یہودیوں کے ذریعے بہائیوں کی ترقی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: استعماری اور سامراجی طاقتیں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی تبدیلیوں کے بعد براہ راست دنیا پر اثرانداز ہونے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ اس وجہ سے بوڑھے سامراج یعنی برطانیہ کو مسلمانوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور ان کے قومی اور مذہبی سرمائے کو لوٹنے کے لیے سوائے مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور اختلاف ڈالنے کے کوئی اور چارہ نہ سوجا۔ لہذا، شیعوں کے درمیان بہائیت اور اہل سنت کے درمیان وہابیت کو جنم دیا گیا۔
اس درمیان یہودی جو ہمیشہ سامراجیت کے شانہ بشانہ حرکت کرتے رہے ہیں ایک مرتبہ پھر بوڑھے سامراج کی مدد کو پہنچے اور انہوں نے مسلمانوں میں ان فرقوں کو ترقی دینے کے لیے اپنی تمام تر قوت کا استعمال کیا۔ فرقہ بابیت جو بہائیت کا پیش خیمہ تھا جدید المسلمان یہودیوں کے ذریعے ایران کے شہر رشت سے شروع ہوا اور اس کے بانی ’مرزا ابراہیم جدید‘ تھے۔
خراسان میں سب سے پہلے جو لوگ فرقہ بابیت کے ساتھ ملحق ہوئے وہ یہودی تھے جو تازہ مسلمان ہوئے تھے ان میں ملا عبد الخالق یزدی معروف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شخص یہودی علماء میں سے ایک تھا شیخ احمد احسائی کے دور میں مسلمان ہو کر شیخ کے مریدوں میں شامل ہوا تھا۔ شیعوں میں اس نے اپنا اتنا اثر و رسوخ پیدا کر لیا کہ مشہد میں حرم امام رضا علیہ السلام کے ایک صحن میں نماز جماعت کا پیش امام بن گیا اور وہاں اپنی تقریروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعض مورخین کے مطابق وہ مشہد کے ممتاز علماء میں شمار ہونے لگا۔
اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ۱۸۳۱ء میں مشہد کے یہودیوں کی تعداد تقریبا ۲ ہزار تھی جبکہ کچھ ہی عرصہ بعد یعنی ۱۸۳۹ میں یہ تعداد بڑھ کر پانچ ہزار ہو گئی اسی دوران یہودی کمپنی ’ساسونی‘ کے قیام کے بعد ’علی محمد باب‘ کی دعوت پر مشہد کے تمام یہودی ایک ساتھ مسلمان ہو گئے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس جماعت کے مسلمان ہونے کی خبر یہودی دائرۃ المعارف میں ’’خفیہ یہودیوں‘‘ کے باب میں بیان کی گئی ہے نہ کہ مرتد یہودیوں کے حصے میں۔ تازہ مسلمان ہوئے یہودیوں کی یہ جماعت بعد میں دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک گروہ بہائیوں کا اور دوسرا صوفیوں کا۔ اور دونوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ اسلام کی جڑوں کو اپنے اپنے حساب سے کاٹیں۔ یہودی محقق ’والٹر فیشل‘ کے بقول یہ جدید المسلمان یہودی در پردہ دین یہود پر باقی تھے۔
اسماعیل رائین نے اپنی کتاب ’بہائیت میں تقسیم‘ میں اس بارے میں لکھا ہے: ’ایران کے اکثر بہائی یا یہودی تھے یا زرتشتی، اس فرقہ میں مسلمانوں کی تعداد اقلیت میں تھی‘۔ البتہ رائین سے پہلے بہائیت کے سابق مبلغ ’’آیتی‘‘ نے اس حقیقت کا پردہ چاک کیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب کشف الحیل میں یہوں لکھا: ’’یہ مسلمانوں کے لیے ایک خوش خبری ہے کہ بہائی جماعت اہل علم و قلم سے خالی ہو چکی ہے اور اس کی لگام ’حکیم رحیم‘ اور ’اسحاق یہودی‘ جیسوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔‘’
لیکن اس جماعت کے بہائی ہونے کی وجوہات کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں اسماعیل رائین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’ہم جانتے ہیں کہ پیسے سے محبت اور سرمایے میں اضافہ کا شوق یہودیوں کی ذات میں رچا بسا ہوا ہے۔ مسلمان ممالک کے یہودی کہ جن میں کی اکثریت مسلمانوں کی دشمن ہے اور جا بجا مسلمانوں کی نسبت اپنی دشمنی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، بہت جلد بہائی فرقے میں شامل ہو گئے اور اس طریقے سے انہوں نے مالی مراعات سے فائدہ اٹھایا اور خود کو عکا کے بہائی مرکز سے جوڑ لیا‘۔
بطور خلاصہ مالدار اور معروف یہودی صرف مشہد، گیلان اور مازندران میں ہی موجود نہیں تھے بلکہ ایران کے دیگر شہر جیسے کاشان، ہمدان اور یزد وغیرہ میں بھی کافی تعداد میں تھے جو اس فرقہ ضالہ کے ساتھ ملحق ہو گئے تھے۔
لہذا فرقہ بہائیت مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے بلکہ اس کے بانی اور اس کو پروان چڑھانے والے یہودی اور سامراجی طاقتیں ہیں۔
ماخذ:
عبدالله شهبازی، ۱۳۹۶/۰۲/۱۸، سایت ادیان، ماله «یهودیان و گسترش بابیگری و بهاییگری»