خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دنیا میں ۹۵ فیصد بیرونی فوجی اڈے امریکہ کے پاس ہیں۔ جبکہ فرانس، روس اور برطانیہ میں سے ہر ایک کے پاس ۱۰ سے ۲۰ فوجی اڈے ہوں۔ چین کے پاس صرف ایک اڈہ ہے۔
امریکی فوج آخرکار التنف میں اپنے فوجی اڈے کو چھوڑ رہا ہے (ممکن ہے کہ اسے نہ چھوڑے!)۔ شامی حکومت عرصے سے کہہ رہی ہے کہ التنف دہشت گردوں کا تربیتی کیمپ ہے۔ یہ شام کے اندر تک جانے کا راستہ اور عراق اور اردن کی سرحد پر واقع ہے اور روس اسے دہشت گردوں کی نشوونما کا مرکز سمجھتا ہے (اگرچہ اس کا مشترکہ انتظام امریکہ کے ہاتھ میں ہے)۔
گذشتہ سال سینکڑوں میرینز خصوصی کاروائیوں کے لئے یہاں تعینات ہوئے تھے۔ امریکی کہتے ہیں کہ التنف نہ صرف داعش کی شکست کی کنجی ہے بلکہ جنرل جوزف ووٹل (Joseph Votel) کے بقول “ایران اور کئی دوسری نیابتی گروہوں (Proxy Groups) کے خطرناک اقدامات” سے نمٹنے کا اڈہ بھی ہے۔
صدر ٹرمپ نے شام سے انخلاء کا اعلان کیا تو صرف چند ہی گھنٹوں میں ـ پیشگی تیاری کے ساتھ ـ التنف میں موجود فوجی سازوسامان یہاں سے نکالے جانے کے لئے تیار کیا گیا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ شام میں (شاید) امریکہ کا سب سے اہم فوجی اڈہ، پینٹاگون کے فوجی اڈوں کی فہرست سے حذف ہورہا ہے؛ واضح رہے کہ التنف کا نام کبھی بھی پینٹاگون کے دفاتر میں امریکی فوجی کے اڈے کے طور پر درج نہیں ہوا تھا۔ یہ اڈہ سنہ ۲۰۱۵ع میں بنایا گیا، حالیہ مہینوں تک یہاں سینکڑوں امریکی فوجی موجود تھے اور ان بےشمار اڈوں میں سے ایک تھا جو سائے اور روشنی کے بیچ کہیں موجود ہیں؛ ایک تصدیق شدہ بیرون ملکی چوکی، جو ہرگز امریکی بیرونی اڈوں کی باضابطہ فہرست میں درج نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ کی وزارت دفاع کے باضابطہ اڈوں کی تعداد ۴۷۷۵ ہے جو پچاس امریکی ریاستوں، آٹھ امریکی عملداریوں اور ۴۵ بیرونی ممالک میں موجود ہیں۔ وزارت دفاع کی رسمی فہرست کے مطابق ان اڈوں میں سے ۵۱۴ اڈے امریکی سرحدوں سے باہر واقع ہیں۔ اس طویل و عریض فہرست کی ابتدا میں بحر ہند کے جزیرے ڈیگو گارشیا (Diego Garcia)، ا قرن افریقا (Horn od Africa) کے ملک جیبوتی، پیرو (Peru) اور پرتگال (Portugal)، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ کا نام لیا جاسکتا ہے جہاں امریکی اڈے موجود ہیں۔ اڈوں کے ڈھانچے کی رپورٹ (۱) ـ جو سنہ ۲۰۱۸ع ک کی ابتداء میں شائع ہوئی۔ میں التنف کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں شام یا عراق یا افغانستان یا تیونس یا کیمرون یا نائجر یا صومالیہ یا کئی اور مقامات میں سے کسی بھی مقام کا تذکرہ بھی اس رپورٹ میں دکھائی نہیں دے رہا ہے جہاں نہ صرف جانے پہچانے امریکی اڈے موجود ہیں بلکہ ان کی توسیع کا کام بھی جاری ہے۔
کتاب “اڈوں والی قوم: امریکی فوجی اڈے امریکہ اور دنیا کے لئے کس طرح تکلیف دہ ہیں؟ (۲) کے مؤلف ڈیوڈ وائن (David Vine) کے بقول: “ممکن ہے کہ التنف کی طرح کے سینکڑوں فوجی اڈے فہرست سے باہر، موجود ہیں۔ وائن کہتے ہیں کہ “بے نام و نشان اڈے ایسے نظام میں شفافیت کے فقدان کی عکاسی کرتے ہیں جس کے پاس میر تخمینے کے مطابق، ۵۰ امریکی ریاستوں اور واشنگٹن کے باہر ۸۰۰ اڈے ہیں جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد پورے دنیا کو گھیر لیا ہے”۔ وائن “بیرون ملکی اڈوں کی ترتیبِ نو اور بندش اتحاد” (۳) کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔ یہ مختلف اعتقادی گرہوں سے تعلق رکھنے والے عسکری تجزیہ نگاروں کی تنظیم ہے جو امریکیوں کے پاوٴں کے نِشانات (Footprints) میں کی کمی کے خواہاں ہیں۔
ایسی وجہ پائی جاتی ہے کہ اس طرح کے فوجی اڈوں کے نام فہرستوں میں درج نہیں ہوتے۔ کیونکہ پینٹاگون ان کے بارے میں کچھ بولنا نہیں چاہتا۔
پینٹاگون کی ترجمان لیفٹننٹ کرنل مشیل بلدانزا (Michelle Baldanza) نے وزارت دفاع کی پراسرار اور لاتعداد فوجی اڈوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے ٹام ڈسپیچ (TomDispatch) کو بتایا: “میں نے پریس آفیسر اور «اڈوں کے ڈھانچے کی رپورٹ» کی تیاری کے ذمہ دار سے بات چیت کی ہے، ان کے پاس موجودہ معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اور فی الحال کسی بھی ایسا شخص دستیاب نہیں ہے جو اس بارے میں وضاحت دے سکے”۔
وائن وضاحت کرتے ہیں: “غیر مستند اور غیر مندرج اڈے نہ صرف معاشرے کی نگرانی سے محفوظ ہیں بلکہ کانگریس کی نگرانی اور مداخلت سے بھی محفوظ ہیں؛ فوجی اڈے امریکہ کی خارجہ اور عسکری پالیسیوں کا فطری اظہار ہیں۔ چنانچہ غیر مستند (اور خفیہ) اڈوں کا مطلب یہ بنتا ہے کہ انتظامی اور عسکری شعبوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس طرح کی پالیسی کو عمومی سطح پر لائے بغیر نافذ کریں، تسلسل کے ساتھ سینکڑوں میلین یا بلین ڈالر خرچ کریں اور ممکنہ طور پر امریکہ کو ایسی جنگوں اور تنازعات میں ملوث کریں جن کے بارے میں ملک کی بڑی آبادی کچھ بھی نہیں جانتی”۔
*یہ اڈے ہیں کہاں؟
“بیرون ملکی اڈوں کی ترتیبِ نو اور بندش اتحاد” اشارہ کرتا ہے کہ دنیا میں ۹۵ فیصد بیرونی فوجی اڈے امریکہ کے پاس ہیں۔ جبکہ فرانس، روس اور برطانیہ میں سے ہر ایک کے پاس ۱۰ سے ۲۰ فوجی اڈے ہوں۔ چین کے پاس صرف ایک اڈہ ہے۔
وزارت دفاع [پینٹاگون] حتی کہ ڈینگ بھی ہانکتی ہے اور کہتی ہے کہ ان اڈوں کے مقامات دنیا کے ۱۶۴ ممالک میں واقع ہوئے ہیں۔ دوسری طرف سے یہ وزارت خانہ مختلف شکلوں میں، دنیا بھر کے ۸۴ ممالک میں عسکری طور پر موجود ہے؛ یا کم از کم اس وزارت خانے نے یہ دعوی کیا ہے! ان اڈوں کی تعداد کے بارے میں تحقیق کے بعد ـ جن کے نام وزارت دفاع کی نئی ویب گاہ پر درج ہوئے تھے ـ پینٹاگون نے اپنے اعداد و شمار کو فوری طور پر بدل دیا۔ لیفٹننٹ بالدانزا کہتی ہیں: “ہم اس موضوع میں تحقیق و تلاش کے سلسلے میں آپ کی محنت کو سراہتے ہیں۔ آپ کے مشاہدات کی مدد سے ہم نے دفاعی حوالے سے سرکاری اعداد و شمار کی تصحیح کرلی ہے۔ اور حکومت کے اعلان کے مطابق یہ تعداد “۱۶۰ سے زائد” ہے”۔
جو بات وزارت دفاع نہیں بتا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ہاں ایک “مقام” کی تعریف، کیا ہے؟ عدد ۱۶۴ اس نفری کی بہت کمزور سی نشاندہی کرتا ہے جس کو بروئے کار لایا گیا ہے اور صرف ۱۶۶ مقامات پر ۱۶۶ مقامات پر فوجی نفری کے مختلف اندازوں کا پتہ دیتا ہے؛ منجملہ وہ ممالک جہاں پینٹاگون کے مطابق بہت کم امریکی اور دیگر ملکی فوجی نفری موجود ہے؛ جیسے عراق اور شام، جہاں پر موجود امریکی فوجی نفری ـ واضح طور پر ـ اعلان شدہ نفری سے کہیں زیادہ تھی، حتی اگر اس تشخیص کی انجام دہی کے وقت انہیں فہرست میں درج نہ بھی کیا گیا ہو۔ (پینٹاگون نے حال ہی میں دعوی کیا ہے کہ عراق میں ۵۲۰۰ عراقی سپاہی اور شام میں کم از ۲۰۰۰ امریکی سپاہی موجود ہیں، اگرچہ یہ تعداد اس وقت تک [شاید] کافی حد تک کم ہوچکی ہوگی۔)
اس کے باوجود بیرون ملک فوجی نفری کے سلسلے میں وزارت دفاع کے اعداد و شمار میں وہ فوجی بھی شامل ہیں جو امریکی عملداریوں ـــ امریکی ساموآ جزائر (Samoa Islands)، پورٹو ریکو (Puerto Rico)، امریکی ورجن جزائر (United States Virgin Islands)، جزیرہ ویک (Wake Island) ـــ میں تعینات ہیں۔ پینٹاگون کے کہنے کے مطابق درجنوں امریکی فوجی ایکروتیری (Akrotiri) نامی ملک میں (۴) میں تعینات ہیں اور ہزاروں امریکی سپاہی دوسرے بےنام و نشان مقامات پر تعینات ہیں۔
تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ان نامعلوم سپاہیوں کی تعداد ۴۴ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
“بیرون ملکی اڈوں کی ترتیبِ نو اور بندش اتحاد” کے کہنے کے مطابق، بیرون ملک تعینات امریکی فوجیوں نیز بیرونی اڈوں کے تحفظ کے مجموعی سالانہ اخراجات ۱۵۰ ارب ڈالر تک پہنچتے ہیں۔ صرف اڈوں کی نگہداشت پر خرچ ہونے والی رقم اس رقم کا ایک تہائی حصہ ہے۔ وائن کا کہنا ہے کہ “بیرون ملک امریکی اڈوں کی تعمیر و نگہداشت پر سالانہ ۵۰ ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوتی ہے جبکہ اس عظیم رقم کو ملک کے اندر کی بنیادی ضروریات ـ تعلیم و تربیت، صحت و حفظان صحت، رہائش اور ڈھانچوں کی تعمیر نو ـ پر خرچ کیا جاسکتا ہے”۔
شاید آپ کو یہ جان کر حیرت نہ ہوگی کہ “امریکی حکومت اپنے سپاہیوں کی تعیناتی کے مقامات کو خفیہ کیوں رکھتی ہے؟”۔ بطور مثال امریکی وزارت خارجہ کی نئی ویب گاہ کی رپورٹ کے مطابق، پوری دنیا میں امریکی دفاعی اڈوں کی تعداد ۴۸۰۰ سے زائد [۴,۸۰۰+ defense sites] مندرج تھی۔ لیکن اس عدد کے بارے میں اور رسمی عدد “۴۷۷۵” کے ساتھ اس کے رابطے کی کیفیت کے سلسلے میں ٹام ڈسپیچ کی تحقیقات کے بعد، اس ویب گاہ نے عدد میں اصلاح کرکے اس کو “تقریبا ۴۸۰۰ دفاعی اڈے” (approximately 4,800 Defense Sites)کردیا۔
لیفٹننٹ کرنل بالدانزا لکھتی ہیں: “میں شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے اس ابہام کی طرف اشارہ کیا۔ چونکہ ہم اس نئی ویب گاہ کی طرف منتقلی کے مرحلے میں ہیں، ہماری کوشش ہے کہ جدید ترین معلومات کی فراہمی کو بھی جلد از جلد یقینی بنائیں۔ مہربانی کرکے تازہ ترین اعداد و شمار کے بارے میں معلومات وصول کرنے کے لئے “اڈوں کے ڈھانچے کی رپورٹ” سے رجوع کریں”۔
بےنام و نشان امریکی فوجی اڈے
افریقہ واحد علاقہ نہیں ہے جہاں کے حقائق پینٹاگون کی رسمی فہرستوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اڈوں کے ڈھانچے کی رپورٹ نے تقریبا دو دہائیوں سے افریقہ کے کسی بھی فعال جنگی علاقے میں امریکی اڈوں کی طرف اشارہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ بطور مثال عراق کے قبضے کے عروج کے دنوں میں افریقہ میں امریکہ کے ۵۰۵ فوجی اڈے تھے جن میں چھوٹی چوکیاں بھی شامل تھیں اور عظیم تنصیبات پر مشتمل بڑے فوجی اڈے بھی۔ لیکن پینٹاگون کی سرکاری رپورٹوں میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
افغانستان میں یہ تعداد اس سے کہیں بڑھ کر تھی۔ “سلامتی کی بین الاقوامی معاون فورس” (ISAF) (5) کے پاس افغانستان میں تقریبا ۵۵۰ اڈے تھے اور اگر ایساف کے چیک پوسٹوں اور ناکوں کو بھی اس میں اضافہ کیا جائے تو عظیم اڈے، اگلے عملیاتی مورچوں، جنگی چوکیوں، گشتی اڈوں وغیرہ کی مجموعی تعداد ۷۵۰ تک پہنچی ہے۔
صدر ٹرمپ کی ہدایت پر شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا مطلب یہ ہوگا کہ اڈوں کے ڈھانچے کی ۲۰۱۹ع والی رپورٹ ـ شاید ـ سابقہ چند سالوں کے دوران شائع ہونے والی رپورٹوں میں سب سے زیادہ صحیح رپورٹ ہوگی، کیونکہ سنہ ۲۰۱۵ع سے لے کر اب تک، پینٹاگون کے فوجی اڈوں کی فہرست میں اگر غیر مندرج التنف فوجی اڈے کا نام نہ بھی آئے تو یہ رپورٹ درست ہوگی۔ (البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ پھر بھی ایسا ہی ہو اور یہ غیر رسمی اڈہ پھر بھی غیر مندرج اڈوں میں شمار ہو یعنی ممکن ہے کہ امریکیوں نے یہ اڈا پھر بھی خالی نہ کیا ہو۔) لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نئی رپورٹ سے بھی سینکڑوں غیر رسمی اڈے غائب ہونگے جن کا نہ تو کوئی نام ہے نہ ہی کوئی پتہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: نک ٹرس (Nick Turse) تحقیقاتی صحافی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ base structure report 2018
۲۔ Base Nation: How U.S. Military Bases Abroad Harm America and the World
۴۔ Overseas Base Realignment and Closure Coalition
۴۔ آکروتیری در حقیقت یونان کے جزیرہ سانتورینی (Santorini) میں واقع ایک گاؤں ہے۔
۵۔ International Security Assistance Force [ISAF]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارسی ماخذ: http://fna.ir/brbfk1
انگریزی ماخذ: yon.ir/Rr0c2