امریکی ریپبلکنز سفید فام اسرائیل کے شیدائی کیوں ہیں؟

  • ۳۴۷

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: اگر آپ نے ایلہان عمر، رشیدہ طلیب، الگزانڈریا اوسکاریو کورٹز اور ایانا پریسلی (Ilhan Omar, Rashida Talaib, Alexandria Ocasio-cortez and , Ayana Pressley) کے نام ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ الفاظ سنے ہوں کہ “جہاں سے آئی ہو وہیں چلی جاؤ” تو یقینا اس عجیب نکتے کو بھی سمجھ چکے ہونگے۔ ٹرمپ کے حامیوں کا اشارہ ہمیشہ اسرائیل کی طرف ہوتا ہے۔ جب لنڈسے گراہم (Lindsey Graham) سے ان افراد پر ٹرمپ کے حملہ آور ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ “یہ لوگ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں!” اور اپنا رد عمل اس طریقے سے ریکارڈ کروایا۔ ریپبلکن سینیٹر لی زیلڈین (Lee Michael Zeldin) نے بھی ایلہان عمر اور طلیب کو “اسرائیل دشمن” قرار دیا۔ یہاں تک کہ ٹرمپ نے بھی اس تنازعے پر اپنا رد عمل دکھاتے ہوئے کہہ دیا کہ “ایلہان عمر اسرائیل سے نفرت کرتی ہیں”
عجیب مسئلہ ہے۔ یہ مطالبہ اتنا ہی قابل ادراک ہے جتنا کہ ایک امریکی سیاستدان سے کہا جائے کہ امریکی وطن پرستی کے ناکافی اظہار کی وجہ سے اسے امریکہ سے چلا جانا چاہئے۔ اگرچہ یہ مطالبہ کم از کم جانا پہچانا ہے۔
“امریکہ وہ جس سے یا تو محبت کرو یا پھر اسے ترک کرو” ۱۹۶۰ع‍ کی دہائی سے ایک قدامت پسندانہ نعرہ رہا ہے۔ عملی طور پر بےمثل مسئلہ یہ ہے کہ ایک امریکی سیاستدان سے مطالبہ کیا جائے کہ چونکہ اس نے ایک بیرونی ریاست کے تئیں کافی شافی عقیدت کا اظہار نہیں کیا ہے لہذا اسے امریکہ کو ترک کردینا چاہئے۔ کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ ٹرمپ کینیڈا، بھارت یا جاپان سے نفرت کی بنا پر ایلہان عمر اور ان کے ساتھیوں کے امریکہ سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کریں اور ریپبلکن سیاستدان ان کے اس مطالبے کی حمایت کریں؟
بےشک یہ تصور ممکن نہیں ہے؛ دلیل یہ ہے کہ ریپبلکن سیاستدان مزید اس انداز سے بات نہیں کرتے کہ اسرائیل یہ ایک بیرونی ریاست ہے۔ وہ اسرائیل کی محبت کو امریکہ کی محبت سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ کیونکہ وہ اسرائیل کو ایک ایسی مثالی امریکی ریاست کے لئے نمونہ سمجھتے ہیں وہ ریاست جس کی وہ آرزو کرتے ہیں: ایک نسل پرست سفید فام جمہوریت!
اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے۔ ٹرمپ اور ان کے بہت سے حلیف امریکہ کو ایک ای سفید فام یہودی-عیسائی ملک چاہتے ہیں۔ گوکہ اسرائیلی ریاست میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور وہاں پارلیمانی ادارے بھی ہیں لیکن یہ ریاست ڈھانچے کے حوالے سے صرف ایک مذہبی-نسلی گروپ کے لئے امتیاز کی قائل ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو بہت سے ریپلکنز امریکہ کے لئے بھی پسند کرتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں بعض تجزیہ نگار دائیں بازو کی طرف سے اسرائیل کی حمایت کی بنا پر امریکہ کو ـ صحیح طور پر ـ ایک نسلی جمہوریت سے تشبیہ دینے والے تجزیوں کو نظر انداز کرکے دوسرے تجزیوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن وہ دوسرے تجزیوں کو اگر خوش فہمی سے بھی دیکھا جائے تو کم از کم وہ ناقص ہیں۔ ایک رائج الوقت تجزیہ یہ ہے کہ “چونکہ ریپبلکنز جمہوریت اور انسانی حقوق کے حامی ہیں اسی بنا پر اسرائیل کے شیدائی ہیں!!!
یہاں بھی ایک تضاد پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ کے زمانے میں جمہوریت اور انسانی حقوق ریپبلکنز کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ یہ صرف ٹرمپ ہی نہیں ہیں جو آمریت پسند راہنماؤں کے آگے کرنش کرتے ہیں بلکہ ریپبلکنز کی صفوں میں اس طرح کی کرنشیں بہ وفور پائی جاتی ہیں۔ ڈیموکریٹ جماعت کے مقابلے میں ریپلکنز روس اور سعودی عرب کو زیادہ مثبت نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گذشتہ سال دسمبر میں اکانومسٹ (Economist) اور یوگاو (YouGov) نے امریکیوں سے پوچھا کہ “کیا دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں انسانی حقوق کی پامالی ہماری “بنیادی تشویش” ہونا چاہئے یا نہیں؟” تو ہاں کہنے والوں میں ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپلکنز کی تعداد نصف تھی۔
نیز زیادہ تر ریپلکنز مغربی کنارے پر یہودی ریاست کی حکمرانی چاہتے ہیں جہاں فلسطینیوں کو فوجی قوانین کے تحت اور حق رائے دہی کے بغیر، رہنا پڑ رہا ہے۔ اگر آپ مغربی کنارے پر یہودی ریاست کے غیر جمہوری تسلط کی حمایت کریں تو امکانی طور پر اس ریاست کی حمایت کے لئے آپ کی دلیل “جمہوریت” نہیں ہیں۔
ریپلکنز کی اسرائیل دوستی کی ایک رائج ابلاغیاتی دلیل مذہبی مسائل سے تعلق رکھتی ہے۔ صحافی حضرات عام طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ بہت سے انجیلی عیسائی ـ جن کی اکثریت ریپلکنز کو ووٹ دیتی ہے ـ مقدس سرزمین پر یہودی تسلط کو عیسی مسیح کے دوبارہ مبعوث ہونے کے لئے ایک ضرورت سمجھتے ہیں۔ لیکن مذہبی کرداروں میں مبالغہ آرائی بہت آسان ہے۔ ۲۰۱۹ع‍ گیلپ اسٹڈی (Gallup study) کے مطابق “حتی کہ لامذہب ترین ریپلکنز، راسخ العقیدہ ترین عیسائی ڈیموکریٹس کے مقابلے میں اسرائیل کے تئیں زیادہ مثبت رائے رکھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اندھادھند اور بےجا طرف داری کی طاقت مذہبیت کی طاقت سے آگے چلی جاتی ہے۔
اس مسئلے کی اہم ترین دلیل درحقیقت “نسل” (Race) ہے۔ زیادہ تر مذہبی ڈیموکریٹس افریقی امریکی یا لاطینی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور افریقی امریکی عیسائی یا لاطینی نسل کے مذہبی عیسائی افراد ـ حتی کہ افریقی امریکی اور لاطینی نسل کے انجیلی عیسائی ـ اپنے سفید فام ہم وطنوں سے کہیں زیادہ اسرائیلی ریاست پر تنقید کرتے ہیں۔ پیو تحقیقاتی مرکز (Pew Research Center) کے اس سال بہار کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق تاریخی لحاظ سے سیاہ فام گرجاگھروں کے اراکین نے ۳۴ پوائنٹس کے فرق سے، اسرائیلی ریاست کو نا منظور کردیا ہے اور وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
بالفاظ دیگر، ریپبلکنز کی اسرائیل کی حمایت بحیثیت مجموعی امریکی عیسائیوں کی طرف سے نہیں ہے بلکہ یہ حمایت ان قدامت پسند سفید فام عیسائیوں کی طرف سے ہوتی ہے جن کا سیاسی تشخص مذہب اور نسل کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے قدامت پسند سفید فام عیسائی تیزی سے امریکہ کے مذہبی اور نسلی کردار کے تحفظ کے جنون میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اور اسرائیل کو ایسی ریاست کی نظر سے دیکھتے ہیں جو بالکل اسی روش پر کاربند ہیں۔
زیادہ تر اس امریکہ سے خوفزدہ ہیں جو کم مذہبی ہو اور سفید نسل پرستی پر کم یقین رکھتا ہو۔ کچھ عرصہ پہلے پیو نے امریکیوں سے دریافت کیا کہ “اگر امریکہ میں سفید فام باشندوں کی اکثریت اقلیت میں بدل جائے تو کیا اس صورت حال سے “امریکی اقدار اور روایات” کو تقویت ملے گی یا یہ اقدار کمزور اور روایات کمزور پڑ جائیں گی؟” تو ریپبلکنز نے ۴۶ پوائنس کے اختلاف سے “ہاں” میں جواب دیا اور کہا کہ امریکہ کمزور ہوجائے گا۔ اور اگر ریپبلکنز سفید نسل پرستی پر کم یقین رکھنے والے امریکہ سے خائف ہوں تو یقینا امرکہ کے “زیادہ مسلم ملک” بننے سے بھی خوفزدہ ہونگے۔ نیوامریکہ (New America) کے نومبر ۲۰۱۸ع‍ کے سروے کے مطابق، ۷۱ فیصد ریپلکنز کا خیال تھا “اسلام امریکی اقدار کے ساتھ سازگار نہیں ہے” اور حالیہ جون کے مہینے میں اکانومسٹ اور یوگاو کے ایک مطالعے کے مطابق ۷۴ فیصد ریپلکنز کی رائے ہے کہ “مسلمانوں کو وقتی طور پر امریکہ داخلے سے باز رکھا جائے”۔
یہ نسلی اور مذہبی خوف ریپبلکنز کی طرف سے ہجرت (Immigration) مخالف پالیسی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ کلیمسن یونیورسٹی (Clemson University) کے اسٹیون وی ملر (Steven V. Miller) نے واضح کیا ہے، جو امریکی کم ہجرت کے خواہاں ہیں، چھ گنا زیادہ ممکن ہے کہ ان کی یہ خواہش معاشی اضطراب کے بجائے نسلی نفرتوں پر استوار ہو۔
چنانچہ دائیں بازو کے دھاروں میں طاقت کی ایک کسوٹی نسلی نفرت ہے جس کی وجہ سے ریپبلکنز ہجرت اور ترک وطن کے مسئلے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ گذشتہ مہینے گذشتہ دسمبر میں جب کوینیپاک کالج (Quinnipiac College) کالج نے امریکیوں سے پوچھا کہ “کانگریس کو کونسی چیز کو اپنی اہم ترین ترجیح قرار دینا چاہئے؟” تو زیادہ تر ریپبلکنز نے دوسرے تمام موضوغات میں سے ہجرت کے موضوع کی طرف اشارہ کیا۔
جون ۲۰۱۹ع‍ میں جب رائٹرز (Reuters) نے ریپبلکنز سے پوچھا کہ “اپنی اہم ترین سیاسی فکرمندی بیان کریں”؛ ہجرت کا مسئلہ پھر بھی دوسرے سہ جوابی سوال میں دوسرے نمبر پر آیا۔
ریپبلکنز ـ جو امریکہ کی آبادیاتی کردار کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں ـ کے لئے یہودی ریاست ـ جو ہجرت کو یہودیوں کے لئے بہت آسان اور غیر یہودیوں کے لئے نہایت دشوار کر دیتی ہے ـ ایک ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انتہائی دائیں بازوں کی مفکرہ این کولٹر (Ann Hart Coulter) نے ۲۰۱۶ع‍ میں اپنی کتاب “آدیوس امریکہ” (Adios, America) شائع کی ہے اور یہ کتاب ٹرمپ کے ہجرت سے متعلق نعروں کو ترتیب دیا ہے۔ لکھتی ہیں: “اسرائیلی ریاست کا یہ موقف صد فیصد صحیح ہے کہ اسرائیلی قومیت کی تبدیلی اسرائیلی نظریئے کو بنیادی طور پر تبدیل کرسکتی ہے”۔
سنہ ۲۰۱۷ع‍ میں یورپی یونین کے افریقی تارکین فلسطین بدر کرنے کے منصوبے کے بارے میں ایک رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کولٹر نے ٹویٹ کیا ، “صدارتی عہدے کے لئے نیتن یاہو!”
نیویاک ٹائمز نے ۲۰۱۸ع‍ میں غزہ پٹی سے ملحقہ علاقے میں خاردار تاروں کی طرف بڑھتے ہوئے فلسطینیوں پر اسرائیلی فائرنگ کے سلسلے میں رپورٹ شائع کردی تو کولٹر حسرت بھرا سوال اٹھایا: “کیا ہم بھی ایسا کرسکیں کے؟!”۔
البتہ کولٹر اپنے اس نظریئے اور عقیدے میں تنہا نہیں ہیں بلکہ ریپبلکن سیاستدان، ارکنساس کے سابق گورنر اور اصطباغی/بپتسماوی پادری مائیک ہکبی (Michael Dale Huckabee) نے مسلمانوں کی امریکہ ہجرت کی ممانعت کے منصوبے کی وکالت کرتے ہوئے لکھا: “ہر کوئی اس طرح سے رد عمل دکھا رہا ہے کہ “اوہ، یہ ٹرمپ نے کیا کہہ دیا! اس طرح کی بات اسرائیل میں حیرت انگیز نہیں ہے۔ وہاں کوئی سرحدوں کو مسلمانوں کے لئے نہیں کھولتا!”۔
ریپلکن اہلکار اور لکھاری رک سینٹورم (Rick Santorum) نے تو کچھ آگے جاکر یہودی ریاست سے کہا کہ “امریکہ آنے والے مسلمانوں کے ممکنہ جرائم کا جائزہ لے [تاکہ یہاں آنے والے مسلمانوں میں سے صرف وہ لوگ امریکہ میں آنے کی اجازت لے سکیں جو اس مجرم ریاست کے خیال میں مجرمانہ پس منظر نہیں رکھتے!]۔
گذشتہ دسمبر میں ٹکر کارلسن (Tucker Carlson) نے جنوبی سرحد پر ٹرمپ کی دیوار کی تعمیر کے سلسلے میں ایک منظر نامے کے ضمن میں اعلان کیا کہ “اسرائیلی خوب جانتے ہیں کہ دیواریں کس قدر مؤثر ہیں”۔
ٹیڈ کروز (Ted Cruz) نے بھی کہا: ایک بہت بڑا سبق ہے جو ہم سرحدی سلامتی کے سلسلے میں اسرائیل سے سیکھ سکتے ہیں؛ اور ٹرمپ نے خود دعوی کیا: اگر جاننا چاہتے ہو کہ دیواریں کس قدر مؤثر ہیں تو اسرائیل سے پوچھو!۔
یہ نظریہ ریپبلکنز کے سیاستدانوں اور ممتاز شخصیات تک بھی محدود نہیں ہے بلکہ رائے عامہ کے سروے رپورٹوں سے بھی ہجرت کی شدید مخالفت، مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور اسرائیل کی حمایت کے درمیان قوی تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔ گذشتہ موسم خزان میں میری لینڈ یونیورسٹی کے فلسطینی نژاد امریکی پروفیسر شبلی تلہامی (Shibley Telhami) نے سروے کی معلومات میرے سپرد کردیں تو مجھے معلوم ہوا کہ امریکی عوام ۶۰ پوائنٹس کے اختلاف سے اسرائیلی-فلسطینی تنازعے میں فلسطینیوں کی طرف جھکاؤ اور تارکین وطن کی امریکہ ہجرت کو آسان بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
جبکہ جن امریکیوں نے “کہا تھا کہ امریکہ کو اسرائیل کی طرف مائل ہونا چاہئے” انھوں نے ۲۰ پوائنٹس کے اختلاف سے امریکہ ہجرت کے عمل کو مشکل بنانے کی حمایت کی تھی۔
وہ امریکی جن کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اسرائیل کی طرف جھکاؤ رکھنا چاہئے، اس کے برعکس، انھوں نے ۲۰ پوائنٹس کے فرق سے ریاستہائے متحدہ میں ہجرت کو مشکل بنانے کی حمایت کی۔ اس طرح ، جواب دہندگان میں سے ۷۰ فیصد جو کہتے ہیں کہ امریکہ کو “اسرائیل کی طرف جھکاؤ” رکھنا چاہئے ان کا رجحان اسلام کے منافی تھا جبکہ اس کے مقابلے میں ۳۳ فیصد سے بھی کم جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا “جھکاؤ فلسطینیوں کی طرف” ہونا چاہئے۔
لیکن دائیں بازو کی اسرائیلی سے عقیدت ہجرت کے مسئلے سے بہت آگے چلی جاتی ہے۔ اسرائیل نے غیر یہودیوں کو محض دور رکھ کر ہی اس ریاست پر یہودیوں کے تسلط کو قائم نہیں رکھا ہے بلکہ اس نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے غیر یہودیوں کی سیاسی شراکت داری کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے محدود کردیا ہے جس کی مثالیں ۲۰۱۵ع‍ کے انتخابات سمیت متعدد مواقع پر نظر آتی رہی ہیں۔
مختصر یہ کہ اسرائیل مخالف اور یہود مخالف افراد کے عنوان سے ایلہان عمر اور ان کے رفقاء کے خلاف ریپبلکنز کے حملے آخرکار اسرائیل اور یہودیوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کی کوشش ہے کہ ٹرمپ کے دور میں دائیں بازو کے بنیادی جماعتی مقاصد کے استحکام کے لئے اسرائیل اور یہودیوں سے فائدہ اٹھائیں؛ یعنی آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے سفید فام عیسائی تسلط کا تحفظ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: پیٹر یینارٹ (Peter Beinart)؛ کالم نویس، اور نیویارک سٹی یونیورسٹی کے جرنلزم اور سیاسیات کے استاد۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی مضمون کا لنک: yon.ir/BAqU7
فارسی ترجمے کا لنک: http://fna.ir/dbenv0

 

اسرائیل میں بہائیت کے مرکزی ہیڈ کواٹر کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے؟

  • ۳۷۱


خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر؛ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے امریکہ کی جانب سے  اسلامی جمہوری ایران  کے جاسوسوں اور اسلامی جمہوریہ  کے حدود تجاوز کر نے والوں کے دفاع  کے سلسلہ سے   ۱۷  رمضان المبارک  ۱۴۰۳ ھ مطابق ۲۸ جون ؁۱۹۸۳ حکومت کے ذمہ داروں کے درمیان ایک خطاب کیا ، جس میں آپ نے اس وقت کے امریکی صدر جمہوریہ کی جانب سے  ساری دنیا سے بہائیوں کے لئے مدد کی گہار لگانے کے سلسلہ سے اس بات کی وضاحت کی کہ  بہائیوں کی جانب سے امریکی صدر جمہوریہ کی یہی حمایت  انکے جاسوس ہونے اور امریکیوں کے  بہائیوں سے مفاد کے وابستہ ہونے کو بیان کرتی ہے ۔
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے  رونالڈ ریگن  کی تقریر کہ جسے بعض ریڈیو  اسٹیشنز نے نشر کیا  کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے کنایہ آمیز انداز میں  کہا: یہ لوگ چونکہ مظلوم ہیں اور بالکل بھی جاسوس  نہیں ہیں، مذہبی مراسم کے علاوہ کسی چیز میں مشغول نہیں رہے، اس پر ایران نے انکے انہیں  مذہبی رسومات کی وجہ سے ۲۲ لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی ہے، یہ وہ بات ہے جس کی بنا پر ریگن نے ساری دنیا سے مدد کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ لوگ جاسوس نہیں ہیں ، یہ ایسے سیدھے سادے لوگ ہیں جنکی کسی بھی کام میں کوئی شمولیت یا دخالت نہیں ہے  اپنی تقریر میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے  اس بات کو بیان کرنے کے بعد بہت سنجیدگی کے ساتھ انکی پھانسی کی سزا کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ ہم نے  ہرگز انکے بہائی ہونے کی وجہ سے انہیں قید وحبس کا حکم نہیں دیا  بلکہ انکے ساتھ کچھ مسائل رہے ہیں، یوں بھی بہائی کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ بہائی ایک پارٹی ہے، ایسی پارٹی جسکی ماضی میں برطانیہ حمایت کرتا رہا ہے اور اب امریکہ نے اسے اپنی چھتر چھایہ میں لیا ہوا ہے  یہ لوگ  جاسوس بھی ہیں اور دیگر لوگوں کی طرح انکے عقائد میں بھی انحراف پایا جاتا ہے، یہاں پر  مسئلہ تو یہ ہے کہ انکے طرفدار جناب ریگن صاحب آپ جیسے لوگ ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ  انکی ایک مبہم و خاص صورت حال ہے،  ہمارے دشمنوں کو فائدہ پہنچانے میں  انکا کردار اس کے علاوہ کیا ہوگا کہ  ہماری مخبری کریں اور ہمارے اسرار کو دشمنوں تک منتقل کریں، اور ایرانی قوم و حکومت کے درمیان انکے ساتھ جاسوسی کریں ۔
سچ تو یہ ہے کہ  اسلامی جمہوریہ  کے معمار و بانی کا جوہر کلام یہ ہے کہ  بہائیوں کے ساتھ مقابلہ آرائی  کی وجہ انکے عقائد  کے انحراف کے علاوہ اور ماورا اسکے کے یہ بنیادی طور پر بہائیت کوئی مذہب نہیں ہے اور یہ ایک گمراہ و منحرف فرقہ ہے،  در اصل یہ ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کی جاسوسی کرتے ہیں  اور اسی وجہ سے  امریکہ و اسرائیل  بہائیوں کی حمایت کرتے ہیں ۔ اور اسلامی انقلاب کے ۴۰ سال گزر جانے کے بعد  بھی  اپنی ڈگر پر یہ کھیل جاری ہے اسلامی انقلاب کے چالیس سال  گزر جانے کے بعد بھی  یہی کھیل جاری ہے اور بہائی فرقہ  کہ جسکا مرکزی  دفتر اور ہیڈ کواٹر مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے حیفا شہر میں ہے، اسرائیل اور امریکہ کے لئے  جاسوسی کر رہا ہے اور اس گمراہ  فرقہ سے مقابلہ آرائی و تقابل کی بنیادی وجہ   یہی امام خمینی  رضوان اللہ تعالی  کے وہ خدشات ہیں جنہیں آپ نے اس فرقے کے بارے میں بیان کیا ہے ۔
.صحیفه امام خمینی، ج۱۷،ص۴۵۹
بہائیت  جنگی عزائم رکھنے والے کارزار پسند اسرائیل کی خدمت میں
گزشتہ چند دنوں قبل اسرائیل کے خود ساختہ جعلی  ملک کے نام نہاد وزیر اعظم  بنجامن  نیتن یاہو نے اسرائیلی سلامتی و تحفظ کے کالج کے اسٹوڈینس سے ملاقات کے دوران اس بات کا دعوی  کیا کہ ’’  فی الوقت دنیا کی واحد ایسی فوج جو اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے  اسرائیل کی فوج ہے ‘‘۔
لائق توجہ ہے کہ  بہائی فرقہ کا صدر دفتر اسرائیل میں ہے اور  صہیونیوں کی ممکل  حمایت و پشت پناہی میں اپنا کام کر رہا ہے ، بہائی ہر ۱۹ دن میں اپنے دفتری چارٹ کے مطابق  ’’ ضیافت و دعوت‘‘ کے تحت  اپنے تمام تر تعلقات و روابط  اور اپنی کارکردگی و اپنے ترویجی وتشہیری کاموں  حتی دوستانہ تعلقات و لین دین کو اوپر رپورٹ کرتے ہیں اور اس پروگرام میں حاصل ہونے والی تمام ہی معلومات اسرائیل کو ارسال کر دی جاتی ہیں، یہ اطلاعات ایک ایسے ملک کو پہنچتی   ہیں جو واضح طور پر اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلہ کی بات کر تا ہے۔
ہرچند بہائیت کا دعوی ہے کہ اسکے صدر دفتر کے مقبوضہ فلسطین میں ہونے کے باوجود  اسکا کوئی تعلق بھی وہاں کے سیاست مداروں سے نہیں ہے اوریہ دفتر محض جغرافیائی طور پر اس خطے میں واقع ہے، لیکن نیتن یاہو کی جانب سے اس دفتر سے متعلق افراد سے ملنا اور انکا نیتن یاہو سے ملاقات کرنا مرغے کی ایسی دم ہے جو چھپائےنہیں چھپتی اور اس دعوے کو باطل کر دیتی ہے کہ ہم نے مرغا چوری نہیں کیا ہے ہم قسم کھا سکتے ہیں، ایسے میں جو مرغے کی دم کو آستین سے باہر  دیکھ رہا ہے وہ قسم پر کیونکر یقین کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بہائی  بالقوہ طور پر  اسرائیل کی مخبری کرنے والے عناصر کے طور پر کام کر رہے ہیں  جو اسلامی جمہوریہ کے معاشرے کی مختلف سطحوں میں رسوخ کر کے  اسلامی جمہوریہ کی حاصل ہونے والی اطلاعات کو  دشمنوں تک منتقل کرتے ہیں ۔
اس وقت ملک کے حساس حالات کے باوجود ، اور اسرائیلی حکام کی جانب سے جنگ کی طرف اکسانے والی باتوں اور جنگ خواہانہ زبان استعمال  کرنے کے باوجود  ضروری ہے کہ  اسلامی جمہوریہ ایران کے ذمہ داران  چھوٹے چھوٹے جاسوسی کے نیٹ ورکس کی نقل و حرکت کو لیکر حساس رہیں، اس لئے کہ جب اس سے پہلے  بہائیوں کی جانب سے اسرائیل کی طرف خفیہ معلومات کا تبادلہ ہوتا تھا  اور اس پر اعتراض ہوتا تھا  تو یہ دعوی کیا جاتا  کہ ساری معلومات  اسرائیل ارسال نہیں کی جاتی ہیں بلکہ انہیں بہائیوں کے صدر دفتر بھیجا جاتا ہے، لیکن یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بہائیوں کا یہ صدر دفتر صہیونی رجیم کے  اہلکاروں اور حکام کی جانب سے  دائمی طور پر  زیر نظر رہتا ہے اور اسکی تفتیش ہوتی رہتی ہے ۔
بہائی  نظام اسلامی جمہوریہ ایران میں  رسوخ و نفوذ اور جاسوسی کے درپے
گمراہ بہائی فرقہ بہت ہی سسٹمیٹک  طریقے سے  اپنے جاسوسی کے کاموں کو انجام دیتا ہے اور یہ لوگ  اپنے مشن کو عملی کرنے کے لئے  اندر در آنے  کی فضاوں کو تلاش کرتے  رہتے ہیں ۔ اور انکا طریقہ کار یہ ہے کہ   ’’بیت العدل  اعظم  ‘‘نامی شورا کی جانب سے  (بہائیوں کا  اسرائیل میں واقع صدر دفتر ) ان خفیہ اطلاعات کے بل پر جو  بہائیوں کی جانب سے وہاں بھیجی جاتی ہیں    ایسی فضاوں کی نشاندہی کی جاتی ہے  جہاں سے گھس کر  اپنا کام کیا جا سکے نیز اس شوری کی جانب سے  اندر گھسنے کے لئے ضروری رخنوں کی نشاندہی کے ساتھ ایسی ہدایات بھی پیش کی جاتی ہے جنہیں  بیت العدل کی جانب سے ارسال کئے گئے  پیغامات کا نام دیا جاتا ہے اور یہ وہ پیغامات ہوتے ہیں  جنہیں  بہائیوں کی  جاسوسی سے  متعلق اور انکی تشہیری و ترویجی  فعالیت سے  متعلق ہدایات کے طور پر  بہائیوں تک  پہنچایا جاتا ہے ۔
مثال کے طور پر ۲۸ سمبر ۲۰۱۰؁ کو جاری ہونے والے ایک پیغام  میں جسے  اس گمراہ فرقے کے ایک دراز مدت  پروگرام کی ایک کڑی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، اس  پیغام  میں  ایسے دیہاتی علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں بہاہیت کو لیکر  اور اسکے ڈھانچے کو لیکر کوئی جانکاری نہیں پائی جاتی ہے اور اس پیغام میں انہیں علاقوں کو  ایسی  اہم فضا کے طور پر پیش کیا گیا ہے  جہاں یہ گمراہ فرقہ اپنی فعالیت انجام دے سکتا ہے من جملہ  تشہیری و ترویجی کاموں کے ساتھ ان علاقوں کو جاسوسی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ بہائیت کی جانب سے  جاری ہونے والے پیغامات کو اس نام سے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ وہ پیغامات ہیں جو بہائیت کے دنیا بھر میں پیروکاروں کے لئے ارسال کئے گئے ہیں لیکن بالکل واضح ہے کہ  ان پیغامات کا ہدف  و نشانہ اسلامی ممالک اور خاص طور اسلامی جمہوریہ  ہے  اس لئے کہ  بہائی اپنے وجود کا سرچشمہ  ایران ہی کو سمجھتے ہیں ۔ بیت العدل کی جانب سے جاری ہونے والے بہت سے  پیغامات  اور ہدایتوں میں  من جملہ ۲۰۱۰؁ کے  ۲۸ سمبر کو جاری ہونے والے پیغام  میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ  مختلف دیہاتوں میں  پھیل جائیں  اور  لوگوں کو اس فرقے کے سسٹم  میں داخل کریں اور اس طرح اپنے فرقے کی تبلیغ و ترویج سے متعلق  فعالیت کے دائرہ کو پھیلا دیں۔
اس پیغام کے ایک حصہ میں ملتا ہے ’’ اگر اس کام کا ایک نمونہ کسی ایک علاقہ میں تاسیس ہو گیا تو تیزی کے ساتھ دوسرے ہم جوار دیہاتوں میں  پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘ در حقیقت   بہائیوں نے  اس لئے اپنے کاموں کے لئے دیہاتوں کا انتخاب کیا ہے کہ  یہاں کی فضا  انکے مقاصد تک پہنچنے کے لئے مناسب ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس فضا کو اپنی کارکردگی  کا محور بناتے ہوئے  لوگوں کی نظروں سے دور اپنی جاسوسی مہم  کو وسعت بخشیں ۔ اب یہ اسلامی جمہوریہ کی خفیہ ایجنسیز اور قومی سلامتی سے متعلق مراکز اور ادارہ جات  پر ہے کہ وہ  اس گمراہ و خطرناک  فرقے کے بارے  میں اس طرح وارد  عمل ہوں کہ  لوگوں  کی سہولت اور انکے چین و سکون  پر حرف نہ آئے اور قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے  ایسے اقدام کئے جا سکیں جنکے چلتے  اس فرقے کی تبلیغ و ترویج  کا شکار ہو کر اس کی طرف مائل ہونے والے افراد کو اس میں شامل ہونے سے روکا جا سکے ۔
منبع: http://fna.ir/dauqch

 

صہیونی ریاست اور انسانی حقوق

  • ۴۲۰

 خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: انسانی حقوق، حقوق کے اس مجموعے کو کہا جاتا ہے جو قوم، ملت، دین، مذہب، رنگ اور زبان وغیرہ سے بالاتر صرف انسان ہونے کے ناطے ہر انسان کو شامل ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی اصطلاح آج بین الاقوامی قوانین میں کثرت سے رائج ہے اور اس کی بنا پر تمام انسان برابر ہیں اور کوئی انسان دوسرے سے برتر نہیں ہے۔
انسانی حقوق اگر چہ عالمی تنظیموں کے ذریعے تدوین کئے گئے ہیں اور مغربی نظام ہمیشہ ان کے نفاذ کی بات کرتا ہے لیکن صہیونی ریاست جس کو امریکہ اور یورپ کی دائمی حمایت حاصل ہے، انسانی حقوق کی نسبت بالکل ناآشنا نظر آتی ہے۔
اس مختصر یادداشت میں انسانیت کی حمایت میں بنائے گئے عالمی اداروں کی جانب سے چند قوانین کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ دیکھتے ہیں صہیونی ریاست ان قوانین پر کتنا عمل کرتی اور انسانی حقوق کا کتنا پاس و لحاظ رکھتی آئی ہے خاص طور پر اس اعتبار سے کہ امریکہ اور یورپ جو انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کیا خود اور ان کے اتحادی بھی ان پر عمل کرتے ہیں؟
انسانی حقوق کی حقیقت
دنیا کے تمام انسان، انسان ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ کس مذہب و ملت سے تعلق رکھتے ہیں یا کس قوم و قبیلے سے ان کا تعلق ہے یا کس رنگ و زبان کے حامل ہیں۔ اس بنا پر ایک معمولی مزدور اور یونیورسٹی کے ایک پروفیسر میں انسان ہونے کے ناطے کوئی فرق نہیں ہے اور یہ دونوں انسانیت کے بنیادی حقوق کے اعتبار سے برابر ہیں۔
انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ
دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کی جانب سے ‘ْ’انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ” منتشر کیا گیا جس میں ۳۰ کلی اصول کو اکثریت آراء کے ذریعے منظور کیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ کشتی انسانیت کو ظلم و استبداد کے بھنور سے نجات دلانے کے لیے تمام حکومتوں پر ان کلی حقوق کی رعایت لازمی ہے اور اس کی خلاف ورزی ممنوع اور ناقابل بخشش ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے بعض کلی اصول
اس اعلامیہ میں ۳۰ کلی اصول بیان کیے گیے ہیں جن میں سے ایک دو کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں؛
اصل سوم: ہر انسان کو زندگی، آزادی اور امنیت کا حق حاصل ہے۔
اصل پنجم: کسی بھی انسان کو تشدد، اذیت ازار، غیر انسانی سلوک یا تحقیر آمیز برتاو کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
اصل دوازدہم: کسی کی خصوصی زندگی، گھریلو امور، یا اس کے رہائش سے متعلق امور میں دخالت نہیں ہونا چاہیے کسی کی عزت و آبرو کو حملہ کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ ایسی بے جا دخالت اور حملوں کے مقابلے میں قانونی کاروائی ہر انسان کا حق ہے۔
تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کی کنونشن
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۹۸۴ میں تمام ممالک منجملہ اسرائیل کی اتفاق آراء سے “تشدد کے خلاف کنونشن” منظور کی جس میں یہ طے پایا کہ ہر ملک پر لازمی ہے کہ اپنے دائرہ اختیار کے مطابق تشدد کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرے اور کسی بھی حکومتی عہدیدار یا افیسر کو تشدد آمیز کاروائیوں سے تمسک کا اختیار نہیں ہے۔
اسرائیل کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی
دنیا میں انتہا پسندی، بربریت اور ظلم و تشدد روا رکھنے والی حکومتوں میں صہیونی حکومت سرفہرست ہے جو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور دیگر تمام کنونشنوں کی مخالفت کرتے ہوئے صرف اپنے ذاتی مفاد اور وسعت طلبی کی خاطر فلسطینی عوام حتیٰ خود مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے سیاہ پوست یہودی اقوام کو بھی اکثر تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔
اسرائیل کے ذریعے انجام پانے والی کھلے عام ریاستی دھشتگردی کے چند نمونے
۔ حانین کا قتل عام؛ حانین لبنان کا ایک گاوں ہے۔ اسرائیلیوں نے سن ۱۹۶۷ میں تین مہینے تک اس گاوں کا محاصرہ کر کے اس کے مکینوں کا دردناک طریقے سے قتل عام کیا۔ اور تمام گھروں کو نذر آتش کر دیا۔
۔ اوزاعی کا قتل عام؛ یہ علاقہ لبنان کے دار الحکومت بیروت کے قریب واقع ہے ۱۹۷۸ میں اسرائیل نے اس علاقے پر بمباری کر کے اس علاقے کو زیر و زبر کر دیا۔
۔ خان یونس کا قتل عام؛ یہ علاقہ غزہ کی پٹی میں واقع ہے اور اس علاقے پر دو مرتبہ اسرائیل نے حملہ کیا اور ۷۰۰ سے زیادہ عام لوگوں کا قتل عام کیا۔
۔ صبرا و شتیلا کا قتل عام؛ لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کی ’صبرا‘ اور ’شتیلا‘ کے نام سے دو معروف پناہ گاہیں تھیں جن پر ۱۹۸۲ میں صہیونی ریاست نے حملہ کیا اور تاریخ کی سب سے بڑی جنایت رقم کر دی۔ صہیونیوں نے ان پناہگاہوں کا محاصرہ کیا اور ۴۰ گھنٹوں کے درمیان پناہ گاہوں میں موجود سینکڑوں افراد جن میں عورتیں بچے بوڑھے جوان سب شامل تھے کے خون کی ندیاں بہا دیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ صبرا و شتیلا کے قتل عام میں عورتوں اور لڑکیوں کے قتل سے پہلے اسرائیلی فوجیوں نے انتہائی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی عصمتیں لوٹیں، بچوں کو زندہ زندہ جلایا اور ذبح کیا۔ اور حاملہ عورتوں کے شکم پارہ کر کے ان کے بچوں کو نکال کر زندہ زندہ آگ میں ڈال دیا۔
غزہ کی ۵۱ روزہ جنگ انسانی حقوق کی پامالی کا کھلا نمونہ
اگر صہیونی ریاست کے تمام جرائم کو نظر انداز کر دیا جائے تو غزہ کی ۵۱ روزہ جنگ ہی اسرائیل کو عالمی سطح پر مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ سن ۲۰۱۴ میں تین اسرائیلی مغربی کنارے گم ہو جاتے ہیں اور صہیونی ریاست اسی بہانے کے تحت ۵۱ دن تک غزہ پر وحشیانہ بمباری کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے اس جارحیت میں ۶ ہزار فضائی حملے کئے جس کے نتیجے میں ۲۲۵۱ عام فلسطینی شہید ہوئے جن میں ۳۰۰ عورتیں اور ۵۵۰ بچے شامل تھے۔ اقوام متحدہ نے زخمیوں کی تعداد ۱۱۲۳۱ بیان کی۔
اقوام متحدہ نے اس جنگ کو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا لیکن اسرائیل پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا اس لیے کہ امریکہ اور مغربی ممالک جو زبانی طور پر انسانی حقوق کے علمبردار ہیں نے اسرائیل کو اس جارحیت سے نہیں روکا بالکل اس کا ساتھ دیا۔
یہ تو کھلی جارحیت کے چند نمونے تھے جو اسرائیل نے پوری دنیا کے سامنے دن دھاڑے انجام دئے اور انسانی حقوق کی مدافع عالمی تنظیموں سمیت سب تماشائی بنے رہے۔ اس کے علاوہ وہ کون سا دن ہے جس دن غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں کوئی فلسطینی شہید یا زخمی نہ ہو، سالھا سال سے غزہ کا محاصرہ، پرامن واپسی مارچ پر بہیمانہ انداز سے فائرنگ، اسرائیلی زندانوں میں قیدی فلسطینی زن و مرد کے ساتھ ناروا سلوک وغیرہ وغیرہ سب صہیونی ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کو پاوں تلے روندے جانے کی مثالیں ہیں۔

 

یہ ہمارے اپنے نہیں ہیں …

  • ۳۱۴

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
آج کل سوشل میڈیا پر کچھ ہفتوں پہلے حکمراں جماعت کے ایک بڑے لیڈر کی گئی تقریر پر مشتمل ایک ایسی کلپ زورو شور سے گردش کر رہی ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کے شیعوں کو لیکر کچھ ہمدردانہ باتیں کی ہیں ، بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ وہ اور انکی جماعت شیعوں کو لیکر فکر مند ہے لیکن اسکے پیچھے کیا ہے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے  خاص کر ایسے وقت میں جب انہیں بڑے لیڈر کی جانب سے ایک بار اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف  پیدا کرنے کی بات ببانگ دہل کی جا چکی ہے ، ایسے میں اب شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ اگر مسلمانوں کے کسی ایک طبقے کی خاص حمایت کی بات ہو رہی ہے تو وہ ہماری ہمدردی کی وجہ سے نہیں، اس طرح کے بیانات جب بھی سامنے آئیں ہمیں خوش ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ سوچنے کی ضرورت ہے اس کے پیچھے کیا منصوبہ بندی ہے  چنانچہ ملک میں کس طرح ہمیں بانٹے کی کوشش کی جا رہی ہے اس بات پر توجہ بہت اہم ہے ، بعض بڑے لیڈروں کے ہمارے سلسلہ سے دئیے جانے والے بیانات  اس بات کا اظہار ہیں کہ ان کو ہم سے ہمدردری قطعا نہیں ہے وہ ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنی سیاست کرنا چاہ رہے ہیں  ورنہ وہ تو خوب جانتے ہیں کہ اسلام کی کہیں حقیقی تصویر ہمیں ملے گی تو در اہلبیت اطہار علیھم السلام سے ملنے والے اسلام میں ملے گی ، لہذا یہ ہرگز خوش فہمی کا شکار نہ ہوں کہ فلاں نے ہمارے بارےمیں یہ کہہ دیا اور وہ ہمارے تحفظ کی بات کر رہا ہے یا حکومت  کی ہم پر خاص عنایت ہے ، اسے شدت پسندوں سے خطرہ ہے ہم سے نہیں ہے ہمیں وہ اپنا سمجھتی ہے ، اگر کوئی ایسا سوچ رہا ہے تو یہ اسکی خام خیالی ہے ۔ ہمیں ملک کے آئین کا اسکے بنیادی دستور کا مکمل پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اسی راستے پر چلنا ہے جو گاندھی جی نے بتایا تھا جس میں شدت پسندی اور نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہے ،اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم ان عناصر کو پہچانیں جو نفرتوں کو پھیلا کر  اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں ۔

 

صہیونی سینما میں عربوں کی شمولیت

  • ۳۲۷


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، قدس کی غاصب صہیونی ریاست نے اسرائیل، فلسطین اور دیگر عرب ریاستوں کے درمیان مشترکہ ثقافتی سرگرمیاں انجام دینے کی غرض سے حالیہ مہینوں اسرائیل سینما و ٹی وی اکیڈمی کی بنیاد ڈالی ہے جس کے ذریعے اسرائیل اپنی فلموں کو فلسطین اور دیگر عرب ریاستوں میں عام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل اس منصوبے کے تحت عرب فلمی ڈائریکٹروں کو اپنی طرف جذب کر رہا ہے تاکہ یہودیوں اور فلسطینیوں کے باہمی تعاون سے ایسی فلمیں بنائی جائیں جن میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے آپسی رہن سہن اور مشترکہ زندگی کی منظر کشی کی جائے اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ فلسطین اور اسرائیل میں جنگ صرف سیاسی جنگ ہے اور عوام سب مل جل کر زندگی گزار رہے ہیں۔
صہیونیوں نے حالیہ سالوں عرب فلمی ڈائریکٹروں کی مدد سے عربوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور عر ریاستوں میں صہیونیت مخالف فلموں کے ذریعے اسرائیل کے خلاف پیدا ہونے والی معاندانہ فضا کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل سینما کی دنیا میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کر کے عرب فلمی ڈائریکٹروں کے ذریعے ہولوکاسٹ کے موضوع کو عام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

 

برطانوی سفیر کے فاش شدہ برقی مکتوب اور امریکی حکومت کا اندرونی انتشار

  • ۳۹۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برطانوی سفیر کے برقی مکتوبات کے لیک ہو جانے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سرمایہ کے بل پر کبھی بھی اپنی خامیوں کو دنیا میں نہیں چھپایا جا سکتا ہے، حقیقت تو عیاں ہو کر ہی رہے گے عین ممکن ہے کہ برطانوی سفیرکی طرح دیگر ممالک کے سفیروں نے بھی اپنے اپنے ممالک اسی قسم کی رپورٹیں بھیجیں ہوں اور اپن سر زمینوں کے حکام کو آگاہ کیا ہو کہ آپ کا ملکی مفاد اس بات میں نہیں ہے کہ آپ دنیا کی سب سے طاقت ور کہی جانے والی حکومت کے ہر فیصلہ کو یہ سوچ کر تسلیم کر لیں کہ یہ اس ملک کی پالیسی کا حصہ ہے، اور اسی کی روشنی میں آپ اپنی عالمی پالیسی کے خطوط کو ترسیم کریں، ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ یہاں موجودہ حکومت میں پالسیاں جذبات و احساسات کے تحت بن رہی ہیں انکا حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ،چنانچہ سب سے بڑی بات آپ یہاں کے سربراہ کے کسی بھی ٹوئیٹ کو پڑھ کر یہ ہرگز نہ سوچیں کہ یہ کسی حقیقت کی عکاس ہے بلکہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر جانے والے ملک کی حالت یہ ہے کچھ نابخرد اندیشوں نے اسکی مقتدرہ کو بالکل نا اہل بنا دیا ہے ۔
ممکن ہے ایسے اندیشوں کا اظہار دیگر ممالک کے سفیروں نے بھی اپنے ممالک بھیجے جانے والی رپورٹس میں کیا ہو لیکن فی الحال تو برطانوی سفیر کا معاملہ ہی میڈیا کی کرم نوازیوں سے سامنے آیا ہے جو اپنے آپ میں برطانیہ و امریکہ کے ما بین دیرینہ تعلقات کے پیش نظر قابل تامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلسل  جہاں واشنگٹن میں برطانوی سفیر کی لیک ہونے والی ای میلز کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ وہیں امریکی صدر جمہوریہ ٹرنپ نے برطانوی سفیر کےساتھ  اشاروں اشاروں میں واسطہ نہ[۱] رکھنے کی بات کر کے فاش ہونے والے ایملز کے مندرجات کی سچائی پر مہر لگا دی ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے جو باتیں برطانوی سفیر نے اپنے میل میں کی ہیں [۲]، ان کی سچائی کو جاننے کے لئے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں خود میرا رویہ ہی ان کی سچائی پر دلیل ہے جو بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ فاش شدہ ایملیز میں بیان کیا گیا ہے۔
ادھر ان ایملیز کے سامنے آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بڑا محتاط رد عمل سامنے آ رہا ہے اور جہاں ایک طرف ایمیلز کے فاش ہونے میں شامل ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی بات ہو رہی ہے وہیں برطانوی حکومت بہت ہی احتیاط کے ساتھ اپنے سفیر کا دفاع بھی کرتی نظر آ رہی ہے چنانچہ  جہاں برطانیہ میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین ٹام ٹوگن ہاٹ نے کہا ہے کہ ان مراسلوں کا افشا ہونا ’بہت ہی سنگین خلاف ورزی‘ ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
وہیں کنزرویٹو ممبر پارلیمان ٹام ٹوگن ہاٹ نے بھی  اس معاملے میں تحقیقات کے مطالبہ کے ساتھ  سر کِم کا دفاع  کیا۔ حتی کہا جا رہا ہے جو کچھ بھی برطانوی سفیر نے کیا وہ اعلی کمان کی زیر نگرانی اور انکے اشاروں پر کیا ہے یاد رہے کہ واشنگٹن میں برطانوی سفیر سر کِم ڈارک کی لیک ہونے والی ایم میلز میں ٹرمپ انتظامیہ کو ‘ناکارہ’، ’غیر محفوظ‘ اور ’نااہل‘ کہا گیا ہے[۳]۔ ساتھ ہی ساتھ  برطانوی سفیر نے اس بات کو بھی کھلے الفاظ میں بیان کر دیا ہے کہ برطانوی سفیر کا کام ’امریکہ کے احساسات کی نہیں بلکہ برطانوی شہریوں کے مفادات اور خواہشات کی ترجمانی کرنا ہے‘۔ انہوں نے بہت ہی واضح الفاظ میں کئی حقیقتوں کو بیان کیا ہے برطانوی سفیر سر کِم ڈارک نے جہاں کہا کہ  صدر ٹرمپ کی قیادت میں وائٹ ہاؤس ’ناکارہ‘ اور ‘منقسم’ ہے۔[۴]
سر کِم نے ان ایملیز میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ جون میں برطانیہ کے اپنے سرکاری دورے کے دوران ‘چکا چوند‘ میں کھو گئے تھے۔ برطانوی سفیر نے کہا کہ صدر کے دماغ میں بات ڈالنے کے لیے آپ کو اپنے نکات کو آسان و سادہ زبان  یہاں تک کہ دو ٹوک انداز میں پیش کرنا ہو گا۔ ان ایملیز کی ایک خاص بات گزشتہ مہینہ صدر ٹرنپ کی جانب سے ایک کی جانب سے امریکن ڈرون مار گرائے جانے کے بعد جوابی کاروائی کے سلسلہ سے حکم کے دئیے جانے اور کاروائی سے ۱۰ منٹ پہلے مشن کو روک دینے پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے  چنانچہ سر کم نے ایران سے متعلق امریکی پالیسی کو ‘غیر مربوط اور خلفشار کا شکار’ قرار دیتے ہوئے ۔کہا  ہے کہ ٹرمپ کا تہران پر حملے کو دس منٹ پہلے یہ کہہ کر روک دینا کہ اس میں صرف ۱۵۰ افراد مارے جائیں گے ’سمجھ سے بالاتر ہے۔’انھوں نے کہا کہ صدر کبھی بھی ’پوری طرح اس کے حق میں نہیں تھے‘ اور وہ امریکہ کے بیرونی جھگڑوں میں شامل نہ ہونے کے اپنی انتخابی مہم کے وعدے کے خلاف نہیں جانا چاہتے تھے۔سر کِم نے کہا کہ ‘ایران پر امریکی پالیسی کا مستقبل قریب میں کبھی بھی مربوط ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ ‘یہ بہت ہی منقسم انتظامیہ ہے۔[۵]’ برطانوی سفیر کی جانب سے  لیک ہونے والی فائل سنہ ۲۰۱۷ سے حال کے واقعات کے ذکر پر مشتمل ہے جس میں سفیر کے ابتدائی خیالات شامل ہیں کہ میڈیا وائٹ ہاؤس میں جو ‘شدید باہمی رسہ کشی اور انتشار'[۶] کی بات کہتا ہے وہ ‘زیادہ تر درست ہے۔’اس میں ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روس کے ساتھ سازباز کے جو الزامات ہیں ان پر بھی تجزیہ ہے کرتے ہوئے انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا ہے کہ  ’’بدترین امکانات کو خارج نہیں کیا جا سکتا‘‘.
جہاں ان ایمیلز کے سامنے آنے کے بعد برطانیہ اور امریکہ کے ما بین تعلقات میں دراڑ پڑ سکتی ہے وہیں برطانوی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ سفیر سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ وزیروں کو اپنی تعیناتی کے ملک کی سیاست سے متعلق ‘ایماندارانہ اور بے لاگ تبصرہ’ فراہم کرے۔ انھوں نے کہا ‘ان کے خیالات ضروری نہیں کہ وزیروں کے بھی خیالات ہوں یا پھر حکومت کے خیالات ہوں۔ لیکن انھیں صاف گوئی ہی کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ ‘انھوں نے کہا کہ وزرا اور سرکاری ملازمین ان مشوروں کو ‘درست انداز سے’ دیکھتے ہیں اور سفیروں کی رازداری برقرار رکھی جانی چاہئے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن میں برطانوی سفارتخانے کے وائٹ ہاؤس سے ‘ تعلقات مضبوط’ ہیں اور ان مراسلوں کے افشا جیسی شرارت کے باوجود یہ رشتے قائم رہیں گے۔ برطانوی اور امریکی تعلقات کی مضبوطی کی دہائی پیشتر امریکن صدر ٹرانپ بھی دے چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس مخالفت کا سامنا انہیں اپنے برطانیہ کے سفر میں کرنا پڑا یقینا وہ ٹرنب کے لئے ناقابل فراموش ہوگا چنانچہ ٹرمپ کے لندن پہنچنے کے موقع پر بڑے پیمانے پر احتجاج ہونے کی خبریں میڈیا میں گشت کر رہی تھیں ٹرنپ کے اس سفر کے دوران لوگوں نے یہ  منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لندن کے  لوگوں نے ایک بہت بڑا غبارہ ہوا میں چھوڑا ہوا تھا جس میں صدر ٹرمپ کو ایک بچے کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔ علاوہ از ایں ٹرمپ کے خلاف پارلیمنٹ اسکوائر کے علاوہ لندن کے کئی دوسرے مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہو ئے تھے اورلندن  کے میئر صادق خان نے بھی ان پر کڑی تنقید کی تھی  جبکہ ٹرنپ نے کہا تھا کہ صادق خان نے انتہائی خراب کارکردگی دکھائی ہے۔[۷] یہ ساری نوک جھونک اور  ٹرنپ کے لند ن سفر کا حال یہ بتا رہا ہے کہ برطانونی حکام کچھ بھی کہیں لیکن اب برطانیہ کی رائے عامہ اس حق میں نہیں ہے کہ بے چوں و چرا  امریکی منتظمہ کی ہر بات کو مان لیا جائے  اور دھیرے دھیرے  دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے   فاش شدہ ایمیلز  برطانوی فیصلہ سازوں کے لئے آگے کی حکمت بنانے میں یقینا مدد گار ثابت ہونگے  اور نہ صرف انکے لئے بلکہ ان تمام ہی ممالک کے لئے جو  بغیر سوچے سمجھے امریکی منتظمہ کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائے چلے جا رہے ہیں اور انہیں یہ نہیں معلوم اسکا انجام کیا ہوگا چنانچہ  ان ایملیز نے یہ واضح کر دیا ہے کہ انتہائی راز دار ملک کے سفیر جب امریکی انتظامیہ  کو قابل اعتماد نہ جانتے ہوئے ناکارہ و انتشار کے حامل ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو دوسروں کے اعتماد کی تو بات ہی کیا ہے خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے امریکی ڈرون طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد امریکی انتظامیہ جس کشمکش کا شکار رہی ہے وہ کسی بھی صاحب فکر سے پوشیدہ نہیں ہے، لوگوں نے  یہ ضرب المثل پہلے تو محض سنی ہی تھی کہ کھسیانی بلی کھما نوچے لیکن  اب امریکہ  کے صدر کی عجیب و غریب حرکتوں کے پس منظر میں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ کھسیانی بلی کس طرح  اتنی بے بس ہے کہ اب کھمبا نوچنے تک کے لائق نہیں ہے اور بس کھنبے کے ارد گرد ٹہلے چلی جا رہی ہے ۔
ہر دن امریکی صدر کے ٹوئیٹر ہینڈل سے جو ٹوئیٹ سامنے آ رہا ہے وہ  اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ جو کچھ بھی برطانوی سفیر نے کہا ہے بالکل سچ ہے  امریکی انتظامیہ مکمل  انتشار و رسہ کشی کی شکار ہے  اور اسکی خارجہ پالیسی خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران کو لیکر اسکا مطمع نظر یہ بیان کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اگلے ڈیرھ سال بعد وہائٹ ہاوس میں شاید کوئی اور ہو جو ٹوئیٹر ہینڈل سے ان سارے ٹوئیٹس کو ڈلیٹ کر کے نئے ٹوئیٹس کرنا شروع کرے اور یہ واضح کرے کہ ’’جو اب تک ہم کر رہے تھے وہ غلط تھا  ہم خود بھی انتشار کا شکار رہے اور ہم نے دنیا کو بھی منتشر رکھا اب یہ انتشار مزید قابل برداشت نہیں‘‘ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱] https://www.bbc.com/hindi/international-48916582
[۲] ۔ https://www.theatlantic.com/international/…/britain-has…trump…ambassador/593545/
https://www.politico.com/story/2019/07/…/british-ambassador-donald-trump-1404601
https://www.nbcnews.com/…/trump-s-spat-u-k-ambassador-shows-he-still-doesn-ncna.
https://www.theguardian.com/…/donald-trump-we-will-no-longer-deal-with-the-britis
https://www.vox.com/2019/7/8/…/trump-darroch-uk-ambassador-leaked-cables-tweet
[۳] https://www.bbc.com/news/uk-48898231
[۴] https://www.theguardian.com/us-news/2019/jul/07/donald-trump-inept-and-dysfunctional-uk-ambassador-to-us-says
[۵] “unlikely that US policy on Iran is going to become more coherent any time soon” because “this is a divided administration”.،https://www.bbc.com/urdu/world-48898681
[۶] ۔https://www.huffpost.com/entry/british-ambassador-leaked-memo-inept-trump_n_5d212ed0e4b01b834737dbfe
[۷] ۔https://www.bbc.com/urdu/world-44823387
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پاکستان میں صہیونیت مخالف جذبات اور ان کا مقابلہ کرنے کی استعماری کوشش (حصہ سوئم)

  • ۴۷۷

بقلم: ڈاکٹر محسن محمدی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی



حصۂ اول کا خلاصہ
فلسطین اور قبلۂ اول کے قبضے پر سب سے پہلا رد عمل ہندوستانی مسلمانوں نے دکھایا اور انھوں نے ۱۹۲۰ع‍ کی دہائی کی تحریک خلافت کو فلسطینی کاز کے لئے وقف کیا۔ سب سے پہلی عمومی اسلامی کانفرنس مولانا محمد علی جوہر سمیت برصغیر کے مسلم راہنماؤں کے زیر اہتمام اور فلسطین کے مفتی الحاج امین الحسینی کے تعاون سے بیت المقدس میں منعقد ہوئی جہاں کانفرنس کے شرکاء کی نماز جماعت کی امامت عراق کے عظیم مصلح علامہ محمد حسین کاشف الغطاء نے کی اور نماز کے بعد مسلم مندوبین اور فلسطینی نمازیوں کو اپنا تاریخی خطبہ دیا۔ پاکستان اپنی تاسیس کے فورا بعد یہودی ریاست کی مخالفت اور فلسطینی کاز کی حمایت کے اظہار کا عالمی مرکز بنا اور یہاں کے مسلم راہنماؤں نے فلسطینی کاز کی زبردست وکالت کی اور اسلامی کانفرنس الحاج امین الحسینی کی سربراہی میں اس نو زائیدہ مسلم ملک کے دارالحکومت کراچی میں منعقد ہوئی۔ پاکستان نے اپنی تاسیس کے پہلے سال سے اقوام متحدہ میں بھی فلسطینیوں کی حمایت کی اور پاکستان ان ملکوں میں سے ایک ہے جنہوں نے یہودی ریاست کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
حصۂ دوئم کا خلاصہ
استعمار کی طرف سے صہیونیت مخالف نظریات کا خاتمہ فطری امر ہے ۔۔۔ اسرائیل کا قیام، قیام پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد میں لایا گیا۔ پاکستان صہیونیت مخالف نظریات کے مرکز ہونے کے ناطے اسرائیلیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی کے مترادف تھا چنانچہ یہاں استعمار اور صہیونیت نے اپنی شیطانی سازشوں کا آغاز کیا۔ ہند اور پاکستان کے درمیان اختلافات کو ہوا دی اور اسرائیلی سیاسی اور مذہبی راہنماؤں نے پاکستان کے ایٹمی منصوبے کو اپنے لئے خطرہ قرار دیا اور صہیونیت مخالف ہندوستانی شخصیات کے قتل کی کامیاب سازشیں کیں۔
حصۂ سوئم
۵۔ دشمن شناسی میں انحراف
استعمار کا مقابلہ اور اس کے خلاف جدوجہد کے سلسلے میں بر صغیر کا تجربہ باعث بنا کہ مسلمانوں کے درمیان استعمار مخالف جذبات بہت گہرے اور طاقتور ہو جائیں۔ چنانچہ بر صغیر کی سیاسی فقہ کے اہم ترین مفاہیم و تصورات میں ایک “جہاد” کا تصور ہے جو استعمار کے خلاف جدوجہد کے ضمن میں ـ عسکری لحاظ سے بھی اور سیاسی لحاظ سے بھی ـ نمایاں رہا۔ جو افسوسناک واقعہ پاکستان میں رونما ہوا، یہ تھا کہ پاکستانیوں کا استعمار مخالف جذبہ اپنے راستے سے منحرف ہوا؛ جس کے بموجب یہ توانائی اور یہ مقدس قوت استعمار کے خلاف جدوجہد میں صرف ہونے کے بجائے، عالم اسلام کے اندر صرف ہوئی۔
افغان جنگ اس مسئلے کا آغاز ثابت ہوئی کہ پاکستانی مسلمان جو جذبات اور جو قوت اس سے قبل انگریزی استعمار کے خلاف بروئے کار لاتے رہے تھے، ان ہی جذبات سے انھوں نے افغان مسلمانوں کے ساتھ مل کر سوویت اتحاد کی جارحیت کے خلاف بھی استفادہ کیا۔ یہ پرانا تجربہ ابتدائی قدم میں کامیاب رہا اور افغانستان سے سوویت روس کے نکال باہر کرنے پر منتج ہوا لیکن دوسرے قدم میں یہ عظیم استعداد و صلاحیت ـ مغرب کی سازش اور مداخلت کی وجہ سے ـ دشمن کی شناخت میں انحراف سے دوچار ہوئی۔ اسی سازش کی وجہ سے پاکستان تکفیری جماعتوں کے سب سے بڑے اڈے میں تبدیل ہوا اور یوں استعمار مخالف اور حقیقی اسلام پسندانہ جذبات کے تاریخی دھارے کا رخ ـ مغرب اور تسلط پسند عالمی استعماری نظام کو نشانہ بنانے کے بجائے اسلامی مکاتب فکر، منجملہ شیعہ ـ کی طرف تبدیل کردیا گیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان ان اہم ترین مراکز میں سے ہے جہاں سے شیعہ مخالف تشدد کی رپورٹیں آرہی ہیں۔
سیاسی اتحاد و ہمآہنگی کے اہم ترین اصولوں میں سے ایک “مشترکہ دشمن” ہے۔ امت مسلمہ کو اپنے طویل المدت اہداف کے حصول کے لئے اتحاد، یکجہتی اور ہمآہنگی کی ضرورت ہے۔ اس راستے میں تمام تر قومی، قبائلی اور نسلی رجحانات کو ترک کرنا چاہئے اور اسلام کو اپنی عالمی اسلامی تحریکوں کا محور بنانا چاہئے۔ عالم اسلام کے اندرونی محاذ کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بننے والا ایک عنصر “مشترکہ دشمن” ہے۔ مشترکہ دشمن اندرونی یکجہتی اور اندرونی مجموعے [یعنی عالم اسلام] کو تشخص دینے اور اس راہ میں ثابت قدم رہنے اور کوشش کرنے اور اسلامی امت کے مشترکہ سفر کے احساس کا موجب بنتا ہے؛ کیونکہ تشخص کا ایک حصہ متضاد قوتوں کی موجودگی کی وجہ سے با معنی بن جاتا ہے۔ ہمارے تشخص کا ایک حصہ اس سوال کے جواب کا مرہون منت ہے کہ “ہم کون نہیں ہیں؟”۔ چنانچہ ہویت کا اصول ہمیشہ تضاد کے اصول کا لازمہ ہے۔ ([۱])
ابن خلدون کا کہنا ہے کہ مشترکہ دشمن کی موجودگی قرابتوں، اور قبیلے یا قوم کی یکجہتیوں، عصبیتوں اور قیام و دوام کا سبب ہے۔ ([۲])
جب ایک چیز کو “دشمن” کا عنوان دیا گیا، تو اس کی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر دشمن کی ایک کارکردگی “خطرہ اور دھمکی” ہے۔ “دھمکی” ایک سماجی عمل اور فعل ہے جو کبھی ایک روش اور طرز عمل میں اور کبھی کچھ الفاظ کے سانچے میں نمایاں ہوجاتا ہے۔ دھمکی لازمی طور پر عملی جامہ نہیں پہنا کرتی بلکہ دھمکی دینے والا چاہتا ہے کہ اس شخص [یا فریق] پر “تسلط” پائے جس کو دھمکی دی جاتی ہے اور “تسلط” دھمکی دینے والے کے استعماری مقاصد کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ دھمکی کے مقابل فریق کی طرف سے رد عمل کا امکان پایا جاتا ہے جو “مزاحمت” اور دھمکی دینے والی کے مطالبے کے سامنے عدم تسلیم و عدم قبولیت پر منتج ہوسکتا ہے۔ ([۳])
دھمکی کا عمل جس کا سرچشمہ ایک “غیر” کی طرف سے ہے، دھمکی دینے والے فریق میں ایک مجموعی تشخص، یکجہتی، اور نتیجتاً معاشرے میں  “مزاحمت” کے عنصر کے جنم لینے کا سبب بنتا ہے۔ اہم نکتہ یہاں یہ ہے کہ “مزاحمت استقامت کا سبب بنتی ہے”۔ ([۴]) یعنی “مزاحمتی قوتوں” کی کامیابیوں کے علائم اور نشانیوں کو دیکھ کر ان لوگوں کی طاقت و استعداد میں اضافہ ہوتا ہے جو دھمکیوں کے نتیجے میں مزاحمت ترک کرچکے ہیں اور سر تسلیم خم کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں مزاحمت جاری رہے گی تو مزاحمتی دھارے کی طاقت اور صلاحیت کو بڑھا دیتی ہے اور دھمکی آمیز قوتوں کی صلاحیتوں کو گھٹا دیتی ہے۔ بالفاظ دیگر “وقت” مزاحمت اور دھمکی کے درمیان رابطے میں، دھمکی اور خطرے کی شدت کو کم اور مزاحمت کی قوت میں اضافے کا سبب ہے۔ چنانچہ “حالات” کا عنصر مزاحمتی دھارے کے حق میں پلٹے گا اور یوں “مزاحمت” کا دھارا “تسلط” کے دھارے پر غلبہ پائے گا۔ ([۵])
عصر حاضر میں بھی بہت سی بین الاقوامی اور تہذیبی صف آرائیاں اسی تناظر میں قابل تشریح ہیں؛ جیسے سرد جنگ کے دوران طاقت کی دوڑ، نیز اس دور کے بعد مغرب کی طرف سے اسلامو فوبیا کا منصوبہ۔ ([۶]) چنانچہ امریکہ جن صلاحیتوں اور طاقت کو سوویت اتحاد کے خلاف بروئے کار لا رہا تھا، اس کا رخ عالم اسلام کی طرف ہوا۔ البتہ یہ خطرہ اگر مسلمانوں کو مشترکہ تشخص اور مشترکہ عزم کی طرف لے جائے تو اس کا کردار وحدت آفریں ہوگا اور [اس خطرے ([۷])] کو ایک فرصت ([۸]) میں تبدیل کرے گا۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ دشمنان اسلام کی استعماری سرگرمیوں کی وجہ سے، مسلم ممالک اپنی سلامتی کے لئے بیرونی دشمنوں سے کم اور دوسرے مسلم ممالک کی طرف سے زیادہ خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ ([۹])
بدقسمتی سے، عالم اسلام اپنے دشمنوں اور اپنے حقیقی رقیبوں کی پہچان کے حوالے سے تقلیب و تغیّر سے دوچار ہو گیا ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر “طاقت کا تجزیہ” ثابت کرتا ہے کہ عالم اسلام کو “تسلط پسند لبرل جمہوریت کی ثقافت” نامی ایک بڑے مشترکہ دشمن کا سامنا ہے لیکن بعض مسلم ممالک حقیقی دشمن سے چشم پوشی کرکے عالم اسلام کے اندر اپنے لئے دشمن تلاش کررہے ہیں۔ اس تزویری خطا کا نتیجہ عالم اسلام میں تضادات اور انتشار اور عالم اسلام پر دشمن کے تسلط کی ترغیب کی صورت میں برآمد ہورہا ہے؛ جس کی اہم ترین مثالوں میں سے ایک اسلامو فوبیا کی الٹی تصویر ہے جو امریکہ عالم اسلام کے اندر سرگرم تکفیری ٹولوں کی مدد سے دنیا کو پیش کررہا ہے تا کہ اسلامی ممالک میں اپنی ناجائز موجودگی اور اثر و رسوخ کا جواز فراہم کرسکے۔ ([۱۰])
قرآن مجید ـ جو تمام مسلمانوں کا مشترکہ اور سب سے اہم اور بنیادی ماخذ و منبع سمجھا جاتا ہے ـ یہود کو اہل ایمان کا شدید ترین اور اصلی دشمن قرار دیتا ہے اور آج یہود کا اصلی ترین جلوہ صہیونی/یہودی ریاست کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ریاست کو اپنا مشترکہ دشمن سمجھیں اور اس کے مد مقابل فلسطینی کاز کو اپنا نصب العین قرار دیں۔ لیکن انتہاپسند تکفیری دھارے نے عالم اسلام کے ایک تزویری تقابل میں تزویری انحراف پیدا کیا ہے۔
اس نامطلوب صورت حال میں تکفیری ٹولوں کے کرتوتوں نے بحران میں شدت آنے اور عالم اسلام میں انتشار اور تضادات کے فروغ کے اسباب فراہم کئے ہیں۔ اسلامی جماعتوں کے ساتھ تکفیری دھارے کے معاندانہ رویے نے اسلامی جماعتوں کے اتحاد و یکجہتی کا سبب بننے والے “مشترکہ دشمن” کے نظریئے کو نابود کردیا ہے اور اس کے بموجب دوست اور دشمن کی جگہ تبدیل ہوگئی ہے۔ تکفیری سوچ نے بہت سوں کو اسلامی معاشرے سے نکال باہر کیا ہے اور عالم اسلام میں معاندانہ صف بندیوں کو جنم دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمین اصلی اور حقیقی دشمن سے غافل ہوچکے ہیں اور دوسرے مسلمانوں اور مسلم جماعتوں اور گروہوں کو دشمن سمجھنے لگے ہیں۔
نظریۂ تکفیر کا اہم ترین نظریہ پرداز “عبدالسلام فَرَج” “قریبی دشمنوں” (یعنی اسلامی ممالک کے حکمرانوں) کے خلاف جدوجہد کو “دور کے دشمنوں” (یعنی غیر مسلم ممالک کے حکمرانوں) کے خلاف جدوجہد پر ترجیح دیتا ہے۔ ([۱۱]) اس تصور یا نظریئے کی بنیاد پر جہاد دفاعی حالت سے جارحانہ حالت میں تبدیل ہوا اور کفار کے بجائے مسلمین ـ جن کو اسلام سے خارج کردیا گیا تھا ـ قتل عام کا نشانہ بنے اور بےشمار شیعہ اور سنی مسلمان اس طوفان بدتمیزی کا شکار ہوئے۔ یہاں تک کہ سلفی شیوخ اور مفتیوں نے شیعیان اہل بیت سمیت اکثریتی مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ دینے کے بعد ان کے مقابلے میں “جہادیوں” کو مدد پہنچانے کی ضرورت پر مبنی فتاویٰ جاری کئے۔ ([۱۲])
ربیع بن محمد السعودی ـ جو ایک سلفی مؤلف ہے اگرچہ کچھ غیر حقیقی عقائد کو مذہب تشیّع سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے ـ مگر صلیبی اور یہودی حکومتوں اور عالم اسلام میں امریکی مداخلتوں کے مقابلے میں شیعہ اور سنی کے اتحاد کے عقیدے کی ضرورت پر زور دیتا ہے اور آخرکار یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا شیعوں سے اتحاد ہوسکتا ہے۔ ([۱۳])
اس قسم کے تضادات پر مبنی تفکرات و نظریات کو فلسطین اور تحریک مزاحمت کے سلسلے میں ان کے موقف میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
مسئلۂ فلسطین ابتداء سے عالم اسلام کے نہایت اہم اور متفقہ مسائل کے زمرے میں شمار ہوتا رہا ہے جس کے لئے شیعہ علماء کا فتوائے جہاد جاری ہوا۔ ([۱۴]) اگرچہ یہ تنازعہ سنی دنیا میں رونما ہوا لیکن تکفیری نظریئے کے پیروکاروں کا موقف نہ صرف غیرجانبدارانہ بلکہ غاصبوں کے ساتھ سازگار اور موافقت ہے:
تکفیری دھارا صہیونی ریاست کے آگے اپنے ماتھے پر بل بھی نہیں ڈالتا اور حتّیٰ کہ مسلمانوں کے خلاف یہودی ریاست کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ ([۱۵])
محاذ مزاحمت کو بھی ـ جو یہودی ریاست کے خلاف جدوجہد میں سرگرم عمل ہے اور استعماری طاقتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا مشترکہ محاذ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ـ تکفیری ٹولوں کے کرتوتوں کے اثرات کا سامنا ہے۔ تکفیری ٹولوں نے نہ صرف اس محاذ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس کو ترک کرگئے اور اس کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔ ([۱۶])
اسی اثناء میں امت مسلمہ اور محاذ مزاحمت کی دشمن یہودی ریاست (اسرائیل) مقبوضہ فلسطین میں، یہودیوں کی ناہمآہنگ ٹولوں کو مشترکہ تشخص دینے اور سماجی یکجہتی قائم کرنے کے لئے “مشترکہ دشمن” کے تصور سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ بالفاظ دیگر یہودی-اسرائیلی معاشرے کا تشخص ایک مشترکہ اصول کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور وہ ہے: یہود مخالف “مشترکہ دشمن”۔ ([۱۷])
علاوہ ازیں اسلامی بیداری کا دھارا، سیاسی-معاشرتی میدان میں اسلام کی موجودگی اور کردار ادا کرنے اور مغرب اور آمریت و استبدادیت کے خلاف جدوجہد کا اہم ترین معاصر عامل اور سبب تھا جو مشترکہ دشمن کے مقابلے کے طور پر، اسلامی اہداف تک پہنچنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور ربط و پیوند کا سبب بن سکتا تھا۔ تکفیری ٹولوں نے اس راہ میں بھی ایک بڑے آسیب اور آفت و انحراف کا کردار ادا کیا، اور اتحاد و یکجہتی کے بجائے تکفیر، انتہاپسندی کی ثقافت کو فروغ دیا۔ ([۱۸])
پاکستان علاقے اور عالم اسلام میں انتہاپسند تکفیری تصورات و تفکرات کے اصلی اڈوں میں شامل ہے اور تکفیری ٹولے یہاں سعودی اثر و رسوخ اور پشت پناہی کے سائے میں سرگرم عمل ہیں۔ اس تلخ صورت حال کا ایک سبب افغانستان کی جنگ اور اس کے بعد رونما ہونے والے مسائل اور واقعات ہیں۔ افغان جنگ کے خاتمے کے بعد، افغانستان میں سرگرم پاکستانیوں میں سے زیادہ تر افراد پاکستان واپس آئے اور فرقہ وارانہ تشدد میں مصروف ہوئے اور اس تشدد کو سیاسی طاقت کے حصول کا اوزار قرار دیا۔ انھوں نے تکفیر کے اوزار کو نہ صرف شیعیان اہل بیت سمیت ان لوگوں کے خلاف استعمال کیا جنہیں وہ اپنا دشمن سمجھتے تھے۔
افغان جنگ نے پاکستان میں تشدد پسند اور انتہا پسند قوتوں کو تقویت پہنچائی اور انہیں وہابیت کی وادی میں پہنچایا۔ چنانچہ دیوبندیوں کے درمیان سلفیت کے رجحانات پیدا ہوئے۔ اس صورت حال میں وہ نہ صرف فلسطینی کاز سے دور ہوگئے بلکہ قدس پر قابض یہودی ریاست کو دشمن سمجھنے کے بجائے شیعہ کو اپنے دشمن کا عنوان دیا؛ [اور بعض مواقع پر یہودی ریاست کی صف میں کھڑے ہوکر فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کی غرض سے منعقدہ یوم القدس ریلیوں کے شیعہ شرکاء کو دہشت گردانہ اور خودکش حملوں کا نشانہ بنایا]۔ یوں اسلام کی جہادی استعداد اسلام اور مسلمانوں کے اصلی اور شدیدترین دشمن ـ یعنی صہیونی-یہودی ریاست پر صرف ہونے کے بجائے، عالم اسلام کے دوسرے حصے (شیعیان اہل بیت) کے خلاف جنگ کی نذر ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
[۱]۔ رجوع کریں: تغییرات اجتماعی، (Le changement social) گای روچر، (Guy Rocher)، فارسی ترجمہ منوچہر وثوقی، ص۱۳، نشر نی، تہران۔
[۲]۔ رجوع کریں: مقدمۂ ابن خلدون، ابن خلدون، فارسی ترجمہ: پروین گُنابادی، ج۱، ص۳۳۴، انتشارات علمی و فرہنگی، تہران، ۱۳۶۲۔ نیز رجوع کریں: تاریخِ عرب قبل از اسلام، عبدالعزیز سالم، ترجمہ باقر حیدری نیا، ص۳۱۱، انتشارات علمی و فرہنگی، تہران، ۱۳۸۰۔
[۳]۔ ر۔ک: کالبدشکافی تہدید، اصغر افتخاری، ص۹۴، دانشگاہ امام حسین علیہ السلام، تہران، ۱۳۸۵۔
[۴]۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے اس مسئلے کو اسلام کے صدر اول کی تاریخ میں نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ رجوع کریں: یوم بعثت رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ کے سلسلے میں نظام اسلامی کے عہدہ داروں سے خطاب، مورخہ ۳۰ جولائی ۲۰۰۸۔
[۵]۔ رجوع کریں: کانفرنس بعنوان “نظریۂ بیداری اسلامی در اندیشہ سیاسی حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی و آیت اللہ العظمی امام خامنہای” کے منتخب مقالات کا مجموعہ بعنوان “تاثیر مقاومت بر بیداری اسلامی در اندیشہ سیاسی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای”، کمیل خجستہ، ص۷۲۷-۷۵۱۔
[۶]۔ رجوع کریں: “پدیدہ اسلامترسی”، (The phenomenon of Islamophobia) فادی اسماعی، ترجمہ پرویز شریفی، ص۳۳-۴۰، ماہنامہ اسلام و غرب، وزارت امور خارجہ، سال اول، پیش شمارہ دوم، مرداد ۱۳۷۶؛ نہ شرقی نہ غربی (روابط خارجی ایران با آمریکا و شوروی)، (Neither East Nor West: Iran, the Soviet Union, and the United States) نکی کیڈی، مارک گازیورسکی، (Nikki Keddie & Mark J. Gasiorowski) ترجمہ ابراہیم متقی اور الہہ کولایی، ص۲۱۶، نشر مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تہران، ۱۳۷۹ھ ش۔
[۷]۔ Threat
[۸]۔ Opportunity
[۹]۔  رجوع کریں: سیاست خارجی جمہوری اسلامی ایران؛ بازبینی نظری و پارادایم ائتلاف، محمود سریع القلم، ص۱۱۲و۱۱۳، مرکز تحقیقات استراتژیک، تہران، ۱۳۷۹۔
[۱۰]۔  رجوع کریں: صناعۃ الکراہیہ فی العلاقات العربیۃ – الامریکیۃ، جمع من المؤلفین، بیروت، مرکز دراسات الوحدة العربیّۃ، ۲۰۰۳ع‍
[۱۱]۔  رجوع کریں: الجہاد الفریضۃ الغائبۃ، محمد عبدالسلام فرج، مقدمہ، قاہرہ، بی نا، ۱۹۸۱۔
[۱۲]۔  مجموعۃ فتاوی، عبد اللہ بن باز، ج۴، ص ۳۲۴۔
[۱۳]۔  الشیعۃ الامامیۃ الاثنی عشریۃ فی میزان الاسلام، ربیع بن محمد السعودی، ص ۱۴-۱۷، چاپ دوم، مکتبہ ابن تیمیۃ، قاہرہ ۱۴۱۴ق۔
[۱۴]۔  تاریخ النجف السیاسی ۱۹۵۸-۱۹۴۱ع‍، مقدام عبدالحسین فیاض، ص ۱۶۵، بیروت، دارالاضواء، ۲۰۰۲ع‍/۱۴۲۳ق۔
[۱۵]. عالمی کانفرس بعنوان “تکفیری دھارے علمائے اسلام کی نظر میں” سے امام خامنہ ای کا خطاب۔ ۲۰۱۴-۱۲-۰۵۔
[۱۶]۔ رجوع کریں: نظریہ مقاومت در روابط بینالملل؛ رویکرد ایرانی-اسلامی نفی سبیل و برخورد با سلطہ، روحاللہ قادری کنگاوری، ص ۲۳۹و ۲۳۸، مجلہ سیاست دفاعی، ش ۸۲، بہار ۱۳۹۲۔
[۱۷]۔ رجوع کریں: جامعہ شناسی سیاسی اسرائیل، (اسرائیل کی سیاسی نفسیات) اصغر افتخاری، ص۱۳۷و۱۳۸، مرکز پژوہش ہای علمی و مطالعات استراتژیک خاورمیانہ، تہران، ۱۳۸۰؛ “ابعاد اجتماعی برنامہ امنیتی اسرائیل؛ دستور کاری برای قرن بیست و یکم”، (اسرائیلی سماجی سلامتی منصوبےکے پہلو؛ اکیسویں صدی کے لئے دستور العمل) اصغر افتخاری، ص۵و۶، فصلنامہ مطالعات امنیتی، شمارہ ۱، ۱۳۷۲ھ ش۔
[۱۸]۔ “بررسی تاثیرات سلفیگری تکفیری بر بیداری اسلامی”، (اسلامی بیداری پر تکفیری سلفیت کے اثرات کا جائزہ) محمد ستودہ، مہدی علیزادہ موسوی، ص۹۱-۱۱۶، علوم سیاسی، شمارہ ۶۵، بہار ۱۳۹۳ھ ش۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دنیا کی فلم انڈسٹریز پر یہودیوں کی مکمل اجارہ داری

  • ۴۲۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی اور یہودی لابیوں کا دنیا کے سینیما، فلم کمپنیوں اور انڈسٹریوں پر اس قدر قبضہ ہے کہ ایک مغربی عیسائی مفکر لکھتے ہیں: “۔۔۔ یہودیوں نے عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری دنیا کے ذہنوں کو واش کر دیا ہے۔ یہودی انحرافی فلموں کے ذریعے ہمارے نوجوانوں اور بچوں کے لیے خوراک فراہم کر رہے ہیں اور وہ فلموں کے ذریعے جو چاہتے ہیں ان کے ذہنوں میں ڈال دیتے ہیں، انہوں نے ہمارے جوانوں کو فاسد کر دیا ہے اور انہیں اپنی نوکری کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ صہیونی دو گھنٹوں کے اندر (یعنی دو گھنٹے کی فلم کے دوران) ان تمام آداب و رسومات اور ثقافت و کلچر کو ان کے ذہنوں سے واش کر دیتے ہیں جو اسکول، معلم، والدین وغیرہ نے انہیں سکھائے ہوتے ہیں”۔
یہ بات سن کر آپ کو حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا میں فلم سازی کی صنعت کی بنیاد ڈالنے والے اور اسے عروج دینے والے یہودی ہیں۔ بعض اعداد و شمار کے مطابق سینیما کی دنیا کے ۹۰ فیصد ڈائریکٹر، فنکار، فوٹوگرافرز، کیمرہ مینز، فلم نامہ لکھنے والے اور اسپانسرز وغیرہ یہودی ہیں۔ چند ماہ قبل عالمی انٹرنٹ چینل نے ایک مقالہ شائع کیا اس عنوان کے تحت کہ کیا ہالیووڈ یہودی ہے؟ اور اس میں یہودیوں کی ایک لمبی فہرست گنوائی گئی جو ہالی ووڈ میں مصروف کار ہیں۔
ایک طرف صہیونیوں کا پوری دنیا کی سینیما پر قبضہ اور دوسری طرف عالم اسلام میں اس موضوع پر بے توجہی انتہائی حیرت انگیز بات اور المناک المیہ ہے۔ صہیونی سینیما اور میڈیا کا استعمال کر کے اپنے جھوٹے واقعات کو پوری دنیا میں یقینی بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ہم مسلمان اپنے سچے حقائق اور حقیقی تاریخ کو اپنے مسلمانوں تک پہنچانے میں بھی ناکام ہیں۔
کتاب “سلطنت خود انہیں کی” کے یہودی مولف “نیل گابر” نے ۱۹۸۸ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ہالی ووڈ کی سب سے بڑی فلم کمپنیز جیسے کولمبیا، میٹروگولڈین میئر(Metro-Goldwyn-Mayer)، وارنر براوز (Warner Bros.)، (Paramount Pictures) پیرامونٹ پیکچرز (Universal Pictures) وغیرہ وغیرہ سب بیسویں صدی عیسوی میں یہودیوں کے ذریعے تاسیس کی گئی ہیں اور مشرقی و مغربی یہودیوں کے ذریعے ان کمپنیوں میں کام ہو رہا ہے۔
ہنری فورڈ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہودی فلم سازی کی صنعت پر ۵۰ فیصد نہیں بلکہ سو فیصد تسلط رکھتے ہیں۔
اور آخر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ دنیا کی کوئی بھی فلم کمپنی اس وقت تک معروف نہیں ہو سکتی جب تک یہودیوں سے وہ اپنا رشتہ نہ جوڑ لے اور دنیا کی کوئی فلم اس وقت تک شہرت نہیں پا سکتی جب تک یہودی اسے شائع ہونے کی اجازت نہ دے دیں۔

 

حسن نصر اللہ کی شخصیت اسرائیلی نصاب کا حصہ

  • ۴۳۶


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل کو، سید حسن نصر اللہ کی وجہ سے کافی مسائل کا سامنا ہے ۔ صہیونی رہنما یہ اعتراف کرتے ہیں کہ سید نصر اللہ نے اسرائیل کے سابق وزیر اعظم اسحاق شامیر کے اس مشہور نظریہ کا خاتمہ کر دیا ہے کہ عرب وہی عرب ہیں اور پانی وہی پانی ہے ۔ شامیر کا مطلب یہ تھا کہ یہ وہی عرب ہیں جنہیں ۶ دنوں کے اندر ہم نے شکست دی تھی اور جن کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا ۔
اب اسرائیلی یہی مانتے ہیں کہ سید حسن نصر اللہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ وہی عرب نہیں ہیں کیونکہ اب تک اسرائیلی فوج کے کمانڈر کہتے ہیں کہ حزب اللہ، ان کی فوج کے بعد، مشرق وسطی کی سب سے طاقتور فوج ہے ۔ یہ معجزہ سید حسن نصر اللہ کا ہی ہے کہ انہوں نے حزب اللہ نامی تحریک کو ایک طاقتور فوج میں بدل دیا ۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے بارے میں اسرائیلی کیا سوچتے ہیں، اس کی ایک مثال، اسرائیل کے اسکولوں میں سماجیات کی کتاب میں سید حسن نصر اللہ کے بارے میں کچھ باتوں کے ذکر ہے ۔ اسرائیل کے حکومتی نصاب میں شامل ایک کتاب میں لکھا ہے: حسن نصر اللہ غیر معمولی طور پر ایک معجزاتی شخصیت کے مالک نہیں اور انہیں اسرائیل کے بارے میں ہر چیز کی اطلاع ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ اسرائیلی معاشرے کی بہت اچھی شناخت رکھتے ہیں اور اپنی اس اطلاع کو متعدد مواقع پر نفسیاتی جنگ میں اسرائیلی معاشرے کو پیغامات دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ انہوں نے ۲۰۰۰ میں جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجیوں کی پسپائی کے بعد اسرائیلی معاشرے کو مکڑی کا جالا کہا تھا جسے بڑی آسانی سے تباہ کیا جا سکتا ہے ۔
اسرائیلی اخبار ہارٹس کے مطابق، حزب اللہ کی نفسیاتی جنگ اس حد تک موثر تھی کہ اسرائیلی فوجیوں کو اپنی توانائی پر شک ہونے لگا ۔ اخبار نے مزید لکھا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے خوف سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے ۔ یہ خوف اسرائیل میں ۱۹۸۵ اور ۲۰۰۰ میں ہونے والے نقصانات سے پیدا ہوا ہے۔
اسرائیلی اخبار ہارٹس میں شائع ڈیوڈ داوود کے مقالے میں کہا گیا ہے کہ حزب اللہ، آئندہ کسی تصادم میں اسرائیل میں پیدا خوف سے استفادہ کرے گی جس نے اسرائیل کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ وہ الجلیل شہر کو فتح کر سکتا ہے، اسرائیل پر دقیق نشانہ لگانے والے میزائلوں کی بارش کر سکتا ہے، امونیا گیس کے ذخائر اور ڈیمونا ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر سکتا ہے اور حزب اللہ نے یہ یقین، بغیر یہ سب کچھ کئے، اسرائیل کو دلا دیا ہے ۔
اسرائیلی اخبار ہارٹس میں شائع اس مقالے کے مقالہ نگار نے یہ اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ، اسرائیلی معاشرے کو یہ یقین دلانے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے کہ جنوبی لبنان، اسرائیلی فوجیوں کی قبرستان بن جائے گا ۔
مقالہ نگار کے مطابق، ممکنہ نقصان سے اسرائیل کا خوف، جنوبی لبنان میں حزب اللہ سے اسرائیل کی شکست کی اصل وجہ تھی نہ کہ حزب اللہ کی فوجی طاقت اور یہی خوف ۲۰۰۶ میں وسیع جنگ سے اسرائیل کے پرہیز کی بھی اصل وجہ ہے، جیسا کہ اس مقالے میں لکھا ہے ۔
حزب اللہ سے اسرائیل کا یہی خوف، تل ابیب کی راہ میں جنگ شام سے وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھانے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
ہارٹس نے آخر میں لکھا ہے کہ کسی بھی تصادم کی صورت میں، حزب اللہ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ اسرائیلی سرحد پر کچھ چوکیوں اور چھوٹے قصبوں پر قبضہ کر لے یا کچھ اسیروں کو اغوا یا قتل کر دے اور اس کا ویڈیو جاری کر دے تو اس طرح سے اسرائیلی فوجی یہ یقین کر لیں گے کہ اپنے شہریوں کی حفاظت کی توانائی نہیں رکھتے ہیں اس لئے وہ اپنی حکومت پر جنگ کے خاتمے کے لئے دباؤ ڈالیں گے اور اس طرح سے جنگ ختم ہو جائے گی اور اس کی تلخ یاد، اسرائیل کے لئے باقی رہے گی ۔

 

بر صغیر صہیونیت کے خلاف جدوجہد کا گہوارہ

  • ۳۴۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برصغیر پاک و ہند دنیا کے اہم ترین علاقوں میں سے ہے جو سو سال سے زائد برطانوی استعمار کے تجربے سے گذرا ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں استعمار مخالف جذبات بہت قوی ہیں۔ یہی جذبات ہندوستان سے انگریزی استعمار کے نکال باہر کئے جانے کا سبب بنے ہیں۔ اس اثناء میں ـ مسلمان، جو ہندوستان پر انگریزی استعمار کے قبضے کے وقت اس خطے کے حکمران تھے، انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد کا ہراول دستہ سمجھے جاتے تھے، اور جتنا کہ انھوں نے استعماری قبضے سے نقصانات اٹھائے اتنے ہی وہ استعمار کے خلاف جدوجہد میں کوشاں رہے۔ اسی بنا پر برصغیر کے مسلمان استعمار کے خلاف جدوجہد کے لحاظ سے عالم اسلام میں اہم کردار اور مقام رکھتے ہیں۔
عالم اسلام میں استعمار کی اہم ترین نشانیوں میں سے ایک صہیونی ریاست کا قیام ہے؛ ایک جعلی ریاست جسے امریکہ اور برطانیہ کی استعماری طاقت نے علاقے میں اپنے مفادات کے حصول اور عالم اسلام پر دباؤ کے لئے قائم کیا۔
امام خمینی (قدِّسَ سِرُّهُ) نے سنہ ۱۹۷۳ع‍ میں امریکہ و کینیڈا میں مقیم مسلم طلبہ کے جواب میں نہایت اختصار اور عمدگی کے ساتھ قدس شریف پر قابض ریاست کی حقیقت یوں بیان کی ہے:
… اسرائیل مغرب و مشرق کے استعماری ممالک کے فکری تعاون کا فطری زائیدہ تھا، کیونکہ انھوں نے اسرائیل قائم کرکے عالم اسلام کے استحصال، تباہی، نوآبادکاری اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا اہتمام کیا اور آج ہم بوضوح دیکھتے ہیں کہ تمام تر استعماری فریق اس کی مدد کررہے ہیں۔
برصغیر کے مسلمان ابتداء ہی سے شدت کے ساتھ فلسطینی کاز کی حمایت اور صہیونی ریاست کے مد مقابل کھڑے ہوگئے۔ سنہ ۱۹۱۹-۱۹۲۴ع‍، برعظیم ہند، ایک زبردست اسلامی تحریک ـ بعنوان “تحریک خلافت” ـ کا شاہد تھا جو برطانیہ کی یلغار کے مقابلے میں خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لئے شروع ہوئی تھی اور اسی اثناء میں انگریزوں اور یہودی ایجنسی کے ہاتھوں بیت المقدس پر قبضے کی صلیبی ـ صہیونی سازش کے خلاف شدید اور مصالحت ناپذیر جدوجہد کررہی تھی۔ ([۱])
معاصر ہندو محقق اور شمالی مشرقی شیلانگ کی ہل یونیورسٹی ([۲]) کے اسسٹنٹ پروفیسر سندیپ چاولہ، اپنے مقالے “فلسطین ۱۹۲۰ع‍ کی دہائی کے دوران ہندوستانی پالیسی کی روشنی میں” لکھتے ہیں کہ ترکی میں آتا تورک (مصطفی کمال پاشا) کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کے زوال کے اعلان کے بعد، اصولی طور پر ہندوستان میں موجود تحریک خلافت کا بنیادی موضوع (جو در حقیقت “خلافت عثمانیہ کی بقاء” کا تحفظ تھا) مسئلۂ فلسطین اور صہیونی سازش کی مذمت میں بدل گیا۔ انھوں نے ۱۹۲۰ع‍ سے ۱۹۳۱ع‍ تک صہیونیوں کے خلاف مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی جدوجہد کی رپورٹ دی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس جدوجہد کی دور رس لہریں کس طرح حتی کہ (گاندھی سمیت) انڈین نشینل کانگریس کے قائدین اور (چلمس فورڈ [Chalmers Ford] سمیت) اس قلمرو میں موجود اہم برطانوی اہلکاروں کو اپنے پیچھے کھینچتی رہی تھیں۔ ([۳])
خلافت کی اسلامی تحریک کی لہروں کی وسعت ہندوستان کی سرحدوں کو پار کررہی تھی چنانچہ اس تحریک کے زعماء (منجملہ: مولانا شوکت علی، عبد الرحمن صدیق اور چوہدری خلیق الزمان) عالم اسلام کی عمومی کانفرنس (المؤتمر الاسلامی العام) میں بھی فعالانہ شریک تھے۔ المؤتمر الاسلامی العام اپنی نوعیت میں دنیائے اسلام کی پہلی کانفرنس تھی جو “ثورۃ معروف براق” کے بعد اسلامی اہداف اور صہیونیت مخالف مقاصد کے لئے ماہ رجب المرجب سنہ ۱۳۵۰ھ / دسمبر ۱۹۳۱ع‍ میں فلسطین کے مجاہد اور مشہور مفتی الحاج امین الحسینی کی سربراہی میں بیت المقدس میں تشکیل پائی۔ حتی کہ تحریک خلافت کے مشہور راہنما مولانا محمد علی جوہر کا مدفن بھی شہر قدس میں واقع مسجد الاقصی کے حرم شریف کے مغربی برآمدے میں قرار پایا، تاکہ اس حقیقت کی علامت ہو کہ عالم اسلام کے ساتھ قدس شریف اور مسجد الاقصی کا رشتہ نہایت مضبوط اور جدائی ناپذیر ہے؛ نیز مُہرِ بُطلان ہو اس سرزمین پر صہیونیوں کی للچائی نظروں پر۔
بیت المقدس میں عمومی اسلامی کانفرنس کی تشکیل کی سوچ نے ـ مولانا محمد علی کی وفات کے بعد، ان کے بھائی مولانا شوکت علی کے ساتھ مفتی الحاج امین الحسینی کے رابطے اور بات چیت کے نتیجے میں، ـ جنم لیا، اور ان ہی رابطوں کے بعد مذکورہ کانگریس دسمبر سنہ ۱۹۳۱ع‍ کو منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کے مشہور مسلم راہنماؤں کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے مختلف اسلامی ممالک کے راہنماؤں نے شرکت کی۔ ([۴])
مذکورہ کانفرنس قدس شریف پر صہیونیت کی حکمرانی کے خلاف جدوجہد میں ایک بڑا قدم تھی جس نے مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی اور اتفاق رائے اور اس مسئلے کی طرف بہت سے غیر مسلموں کی توجہ کے اسباب فراہم کئے۔
جارج اتونیوس نے کہا تھا: “بجا ہے کہ اس کانفرنس کو اسلامی تحریکوں کے نئے دور کا آغاز سمجھا جائے۔۔۔ اور میں بلا شک اس کانفرنس کو حالیہ برسوں میں مسلمانوں کی نہایت تعمیری کوشش سمجھتا ہوں”۔ ([۵])
فلسطین میں برطانوی ہائی کمشنر نے بھی خبردار کیا تھا کہ اگر بیت المقدس میں اس قسم کے اجتماعات کو دہرایا جائے “تو اس صورت میں یہ سرزمین یہودیوں کی نہ رہے گی”؛ چنانچہ یہ کانفرنس، جو منصوبے کے مطابق ہر دو سال ایک بار بیت المقدس میں منعقد ہونا تھی، اور حتی کہ اس کے لئے ایک سیکریٹریٹ یا قائمہ کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا، اس کے بعد کبھی بھی دہرائی نہ جاسکی؛ اور متعلقہ ادارہ جات و دفاتر بھی سنہ ۱۹۳۷ع‍ میں الحاج امین الحسینی کی جلاوطنی کے بعد ہمیشہ کے لئے ختم ہوئے۔ ([۶])
ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں میں صہیونیت مخالف جذبات اس زمانے سے آج تک، کم و بیش، باقی ہیں اور کبھی کبھی حساس مواقع پر آتشفشان کی طرح فوران پھٹ پڑتے ہیں۔ چنانچہ اگست ۱۹۷۷ع‍ میں جب (چھ روزہ عرب ـ اسرائیل سے شہرت پانے والے صہیونی وزیر دفاع) موشے دایان نے اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی سے درخواست کی کہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم کریں، تو ڈیسائی نے ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان ان ہی صہیونیت مخالف جذبات و احساسات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہندوستان میں رہنے والے آٹھ کروڑ مسلمان ہمارے اور آپ کے خوابوں کے شرمندہ تعبیر ہونے میں رکاوٹ ہیں۔ ([۷])
سنہ ۱۹۴۷ع‍ میں پاکستان کی تاسیس عمل میں آئی تو یہ نو زائیدہ اسلامی ریاست برصغیر میں صہیونیت کے خلاف مسلمانوں کے جذبات و احساسات کے اظہار کا مرکز بن گئی۔ نومبر ۱۹۴۷ع‍ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی مندوب نے عرب اور ہندوستانی مندوبین کے ساتھ مل کر فلسطین کی تقسیم اور اس کے ایک حصے میں اسرائیلی ریاست کی تاسیس کے بل کی مخالفت کی؛ اور مذکورہ بل کے ظالمانہ ہونے کے سلسلے دوسرے ممالک کے مندوبین کو قائل کرنے میں قابل قدر کردار ادا کیا۔ (اگرچہ اسرائیل کے مخالفین کی یہ کوشش، صہیونیت کے حق میں اقوام متحدہ پر شدید امریکی دباؤ کی وجہ سے مطلوبہ نتائج تک نہ پہنچ سکی، اور قدس شریف تقسیم ہوا تا کہ اس کے دیگر اجزاء کو بھی صہیون کا اژدہا نگل سکے)۔ ([۸]) بعدازاں جمادی الاول سنہ ۱۳۷۱ھ / ۱۹۵۲ع‍ میں پہلی اسلامی کانفرنس الحاج امین الحسینی کی سربراہی میں، پاکستان کے اس وقت کے دارالحکومت کراچی میں منعقد ہوئی اور ۳۶ اسلامی ممالک سے شخصیات اور جدوجہد کرنے والی سرگرم تنظیموں نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور عالم اسلام کے مسائل ـ بالخصوص صہیونیت کے چنگل میں قدس شریف کی اسیری ـ کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا۔ ([۹]) اس کانفرنس میں شرکت کرنے والی شخصیات میں عراق کے نامور شیعہ مصلح آیت اللہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء بھی شامل تھے جن کا طویل خطبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور خطبے کا متن بھی مستقل طور پرچھپ کر شائع ہوا۔ ([۱۰]) علامہ کاشف الغطاء وہی شخصیت ہیں جنہوں نے ـ اس کانفرنس سے ۲۰ سال قبل ـ سنہ ۱۹۳۱ع‍ میں بیت المقدس میں منعقدہ عمومی اسلامی کانفرنس کے دوران مسجد الاقصی میں نماز جماعت کی امامت سنبھالی اور نماز کے بعد اسلامی ممالک کے ۱۵۰ سے زائد نمائندوں اور بیس ہزار سے زائد نمازگزاروں کو اپنا آتشیں خطبہ دیا، اور سامعین کے دلوں میں عظیم جذبہ پیدا کیا۔ ([۱۱])
کراچی کانفرنس نے استعمار اور صہیونیت کے خلاف امت اسلامی کی ناقابل سمجھوتہ جدوجہد   کا ثبوت دیا اور اس حقیقت کو عیاں کیا کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے نقطۂ ارتکاز و اجتماع کے طور پر، اسرائیل کے وجود اور دنیا اور علاقے میں صہیونیوں کی خواہشوں، منصوبوں اور مفادات کے مد مقابل نہ صرف ایک رکاوٹ بلکہ ان کے لئے ایک عظیم خطرہ ہے۔ عراق میں اخوان المسلمین کے قائد اور اس ملک کی جمعیت برائے آزادی فلسطین کے راہنما محمد محمود صواف ـ جو خود اس کانفرنس میں شریک تھے ـ نے پاکستان کے شمال مغرب اور افغانستان کے مشرق میں پٹھان مسلم قبائل کے نمایاں اور متاثر کن جذبات کی نہایت عمدگی سے تصویر کشی کی ہے۔ ([۱۲])
پاکستانی مسلمانوں نے قدس کاز اور فلسطین کاز کی حمایت اور قدس کی غاصب ریاست کا مقابلہ کرنے پر مسلسل تاکید کی ہے۔ پاکستان ان اسلامی ممالک میں سے ہے جنہوں نے قدس کی غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کیا اور اس کے غاصب ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی سفارتی رابطہ نہیں ہے۔
امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) نے جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس اور فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا دن قرار دیا تو اس اعلان نے پاکستانی مسلمانوں کے صہیونیت مخالف جذبات کو تقویت پہنچائی اور ان جذبات کو سمت دی، تاکہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اس عظیم اسلامی تقریب میں فعالانہ شرکت کریں اور کردار ادا کریں۔
حواشی
[۱]۔ اس تحریک کے سلسلے میں مزید مطالعہ کرنے کے لئے رجوع کریں علی ابوالحسنی کی کتاب “مہاتما گاندھی، اسلام کے ساتھ ہم دلی اور مسلمانوں کے ساتھ ہمراہی” کے چھٹے حصے کی طرف۔ یہ حصہ تحریک خلافت میں گاندھی کے موقف اور ہندوستان کی برطانوی حکومت سے عدم تعاون، کے سلسلے میں ہے۔ (۱۹۱۹ ـ ۱۹۲۲)
[۲]۔ North Eastern Hill University, Shillong, Meghalaya, India۔
[۳]۔ رجوع کریں: مشیر الحسن، ہندوستانی نوآبادی میں اسلامی تحریک اور قومی رجحانات (مجموعۂ مضامین) ص ۳۷ تا ۵۲۔
[۴]۔ اسعدی، بیت المقدس، ص۹۸ تا ۱۰۰۔
[۵]۔ Antonius, Annual Report to the Institute of Current World Affairs for Year ending September 30, 1932, in Antonius-Oxford; alse copy in Israel State Archives (Jerusalem), Division 65 (Antonius Papers), file 707; cited in Kramer, Islam Assembled۔
[۶]۔ وہی ماخذ، ص۱۰۱۔
[۷]۔ المجتمع، العلاقات الهندیة ـ الاسرائیلیه ومخاطرها علی دول العالم الإسلامی، ص۲۱۔
[۸]۔ زعیتر، فلسطین کی سرگذشت یا استعمار کے کالے کرتوت، ص۳۲۹ ـ ۳۳۴؛ رجاء (روجے) گارودی، اسرائیل اور سیاسی صہیونیت کا مقدمہ، ص۵۱ ـ ۵۰؛ گریش اور ویڈال، فلسطین ۱۹۷۴، ص ۳۳ ـ ۳۲۔
[۹]۔ ر۔ک: نطق تاریخی حضرت آیت‌الله کاشف الغطاء در کنفرانس اسلامی پاکستان، ص۲۔
[۱۰]۔ رجوع کریں: ‌آقا بزرگ طہرانی، نقباء البشر، ج۲، ص۶۱۷۔ علامہ کاشف الغطاء نے اس کے دو سال بعد بھی ۲۰ جمادی سنہ ۱۳۷۳ھ کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو خط لکھ کر، امریکہ کے ساتھ پاکستان کے فوجی معاہدے پر کڑی نکتہ چینی کی اور لکھا: اس میں شک نہیں ہے کہ امریکی حکومت خدا اور رسول خدا(ص) کی دشمن ہے، کیونکہ اس نے عدل و انصاف کے راستے سے تجاوز کیا اور مسلمین کے خلاف بالعموم اور عربوں کے خلاف بالخصوص ظلم و ستم کا رویہ اپنایا۔ فلسطین کو زبردستی ان سے چھین لیا اور یہودیوں کو بخش دیا اور کو اسلحہ اور مالی امداد دے کر تقویت پہنچائی۔ (رجوع کریں: کاشف‌الغطاء، نمونہ ہائے اخلاقی در اسلام، ص۸۸ ـ ۸۹۔)
[۱۱]۔ ‌آقا بزرگ طہرانی، نقباء البشر، ج۲، ص۶۱۷۔
[۱۲]۔ صواف، نقشہ ہائے استعمار در راہ مبارزہ با اسلام، ص۳۰۳ ـ ۳۰۱۔

بقلم ڈاکٹر محسن محمدی
ترجمہ فرحت حسین مھدوی