-
Tuesday, 15 September 2020، 12:42 AM
-
۴۱۷
بقلم مرتضیٰ نجفی قدسی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: افسوس کے ساتھ ایک مرتبہ پھر بعض بظاہر متمدن ممالک میں قرآن کریم اور پیغمبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں جس کی ایک مثال سویڈن میں قرآن کریم کو جلایا جانا اور فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو میں پیغمبر اسلام کا کارٹون چھاپا جانا ہے اس توہین آمیز اقدام نے تمام اہل توحید اور انبیاء الہی کے ماننے والوں کے دلوں کو مجروح کیا ہے جبکہ ایسا جاہلانہ اقدام کسی بھی متمدن معاشرے کے شایان شان نہیں ہے۔
اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ بعض اسلام مخالف ایجنسیاں اس طرح کے پروپیگنڈے کرواتی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ دیگر ادیان کے پیروکار قرآن کریم کی نسبت شناخت اور معرفت بھی نہیں رکھتے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس جاہلانہ اقدام کے سامنے خاموشی اختیار کریں اور کوئی عکس العمل ظاہر نہ کریں۔
اگر عیسائی اور یہودی جان لیں کہ ان کے پیغمبروں کی سب سے اچھی تعریف قرآن کریم نے بیان کی ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ دسیوں بار، تو یقینا قرآن کا احترام کریں گے۔
ان کے لیے یہ جان لینا دلچسپ ہو گا کہ قرآن کریم میں ۲۶ پیغمبروں کے نام ذکر ہوئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ جناب موسی کا تذکرہ ہے یہاں تک کہ ۱۳۶ مرتبہ آپ کا نام قرآن کے ۳۶ سوروں میں ذکر ہوا ہے جو مجموعی طور پر ۴۲۰ آیات ہیں۔
حضرت موسیٰ (ع) کا قصہ، ان کی ولادت اور زندگی کے نشیب و فراز کو تفصیلی طور پر قرآن میں بیان کیا گیا ہے اور فرعون کے دور میں بنی اسرائیل کے افسوسناک حالات یہاں تک کہ جناب موسیٰ(ع) کا مصر سے نکلنا اور جناب شعیب کی بیٹی سے شادی کرنا، پھر جناب موسی کی جناب خضر (علہیما السلام) سے ملاقات، کوہ طور پر اپنے پروردگار سے گفتگو اور نور الہی کو دیکھنا اور پھر مقام رسالت پر فائز ہونا اس کے بعد لوگوں کو دعوت توحید دینا، فرعون کا مقابلہ کرنا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و تشدد سے نجات دلانا، اور پھر عصائے موسیٰ کا معجزہ اور ساحروں کا ایمان لانا، بنی اسرائیل کا مصر سے نکلنا اور دریائے نیل کا عصائے موسیٰ کے ذریعے شگافتہ ہونا، اور بنی اسرائیل کا دریا سے عبور کرنا اور فرعونیوں کا دریائے نیل میں غرق ہونا اور دسیوں واقعات دیگر جو قرآن کریم نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کئے ہیں۔
اسی طرح حضرت عیسی کا اسم مبارک ۲۵ مرتبہ عیسی کے نام سے اور ۱۳ مرتبہ مسیح کے نام سے ذکر ہوا ہے حضرت مریم (س) کا قصہ، جناب عیسی (ع) کی ولادت کا واقعہ اور ان سے متعلق دیگر تمام حالات قرآن کریم کی متعدد آیات میں بیان ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ خود حضرت مریم (س) کے نام سے ۹۸ آیتوں پر مشتمل ایک مکمل سورہ بھی قرآن میں موجود ہے۔ جس میں اس پاکیزہ خاتون کے حالات اور جناب عیسی کی ولادت اور گہوارے میں ان کا گفتگو کرنا بیان ہوا ہے؛«قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللَّهِ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا (۳۰) وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا» حضرت عیسی نے گہوارے میں کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں کہ جس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے پیغمبر بنایا ہے۔
ان دو بزرگ اور اولوالعزم نبیوں کے واقعات جس طریقے سے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں توریت و انجیل میں بیان نہیں ہوئے چونکہ وہ تحریف کا شکار ہو گئیں اور حقائق کو موڑ توڑ کر ان میں بیان کیا گیا ہے حتیٰ کہ ان دو کتابوں میں انبیاء کو خطاکار اور گناہ گار بھی کہا گیا ہے جبکہ قرآن کریم تمام انبیاء کو معصوم قرار دیتا ہے خاص طور پر اولوالعزم انبیاء یعنی حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسی علیہم السلام، اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں خصوصی گفتگو کی ہے اور ان کی شخصیت کو پہچنوایا ہے۔
اس کے علاوہ، قرآن کریم میں ۴۳ بار جناب نوح، ۶۸ مرتبہ حضرت ابراہیم، ۲۷ مرتبہ جناب لوط، ۲۵ مرتبہ حضرت آدم، ۲۷ بار حضرت یوسف، ۱۲ مرتبہ جناب اسماعیل، ۱۷ مرتبہ جناب اسحاق، ۱۱ مرتبہ حضرت شعیب، ۱۷ مرتبہ حضرت سلیمان، ۱۶ بار حضرت یعقوب، ۵ بار حضرت یحییٰ، ۴ بار حضرت ایوب، ۹ بار جناب صالح، ۷ مرتبہ حضرت ہود، ۴ مرتبہ جناب یونس، ۱۶ مرتبہ حضرت داوود، ۲۰ مرتبہ جناب ہارون، ایک مرتبہ جناب عزیر، دو مرتبہ جناب ادریس، الیاس، الیسع اور ذوالکفل کا تذکرہ ہوا ہے۔
جبکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کا نام گرامی صرف ۴ بار قرآن میں آیا ہے اور ایک مرتبہ ’احمد‘ کے نام سے بیان ہوا ہے، البتہ دیگر القاب جیسے رسول اللہ، الرسول، النبی، اور امی متعدد آیات میں ذکر ہوئے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ گزشتہ انبیاء کے حالات پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم دراصل کتاب توحید ہے کتاب معرفت پروردگار ہے، جو انبیاء کی دعوت کے ڈھانچے میں بیان ہوئی ہے البتہ معاد اور قیامت پر عقیدہ جو انبیاء کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے بھی قرآن کے بیشتر حصے کو تشکیل دیتا ہے قرآن کریم کی صرف پانچ سو آیتیں ایسی ہیں جن میں شرعی احکام بیان ہوئے ہیں باقی سارا قرآن اخلاقیات و عقائد پر مبنی ہے۔ البتہ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ انبیاء کا ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ، عدالت اور انصاف کے نفاذ کے لیے جد و جہد، انسانی حقوق کا دفاع اور ظلم و تعدی کا مقابلہ کرنے کی تاکید جیسے موضوعات جو انبیا کی زندگی کا حصہ رہے ہیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں۔
اگر کوئی صحیح معنی میں گزشتہ انبیاء کو پہچاننا چاہتا ہے، حضرت عیسی، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء، نیز حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کے جانشینوں کو پہچاننا چاہتا ہے تو اسے ادھر اودھر بھٹکنے کے بجائے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ قرآن کریم اللہ کا پیغام ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے آیا ہے، اور انسان کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جانے کے لیے نازل ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے : «اللَّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ...»
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ وہ کتاب جو مجسمہ ہدایت ہو، جو نور کا پیکر ہو جو انبیاء کے واقعات پر مشتمل ہو، اس کی توہین کرنا انسانیت کے حق میں کس قدر ظلم ہے یہ شیطانوں کا کام ہے جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انسانیت ہمیشہ ظلمت اور تاریکی میں ڈوبی رہے تاکہ وہ ان پر آسانی سے اپنی ظالمانہ حکومتوں کو جاری رکھ سکیں، لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خدا کا وعدہ ہے کہ آخر کار روئے زمین پر صالح اور نیک لوگوں کی حکومت قائم ہو گی اور اس حقیقت کو نہ صرف قرآن بلکہ توریت اور زبور میں بھی بیان کیا گیا ہے «وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ» (انبیاء، ۱۰۵) ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے۔ ظالم، جابر، ستمگر اور مستکبر حکمران جان لیں کہ قرآن کریم انہیں پانی کے بلبلوں سے تعبیر کرتا ہے کہ جو ایک پھونک سے نابود ہو جاتے ہیں یہ بیہودہ تلاش و کوشش کسی نتیجے تک نہیں پہنچے گی۔
«وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ».