سی آئی اے کے افیسر بھی موساد کی ابابیلوں کے پنجے میں

  • ۴۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بارک اوباما کے دوسری بار صدر امریکہ منتخب ہونے کے چند ہی روز بعد ایک دھماکہ خیز خبر نے وائٹ ہاؤس کو حیرت میں ڈبو دیا اور وہ یہ کہ “سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل ڈیوڈ پیٹراس (General David Petraeus) نے اخلاقی رسوائی اور اپنی بیوگرافی رائٹر پاولا براڈویل (Paula Broadwell) یا پاولا ڈین کرانز (Paula Dean Kranz) کے ساتھ ناجائز تعلقات اور اپنی بیوی کے ساتھ خیانت کی بنا پر اپنے عہدے سے اسعتفیٰ دیا۔
۴۵ سالہ پاولا براڈویل ڈاکوٹا کی ملٹری یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہے۔ ۲۳ سال کی عمر میں امریکی فوج کے انٹیلی جنس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوئی۔ جنرل پیٹراس مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں امریکی افواج کے کمانڈر مقرر ہوئے تو براڈویل (کرانز) سے بھی شناسائی اور رابطوں کا آغاز ہوا۔ (پاولا براڈویل کا اصل خاندانی نام “کرانز” ہے اور کرانز امریکی یہودیوں کے درمیان مشہور نام ہے) پیٹراس کا شمار ایک فوجی افسر کی حیثیت سے امریکیوں کے ہر دلعزیز افسروں میں ہوتا ہے۔
عراق اور افغانستان کے خلاف امریکی جنگوں کے دوران پاولا مشرق وسطی میں اعلی امریکی فوجی عہدیدار کے طور پر تعینات تھی اور اسی منصب کی آڑ میں وہ کئی مرتبہ مقبوضہ فلسطین بھی گئی۔ اگرچہ موساد کے ساتھ پاولا کے تعلق کے سلسلے میں کوئی سند و ثبوت موجود نہیں ہے لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ وہ ایک یہودی ہے اور امریکہ میں اعلی یہودی شخصیات کے ساتھ بھی اس کا آنا جانا رہا ہے۔ بدنام زمانہ امریکی یہودی ادارے آیپیک کے ساتھ بھی اس کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس کے مقبوضہ فلسطین کے دوروں کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی امریکی ذرائع ابلاغ نے اس کے موساد کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کی ہیں۔

 

 

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا شکار کرنے والی ’’مونیکا لیونسکی‘‘

  • ۳۸۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مونیکا لیونیسکی (Monica Lewinsky) جرمن یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی جس کا باپ نازی جرمنی سے مرکزی امریکی ملک ایل سیلواڈور (El Salvador) اور وہاں سے امریکہ بھاگا تھا۔ اس کا نانا لیٹویائی یہودی تھا جبکہ اس کی نانی کا روسی یہودی تھی۔ وہ وائٹ ہاؤس میں کی خوبصورت یہود زادی زیر تربیت لڑکی تھی۔ اس نے ۱۹۹۴ سے صدر بل کلنٹن کی قربت حاصل کرنا شروع کی تھی اور ان کے بیڈ روم تک پہنچ گئی۔
مونیکا اور کلنٹن کی ٹیلیفونک گفتگو کو ریکارڈ کیا جاتا رہا تھا جس سے معلوم ہوا کہ وہ فلسطین پر قابض یہودی ریاست کے لئے کام کررہی تھی۔ یہ واقعہ ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ ایک طرف سے سی آئی اے کاؤنٹر انٹیلی جنس میں کسی قسم کی غفلت کو مسترد کر رہی تھی اور دوسری طرف سے موساد بھی اس سلسلے میں منظم جاسوسی کو مسترد کر رہی تھی۔ لیکن بعد کے مراحل میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کی مشترکہ تحقیقات سے موساد کا کردار واضح ہوا۔
سنہ ۱۹۹۹ میں گورڈن تھامس (Gordon Thomas) کی اہم کتاب “جدعون کے جاسوس، موساد کی خفیہ تاریخ” (Gideon’s Spies: The Secret History of the Mossad) شائع ہوئی جس کا ایک بڑا حصہ مونیکا اور موساد کے درمیان رابطے سے مختص کیا گیا تھا۔ مؤلف نے دستیاب دستاویزات اور شواہد کی بنیاد پر بل کلنٹن کو ایک شہوت پرست شخص کے عنوان سے اور مونیکا کو موساد کی جاسوسہ کے عنوان سے متعارف کرایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ مونیکا کو موساد نے بل کلنٹن کے ساتھ جنسی تعلق برقرار کرکے اہم دستاویزات اور ان کے ذاتی مکالمات ریکارڈ کرنے کا مشن سونپا تھا۔
اس رسوائی سے موساد کا مقصد یہ تھا کہ اس اسکینڈل اور ریکارڈ شدہ خفیہ مکالمات کے عوض کلنٹن کو بلیک میل کیا جائے اور انہیں موساد کے کہنہ مشق جاسوس جانتھن پولارڈ (Jonathan Jay Pollard) کی رہائی پر مجبور کیا جائے۔ لیکن کلنٹن کی کوششیں کانگریس کی مخالفت کے باعث ناکام ہوئیں اور عمر قید پانے والے پولارڈ کو رہا نہیں کیا جاسکا۔ جس کے بعد اسکینڈل طشت از بام ہوا۔
کچھ دوسرے ذرائع بھی اس واقعے کو یہودی ریاست اور موساد کی سازش گردانتے ہیں۔ کیونکہ مونیکا نے مشرق وسطی کے امن کے حوالے سے سہ فریقی کانفرنس کے انعقاد کے وقت ہی کلنٹن کے ساتھ جنسی رسوائی کا اعتراف کیا، وہ ایکی ہودی تھی اور پھر کلنٹن نے فلسطین میں نوآبادیوں کی تعمیر کے حوالے سے یہودی ریاست پر دباؤ بڑھا لیا تھا اور اس دباؤ کا خاتمہ یہودی ریاست کے اہم مقاصد میں شامل تھا جس کے لئے کلنٹن کی آبرو بر سر بازار نیلام کی گئی۔
بعد میں ترکی روزنامے “تقویم” نے ساابق امریکی صدر بل کلنٹن کی رسوائی کے سلسلے میں لکھا: “کلنٹن اسرائیل کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کی بنا پر موساد کے جال میں پھنس گئے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

’’اینا چپمین‘‘ جس کے نشانے پر بڑے بڑے امریکی تاجر تھے

  • ۳۷۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، تشہیر و اشتہار نیز جنسیات کے لئے عورتوں کا آلاتی استعمال مغربی سیاستدان طبقے کی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی بنا پر جاسوسی اداروں میں جاسوسی کے لئے بھی عورت کے استعمال کا رجحان بڑھ گیا۔ خاتون جاسوسائیں جنہیں یا تو وہ ابابیل کہیں گے یا چڑیا۔ یہ ادارے مختلف سیاستدانوں اور عسکری اور سیکورٹی اداروں کے سربراہوں کی کمزوریاں تلاش کرتے ہیں جو اگر شہوت پرست ہوں تو ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
مشہورترین یا پھر بدنام ترین جاسوساؤں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی جڑیں یہودی خاندانوں میں پیوست ملتی ہیں جن کی پرورش بھی یہودی نسب کے خاندانوں میں ہوئی ہوتی ہے۔ جاسوساؤں کی تربیت اور ان کا استعمال آج دنیا کے اکثر جاسوسی اداروں کا خفیہ ہتھیار بن چکا ہے۔
اینا واسیلییونا کوشچینکو (Anna Vasil’yevna Kushchyenko) یا اینا چیپمین (Anna Chapman) سنہ ۱۹۸۲ کو روس میں پیدا ہوئی۔ شادی کے بعد برطانوی شہریت حاصل کی۔ نیویارک میں مقیم ہوئی اور ۲۰۱۰ کو ۹ دوسرے افراد کے ہمراہ روس کے لئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوئی اور روس اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں روس واپس بھجوا دی گئی۔ اینا چپمین ماڈلنگ اور تشہیر کے شعبے سے منسلک ہوکر مختلف اہم شخصیات کے ساتھ جنسی رابطہ برقرار کرکے روس کے خارجی جاسوسی کے ادارے ایس وی آر کے لئے جاسوسی کرتی تھی۔
زیادہ تر برطانوی اور امریکی تاجر اس جاسوسہ کے نشانے پر ہوتے تھے جنہیں وہ ان ہی افراد کے مخصوص نائٹ کلبوں میں شکار کرتی تھی۔ اس کا نشانہ بننے والوں میں مشہور برطانوی تاجر فلپ گرین (Sir Philip Nigel Ross Green) اور ایرانی نژاد (عیسائی) برطانوی تاجر ونسنٹ چنگیز (Vincent Tchenguiz) سمیت مختلف امریکی اور برطانوی تاجروں سے ناجائز تعلق برقرار کرکے ان سے خفیہ معلومات حاصل کیں اور برطانیہ کے بارکلیز بینک (Barclays Investment Bank) کے امریکی شعبے سے بھی خفیہ معلومات حاصل کرکے روس بھجواتی رہی۔ اسے روس واپس لایا گیا تو ویلادیمیر پیوٹن نے اسے خراج تحسین پیش کیا۔ وہ اپنے حسن و جمال کے بدولت امریکہ کے اعلی حکام اور بالخصوص اوباما انتظامیہ میں اچھا خاصا نفوذ رکھتی تھی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے اہم معلومات روسی حکومت کو فراہم کیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/ شیخ ماہر الحمود

  • ۳۹۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ماہر الحمود کا تعلق لبنان کے علمائے اہل سنت سے ہے، آپ ’بین الاقوامی یونین برائے علمائے مزاحمت‘ کے سربراہ ہیں۔ ماہر الحمود اگر چہ سنی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن علاقائی اور عالمی مسائل کے نسبت ان کی نگاہ حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی نگاہ سے بہت قریب ہے۔ مثال کے طور پر ماہر الحمود نے لبنان میں ’امام خمینی (رہ) اور مسئلہ فلسطین‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں امام خمینی (رہ) کے مختلف سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہا: امام کا موقف ان کے ایمان سے وجود میں آیا نہ زودگزر سیاست سے، امام اپنے موقف میں مکمل صداقت پر قائم تھے۔ یہی چیز لوگوں میں ان کی مقبولیت اور حتیٰ آپ کی حیات کی بعد بھی آپ کے راستے میں پائیداری اور ثابت قدمی کا باعث بنی۔ ۱ شیخ حمود کی یہ باتیں فلسطین کے مسئلے میں امام خمینی (رہ) اور ایران کے موقف کے ساتھ ہم آہنگی کی واضح نشانی ہیں۔
شیخ حمود مختلف مناستبوں اور کانفرنسوں جیسے فلسطینی علمائے مزاحمت اجلاس، حج کے موسم، یا بالفور اعلانیہ کی برسی وغیرہ کے موقعوں پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کھل کر گفتگو کرتے یا بیانہ جاری کرتے ہیں اور عالم اسلام کو اسرائیل کے جرائم سے خبردار کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، مسئلہ فلسطین اور صہیونی ریاست ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
آپ عالمی یوم القدس کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ عالمی یوم القدس کا نعرہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی (رہ) نے بلند کیا تھا دیگر تمام سیاسی نعروں سے مختلف ہے اس شعار اور نعرے نے بین الاقوامی سازشوں اور عرب دباؤ کے مقابلے میں تا حال پائیدادی کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ ۲
شیخ اس موقع پر نکالی جانے والی ریلیوں میں لوگوں کے کم شرکت کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: یوم قدس کو موجودہ حالت سے بہتر، وسیع تر اور عالمگیر ہونا چاہیے۔ لیکن بہر حال عالمی بحران کے سایہ میں اسی حد تک بھی اچھا ہے۔ پروپیگنڈہ بہت بڑا ہے اور افسوس کے ساتھ امت مسلمہ کا بدن کمزور ہو چکا ہے۔ امت اسلامیہ سازشوں کو باآسانی قبول کرتی ہے اور آسانی سے انہیں عملی جامہ پہناتی ہے۔‘‘۳
ماہر الحمود کی نگاہ میں کفر کے محاذ کی کامیابی بعض مسلمانوں کی خیانت کی وجہ سے ہوتی رہی ہے۔ وہ اس بارے اور امریکی سفارتخانے کی قدس منتقلی کے بارے میں قائل ہیں: ’’بعض عربوں نے امریکہ کا ساتھ دیا کہ وہ قدس شریف کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت اعلان کرے، اس لیے کہ اسرائیلی گزشتہ ستر سال کے دوران کبھی کسی منصوبے میں کامیاب نہیں ہوئے مگر یہ کہ کسی عربی یا اسلامی ملک نے ان کا ساتھ دیا‘‘۔
اس ظلم مخالف اور حق جو عالم دین کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا واحد راہ حل اتحاد مسلمین ہے۔ ان کے بقول: ’’مسئلہ فلسطین اس سے کہیں بڑا ہے کہ اس کا بوجھ ایک قوم، ایک گروہ یا کوئی ایک محاذ تحمل کر سکے مسئلہ فلسطین امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے دنیا کے حریت پسندوں کا مسئلہ ہے لہذا ان سب کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ اپنے مشترکہ مقصد کو حاصل کر سکیں۔‘‘ ۴
حواشی
۱۔ https://icro.ir/index.aspx?pageid=39368&newsview=652659
۲- https://parstoday.com/fa/middle_east-i137334
۳- https://tn.ai/1116860
۴- https://fa.shafaqna.com/news/402134/

 

 

عرب حکمرانوں کا جنسی شکار کرنے والی موساد کی جاسوسہ

  • ۵۰۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گولڈا میئیر کے بعد یہودی ریاست کی سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی (Tzipi Livni) بھی ایک “ابابیل” تھی۔
“زیپی لیونی” ۵ جون ۱۹۵۸ کو مقبوضہ فلسطین کی ایک مہاجر پولینڈی (Polish) گھرانے میں پیدا ہوئی۔ ۲۲ سال کی عمر میں موساد میں بھرتی ہوئی۔ اس نے کچھ عرصہ بعد اعلان کیا کہ اپنے شوہر کی خاطر موساد سے علیحدہ ہوئی ہے۔ اس کا تعلق دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی طرز فکر سے ہے۔
لیونی ۱۹۸۰ کے عشرے میں یورپ میں موساد کی جاسوسہ تھی اور اس کا کوڈ نیم “اسپارو – (Sparrow چڑیا)” تھا۔ اس نے بھی جنسی تعلقات برقرار کرکے موساد کی ضرورت کی معلومات حاصل کرتی تھی۔ اس کا نشانہ یورپی سیاستدان تھے۔
اس کو موساد بیوٹی (Mossad beauty) کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔ زیپی نے ایک انٹرویو میں کہا:
“میں جوان بھی تھی اور خوبصورت بھی تھی اور بہت سے سفارتکار بھی اور فرانسیسی بھی میرے قریب آنا چاہتے تھے یہاں تک کہ میں موساد بیوٹی کے نام سے مشہور ہوگئی تھی”۔
لیونی نے حالیہ برسوں میں باضابطہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ اس نے کئی عرب حکام نیز اعلی مذاکرات کار صائب عریقات اور تحریک آزادی فلسطین (PLO) کے اعلی انتظامی اہلکار یاسر عبدربہ سمیت متعدد فلسطینی راہنماؤں کے ساتھ جنسی تعلق برقرار کیا تھا۔
لیونی ۲۰۰۵ میں ایریل شیرون کے دور میں لیکوڈ کے بنیامین نیتن یاہو کے استعفے کے بعد یہودی ریاست کی دوسری خاتون وزیر خارجہ بنی۔
لیونی نے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ موساد میں اس نے کئی خاص کاروائیوں میں شرکت کی ہے جن میں کئی اہم شخصیات کو گرانا تھا چنانچہ انہیں اس کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات کی بنا پر اپنے مناصب چھوڑنا پڑے اور یوں انہیں موساد کے مفاد میں کام کرنے پر مجبور کیاگیا۔
لیونی نے امریکی مجلے ٹائمز کو بتایا کہ جب وہ موساد میں تھی تو اس نے قطر کے سابق شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نیز سابق وزیر اعظم حمد بن جاسم کے ساتھ جنسی رابطہ قائم کیا تھا۔ اس نے یہودی ریاست کی وزیر خارجہ کے طور پر ان دو قطری حکام کے ساتھ جنسی رابطے کو اپنی وزارت کی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
لیونی کا کہنا تھا کہ جنسی تعلق قائم کرنا، موساد میں اس کی پیشہ ورانہ زندگی کا حصہ رہا تھا اور وہ عرب حکام سے اہم سیاسی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان سے جنسی رابطہ قائم کرلیا کرتی تھی۔
لیونی کی اگلی رسوائی کا رخ دو فلسطینی راہنماؤں یعنی اعلی فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات اور تحریک آزادی فلسطین (PLO) کے اعلی انتظامی اہلکار یاسر عبدربہ کی جانب مڑ گیا اور انہیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیونی نے کہا کہ ان دو راہنماؤں کے ساتھ اس کے جنسی تعلق کی ویڈیو بھی موجود ہے۔
لیونی نے بدنام ترین یہودی رابی، رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) کے فتوے کے بعد ان رابطوں کا اعتراف کیا۔ جس نے کہا تھا کہ “یہودی ریاست کے مفاد میں دشمن کے ساتھ ہم خوابگی حلال ہے!”؛ یہ فتوی اس وقت جاری ہوا جب یہودی ریاست کی فوج نے عورتوں کو باضابطہ ہتھیاراور تشہیری اوزار کے طور پر فوج میں بھرتی کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
لیونی اہم ترین یہودی سیاستدان ہے جس نے خفیہ معلومات کے حصول کے لئے جنسی تعلقات قائم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/ آیت اللہ علوی گرگانی

  • ۳۸۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ العظمیٰ علوی گرگانی عالم تشیع کے بزرگ عالم دین اور ان مراجع تقلید میں سے ایک ہیں جنہیں آیت اللہ بروجردی (رہ)، امام خمینی(رہ) اور آیت اللہ خوئی (رہ) کی شاگردی کا شرف حاصل ہے، اپنے اساتید اور دیگر بزرگ علماء کی طرح آپ بھی ہمیشہ عالم اسلام کے مسائل پر خاص توجہ دیتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے ان اہم مسائل میں سے ایک ہے جس نے آج تک تمام امت مسلمہ خصوصا ان افراد کا دل دکھایا ہے جو ملت فلسطین کے تئیں تھوڑا بہت بھی احساس رکھتے ہیں۔ شیعہ علماء کرام تو ان افراد میں سے ہیں جو ہمیشہ عالم اسلام کی مشکلات کو محسوس کرتے اور ان کی چارہ جوئی کے لیے جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔ آیت اللہ گرگانی نے بھی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ہمیشہ جد وجہد کی اور مختلف اوقات میں مختلف مناسبتوں سے اس موضوع پر بیانات جاری کئے:  
مثال کے طور پر آپ نے یوم القدس کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا: ماہ مبارک کا آخری جمعہ ہر سال امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اس الہی آواز کو زندہ کرتا ہے جس پر لبیک کہتے ہوئے مظلومین عالم خصوصا ملت فلسطین کی حمایت میں قدم اٹھایا جا سکتا ہے  وہ سرزمین فلسطین جو صہیونیوں کے ہاتھوں غصب ہوئی، وہ سرزمین جو مسلمانوں کی ایک مقدس ترین جگہ رہی ہے۔ ۱
اس مرجع تقلید نے صہیونیت مخالف بین الاقوامی یوتھ یونین کے ساتھ ہوئی ایک ملاقات میں مسئلہ فلسطین کے حل اور اسرائیلیوں سے نجات کا راستہ اتحاد بین المسلمین قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’اگر تمام امت مسلمہ یک مشت ہو جائے تو اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف کچھ کر نہیں پائے گا بلکہ اس کی نابودی بھی قریب ہو جائے گی۔ لیکن اگر مسلمان آپس میں پاش پاش رہیں گے اور ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں بٹائیں گے تو دشمن طاقتور ہو جائے گا۔ اسلامی قوموں کا اتحاد دشمن کی کمزوری اور اس کے ظلم کے خاتمے کا باعث بنے گا‘‘۔ ۲
یہ جان لینا دلچسپ ہو گا کہ آیت اللہ علوی گرگانی عالم اسلام کے ساتھ اسرائیل اور صہیونیزم کی دشمنی کو مسئلہ فلسطین میں منحصر نہیں سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کی نظر میں اسرائیلی کمپنیاں مسلمان ملکوں میں غیر سالم غذاؤوں کے ذریعے مسلمانوں کو مٹانے کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ آپ ایران میں استعمال ہونے والی غیر سالم غذاؤوں کے بارے میں کہتے ہیں:
’’پچاس سال سے ایران میں یہ سلسلہ چل رہا ہے انقلاب سے پہلے ایران میں غیر سالم خوراک کے لیے دشمنوں نے منصوبے بنائے تھے اور انہیں اجرا کیا تھا۔ اس دور میں بھی شہنشاہی حکومت علماء کو کہتی تھی تم لوگ کیوں اس بارے میں بولتے ہو اور کیوں اتنا سخت لیتے ہو؟ یہ کام ان کے تجارتی مفادات کا حصہ تھا جس کے پیچھے اسرائیل تھا اسرائیلی سرمایہ کاروں نے ایران میں اس چیز کا بیج بویا تھا۔ اب بھی ان مسائل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے اور یہ مشکلات وہیں سے جنم لیتی ہیں۔ ۳
حواشی
1 – https://www.mehrnews.com/news/4314866
2- http://qodsna.com/fa/321720
3- https://www.mashreghnews.ir/news/635248

 

 

ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری تعلقات کا جائزہ اور ایران پر اسکے اثرات (۱)

  • ۳۶۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:
مقدمہ
حالیہ برسوں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، ہندوستان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کے اعلی درجے کے دفاعی سسٹم اور فوجی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے۔ ہندوستان ان ممالک سے رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے آگے ہیں اور چونکہ اسرائیل بھی ایک ترقی یافتہ ریاست کہلاتی ہے اس لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اور پھر ہندوستان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل امریکہ کے نزدیک خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا درحقیقت امریکہ سے قربت حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب سے اسرائیل بھی ایشیائی ممالک مخصوصا ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع کو اپنے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ وزن دار ملک سمجھتا ہے اس لیے کہ پاکستان تنہا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت کا مالک ہے اور اس پر دباؤ رکھنے کے لیے اسرائیل کا ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا گویا اس کی مجبوری بھی ہے اور پھر پاکستان اور مسلمانوں کو دھشتگرد قرار دے کر اسرائیل آسانی سے ہندوستان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بن گوریان کی ہندوستان کے بارے میں گفتگو آپ کو یاد ہو گی جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’میرے خیال میں ہندوستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں سے ہم مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی بخوبی رہنمائی کر سکتے ہیں‘‘۔ بعض اسرائیلی محققین جیسے ’آبراہام سیگال‘ اور ’ہیری ایسریگ‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ہندوستان اسرائیل کے نزدیک ایک عظیم اخروٹ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اسرائیل نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اب اسے صرف توڑنا باقی ہے‘‘۔ (ابوالحسنی، ۱۳۷۷؛ ۴۴۰)
بھارت اور اسرائیل تعلقات پر تاریخی نظر
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ ایک طرف سے ہندوستان کے مسلمان فلسطینی عوام کی حمایت کے خواہاں تھے اور دوسری طرف سے عرب ممالک بھی ناوابستہ تحریک کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اسرائیل کے قریب نہ جائے۔ لیکن ۱۹۶۲ میں بھارت چین جنگ کے بعد ہندوستان کو اپنی دفاعی قوت مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی فوجی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ۱۹۹۲ تک سیاسی روابط محدود اور خفیہ رہے۔ آخر کار ۱۹۹۲ میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہندوستان نے اپنی نئی اسٹریٹجک پالیسیوں کے تحت ان تعلقات کو ایک نئی جہت دی اور صہیونی ریاست کے ساتھ سیاسی روابطہ کو وسیع اور علنی کر دیا۔ (ملکی، ۱۳۸۹؛ ۴۷)
۱۹۹۲ میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتے ہی غیر معمولی حجم کے دوطرفہ تجارتی اور سکیورٹی معاہدے شروع ہو گئے اور حالیہ دنوں میں یہ روابط سکیورٹی تعاون، سیٹلائٹ سسٹم، پیشرفتہ میزائل، ایٹمی سرگرمیوں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے معاہدوں کی صورت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر چہ ہندوستان اور اسرائیل کے سامنے پائے جانے والے خطرات ایک جیسے نہیں ہیں اور ان کا کوئی مشترکہ دشمن نہیں ہے اس کے باوجود دونوں ملک اپنے دفاعی سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے نزدیک اسرائیل جدید دفاعی سسٹم کو اپڈیت کرنے کے لیے ایک قابل بھروسہ ملک ہے اور اسرائیل کے لیے بھی ایشیا میں تزویری اعتبار سے بھارت ایک مستحکم اتحادی شمار ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ہندو نسل پرستی کے زور پکڑ جانے اور بھارتیا جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے بھارت و اسرائیل کے درمیان روابط ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ مثال کے طور پر ۱۹۹۱، ۹۲ میں فوجی اور دفاعی تعاون کے حوالے سے تقریبا دو ملکوں کے درمیان لگ بھگ پچاس ملاقاتیں اور معاہدے ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی معیشتی مشکلات اور اسرائیلی ساخت کے ہتھیاروں کی نامرغوب کیفیت کے باوجود دونوں ملکوں میں بعض فوجی ساز و سامان جیسے ہلکے طیارے، ارجن ٹینک (مرکاوا) پریٹوی میزائل(جریکو ۱)، (جریکو ۲) نیز مشترکہ فوجی تحقیقات اور ٹیکنالوجی کا رد و بدل کیا گیا۔ (کلانتری، ۱۳۸۸؛ ۹)
چنانچہ اگر ہندوستان اور اسرائیل کے گہرے تعلقات اور اس کے ایران و ہند تاریخی روابط پر پڑنے والے اثرات کو مزید گہرائی کی نگاہ سے دیکھا جائے تو درج ذیل تین بنیادی سوالوں کے جوابات دینا ضروری ہوں گے:
۱؛ کیا حقیقت میں اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات تزویری ہیں؟
۲؛ اس حساسیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو ایران اور عرب ممالک تل ابیب و نئی دہلی کے روابط کی نسبت رکھتے ہیں ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری روابط بڑھانے کی وجوہات کیا ہیں؟
۳؛ کیا ہندوستان کا اسرائیل سے اسٹریٹجک روابط بڑھانے کا مقصد امریکہ سے نزدیک ہونا ہے؟
مذکورہ سوالات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان علاقے میں خصوصا چین کے مقابلے میں بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اسرائیل اس کے لیے فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے اعتبار سے بہترین آپشن ہے۔
جاری

 

مسئلہ فلسطین نے پیغمبر اکرم کا دل لہو کیا ہے: شہید مطہری

  • ۶۹۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شہید مرتضیٰ مطہری کی شہادت کے ایام ہیں اس مناسبت سے مسئلہ فلسطین سے متعلق شہید کے کچھ بیانات کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
’’اگر پیغمبر اکرم (ص) زندہ ہوتے تو آج کیا کرتے؟ کس مسئلہ کو اہمیت نہ دیتے؟ واللہ اور باللہ، میں قسم کھاتا ہوں کہ پیغمبر اکرم(ص) اپنی قبر مقدس میں بھی آج یہودیوں سے پریشان ہیں۔ یہ دو دو چار والا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی نہیں کہتا تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ میں اگر نہ کہوں تو خدا کی قسم گناہ کا مرتکب ہوا ہوں۔ جو بھی خطیب اور واعظ اگر اس مسئلے کے حوالے سے بات نہ کرے وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے ماوراء،  فلسطین کی تاریخ کیا ہے؟ فلسطین کا مسئلہ کسی اسلامی مملکت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک قوم و ملت کا مسئلہ ہے وہ قوم و ملت جسے ان کے گھروں سے زبردستی باہر نکالا گیا اور انہیں بے گھر کیا گیا۔
خدا کی قسم ہم اس قضیہ کے مقابلے میں مسئول ہیں۔ خدا کی قسم ہمارے دوش پر ذمہ داری ہے۔ خدا کی قسم ہم غافل ہیں۔ واللہ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے آج پیغمبر اکرم(ص) کے دل کو زخمی کیا ہے۔ وہ داستان جس نے حسین بن علی کے دل کو لہو کیا ہے فلسطین کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اپنی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہیں اگر ہم امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اہمیت دینا چاہتے ہیں تو سوچیں کہ اگر حسین بن علی آج زندہ ہوتے اور خود کہتے میرے لیے عزاداری کریں تو کون سا نوحہ پڑھنے کے لیے کہتے؟ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’ہائے میرا جوان اکبر‘‘ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’میری مظلوم زینب الوداع الوداع‘‘؟
اگر امام حسین آج زندہ ہوتے وہ یہ کہتے کہ میرے لیے عزاداری کرو میرے لیے ماتم کرو لیکن تمہارا نوحہ فلسطین ہونا چاہیے تمہارا نعرہ فلسطین ہونا چاہیے، آج کا شمر موشہ دایان ہے، ۱۴ سو سال پہلے والا شمر واصل جہنم ہو گیا آج کے شمر کو پہچانو، آج اس شہر کے در و دیوار فلسطین کے نعروں سے بھرے ہونا چاہیے، ہمارے ذہنوں میں اتنا جھوٹ بھر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ داخلی مسئلہ ہے عربوں اور اسرائیلیوں کا مسئلہ ہے۔
ہم اسلام اور پیغمبر خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ ہم نے مسلمان ہونے کے حوالے سے کیا کیا؟ خدا کی قسم ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر شرم آتی ہے، ہمیں اپنے علی بن ابی طالب کا شیعہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ آج کے بعد یہ داستان جو ہم علی ابن ابیطالب سے ممبروں پر نقل کرتے ہیں اس کے بعد اس کو نقل کرنا ہمارے لیے حرام ہے، کہ ایک دن علی بن ابی طالب نے سنا کہ دشمن نے اسلامی ممالک پر حملہ کیا ہے فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ دشمنوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کر کے ان کے مال کو لوٹ لیا ہے ان کے مردوں کو قتل کر دیا ہے اور ان کی عورتوں کو اسیر بنا لیا ہے،  ان کے زیورات چھین لیے ہیں، اس کے بعد فرمایا: «فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً مَا کَانَ بِهِ مَلُوماً بَلْ کَانَ بِهِ عِنْدِی جَدِیراً» اگر ایک مسلمان یہ خبر سن کر دق کرے اور مر جائے تو موت اس کے لیے سزاوار ہے۔
کیا ہمیں فلسطینیوں کی مدد نہیں کرنا چاہیے؟ کیا انہیں اپنے جائز انسانی حقوق لینے کا حق نہیں ہے؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہیے؟
ہمارے مراجع تقلید جیسے آیت اللہ حکیم نے صریحا فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص فلسطین میں مارا جائے وہ شہید ہے گرچہ نمازی نہ ہو، وہ شہید راہ حق ہے۔ لہذا آئیں اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم ان کے لیے کیا کر رہے ہیں، آج جو بڑی بڑی حکومتیں ہمارے مقابلے میں کھڑی ہیں اور ہماری تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں وہ جانتی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر غیرت نہیں ہے۔ امریکہ کو اسی بات نے جری بنایا ہے کہ مسلمان جماعت بے غیرت ہے ۔
کہتے ہیں کہ یہودی پیسے کے لیے مرتے ہیں، وہ پیسے کے علاوہ کچھ نہیں پہچانتے، ان کا خدا بھی پیسہ ہے ان کی زندگی بھی پیسہ ہے ان کی موت و حیات بھی پیسہ ہے یہ ٹھیک ہے اپنی جگہ درست ہے لیکن یہی یہودی اپنے یہودی بھائی پر کروڑوں ڈالر بھی خرچ کرتا ہے لیکن ہم مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر کتنا خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں؟
منبع:
حماسه حسینی، مرتضی مطهری، ج 1، ص 270-280

 

بہائیت کو پروان چڑھانے میں یہودیوں کا ہاتھ

  • ۴۳۳

یہودیوں کے ذریعے بہائیوں کی ترقی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: استعماری اور سامراجی طاقتیں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی تبدیلیوں کے بعد براہ راست دنیا پر اثرانداز ہونے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ اس وجہ سے بوڑھے سامراج یعنی برطانیہ کو مسلمانوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور ان کے قومی اور مذہبی سرمائے کو لوٹنے کے لیے سوائے مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور اختلاف ڈالنے کے کوئی اور چارہ نہ سوجا۔ لہذا، شیعوں کے درمیان بہائیت اور اہل سنت کے درمیان وہابیت کو جنم دیا گیا۔
اس درمیان یہودی جو ہمیشہ سامراجیت کے شانہ بشانہ حرکت کرتے رہے ہیں ایک مرتبہ پھر بوڑھے سامراج کی مدد کو پہنچے اور انہوں نے مسلمانوں میں ان فرقوں کو ترقی دینے کے لیے اپنی تمام تر قوت کا استعمال کیا۔ فرقہ بابیت جو بہائیت کا پیش خیمہ تھا جدید المسلمان یہودیوں کے ذریعے ایران کے شہر رشت سے شروع ہوا اور اس کے بانی ’مرزا ابراہیم جدید‘ تھے۔
خراسان میں سب سے پہلے جو لوگ فرقہ بابیت کے ساتھ ملحق ہوئے وہ یہودی تھے جو تازہ مسلمان ہوئے تھے ان میں ملا عبد الخالق یزدی معروف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شخص یہودی علماء میں سے ایک تھا شیخ احمد احسائی کے دور میں مسلمان ہو کر شیخ کے مریدوں میں شامل ہوا تھا۔ شیعوں میں اس نے اپنا اتنا اثر و رسوخ پیدا کر لیا کہ مشہد میں حرم امام رضا علیہ السلام کے ایک صحن میں نماز جماعت کا پیش امام بن گیا اور وہاں اپنی تقریروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعض مورخین کے مطابق وہ مشہد کے ممتاز علماء میں شمار ہونے لگا۔
اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ۱۸۳۱ء میں مشہد کے یہودیوں کی تعداد تقریبا ۲ ہزار تھی جبکہ کچھ ہی عرصہ بعد یعنی ۱۸۳۹ میں یہ تعداد بڑھ کر پانچ ہزار ہو گئی اسی دوران یہودی کمپنی ’ساسونی‘ کے قیام کے بعد ’علی محمد باب‘ کی دعوت پر مشہد کے تمام یہودی ایک ساتھ مسلمان ہو گئے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس جماعت کے مسلمان ہونے کی خبر یہودی دائرۃ المعارف میں ’’خفیہ یہودیوں‘‘ کے باب میں بیان کی گئی ہے نہ کہ مرتد یہودیوں کے حصے میں۔ تازہ مسلمان ہوئے یہودیوں کی یہ جماعت بعد میں دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک گروہ بہائیوں کا اور دوسرا صوفیوں کا۔ اور دونوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ اسلام کی جڑوں کو اپنے اپنے حساب سے کاٹیں۔ یہودی محقق ’والٹر فیشل‘ کے بقول یہ جدید المسلمان یہودی در پردہ دین یہود پر باقی تھے۔
اسماعیل رائین نے اپنی کتاب ’بہائیت میں تقسیم‘ میں اس بارے میں لکھا ہے: ’ایران کے اکثر بہائی یا یہودی تھے یا زرتشتی، اس فرقہ میں مسلمانوں کی تعداد اقلیت میں تھی‘۔ البتہ رائین سے پہلے بہائیت کے سابق مبلغ ’’آیتی‘‘ نے اس حقیقت کا پردہ چاک کیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب کشف الحیل میں یہوں لکھا: ’’یہ مسلمانوں کے لیے ایک خوش خبری ہے کہ بہائی جماعت اہل علم و قلم سے خالی ہو چکی ہے اور اس کی لگام ’حکیم رحیم‘ اور ’اسحاق یہودی‘ جیسوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔‘’
لیکن اس جماعت کے بہائی ہونے کی وجوہات کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں اسماعیل رائین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’ہم جانتے ہیں کہ پیسے سے محبت اور سرمایے میں اضافہ کا شوق یہودیوں کی ذات میں رچا بسا ہوا ہے۔ مسلمان ممالک کے یہودی کہ جن میں کی اکثریت مسلمانوں کی دشمن ہے اور جا بجا مسلمانوں کی نسبت اپنی دشمنی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، بہت جلد بہائی فرقے میں شامل ہو گئے اور اس طریقے سے انہوں نے مالی مراعات سے فائدہ اٹھایا اور خود کو عکا کے بہائی مرکز سے جوڑ لیا‘۔
بطور خلاصہ مالدار اور معروف یہودی صرف مشہد، گیلان اور مازندران میں ہی موجود نہیں تھے بلکہ ایران کے دیگر شہر جیسے کاشان، ہمدان اور یزد وغیرہ میں بھی کافی تعداد میں تھے جو اس فرقہ ضالہ کے ساتھ ملحق ہو گئے تھے۔
لہذا فرقہ بہائیت مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے بلکہ اس کے بانی اور اس کو پروان چڑھانے والے یہودی اور سامراجی طاقتیں ہیں۔

ماخذ:

عبدالله شهبازی، ۱۳۹۶/۰۲/۱۸، سایت ادیان، ماله «یهودیان و گسترش بابی‌گری و بهایی‌گری»

 

فلسطینی لہو پر قائم اسرائیلی ڈھانچہ

  • ۴۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: نومبر ۱۹۴۷ کو اقوام متحدہ میں صہیونی لابی نے سرزمین فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان دوحصوں میں تقسیم پر مبنی ایک قرارداد منظور کر دی۔ اس قراردار کی منظوری کے بعد صہیونی عناصر اپنے منحوس پروپیگنڈوں اور شیطانی سازشوں کے ذریعے اس کے باوجود کہ سرزمین فلسطین پر مسلمانوں کی اکثریت رہائش پذیر تھی انہیں ان کی سرزمین سے باہر نکال کر فلسطین کے ایک حصے کے مالک بن بیٹھے۔ اقوام متحدہ کی اس قرارداد نے دو قوموں میں اختلاف پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ وہ صہیونی یہودی جو سرزمین فلسطین کے اس ایک حصے پر قابض ہوئے انہوں نے بجائے اسی پر اکتفا کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اسرائیل کی آزادی کے زیر عنوان جنگ کے لیے قد علم کر دیا اور مسلمانوں پر جارحیت اور بربریت کے ذریعے اسرائیل کے نام سے اپنا ایک ملک بنا کر اس پر اپنی حکومت قائم کر دی اور سرکاری طور پر اسرائیل کی موجودیت کا اعلان کر دیا۔ اس جنگ میں کم سے کم ۳۳ افراد کو قتل کیا گیا اور ۷۵۰ ہزار سے زائد فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو انتہائی بے دردی سے ان کے گھروں سے باہر نکال دیا گیا۔
’’الدوامیہ‘‘( Al-Dawayima ) علاقے کے دردناک حادثات کے حوالے سے ایک اسرائیلی چشم دید گواہ کا کہنا ہے: ’’ وہ(صہیونی) لاٹھیوں سے بچوں کے سر پھوڑتے تھے اور انہیں قتل کر دیتے تھے۔ کوئی ایسا گھرانہ نہیں تھا جس نے شہید نہ دیا ہو۔ ایک سپاہی بڑے فخر سے کہہ رہا تھا کہ اس نے ایک عورت کی عصمت دری کی اور پھر اس کا قتل کر دیا‘‘۔
فلسطین کی ایک عورت اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ایک مرد نے اس کی بہن جس کے شکم میں نو مہینے کا بچہ تھا کو انتہائی بے دردی سے مار ڈالا اور اس کے بعد چاقو سے اس کا پیٹ چاک کر دیا‘‘۔
اسرائیلی مورخ ٹام سگف لکھتا ہے: ’’اسرائیل جنگ اور دھشتگردی سے وجود میں آیا اور اس کے وجود سے صرف ظلم و اندھا تعصب ہی ٹپکتا ہے‘‘۔
یہ ہیں انسانی حقوق کے تحفظ کے معنیٰ اور یہ ہے دھشتگردی سے مقابلے کے دعویداروں کا حال اور اقوام متحدہ بھی ایسوں ہی کی حمایت کرتی ہے!!۔
تحریر: Alison Weir
کتاب کا نام: Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔