت میں، مکمل زوال سے دوچار ہوجائے گا”۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ ـ بحیثیت بڑی طاقت اور کوئی بھی دوسری طاقت ـ چار ستونوں پر قائم ہے: پہلا ستون اخلاقی ہے جو دوسری طاقتوں کو قائل کرکے اور ساتھ ملا کر قائم کیا جاتا ہے؛ دوسرا ستون ان بڑے بڑے “مسائل کا حل” ہے جو رونما ہوا کرتے ہیں؛ تیسرا ستون کامیابی تک پہنچنے کے لئے اتحاد سازی اور دوسروں کی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہے اور چوتھا ستون رقیب طاقت کا سد باب کرنا۔ یہ چاروں عناصر البتہ ایک دوسرے سے متصل اور جڑے ہوئے ہیں۔
امریکہ کی اخلاقی طاقت ـ یعنی دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیت ـ کے بارے میں کہنا چاہئے کہ امریکیوں نے اخلاقی طاقت کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے سنہ ۱۹۴۸ع‍ میں اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی اور اس کا مرکزی دفتر اپنی سرزمین پر قرار دیا اور پوری مہارت اور چالاکی سے ایسے درجنوں قرادادیں منظور کروائی ہیں اور معاہدے کروائے ہیں اور دوسرے ممالک سے دستخط لے کر ان کنونشنوں، معاہدوں اور قراردادوں کو نہیں بلکہ امریکی اقدار کو بھی “عالمگیر” بنایا [اور Globalize کروایا] ہے۔ لیکن اسلامی انقلاب نے ایک زبردست اور طاقتور منطق پیدا کرکے دین کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ کی حکمرانی اور سیاست کے فلسفے اور ایک بڑی طاقت کی اخلاقی اداکاریوں کو زائل کردیا۔
اسلامی انقلاب نے فلسطین کو امریکہ کے عالمگیر شدہ ظالمانہ اور غیر انسانی قواعد اور رویوں کی علامت بنا دیا اور یہ امریکی طاقت کے اخلاقی عنصر کے زوال کی مثال تھی۔ ادھر انقلاب اسلامی ـ بذات خود، اس انقلاب کی وقوع پذیری، یرغمالوں کے مسئلے کے حل میں امریکہ کی بےبسی اور ایران میں مقیم امریکی کارندوں کی قید کی طوالت نے، امریکہ کے فیصلہ کن کردار ـ یعنی ایک بڑی طاقت کے دوسرے عنصر ـ کو چیلنج کردیا اور یہ اور یہ امریکہ کے زیر تسلط علاقے ـ یعنی مغربی ایشیا ـ میں معرض وجود میں آنے والے رجحانات اور ان کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات کا آغاز تھا جنہیں امریکہ حل نہیں کرسکا اور اپنے مشتہرہ نمونہ ہائے عمل کے نفاذ سے عاجز ہوا۔ و نافذ نہیں کرسکا۔ گیلپ (۹) سروے کے مطابق ـ جو کہ ۱۳۴ ممالک کے باشندوں کی آراء کا مجموعہ ہے ـ دنیا کی آبادی میں سے صرف ۳۰ فیصد کا خیال ہے کہ امریکہ دنیا کے حالات اور تبدیلیوں کے انتظام و انصرام میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
لیکن یہ مسئلہ ـ کہ امریکہ یک رخی پالیسیوں کے حوالے سے مشہور ہوا ـ کسی بھی موضوع کے حل کے لئے “اتحاد” کا سہارا لے لیتا تھا ـ بجائے خود اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ امریکہ تمام رجحانات اور واقعات میں ایک ناکام ملک شمار کیا جاتا ہے۔ دریں اثناء آج ہم جو کچھ ایک بڑی طاقت کے تیسرے ستون کے حوال سے دیکھ رہے ہیں، یہ ہے کہ امریکہ ایک “مؤثر اتحاد” بنانے سے قاصر ہے اور مسئلہ حل کرنے کے لئے، اس قسم کے کسی اتحاد سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ ناروے کے مشہور ماہر عمرانیات یوہان گالتونگ (۱۰) کہتے ہیں: “اب صرف شمالی یورپ کے ممالک امریکی جنگوں کی حمایت کرتے ہیں، جو ایک دو سال سے زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکے گی”۔
عوامی انقلابوں کو قابو لینے میں بھی امریکی طاقت شدت سے زوال پذیر ہوچکی ہے اور اسی بنیاد پر آج حکومتوں کی سخت طاقت (۱۱) کے ساتھ ساتھ قوموں کی نرم طاقت (۱۲) اور عوامی طاقت کی برتری کی باتیں ہورہی ہیں؛ حتی کہ حکومتیں قوموں کی نرم طاقت کو اپنے مخالفین سے نمٹنے کے لئے بروئے کار لاتی ہیں۔ تازہ ترین مثال “وینزوئلا” کی ہے جہاں امریکہ نے مادورو حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کی مہم چلائی گئی؛ اور اسی وقت حکومتی سطح پر بھی امریکیوں کو مخالفین سے نمٹنے میں بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسی بنا پر امریکی تھنک ٹینک “امریکن انٹرپرائز” (۱۳) نے اپنی ۳۶ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں لکھا کہ “امریکہ کے دشمن بشمول چین، روس اور ایران اپنی فوجی صلاحیتوں کو تقویت پہنچا رہے ہیں اور یہ پیشرفت انہیں امریکہ کی فوجی طاقت سے نمٹنے کا امکان فراہم کررہی ہے”۔ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل امریکی فضائیہ کے کمانڈر جنرل مارک ویلش (۱۴) نے فاکس نیوز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ اور اس کے دشمنوں کی عسکری صلاحیتوں میں ماضی کا فاصلہ اختتام پذیر ہوچکا ہے [اور وہ ہماری سطح تک پہنچ گئے ہیں]”۔
چنانچہ ایک عمومی جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ چار عشروں میں اپنی طاقت کے تحفظ کے حوالے سے سنجیدہ چیلنجوں سے دوچار ہوچکا ہے”۔
لگتا ہے کہ امریکی پہلے ہی سے جانتے تھے کہ انہیں ایک ناقابل تسخیر واقعے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ان کے حافظے میں صدیوں کے فاصلے سے معرض وجود میں آنے والی تین بڑی مسلم طاقتوں کی تاریخ محفوظ تھی جو چودہویں صدی سے بیسویں صدی تک دنیا کے وسیع علاقوں حکمرانی کرچکی تھیں: سلطنت عثمانیہ (۱۵) سنہ ۱۲۹۹ع‍ تا سنہ ۱۹۲۴ع‍؛ صفوی سلطنت (۱۶) سنہ ۱۵۰۱ع‍ تا سنہ ۱۷۳۶ع‍ اور [متحدہ] ہندوستان میں مغلیہ سلطنت (۱۷) سنہ ۱۵۲۶ع‍ تا سنہ ۱۸۵۷ع‍ جنہوں نے چھ صدیوں کے دوران ـ بالخصوص سولہویں صدی سے انیسویں صدی تک ـ یورپی استعماری طاقتوں کو زبردست چیلنجوں سے دوچار کیا تھا۔ زیادہ تر مواقع پر ان تین مسلم سلطنتوں کے باہمی تعلق نے مغرب کو خوفزدہ کردیا تھا؛ اور جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو سلطنت عثمانیہ کے زوال کو ۵۵ برس اور سلطنت مغلیہ کے زوال کو ۱۲۲ برس ہوچکے تھے؛ اور یہ ایک طویل عرصہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اس حقیقت نے امریکیوں کو دو نکتوں کی یاددہانی کروائی: ۱۔ برصغیر سے لے کر مغربی افریقہ تک پورے عالم اسلام کی نشات ثانیہ اور عمومی اٹھان کا قوی امکان ہے؛ ۲۔ عالم اسلام کے تمام حصوں کے درمیان باہمی تعلق کا قوی امکان ہے۔ چنانچہ امریکی اکیڈمیاں اسلامی اٹھان کے دور کے آغاز عندیہ دینے لگی تھیں؛ حتی کہ سیموئیل پی ہنٹنگٹن (۱۸) نے اس سلسلے میں کتاب ”تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیل نو” (۱۹) لکھ ڈالی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی انقلاب عثمانی،  صفوی اور مغل طاقتوں کی نسبت دو مزید عناصر کا حامل تھا: “معنویت” (روحانیت) اور “دنیا کے انتظام کے لئے نیا خاکہ اور نیا منصوبہ”۔ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران صرف ایک مادی اور اور اعلی فوجی صلاحیتوں کا حامل ملک ہی نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مغربیوں کے لئے اس پر غلبہ پانا زیادہ مشکل نہ تھا۔ معنویت کی دو اہم کارکردگیاں تھی: ۱۔ اس انقلاب نے مغربی تہذیب کے فلسفے کو  مشکوک اور متنازعہ بنایا اور خود مغربیوں نے اس موضوع کو یوں بیان کیا: “ایران کے اسلامی انقلاب نے انسان سے تقاضا کیا کہ اپنے اصل مقام [اللہ کی بندگی] کی طرف پلٹ آئے اور اپنے عقائد و افکار میں اللہ کے لئے اس کا اصل مقام ـ یعنی انسان پر حکمرانی ـ کے رتبے کا قائل ہوجائے”؛ ۲۔ اسلامی انقلاب کی معنویت نے مغرب کے سامنے ایک عظیم استعداد اور بےمثل موقع بھی مغرب کے سامنے رکھا جو کہ ـ البتہ ـ مغربیوں کے لئے انجانا تھا۔
اسلامی انقلاب کے معنوی فلسفے نے بہت جلد ملحد مشرقی بڑی طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور جس طرح کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے سوویت اتحاد کے آخری صدر میخائل گورباچوف (۲۰) کو شیوعیت (۲۱) کی نابودی کے سلسلے میں یاددہانی کروائی تھی، مغرب کو بھی مختلف انداز سے نشانہ بنایا اور خبردار کیا تھا۔
بایں حال، بہت سوں نے سوویت اتحاد کے زوال کو مغرب کے دباؤ یا سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اندرونی شکست و ریخت کا نتیجہ قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوویت اتحاد کو اندرونی اور بیرونی لحاظ سے کسی خاص مسئلے کا سامنا نہیں تھا اور سب کچھ اپنی جگہ قائم تھا، لیکن ایک معنوی انقلاب نے ـ عدالت پسندانہ اور حریت پسندانہ منصوبے کے ساتھ ـ مارکسیت (۲۲) کے  وجود کے اہم ترین فلسفے ـ یعنی دین اور معنویت کی نفی ـ کو سرے سے باطل کردیا اور اس کے تشخص کو چھین لیا؛ چنانچہ جو چیز جو کمیونسٹ حکومت کے زوال کی بنا پر نظر آئی یہ تھی کہ مذہب معاشرے کے تمام شعبوں میں پلٹ کر آیا اور “یہی وہ عنصر ہے جو آج ایک ہی ساتھ شیوعیت کی واپسی کا بھی راستہ روک رہی ہے اور روس میں مغربی لبرلیت کو بھی شیوعیت کے متبادل کے طور پر مقبولیت حاصل سے باز رکھ رہی ہے۔ حالانکہ اگر سوویت اتحاد کا زوال مغرب کے ساتھ مسابقت میں شکست یا اندرونی طور پر معاشی بدحالی کا نتیجہ ہوتا تو آج اس بڑی طاقت کے کھنڈرات پر مغربی لبرلیت کی عمارت تعمیر ہوچکی ہوتی”۔
اگر ہم “تخمینوں [اندازوں] اور تعلقات کی تبدیلی” کو اسلامی انقلاب کا اہم ترین مقصد سمجھیں ـ وہی جن پر اسلامی انقلاب کے نعرے بھی مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں ـ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ “اگرچہ اسی لمحے بھی امریکی نامی طاقت، اس کی تشکیل میں کردار ادا کرنے والے عناصر ـ منجملہ زور، دولت، طبقاتی نظام اور اس کے [جدید دور کی] خرافاتی روایتیں ـ بدستور موجود ہیں؛ لیکن اسلامی انقلاب نے ایک طرف سے اس کے جواز کو چیلنج کیا ہے، اور دنیا والوں کی آنکھوں سے گرا دیا ہے اور دوسری طرف سے دنیا کا ایک وسیع اور حساس حصہ امریکہ اور اس کی طاقت کے عناصر و عوامل نیز پورے مغرب کے تسلط سے چھڑانے میں کامیاب ہوا ہے؛ اور اس حال میں ہم آج ہم اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: سعد اللہ زارعی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ William Hamilton McWhorter Jordan
۲۔ Crisis: Last year of Carter’s presidency
۳۔ James Earl Carter Jr
۴۔ Non-Aligned Movement [NAM]
۵۔ Chile
۶۔ Josip Broz Tito
۷۔ Paul Kennedy
۸۔ The Rise and Fall of the Great Powers
۹۔ Gallup [company]
۱۰۔ Johan Galtung
۱۱۔ Hard power
۱۲۔ Soft power
۱۳۔ American Enterprise Institute
۱۴۔ Mark Welsh
۱۵۔ Ottoman Empire
۱۶۔ Safavid dynasty
۱۷۔ Mughal Empire
۱۸۔ Samuel Phillips Huntington
۱۹۔ The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order
۲۰۔ Mikhail Sergeyevich Gorbachev
۲۱۔ Communism
۲۲۔ Marxism
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://kayhan.ir/fa/news/153214

 

تیسری عالمی جنگ ٹرمپ کی گمشدہ پہیلی

  • ۳۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ٹرمپ کے “سب سے پہلے امریکہ” (The American first) کے اصول سے جنم لینے والی پالیسیوں اور تزویری تدبیری معیاروں کو دیکھا جائے تو ان کی خارجہ پالیسی کے اصول سے لئے جانے والا پہلا تاثر اس نکتے کو واضح کرتا ہے کہ وہ سابقہ امریکی حکومت کی مساہلت اور مسامحت کو برداشت نہیں کر سکے ہیں اور بین الاقوامی نظام کے پہلے درجے کی حکومت کے طور پر، امریکہ کی خارجہ پالیسی کے تزویری معیاروں پر اصولی نظر ثانی پر پر یقین رکھتے ہیں، اسی بنا پر وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی ان کی مجموعی حکمت عملیاں، بالکل نئی اور روایت شکنانہ شکل میں نمودار ہوئیں جس پر انہیں بہت سے مواقع پر عالمی رائے عام کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔
حال ہی میں زیادہ تر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور تجزیاتی حلقوں کی توجہ مشرق وسطی کے سلسلے میں ٹرمپ کے مستقبل کی تزویری سمت کے سلسلے میں پیش گوئیوں اور پیش بینیوں پر مرکوز ہوئی ہے اور تقریبا اکثر حلقوں نے ٹرمپ کی تزویری پالیسیوں کی خاکہ کشی نیز مشرق وسطی میں ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک وسیع سطحی جنگ ـ جس کا مرکز مشرق وسطی کا خطہ ہوگا اور عالمی سطح پر دنیا کے بہت سے ممالک کا دامن بھی پکڑ لے گی ـ غیر متوقع نہیں ہے اور اس کی کچھ نشانیاں بھی بالکل واضح ہوچکی ہیں۔
چنانچہ تمام تجزیاتی حلقوں کے ہاں ایک بالکل شفاف اور واضح سوال اٹھا ہوا ہے کہ “کیا ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطی کی حدود میں ایک جنگ کے درپے ہیں؟”۔
سوالی که بیشتر مجموعه های تحلیلی – خبری بصورت روشن و شفاف با آن مواجه اند در این عبارت مختصر خلاصه می شود که آیا دونالد ترامپ به دنبال جنگی جهانی در بعد خاورمیانه است؟
ٹرمپ کے “سب سے پہلے امریکہ” (The American first) کے اصول سے جنم لینے والی پالیسیوں اور تزویری تدبیری معیاروں کو دیکھا جائے تو ان کی خارجہ پالیسی کے اصول سے لئے جانے والا پہلا تاثر اس نکتے کو واضح کرتا ہے کہ وہ سابقہ امریکی حکومت کی مساہلت اور مسامحت کو برداشت نہیں کر سکے ہیں اور بین الاقوامی نظام کے پہلے درجے کی حکومت کے طور پر، امریکہ کی خارجہ پالیسی کے تزویری معیاروں پر اصولی نظر ثانی پر پر یقین رکھتے ہیں، اسی بنا پر وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی ان کی مجموعی حکمت عملیاں، بالکل نئی اور روایت شکنانہ شکل میں نمودار ہوئیں جس پر انہیں بہت سے مواقع پر عالمی رائے عام کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ کے سب سے اعلی عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے لے کر اب تک کے ڈونالڈ ٹرمپ کے موقفوں کے ایک سادہ سے اقتباس کو دیکھا جائے تو “ان کی تمام فکرمندیوں اور ہنگامہ خیزیوں کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ امریکہ کو عالمی نظم اور ترقی کے لئے اتنے بڑے اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں؟”۔
ٹرمپ کا خیال ہے کہ ـ فرسودہ اور التوائی معیاروں کی بنیاد پر ـ عالمی نظم کی بحالی پر ارتکاز  اور یہ مسئلہ “حقیقی امریکی شہریوں [یعنی سفید فاموں] کی فلاح و بہبود کے انتظام سے غفلت” کا باعث بنا ہے؛ اور اسی بنا پر وہ اپنے آپ کو امریکہ کے اور نظرانداز ہونے والے “حقیقی سفید فام طبقے” کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور اسی بنا پر انھوں نے “صفر درجے کی رواداری” (Zero tolerance) کی پالیسی کو اپنے پروگراموں میں سر فہرست رکھی ہے اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے منصوبے کو ہر قیمت ـ حتی کہ پوری کانگریس کی مخالفت کی قیمت ـ پر پایۂ تکمیل پر پہنچانا چاہتے ہیں۔
“پہلے امریکہ” (America First) کی ڈاکٹرائن میں بنیادی کردار بین الاقوامی پالیسی کے نظریہ پرداز ہنری کسنگر کا ہے۔ انھوں نے کیسنگر کی راہنمائیوں سے استفادہ کرتے ہوئے چین کو “دشمن” یا “دیگر” (other) قرار دیتے ہیں اور ان کی پالیسی کا اصل ہدف “چین کی نشوونما اور ترقی کو لگام دینا” ہے۔ اور روس کی طرف سے بھی ایسی ہے شبہات پائے جاتے ہیں کہ وہ بھی اسی پالیسی پر گامزن ہوکر چین کی ترقی کو لگام دینا چاہتا ہے۔ کیونکہ ہنری الفرڈ کسنگر کو عرصہ دراز سے یقین ہے کہ امریکہ کو روس کے ساتھ تعاون کرکے چین سے نمٹنا چاہئے۔
تاہم مسٹر ٹرمپ کو درپیش اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو امریکی صدر کے طور پر اور امریکہ کے سابق صدرور کے ہم رتبہ ثابت کرکے دکھا سکیں اور اس لحاظ سے اپنا تشخص منوا دیں۔ صدارت کے ایام میں ٹرمپ کے غیر متوازن، غیر متوقع اور ناگہانی اقدامات اور فیصلوں نے اس چیلنج کو مزید پیچیدہ اور گہرا کردیا ہے؛ اور اس چیلنج کا دوہرا سر درد یہ ہے کہ امریکی معاشرے کے تمام طبقے ـ عوام سے خواص تک، رکن کانگریس اور سینٹر سے کر اعلی عدالت کے ججوں اور ریاستوں کے گورنروں اور میئروں تک ـ سب ریاست ہائے متحدہ کے صدر کی حیثیت سے ٹرمپ کے اس بحرانِ تشخص کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور اسی تناظر میں ہی وائٹ ہاؤس کے اوول ہاؤس میں ٹرمپ کے داخلے کے ساتھ ہی ان کے مواخذے اور باز پُرسی (Impeachment) کی تجویز کانگریس اور سینٹ کے ایجنڈے میں شامل ہوئی اور یہ تجویز آج بھی ان کے ایجنڈے سے خارج نہیں ہوئی۔
تشخص کا یہ بحران اس نکتے کی اہم دلیل ہے کہ اس نے بین الاقوامی سیاست کے ماہرین کو اس یقین تک پہنچا دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ نے اپنی تشکیل سے ہی انتہاپسندانہ شکل اختیار کرلی ہے، مؤاخذے سے جان چھڑانے اور اسے چھپانے کے لئے انھوں نے “آگے کی طرف بھاگنے” (Forward Escape) کی پالیسی اختیار کی ہے اور مسٹر ٹرمپ اندرونی پالیسیوں کی لا مرکزیت (Decentralization) کے ہتھکنڈے کو آگے لائے ہوئے ہیں اور ایک تسدیدی جنگ (Preventive War) کے سانچے میں، بین الاقوامی بحرانی سازی کرکے اپنے بحرانِ تشخص کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف سے مشرق وسطی میں امریکہ کو اس کے دیرینہ دیرینہ سیاسی ابہام اور غیر یقینی صورت حال سے نجات دہندہ بھی بننا چاہتے ہیں چنانچہ مشرق وسطی میں ایک وسیع جنگ کا امکان واضح ہوجاتا ہے؛ اور پھر دوسرے اقتباس میں ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق وسطی کا خطہ بذات خود علاقائی کشمکش کے لئے تیار کھڑا نظر آرہا ہے اور ایک چھوٹے سے تصادم کے نتیجے میں ایک وسیع البنیاد جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی کابینہ نے اپنی پیدائش کے آغاز سے ہی اپنی روایت شکن اور غیر متوقعہ حکمت عملیوں نیز سابقہ حکومتوں کی سست رفتار روشوں کو ترک کرکے، کچھ پالیسیوں کو [التوا کا شکار مسائل کے انجام کا فیصلہ یا] “فرائض کے تعین” کے سانچے میں بیان کیا جن کا نشانہ محض امریکہ کے مخالف ممالک ہیں جن کے امریکہ کے ساتھ براہ راست سیاسی اور سفارتی تعلقات نہیں ہیں جن میں اسلامی جمہوریہ ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پالیسی کے تحت شمالی کوریا کے سلسلے میں ایک نئی فضا بنا رہے ہیں اور اس پالیسی کا دوسرے مرحلے کا نشانہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔
مشرق وسطی میں حالات امریکہ کے مفاد میں نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود تشہیر کی جارہی ہے کہ مشرق وسطی میں ایک عالمی سطح کی وسیع جنگ کا امکان ہے؛ یہ تشہیری مہم کچھ صحافتی اور تجزیاتی حلقوں کے ہاں بھی موضوع بحث بن چکی ہے اور اس کی بنیاد ٹرمپ کے انتہاپسندانہ رویے اور پالیسیاں ہیں جو بز‏عم خود فوری طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدر کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں!؟ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر مبصرین اور خارجہ پالیسی کے ماہرین، موجودہ اشاروں کو آپس میں جوڑ کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ نفسیاتی اور معاشی دباؤ کی صورت میں لڑی جانے والی جنگ کسی خاص نتیجے میں پر نہیں نہیں پہنچ سکے گی، کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران اس قسم کے رویوں کے آگے اپنی جان سے ہاتھ دھونے والا نہیں ہے۔ اور پھر بالادستی کی خواہاں امریکی انتظامیہ کی موجودہ پالیسیاں ایران کے لئے بالکل نئی نہیں ہیں بلکہ اس ملک کو تو ابتدائے انقلاب سے ہی اس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؛ چنانچہ مسٹر ٹرمپ کی یہ حکمت عملی بھی بالآخر اندھی گلی پر منتج ہوگی؛ اور چونکہ ٹرمپ کی کابینہ کے خیالات اور عقائد جنگی اور عسکری ہیں، اور ایران دشمن عناصر بھی اس کا ساتھ دے رہے ہیں؛ لہذا ان عوامل و اسباب کا مجموعہ مشرق وسطی میں ایک بڑی جنگ کے شعلے بھڑکنے کے اسباب فراہمی کرے گا!
حقیقت یہ ہے کہ اگر اس قضیے کے عینی اور ظاہری معیاروں کو کافی سمجھا جائے تو تجزیہ اور اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو سطور بالا میں بیان ہوا۔ لیکن اگر بحث کے قواعد اور منطق و استدلال کے ساتھ ٹرمپ حکومت کے عہدیداروں کے الفاظ و اصطلاحات ـ نیز مسٹر ٹرمپ کی شخصیت کے پس منظر ـ پر توجہ مرکوز کریں، تو بحث سے بالکل نتائج برآمد ہونگے۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن “سب سے پہلے امریکہ”  کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو بالکل واضح ہے کہ اس ڈاکٹرائن کا مقصد بیرون ممالک اخراجات کو کم کرنا ہے، اور دنیا بھر میں بھٹکتے ہوئے امریکی سرمائے کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرحدوں کے اندر لایا جائے، اور ڈونلڈ ٹرمپ کی وہی تشویش ہے اور ان کا بپا کیا ہوا وہی ہنگامہ ہے جس پر سوار ہوکر انھوں نے وائٹ ہاؤس تک کا راستہ طے کیا اور حلف اٹھانے کے بعد ثابت کرکے دکھایا کہ وہ ایک عملیت پسند (Pragmatist) اور کاروباری قوم پرست شخصیت ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ان کے زیادہ تر نعرے صرف لوگوں کو جوش دلانے اور ان کے جذبات ابھارنے کے لئے نہیں تھے بلکہ ان کا نعروں نے ایک فہم و شعور، اور ان کی حکومت کی بالادست حیثیت کی پائیداری، پر ان کے یقین راسخ سے جنم لیا ہے۔ موجودہ تشہیری مہم کو اس دریچے سے دیکھا جائے تو آسانی سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امریکی سرحدوں سے باہر کوئی بھی اقدام ـ جو بھاری انسانی، مادی اور نفسیاتی مصارف و مخارج کا باعث بنے ـ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں پر موجودہ مسلط ڈاکٹرائن میں قومی اہداف پر کم از کم اخراجات اٹھانے کو بنیاد قرار دیا گیا ہے، چنانچہ کوئی بھی روایتی عسکری اقدام اور امریکی جغرافیے سے طویل فاصلے پر واقع ممالک اور علاقوں میں جنگی مہم جوئی بعید از قیاس نظر آتی ہے۔
ٹرمپ کابینہ نے “سب سے پہلے امریکہ” نامی ڈاکٹرائن کے ساتھ ہی، اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کے لئے رویوں کا ایک نمونہ متعارف کرایا ہے۔ جس کا نام “پاگل آدمی حکمت عملی” [جو رچرڈ نکسن کی madman theory سے مأخوذ] ہے۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر حلقے، تجزیہ نگار اور ماہرین سمجھتے ہیں کہ گویا ٹرمپ انتظامیہ فوجی اقدام کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ اگر “پاگل آدمی” نامی حکمت عملی میں تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس تزویری عبارت کا ما حصل ـ جو امریکی خارجہ پالیسی ٹیم اور خارجہ پالیسی کونسل کے پیش نظر ہے ـ یہ بنتا ہے کہ مقررہ اہداف کو بھاری دباؤ، اور عنقریب حملے کی دھمکیوں کے سائے میں حاصل کیا جائے اور دباؤ اور دھمکی کو وائٹ ہاؤس کی روایتی پالیسی کی حدود سے نکل کر بعض غیر معمولی اور خلاف قاعدہ رویوں کے سانچے میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ شمالی کوریا کی حکومت کا رویہ بدلنے کے لئے اسی روش سے فائدہ اٹھایا گیا جو کسی حد تک واشنگٹن کے متعینہ اہداف تک پہنچنے میں کامیاب نظر آرہی ہے۔ اب یہ روش اگلے دنوں میں کس قدر پائیدار رہتی ہے، اس کا انحصار مذاکرات کے عمل پر رہے گا۔
اب مشرق وسطی میں وسیع فوجی تصادم کو اجاگر کرنے والے تجزیاتی حلقوں کا خبط اسی “پاگل آدمی” کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے جس میں البتہ یہ امکان بالکل واضح ہے کہ ارادی طور پر ایک اجتماعی نفسیاتی خوف و ہراس اور افراتفری کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور یہ مبصرین اسی ماحول سازی سے متاثر ہوکر نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ گویا ایک غیر متوقعہ اقدام یا باقاعدہ جنگ کی فضا بن رہی ہے؛ اس ماحول سازی کا ایک سرا حال ہی مائیک پامپیو کا دورہ مشرق وسطی سمجھا جاتا ہے اور دوسرا سرا پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں امریکہ کی طرف سے ایران مخالف کانفرنس کے انعقاد کی کوشش ہے [گوکہ اس کانفرنس کے ابتدائی طور پر بیان کردہ اہداف سے امریکہ کو پسپا ہونا پڑا ہے]، اس کانفرنس کا مقصد ـ ایران کے خلاف ایک مشترکہ عالمی محاذ بنانے کے لئے ـ دنیا والوں کو ایران سے خوفزدہ کرنے [اور ایرانو فوبیا] ہے۔ ایران فوبیا کا فروغ اسلامی انقلاب سے لے کر آج تک امریکہ اور اس سے مغربی اور دیگر کٹھ پتلی ریاستوں کی پالیسیوں اور رویوں میں سرفہرست رہا ہے۔
بالآخر آخرکار کہنا چاہئے کہ وائٹ ہاؤس میں رائج الوقت روش ہے جس کے دائرے میں رہ کر، ٹرمپ اور ان کے انتہاپسند ساتھیوں کی سرکردگی میں ریگن دور کی بالادست امریکی طاقت کے احیاء کی کوشش ہورہی ہے؛ اور “سب سے پہلے امریکہ” کا نظریہ اس روش کی تشکیل کے لئے منشور کا کام دے رہا ہے؛ اس سے دو رویوں تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے: رسمیاتی رویہ (Formalist Approach) اور محتویاتی رویہ (Content approach)۔
رسمیاتی رویے میں ـ جس کو سرکشانہ اور تشدد پر مبنی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ـ امریکی حکومت سے ہر قسم کے اقدام کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن محتویاتی رویے میں ـ جو کہ حکمران حکمت عملی کا حقیقی رویہ ہے ـ ہدف یہ ہے کہ فوجی اقدام سمیت دھمکی آمیز اقدامات کی نمائش اور مول تول پر مبنی جنگی ڈرامہ سازی کے اوزاروں کے ذریعے مقاصد کو حاصل کیا جائے۔
اور اس کا ہدف بین الاقوامی ماحول کے اندر ایک مبہم اور غیریقینی فضا قائم کرنا ہے اور ایسی صورت حال کو جنم دینا ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں “پاگل شخص” کی حکمت عملی سے نمٹنے کے لئے روشوں اور حکمت عملیوں کے اخذ کرنے میں حیرت اور تذبذب کا شکار ہوجائیں۔
دنیا پر مسلط یک قطبی (Unipolar) نظام کے سائے میں، بین الاقوامی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کی غرض سے ایک وسیع فوجی اقدام اور عالمی سطح کی جنگی تیاریاں، در حقیقت وائٹ ہاؤس کے حکام کے نمائشی اقدامات کے پس پردہ عقلیت سے جوڑ نہیں کھاتیں۔ ابلاغیاتی اور صحافتی نیز تجزیاتی دنیا کی التہاب آفرینیاں در حقیقت وائٹ ہاؤس کی “پاگل آدمی” والی حکمت عملی کو دنیا کی سماعتوں اور بصارتوں پر مسلط کررہی ہیں اور بطور نتیجہ اختصار کے ساتھ اس سنہری نکتے کو اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تیسری ہزاری (third millenium) کے اس دور میں جغ سیاسیی طرز کی روایتی جنگیں منسوخ ہوچکی ہیں چنانچہ عالمی نظام میں شامل حکومتیں ـ عصر معلومات (information era) میں ـ اپنے تزویری مقاصد کو بھی سیادی جنگ (Cyberwarfare) کے ذریعے اور انسانی، مادی اور نفسیاتی تحفظات کے سانچے میں، حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور پھر جس ملک کی طرف سے جنگ اور جارحیت کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے، اس کے اپنے اندرونی اور بین الاقوامی حالات نیز ماضی قریب میں اس کی کامیابیوں یا ناکامیوں اور اس کو درپیش چیلنجوں کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے؛ اور جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، کوئی بھی عقلی اور منطقی وجہ نہیں ہے کہ امریکہ ـ جو حالیہ تین عشروں کے دوران افغانستان اور مشرق وسطی کے ممالک میں متعدد بلا واسطہ اور بالواسطہ جنگوں میں ناکام ہوچکا ہے اور مسٹر ٹرمپ نے کئی مرتبہ حسرت بھرے الفاظ میں سات ٹریلین ڈالر کے ضیاع اور جنگوں میں ناکامیوں باعث عبرت گردانا ہے ـ کسی وسیع اور بین الاقوامی سطح کی نئی جنگ میں الجھنے کے لئے تیار ہوجائے، وہ بھی ایسی جنگ جس کا انجام بالکل مبہم اور اس کے بعد کے نتائج ناقابل برداشت ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر عبد الرحمن ولایتی
مضمون نگار بین الاقوامی تعلقات کے محقق اور امریکی مسائل کے ماہر ہیں۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://irdiplomacy.ir/fa/news/1981280

 

امریکی سامراجیت اور نظریاتی طبقہ

  • ۳۶۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالات حاضرہ کے تناظر میں اس فورم پر نظریاتی افراد کے حوالے سے شاید یہ میری پہلی تحریر ہو، البتہ مزید پہلوئوں پر آئندہ لکھا جاسکتا ہے یا دیگر احباب بھی اس پر آراء پیش کرسکتے ہیں۔ امریکی سامراجیت پر ماضی میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اسکی تکرار کئے بغیر عرائض پیش خدمت ہیں۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ بائیں بازو کی سیاست کرنے والے نظریاتی اشتراکی دنیا کے ہر شر کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر بحرالکاہل کی تہہ میں کوئی مچھلی بھی مرجائے تو سمجھو سامراج (امریکہ) کا ہاتھ ہے۔ ایک دور تھا کہ دنیا میں نظریاتی سیاست ہوا کرتی تھی، نظریاتی لوگ نظریئے پر تن من دھن قربان کر دیا کرتے تھے اور تب ہر نظریاتی بندہ یہ دعویٰ کیا کرتا تھا کہ وہ جس نظریئے کا پیروکار ہے، بس وہی نظریہ انسانوں کی خوشحالی، خوش بختی و نجات کا ضامن ہے۔ نظریہ پاکستان کے بھی مخلص پیروکار ہوا کرتے تھے تو بین الاسلامی نظریہ بھی اپنے پیروکار رکھا کرتا تھا۔ لیکن آج کی صورتحال نظریات اور نظریاتی افراد کے حوالے سے برعکس ہوچکی ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد ماضی میں پسے ہوئے مظلوم و محروم طبقے کے حقوق کے لئے دیگر خواص کی طرح جدوجہد کرنے والے ایک سینیئر صحافی اور دانشور این جی او سے وابستہ ہوگئے تھے، انکے بارے میں پاکستان کے ایک علمی گھرانے کے فرزند اور پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت سے وابستہ موجودہ سینیٹر کا یہ جملہ بھی مجھے یاد ہے، جو انہوں نے مجھ سے بات چیت کے دوران اشارتاً کہا تھا کہ اب سامراج این جی اوز کے ذریعے عوام کے لئے اٹھنے والی آواز خاموش کر رہا ہے۔ شاید انہی ایام میں بائیں بازو کی طرف رجحان رکھنے والے پاکستان کے مشہور مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے این جی اوز کو موضوع سخن قرار دیا تھا۔
نظریاتی افراد این جی اوز یا مغربی اداروں سے وابستگی کو سامراج کی غلامی قرار دیا کرتے تھے۔ انہی سینیٹر کا ایک اور جملہ بھی بہت یادگار ہے۔ کہنے لگے کہ جب وہ نوجوانی میں لکھنے لگے اور انکی تحریریں شایع ہونے لگیں تو وہ بڑے فخر سے داد وصول کرنے کی نیت سے اپنے والد محترم جو خود بیٹے سے زیادہ مشہور و معتبر دانشور و مذہبی عالم بھی تھے، کے سامنے اپنی تحریروں کا تذکرہ کرنے لگے تو انہوں نے بیٹے کو نصیحت کی کہ بیٹا لکھ بہت لیا، اب کچھ پڑھنا بھی شروع کردو! نظریاتی لوگ یوں ہوا کرتے تھے۔ اشتراکی نظریاتی طبقہ سوویت یونین کے سقوط کے ساتھ ہی یتیم ہوگیا۔ مال ختم نظریہ ہضم! اسلام کے نام پر نظریاتی طبقے ہائی جیک ہوئے، بے وقوف بنے یا اشتراکیوں کی طرح فروخت ہوگئے۔ نام نہاد افغان جہاد اس کی ایک مثال ہے اور پاکستان میں بھی بعض مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اس سلسلے کی زندہ مثالیں ہیں۔ اب ان میں سے کوئی ترکی کو مرکز مانتی ہیں تو کوئی سعودی عرب کو اور پھر نعرہ لگاتی ہیں، امریکہ مردہ باد جبکہ انکے دونوں مراکز کی نظر میں امریکہ و نیٹو و پورا مغربی بلاک حتیٰ کہ اسرائیل بھی زندہ باد ہے۔ یعنی اب ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ سہولیات کے ساتھ وقت گذاری کی کیفیت ہے۔
اگر بڑے پیمانے پر معروضی جائزہ لیں تو دنیا میں خالص نظریاتی طبقہ اب صرف ایران یا لاطینی امریکہ میں ہی پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ نظریات سے وابستگی ہی ان دونوں کا وہ جرم ہو کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ نے اپنی تمام تر توانائیاں انکے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی وضع کر رکھی ہے۔ کتاب ’’اکنامک ہٹ مین‘‘ اور اس کے تسلسل میں دوسری کتاب ’’ہٹ مین کے اعترافات ‘‘میں جون پرکنز نے اپنی جو داستان بیان کی ہے، اگر وہ اپنی روداد نہ بھی لکھتے، تب بھی عالمی مالیاتی سامراج کے سرغنہ امریکہ کو دنیا ویسے ہی کردار کا حامل سمجھتی ہے، جیسا پرکنز نے لکھا۔ جو کوئی اسکی روداد سے آگاہ ہے، وہ آج وینزویلا کا حال دیکھ لے۔ امریکی سامراج کے خلاف مقاومت کی علامت ہیوگو شاویز کا وطن آج ٹرمپ حکومت تقریباً فتح کرچکی ہے۔ ایک امریکی منظور نظر نے اعلان کیا کہ وہ وینزویلا کا صدر ہے تو امریکی حکومت نے دنیا میں سب سے پہلے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ لاطینی امریکی ممالک اپنی تاریخ سے لاعلم نہیں، انہیں معلوم ہے کہ انکے خطے میں سی آئی اے کس طرح حکمران اور حکومتیں تبدیل کرواتی رہی ہے۔ صرف کیوبا اور میکسیکو نے امریکی منظور نظر کے اس اعلان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ شاویز کے جانشین وینزویلا کے صدر ماڈورو نے امریکی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے، جبکہ امریکی حکومت اس حکم کو ماننے سے انکاری ہے۔ یوں خطہ امریکہ میں ایک سنگین بحران جنم لے چکا ہے۔
ایران پر ایک پیچیدہ نوعیت کی امریکی جنگ پچھلے چالیس برسوں سے مسلط ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ امریکی بلاک ایران کے خلاف کوئی نئی سازش نہ کرتا ہو۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے آنے کے بعد کی صورتحال ہی دیکھ لیں۔ ایران کے خلاف مزید نئی کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔ پومپیو نے بیلجیم کا دورہ کیا، اسکے بعد بیلجیم نے ایران کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا۔ پومپیو کے ماتحت ڈیوڈ ہیل نے جرمنی کا دورہ کیا اور جرمنی نے ایران کی ماہان ایئرلائنز پر پابندی لگا دی۔ اب امریکہ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ایران کے خلاف اجتماع منعقد کر رہا ہے، جس پر یورپی اتحادی کہتے ہیں کہ اس کا ایجنڈا تھوڑا تبدیل کر دیں اور شام و یمن و مشرق وسطیٰ کا نام استعمال کریں، ایران کا نام استعمال نہ کریں، حالانکہ یہ بھی ایک فریب ہے، ایران پر یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ امریکہ سے متفق نہیں، حالانکہ تاحال انہوں نے امریکہ سے عملی بغاوت نہیں کی ہے بلکہ خالی بیانات کے میزائل داغے ہیں۔ حتیٰ کہ پریس ٹی وی کی خاتون اینکر مرضیہ ہاشمی کی بلا جواز گرفتاری کے خلاف بھی حقوق انسانی و آزادی صحافت کے علمبردار مغربی بلاک کی طرف سے مجرمانہ خاموشی پر دنیا حیران پریشان تھی۔ خیر سے وہ اب رہا ہوچکی ہیں۔
پومپیو کے دورے کے بعد امریکی حکومتی عہدیداروں اور خاص طور پر زلمے خلیل زاد کا بار بار پاکستان آنا، سینیٹر لنڈسے گراہم کا وزیراعظم عمران خان کی مدح سرائی کرنا، اور عمران خان کا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور قطر کا دورہ کرنا، یہ سب کچھ کس لئے ہو رہا ہے، اس کا اصل سیاق و سباق کوئی خالص نظریاتی پاکستانی ہی سمجھ سکتا ہے۔ سب کچھ امریکی حکومت ہی کی خوشنودی کے لئے ہے۔ باقی سب قصے کہانیاں ہیں۔ امریکیوں کا لارا لپا نظریاتی پاکستانیوں کو اس کی بدنیتی سے غافل نہیں کرسکتا۔ سینیٹر لنڈسے گراہم کو اگر امریکہ کا شیخ رشید کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ یو ٹرن لینا کوئی ان سے سیکھے۔ ماضی میں ڈونالڈ ٹرمپ کے جس موقف کی مخالفت کرتے تھے، آج اسی کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ انکے دورہ پاکستان کی خبر آج اس وقت تک انکے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور انکی آفیشل ویب سائٹ پر موجود نہیں ہے، لیکن پاکستان میں سرکاری ذرایع دعوے کر رہے ہیں کہ لنڈسے نے پاکستان اور امریکہ کے مابین آزاد تجارت کے معاہدے کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے، جبکہ امریکہ میں انہیں موقع پرست (با الفاظ دیگر ابن الوقت) قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے ٹرمپ کو گدھا کہا تھا۔
ڈیوڈ ہیل کے بعد امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے بھی لبنان کا دورہ کیا۔ موصوف پاکستان بھی آئے تھے۔ قطر بھی امریکی اتحادی ہے اور اس کے امیر لبنان میں عرب اقتصادی سربراہی کانفرنس میں شریک ہوکر امداد کا اعلان کرچکے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت بیک وقت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور قطر کے ساتھ تعلقات کو بہتر کر رہی ہے جبکہ قطر اور ترکی اخوانی سرپرست سمجھے جاتے ہیں، جبکہ سعودی و اماراتی حکمران قطر کے خلاف صف آراء ہیں اور ترکی کے خلاف بھی بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ سوائے اسکے کیا قدر مشترک ہے کہ یہ چاروں ملک امریکی اتحادی ہیں اور چونکہ ایران امریکی اتحادی نہیں ہے، اس لئے اس کے دورے کی باری آخر میں ہی آئے گی، حالانکہ زمینی و سمندری و فضائی ہر لحاظ سے ایران کا پڑوسی ہونے کے ناطے پہلا حق ہے۔ ایک پہلو تو یہ ہے جبکہ دوسرا یہ کہ پاکستان تا لبنان بذریعہ قطر و امریکہ بھی کوئی ربط پایا جاتا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش کہ پاکستان سے مخلص نظریاتی افراد بھی اپنی موجودگی کا احساس دلائیں اور سامراجیت کے براہ راست اور بذریعہ بچہ پارٹی منصوبوں سے عوام الناس کو آگاہ کرکے ذمے داری کا احساس دلائیں اور ان منصوبوں کو ناکام بھی بنائیں۔
جعلی ریاست اسرائیل آج کل بیانات کے چوکے چھکے مار کر خوش ہو رہی ہے، وہ اپنی جھینپ مٹا رہی ہے۔ ایران کے خالص و مخلص نظریاتی طبقے نے اپنی چالیس سالہ جدوجہد میں کم از کم چار ملکوں یعنی لبنان، عراق، شام اور یمن کو مغربی بلاک کی سازشوں سے اس درجہ ضرور محفوظ کر دیا ہے کہ وہاں اب فرزندان زمین اپنی غیرت و حمیت کو امریکہ یا اس کی بچہ پارٹی کے قدموں میں رکھنے پر ہرگز تیار نہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ان فرزندان زمین نے حق و آزادی یا موت کا طبل مقاومت بجا رکھا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم اور فوجی ترجمان کبھی امریکہ کے یہودی کالم نگار تھامس فریڈ مین سے ہی پوچھ لیں کہ اسرائیل کے کٹر حامی فریڈ مین کو اسرائیلی حکام نے ایران و حزب اللہ (لبنان) کی فوجی طاقت کے حوالے سے کیا معلومات فراہم کی تھیں۔ یہ تو اسرائیلیوں کو بھی معلوم ہے کہ ایران کی قوت و طاقت کیا ہے، مگر آج کل صہیونی حکومت خود ہی خود کو ڈھارس دے رہی ہے۔ شام پر حملے، شام میں ایرانی فوجی مشاورتی عملے پر حملے، ایران کو نقشے میں دکھانا، نفسیاتی جنگ کا وہ ہنر ہے، جس کو اب شاید داد دینے والے بھی نہ ملیں۔
فلسطین پر قابض جعلی ریاست امریکہ ہی کے آسرے پر ہے، ورنہ اس میں تو اتنا بھی دم خم نہیں کہ حماس و حزب اللہ و حزب جہاد اسلامی کے عام سپاہیوں کے سامنے ٹک بھی سکے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے سمجھنے کے لئے ایک خالص نظریاتی نظر چاہیئے۔ ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم خالص و مخلص نظریاتی طبقے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، وہ عادل مزاج نظریاتی افراد کہ جو حق پر مبنی نظریہ پر پوری زندگی گزار دیتے ہیں، سرنگوں نہیں کرتے، خواہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے۔ یہ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے حقیقی پیروکار ہیں کہ دشمن ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج رکھ دے تب بھی یہ متعہد نظریاتی طبقہ اپنے آقا و مولا کی سنت کی پیروی پر ثابت قدم رہتا ہے۔ لاطینی امریکہ کے نظریاتی طبقے کو بھی ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے، ان کے مابین مکالمے کا نیا دور ہونا چاہیئے، تاکہ امریکہ کو امریکہ کے اطراف سے ہی اس کی سامراجیت کا اور زیادہ موثر جیسے کو تیسا جواب ملے۔ پاکستان، ایران، عراق، شام، یمن، بحرین، فلسطین، لبنان اور وینزویلا سمیت ہر ملک کے انسانوں کو اللہ تعالیٰ امریکہ کے شر سے نجات دے۔

 

دنیا بھر میں درجنوں امریکی اڈے ایسے جن کا نام پتہ نہیں

  • ۳۵۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دنیا میں ۹۵ فیصد بیرونی فوجی اڈے امریکہ کے پاس ہیں۔ جبکہ فرانس، روس اور برطانیہ میں سے ہر ایک کے پاس ۱۰ سے ۲۰ فوجی اڈے ہوں۔ چین کے پاس صرف ایک اڈہ ہے۔
امریکی فوج آخرکار التنف میں اپنے فوجی اڈے کو چھوڑ رہا ہے (ممکن ہے کہ اسے نہ چھوڑے!)۔ شامی حکومت عرصے سے کہہ رہی ہے کہ التنف دہشت گردوں کا تربیتی کیمپ ہے۔ یہ شام کے اندر تک جانے کا راستہ اور عراق اور اردن کی سرحد پر واقع ہے اور روس اسے دہشت گردوں کی نشوونما کا مرکز سمجھتا ہے (اگرچہ اس کا مشترکہ انتظام امریکہ کے ہاتھ میں ہے)۔
گذشتہ سال سینکڑوں میرینز خصوصی کاروائیوں کے لئے یہاں تعینات ہوئے تھے۔ امریکی کہتے ہیں کہ التنف نہ صرف داعش کی شکست کی کنجی ہے بلکہ جنرل جوزف ووٹل (Joseph Votel) کے بقول “ایران اور کئی دوسری نیابتی گروہوں (Proxy Groups) کے خطرناک اقدامات” سے نمٹنے کا اڈہ بھی ہے۔
صدر ٹرمپ نے شام سے انخلاء کا اعلان کیا تو صرف چند ہی گھنٹوں میں ـ پیشگی تیاری کے ساتھ ـ التنف میں موجود فوجی سازوسامان یہاں سے نکالے جانے کے لئے تیار کیا گیا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ شام میں (شاید) امریکہ کا سب سے اہم فوجی اڈہ، پینٹاگون کے فوجی اڈوں کی فہرست سے حذف ہورہا ہے؛ واضح رہے کہ التنف کا نام کبھی بھی پینٹاگون کے دفاتر میں امریکی فوجی کے اڈے کے طور پر درج نہیں ہوا تھا۔ یہ اڈہ سنہ ۲۰۱۵ع‍ میں بنایا گیا، حالیہ مہینوں تک یہاں سینکڑوں امریکی فوجی موجود تھے اور ان بےشمار اڈوں میں سے ایک تھا جو سائے اور روشنی کے بیچ کہیں موجود ہیں؛ ایک تصدیق شدہ بیرون ملکی چوکی، جو ہرگز امریکی بیرونی اڈوں کی باضابطہ فہرست میں درج نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ کی وزارت دفاع کے باضابطہ اڈوں کی تعداد ۴۷۷۵ ہے جو پچاس امریکی ریاستوں، آٹھ امریکی عملداریوں اور ۴۵ بیرونی ممالک میں موجود ہیں۔ وزارت دفاع کی رسمی فہرست کے مطابق ان اڈوں میں سے ۵۱۴ اڈے امریکی سرحدوں سے باہر واقع ہیں۔ اس طویل و عریض فہرست کی ابتدا میں بحر ہند کے جزیرے ڈیگو گارشیا (Diego Garcia)، ا قرن افریقا (Horn od Africa) کے ملک جیبوتی، پیرو (Peru) اور پرتگال (Portugal)، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ کا نام لیا جاسکتا ہے جہاں امریکی اڈے موجود ہیں۔ اڈوں کے ڈھانچے کی رپورٹ (۱) ـ جو سنہ ۲۰۱۸ع‍ ک کی ابتداء میں شائع ہوئی۔ میں التنف کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں شام یا عراق یا افغانستان یا تیونس یا کیمرون یا نائجر یا صومالیہ یا کئی اور مقامات میں سے کسی بھی مقام کا تذکرہ بھی اس رپورٹ میں دکھائی نہیں دے رہا ہے جہاں نہ صرف جانے پہچانے امریکی اڈے موجود ہیں بلکہ ان کی توسیع کا کام بھی جاری ہے۔
کتاب “اڈوں والی قوم: امریکی فوجی اڈے امریکہ اور دنیا کے لئے کس طرح تکلیف دہ ہیں؟ (۲) کے مؤلف ڈیوڈ وائن (David Vine) کے بقول: “ممکن ہے کہ التنف کی طرح کے سینکڑوں فوجی اڈے فہرست سے باہر، موجود ہیں۔ وائن کہتے ہیں کہ “بے نام و نشان اڈے ایسے نظام میں شفافیت کے فقدان کی عکاسی کرتے ہیں جس کے پاس میر تخمینے کے مطابق، ۵۰ امریکی ریاستوں اور واشنگٹن کے باہر ۸۰۰ اڈے ہیں جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد پورے دنیا کو گھیر لیا ہے”۔ وائن “بیرون ملکی اڈوں کی ترتیبِ نو اور بندش اتحاد” (۳) کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔ یہ مختلف اعتقادی گرہوں سے تعلق رکھنے والے عسکری تجزیہ نگاروں کی تنظیم ہے جو امریکیوں کے پاوٴں کے نِشانات (Footprints) میں کی کمی کے خواہاں ہیں۔
ایسی وجہ پائی جاتی ہے کہ اس طرح کے فوجی اڈوں کے نام فہرستوں میں درج نہیں ہوتے۔ کیونکہ پینٹاگون ان کے بارے میں کچھ بولنا نہیں چاہتا۔
پینٹاگون کی ترجمان لیفٹننٹ کرنل مشیل بلدانزا (Michelle Baldanza) نے وزارت دفاع کی پراسرار اور لاتعداد فوجی اڈوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے ٹام ڈسپیچ (TomDispatch) کو بتایا: “میں نے پریس آفیسر اور «اڈوں کے ڈھانچے کی رپورٹ» کی تیاری کے ذمہ دار سے بات چیت کی ہے، ان کے پاس موجودہ معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اور فی الحال کسی بھی ایسا شخص دستیاب نہیں ہے جو اس بارے میں وضاحت دے سکے”۔
وائن وضاحت کرتے ہیں: “غیر مستند اور غیر مندرج اڈے نہ صرف معاشرے کی نگرانی سے محفوظ ہیں بلکہ کانگریس کی نگرانی اور مداخلت سے بھی محفوظ ہیں؛ فوجی اڈے امریکہ کی خارجہ اور عسکری پالیسیوں کا فطری اظہار ہیں۔ چنانچہ غیر مستند (اور خفیہ) اڈوں کا مطلب یہ بنتا ہے کہ انتظامی اور عسکری شعبوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس طرح کی پالیسی کو عمومی سطح پر لائے بغیر نافذ کریں، تسلسل کے ساتھ سینکڑوں میلین یا بلین ڈالر خرچ کریں اور ممکنہ طور پر امریکہ کو ایسی جنگوں اور تنازعات میں ملوث کریں جن کے بارے میں ملک کی بڑی آبادی کچھ بھی نہیں جانتی”۔
*یہ اڈے ہیں کہاں؟
“بیرون ملکی اڈوں کی ترتیبِ نو اور بندش اتحاد” اشارہ کرتا ہے کہ دنیا میں ۹۵ فیصد بیرونی فوجی اڈے امریکہ کے پاس ہیں۔ جبکہ فرانس، روس اور برطانیہ میں سے ہر ایک کے پاس ۱۰ سے ۲۰ فوجی اڈے ہوں۔ چین کے پاس صرف ایک اڈہ ہے۔
وزارت دفاع [پینٹاگون] حتی کہ ڈینگ بھی ہانکتی ہے اور کہتی ہے کہ ان اڈوں کے مقامات دنیا کے ۱۶۴ ممالک میں واقع ہوئے ہیں۔ دوسری طرف سے یہ وزارت خانہ مختلف شکلوں میں، دنیا بھر کے ۸۴ ممالک میں عسکری طور پر موجود ہے؛ یا کم از کم اس وزارت خانے نے یہ دعوی کیا ہے! ان اڈوں کی تعداد کے بارے میں تحقیق کے بعد ـ جن کے نام وزارت دفاع کی نئی ویب گاہ پر درج ہوئے تھے ـ پینٹاگون نے اپنے اعداد و شمار کو فوری طور پر بدل دیا۔ لیفٹننٹ بالدانزا کہتی ہیں: “ہم اس موضوع میں تحقیق و تلاش کے سلسلے میں آپ کی محنت کو سراہتے ہیں۔ آپ کے مشاہدات کی مدد سے ہم نے دفاعی حوالے سے سرکاری اعداد و شمار کی تصحیح کرلی ہے۔ اور حکومت کے اعلان کے مطابق یہ تعداد “۱۶۰ سے زائد” ہے”۔
جو بات وزارت دفاع نہیں بتا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ہاں ایک “مقام” کی تعریف، کیا ہے؟ عدد ۱۶۴ اس نفری کی بہت کمزور سی نشاندہی کرتا ہے جس کو بروئے کار لایا گیا ہے اور صرف ۱۶۶ مقامات پر ۱۶۶ مقامات پر فوجی نفری کے مختلف اندازوں کا پتہ دیتا ہے؛ منجملہ وہ ممالک جہاں پینٹاگون کے مطابق بہت کم امریکی اور دیگر ملکی فوجی نفری موجود ہے؛ جیسے عراق اور شام، جہاں پر موجود امریکی فوجی نفری ـ واضح طور پر ـ اعلان شدہ نفری سے کہیں زیادہ تھی، حتی اگر اس تشخیص کی انجام دہی کے وقت انہیں فہرست میں درج نہ بھی کیا گیا ہو۔ (پینٹاگون نے حال ہی میں دعوی کیا ہے کہ عراق میں ۵۲۰۰ عراقی سپاہی اور شام میں کم از ۲۰۰۰ امریکی سپاہی موجود ہیں، اگرچہ یہ تعداد اس وقت تک [شاید] کافی حد تک کم ہوچکی ہوگی۔)
اس کے باوجود بیرون ملک فوجی نفری کے سلسلے میں وزارت دفاع کے اعداد و شمار میں وہ فوجی بھی شامل ہیں جو امریکی عملداریوں ـــ امریکی ساموآ جزائر (Samoa Islands)، پورٹو ریکو (Puerto Rico)، امریکی ورجن جزائر (United States Virgin Islands)، جزیرہ ویک (Wake Island) ـــ میں تعینات ہیں۔  پینٹاگون کے کہنے کے مطابق درجنوں امریکی فوجی ایکروتیری (Akrotiri) نامی ملک میں (۴) میں تعینات ہیں اور ہزاروں امریکی سپاہی دوسرے بےنام و نشان مقامات پر تعینات ہیں۔
تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ان نامعلوم سپاہیوں کی تعداد ۴۴ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
“بیرون ملکی اڈوں کی ترتیبِ نو اور بندش اتحاد” کے کہنے کے مطابق، بیرون ملک تعینات امریکی فوجیوں نیز بیرونی اڈوں کے تحفظ کے مجموعی سالانہ اخراجات ۱۵۰ ارب ڈالر تک پہنچتے ہیں۔ صرف اڈوں کی نگہداشت پر خرچ ہونے والی رقم اس رقم کا ایک تہائی حصہ ہے۔ وائن کا کہنا ہے کہ “بیرون ملک امریکی اڈوں کی تعمیر و نگہداشت پر سالانہ ۵۰ ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوتی ہے جبکہ اس عظیم رقم کو ملک کے اندر کی بنیادی ضروریات ـ تعلیم و تربیت، صحت و حفظان صحت، رہائش اور ڈھانچوں کی تعمیر نو ـ پر خرچ کیا جاسکتا ہے”۔
شاید آپ کو یہ جان کر حیرت نہ ہوگی کہ “امریکی حکومت اپنے سپاہیوں کی تعیناتی کے مقامات کو خفیہ کیوں رکھتی ہے؟”۔ بطور مثال امریکی وزارت خارجہ کی نئی ویب گاہ کی رپورٹ کے مطابق، پوری دنیا میں امریکی دفاعی اڈوں کی تعداد ۴۸۰۰ سے زائد [۴,۸۰۰+ defense sites] مندرج تھی۔ لیکن اس عدد کے بارے میں اور رسمی عدد “۴۷۷۵” کے ساتھ اس کے رابطے کی کیفیت کے سلسلے میں ٹام ڈسپیچ کی تحقیقات کے بعد، اس ویب گاہ نے عدد میں اصلاح کرکے اس کو “تقریبا ۴۸۰۰ دفاعی اڈے”  (approximately 4,800 Defense Sites)کردیا۔
لیفٹننٹ کرنل بالدانزا لکھتی ہیں: “میں شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے اس ابہام کی طرف اشارہ کیا۔ چونکہ ہم اس نئی ویب گاہ کی طرف منتقلی کے مرحلے میں ہیں، ہماری کوشش ہے کہ جدید ترین معلومات کی فراہمی کو بھی جلد از جلد یقینی بنائیں۔ مہربانی کرکے تازہ ترین اعداد و شمار کے بارے میں معلومات وصول کرنے کے لئے “اڈوں کے ڈھانچے کی رپورٹ” سے رجوع کریں”۔
بےنام و نشان امریکی فوجی اڈے
افریقہ واحد علاقہ نہیں ہے جہاں کے حقائق پینٹاگون کی رسمی فہرستوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اڈوں کے ڈھانچے کی رپورٹ نے تقریبا دو دہائیوں سے افریقہ کے کسی بھی فعال جنگی علاقے میں امریکی اڈوں کی طرف اشارہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ بطور مثال عراق کے قبضے کے عروج کے دنوں میں افریقہ میں امریکہ کے ۵۰۵ فوجی اڈے تھے جن میں چھوٹی چوکیاں بھی شامل تھیں اور عظیم تنصیبات پر مشتمل بڑے فوجی اڈے بھی۔ لیکن پینٹاگون کی سرکاری رپورٹوں میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
افغانستان میں یہ تعداد اس سے کہیں بڑھ کر تھی۔ “سلامتی کی بین الاقوامی معاون فورس” (ISAF) (5) کے پاس افغانستان میں تقریبا ۵۵۰ اڈے تھے اور اگر ایساف کے چیک پوسٹوں اور ناکوں کو بھی اس میں اضافہ کیا جائے تو عظیم اڈے، اگلے عملیاتی مورچوں، جنگی چوکیوں، گشتی اڈوں وغیرہ کی مجموعی تعداد ۷۵۰ تک پہنچی ہے۔
صدر ٹرمپ کی ہدایت پر شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا مطلب یہ ہوگا کہ اڈوں کے ڈھانچے کی ۲۰۱۹ع‍ والی رپورٹ ـ شاید ـ سابقہ چند سالوں کے دوران شائع ہونے والی رپورٹوں میں سب سے زیادہ صحیح رپورٹ ہوگی، کیونکہ سنہ ۲۰۱۵ع‍ سے لے کر اب تک، پینٹاگون کے فوجی اڈوں کی فہرست میں اگر غیر مندرج التنف فوجی اڈے کا نام نہ بھی آئے تو یہ رپورٹ درست ہوگی۔ (البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ پھر بھی ایسا ہی ہو اور یہ غیر رسمی اڈہ پھر بھی غیر مندرج اڈوں میں شمار ہو یعنی ممکن ہے کہ امریکیوں نے یہ اڈا پھر بھی خالی نہ کیا ہو۔) لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نئی رپورٹ سے بھی سینکڑوں غیر رسمی اڈے غائب ہونگے جن کا نہ تو کوئی نام ہے نہ ہی کوئی پتہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: نک ٹرس (Nick Turse) تحقیقاتی صحافی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ base structure report 2018
۲۔ Base Nation: How U.S. Military Bases Abroad Harm America and the World

۴۔ Overseas Base Realignment and Closure Coalition
۴۔ آکروتیری در حقیقت یونان کے جزیرہ سانتورینی (Santorini) میں واقع ایک گاؤں ہے۔
۵۔ International Security Assistance Force [ISAF]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارسی ماخذ: http://fna.ir/brbfk1
انگریزی ماخذ: yon.ir/Rr0c2

 

بن سلمان کا ٹرمپ کے بغیر کوئی مستقبل نہیں!

  • ۴۹۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ محمد بن سلمان ، سعودی عرب کے نوجوان شہزادے کے لیے کیا ممکن ہے کہ وہ اتنی آسانی سے زمام حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے سکیں جبکہ آل سعود میں ان سے بڑے بڑے تجربہ کار اور سیاستدان موجود ہیں۔ بن سلمان کا حکومت پر قبضہ کر لینا اور ملک کے اندر یا باہر سے بالکل کسی اختلافی آواز کا نہ اٹھنا کیا تعجب کی بات نہیں ہے؟ اس کے پیچھے راز کیا ہے؟ اس سوال کا جواب بہت آسان اور مختصر ہے اور وہ یہ کہ صرف ٹرمپ کی وجہ سے ہے۔
اگر یہ ڈونلڈ ٹرمپ ، ریاستہائے متحدہ کے صدر نہ ہوتے تو کبھی بھی بن سلمان اپنے خواب پورے نہ کر سکتے اور کسی بھی صورت میں مافیا گینگ کے سرغنہ نہ بن پاتے۔
سعودی ولی عہد بن سلمان، ٹرمپ کو ایک ایسی سیڑھی کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے ذریعے وہ آسانی سے اقتدار کی کرسی پر قدم رکھ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ ٹرمپ کے دو عظیم اہداف کو عملی جامہ پہنائیں: پہلا ، امریکی معیشت میں بے انتہا ڈالروں کو انڈھیلنا اور دوسرا ، مسئلہ فلسطین پر خط بطلان کھینچنا۔ بن سلمان نے مسٹر ٹرمپ کی ان شرطوں کو پورا کرنے اور خود اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کی غرض سے سعودی عرب کا خزانہ خالی کر دیا ہے اور سیکڑوں ارب ڈالر ٹرمپ کی جیب میں بھر دئے ہیں۔
ٹرمپ کی یہ حیرت انگیز حمایت ، یہاں تک کہ وہ خاشقچی کے قتل میں بن سلمان کے ملوث ہونے سے متعلق امریکی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں، نے اس نوجوان شہزادے کو اس قدر جری کر دیا ہے کہ وہ سعد الجبری کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنے جا رہے تھے جو خاشقچی کے ساتھ کیا۔ بن سلمان کی دھمکی اس بات کا باعث بنی کہ الجبری کینیڈا فرار کر جائیں اور وہ وہاں امریکی فیڈرل کورٹ میں بن سلمان کے خلاف مقدمہ دائر کریں۔ جس کے نتیجے میں دو روز قبل بن سلمان اور ان کے ۱۳ ساتھیوں کو عدالت میں طلب کیا گیا۔
برطانوی مصنف اور صحافی ڈیوڈ ہرسٹ نے میڈل ایسٹ آئی ویب سائٹ پر لکھے گئے ایک مضمون میں سعد الجبری کے خطرات کو خاشقچی سے کہیں زیادہ خطرناک قرار دیا اور زور دیا کہ وہ بن سلمان کی بادشاہی کے لئے سب سے بڑا غیر ملکی چیلنج ہے ۔
برطانوی مصنف نے سعد الجبری کے لئے امریکی محکمہ خارجہ کی حمایت کی نشاندہی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ معاملہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ مہینوں سے متعلق ہوسکتا ہے، خاص طور سے چونکہ ٹرمپ کے ممکنہ جانشین ’جو بائیڈن‘ نے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں پہلے تو سعودی عرب کو اسلحہ بیچنا بند کرنا ہے اور دوسرے خاشقچی قتل کیس میں ملوث افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنا ہے۔  لہذا اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے چلے جاتے ہیں تو ، سی آئی اے اور امریکی محکمہ خارجہ کی پالیسی میں اہم تبدیلی سامنے آئی گی جس کے بعد محمد بن سلمان کے لئے مشکل حالات پیدا ہوں گے، چاہے وہ اس وقت تک خود کو سعودی عرب کے بادشاہ کے طور پر ہی کیوں نہ پیش کر دیں۔ سعودی بادشاہ کو بہر صورت علاقے میں خود کو بچانے کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے چونکہ چین اور روس کی حمایت حاصل کرنا سعودی عرب کے لیے آسان نہیں ہے۔ اور اگر ٹرمپ وہائٹ ہاؤس سے رخصت ہوئے تو اپنے ساتھ بہت ساروں کو رخصت کر دیں گے جن میں ایک بن سلمان بھی ہیں۔