قرآن کریم کی توہین تمام انبیاء کی توہین ہے

  • ۴۰۲

بقلم مرتضیٰ نجفی قدسی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: افسوس کے ساتھ ایک مرتبہ پھر بعض بظاہر متمدن ممالک میں قرآن کریم اور پیغمبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں جس کی ایک مثال سویڈن میں قرآن کریم کو جلایا جانا اور فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو میں پیغمبر اسلام کا کارٹون چھاپا جانا ہے اس توہین آمیز اقدام نے تمام اہل توحید اور انبیاء الہی کے ماننے والوں کے دلوں کو مجروح کیا ہے جبکہ ایسا جاہلانہ اقدام کسی بھی متمدن معاشرے کے شایان شان نہیں ہے۔

اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ بعض اسلام مخالف ایجنسیاں اس طرح کے پروپیگنڈے کرواتی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ دیگر ادیان کے پیروکار قرآن کریم کی نسبت شناخت اور معرفت بھی نہیں رکھتے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس جاہلانہ اقدام کے سامنے خاموشی اختیار کریں اور کوئی عکس العمل ظاہر نہ کریں۔
اگر عیسائی اور یہودی جان لیں کہ ان کے پیغمبروں کی سب سے اچھی تعریف قرآن کریم نے بیان کی ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ دسیوں بار، تو یقینا قرآن کا احترام کریں گے۔
ان کے لیے یہ جان لینا دلچسپ ہو گا کہ قرآن کریم میں ۲۶ پیغمبروں کے نام ذکر ہوئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ جناب موسی کا تذکرہ ہے یہاں تک کہ ۱۳۶ مرتبہ آپ کا نام قرآن کے ۳۶ سوروں میں ذکر ہوا ہے جو مجموعی طور پر ۴۲۰ آیات ہیں۔
حضرت موسیٰ (ع) کا قصہ، ان کی ولادت اور زندگی کے نشیب و فراز کو تفصیلی طور پر قرآن میں بیان کیا گیا ہے اور فرعون کے دور میں بنی اسرائیل کے افسوسناک حالات یہاں تک کہ جناب موسیٰ(ع) کا مصر سے نکلنا اور جناب شعیب کی بیٹی سے شادی کرنا، پھر جناب موسی کی جناب خضر (علہیما السلام) سے ملاقات، کوہ طور پر اپنے پروردگار سے گفتگو اور نور الہی کو دیکھنا اور پھر مقام رسالت پر فائز ہونا اس کے بعد لوگوں کو دعوت توحید دینا، فرعون کا مقابلہ کرنا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و تشدد سے نجات دلانا، اور پھر عصائے موسیٰ کا معجزہ اور ساحروں کا ایمان لانا، بنی اسرائیل کا مصر سے نکلنا اور دریائے نیل کا عصائے موسیٰ کے ذریعے شگافتہ ہونا، اور بنی اسرائیل کا دریا سے عبور کرنا اور فرعونیوں کا دریائے نیل میں غرق ہونا اور دسیوں واقعات دیگر جو قرآن کریم نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کئے ہیں۔
اسی طرح حضرت عیسی کا اسم مبارک ۲۵ مرتبہ عیسی کے نام سے اور ۱۳ مرتبہ مسیح کے نام سے ذکر ہوا ہے حضرت مریم (س) کا قصہ، جناب عیسی (ع) کی ولادت کا واقعہ اور ان سے متعلق دیگر تمام حالات قرآن کریم کی متعدد آیات میں بیان ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ خود حضرت مریم (س) کے نام سے ۹۸ آیتوں پر مشتمل ایک مکمل سورہ بھی قرآن میں موجود ہے۔ جس میں اس پاکیزہ خاتون کے حالات اور جناب عیسی کی ولادت اور گہوارے میں ان کا گفتگو کرنا بیان ہوا ہے؛«قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللَّهِ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا (۳۰) وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا»  حضرت عیسی نے گہوارے میں کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں کہ جس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے پیغمبر بنایا ہے۔
ان دو بزرگ اور اولوالعزم نبیوں کے واقعات جس طریقے سے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں توریت و انجیل میں بیان نہیں ہوئے چونکہ وہ تحریف کا شکار ہو گئیں اور حقائق کو موڑ توڑ کر ان میں بیان کیا گیا ہے حتیٰ کہ ان دو کتابوں میں انبیاء کو خطاکار اور گناہ گار بھی کہا گیا ہے جبکہ قرآن کریم تمام انبیاء کو معصوم قرار دیتا ہے خاص طور پر اولوالعزم انبیاء یعنی حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسی علیہم السلام، اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں خصوصی گفتگو کی ہے اور ان کی شخصیت کو پہچنوایا ہے۔
اس کے علاوہ، قرآن کریم میں ۴۳ بار جناب نوح، ۶۸ مرتبہ حضرت ابراہیم، ۲۷ مرتبہ جناب لوط، ۲۵ مرتبہ حضرت آدم، ۲۷ بار حضرت یوسف، ۱۲ مرتبہ جناب اسماعیل، ۱۷ مرتبہ جناب اسحاق، ۱۱ مرتبہ حضرت شعیب، ۱۷ مرتبہ حضرت سلیمان، ۱۶ بار حضرت یعقوب، ۵ بار حضرت یحییٰ، ۴ بار حضرت ایوب، ۹ بار جناب صالح، ۷ مرتبہ حضرت ہود، ۴ مرتبہ جناب یونس، ۱۶ مرتبہ حضرت داوود، ۲۰ مرتبہ جناب ہارون، ایک مرتبہ جناب عزیر، دو مرتبہ جناب ادریس، الیاس، الیسع اور ذوالکفل کا تذکرہ ہوا ہے۔
جبکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کا نام گرامی صرف ۴ بار قرآن میں آیا ہے اور ایک مرتبہ ’احمد‘ کے نام سے بیان ہوا ہے، البتہ دیگر القاب جیسے رسول اللہ، الرسول، النبی، اور امی متعدد آیات میں ذکر ہوئے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ گزشتہ انبیاء کے حالات پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم دراصل کتاب توحید ہے کتاب معرفت پروردگار ہے، جو انبیاء کی دعوت کے ڈھانچے میں بیان ہوئی ہے البتہ معاد اور قیامت پر عقیدہ جو انبیاء کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے بھی قرآن کے بیشتر حصے کو تشکیل دیتا ہے قرآن کریم کی صرف پانچ سو آیتیں ایسی ہیں جن میں شرعی احکام بیان ہوئے ہیں باقی سارا قرآن اخلاقیات و عقائد پر مبنی ہے۔ البتہ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ انبیاء کا ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ، عدالت اور انصاف کے نفاذ کے لیے جد و جہد، انسانی حقوق کا دفاع اور ظلم و تعدی کا مقابلہ کرنے کی تاکید جیسے موضوعات جو انبیا کی زندگی کا حصہ رہے ہیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں۔
اگر کوئی صحیح معنی میں گزشتہ انبیاء کو پہچاننا چاہتا ہے، حضرت عیسی، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء، نیز حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کے جانشینوں کو پہچاننا چاہتا ہے تو اسے ادھر اودھر بھٹکنے کے بجائے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ قرآن کریم اللہ کا پیغام ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے آیا ہے، اور انسان کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جانے کے لیے نازل ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے : «اللَّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ...»
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ وہ کتاب جو مجسمہ ہدایت ہو، جو نور کا پیکر ہو جو انبیاء کے واقعات پر مشتمل ہو، اس کی توہین کرنا انسانیت کے حق میں کس قدر ظلم ہے یہ شیطانوں کا کام ہے جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انسانیت ہمیشہ ظلمت اور تاریکی میں ڈوبی رہے تاکہ وہ ان پر آسانی سے اپنی ظالمانہ حکومتوں کو جاری رکھ سکیں، لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خدا کا وعدہ ہے کہ آخر کار روئے زمین پر صالح اور نیک لوگوں کی حکومت قائم ہو گی اور اس حقیقت کو نہ صرف قرآن بلکہ توریت اور زبور میں بھی بیان کیا گیا ہے «وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ» (انبیاء، ۱۰۵)  ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے۔ ظالم، جابر، ستمگر اور مستکبر حکمران جان لیں کہ قرآن کریم انہیں پانی کے بلبلوں سے تعبیر کرتا ہے کہ جو ایک پھونک سے نابود ہو جاتے ہیں یہ بیہودہ تلاش و کوشش کسی نتیجے تک نہیں پہنچے گی۔
«وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ».

یورپ کے مالی ذخائر میں یہودیوں کا کردار

  • ۳۴۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، یہودیوں کے مغربی حکمرانوں سے گہرے تعلقات نویں صدی عیسوی میں اس وقت شروع ہوئے جب مقدس رومی سلطنت معرض وجود میں آئی۔ دسویں اور گیارہویں صدی عیسویں میں، مغربی حکمران یہودیوں کے لیے ایک خاص اہمیت کے قائل تھے اور یہودی اس دور میں قومی اور دھیرے دھیرے بین الاقوامی سطح کے معروف تاجر بن گئے۔ (۱)
روم کے بادشاہ ’ہینری چہارم‘ نے صلیبی جنگیں شروع ہونے سے چھے سال قبل سنہ ۱۰۹۰ میں ایک حکم کے تحت جرمنی کے مغربی شہروں میں رہنے والے یہودیوں کو تجارت کے میدان میں وسیع سہولیات فراہم کیں۔
جرمنی کے شہر ’ورمز‘ میں رہنے والے یہودیوں کو ایسے حیرت انگیز امتیازات دئے گئے تھے جو حتی عیسائیوں کو بھی حاصل نہیں تھے وہ سلطنت کی تمام حدود میں پوری آزادی کے ساتھ سفر کر سکتے تھے۔ ٹیکس اور کسٹم سے معاف تھے، پیسے کا لین دین اور منافع کا تعین سب انہیں کے ہاتھوں انجام پاتا تھا۔ دوسرے شہروں اور گاوں سے اشیاء خریدتے تھے اور اپنے نام سے بیچتے تھے۔ (۲)
مغربی حکمرانوں اور یہودیوں کا تال میل
یورپ کے مقامی بادشاہ اور حکمران یہودیوں کی سودخوری کو اپنی درآمدوں کا اصلی ذریعہ سمجھتے تھے اور کھلے عام یا خفیہ طور پر وہ یہودیوں کے اس کام کو میدان دیتے تھے۔ جرمنی کے ایک حکمران کے بقول یہودی، بادشاہوں کے خزانے ہوتے تھے۔(۳)۔ تاریخ عیسائیت کے طاقتور ترین پاپ ’اینوسن سوم‘ نے مغربی حکمرانوں کے نام اپنے ایک خصوصی خط میں ان کے کارناموں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا:
’’تمہیں سودخوری کرنے سے شرم نہیں آتی، یہودیوں کو اپنے شہروں میں دعوت دیتے ہو اور انہیں سودخوری کے آلہ کار بناتے ہو‘‘۔ (۴)
تیرہویں صدی عیسوی سے پیسے کے تبادلے میں یہودیوں کی سودخوری ایک رائج عمل بن گیا تھا۔ چودہویں صدی عیسویں کے پہلے حصے میں یہودیوں نے ۶۱ ہزار فلورین گولڈ شاہ انگلستان ’ایڈوارڈ سوم‘ کو قرضے کے طور پر دیا۔ (۵)
یہودیوں کو کلیسا کی سخت مخالفت کا سامنا
تیرہویں صدی میں، سودخواری کی بنا پر اقتصادی میدان میں یہودیوں کی سلسلہ وار سرگرمیاں یورپ کے اندر اس قدر پھیل چکی تھیں کہ ۱۲۳۰ میں کلیسا نے سخت مخالفت کرتے ہوئے سود خوری کے خلاف محاذ آرائی کی۔
کلیسا کی مخالفت کی وجہ سے ’شاہ سیسیل‘ نے ۱۲۳۱ میں، یہودیوں کے لیے حد اکثر دس فیصد سود کا اعلان کیا (۶) بعد از آں، فرانس کے بادشاہ ’لویی نہم‘ نے ۱۲۳۹ میں بطور کلی سودخوری کو ممنوع قرار دے دیا۔ (۷)
۱۲۴۴ میں آسٹریا کے بادشاہ نے اپنے احکامات کے تحت یہودیوں کے لیے سودخوری کی ایک حد معین کر دی۔ اطالوی بادشاہ جو یہودیوں سے قریبی تعلقات رکھتے تھے انہوں نے یہودیوں کے لیے ۲۰ فیصد منافع قرار دیا لیکن عملی طور پر ۳۳ سے ۴۳ فیصد تک سود یہودیوں کی جیبوں میں جاتا تھا۔(۸) یہ سلسلہ بھی اس قدر پھیل گیا تھا کہ ۱۳۴۸ میں پاپ نے مجبور ہو کر بالکل سود کو ممنوع قرار دے دیا۔ لیکن تمام جد وجہد اور محاذ آرائیاں بے نتیجہ ثابت ہوئیں اور کچھ ہی عرصے کے بعد یعنی ۱۳۵۱ میں پاپ کا حکم نظر انداز کر دیا گیا(۹) اس لیے کہ یورپ کے حکمرانوں نے پاپ کے خلاف مہم چلا دی اور بعد از آن یورپ کا معیشتی نظام بطور کلی یہودی ہاتھوں میں چلا گیا اور انہوں نے سود خوری کے مختلف طریقے اپنا کر پوری دنیا کی معیشت پر قبضہ کر لیا آج پوری دنیا کا اقتصاد گیند کی طرح یہودیوں کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے۔ (۱۰)
حواشی
[۱] Judaica vol. 8, p. 662
[۲] Judaica vol. 15, p. 644
[۳] Judaica, vol. 16, p. 1289.
[۴] Judaica p. 1290
[۵] Judaica vol. 4, p. 167
[۶]Judaica vol. 16, p. 1290
[۷] Judaica p. 474
[۸]Judaica vol. 16, p. 1290
[۹] Judaica vol 2, p. 605
[۱۰] Ben-Sasson Judaica, pp. 469-475.
منبع: شهبازی، عبدالله؛ (۱۳۷۷)، زرسالاران یهودی و پارسی استعمار بریتانیا و ایران، تهران: مؤسسه مطالعات و پژوهشهای سیاسی، چاپ دوم (پائیز ۱۳۹۰)

 

اسرائیل فوج میں یہودی لڑکیوں کی جنسی خدمات

  • ۴۰۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پوری دنیا میں فوج ملکوں کی حفاظت اور ان کی سرحدوں کے تحفظ کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے فوج کی سیاسی امور میں نہ دخل اندازی ہوتی ہے اور نہ ہی مختلف حکومتوں میں ان کا نفوذ ہوتا ہے۔
لیکن صہیونی ریاست میں کچھ صورتحال دوسری ہے، اس لیے کہ اس ریاست پر حاکم نظام عسکریت پسند اور فوجی نظام ہے حتیٰ کہ اس کے سیاستدان بھی فوجی سبکدوش افراد میں سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے فوج کی طرف خاص توجہ سیاستدانوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس چیز کے باوجود اسرائیل کے فوجی ڈھانچے پر غور کرنے سے اس کے حالات کچھ مناسب اور سازگار نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا ایران پر حملے کا دعویٰ ایک قسم کا کھوکھلا دعویٰ ہے۔
ریٹائرڈ فوجی افسر “اسحاق بریک” نے سن ۲۰۱۷ میں کسی ممکنہ جنگ میں فوج کی آمادگی کو نامطلوب اور حتیٰ کہ ناممکن قرار دیا اور اپنی رپورٹ میں فوج کے اندر پائی جانے والی ۶ کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا:
۔ جنگی ساز و سامان کا آمادہ نہ ہونا
۔ مشقوں کی نامطلوب کیفیت
۔ جنگ کی نسبت بے رغبتی
۔ فوج کی تعداد میں کمی
۔ شکایتوں کے حجم میں اضافہ
۔ وہ ڈاکٹر اور دیگر گروہ جو فوج سے نکلنا چاہتے ہیں (۱)
یہ ایسے حال میں ہے کہ اسرائیل کے چیف اسٹاف جنرل “گاڈی آیزنکوٹ” نے “بریک” کے بیانات کو غلط قرار دیا اور اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج جنگ کی تمام تر صلاحیتوں کی حامل ہے۔ دو افسروں کے متناقض بیانات اس بات کا باعث بنے کہ اسرائیلی فوج کے اعلیٰ نگران “ایلان ہراری” نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے کر فوج کی صلاحیتوں کے بارے میں تحقیق کا آغاز کیا۔ ان تحقیقات کا نتیجہ یہ بتایا گیا کہ ۳۳ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیلی فوج کی حالت نامناسب ہے۔
سپاہیوں کا سروس سے فرار
اسرائیلی فوج مختلف قسم کی مشکلات سے دوچار ہے ان مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ اسرائیلی نوجوان فوج میں سروس کرنے سے بھاگتے ہیں حتیٰ کہ فوج میں بھرتی اسرائیلی جوان نوکری چھوڑ کر فرار کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال عبرانی زبان کے ایک اخبار نے خبر دی کہ اسرائیل کے ۱۱ سپاہی فوجی مشقوں کے درمیان سے بھاگ گئے اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ فوجیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی مالی مشکلات کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ اور حتیٰ اس سے بھی بالاتر ستم یہ ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی ابتدائی ضروریات حتیٰ مناسب غذا بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ (۲)
فوجیوں کی خود کشی کا مسئلہ
ایک دوسرا اہم مسئلہ جو اسرائیلی فوج کے دامنگیر ہے وہ سپاہیوں کی خود کشی یا جان بوجھ کر خود کو زخمی کرنا ہے۔ بعض صہیونی ذرائع ابلاغ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ بعض سپاہی جنگ میں شرکت نہ کرنے کی غرض سے خودکشی کا ارتکاب کر لیتے ہیں یا خود کو زخمی کر دیتے ہیں اور نفسیاتی حالات اس قدر بحران کا شکار ہیں کہ ۵۴ فیصد فوجی اپنی نفسیاتی تسکین کے لیے ہیروین کا استعمال کرتے ہیں۔ (۳)
اسرائیل میں آبادی کی کمی، مہاجرین کی اسرائیل سے واپسی اور پھر جنگی صورتحال جو ہمیشہ رہتی ہے ایسے مسائل ہیں جن کی بنا پر اسرائیل کو ایسی فوج کی ضرورت ہے جو ہمیشہ خدمت رسانی کے لیے تیار رہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اخبار “یدیعوت احارونوت” نے ۲۰۱۷ میں لکھا کہ اسرائیل میں ۶۷ فیصد یونٹس میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ حتیٰ بعض فوجی ذرائع کے مطابق ۲۰۰۴ میں ۷۷ فیصد سپاہی مرد تھے لیکن ۲۰۱۶ میں یہ تعداد کم ہو کر ۷۲ فیصد ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین سے ایک چوتھائی فوجی مرد فوج سے فرار کر گئے ہیں۔ (۴)
فوجی نقائص کو برطرف کرنا
اسرائیل کے فوجی سسٹم میں پائی جانے والی بحرانی کیفیت کے باوجود، اس کے عہدہ داروں نے بعض نقائص کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے تین امور پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے:
۔ فوج میں سروس کرنے والے نوجوانوں کو تعلیم جاری رکھنے کے لیے اسکالر شپ کی سہولت
۔ تنخواہوں میں اضافہ اور سروس کی مدت میں کمی
۔ خواتین کی فوج میں زبردستی بھرتی، دوسرے لفظوں میں اسرائیل میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے فوج میں بھرتی کا قانون مساوی کر دیا گیا۔
فوج میں جنسی خدمات رسانی کے لیے لڑکیوں کی بھرتی
صہیونی ریاست کے بعض اعلیٰ فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ فوج میں لڑکیوں کی موجودگی مرد سپاہیوں کے جذبات بڑھانے میں مدد کرتی ہے اور ان سے جنسی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔(۵) یہاں تک کہ بعض رپورٹوں میں آیا ہے کہ سپاہی لڑکیاں غزہ پر جنگ کے دوران اپنی فوج کے جذبات بڑھانے کے لیے خود کو برہنہ کر دیتی ہیں۔ (۶)
اسرائیلی فوج سے عوام کی نفرت کی وجہ
یہ وہ مشکلات ہیں اسرائیلی فوج جن کے روبرو ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی چیز باعث بنی ہے کہ اسرائیلی نوجوان اور جوان فوج میں بھرتی ہونے اور سروس کرنے سے بے زار ہو جائیں؟
پہلی وجہ؛ فوج کا ہمیشہ جنگی حالت میں رہنا ہے؛ اس طریقے سے کہ جو نوجوان اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں وہ تقریبا چھٹی سے محروم ہو جاتے ہیں یا انہیں بہت کم ٹائم کے لیے چھٹی ملتی ہے۔
دوسری وجہ؛ اپنے سیاسی رہنماوں کی نسبت بے اعتمادی ہے؛ چونکہ ان کا سیاست کے میدان میں طرز عمل ایسا ہے کہ گویا اسرائیل کے حالات کو بہتر بنانے اور جنگ کو خاتمہ دینے کے لیے کوئی تلاش و کوشش نہیں کرتے۔ گویا یہ ایسی جنگ ہے جس کا کوئی انجام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہمیشہ ان کے سر پر موت کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے کب کہاں سے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا گولا ان کے سر پر آن پڑے اور وہ موت کی آغوش میں چلے جائیں۔
نتیجہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اپنی گیدڑ بھبھکیوں کے برخلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ جنگ کی توانائی نہیں رکھتا اور ان کے سیاسی عہدیداروں کے ایران مخالف بیانات صرف سیاسی کھیل ہے جو صرف اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کھیلا جاتا ہے۔ (۷)

بقلم میلاد پور عسگری
حواشی
۱ – https://www.tasnimnews.com/fa/news/1397/07/07/1839458
۲- http://www.magiran.com/npview.asp?ID=2337421
۳ – http://kayhan.ir/fa/news/135732
https://www.seratnews.com/fa/news/306267
۴ – https://www.mashreghnews.ir/news/770929
۵ – https://www.mashreghnews.ir/news/770929
۶ – https://www.seratnews.com/fa/news/306267
۷ – http://qodsna.com/fa/326732
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مسئلہ فلسطین کے بنیادی فقہی اصول امام خامنہ ای کی نگاہ میں

  • ۳۷۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مسئلۂ فلسطین بنی نوع انسان ـ بالخصوص مسلمین ـ کے لئے ایک المناک مسئلہ ہے، جو جرم یہودی ریاست نے اس ملک پر روا رکھا اس کے روحانی، نفسیاتی، فکری، معاشی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی اثرات برسوں تک ناقابل تلافی ہیں اور انسانیت کے ہمدردوں اور مسلمین کے حافظے سے کبھی محو نہ ہوسکیں گے۔ پہلوی شہنشاہیت کے زمانے میں [ایران میں] فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں کوئی خطبہ یا بیان وغیرہ نہیں دیا جاتا تھا اور اگر جب بھی کہیں کسی خطبے یا تقریر کا آغاز ہوتا تھا؛ خفیہ ایجنسی “ساواک” مجلس پر حملہ آور ہوجاتی تھی اور تقریر کا پروگرام منسوخ ہوجاتا تھا۔
اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی (قدس سرہ) اور امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے مسئلۂ فلسطین کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان مسلسل زیر بحث اہم موضوع میں تبدیل کیا۔ چالیس سال سے مسئلۂ فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور اس ملک کے عوام اور اہل فکر و دانش کے ساتھ ساتھ بیرونی مفکرین کے لئے بھی مسئلۂ فلسطین کے فلسفے کی کافی شافی تشریح کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن اس اس یادداشت میں مسئلۂ فلسطین کی تشریح کے سلسلے میں “اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای کی نظر میں مسئلۂ فلسطین کے بنیادی فقہی اصولوں” کا جائزہ لیا گیا ہے تاکہ مسئلۂ فلسطین کی تشریح کے سلسلے میں ایک نیا قدم اٹھایا جاسکے۔
سرزمین کا دفاع
فقہ میں جہاد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ابتدائی جہاد اور دفاعی جہاد۔ زیادہ تر فقہاء نے ابتدائی جہاد کو معصوم کے لئے مختص کردیا ہے اور بعض دوسرے فقہاء کی رائے ہے کہ ولی فقیہ بھی ابتدائی جہاد کا فرمان جاری کرسکتا ہے۔ جبکہ تمام شیعہ اور سنی فقہاء دفاعی جہاد کے وجود پر تاکید کرتے ہیں۔ دفاعی جہاد یعنی سرزمین کا دفاع اور مسلم ممالک کا دفاع، ایسے حال میں کہ اسلامی سرزمین اور اسلامی ممالک پر دشمنوں کی یلغار ہوئی ہو۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ * الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ ۔۔۔؛
اجازت دی جاتی ہے انہیں جن پر جنگ مسلط کی گئی ہے، اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے * وہ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جرم و خطا کے”۔ (۱)
چنانچہ قرآن کریم کی آیات شریفہ کے مطابق ہی ہے کہ امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “ہمارے لئے مسئلۂ فلسطین ـ جیسا کہ میں نے کہا ـ ایک انسانی مسئلہ اور ایک اسلامی مسئلہ ہے”۔
اسلام نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم ان سرزمینوں کا دفا کریں جہاں مسلمان سکونت پذیر ہیں۔ اسلام نے ہم پر واجب کیا ہے کہ ہم مظلومین، ستمزہ لوگوں اور مستضعفین کے حقوق انہیں دلوا دیں؛ اسلام نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم اپنے مال سے بھی اور اپنی جان سے بھی ان لوگوں کی مدد کو لپکیں جو “یا للمسلمین” (۲) کی آواز اٹھاتے ہیں”۔ (۳)
امام خامنہ ای اس فقہی حکم کے بارے میں فرماتے ہیں:
“مسلمانوں میں سے کوئی بھی فلسطین پر منطبق [شرعی] حکم کے اطلاق میں تذبذب اور تردد کا شکار نہیں ہے۔ یہ وہی مسئلہ ہے جو تمام فقہی کتب میں ـ جہاں جہاد کی بحث پیش کی گئی ہے ـ آیا ہے۔ اگر کفار آ کر مسلم ممالک پر قبضہ کریں یا انہیں محاصرہ کرلیں، جدید اور قدیم مسلم فقہاء میں سے کوئی بھی اس سلسلے میں جہاد کے واجب عینی (یا فرض عین) ہونے میں تذبذب کا شکار نہیں ہوا ہے۔ تمام اسلامی مذاہب اس سلسلے میں ہم فکر اور متفق القول ہیں۔ ابتدائی جہاد واجب کفائی (یا واجب بالکفایہ) ہے؛ لیکن یہ اس موضوع [مسئلۂ فلسطین] کے بغیر دوسرے مسائل میں ہے۔ دفاعی جہاد ـ جو دفاع کا آشکارترین مصداق بھی ہے ـ عینی واجب ہے”۔ (۴)
عقیدے کا مسئلہ نہ کہ ایک سیاسی مسئلہ
اسلامی جمہوریہ ہمیشہ سے کفر و شرک کے خلاف جدوجہد کا علمبردار ہے۔ جیسا کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے فرمایا: “قوم پرستوں نے سمجھ رکھا تھا کہ ہمارا ہدف غربت اور بھوک بھری دنیا میں اسلام کے عالمی قوانین کا نفاذ ہے؛ ہم کہتے ہیں کہ جب تک شرک اور کفر ہے، جہاد بھی ہے اور جب تک کہ جہاد ہے ہم بھی میدان میں ہیں”۔ (۵) لیکن انسانوں کی مظلومیت اور کفر و شرک کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ساتھ، مسئلۂ فلسطین ایک اسلامی اور ایمانی مسئلہ بھی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: “الَّذِینَ آمَنُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ” (۶) (جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں)؛ چنانچہ امام خامنہ ای مظلوم کے دفاع و تحفظ کو ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ اعتقادی اور ایمانی مسئلہ گردانتے ہیں اور فرماتے ہیں: “اسلامی جمہوریہ میں مسئلۂ فلسطین ہمارے لئے ایک تدبیری (Tactical) مسئلہ نہیں ہے، ایک سیاسی تزویر (Political Strategy) بھی نہیں ہے، عقیدے کا مسئلہ ہے، دل کا مسئلہ ہے، ایمان کا مسئلہ ہے”۔ (۷)
توحیدی تصورِ آفاق
فلسطین کی مدد کا ایک فقہی پہلو توحیدی تصورِ آفاق (Monotheistic worldview) ہے۔ توحید عربی لغت میں ” وَحَّدَ، یُوَحِّدُ” کا مصدر ہے اور اگر انسان اللہ کو ذات یکتا کے طور پر مانے اور اس کو ذات اور صفات میں ہر قسم کے شریک اور شبیہ سے منزہ جانے اس کو موحد اور یکتا پرست کہا جاتا ہے۔ (۸) امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “جتنی بھی بلائیں اور مصیبتیں آج مسلمانوں اور مسلم اقوام پر نازل ہورہی ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان توحید کے سائے میں زندگی کا راستہ کھو چکے ہیں”۔ (۹)
توحیدی تصورِ آفاق میں انسان سمجھتا ہے کہ ہر چیز اللہ کی ہے اور وہ اللہ کی کامل بندی کا اہتمام کرتا ہے۔ دولت، طاقت، شہرت وغیرہ کی ایسے انسان کی نگاہ میں ـ جو توحیدی نظریۂ آفاق کا مالک ہے ـ کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ وہ ان ساری چیزوں کو اللہ کی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ خدا ہی پورے عالم وجود کا مالک ہے اور تمام تر اشیاء اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ اس انسان کا عقیدہ یہ ہے کہ پوری دنیا خدا کے قوانین اور اسی کی تدبیر و حکمت سے آگے بڑھ رہی ہے چنانچہ اسے اللہ کے سوا کسی غیر کی پرستش نہیں کرنا چاہئے۔
امام خامنہ ای فلسطین سے متعلق موقف کے سلسلے میں فرماتے ہیں: “اس موقف، اس تجزیئے اور اور اس نگاہ کا سرچشمہ کیا ہے؟ اگر یہ بندہ اور اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی جمہوریہ کے اندر فیصلہ ساز ادارے یہ موقف اپناتے اور ان کا اعلان کرتے ہیں، تو ان کا سرچشمہ کیا ہے؟ کیا اس کا سرچشمہ ایک محض سیاسی تصور ہے؟ نہیں! اس رائے اور اس موقف کا سرچشمہ دین [اسلام] ہے۔ ایک بیّن اور روشن معرفت، ایمان سے جنم والی شادابی اور طراوت، معرفت سے جنم والی حرکت، عقلمندی کی روح کو بروئے کار لانا اور بالآخر دنیا کے تمام موجودات کے بارے میں واضح اور شفاف تصورِ آفاق، یہ دین کی بنیاد ہے۔ دین پہلے درجے میں ایک معرفت اور ایک شناخت ہے؛ عالم اور انسان کی معرفت، اپنے فرائض کی معرفت، اپنے راستے اور اپنے ہدف کی معرفت، ان سب معرفتوں کا مجموعہ دین ہے۔ دین، انسان کو کائنات کا محور، اور دنیا کو اللہ کی خلقت، لطف و عنایت اور رحمت کا مجموعہ اور مظہر سمجھتا ہے؛ [یعنی توحید]؛ اور سمجھتا ہے کہ اس دنیا کی اساس اور عالم وجود کی عظیم نقشہ کشی میں اللہ کے دست قدرت و صُنع کا کردار ہے اور تمام امور کا فعالِ ما یشاء وہی ہے”۔ (۱۰)
نیز آپ قرآن کریم کو راہ نجات گردانتے ہوئے فرماتے ہیں: “ملت ایران جس قدر کے قرآن کے نزدیک پہنچی ہی اتنی ہی عزت کے قریب پہنچی ہے؛ نجات کے قریب پہنچی ہے؛ فلاح اور بہتری قریب پہنچی ہے؛ نصرت و کامیابی کے قریب پہنچی ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کی نجات کا راستہ اسلام اور قرآن کی قربت کا حصول ہے۔ فلسطین کی نجات کا راستہ بھی یہی ہے۔ آپ دیکھ لیں؛ ایک غاصب ریاست مملکت فلسطین میں قائم ہوئی ہے۔ اس عرصے میں جدوجہد بھی ہوئی، لیکن کوئی جدوجہد آخر تک نہیں پہنچ سکی۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس جدوجہد میں دین خدا، اسلامی ایمان اور قرآنی حکم کو معیار قرار نہیں دیا گیا تھا۔ آج فلسطینی قوم اسلام کے نام پر دشمن کے خلاف جدوجہد کررہی ہے اور اس جدوجہد نے دشمن کے بنیادی ستونوں پر لرزہ طاری کیا ہے”۔ (۱۱)
مستضعفین کی حمایت
مسئلۂ فلسطین ایک اسلامی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ، دنیا بھر کے مستضعفین سے منسلک ہے۔ جس طرح کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے فرمایا: “ہمیں امید ہے کہ دنیا بھر کی مستضعف قوموں کے تمام طبقے متحد ہوجائیں۔ اس تحریک کو ـ جو کہ استکبار کے مد مقابل مستضعفین کی تحریک ہے ـ پوری دنیا میں پھیل جانا چاہئے؛ ایران کو تمام مستضعف اقوام کے لئے نقطۂ آغاز، نقطۂ اول اور نمونۂ عمل ہونا چاہئے۔۔۔ مستضعف اقوام دیکھ لیں کہ ایران خالی ہاتھوں اور ایمان کی قوت اور اتحاد و اتفاق اور اسلام کا سہارا لے کر بڑی طاقتوں کے آگے سینہ سپر ہوا اور بڑی طاقتوں کو شکست دی؛ دوسری قوموں کے [مختلف] طبقے اس اسلامی علامت اور اس ایمانی علامت کی متابعت کریں اور دنیا کے تمام گوشوں میں مسلمین اٹھ کھڑے ہوں، یہی نہیں بلکہ مستضعفین اٹھ کھڑے ہوں۔ اللہ کا وعدہ تمام مستضعفین کے لئے ہے اور ارشاد ہے کہ “ہم مستضعفین پر احسان کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ امام بن جائیں اور وارث بن جائیں”۔ (۱۲) چنانچہ فلسطینیوں کی مدد و حمایت کا ایک فقہی اور قرآنی پہلو مستضعفین کی راہ میں جہاد سے عبارت ہے جس کا اعلان سورہ نساء کی آیت ۷۵ میں ہوا ہے۔
امام خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: “امام خمینی (قدس سرہ) کی حیات مبارکہ سے آج تک اسلامی ایران کے ساتھ [دشمنان اسلام کی] دشمنی کا سبب یہ ہے کہ یہاں تمام تر پالیسیوں کو اسلامی معیاروں پر پرکھا جاتا ہے اور پھر اختیار یا مسترد کیا جاتا ہے۔ [اسلامی جمہوری نظام] فلسطینی، بوسنیائی، تاجک، افغان، کشمیری، چیچن، آذربائی جانی اقوام سمیت تمام مظلوم اقوام کی حمایت کرتا ہے کیونکہ قرآن نے صراحت کے ساتھ مستضعفین کی حمایت کو لازمی قرار دیا ہے؛ اور ارشاد فرمایا ہے:
“وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیراً؛
اور تم آخر کیوں نہیں جنگ کرتے اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی [نجات کی] راہ میں جو کہتے ہیں کہ پروردگار! ہمیں اس بستی سے کہ جس کے باشندے ظالم ہیں، باہر نکال دے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی سرپرست قرار دے اور اپنی جانب سے کسی کو مدد گار بنا دے۔ (۱۳)
[ہماری] اس [پالیسی] کے بموجب، ہی استکباری محاذ کے سرغنے صہیونی سازشیوں کی دلالی اور خناسی سے، اسلامی ایران کو اپنا پہلے درجے کا دشمن سمجھتے ہیں اور حتی الوسع اس کے ساتھ دشمنی برتتے ہیں”۔ (۱۴)
شیطان کا منصوبہ کمزور ہے
چالیس سال سے اسلامی جمہوریہ تمام دشمنیوں، بغاوتوں، خانہ جنگیوں، عراق کی نمائندگی میں بہت ساری بیرونی مسلط کردہ جنگ، پابندیوں، دھمکیوں، رنگین بغاوتوں، فتنوں، دہشت گردیوں وغیرہ کا سامنا کرنے کے باوجود قائم و دائم ہے۔ حالیہ برسوں میں مصر کا انقلاب اور بعض دوسرے ممالک کے انقلابات بہت تیزی سے زوال پذیر ہوئے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ چالیس برسوں سے پورے فخر و اعزاز کے ساتھ سربلند ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ شیطان صاحب ایمان افراد کے آگے کمزور ہے۔ امام خمینی (قدس سرہ) نے انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد کی ان تمام کامیابیوں کا سبب ایمان کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: “۔۔۔ مستضعف اقوام دیکھ لیں کہ ایران خالی ہاتھوں اور ایمان کی قوت اور اتحاد و اتفاق اور اسلام کا سہارا لے کر بڑی طاقتوں کے آگے سینہ سپر ہوا اور بڑی طاقتوں کو شکست دی؛ دوسری قوموں کے [مختلف] طبقے اس اسلامی علامت اور اس ایمانی علامت کی متابعت کریں اور دنیا کے تمام گوشوں میں مسلمین اٹھ کھڑے ہوں، یہی نہیں بلکہ مستضعفین اٹھ کھڑے ہوں۔ اللہ کا وعدہ تمام مستضعفین کے لئے ہے اور ارشاد ہے کہ “ہم مستضعفین پر احسان کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ امام بن جائیں اور وارث بن جائیں”۔ (۱۵) (۱۶)
امام خامنہ ای بھی ایران، لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کی کامیابیوں کو شیاطین کی کمزوری کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: “مسلمین تعاون اور قرآن و سنت کے متعین کردہ مشترکہ اصولوں کے سہارے اتنی طاقت پا سکیں گے کہ اس کثیر جہتی اہرمن [بدی کی قوت] کے آگے ڈٹ جائیں اور اس کو اپنے عزم اور ایمان کے آگے مغلوب کردیں۔ اسلامی ایران امام خمینی کبیر (قدس سرہ) کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے اس کامیاب مزاحمت و استقامت کی نمایاں مثال ہے۔ وہ اسلامی ایران میں شکست کھا چکے ہیں اور آیت کریمہ “إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفاً؛ [۱۷] (شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا کرتا ہے)”، ایک بار پھر ایرانیوں کی آنکھوں کے سامنے مجسّم ہوئی۔ ہر دوسرے مقام پر جب عزم و ایمان پر استوار استقامت نے اقوام کو گھَمَنڈی طاقتوں کے مد مقابل لاکھڑا کیا ہے وہاں فتح مؤمنوں کو ملی ہے اور شکست و رسوائی ظالموں اور جابروں کا حتمی مقدر ٹہری ہے۔ لبنان کی ۳۳ روزہ نمایاں فتح اور حالیہ تین برسوں میں غزہ کا سربلند اور فاتحانہ جہاد، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے”۔ (۱۸)
اللہ کی نصرت
اللہ نے مؤمنین کو مسلسل وعدہ دیا ہے کہ اگر وہ ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں خالصانہ جہاد کریں، تو اللہ کی نصرت سے، کامیابی ان کے قدم چومے گی اور اگر وہ کامیاب نہ ہوں تو انہیں اپنے ایمان میں شک کرنا چاہئے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: “مَنْ أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلَّهِ قَوِیَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ؛ جو شخص اللہ کی خاطر سنانِ غضب کو تیز کر دیتا ہے، وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے”۔ (۱۹) نیز قرآن کریم میں خداوند حکیم ارشاد فرماتا ہے:
“وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ؛ اور کمزوری نہ دکھاؤ اور رنجیدہ نہ ہو اور تم برتری رکھتے ہوا اگر تم ایمان رکھتے ہو”؛ (۲۰) چنانچہ صاحب ایمان ہونا جدوجہد میں اللہ کی نصرت کی شرط ہے۔ امام خامنہ ای جدوجہد میں اللہ کی نصرت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “ہم جو کچھ قضیۂ فلسطین میں دیکھ رہے ہیں ـ کہ یہ پیشرفت قابل انکار نہیں ہے ـ وہ استکبار اور کفر کے محاذ کے مد مقابل محاذ مزاحمت کی روزافزوں طاقت ہے جو ایک واضح اور مشہور امر ہے۔ جو کچھ اس سلسلے میں دکھائی دے رہا ہے، اس کا سرچشمہ خدا پر ایمان اور جدوجہد میں معنویت کے عنصر کا شمول ہے۔
اگر ایک جدوجہد ایمان کے ہمراہ نہ ہو، وہ زدپذیر ہوجاتی ہے۔ صرف اس وقت جدوجہد کامیاب ہوگی جب اس میں اللہ پر ایمان اور اللہ پر توکل شامل ہو۔ دین کے جذبے اور اللہ کے وعدوں پر حقیقی ایمان اور اللہ پر توکل کو لوگوں کے درمیان تقویت پہنچائیں؛ خداوند متعال اور اس کے وعدوں پر حسن ظن [اور اعتماد] کو لوگوں کے درمیان تقویت پہنچانا چاہئے؛ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: “وَلَیَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن یَنصُرُهُ؛ (اور یقینا اللہ مدد کرے گا اس کی جو اس [کے دین] کی مدد کرے) (۲۱) وہ ہمیں یہ تلقین فرماتا ہے اور واضح فرماتا ہے، خداوند متعال سچا ہے۔ اگر ہم اس راہ میں اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھائیں، خدا کے لئے حرکت کریں، اللہ کی رضا و خوشنودی کو اپنا نصب العین قرار دیں، تو بےشک کامیابی ہمارے قدم چومے گی”۔ (۲۲)
استقامت فتح و کامیابی کی شرط
قرآن کریم میں متعدد مرتبہ استقامت اور دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کی تلقین ہوئی ہے۔ قرآنی مفہوم میں “استقامت” قرآنی مفہوم میں ایک اصطلاح ہے دین اور حق کے راستے میں کجیوں، بگاڑ اور ٹیڑھے پن اور انحراف کے مقابلے میں پامردی اور ثابت قدمی کے لئے۔ (۲۳) اہل عراف کے نزدیک “اہل استقامت” اور “منزل استقامت” جیسی عبارتیں بروئے کار لائی گئی ہیں جو سلوک الی اللہ کے مراحل میں شامل ہیں۔ (۲۴) مفسرین اور فقہاء نے استقامت کو فتح و کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔ امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن طبرسی(رح) مجمع البیان میں سورہ شوری کی پندرہویں آیت (۲۵) کے ذیل میں استقامت کے بارے میں لکھتے ہیں: “اللہ کے فرمان کی تکمیل میں استقامت کرو، اور اس کو ترک نہ کرو اور اس کے مطابق عمل کرو”۔ (۲۶)
علامہ سید محمد حسین طباطبائی (رح) اسی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: “خداوند متعال نے جملہ انبیاء کے لئے ایک ہی دین قرار دیا، لیکن امتیں دو جماعتوں میں منقسم ہوئیں: آباء و اجداد جو علم بھی رکھتے تھے اور باخبر بھی تھے لیکن انھوں نے دین میں اختلاف ڈال دیا اور دوسری جماعت نسلوں کی تھی جو حیرت سے دوچار ہوئیں؛ چنانچہ اللہ تعالی نے ان تمام امور کو تمہارے لئے قرار دیا جو وہ پچھلی امتوں کے لئے قرار دے چکا تھا؛ لہذا اے میرے پیغمبر(ص)! لوگوں کو دعوت دیجئے، اور چونکہ وہ دو جماعتوں میں منقسم ہوچکے ہیں ایک وہ جو حسد کا شکار ہے اور دوسری وہ جو شک و تذبذب کا شکار ہے، چنانچہ آپ جمے رہئے اور جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے ویسا ہی کرتے رہئے اور لوگوں کی خواہشوں کی پیروی مت کیجئے۔ “فلذلک” میں “لام” “لامِ تعلیل” ہے اور کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ لام الی کے معنی میں آیا ہے اور جملے کے معنی کچھ یوں ہیں: “چنانچہ لوگوں کو اسی دین کی طرف بلایئے جو آپ کے لئے قرار دیا گیا ہے اور اپنے فریضے کی ادائیگی میں جم کر استقامت کیجئے”۔ اور “واستقم” فعل امر کا صیغہ ہے استقامت سے جس سے راغب اصفہانی کے بقول “سیدھے راستے پر گامزن رہنے پر مداومت مراد ہے”۔ (۲۷)
امام خامنہ ای بھی استقامت کے لازمی ہونے کے سلسلے میں متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنا حق پلٹانے کے سلسلے میں فلسطینی قوم کی کامیابی اسلامی جمہوریہ کے قیام کے سلسلے میں ایرانی قوم کی کامیابی سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اُس دن جدوجہد کے دوران ہمارے پاس وسائل کی اس سے کہیں زیادہ قلت تھی جو آج غزہ اور مغربی کنارے میں آپ کے عوام کے پاس ہیں؛ لیکن یہ واقعہ بہرصورت رونما ہوا، یہ ناممکن کامیابی حاصل ہوئی اور انجام کو پہنچی؛ جدوجہد کے تسلسل کی برکت سے، خدا پر توکل کی برکت سے، ہمارے امام بزرگوار کی پرعزم اور مضبوط قیادت کی برکت سے؛ میں کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صورت حال پیش آئے کہ کچھ لوگ میدان پر نظر ڈالیں، امریکی طاقت کو دیکھیں، صہیونیوں کو حاصل مغرب کی پشت پناہی کو دیکھیں، امریکہ اور دنیا کے دوسرے نقاط میں صہیونیوں کے نیٹ ورک کی طاقت کو دیکھیں اور ان کی تشہیری طاقت کو دیکھیں اور سمجھیں کہ فلسطین کا فلسطینیوں کے پاس پلٹانا ایک ناممکن امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں، یہ ناممکن امر ممکن ہوجائے گا؛ بشرطیکہ استقامت اور پامردی ہو۔ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے “فَلِذَلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ” (۲۸) استقامت لازمی ہے، پامردی اور جم کر رہنا لازمی ہے، راستے پر مداومت سے چلتے رہنا لازمی ہے؛ راستے پر مداومت سے چلتے رہنے کی تمہیدات اور مقدمات میں سے آپ کے یہ اجتماعات ہیں، آپ کی یہ ہمآہنگیاں ہیں، آپ کی یہ تبلیغات ہیں، انھوں نے دنیا کی رائے عامہ میں زہر اگل دیا ہے”۔ (۲۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ سورہ حج، آیات ۳۹-۴۰۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: “مَنْ أَصْبَحَ لَا یَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِینَ فَلَیْسَ مِنْهُمْ وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا یُنَادِى یَا لَلْمُسْلِمِینَ فَلَمْ یُجِبْهُ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ؛ جو صبح کرے اور مسلمانوں کے معاملات کو اہمیت نہ دے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جو بھی سن لے کسی آدمی کو جو پکار رہا ہے کہ “اے مسلمانو! میری مدد کو آؤ” اور جواب نہ دے، وہ مسلمان نہیں ہے”۔ (الکلینی، الکافی، ج۲، ص۱۶۴)
۳۔ خطبۂ جمعہ ـ تہران، ۱۷/۵/۱۳۵۹ھ ش | ۸ اگست ۱۹۸۰ع‍۔
۴۔ خطاب ۱۳/۹/۱۳۶۹ھ ش | ۴ دسمبر ۱۹۹۰ع‍
۵۔ امام خمینی(قدس سرہ)، صحیفہ نور، ج۲۱، ص۸۸۔
۶۔ “الَّذِینَ آمَنُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِیَاء الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفاً؛
جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اقتدار باطل کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو شیطان کے حوالی موالی سے جنگ کرو۔ یقینا شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا ہی کرتا ہے”۔ (سورہ نساء، آیت ۷۶)
۷۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
۸۔ https://islamqa.info/fa/answers/49030 معنای توحید و انواع آن
۹۔ خطاب ۱۳۷۷/۰۴/۲۱ھ ش | ۱۲ جولائی ۱۹۹۸ع‍
۱۰۔ صوبہ اردبیل کے نوجوانوں سے خطاب ۵/۵/۱۳۷۹ھ ش | ۲۶ جولائی ۲۰۰۰ع‍
۱۱۔ بیانات در مراسم اختتامیه مسابقات حفظ و قرائت قرآن کریم‌، ۹/۸/۱۳۷۹ھ ش | ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۰ع‍
۱۲۔ امام خمینی (قدس سرہ)، صحیفۂ نور، ج۷، ص۲۹۲۔
۱۳۔ سورہ نساء، آیت ۷۵۔
۱۴۔ دنیا بھر کے حجاج کرام کے نام پیغام، ۱۴/۲/۱۳۷۴ھ ش | ۴ مئی ۱۹۹۵ع‍
۱۵۔ “وَنُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ؛
اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنہیں دنیا میں مستضعف بنایا [دبایا اور پیسا] گیا ہے اور [ہمارا ارادہ ہے کہ] ان ہی کو امام و پیشوا بنا دیں، ان ہی کو آخر میں وارث [یا قابض و متصرف] بنائیں”۔ (سورہ قصص، آیت ۵)
۱۶۔ امام خمینی (قدس سرہ)، صحیفۂ نور، ج۷، ص۲۹۲۔
۱۷۔ “الَّذِینَ آمَنُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِیَاء الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفاً؛
جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اقتدار باطل کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو شیطان کے حوالی موالی سے جنگ کرو۔ یقینا شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا ہی کرتا ہے”۔ (سورہ نساء، آیت ۷۶)
۱۸۔ دنیا بھر کے حجاج کرام کے نام پیغام؛ ۵/۹/۱۳۸۸ھ ش | ۲۶ نومبر ۲۰۰۹ع‍
۱۹۔ امیرالمؤمنین(ع)، نہج البلاغہ، حکمت ۱۷۴۔
۲۰۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۳۹۔
۲۱۔ “الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ کَثِیراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن یَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ؛
وہ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جرم و خطا کے سوا اس کے کہ ان کا قول یہ تھا کہ ہمارا مالک اللہ ہے اور اگر نہ ہوتا اللہ کا دفع کرنا بعض کو بعض کے ساتھ تو گرا دیئے جاتے راہبوں کے ٹھکانے اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت کدے اور مسجدیں جن میں اللہ کے نام کا بہت ورد ہوتا ہے اور یقینا اللہ مدد کرے گا اس کی جو اس کی مدد کرے۔ بلاشبہ اللہ طاقت والا ہے، غالب آنے والا (سورہ حج، آیت ۴۰)
۲۲۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
۲۳۔ ابن عاشور، تفسیر التحریر والتنویر، ج‌۱۱، ص‌۲۷۳٫
۲۴۔ محی الدین بن عربی، الفتوحات المکیة، ج‌۲، ص‌۲۱۷؛ خواجه عبدالله انصاری، منازل السائرین، ص‌۴۲؛ ابن قیم الجوزیة، مدارج السالکین، ج‌۲، ص‌۱۰۸٫
۲۵۔ “فَلِذَلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ؛ تو بس اسی کے لئے آپ دعوت دیتے رہئے اور مضبوطی سے استقامت کرتے رہئے [اور جمے رہئے] جیسا کہ آپ کو حکم ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کیجئے”۔
۲۶۔ فضل بن حسن طبرسی، تقسیر مجمع البیان، ج۹، ص۴۳۔
۲۷۔ طباطبائی، تفسیر المیزان، ص۳۳۔
۲۸۔ سورہ شوری، آیت۱۵۔
۲۹۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
لینک خبر : https://kheybar.net/?p=21148

 

فلسطین کو ہتھیانے کے یہودی منصوبے پر طائرانہ نظر

  • ۳۵۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: “یہودی مملکت کا نظریہ میرے دل کو نہیں بھاتا میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی؟ یہ تنگ نظری اور معاشی مشکلات سے جڑا ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ برا ہے میں ہمیشہ اس کے خلاف رہا ہوں”۔
یہودی سائینس داں البرٹ آئنسٹائن نے فلسطین کے تعلق سے “اینگلو” امریکی تحقیقاتی کمیٹی کے آگے بطور شہادت یہ الفاظ کہے تھے۔ (نیویارت ٹائمز، ۱۲ جنوری، ۱۹۴۸)
اسی مرتبہ اور اہمیت کے حامل ایک اور دانشور کو اس بدبخت فلسطینی مسئلہ کے تعلق سے یہ کہنا پڑا:
” فلسطین کے عوام کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ملک کو ایک غیر ملکی طاقت نے ایک دوسری قوم کے حوالے کر دیا تاکہ ایک نئی مملکت قائم کی جا سکے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں معصوم عوام ہمیشہ کے لیے بے گھر ہو گئے۔ ہر نئے تنازعہ کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ نہ معلوم یہ دنیا اس دانستہ ظلم کی کب تک تماشائی بنی رہے گی؟ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مہاجرین اپنے وطن پر جہاں سے نکالے گئے ہر طرح کا حق رکھتے ہیں اور حق سے انکار ہی مسلسل نزاع کا باعث رہا ہے دنیا میں کبھی بھی، کوئی قوم بھی خود اپنے ملک سے اجتماعی طور پر اخراج کو قبول نہیں کرتی تو پھر کس طرح فلسطینی عوام سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ایسی سزا کو قبول کر لیں جس کو کوئی اور برداشت نہیں کر سکتا۔
“مہاجرین کے وطن میں ان کا ایک مستقل منصفانہ تصفیہ مشرق وسطیٰ میں کسی حقیقی تصفیہ کا ایک لازمی جز ہے”۔
برئرینڈرسل نے انتقال سے پہلے اپنے آخری الفاظ فلسطینی عوام کے ان حقوق کا اس پیام میں ذکر کیا جو انہوں نے فروری ۱۹۷۰ میں منعقدہ ماہرین پارلیمانی امور کی بین الاقوامی کانفرنس کو روانہ کیا تھا۔ (نیویارک ٹائمز، ۲۳ فروری، ۱۹۷۰)
چالیس سال قبل فلسطین میں مملکت اسرائیل کے قیام کی تاریخ سے مشرق وسطیٰ جہاں اس دوران بڑے پیمانہ پر کئی جنگیں ہوئیں ایک کھولتا ہوا لاوا بن گیا ہے جو امن کے عالم کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
مسئلہ فلسطین جو تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے بنیادی طور پر ایسا مسئلہ ہے جو یہودیوں اور زیادہ تر یورپی یہودیوں کی فلسطین میں، جہاں صدیوں سے عرب آباد ہیں، عربوں کی مرضی کے خلاف لیکن برطانیہ اور آگے چل کر امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی تائید کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہاں پھر ایک بار اس امر کی وضاحت کرنا ہو گی کہ یہ تنازعہ عربوں اور یہودیوں کے درمیان نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمھجا جاتا ہے بلکہ یہ ایسا تنازعہ ہے جس کے ایک فریق عرب اور دیگر غیر صہیونی ہیں تو دوسرا فریق صہیونی یہودی اور ان کے حامی ہیں۔
فلسطین (Palestine) کا نام (philistines) سے اخذ کیا گیا ہے جو وہاں ما قبل تاریخ سے رہتے بستے ہیں فلسطین کے موجودہ باشندے ان فلسطینی کنعانی (canaanites) اور دیگر قبائل کی عرب نژاد اولاد ہیں جو بارہویں صدی قبل مسیح میں یہودیوں کے مصر سے نکل کر فلسطین میں پہلی مرتبہ آمد سے قبل رہتے بستے تھے۔ پیرس کی سوربن یونیورسٹی کے یہودی پروفیسر میگزم روڈنسن prof. maxime rodinson نے اس بات پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسطین کی عرب آبادی ہر لحاظ سے مقامی ہے اور فلسطین میں ان کی جڑیں کم از کم چالیس صدیوں سے پیوست ہیں۔
فلسطین عرب دنیا کا وہ خطہ ہے جس کے مغرب میں بحیرہ روم، شمال میں لبنان، مشرق میں شام اور دریائے اردن اور جنوب مغرب میں بحیرہ احمر اور صحرائے سینا واقع ہیں۔ ماضی میں فلسطین کو اکثر جنوبی شام کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ اس کے ایک قدرتی حصے پر مشتمل ہے۔
فلسطین کے جغرافیائی محل وقوع نے اس کو صدہا برس سے متعدد ممالک اور مسلسل تہذیبوں کے ایک گزرگاہ بنا دیا ہے۔ فلسطین کی شہرت، ساتویں صدی عیسوی میں( جو تاریخ عرب میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی ہے) جزیرہ نمائے عرب سے آنے والے عربوں کی تسخیر تک برقرار رہی۔
ساتویں صدی کے وسط سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک فلسطین مسلسل تیرہ صدیوں تک عرب قوم، اس کی زبان، تہذیب اور مقدر کے ایک اٹوٹ حصہ کے طور پر برقرار رہا۔ اپنی نوعیت کے اس واحد تاریخی اور تہذیبی موقف نے اب اس کو عرب دنیا میں بین الاقوامی سطح پر ایک خاص سیاسی موقف دیا ہے۔
ایک طرف تو فلسطین عرب دنیا کا دل ہے کیونکہ وہ اسے اس کے آفریقی اور ایشیائی حصوں سے مربوط کرتا ہے اور عرب قوم کے اتحاد میں ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف فلسطین ایک براعظموں کو ملانے والے پل کی مانند ہے جو تین براعظموں یعنی آفریقہ، ایشیا اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا یہ خصوصی محل وقوع، اس کو اس صدی کے آغاز سے ہی عالمی سامراج کے ناپاک عزائم اور جارحانہ منصوبوں کے مسلسل تابع کر رکھا ہے۔
تقریبا ۱۲۲ برس پہلے یعنی ۱۸۹۶ میں جب آسٹریا کے تھیوڈور ہیرزل (Theodore herzel) نے یہودی مملکت نامی کتاب لکھی جس میں فلسطین میں ایک یہودی مملکت کے قیام کی مانگ کی گئی تھی تو اس نے اسی وقت مشرق وسطیٰ میں جھگڑوں اور جنگوں کے بیج بو دئے تھے۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران فلسطین بھی کئی دیگر ممالک کی طرح ترکی مسلم خلافت کا ایک جز تھا۔ ۱۹۱۵ میں برطانیہ عظمیٰ نے عربوں کو ترغیب دی کہ وہ ترکی کے خلاف اس سے ہاتھ ملا لیں اور اس نے عربوں سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں جنگ کے بعد آزادی عطا کرے گا۔
تاہم ۱۹۱۶ میں برطانیہ نے عربوں سے کئے گئے ان معاہدوں کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے فرانس اور روس سے معاہدے اسکائس۔ پیکاٹ (agreement skyes picot) کے نام سے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کی رو سے یہ طے پایا کہ اتحادی (برطانیہ، فرانس اور روس) عرب ممالک اور ترکی کے ایک حصے کو آپس میں بانٹ لیں گے!۔
۱۹۱۷ میں کمیونسٹ روس کو اتحادیوں کے ساتھ جنگ میں شریک کرنے کی کوشش میں برطانیہ نے دیگر وجوہات کے علاوہ اس وجہ سے کہ بالشویک پارٹی میں زبردست یہودی اثر کو استعمال کیا جا سکے، برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کا لکھا ہوا ایک خط برطانوی نژاد یہودی لارڈراتھس چائلڈ (lord roths child) کو روانہ کیا؛
دفتر خارجہ
۲ نومبر ۱۹۱۷
ہزمجسٹی کی حکومت کی جانب سے صہیونی یہودی خواہشات کی تائید کے حسب ذیل اعلان کی جسے کابینہ میں پیش اور منظور کیا گیا، آپ کو اطلاع دیتے ہوئے مجھے مسرت ہوتی ہے۔
ہزمجسٹی کی حکومت یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک قومی وطن کے قیام کو تائیدی نظر سے دیکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اپنی تمام ممکنہ مساعی کو بروئے کار لائے گی اور اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ کوئی ایسی حرکت نہیں کی جائے گی جس سے فلسطین میں رہنے والے غیر یہودیوں فرقوں کے شہری اور مذہبی حقوق یا کسی دوسرے ملک میں یہودیوں کے حاصلہ حقوق اور سیاسی موقف متاثر ہو۔
یہ امر میرے لیے باعث ممنونیت ہو گا اگر آپ اس اعلان نامہ کو صہیونی وفاق کے علم لائیں۔
راتھر جیمس بالفور
یہ غیر معمولی اور متنازعہ مراسلہ جسے بعد میں اعلان بالفور کا باوقار نام دیا گیا فلسطین پر یہودیوں کے جدید مطالبہ کی بنیاد بن گیا۔
جب اعلان بالفور لکھا گیا تو اس وقت تک برطانوی فوجوں نے ارض فلسطین پر قدم نہیں رکھا تھا اور برطانیہ نے فلسطین پر اپنے حق حتیٰ کہ اس کی تسخیر کی بنا پر بھی کوئی ادعا نہیں کیا تھا، جس کی رو سے فلسطین کو کسی اور کے حوالے کرنے کا اس کو حق پیدا ہوتا۔
۱۹۱۷ میں یہودی فلسطین کی سات لاکھ آبادی کے صرف آٹھ فی صد پر مشتمل تھے۔ مشہور برطانوی مورخ پروفیسر آرنالڈ ٹائن بی نے اعلان بالفور کی اجرائی کے پس پشت کا فرما برطانوی ذہن کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
“ہم نے اپنی ذمہ داری سمجھ لی ہے کہ ہم ایسی چیز دوسروں کو دے ڈالیں جو کہ ہماری نہیں ہے۔ عرب ملک میں فلسطینیوں کے کسی قسم کے حقوق کو تیسرے فریق کے دینے کا اہم وعدہ کر رہے تھے”۔
مشہور یہودی مصنف آرتھر کوسٹلر نے سوچے سمجھے اور فریب آمیز اعلان بالفور کو مختصر طور پر ایک ایسی دستاویز سے تشبیہ دی ہے جس میں ایک قوم نے دوسری قوم کو ایک تیسرا ملک دینے کا وعدہ کیا ہے۔
اعلان بالفور کے پیچھے مختلف النوع محرکات کار فرما رہے ہیں، یہ بین الاقوامی صہیونی تحریک کے لیے جو خصوصا امریکہ میں بہت زیادہ پروان چڑھ رہی تھی ایک قسم کی رشوت تھی۔ بہترین توقعات کے باوجود یہ ایک مبہم سا اعلان تھا اور جزوی طور پر خود متناقض بھی اور اس کی سب سے بڑی حماقت اس کے یہ طنز آمیز یہودی فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ بن کر رہ گئے!۔
اعلان بالفور کے نتیجہ میں صورتحال بہت تیزی سے اور خطرناک طور پر خراب ہوتی گئی، مختلف حیثیتوں سے فلسطینی عربوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں بہت بدتر پایا۔ برطانیہ نے مصر اور عراق کو اور فرانس نے شام اور لبنان کو اپنا زیر نگیں کر لیا۔ اور اس بات کا بھی پورا پورا امکان تھا کہ مسٹر بالفور کی مخلصانہ دعوت پر یہودی فلسطین میں اس قدر کثیر تعداد میں آباد ہو جائیں کہ عرب خود اپنے ملک میں اقلیت بن کر رہ جائیں۔ اس امکان کو صرف فلسطین ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں غم و غصہ کے ساتھ دیکھا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

 

مسئلہ فلسطین اور عرب عوام کی حساسیت

  • ۳۷۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج کے ذرائع ابلاغ کی ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ عام آدمی کو صحیح اور حقیقی واقعات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اطلاعات کے ذرائع پر سیاسی میلانات رکھنے والوں کو کنٹرول حاصل ہونے کی وجہ سے سچائی ایک نایاب شئے بن گئی ہے! مثال کے طور پر مغربی ذرائع ابلاغ، عرب اسرائیل جنگ، عربوں کی جانب سے تیل کی سربراہی پر پابندی، جس کی وجہ سے دنیا میں معاشی بے چینی پیدا ہوئی ہے، اس “ننھے منے” بے یارو مددگار اسرائیل کا ذکر خیر، جو ایسے دشمنوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہے جو اس کو تسلیم کرنے اور اس سے گفت و شنید کرنے سے انکار کرتے ہیں تاہم ان کی یہ معلومات، تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرتی ہیں اور جس حقیقت کو وہ یا تو دبا دیتے ہیں یا چھپا دیتے ہیں اور جس سے وہ خود بھی لاعلم ہیں وہ در اصل یہ ہے کہ “ننھا منا” اسرائیل، ایک ایسا ملک ہے جو ایک دوسرے ملک، فلسطین کا خاتمہ کر کے عالم وجود میں آیا ہے۔
جب ۱۹۴۸ میں ایک نئے ملک اسرائیل کی داغ بیل ڈالی گئی تو کئی مغربی حلقوں میں یہ سمجھا گیا تھا کہ یہ نئی مملکت، مشرق وسطیٰ میں استحکام و ترقی کا ایک وسیلہ ثابت ہو گی اور عرب، جلد یا بدیر اس کے وجود کو تسلیم کر لیں گے۔
لیکن چالیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی عرب اسی طرح غیر مصالحت پسند ہیں جس طرح کے وہ ابتدا میں تھے وہ لوگ جو مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور عربوں کی نفسیات نیز انسانی نفسیات سے فی نفسہ واقف ہیں اس بات کو تسلیم کریں گے کہ عرب، یورپی یہودیوں کو فلسطین میں کبھی بھی قبول نہیں کریں گے جس طرح کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ پر حملہ آور مسیحیوں کو یا سکندر اعظم کے زمانے کے یورپی مشرکین کو قبول نہیں کیا تھا۔
اسی طرح عرب، سلطنت عثمانیہ کے غیر ملکی مسلم ترکوں سے بھی نبرد آزما رہے ہیں جنہوں نے ان کی سرزمین پر برسہا برس حکومت کی۔ الجیریا میں عرب فرانس سے جس نے وہاں تقریبا ایک سو سال تک اپنا تسلط جمائے رکھا تھا اس وقت تک لڑتے رہے جب تک کہ انہوں نے فرانسیسیوں کو اس علاقے سے نکال باہر نہ کیا۔
ان واضح تاریخی حقائق کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے مسئلہ کو اس بنیاد پر حل نہ کیا جائے کہ فلسطین کے عوام کے مکمل حقوق، علاقائی سالمیت کے ساتھ وطن کی شکل میں بحال نہ کئے جائیں۔ بالفاظ دیگر فلسطینیوں کو ان کی مملکت واپس نہ کر دی جائے، مسئلہ فلسطین اپنی موجودہ شکل میں فی الحقیقت لاینحل معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ برطانیہ فلسطین کو اپنے انتداب سے نکال چکا ہے اس لیے اسرائیل کا مسئلہ عرب دنیا کے تعلق سے ایک ایسا قضیہ ہے جسے ادارہ اقوام متحدہ کو چکانا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ادارے نے ایسی قرار دادوں کی منظوری میں کافی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے کہ جن کا مقصد اس کا حل تلاش کرنا تھا۔ اگر ان قراردادوں کو روبہ عمل لانے کے لیے نیک نیتی سے ذرا سی بھی کوشش کی جاتی تو نتیجہ بہت شاندار ہوتا۔ لیکن یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
۱۹۴۷ء میں اور پھر ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے سنجیدگی سے یہ اعلان کیا کہ فلسطینی عرب مہاجرین کو اس بات کا پورا پورا حق ہے وہ اپنے گھروں کو واپس ہوں اور اگر وہ اس حق سے استفادہ کے خواہاں نہ ہوں تو ان کے مادی نقصانات کی مکمل پابجائی کی جائے۔ فلسطینی مہاجر نہ اپنے گھر لوٹے اور نہ ہی انہیں کوئی معاوضہ ملا۔ وہ اب بھی مہاجر ہیں۔ ابھی تلک یہ جلا وطن لوگ محتاج، مفلس، فلاکت زدہ، بھوکے اور بدحال ہیں، جو کمیونسٹ پروپیگنڈے کا آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ انسان کے انسانوں سے ظالمانہ سلوک کی بدترین مثال ہے۔
لیکن اس صورت میں کم از کم ایک امر باعث اطمینان یہ ہے کہ فلسطین بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے اور عربوں کی جانب سے اسرائیل کی مخالفت کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکر کمیونزم کے ملحدانہ عقیدے کی قبولیت بھی ان کی مخالفت کے جذبے کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بار ایک تحریری مقابلہ جو تمام قوموں کے ادیبوں کے لیے کھلا تھا، اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے منعقد کیا گیا کہ “ہاتھی” کے موضوع پر کس کے مضمون کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ ایک جرمن ادیب نے ایک پر مغز مقالہ، “ہاتھی، ایک وضاحتی مطالعہ” پیش کیا۔ فرانسیسی قلمکار نے ایک مختصر سا مضمون “ہاتھی کی جنسی زندگی” پر لکھا۔ ایک انگریز نے ایک مختصر معلوماتی کتابچہ “مجھے ہاتھی کا شکار کرنا پڑا” تیار کیا۔ ڈنمارک کے ایک باشندے نے پکوان کی ایک کتاب “ہاتھی کے گوشت کے قتلوں سے پکوان کے چالیس طریقے” تحریر کیا۔ لیکن اس مقابلے میں حصہ لینے والے واحد عرب نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا “مسئلہ فلسطین کے حل میں ہاتھی کا کردار”!۔
اس میں شک نہیں کہ یہ قصہ من گھڑت ہے لیکن یہ ایک موزوں طریقے پر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مملکت اسرائیل کے وجود کے تعلق سے عرب احساسات کس قدر شدید ہیں۔ بلاشبہ کوئی بھی عرب علانیہ طور پر اس بات کا اعتراف نہیں کر سکتا کہ ایک نئی آزاد مملکت “اسرائیل” وجود میں آ چکی ہے البتہ وہ جذباتی طور پر یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ طاقت کے ذریعے اس کو نیست و نابود کر دیا جائے۔
ساری دنیا خواہ کچھ ہی کہے، سچ پوچھئے تو آج بھی عربوں کے لیے در اصل اسرائیل ہی فلسطین ہے۔ جو ان کی دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور صدیوں سے محبت اور امن کی یہ سرزمین، مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر ایک مذہبی مسکن ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ فلسطین پر صہیونیوں کی گرفت غیر فطری ہے۔ آخر کب تک ایک “شائی لاک” “انطونیو” (ولیم شیکسپیئر کا ڈراما “وینس کا سوداگر” کے دو اہم کردار) کو اپنی گرفت میں رکھ سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد/ت/

 

یہودی غاصبوں کی پیٹاگونیا بھاگنے کی تیاریاں

  • ۳۵۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پیٹا گونیا کا رقبہ ۹ لاکھ کلومیٹر کے لگ بھگ ہے یا یوں کہئے کہ یہ سرزمین پاکستان سے بڑی ہے۔ پیٹا گونیا بھی آبادی سے خالی سرزمین نہیں ہے بلکہ یہاں ۲۰ لاکھ کے قریب لوگ بھی رہتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کو بھی اپنا انجام فلسطینیوں جیسا نظر آرہا ہے۔
پیٹاگونیا قدرتی عجائبات کے لئے بھی مشہور ہے؛ جس کے مغرب اور جنوب میں انڈیس (Andes) پہاڑی سلسلہ اور مشرق میں نشیبی صحرائی علاقہ ہے۔ پیٹاگونیا کا چلی والا حصہ شہر پویرتو مونت سے شروع ہوتا ہے اور اس کا ارجنٹائن والا حصہ دریائے کولوراڈو (Colorado River [Argentina]) کے جنوب سے شروع ہوتا ہے۔  
لیکن جس چیز نے حالیہ برسوں میں لاطینی امریکہ کی سیاسی اور ابلاغیاتی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے، نہ تو یہاں کا خوشگوار موسم اور بےمثل چشم و چشم نواز نظارے نہیں ہیں بلکہ صہیونیوں کی نقل مکانی اور پیٹاگونیا میں زمین کی خریداری واحد اہم موضوع ہے جو چلی اور ارجنٹائن کے حلقوں کا موضوع سخن بنی ہوا ہے۔
یہ ایک دعوی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا نوظہور مسئلہ ہے کہ آج آشکارا کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ حقیقت کا روپ اختیار کرچکا ہے۔ اسی سلسلے میں اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے آغاز میں جو مسودہ “روتھشیلڈ خاندان” (Rothschild Family) کو دستاویز کے طور پر دیا گیا، اس میں پیٹاگونیا یہودی ریاست کی سرزمین قرار دی گئی تھی۔
 
پیٹاگونیا کا معتدل موسم، یہاں کی مالامال معدنیات اور مختصر سی آبادی، اس علاقے کو صہیونیوں کے لئے دلچسپ بنا رہی تھی۔ [گویا اسلام دشمن مغربی طاقتیں بھی جانتی تھیں کہ سرزمین فلسطین تر نوالہ نہیں ہے اور آخرکار یہودیوں کو یہاں سے رخت سفر باندھنا ہے چنانچہ انھوں نے وقتی طور پر یہودیوں سے جان چھڑانے کی غرض سے ان کو فلسطین کا قبضہ دلوایا اور پیٹاگونیا کو یہودیوں کا آخری ٹھکانا قرار دیا چنانچہ اب یہودیوں کو فلسطینی سرزمین پر ان کے مطلوبہ مسیح کے نزول سے زیادہ، فلسطینی بچوں کے غلیلوں سے بھاگنے کے فکر کھائے جارہی ہے اور پیٹاگونیا میں زمین کی خریداری کے سلسلے میں اسی بنا پر شدت آئی ہے]۔
کئی سالوں سے ارجنٹائن اور چلی کے متعدد سیاستدان یہودی سرمایہ داروں کے ہاتھو پیٹاگونیا کی زمینوں کی خریداری پر تنقید کررہے ہیں لیکن جیسا کہ اندازہ لگایا جاتا ہے، ان دو ممالک کے ذرائع ابلاغ نیز دنیا کے بڑے ذرائع، گویا کہ اس موضوع کو ہوا نہیں دینا چاہتے!!!
 پیٹاگونیا میں صہیونیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں چلی کے سینیٹر کے انکشافات
اسی سلسلے میں یہودی ریاست کے اخبار ہاآرتص نے دسمبر ۲۰۱۳ع میں چلیائی سینیٹر یوگینیو توما (Eugenio Tuma) کے حوالے سے لکھا کہ “اسرائیلی فوجی چلی میں نقشہ کشی کررہے ہیں اور پیٹاگونیا کو دنیا کے یہودیوں کی جائے پناہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں”۔
ہاآراتص کے مطابق، مذکورہ سینیٹر ـ جو چلیائی سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ بھی رہے ہیں ـ نے کہا تھا کہ “چلی کی حکومت سیاحت کے بھیس میں ہونے والے اقدامات کی نسبت غیر جانبدار نہیں رہ سکتی؛ کیونکہ اسرائیل کے ہزاروں ریزرو فوجی تسلسل کے ساتھ پیٹاگونیا کا دورہ کررہے ہیں”۔  
سینیٹر توما نے سنہ ۲۰۱۳ع‍ کے بعد بھی متعدد رپورٹیں شائع کی ہیں جن میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ پیٹاگونیا پر یہودیوں کے قبضے کا آغاز سنہ ۱۸۸۶ع‍ میں سوئٹزر لینڈ کے شہر باسیل (Basel) میں تھیوڈور ہرزل کی صدارت میں منعقدہ خفیہ کانفرنس ہی سے ہوچکا تھا۔
واضح رہے کہ پیٹاگونیا کا دو لاکھ ۵۶ ہزار کلومیٹر مربع حصہ چلی میں اور سات لاکھ ۸۷ ہزار کلومیٹر مربع حصہ ارجنٹائن میں واقع ہوا ہے اور طے یہ پایا ہے کہ اس سرزمین کو عالمی یہودیوں کی متبادل سرزمین میں تبدیل کیا جائے۔ ادھر چلی کے دارالحکومت میں مقیم یہودیوں کے سربراہ نے سیاسی جماعت ” Party for Democracy” کو خط لکھ کر مذکورہ سینیٹر کے موقف کی مذمت اور ان کی برخاستگی کا مطالبہ کیا۔
اس علاقے کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ یہاں آنے والے سیاحوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی اور عبرانی زبانی کے فروغ کی کوششیں ناقابل انکار ہیں۔
ایک برطانوی یہودی ارب پتی ملوث ہے
ایک ایرانی سفارتکار “محسن پاک آئین” اس سلسلے میں لکھتے ہیں: “ارجنٹائن کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہودی ریاست برطانیہ کے خفیہ اداروں اور صہیونیت کے حامی عناصر کی مدد سے پیٹاگونیا میں اراضی خرید رہی ہے اور حال ہی میں ارجنٹائن کے بعض ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹ میں ایک برطانوی یہودی ارب پتی جو لیویس (Joseph C. Lewis) کے ہاتھوں لاکھوں اسرائیلیوں کی آبادکاری کے لئے پیٹاگونیا میں اراضی کی خریداری پر حیرت اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔۔۔ جولیویس نے ارجنٹائن اور چلی کے درمیانی علاقے میں وسیع اراضی خرید لی ہیں اور مشہور ہے کہ اس کی ملکیتی زمین اسرائیلی قلمرو سے کئی گنا بڑی ہے۔ زیادہ تر خریدی گئی اراضی تےرا دیل فےگو (Tierra del Fuego) کے علاقے میں واقع ہیں۔ لاگو ایسکونڈیڈو (Lago Escondido) کے علاقے میں بھی وسیع اراضی کی خریداری اس یہودی ـ برطانوی ارب پتی کے منصوبے میں شامل ہے”۔  
 گارجین: پیٹاگونیا کے مقامی باشندے اسرائیلیوں کی آمد سے ناراض
روزنامہ گارجین نے جنوری سنہ ۲۰۱۵ع‍ میں ایک رپورٹ کے ضمن میں نام نہاد یہودی سیاحوں کی آمد سے ارجنٹینی پیٹاگونیا کے عوام اور اس علاقے کے مقامی باشندوں کی شدید ناراضگی پر مبنی رپورٹ شائع کردی۔ رپورٹر نے لکھا تھا کہ اس علاقے میں موجود یہودیوں کو علاقے کے اصلی باشندوں کی بدسلوکی کا سامنا ہے۔
گارجین، جو اپنی پرانی پالیسی کے مطابق یہودیوں کو مظلوم بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے، لکھتا ہے: “جنوبی ارجنٹائن میں واقع پیٹاگونیا کے مقامی لوگوں کی طرف سے نو وارد یہودی آبادکاروں کے ساتھ بدسلوکی میں اس لئے بھی اضافہ ہوا ہے کہ وہ سمجھے ہیں کہ جو یہودی حال ہی میں اس علاقے میں آبسے ہیں، در حقیقت اسرائیلی فوجی ہیں”۔
گارجین نے ارجنٹائن کے یہودیوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر دعوی کیا ہے کہ “اس علاقے میں یہود مخالف اقدامات اور نازیت کی حمایت میں اٹھائے جانے والے نعروں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور عوام پیٹاگونیا سے یہودیوں کے فوری انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں”۔
فلسطین سے فرار صہیونیوں کی حتمی قسمت
غاصب یہودیوں کے لئے متبادل سرزمین کا موضوع نہایت حساس اور اہم موضوع ہے جس پر بحث و تمحیص کی کھلی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاتی ہے۔ اگرچہ سنہ ۲۰۰۶ع‍ میں حزب اللہ کے ساتھ ۳۳ روزہ جنگ کے بعد سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی شروع ہوچکی ہے اور حال ہیں غزہ، لبنان اور جولان کی طرف سے مقبوضہ فلسطین میں قائم غاصب یہودی ریاست کے شدید محاصرے کے بعد سے اس نقل مکانی میں مزید شدت آئی ہے اور اسی بنا پر مقبوضہ سرزمین سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی ایک بار پھر مختلف حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی ذرائع نے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی اور دوبارہ آبادکاری کے لئے کینیڈا، پولینڈ اور جنوبی سوڈان کے کچھ علاقوں کا جائزہ لینے کے بارے میں رپورٹیں شائع کی ہیں۔
دریں اثناء اگرچہ رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) نے یہودی ریاست کے خاتمے کی پیشگوئی کی ہے لیکن وہ اس حوالے سے تنہا نہیں ہیں اور سنہ ۱۹۹۰ع‍ کے عشرے سے کچھ یہودی علماء اور مفکرین نے بھی اسرائیل نامی ریاست کے تسلسل کو ناممکن قرار دیا ہے اور یہ مفکرین ـ ان کے بقول ـ مقدس سرزمین میں یہودی ریاست کی بقاء کو ناممکن سمجھ رہے ہیں۔ نیز، بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ علاقے میں ایک طویل المدت اور شدید لڑائی شروع ہونے کی صورت میں دنیا بھر سے مقبوضہ سرزمین میں آبسنے والے یہودی نہایت تیزی کے ساتھ فلسطین کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کی طرف فرار کریں گے۔
 
اسی بنا پر مسئلہ فلسطین کے آغاز سے کئی عشرے گذرجانے اور فلسطینی کاز کو فراموشی کے سپرد کروانے کے لئے درجنوں منظرناموں کے نفاذ کے باوجود، مسلم اقوام، مغرب کے آگے سجدہ ریز حکمرانوں کے برعکس، فلسطینی سرزمین اور یہاں کے مظلوم عوام کی پشت پناہی کی پابند ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کہلوانے والی غاصب ریاست، سرزمین فلسطین میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد ہر صورت میں اس سرزمین اپنا غاصبانہ قبضہ قائم رکھنا چاہتی ہے جو لبنان، شام اور فلسطین کی مجاہد اقوام کی جدوجہد کی بنا پر ممکن نہیں، چنانچہ یہ ریاست اسی اثناء میں متبادل سرزمینوں کو بھی مدنظر رکھی ہوئی ہے کیونکہ امریکہ کی غیر محتاطانہ اور بےتحاشا حمایت کے باوجود، اس ریاست کی صورت حال ہمیشہ سے زیادہ نازک اور زیادہ متزلزل ہے اور یہودی ریاست کے منتظمین اپنی موجودگی کا اختتام اب بغیر عینک کے بھی دیکھ سکتے ہیں؛ گویا یہ ایک وقتی ٹھکانا تھا جو اسرائیل کی بنیاد رکھنے والے یورپیوں نے یہودیوں کے شر سے بچنے اور مسلمانوں کو سزا دینے کے لئے ان کے سپرد کیا تھا اور پیٹاگونیا ابتدائی دستاویزات کے مطابق ان کی دائمی سرزمین قرار دی گئی تھی چنانچہ اب وہ اپنی دائمی سرزمین میں بس جانے کی تیاری کررہے ہیں گوکہ پیٹاگونیا کے عوام بھی بظاہر انہیں خیرمقدم کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور وہاں جانے کے بعد انہیں کسی تیسری اور چوتھی متبادل سرزمین کا تعین بھی کرنا پڑے گا۔
منبع: mshrgh.ir/952902
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مہدویت اور عیسائی صہیونیت

  • ۴۴۸

خیبر تجزیاتی ویب گاہ: خداوند عالم نے قوم بنی اسرائیل کو جو متعدد بشارتیں دیں، ان بشارتوں میں سے ایک پیغمبروں کا مبعوث کیا جانا تھا جو انہیں راہ حق کی طرف راہنمائی کرتے اور طاغوت کے ظلم و ستم سے انہیں رہائی دلاتے۔ لیکن اس قوم نے اللہ کے پیغمبروں کے مقابلے میں ایسا کردار ادا کیا کہ قرآن نے انہیں “پیغمبر کش” قوم کے نام سے یاد کیا ہے۔
خداوند عالم کی جانب سے قوم بنی اسرائیل کو دی جانے والی بشارتوں میں سے ایک آخری پیغمبر کی بعثت کی بشارت تھی۔ علاوہ از ایں خداوند عالم نے انہیں راہ حق پر گامزن رہنے کی صورت میں مزید دو وعدے دیئے ایک حضرت عیسی (ع) کی ولادت اور دوسرا مہدی موعود کا ظہور۔
عیسائیت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک “انتظار” ہے جو اسلام اور عیسائیت کے درمیان ایک مشترکہ عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں پروردگار عالم مومنین کی نسبت یہودیوں کی دشمنی کو بدترین دشمنی قرار دیتا ہے وہاں عیسائیوں کو اسلام سے نزدیک گردانتا ہے۔
َتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ (مائده: ۸۲)
(آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں۔)
خداوند عالم نے اس آیت میں مسلمانوں کو عیسائیوں کے ساتھ ملنسار اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کی دعوت دی ہے اور خاص طور پر اس اعتبار سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام امام مہدی موعود کے ساتھ ظہور کریں گے اور ان کے ساتھیوں میں سے ہوں گے، عیسائیوں کے ساتھ مہر محبت سے پیش آنا اور انہیں بھی انتظار کی راہ میں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہماری ذمہ داری ہے۔
مسلمانوں نے قرآن کریم کی اس اسٹریٹجک پالیسی کو نظر انداز کر دیا لیکن یہودیوں نے اس کے باوجود کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی دینے کی کوشش کی اپنی چالاکی اور زیرکی سے عیسائیوں کو اپنی مٹھی میں لے کر مسلمانوں کے خلاف محاذآرائی کے لیے اکسایا، یہودیوں نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان انتظار کا عنصر ایک مشترکہ عنصر ہے جو انہیں آپس میں قریب کر سکتا ہے لہذا انہوں نے انجیلی عیسائیوں جو ایک اعتبار سے صہیونی عیسائی بھی ہیں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ انجیلی عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (ع) اس وقت ظہور کریں گے جب یہودی بیت المقدس پر قابض ہوں گے۔ انجیلی عیسائی وہ بانفوذ گروہ ہے جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں حمایت کی اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اور ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کر کے ان کا حق ادا کیا۔
لہذا اگر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہمدلی اور باہمی تعاون وجود پا جائے تو یقینا یہ عالمی صہیونیت کے ضرر میں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

"ٹرمپ کی گائیں" کے ہاتھوں میں فلسطین کی قسمت ؟!

  • ۳۵۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: وہ ثبوت، جو سینئر اسرائیلی عہدیداروں کے بیانات میں دہرائے گئے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بحرین جلد ہی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ طور پر تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کرے گا۔ صہیونی عہدیداروں کے مطابق ، بحرین واشنگٹن میں "اسرائیل-متحدہ عرب امارات" امن معاہدے پر دستخط کے فورا بعد ہی اسرائیل سے اپنے تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کرے گا ، اس معاہدے پر  23 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں دستخط کئے جانے کی توقع ہے۔

ان تبدیلیوں کے بیچ ، عبرانی زبان کے ٹائمز آف اسرائیل اخبار نے خفیہ اطلاعات کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدہ دیگر خلیجی عرب ریاستوں خصوصا عمان ، بحرین اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، بحرین اور امارات کے برعکس، اپنے تعلقات معمول پر لانے کی خواہش ظاہر نہیں کر رہا ہے ، اور نارمل طور پر سعودی عرب اندرونی اختلافات کی وجہ سے سب سے آخری ملک ہو گا جو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا اعلان کرے گا۔

لندن کالج میں مشرق وسطی کے ایک محقق ، آندریاس گریک کا کہنا ہے کہ ، "بحرین سعودی-اسرائیلی رابطوں کا مرکز بن جائے گا۔"

بدقسمتی کی بات ہے کہ عربوں نے بھی مسئلہ فلسطین اور حتی کہ فلسطینیوں کی تقدیر کو "تیل والے شیخون" پر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود "معاشی بحران" اور "ٹرمپ کے انتقام کا خوف" سمیت جھوٹے بہانے اور دعوؤں کو لے کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ہیں۔

جب کہ وہ بخوبی واقف ہیں کہ "تیل والے شیخ" نہ صرف صہیونی ریاست کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ اس شیطانی حکومت کی بقا کے اہم عوامل کا حصہ ہیں۔ یہ تیل والے شیخ ہمیشہ امریکی اور صہیونی مفادات کی خدمت میں ہیں، اور آج وہ اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر اپنے آقاؤں یعنی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں جو سیاسی شکست اور مالی فساد میں گرفتار ہیں اپنے آقاووں کو بچانے کے لیے اگر چہ انہیں فلسطین کو داؤ پر ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تیل والے شیخ یہ بھول گئے ہیں کہ اسرائیل نے اب تک ان کے حق میں ایک گولی بھی نہیں چلائی ہے اور اسے خود زندہ رہنے کے لئے کسی حامی کی ضرورت ہے۔ چونکہ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ انہوں نے اپنے شہروں کو شیشے کے شہر بنا لیا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہیں اور شکاری کے لیے ان کو شکار کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔

اسرائیل اور عرب امارات کے مابین 25 سالہ خفیہ تعلقات

  • ۳۴۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے امارات کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے میں متحدہ عرب امارات کی ایف 35 جنگی طیارے کے خریدنے پر آمادگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تل ابیب کے ابوظہبی کے ساتھ 25 سال کے خفیہ تعلقات نے اس معاہدے کی راہ ہموار کی ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، اسرائیلی وزارت خارجہ کے رابطہ اور مواصلات کے دفتر کے سربراہ ایلیاو بینجمن نے بتایا کہ اسرائیل گزشتہ 25 سالوں سے ابوظہبی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی سفارتی کوششوں میں جٹا رہا ہے۔
روزنامہ ہاآرتض نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تل ابیب اور ابوظہبی کا معاہدہ کوئی ایسا اتفاق نہیں ہے جو ایک رات میں حاصل ہو گیا ہو بلکہ اس کے پیچھے 25 سال کی پشت پردہ زحمتیں ہیں جو اب مثمر ثمر واقع ہوئی ہیں۔
اس اخبار نے مزید لکھا ہے کہ مصر اور اردن کے برخلاف اسرائیل اور امارات کے مابین غیر عسکری خفیہ سفارتی تعلقات کافی عرصے سے برقرار تھے۔
ایلیاؤ بینجمن جو عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی برقراری کے عہدیدار ہیں نے امارات کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بتایا: ’’یہ سب اوسلو معاہدے کے بعد شروع ہوا ، جب وزیر خارجہ شمعون پیریز (وقت کے وزیر خارجہ) ہمارے پاس آئے اور ہمیں کہا کہ عالم اسلام کی طرف دروازے کھول دیں۔"
انہوں نے اس بارے میں مزید کہا: "ہم نے سینئر عہدیداروں کی اجازت سے واشنگٹن ، نیویارک اور ابوظہبی میں ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔" آہستہ آہستہ اور خاموشی سے ... پہلے زیادہ تر سرگرمیاں معاشی تھیں، جس کا مقصد سفارتی شعبے میں توسیع کرنا تھا۔ 2002 میں ، جب وہ دبئی میں الماس ایکسچینج قائم کرنا چاہتے تھے تو [اسرائیلی] صراف (اکسچینجر) راماتوگن کو ہم نے نمونہ قرار دیا  اور ہمیں وہاں ہمیں غیر متوقع کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ہم نے ان کے ساتھ کئی مذاکرات کئے اور دسیوں اسرائیلی تاجروں کو امارات میں تجارت کے لیے بھیج دیا۔‘‘
ہاآرتض کے مطابق صہیونی وزیر خارجہ نے بھی ان سالوں کوشش کی تاکہ 500 اسرائیلی کمپنیوں جن میں زیادہ تر عسکری نظام سے تعلق رکھتی تھیں کو امارات کی مارکیٹ میں اتار سکیں۔
اس صہیونی عہدیدار نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا متحدہ عرب امارات کی F-35 لڑاکا طیارے خریدنے کی خواہش، آئندہ امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل میں قبل از وقت ہونے والے انتخابات کے امکان پر اثرانداز ہوئی؟ کہا: کہا جا سکتا ہے کہ تمام ناممکن اتفاقات کے رخ پانے کے بعد یہ معاہدہ انجام پایا ہے۔
بینجمن نے اس بارے میں مزید کہا: "یہ ٹھیک ہے کہ وہ ایف 35 خریدنا چاہتے ہیں ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس مسئلے کے ساتھ ساتھ، الحاق کے منصوبے کا نفاذ یا عدم نفاذ کا مسئلہ بھی زیر غور تھا۔ نیز دیگر ممالک کے سربراہان بھی موجود ہیں جو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کیا نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ یہ سب درست ہے۔"
دو ہفتے قبل، واشنگٹن، ابوظہبی اور تل ابیب نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں، ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زائد اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ اس کے بعد باہمی تعاون سے کام کریں گے۔
گذشتہ روز صہیونی میڈیا نے متحدہ عرب امارات کی وزارت امور خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل ناصریہ شہر یا حیفا کی بندرگاہ میں قونصل خانے کے افتتاح کا خواہاں ہے۔