برطانوی سفیر کے فاش شدہ برقی مکتوب اور امریکی حکومت کا اندرونی انتشار

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برطانوی سفیر کے برقی مکتوبات کے لیک ہو جانے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سرمایہ کے بل پر کبھی بھی اپنی خامیوں کو دنیا میں نہیں چھپایا جا سکتا ہے، حقیقت تو عیاں ہو کر ہی رہے گے عین ممکن ہے کہ برطانوی سفیرکی طرح دیگر ممالک کے سفیروں نے بھی اپنے اپنے ممالک اسی قسم کی رپورٹیں بھیجیں ہوں اور اپن سر زمینوں کے حکام کو آگاہ کیا ہو کہ آپ کا ملکی مفاد اس بات میں نہیں ہے کہ آپ دنیا کی سب سے طاقت ور کہی جانے والی حکومت کے ہر فیصلہ کو یہ سوچ کر تسلیم کر لیں کہ یہ اس ملک کی پالیسی کا حصہ ہے، اور اسی کی روشنی میں آپ اپنی عالمی پالیسی کے خطوط کو ترسیم کریں، ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ یہاں موجودہ حکومت میں پالسیاں جذبات و احساسات کے تحت بن رہی ہیں انکا حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ،چنانچہ سب سے بڑی بات آپ یہاں کے سربراہ کے کسی بھی ٹوئیٹ کو پڑھ کر یہ ہرگز نہ سوچیں کہ یہ کسی حقیقت کی عکاس ہے بلکہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر جانے والے ملک کی حالت یہ ہے کچھ نابخرد اندیشوں نے اسکی مقتدرہ کو بالکل نا اہل بنا دیا ہے ۔
ممکن ہے ایسے اندیشوں کا اظہار دیگر ممالک کے سفیروں نے بھی اپنے ممالک بھیجے جانے والی رپورٹس میں کیا ہو لیکن فی الحال تو برطانوی سفیر کا معاملہ ہی میڈیا کی کرم نوازیوں سے سامنے آیا ہے جو اپنے آپ میں برطانیہ و امریکہ کے ما بین دیرینہ تعلقات کے پیش نظر قابل تامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلسل  جہاں واشنگٹن میں برطانوی سفیر کی لیک ہونے والی ای میلز کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ وہیں امریکی صدر جمہوریہ ٹرنپ نے برطانوی سفیر کےساتھ  اشاروں اشاروں میں واسطہ نہ[۱] رکھنے کی بات کر کے فاش ہونے والے ایملز کے مندرجات کی سچائی پر مہر لگا دی ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے جو باتیں برطانوی سفیر نے اپنے میل میں کی ہیں [۲]، ان کی سچائی کو جاننے کے لئے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں خود میرا رویہ ہی ان کی سچائی پر دلیل ہے جو بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ فاش شدہ ایملیز میں بیان کیا گیا ہے۔
ادھر ان ایملیز کے سامنے آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بڑا محتاط رد عمل سامنے آ رہا ہے اور جہاں ایک طرف ایمیلز کے فاش ہونے میں شامل ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی بات ہو رہی ہے وہیں برطانوی حکومت بہت ہی احتیاط کے ساتھ اپنے سفیر کا دفاع بھی کرتی نظر آ رہی ہے چنانچہ  جہاں برطانیہ میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین ٹام ٹوگن ہاٹ نے کہا ہے کہ ان مراسلوں کا افشا ہونا ’بہت ہی سنگین خلاف ورزی‘ ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
وہیں کنزرویٹو ممبر پارلیمان ٹام ٹوگن ہاٹ نے بھی  اس معاملے میں تحقیقات کے مطالبہ کے ساتھ  سر کِم کا دفاع  کیا۔ حتی کہا جا رہا ہے جو کچھ بھی برطانوی سفیر نے کیا وہ اعلی کمان کی زیر نگرانی اور انکے اشاروں پر کیا ہے یاد رہے کہ واشنگٹن میں برطانوی سفیر سر کِم ڈارک کی لیک ہونے والی ایم میلز میں ٹرمپ انتظامیہ کو ‘ناکارہ’، ’غیر محفوظ‘ اور ’نااہل‘ کہا گیا ہے[۳]۔ ساتھ ہی ساتھ  برطانوی سفیر نے اس بات کو بھی کھلے الفاظ میں بیان کر دیا ہے کہ برطانوی سفیر کا کام ’امریکہ کے احساسات کی نہیں بلکہ برطانوی شہریوں کے مفادات اور خواہشات کی ترجمانی کرنا ہے‘۔ انہوں نے بہت ہی واضح الفاظ میں کئی حقیقتوں کو بیان کیا ہے برطانوی سفیر سر کِم ڈارک نے جہاں کہا کہ  صدر ٹرمپ کی قیادت میں وائٹ ہاؤس ’ناکارہ‘ اور ‘منقسم’ ہے۔[۴]
سر کِم نے ان ایملیز میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ جون میں برطانیہ کے اپنے سرکاری دورے کے دوران ‘چکا چوند‘ میں کھو گئے تھے۔ برطانوی سفیر نے کہا کہ صدر کے دماغ میں بات ڈالنے کے لیے آپ کو اپنے نکات کو آسان و سادہ زبان  یہاں تک کہ دو ٹوک انداز میں پیش کرنا ہو گا۔ ان ایملیز کی ایک خاص بات گزشتہ مہینہ صدر ٹرنپ کی جانب سے ایک کی جانب سے امریکن ڈرون مار گرائے جانے کے بعد جوابی کاروائی کے سلسلہ سے حکم کے دئیے جانے اور کاروائی سے ۱۰ منٹ پہلے مشن کو روک دینے پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے  چنانچہ سر کم نے ایران سے متعلق امریکی پالیسی کو ‘غیر مربوط اور خلفشار کا شکار’ قرار دیتے ہوئے ۔کہا  ہے کہ ٹرمپ کا تہران پر حملے کو دس منٹ پہلے یہ کہہ کر روک دینا کہ اس میں صرف ۱۵۰ افراد مارے جائیں گے ’سمجھ سے بالاتر ہے۔’انھوں نے کہا کہ صدر کبھی بھی ’پوری طرح اس کے حق میں نہیں تھے‘ اور وہ امریکہ کے بیرونی جھگڑوں میں شامل نہ ہونے کے اپنی انتخابی مہم کے وعدے کے خلاف نہیں جانا چاہتے تھے۔سر کِم نے کہا کہ ‘ایران پر امریکی پالیسی کا مستقبل قریب میں کبھی بھی مربوط ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ ‘یہ بہت ہی منقسم انتظامیہ ہے۔[۵]’ برطانوی سفیر کی جانب سے  لیک ہونے والی فائل سنہ ۲۰۱۷ سے حال کے واقعات کے ذکر پر مشتمل ہے جس میں سفیر کے ابتدائی خیالات شامل ہیں کہ میڈیا وائٹ ہاؤس میں جو ‘شدید باہمی رسہ کشی اور انتشار'[۶] کی بات کہتا ہے وہ ‘زیادہ تر درست ہے۔’اس میں ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روس کے ساتھ سازباز کے جو الزامات ہیں ان پر بھی تجزیہ ہے کرتے ہوئے انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا ہے کہ  ’’بدترین امکانات کو خارج نہیں کیا جا سکتا‘‘.
جہاں ان ایمیلز کے سامنے آنے کے بعد برطانیہ اور امریکہ کے ما بین تعلقات میں دراڑ پڑ سکتی ہے وہیں برطانوی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ سفیر سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ وزیروں کو اپنی تعیناتی کے ملک کی سیاست سے متعلق ‘ایماندارانہ اور بے لاگ تبصرہ’ فراہم کرے۔ انھوں نے کہا ‘ان کے خیالات ضروری نہیں کہ وزیروں کے بھی خیالات ہوں یا پھر حکومت کے خیالات ہوں۔ لیکن انھیں صاف گوئی ہی کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ ‘انھوں نے کہا کہ وزرا اور سرکاری ملازمین ان مشوروں کو ‘درست انداز سے’ دیکھتے ہیں اور سفیروں کی رازداری برقرار رکھی جانی چاہئے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن میں برطانوی سفارتخانے کے وائٹ ہاؤس سے ‘ تعلقات مضبوط’ ہیں اور ان مراسلوں کے افشا جیسی شرارت کے باوجود یہ رشتے قائم رہیں گے۔ برطانوی اور امریکی تعلقات کی مضبوطی کی دہائی پیشتر امریکن صدر ٹرانپ بھی دے چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس مخالفت کا سامنا انہیں اپنے برطانیہ کے سفر میں کرنا پڑا یقینا وہ ٹرنب کے لئے ناقابل فراموش ہوگا چنانچہ ٹرمپ کے لندن پہنچنے کے موقع پر بڑے پیمانے پر احتجاج ہونے کی خبریں میڈیا میں گشت کر رہی تھیں ٹرنپ کے اس سفر کے دوران لوگوں نے یہ  منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لندن کے  لوگوں نے ایک بہت بڑا غبارہ ہوا میں چھوڑا ہوا تھا جس میں صدر ٹرمپ کو ایک بچے کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔ علاوہ از ایں ٹرمپ کے خلاف پارلیمنٹ اسکوائر کے علاوہ لندن کے کئی دوسرے مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہو ئے تھے اورلندن  کے میئر صادق خان نے بھی ان پر کڑی تنقید کی تھی  جبکہ ٹرنپ نے کہا تھا کہ صادق خان نے انتہائی خراب کارکردگی دکھائی ہے۔[۷] یہ ساری نوک جھونک اور  ٹرنپ کے لند ن سفر کا حال یہ بتا رہا ہے کہ برطانونی حکام کچھ بھی کہیں لیکن اب برطانیہ کی رائے عامہ اس حق میں نہیں ہے کہ بے چوں و چرا  امریکی منتظمہ کی ہر بات کو مان لیا جائے  اور دھیرے دھیرے  دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے   فاش شدہ ایمیلز  برطانوی فیصلہ سازوں کے لئے آگے کی حکمت بنانے میں یقینا مدد گار ثابت ہونگے  اور نہ صرف انکے لئے بلکہ ان تمام ہی ممالک کے لئے جو  بغیر سوچے سمجھے امریکی منتظمہ کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائے چلے جا رہے ہیں اور انہیں یہ نہیں معلوم اسکا انجام کیا ہوگا چنانچہ  ان ایملیز نے یہ واضح کر دیا ہے کہ انتہائی راز دار ملک کے سفیر جب امریکی انتظامیہ  کو قابل اعتماد نہ جانتے ہوئے ناکارہ و انتشار کے حامل ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو دوسروں کے اعتماد کی تو بات ہی کیا ہے خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے امریکی ڈرون طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد امریکی انتظامیہ جس کشمکش کا شکار رہی ہے وہ کسی بھی صاحب فکر سے پوشیدہ نہیں ہے، لوگوں نے  یہ ضرب المثل پہلے تو محض سنی ہی تھی کہ کھسیانی بلی کھما نوچے لیکن  اب امریکہ  کے صدر کی عجیب و غریب حرکتوں کے پس منظر میں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ کھسیانی بلی کس طرح  اتنی بے بس ہے کہ اب کھمبا نوچنے تک کے لائق نہیں ہے اور بس کھنبے کے ارد گرد ٹہلے چلی جا رہی ہے ۔
ہر دن امریکی صدر کے ٹوئیٹر ہینڈل سے جو ٹوئیٹ سامنے آ رہا ہے وہ  اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ جو کچھ بھی برطانوی سفیر نے کہا ہے بالکل سچ ہے  امریکی انتظامیہ مکمل  انتشار و رسہ کشی کی شکار ہے  اور اسکی خارجہ پالیسی خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران کو لیکر اسکا مطمع نظر یہ بیان کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اگلے ڈیرھ سال بعد وہائٹ ہاوس میں شاید کوئی اور ہو جو ٹوئیٹر ہینڈل سے ان سارے ٹوئیٹس کو ڈلیٹ کر کے نئے ٹوئیٹس کرنا شروع کرے اور یہ واضح کرے کہ ’’جو اب تک ہم کر رہے تھے وہ غلط تھا  ہم خود بھی انتشار کا شکار رہے اور ہم نے دنیا کو بھی منتشر رکھا اب یہ انتشار مزید قابل برداشت نہیں‘‘ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱] https://www.bbc.com/hindi/international-48916582
[۲] ۔ https://www.theatlantic.com/international/…/britain-has…trump…ambassador/593545/
https://www.politico.com/story/2019/07/…/british-ambassador-donald-trump-1404601
https://www.nbcnews.com/…/trump-s-spat-u-k-ambassador-shows-he-still-doesn-ncna.
https://www.theguardian.com/…/donald-trump-we-will-no-longer-deal-with-the-britis
https://www.vox.com/2019/7/8/…/trump-darroch-uk-ambassador-leaked-cables-tweet
[۳] https://www.bbc.com/news/uk-48898231
[۴] https://www.theguardian.com/us-news/2019/jul/07/donald-trump-inept-and-dysfunctional-uk-ambassador-to-us-says
[۵] “unlikely that US policy on Iran is going to become more coherent any time soon” because “this is a divided administration”.،https://www.bbc.com/urdu/world-48898681
[۶] ۔https://www.huffpost.com/entry/british-ambassador-leaked-memo-inept-trump_n_5d212ed0e4b01b834737dbfe
[۷] ۔https://www.bbc.com/urdu/world-44823387
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی