مجھے یقین ہے ہم ایک دن کامیاب ہوں گے: راجر واٹرز

  • ۴۱۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: تل ابیب کے نو پوجاریوں کے جذبات، تالاب کی سطح پر پانی کی ان بلبوں کے مانند ہیں جو اندر سے کھوکھلا ہوتے ہیں اور باہر سے جذاب اور پیارے۔ یہ یہودی وہ ہیں جنہوں نے سالہا سال سے اس سرزمین پر بسنے والے مقامی فلسطینیوں کو ۱۹۴۸ میں ان کے گھروں سے باہر نکال دیا اور ابھی تک انہیں اپنے وطن واپسی کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ پینک فلوڈ کے گلوکار راجر واٹرز کے خط کا ایک حصہ ہے جو انہوں نے ان فنکاروں کو لکھا جو مقبوضہ فلسطین کی طرف سفر کا ارادہ رکھتے ہیں۔
راجر واٹرز ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں اپنے ترانوں سے سننے والوں کو جھنجھوڑیں اور ان کے ذہنوں کو بیدار کریں۔ ان کے ترانے اس کے باوجود کہ فلسفی رنگ میں رنگے ہوتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ اس طریقے سے بیان کرتے ہیں کہ سننے والا آسانی سے سمجھ سکے اور بات کا ادراک کر سکے۔
۳جون ۲۰۱۰ کو راجر واٹرز نے «we shall overcome» کے عنوان سے فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرئیلی جارحیت کے خلاف صدائے اعتراض بلند کرتے ہوئے ایک نیا ترانہ شائع کیا۔
اس ترانے کو انہوں نے خود YouTube پر شائع کیا اور اس کے بارے میں یوں لکھا:
میں ایسے حالات میں قرار پایا ہوں کہ میں نے یہ محسوس کیا کہ مجھے فلسطین کے لوگوں سے مخصوص ایک ترانہ کہنا چاہیے۔
انہوں نے اس ترانے میں جو پڑھا ہے اس کا مضمون کچھ یوں ہے:
ہم کامیاب ہوں گے، ہم آخرکار کامیاب ہو کر رہیں گے، مجھے دل کی گہرائیوں سے اس بات پر یقین ہے کہ ہم آخرکار کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔
ہم ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے ہو کر چلیں گے، مجھے دل کی گہرائیوں سے یقین ہے۔
ہم جیل کی دیواروں کو توڑ دیں گے، ہم ایک دن سب مل کر جیل کی دیواروں کو گرا دیں گے مجھے دل کی گہرائیوں سے یقین ہے۔
اور حقیقت ہمیں آزاد کرے گی، حقیقت ہم سب کو ایک دن آزاد کرے گی
مجھے دل کی گہرائیوں سے یقین ہے کہ حقیقت ہم سب کو ایک دن آزاد کرے گی۔
اور ہم ایک دن کامیاب ہو کر رہیں گے۔

............

 

صہیونی غاصبانہ سیاست کے ناقد امریکی صحافی کا خوفناک اخراج

  • ۴۳۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جم کلینسی( Jim Clancy, American broadcaster ) کے ٹویٹس کی داستان اس وقت شروع ہوئی جب شارلی ابڈو کے کسی مسئلے کے بارے میں انٹرنٹ کی فضا میں ان کے اور کچھ اسرائیلی حامیوں کے درمیان لفظی جنگ و جدال شروع ہوئی اور آخر کار جم کلینس کو خوفناک طریقے سے انکے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ اٹانٹا میں سی این این کے مرکزی دفتر سے سرکاری ترجمان نے کلینسی کی برطرفی کا اعلان یوں کیا: ’’جم کلینسی کا اس کے بعد سی این این کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو گا۔ ’’ہم اس سے قبل ان کی تین دہائیوں سے زیادہ خدمت کے بابت ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کے لیے بہترین چیزوں کی امید رکھتے ہیں۔‘‘
کہانی کچھ یوں تھی کہ کلینسی اور چند صارفین کہ جنہیں وہ ’’ہاسبرا‘‘ (۱) کے اراکین جانتے ہیں کے درمیان کچھ ٹویٹس رد و بدل ہوئے اور اس مسئلہ پر کہ اسرائیلی شارلی ابڈو سے اپنے مجروح چہرے پر مرہم پٹی کے لیے سوء استفادہ کرتے ہیں کلینسی نے پورے صراحت سے صہیونیوں کی غاصبانہ سیاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا: ’’ایسے حال میں کہ فلسطینی بین الاقوامی عدالت کو جنگی جارحیت کے الزامات کے حوالے سے قانع کرنے کی کوئی امید نہیں رکھتے شہروں کی تعمیر ان کے مسئلے میں ان کی کامیابی واقعیت کے بہت قریب ہے۔‘‘ انہوں نے صہیونی میڈیا کے ذریعے جاری اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا: ’’ یہ عقیدہ کہ ہر مسلمان دھشتگرد ہے حقیقت کے خلاف ہے میری نظر میں امریکیوں کو اپنی ذہنیت بدلنا چاہیے‘‘۔
ان کی سب سے زیادہ مشکل ساز ٹویٹ اسرائیل کا حامی ایک صارف جو انسانی حقوق کی حمایت کے نام سے ٹویٹ کر رہا تھا کو یہ تھی: ’’ٹھہر جا، بچے! آج شب جمعہ میری رات ہے، تم اور تمہاری ہاسبرا ٹیم جاو بھیڑوں کے ریوڑ کی حفاظت کرو‘‘۔
حملے شروع ہوتے ہی، کلینسی نے پہلے تو بہت اچھے اچھے جواب دئے لیکن پھر اپنا اکانٹ ڈیلیٹ کر دیا لیکن ڈیلیٹ کرنے سے پہلے تک ان کے ٹویٹ پر ۲۰۰ لوگوں نے کامنٹس کر دئے تھے۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد سی این این ویب سائٹ سے ان کی بیوگرافی ڈیلیٹ ہو گئی اور کچھ ہی دیر جیم کلینسی کے نام کے نیچے خدا حافظی کا پیغام لکھا ہوا آ گیا۔
مغربی میڈیا میں صہیونیزم کا وسیع نفوذ ایسا مسئلہ ہے جو حریت پسندوں، سماجی حقوق کے حامیوں اور نسل پرستی کے مخالفین کو بہت شدت سے اذیت پہنچاتا ہے۔
۱: Hasbara (یہ لفظ میڈیا میں اسرائیلی سیاست کو پھیلانے کی طرف اشارہ کے لیے استعمال ہوتا ہے)

 

یہودی طرز کا بینکی نظام صرف ربا اور سود پر استوار

  • ۶۷۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  آج ہم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں بےشمار مشکلات انسان کے دامن گیر ہیں ثقافتی، سماجی، سیاسی اور معیشتی مشکلات نے انسان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تعجب خیز ٹیکنالوجی ترقی کے دور میں انسان کی زندگی کمال اور سعاتمندی کی طرف گامزن ہوتی اور اس راہ میں پائی جانے والے مشکلات کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
سائنسی ترقی نے جہاں انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں الجھاؤ پیدا کئے وہاں معیشتی امور میں بھی اسے بہت ساری مشکلات سے دوچار کیا۔ آج دنیا کا اقتصاد صرف سرمایہ داروں کے اختیار میں ہے اور دنیا پر حاکم ظالم اور ستمگر حکمران پوری دنیا کے انسانوں کی معیشت کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے کر جس طرف چاہتے ہیں انسانی زندگی کی لگام موڑ دیتے ہیں۔
عصر حاضر کے قارون اور فرعون در حقیقت خدا سے مقابلہ کرنے کے لیے معیشی امور میں جس چیز سے کھلے عام فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ہے ’’ربا اور سود‘‘۔ انہوں نے معیشتی امور میں جس نظام کو سماج میں رائج کیا ہے وہ ہے ’’بینکی نظام‘‘۔ بینکی نظام کا اہم ترین رکن سود اور پرافٹ ہوتا ہے اگر اس رکن کو اس نظام سے نکال دیا جائے تو ان کے بقول بینک بیٹھ جائیں گے اور دنیا کا نظام نہیں چل سکے گا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بنکوں سے سود کا لین دین ہٹایا جائے اور اسے الہی اور اسلامی طرز کے مطابق تشکیل دیا جائے تو نہ سماج کی ترقی میں کوئی کمی آئے گی اور نہ کمال کی طرف ان کی زندگی کے سفر میں کوئی خلل واقع ہو گا لیکن جو عصر حاضر میں یہودیوں کے ذریعے جو بنکوں کا جو طریقہ کار بنایا ہوا ہے اس نے دنیا کے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کی زندگیوں کی برکتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ انہیں معیشتی امور میں خدا کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
آج پوری دنیا کے ماہرین اقتصاد کا یہ ماننا ہے کہ جس چیز نے انسانی سماج کو بے روزگاری ، مہنگائی اور بدبختی کے موڑ پر لا کر کھڑا کیا ہے وہ ہے عصر حاضر کا بینکنگ سسٹم۔
موسی پیکاک نامی ایک ماہر اقتصاد کا کہنا ہے کہ دنیا کے بین الاقوامی ماہرین اقتصاد معیشتی ترقی کے لیے جس چیز کی تجویز کرتے ہیں وہ ہے سود جبکہ تمام مشکلات کی بنیادی جڑ یہی سود ہے جس کی طرف انسانوں کو متوجہ نہیں کیا جاتا۔
اگر آپ بینکنگ سسٹم پر غور کریں کہ وہ کیسے وجود میں آیا؟ اور اس کے وجود میں لانے والے کون تھے؟ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام میں انسانوں کو کس طرح بیوقوف بنا کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
بنکوں کے نظام کو وجود میں لانے والے یہودی ہیں۔ یہودیوں نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ۷ سو سال کا عرصہ صرف کر کے ایک مثلث وجود میں لائی جس کا ایک ستون بینک ہیں جو مکمل طور پر سود پر مبتنی ہیں دوسرا ستون اسٹاک مارکٹ ہے اور تیسرا قرضہ اور Loan ہے۔ یہودیوں نے ۷ سو سال لگا کر یورپ کے اندر اس نظام کو حاکم کیا اس کے بعد پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے اس بینکی نظام کے ذریعے سب سے پہلے ان کی معیشت کو اپنے اختیار میں لیا اور ان تین ستونوں کے ذریعے آج یہودی پوری دنیا کی معیشت کو اپنے اختیار میں لینے پر کامیاب ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود کہ قدیم توریت کی شریعت میں دوسرے ادیان و مذاہب کی طرح سود خواری حرام ہے اور سود کھانے والے افراد اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی سزا کے مستحق ہیں ان پر کفارہ واجب ہے اور انہیں کوڑے مارے جائیں گے لیکن یہودیوں نے جدید توریت میں تحریف کر کے سود خواری کو جائز قرار دے دیا’’ اپنے بھائی سے سود طلب نہ کرو نہ نقد پیسے پر نہ کھانے پر نہ کسی دوسری اس چیز ہر جو قرض دی جاتی ہے۔ صرف غیروں سے قرضے پر سود لے سکتے ہو‘‘ ( کتاب مقدس، عہد قدیم، سفر لاویان، باب ۲۵، آیت ۳۷،۳۸)
اہل سنت کے عالم دین رشید رضا نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: توریت کی قدیمی نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں تھی کہ تم غیروں سے سود لے سکتے ہو لیکن موجودہ نسخوں میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی حتیٰ اپنے بھائیوں پر بھی رحم نہیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے سود لینے کے علاوہ انہیں اپنا غلام بنا کر حتیٰ دوسری قوموں کو بھی بیچ دیتے تھے۔

 

اسلحے کی تجارت کی مافیا کا نشانہ تیسری دنیا کے ممالک

  • ۵۶۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسلحے کی تجارت بذات خود ایک ایسا خفیہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں تحقیق کرنا ایک دشوار کام ہے۔ خاص طور پر اس کی وسعت کی وجہ سے یہ کام مزید دشوار ہو جاتا ہے چونکہ دنیا کے ایک سو پچاس ممالک اور سیکڑوں کمپنیاں اور ہزاروں دلال اس تجارت میں شامل ہیں۔ سامراجی حکومتوں کے دور میں اسلحے کے بعض دلال دو فریقوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد ان سے استعمال نشدہ یا ناکارہ اسلحہ خرید لیتے ہیں اور اس کی مرمت کر کے دنیا میں انتہا پسند گروہوں کو بیچ دیتے ہیں یہ وہ تجارت ہے جو نہ سرکاری ہے اور نہ کبھی اس کی خبر آتی ہے۔  
دنیا میں ہتھیار بنانے اور بیچنے والے ممالک میں امریکہ ، روس ، فرانس ، برطانیہ ، چین ، جرمنی ، چیکوسلواکیہ ، اٹلی ، نیدرلینڈز ، سویڈن اور برازیل کا نام سر فہرست ہے جبکہ خریداروں میں ہندوستان ، عراق ، سعودی عرب ، شام ، مصر ، ترکی ، افغانستان اور خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔
مصر ، سعودی عرب ، اردن ، شام اور متحدہ عرب امارات نے سن ۱۹۸۱ سے ۱۹۹۱ کے دوران دولاکھ ساٹھ ہزار بلین ڈالر کا اسلحہ خریدا تھا۔  
اسلحہ کی خریداری کسی دوسرے جارح ملک کے مقابلے میں دفاع سے پہلے خود ملک کے اندرونی نظام کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ گوکہ مسلح افواج، حکمران حکومت کی طاقت اور اس کے اقتدار کا اصلی اڈہ ہوتی ہیں۔
بعض اوقات، سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے حکمران طبقے کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لئے بھی اسلحہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک ہھتیاروں کی کثیر تعداد میں پیداوار کر کے تیسری دنیا میں اسے فروخت کرنے کے لیے پہلے جنگیں چھیڑتے ہیں ایک ملک کو دوسرے ملک سے لڑاتے ہیں اور پھر انہیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔
اس دوران ، امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں ’رومن‘ اور ’جنرل ڈائنامکس‘ اور ’ایم ، سی ڈونیلی ، اور ’ڈگلس‘ نے آنے والے برسوں میں اپنے اسلحے کی برآمدات کو دوگنا کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
اس پالیسی کے بعد ۱۹۹۰ میں تیسری دنیا کے ممالک کو امریکی ہتھیاروں کی برآمد دوگنا ہوکر 18.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور بھاری ہتھیاروں کی برآمد میں ریاستہائے متحدہ امریکہ پہلے نمبر پر آیا۔
بالادست ممالک کا تسلط اسلحے کی برآمد تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات خود فوجیوں کا غیر قانونی استعمال بھی اسی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے جیسا کہ کیہان اخبار نے اپنے ایک مقالے میں لکھا: برطانوی ایم او ڈی پولیس افسران نے حالیہ دنوں میں لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں متعدد کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز پر چھاپہ مارا تاکہ بیس ملین پونڈ کے گھپلے کی تفصیلات جمع کر سکیں جو انہوں نے دلالوں کے استعمال اور حکومتی عہدیداروں کے تعاون سے برطانوی فوجیوں کو خلیج فارس کی جنگ میں دھکیلنے پر خرچ کئے تھے۔  
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی

 

دستاویزی فلم To Die In Jerusalem کی حقیقت کیا ہے؟

  • ۴۴۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ھِلّا میڈالیا (Hilla Medalia) کو دستاویزی فلموں کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے، یروشلم میں موت مڈالیا کی ایک ایسی فلم ہے جو راہیل لوی نامی ایک اسرائیلی لڑکی کی ذاتی زندگی کو پیش کرتی ہے جسے فلسطینی خاتون خودکش بمبار، آیت الاخراس Ayat al-Akhras.. الہراس نے کرۃ ہیویلیل Kiryat HaYovel’s کے اہم سپر مارکیٹ کے دروازے پر ایک خودکش حملہ میں دھماکے سے اڑا کر ہلاک کر دیا تھا۔
فلم “یروشلم میں موت” ( To Die In Jerusalem) اس حملہ کی خودکش داستان کے ساتھ دونوں ہی لڑکیوں کی ماوں کے نظریات کو کیمرہ کے ذریعہ پیش کر رہی ہے ۔ وہ چیز جو اس فلم کی داستان کو لائق توجہ بنا رہی ہے وہ قاتل و مقتول لڑکیوں کی آپس میں عجیب و غریب شباہت ہے دونوں کی ملتی جلتی شکل و صورت ناظرین کے لئیے حیرانی کا سبب ہے ، اس فلم کو امریکی چینل ایچ بی او H.B.Oنے نشر کیا۔
 
اس ڈاکومنٹری فلم کے سلسلہ سے ایک وبلاگر لکھتے ہیں: یہ ایک ایسی دستاویزی فلم ہے جو آیات الاخرس نامی لڑکی کے خود کش بم کے ذریعہ ہلاک ہونے والی ایک یہودی لڑکی موت کو پیش کرتی ہے ، یہ ایک ایسی مخصوص زاویہ دید پر مشتمل فلم ہے جو مبالغہ آرائی سے بھری ہوئی ہے اسکے برخلاف نیویارک ڈیلی نیوز نے شدید طور پر اس دستاویزی فلم کی بے طرفی کی حمایت کی ہے ۔اس اخبار کی بے نظیر حمایت اور اسی طرح دیگر امریکن اخباروں کا کھل کر اس کی حمایت میں کھڑا ہونا اس بات کا عندیہ ہے کہ میڈیا کا زنجیری حلقوں کی صورت ایک پورا سلسلہ ہے جو چاہتا ہے کہ ایک بار پھر اسرائیل کی دستاویزی فلموں کو فعال و متحرک کریں تاکہ اس کے ذریعہ اسرائیل کے کاموں اور اس کی جنایتوں کو جواز فراہم کرتے ہوئے اسکا ہاتھ کھلا رکھیں ۔خاص طور پر یہ کہ یہ لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دامن داغدار پاک کرنے کے لئیے مختلف پہلووں میں حمایت کے ساتھ میڈیا و ذرائع ابلاغ سے مربوط امور میں تعلیم کی ضرورت ہے ابھی بہت کچھ ایسا ہے جسے اسے سکھانا ضروری ہے ۔
مغرب کے سربراہان و سرمایہ دار لوگ اس بات کی کوشش میں مشغول ہیں کہ ہر سال اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی بنیادوں اور اس کے ذیلی شعبوں کو مضبوط کرتے ہوئے ان میں اضافہ کریں، اور اس سلسلہ سے اسرائیل کے مختلف ادارہ جات و فاونڈیشنز جیسے اقدار پر مبنی فلموں کے فاونڈیشن کی تمجید، اور انہیں کام میں رغبت دلانے کے لئیے انکی حوصلہ افزائی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسرائیلی سنیما کی اکیڈمی نے حالیہ چند برسوں میں اسکار کی طرز پر اس سے ملتے جلتے پروگرامز اور شو منعقد کئیے ہیں جن میں سے شایک افئیر کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
بہر کیف! اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے کہ حالیہ چند سالوں میں اسرائیل میں میڈیا و ذرائع ابلاغ سے جڑے ادارے بہت مضبوط ہوئے ہیں اور اسرائیل کے سٹلائیٹ چنیل کی فزونی کی مقدار اور پے در پے انکی بنیاد و تاسیس اسی بات کی بیان گر ہے ۔
“یروشلیم میں مرنے کے لئے” نے ۲۰۰۷ میں پیڈڈی ایوارڈ کے ساتھ مل کر، ایچ ڈی او کے دستاویزی فلموں کو جنم دیا.

............

دواؤں کی شیطانی تجارت کی عالمی منڈی

  • ۷۲۶


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دواؤں کی تجارت بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں عالمی سطح پر شروع ہوئی۔ جس کے بعد دنیا میں دواؤں کی بڑی بڑی کمپنیاں وجود میں آئیں۔ دوا ساز کمپنیوں نے کیمیکل مواد کی پیداوار کے لیے بڑے بڑے کارخانے کھولے۔ دنیا کے آٹھ ممالک؛ جرمنی، امریکہ، فرانس، اٹلی، سوئٹرزلینڈ، اسپین، برطانیہ اور جاپان میں دنیا کی تقریبا ۸۰ فیصد دوائیں تیار کی جانے لگیں۔
دوائیں بنانے والے دنیا کے ان اہم ترین ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے جس میں ۱۶ بڑے کارخانے ہیں جن میں سالانہ ۴۵۵۱۶ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد جرمنی ہے جس میں چار بڑی فکٹریاں ہیں جو ۶۸۶۶ ملین ڈالر کی سالانہ دوائیں بناتی ہیں۔ بعد از آں سوئٹرزلینڈ ہے جو ۳ فکٹریوں کے ذریعے ۸۹۷۴ ملین ڈالر اور برطانیہ چار کارخانوں کے ذریعے ۴۳۲۳ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کرتے ہیں اس کے بعد فرانس، جاپان، ہالینڈ اور اٹلی کا نمبر آتا ہے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۳۲ دوا ساز کمپنیاں سالانہ ۳۵ بلین ڈالر کی دوائیں عالمی منڈی میں سپلائی کرتی ہیں۔ سالانہ سیکڑوں ٹن کیمیکلز دواؤں کے نام پر جن میں پین کیلر، اینٹی بایٹک، سردرد کی دوائیں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں لوگوں کے جسموں میں وارد کئے جاتے ہیں۔ یہ کیمیکلز  ہزاروں قسم کی دواؤں کے نام سے دنیا میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور عالمی تجارتی منڈی میں اس تجارت سے ناقابل تصور منافع کمایا جاتا ہے۔
دوسرے ممالک میں دوا ساز کمپنیوں کے گمراہ کن کردار کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ سامراجی سرمایہ دارانہ معاشروں میں پیش کی جانے والی زیادہ تر دوائیں نہ صرف جانوروں پر بلکہ اقوام عالم اور بسا اوقات اپنے ہی لوگوں پر بھی آزمائی جاتی ہیں۔
لیکن دواؤں کے تجربے کے اصلی چوہے تو تیسری دنیا کے بے خبر لوگ، خاص طور پر خواتین اور بچے ہوتے ہیں، اور اس جرم میں شریک وہ ڈاکٹر، ہسپتال اور ادارے ہیں جو رشوت  کے بدلے ان دواؤں کو تجویز کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے نتیجے کو دوا ساز کمپنیوں تک پہنچاتے ہیں۔
اس قسم کے ٹیسٹ، جو خفیہ طور پر اور مریضوں کے علم کے بغیر کئے جاتے ہیں، نہ صرف بہت سارے موارد میں مریضوں میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات مریض کی موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔
اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ بہت ساری ایسی دوائیں جو سرمایہ دار ممالک میں خطرناک منفی اثرات رکھنے کی وجہ سے ان پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے لیکن دوسرے ممالک میں وہ دوائیں کثرت سے استعمال ہوتی رہتی ہیں اور تجارتی منڈی میں ان کا بازار گرم رہتا ہے۔ اور یہاں تک کہ بعض ممالک میں وہ دائیں بھی کثرت سے بیچی جاتی ہیں جن کے استعمال کی تاریخ بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
اس کی ایک مثال ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، سن ۱۹۸۴ میں ۴۶ فیصد دوائیں جو عالمی دوا ساز کمپنیوں کے ذریعے ہندوستان میں استعمال کی گئیں ان کے استعمال کی تاریخ گزر چکی تھی اور وہ اکسپائر دوائیں تھیں۔
۱۹۷۰ کی دہائی کے آغاز میں ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ میں ہزاروں قسم کی دوائیں اور ویٹامنز ایسے تقسیم کیے گئے جن میں الکحل (Alcohol) حد سے زیادہ استعمال کیا گیا تھا اور جو لوگ ان دواؤں کو ایک دو بار استعمال کرتے تھے وہ انکے عادی ہو جاتے تھے اور اس طرح سے شیطانی تجارت کو خوب رواج ملتا تھا۔
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی ص163

 

امریکی فلم (Beauty and the Beast) پر تنقیدی نظر

  • ۵۸۳

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: امریکی فلم ’’خوبصورتی اور جانور‘‘ (Beauty and the Beast) بل کانڈن (Bill Condon) کی ہدایت میں ڈسنی کمپنی کے ذریعے بنائی گئی یہ فلم رواں سال( ۲۰۱۷) کے شروع میں رلیز ہوئی۔ فلم دیکھنے سے قبل عام انسان اس فلم سے جو توقع رکھتا ہے دیکھنے کے بعد وہ اس توقع تک نہیں پہنچ پاتا اور ایک احساس مایوسی اس میں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس فلم سے سوائے اس بات کے کہ انسان کے حوصلے پست ہوں کچھ بھی انسان کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے قبل ڈسنی کمپنی کی فلم ’’جنگل بوک‘‘ (The Jungle Book) ایک بہترین اور عمدہ اثر تھا لیکن ’’پیٹ کے اژدھے‘‘ (Pete’s Dragon) فلم نے دوبارہ اس کمپنی سے مایوسی پیدا کر دی۔
البتہ ’’خوبصورتی اور جانور‘‘ ’’جنگل بوک‘‘ کے سلسلے ہی کی ایک فلم ہے۔ اس فلم میں رائٹر نے نہ صرف اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کی کوشش کی بلکہ عجیب و غریب انداز میں معرکہ سر کرنے کی کوشش کی ہے۔
مغربی طرز زندگی ہمیشہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ لوگوں کو زندگی کی مشکلات اور سختیاں برداشت کرنے کے بجائے انہیں مشکلات کو نظر انداز کر کے جینا سکھائے۔ در حقیقت خود پرستی اور اخلاقی فقر، اجتماعی زندگی کی وہ مشکلات ہیں جو ڈسنی کمپنی کی فملوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔
علاوہ از ایں، فمینیزم وہ اہم ترین عنصر ہے جو اس طرح کی فلموں میں باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مغربی فلم انڈسٹری مرد و عورت کے حقوق کے مساوی ہونے کے مسئلے کو اس طرح سے بیان کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہ دو موجود اگر چہ جسمانی لحاظ سے مختلف ہیں لیکن سماج اور معاشرے میں ان کے حقوق کے درمیان کوئی فرق اور امتیاز نہیں۔ اس طرز تفکر کا نتیجہ یہ ہے کہ عورت اپنی تمام نزاکتوں اور مہربانیوں جو اس کی فطرت میں رچی بسی ہیں کو درکنار رکھ کے مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کی مشکلات اور کٹھن راہوں میں دوڑ لگائے۔

 

فلم بھولبلییوں میں دوڑنے والا (The Maze Runner) ایک حیران کن مغربی تفکر

  • ۴۲۳

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: جب تھامس ((Thomas (Dylan O’Brien) نوجوانوں کے ایک ٹولے کے ساتھ ایک خوفناک اور ڈراؤنے علاقے میں نیند سے اٹھتا ہے تو باہر کی دنیا سے کچھ بھی اسے یاد نہیں ہوتا سوائے ایک عجیب و غریب تنظیم کے بارے میں خواب کے جس کا نام W.C.K.D ہوتا ہے اور پھر درندہ مکڑوں کے زہر سے خودکشی کے بعد اسے سب کچھ یاد آتا ہے۔
تھامس کو امید ہوتی ہے کہ وہ اس جگہ پر آنے اور پھر وہاں سے بھاگنے کا سبب معلوم کرے۔ تھامس اپنے گروہ کے ہمراہ آخر کار مجبور ہوتا ہے اس جگہ سے بھاگنے کے لیے کوئی راہ فرار تلاش کرے۔ لیکن ان لوگوں کو بھولبلییوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جس کے دونوں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہوتے ہیں اور ان کے درمیان سے گزرنے کے دروازے کبھی کبھی کھلتے ہیں۔
اس فلم کے ڈائریکٹر ’’وس بال‘‘(Wes Ball) نے کوشش کی ہے کہ اس فلم کے ذریعے ناظرین کو یہ یقین دلائے کہ مشکلات کو برداشت کر لینا، یا مشکلات کو بھول جانا کسی مسئلہ کا راہ حل نہیں ہے بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور مشکلات کے سامنے اپنی ہار مان کر جھک نہ جائے۔
اس فلم میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ کچھ ایسے افراد ہیں جو کسی مستقل ارادے کے مالک نہیں ہوتے ان کو اگر میدان میں ٹکا کر رکھا جائے تو بہادر نکلیں گے ورنہ ممکن ہے فرار ہوتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے جائیں اور قربانی کا بکرہ بن جائیں۔
یہ فلم در حقیقت مغربی زندگی کی حیراں و سرگرداں بھوبلییوں کی عکاسی کرتی ہے کہ جہاں پر ہزار طرح کے پیچ و خم رکھنے والے راستے سے گزرنے کے بعد بھی انسان ایک بڑے بھولبلییاں میں داخل ہو جاتا ہے کہ جس سے نہ صرف اس کو نجات نہیں ملتی بلکہ اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ مشکلات سے خود کو چھٹکارا دلائے ختم نہ ہونے والے مشکلات اس کے دامن گیر ہو جاتی ہیں۔
مغرب کی دنیا میں جوانوں کی زندگی اکثر و بیشتر انہیں بھولبلییوں کا شکار ہے جن سے وہ کتنا بھی بھاگ کر باہر نکلنے کی کوشش کریں نہیں نکل پاتے۔ اور آخر کار خودکشی کے ذریعے خود کو مشکلات سے نجات دلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

 

فلم نوح (Noah) پر تنقیدی جائزہ

  • ۵۱۰

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: ڈارن آرونوفسکی (Darren Aronofsky) کی ہدایتکاری میں بنائی گئی فلم نوح (Noah) جو دوہزار چودہ(۲۰۱۴) میں ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں رلیز ہوئی اس میں جناب نوح علیہ السلام کی زندگی کے ایک اہم گوشہ یعنی مسئلہ نبوت کو منعکس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جناب نوح (ع) کی کہانی حقیقت پر مبنی ایک ایسی داستان ہے جو مختلف ادیان و مکاتب فکر کے نزدیک قابل قبول ہے یعنی کوئی بھی الہی دین اس تاریخی واقعہ کا انکار نہیں کرتا۔ اس حوالے سے ہالی وڈ کے فلمی اداکاروں اور صہیونی سرمایہ داروں نے اس عالمی تاریخی حقیقت کو اپنی مرضی اور منشاء سے فلمی صورت میں دنیا والوں کے لیے پیش کیا ہے۔ ہالی وڈ کے اداکاروں نے اس پیغمبر الہی پر نازل ہونے والی وحی اور ان کے الہی مکاشفوں کو صرف ایک خواب کی حد تک گرا کر پیش کیا ہے ایسی خواب جو انسان کو کبھی کبھی صرف کوئی دوا کھانے سے بھی دکھنے لگتی ہے۔ اس فلم میں جناب نوح کو امت کے رہبر اور الہی نمائندے کے بجائے صرف اپنے گھر والوں کو نجات دلانے والے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے اور امت کی نسبت گویا وہ اتنے لاپرواہ تھے کہ بے سہارا لوگوں کو بھی ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔
فلم نوح کی کہانی
یہ فلم یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ’’لامخ‘‘( جناب نوح کے والد) سانپ کی کھال کو اپنے ہاتھوں کے اردگرد لپیٹتے ہیں اور اپنی انگلی کو جناب نوح کی انگلی کے قریب کرتے ہیں تاکہ نور نبوت کو ان کے اندر منتقل کریں۔ یاد رہے کہ توریت کی نگاہ میں سانپ، شیطان کی علامت ہے۔ جونہی جناب نوح کے باپ لامخ نور نبوت کو جناب نوح میں منتقل کرنا چاہتے ہیں تو بادشاہ ’’ٹوبل قابیل‘‘ اس راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا اور لامخ کو قتل کر دیتا ہے۔
فلم کے اس حصے کا مقصد یہ ہے کہ مخاطب میں اس نقطہ نظر کو پروان چڑھایا جائے کہ جناب نوح کی نبوت صرف خیالی نبوت تھی اور وہ حقیقت میں معاذ اللہ نبی نہیں تھے! اور اس کے بعد فلم کی باقی کہانی اسی ایک نکتے سے تعلق رکھتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہر نبی کی نبوت پر سب سے اہم دلیل اس کا معجزہ ہوا کرتی ہے جس کا اس پوری فلم میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ اس حال میں ہے کہ جناب نوح کے دادا متوشلح معجزے کے مالک تھے اور انہوں نے معجزے سے ایلا (جناب نوح کے بیٹے سام کی بیوی) کے بانجھ ہونے کی مشکل کو حل کر دیا تھا۔
اس فلم میں جس ’’نوح‘‘ کو پیش کیا گیا ہے وہ صرف عالم خواب میں کچھ چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جنہیں سمجھنے کے لیے اپنے داد متوشلح سے مدد لینا پڑتی ہے! یہ طرز تفکر کتاب مقدس کے مضامین اور مطالب کے ساتھ بھی تضاد رکھتا ہے۔
مختصر یہ کہ الہی رسولوں کے سلسلے میں اس طرح کی ہلکی پھلکی، بے بنیاد اور سیکولر دید اور نظر رکھنا، انبیاء کی حقیقی تاریخ میں تحریف ہے، پیغمبروں کی عصمت پر سوالیہ نشان اٹھانا ہے، رسولوں کا خداوند عالم سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ ہونے اور وحی اور شہودی نگاہ کے بے معنی ہونے کا ثابت کرتا ہے یہ وہ مشترکہ مفاہیم ہیں جو انبیائے الہی کے حوالے سے بنائی گئی ہالی وڈ کی اکثر فلموں میں نظر آتے ہیں۔
یہاں پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ہالی وڈ کے مورخین جیسے ’’نیل گویلر‘‘ جو یہودی ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ ہالی وڈ انڈسٹری اسّی فیصد سے زیادہ سیکولر اور صہیونی کمپنیوں کے زیر اثر ہے جو خود دین یہود کی تعلیمات سے بھی کوسوں دور ہے۔
ڈارن آرونوفسکی کی منحرف کرنے والی فلم نوح کو مختلف ممالک میں دینداروں اور مسلمانوں کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بعض اسلامی ممالک جیسے پاکستان، قطر، عرب امارات، بحرین، دیگر خلیجی ممالک ملیشیا، انڈونیشیا اور مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک میں اس فلم کی نمائش پر قدغن لگا دی گئی۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی نے بھی ایک بیان جاری کر کے فلم ’’نوح‘‘ کو اسلامی مخالف قرار دیا اور اس ملک میں اسے دکھلانے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بین الاقوامی فلمی ڈائریکٹر مجید مجیدی جنہوں نے ماضی قریب میں ’’محمد‘‘ نامی فلم بنائی اس حوالے سے کہتے ہیں: ’’ آج ہالی وڈ اور صہیونیت، میڈیا خاص طور پر فلمی میدان میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں اور حتی دینی موضوعات کی بھی اپنی مرضی سے منظر کشی کرتے ہیں کہ جس کی واضح مثال تازہ بنائی گئی فلم ’’جناب نوح‘‘ ہے۔ جب میں نے یہ فلم دیکھی تو میرا بدن لرز گیا۔ سچ میں پیغمبر خدا کو کیسا دکھلایا جا رہا ہے؟ اس عظیم واقع کے تئیں کتنی سطحی، تخریب کارانہ اور تعصب آمیز نگاہ کی گئی ہے کہ یقینا انسان افسوس کرتا ہے‘‘۔

 

قیدیوں کی تعداد میں امریکہ سر فہرست کیوں؟

  • ۴۱۱

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: امریکہ جو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے دوسرے ممالک کی بنسبت بہت ساری چیزوں میں کچھ امتیازات بھی رکھتا ہے۔ ایسا ملک جو اقتصادی اور معیشتی اعتبار سے اول درجہ پر فائز ہونے کا دم بھرتا ہے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اس کا ایک امتیازی پہلو، جیلوں میں قیدیوں کی کثرت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ۲۰۱۰ میں امریکہ کے دو ملین تین لاکھ افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں امریکی قیدیوں کی یہ تعداد دنیا کے بہت سارے دیگر ممالک سے زیادہ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں ہر ایک لاکھ میں ۷۱۶ افراد کو جیل بھیجا جاتا ہے اس طرح امریکہ اپنے شہریوں کو جیل بھیجنے میں پہلے درجے پر پے اس کے بعد برطانیہ کی باری آتی ہے اور پھر جرمنی، پرتگال اور دوسرے ممالک۔ جی ہاں، امریکی حکومت کا اپنے شہریوں کو معمولی سے معمولی باتوں کی وجہ سے جیل بھیجنے کا شوق وہ نکتہ امتیاز ہے جو صرف امریکہ سے مخصوص ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ امریکہ میں کیوں اتنی کثیر تعداد میں افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا جاتا ہے؟ آخر کیا امریکی ایک متمدن اور ترقی یافتہ قوم نہیں ہے جو پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے؟ اتنے زیادہ امریکیوں کو جیلوں میں بند کئے جانے کا سبب کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اسلحہ کا رواج، بے روزگاری اور مہنگائی، غیر مناسب تعلیمی نظام، صحیح قوانین کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ وہ اسباب و عوامل ہیں جو باعث بنتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں جرائم دن بدن بڑھتے جائیں اور جیلیں بھرتی جائیں۔
حکومت کی طرف سے جرائم کے روک تھام کے لیے تجویز کیا گیا بہترین راہ حل، عدالت کے اجرا میں حد سے زیادہ سختی تھی۔ اس سختی کا امریکی انتخابات اور لوگوں کے حق رای دہی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اس شخص کو ووٹ دینے کی کوشش کرتے تھے جو جرائم کا سد باب کر سکے۔ اور ان کی نظر میں بہترین راستہ مجرموں کو سزا دینا تھا۔ جب جرائم کا سلسلہ کم ہوتا تھا لوگ سزاؤں میں سختی کو اس کا سبب سمجھتے تھے اگر چہ دوسرے عوامل کی وجہ سے جرائم میں کمی واقع ہوئی ہو۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سختیوں نے الٹا نتیجہ دینا شروع کر دیا۔ سزاؤں میں زیادتی کی وجہ سے نہ صرف جرائم کا گراف نیچے نہیں آیا بلکہ اوپر چلا گیا۔ یہ صورتحال نہ صرف امریکہ میں پیش آئی بلکہ برطانیہ اور جاپان کی بھی یہی حالت تھی۔ یعنی سزاؤں میں شدت پیدا ہونے کی وجہ سے جرائم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ جرائم بڑھنے کی ساتھ ساتھ لوگوں کی طرف سے پھر سزاؤں میں شدت کا مطالبہ سامنے آتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سزاؤں میں شدت آنے کی وجہ سے جیلوں میں چار گنا قیدی اضافہ ہو گیے۔
سزاؤں میں شدت کی یہ کیفیت تھی کہ لوگ کو معمولی سے معمولی بہانے کی وجہ سے جیل میں بھیجا جانے لگا۔ مثال کے طور پر منشیات کے حوالے سے نہ صرف خرید و فروخت کرنے والوں پر سخت قوانین جاری نہیں ہوتے تھے بلکہ غیر قانونی دوا بیچنے والوں کو بھی اس زمرے میں لا کر کھڑا کیا جاتا تھا۔ یہ سختیاں اس قدر زیادہ تھیں کہ حتیٰ قاضی جہاں پر قانونی اعتبار سے مجرم کی سزا میں تخفیف دینے کا جواز بھی رکھتے تھے وہاں بھی تخفیف دینے سے گریز کرتے تھے۔ در حقیقت یہ راہ حل امریکی جیلوں میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا سبب بنا۔
اگرچہ حال میں امریکہ یہ کوشش رہا ہے کہ بہت سارے وفاقی قوانین اور جرمانوں میں اصلاح کرے لیکن پھر بھی اس ملک میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو کبھی حکومت کی طرف سے تشدد اور سزا کے مستحق واقع نہ ہوئے ہوں اور جیل کا انہوں نے منہ دیکھا ہو۔ مغربی دنیا سے اس کے علاوہ کسی بہتری کی امید رکھنا بھی بے جا ہے کیوں کہ ان کے یہاں قانون کی تدوین اور اس کے اجرا کا محور ان کی وہ آئیڈیالوجی ہے جو انسان اور انسانی زندگی کی نسبت وہ رکھتے ہیں۔