امریکہ کو طاقت کے دائرے سے کس نے نکال باہر کیا؟

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سنہ ۱۹۷۹ع‍ میں، ایران میں ایک دینی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا تو بہت سوں نے پیش گوئی کی کہ دنیا میں بڑی تبدیلیوں کی آمد ہے اور دنیا کے بہت سے ہوشمند نے کہا کہ زمانہ ـ مزید ـ پرانے ڈگر پر نہیں چلے گا۔ اسلامی انقلاب ایسے ملک میں رونما ہوا تھا جس کو مغرب کی اصطلاح میں تیسری دنیا کا ملک کہا جاتا تھا اور یہ ملک ایک وابستہ ملک تھا اور مغربی و مشرقی طاقتوں کے پاس دنیا پر مسلط تھیں جن کے پاس “ناخواستہ واقعات” کا سد باب کرکے محو و نابود کرنے کا بھرپور تجرجہ رکھتی تھیں؛ جنہوں نے اپنی پوری طاقت فوری طور پر میدان میں پہنچا دی مگر انہیں راستے کے کٹھن ہونے کا بھی اندیشہ تھا اور “ایران کی عظیم دینی روداد” کے نتائج سے بھی خائف تھیں۔
ہیملٹن جارڈن (۱) نے اپنی کتاب “بحران: کارٹر کی صدارت کا آخری سال” (۲)، میں صدر جمی کارٹر (۳) کے حوالے سے لکھا ہے کہ “ہمیں ایک عظیم سردرد کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور ہمارے پاس اسے روکنے کے لئے کافی وسائل نہیں ہیں”۔ تہران میں سفارتخانے کے نام پر امریکی جاسوسی کے گھونسلے میں تعینات جاسوسوں کو یرغمال بنایا گیا تو جمی کارٹر کو جب امام خمینی (قدس سرہ) کے نام ایک خط لکھنا پڑا اور اپنے نقادوں کے ایک وفد کو ایک انجیل اور ایک کیک دے کر تہران روانہ کرنا پڑا تو اسلامی انقلاب کے رہبر نے وفد اور اس کے لائے ہوئے تحائف کو مسترد کردیا، تو سب لوگ بھانپ گئے کہ حالات بالکل نئے ہیں جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب کو ایران کے اندر بھی زبردست قومی بنیادیں فراہم تھیں اور اس کے قومی اہداف و مقاصد بھی عظیم تھے، چنانچہ یہ ایک انتہائی طاقتور انقلاب تھا اور “عدل و انصاف” اور “آزادی” اس کے دو اہم بنیادی عناصر تھے لیکن اسی اثناء میں یہ ایک “عالمی انقلاب” سمجھا جاتا تھا اور امریکہ اور دوسری طاقتوں کا مسئلہ بھی اسی موضوع سے جنم لیتا تھا۔ یہ انقلاب نہ صرف “غیر وابستہ تحریک” (۴) کی تشکیل میں بروئے کار آنے والی فکر کی مانند، سلامتی کے شعبے میں بلاکوں اور طاقتوں کی پیروی کی نفی کررہا تھا بلکہ عالمی “تخمینوں [اندازوں] اور تعلقات” کی تبدیلی کے لئے میدان میں آیا تھا؛ امریکیوں کی مشکل کا آغاز اسی نقطے سے ہوا۔
امریکہ کے لئے کسی بھی قومی ـ اور اصطلاحا “غیر وابستہ” ـ انقلاب کو لگام دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا؛ اس نے سنہ ۱۹۷۳ع‍ میں چلی (۵) کے غیر وابستہ قومی انقلاب کو تین سال کے بعد، گرا دیا اور اس کے پاس اس طرح کے درجنوں تجربات اور بھی تھے: مصر میں جمال عبدالناصر، سابق یوگوسلاویہ میں مارشل ٹیٹو (۶)، بھارت میں نہرو اور انڈونیشیا میں سوئیکارنو کی کو لگام دینا اس کے لئے بہت آسان تھا جیسا کہ وہ جمال عبدالناصر، نہرو اور سوئیکارنو کی جگہ اپنی پسند کے لوگوں کو عشروں تک برسر اقتدار رکھ چکا تھا لیکن اس کو یہاں ایک ایسے انقلاب کا سامنا تھا جس کا نعرہ اور مدعا ہی کچھ اور تھا۔ یہ انقلاب پوری دنیا کو اپنے ساتھ ملا رہا تھا اور اس کا سامنا کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔
اس انقلاب نے “اسلام کا پرچم”، “امریکہ اور یہودی ریاست کا مقابلہ کرنے کا پرچم” اور “اغنیاء پر فقراء کے غلبے” کا پرچم اٹھا کر، ان کروڑوں انسانوں کی توجہ بہت تیزی کے ساتھ اپنی جانب مبذول کروائی جو کسی وقت قوم پرستانہ، اشتراکی اور لبرل تحریکوں سے وابستہ ہونے کے بعد ناامید ہوکر پلٹ آئے تھے اور اپنے آغاز ہی سے اُس وقت کی سب سے بڑی طاقت یعنی امریکہ کو چیلنجوں سے دوچار کردیا تھا۔
آج امریکی طاقت کے انحطاط و زوال اور اس کی بڑی طاقت ہونے کے دور کے اختتام کی باتیں ہورہی ہیں، لیکن جو لوگ تیزبین تھے، وہ ایران میں اسلامی انقلاب کے کامیاب ہوتے ہی اس کو ـ بطور بڑی طاقت” ـ امریکہ کے دورِ زوال کا آغاز قرار دیا تھا۔ پال کینیڈی (۷) نے سنہ ۱۹۸۷ع‍ میں شائع ہونے والی اپنی کتاب “بڑی طاقتوں کا عروج و زوال” (۸) میں لکھا ہے: “امریکہ متناسب زوال کے دور میں داخل ہوچکا ہے اور لمبی مدت میں، مکمل زوال سے دوچار ہوجائے گا”۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ ـ بحیثیت بڑی طاقت اور کوئی بھی دوسری طاقت ـ چار ستونوں پر قائم ہے: پہلا ستون اخلاقی ہے جو دوسری طاقتوں کو قائل کرکے اور ساتھ ملا کر قائم کیا جاتا ہے؛ دوسرا ستون ان بڑے بڑے “مسائل کا حل” ہے جو رونما ہوا کرتے ہیں؛ تیسرا ستون کامیابی تک پہنچنے کے لئے اتحاد سازی اور دوسروں کی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہے اور چوتھا ستون رقیب طاقت کا سد باب کرنا۔ یہ چاروں عناصر البتہ ایک دوسرے سے متصل اور جڑے ہوئے ہیں۔
امریکہ کی اخلاقی طاقت ـ یعنی دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیت ـ کے بارے میں کہنا چاہئے کہ امریکیوں نے اخلاقی طاقت کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے سنہ ۱۹۴۸ع‍ میں اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی اور اس کا مرکزی دفتر اپنی سرزمین پر قرار دیا اور پوری مہارت اور چالاکی سے ایسے درجنوں قرادادیں منظور کروائی ہیں اور معاہدے کروائے ہیں اور دوسرے ممالک سے دستخط لے کر ان کنونشنوں، معاہدوں اور قراردادوں کو نہیں بلکہ امریکی اقدار کو بھی “عالمگیر” بنایا [اور Globalize کروایا] ہے۔ لیکن اسلامی انقلاب نے ایک زبردست اور طاقتور منطق پیدا کرکے دین کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ کی حکمرانی اور سیاست کے فلسفے اور ایک بڑی طاقت کی اخلاقی اداکاریوں کو زائل کردیا۔
اسلامی انقلاب نے فلسطین کو امریکہ کے عالمگیر شدہ ظالمانہ اور غیر انسانی قواعد اور رویوں کی علامت بنا دیا اور یہ امریکی طاقت کے اخلاقی عنصر کے زوال کی مثال تھی۔ ادھر انقلاب اسلامی ـ بذات خود، اس انقلاب کی وقوع پذیری، یرغمالوں کے مسئلے کے حل میں امریکہ کی بےبسی اور ایران میں مقیم امریکی کارندوں کی قید کی طوالت نے، امریکہ کے فیصلہ کن کردار ـ یعنی ایک بڑی طاقت کے دوسرے عنصر ـ کو چیلنج کردیا اور یہ اور یہ امریکہ کے زیر تسلط علاقے ـ یعنی مغربی ایشیا ـ میں معرض وجود میں آنے والے رجحانات اور ان کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات کا آغاز تھا جنہیں امریکہ حل نہیں کرسکا اور اپنے مشتہرہ نمونہ ہائے عمل کے نفاذ سے عاجز ہوا۔ و نافذ نہیں کرسکا۔ گیلپ (۹) سروے کے مطابق ـ جو کہ ۱۳۴ ممالک کے باشندوں کی آراء کا مجموعہ ہے ـ دنیا کی آبادی میں سے صرف ۳۰ فیصد کا خیال ہے کہ امریکہ دنیا کے حالات اور تبدیلیوں کے انتظام و انصرام میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
لیکن یہ مسئلہ ـ کہ امریکہ یک رخی پالیسیوں کے حوالے سے مشہور ہوا ـ کسی بھی موضوع کے حل کے لئے “اتحاد” کا سہارا لے لیتا تھا ـ بجائے خود اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ امریکہ تمام رجحانات اور واقعات میں ایک ناکام ملک شمار کیا جاتا ہے۔ دریں اثناء آج ہم جو کچھ ایک بڑی طاقت کے تیسرے ستون کے حوال سے دیکھ رہے ہیں، یہ ہے کہ امریکہ ایک “مؤثر اتحاد” بنانے سے قاصر ہے اور مسئلہ حل کرنے کے لئے، اس قسم کے کسی اتحاد سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ ناروے کے مشہور ماہر عمرانیات یوہان گالتونگ (۱۰) کہتے ہیں: “اب صرف شمالی یورپ کے ممالک امریکی جنگوں کی حمایت کرتے ہیں، جو ایک دو سال سے زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکے گی”۔
عوامی انقلابوں کو قابو لینے میں بھی امریکی طاقت شدت سے زوال پذیر ہوچکی ہے اور اسی بنیاد پر آج حکومتوں کی سخت طاقت (۱۱) کے ساتھ ساتھ قوموں کی نرم طاقت (۱۲) اور عوامی طاقت کی برتری کی باتیں ہورہی ہیں؛ حتی کہ حکومتیں قوموں کی نرم طاقت کو اپنے مخالفین سے نمٹنے کے لئے بروئے کار لاتی ہیں۔ تازہ ترین مثال “وینزوئلا” کی ہے جہاں امریکہ نے مادورو حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کی مہم چلائی گئی؛ اور اسی وقت حکومتی سطح پر بھی امریکیوں کو مخالفین سے نمٹنے میں بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسی بنا پر امریکی تھنک ٹینک “امریکن انٹرپرائز” (۱۳) نے اپنی ۳۶ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں لکھا کہ “امریکہ کے دشمن بشمول چین، روس اور ایران اپنی فوجی صلاحیتوں کو تقویت پہنچا رہے ہیں اور یہ پیشرفت انہیں امریکہ کی فوجی طاقت سے نمٹنے کا امکان فراہم کررہی ہے”۔ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل امریکی فضائیہ کے کمانڈر جنرل مارک ویلش (۱۴) نے فاکس نیوز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ اور اس کے دشمنوں کی عسکری صلاحیتوں میں ماضی کا فاصلہ اختتام پذیر ہوچکا ہے [اور وہ ہماری سطح تک پہنچ گئے ہیں]”۔
چنانچہ ایک عمومی جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ چار عشروں میں اپنی طاقت کے تحفظ کے حوالے سے سنجیدہ چیلنجوں سے دوچار ہوچکا ہے”۔
لگتا ہے کہ امریکی پہلے ہی سے جانتے تھے کہ انہیں ایک ناقابل تسخیر واقعے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ان کے حافظے میں صدیوں کے فاصلے سے معرض وجود میں آنے والی تین بڑی مسلم طاقتوں کی تاریخ محفوظ تھی جو چودہویں صدی سے بیسویں صدی تک دنیا کے وسیع علاقوں حکمرانی کرچکی تھیں: سلطنت عثمانیہ (۱۵) سنہ ۱۲۹۹ع‍ تا سنہ ۱۹۲۴ع‍؛ صفوی سلطنت (۱۶) سنہ ۱۵۰۱ع‍ تا سنہ ۱۷۳۶ع‍ اور [متحدہ] ہندوستان میں مغلیہ سلطنت (۱۷) سنہ ۱۵۲۶ع‍ تا سنہ ۱۸۵۷ع‍ جنہوں نے چھ صدیوں کے دوران ـ بالخصوص سولہویں صدی سے انیسویں صدی تک ـ یورپی استعماری طاقتوں کو زبردست چیلنجوں سے دوچار کیا تھا۔ زیادہ تر مواقع پر ان تین مسلم سلطنتوں کے باہمی تعلق نے مغرب کو خوفزدہ کردیا تھا؛ اور جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو سلطنت عثمانیہ کے زوال کو ۵۵ برس اور سلطنت مغلیہ کے زوال کو ۱۲۲ برس ہوچکے تھے؛ اور یہ ایک طویل عرصہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اس حقیقت نے امریکیوں کو دو نکتوں کی یاددہانی کروائی: ۱۔ برصغیر سے لے کر مغربی افریقہ تک پورے عالم اسلام کی نشات ثانیہ اور عمومی اٹھان کا قوی امکان ہے؛ ۲۔ عالم اسلام کے تمام حصوں کے درمیان باہمی تعلق کا قوی امکان ہے۔ چنانچہ امریکی اکیڈمیاں اسلامی اٹھان کے دور کے آغاز عندیہ دینے لگی تھیں؛ حتی کہ سیموئیل پی ہنٹنگٹن (۱۸) نے اس سلسلے میں کتاب ”تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیل نو” (۱۹) لکھ ڈالی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی انقلاب عثمانی،  صفوی اور مغل طاقتوں کی نسبت دو مزید عناصر کا حامل تھا: “معنویت” (روحانیت) اور “دنیا کے انتظام کے لئے نیا خاکہ اور نیا منصوبہ”۔ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران صرف ایک مادی اور اور اعلی فوجی صلاحیتوں کا حامل ملک ہی نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مغربیوں کے لئے اس پر غلبہ پانا زیادہ مشکل نہ تھا۔ معنویت کی دو اہم کارکردگیاں تھی: ۱۔ اس انقلاب نے مغربی تہذیب کے فلسفے کو  مشکوک اور متنازعہ بنایا اور خود مغربیوں نے اس موضوع کو یوں بیان کیا: “ایران کے اسلامی انقلاب نے انسان سے تقاضا کیا کہ اپنے اصل مقام [اللہ کی بندگی] کی طرف پلٹ آئے اور اپنے عقائد و افکار میں اللہ کے لئے اس کا اصل مقام ـ یعنی انسان پر حکمرانی ـ کے رتبے کا قائل ہوجائے”؛ ۲۔ اسلامی انقلاب کی معنویت نے مغرب کے سامنے ایک عظیم استعداد اور بےمثل موقع بھی مغرب کے سامنے رکھا جو کہ ـ البتہ ـ مغربیوں کے لئے انجانا تھا۔
اسلامی انقلاب کے معنوی فلسفے نے بہت جلد ملحد مشرقی بڑی طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور جس طرح کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے سوویت اتحاد کے آخری صدر میخائل گورباچوف (۲۰) کو شیوعیت (۲۱) کی نابودی کے سلسلے میں یاددہانی کروائی تھی، مغرب کو بھی مختلف انداز سے نشانہ بنایا اور خبردار کیا تھا۔
بایں حال، بہت سوں نے سوویت اتحاد کے زوال کو مغرب کے دباؤ یا سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اندرونی شکست و ریخت کا نتیجہ قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوویت اتحاد کو اندرونی اور بیرونی لحاظ سے کسی خاص مسئلے کا سامنا نہیں تھا اور سب کچھ اپنی جگہ قائم تھا، لیکن ایک معنوی انقلاب نے ـ عدالت پسندانہ اور حریت پسندانہ منصوبے کے ساتھ ـ مارکسیت (۲۲) کے  وجود کے اہم ترین فلسفے ـ یعنی دین اور معنویت کی نفی ـ کو سرے سے باطل کردیا اور اس کے تشخص کو چھین لیا؛ چنانچہ جو چیز جو کمیونسٹ حکومت کے زوال کی بنا پر نظر آئی یہ تھی کہ مذہب معاشرے کے تمام شعبوں میں پلٹ کر آیا اور “یہی وہ عنصر ہے جو آج ایک ہی ساتھ شیوعیت کی واپسی کا بھی راستہ روک رہی ہے اور روس میں مغربی لبرلیت کو بھی شیوعیت کے متبادل کے طور پر مقبولیت حاصل سے باز رکھ رہی ہے۔ حالانکہ اگر سوویت اتحاد کا زوال مغرب کے ساتھ مسابقت میں شکست یا اندرونی طور پر معاشی بدحالی کا نتیجہ ہوتا تو آج اس بڑی طاقت کے کھنڈرات پر مغربی لبرلیت کی عمارت تعمیر ہوچکی ہوتی”۔
اگر ہم “تخمینوں [اندازوں] اور تعلقات کی تبدیلی” کو اسلامی انقلاب کا اہم ترین مقصد سمجھیں ـ وہی جن پر اسلامی انقلاب کے نعرے بھی مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں ـ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ “اگرچہ اسی لمحے بھی امریکی نامی طاقت، اس کی تشکیل میں کردار ادا کرنے والے عناصر ـ منجملہ زور، دولت، طبقاتی نظام اور اس کے [جدید دور کی] خرافاتی روایتیں ـ بدستور موجود ہیں؛ لیکن اسلامی انقلاب نے ایک طرف سے اس کے جواز کو چیلنج کیا ہے، اور دنیا والوں کی آنکھوں سے گرا دیا ہے اور دوسری طرف سے دنیا کا ایک وسیع اور حساس حصہ امریکہ اور اس کی طاقت کے عناصر و عوامل نیز پورے مغرب کے تسلط سے چھڑانے میں کامیاب ہوا ہے؛ اور اس حال میں ہم آج ہم اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: سعد اللہ زارعی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ William Hamilton McWhorter Jordan
۲۔ Crisis: Last year of Carter’s presidency
۳۔ James Earl Carter Jr
۴۔ Non-Aligned Movement [NAM]
۵۔ Chile
۶۔ Josip Broz Tito
۷۔ Paul Kennedy
۸۔ The Rise and Fall of the Great Powers
۹۔ Gallup [company]
۱۰۔ Johan Galtung
۱۱۔ Hard power
۱۲۔ Soft power
۱۳۔ American Enterprise Institute
۱۴۔ Mark Welsh
۱۵۔ Ottoman Empire
۱۶۔ Safavid dynasty
۱۷۔ Mughal Empire
۱۸۔ Samuel Phillips Huntington
۱۹۔ The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order
۲۰۔ Mikhail Sergeyevich Gorbachev
۲۱۔ Communism
۲۲۔ Marxism
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://kayhan.ir/fa/news/153214

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی