-
Tuesday, 16 June 2020، 10:15 PM
-
۳۷۵
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دشمنان اسلام اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے اکثر اوقات یہ شبہہ ذہنوں میں ڈالتے رہتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ تو ان کا اپنا اور قومی مسئلہ ہے ہمیں کیا ضرورت ہے ان کے ذاتی مسئلے میں مداخلت کرنے کی؟ لیکن قرآن کریم نے اس شبہے کا جواب دیا ہے جو درج ذیل سطروں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے؛
درج ذیل قرآنی دلائل کی بنا پر فلسطین کی مدد کرنا ہمارا دینی اور انسانی فریضہ ہے:
الف: اسلامی معاشرہ ایک امت ہے
اسلامی اصول اور تعلیمات کی بنا پر اسلامی سماج اور معاشرہ ایک پیکر ہے۔ یعنی جہاں بھی دنیا میں کوئی مسلمان رہتا ہے وہ اسلامی معاشرے کا حصہ ہے اگر چہ جغرافیائی اعتبار سے وہ ہمارے ملک یا شہر کا باشندہ نہیں ہے۔ اسلام میں خونی رشتہ، سرحد، ملک، قبیلہ، زبان، قوم، رنگ و نسل، وغیرہ اسلامی معاشرے کی تقسیم کا باعث نہیں بنتے یہ سب چیزیں عارضی ہیں اور اصالت صرف اسلام اور خدا و رسول پر ایمان کو حاصل ہے۔
اسلام ان تمام افراد کو جو اس الہی دین پر عقیدہ رکھتے ہیں ایک امت قرار دیتا ہے۔ اسلام میں عقیدہ اور ایمان ہے جو رشتوں کو جوڑتا ہے اور اگر عیقدہ و ایمان نہ ہو تو جڑے ہوئے رشتے بھی توڑ دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے خداوند عالم سے اپنے بیٹے کی نجات کی دعا کی تو پروردگار عالم نے فرمایا: «یَا نُوحُ إِنَّهُ لَیْسَ مِنْ أَهْلِکَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ (۱) اے نوح یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے چونکہ اس کا کردار غیر صالح اور ناصحیح ہے۔ یعنی حضرت نوح (ع) سے بیٹے کا خونی رشتہ اور باپ بیٹے کی نسبت اس کی نجات کا باعث نہ بن سکی بلکہ ایمان اور عقیدہ تھا جو اس کو بچا سکتا۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا بہت آسان ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف انسان کا عقیدہ اور عمل رشتوں کو جوڑتا ہے لہذا تمام مسلمان ایک امت اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں رہتے ہوں اور ان میں کوئی خونی رشتہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: «وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُونِ» (۲) اور تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں پس مجھ سے ڈرو۔
بنابرایں، فلسطینی قوم کی مدد کرنے کی سب سے پہلی دلیل یہ کہ یہ قوم اور ملت بھی مسلمان ہے اور مشترکہ عقائد کی بنا پر وہ ہمارے دینی بھائی ہیں اور بھائی کی ہر مشکل میں مدد کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ» (۳) تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔
خداوند عالم دوسرے مقام پر یہاں تک فرماتا ہے کہ دو مسلمان گروہوں کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو ان کے درمیان اصلاح کرو اگر چہ جنگ کے ذریعے، اس لیے کہ امت مسلمہ کی وحدت سب سے زیادہ اہم ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: «وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّى تَفِیءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِن فَاءتْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ» (۴) اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آ جائے۔ پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کر دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
جب قرآن کریم مسلمانوں کو واضح حکم دیتا ہے کہ اگر اسلامی معاشرے کی اصلاح کے لیے تمہیں جنگ بھی کرنا پڑے تو جنگ کرو تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف پیدا ہو تو ایسے میں اگر دشمنان اسلام، اسلامی معاشرے کو پاش پاش کرنے پر تلے ہوئے ہوں اسلامی معاشرے کی جڑوں کو کاٹنے پر تلے ہوئے ہوں تو کیا ان کے مقابلے میں مسلمانوں کو یہ سوچ کر گھر بیٹھ جانا چاہیے کہ یہ تو فلاں ملک کا مسئلہ ہے یہ تو فلاں قوم کا مسئلہ ہے یہ تو سنیوں کا مسئلہ ہے یہ تو شیعوں کا مسئلہ ہے؟ قرآن کریم نے اہل ایمان کی بات کی ہے نہ کسی ملک کی نہ کسی قبیلے اور نہ فرقے کی۔ اہل ایمان کے ایک گروہ کو در پیش مشکل تمام مومنین کی مشکل ہے اور تمام اہل ایمان کو اس کے حل کے لیے کوشاں ہونا چاہیے۔
ب؛ فلسطین کی مدد ایک مومن اور مسلمان امت ہونے کے عنوان سے
قرآن کریم ہمیشہ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ دیگر مسلمانوں اور مومنوں کی مدد کے لیے آگے بڑھو اور ظالموں کے ساتھ پیکار کرو۔ قرآن کریم کے اسی حکم کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ ایران اس عنوان سے کہ وہ پرچم اسلام کا علمبردار ہے گزشتہ چالیس سال سے فلسطین کی مدد کے لیے دوڑ رہا ہے «…إِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِى الدِّینِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ… (۵) ۔۔ اگر دین کے معاملے میں وہ تم سے مدد مانگیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان کی مدد کرو۔
نیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معروف حدیث جس میں آپ فرماتے ہیں : «مَنْ أَصْبَحَ لَا یَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ؛ جو شخص صبح کرے اور مسلمانوں کے امور کی نسبت کسی اہمیت کا قائل نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔ (۶) لہذا اس حدیث کے پیش نظر تمام مسلمان ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح فلسطین کی مدد کے لیے جد و جہد کرنا چاہیے۔
فلسطین کی مدد ایک مستضعف قوم کے عنوان سے
خداوند عالم مسلمانوں سے صرف اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ تم ایمان لے آو اور اس کے بعد خاموش بیٹھے رہو اور کچھ بھی نہ کرو۔ بلکہ وہ افراد جو ایمان لائے خدا ان سے بہت سے کاموں کا تقاضا کرتا ہے خدا کا ایک تقاضا مستضعفین اور کمزور لوگوں کی حمایت میں دشمنوں کے ساتھ جنگ ہے؛ «وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَان» (۷) اور آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جہاد نہیں کرتے ہو جنہیں کمزور بنا کر رکھا گیا ہے۔
مستضعفین یعنی دنیا کے کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کا واضح مصداق اس وقت ملت فلسطین ہے کہ جو ۷۰ سال سے زیادہ عرصے سے جعلی اور طفل کش صہیونی ریاست کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کریم کی یہ آیت ہم سے مخاطب ہے کہ کیوں ان کی نجات کے لیے جد و جہد نہیں کرتے؟ قرآن بعد کی آیت میں فرماتا ہے: «الَّذِینَ آمَنُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِیَاء الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا» (۸) ایمان والے ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ ہمیشہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں لہذا تم شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو بیشک شیطان کا مکر بہت کمزورہوتا ہے۔
قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں طاغوت سے جہاد اور مستضعفین کی حمایت اہل ایمان کا فریضہ ہے اور آج ملت فلسطین اللہ کی راہ میں طاغوت کا مقابلہ کرنے میں سرفہرست ہے لہذا ان کی مدد کو پہنچنا تمام اہل ایمان کا فریضہ ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’اسلامی جمہوریہ ایران کے نزدیک مسئلہ فلسطین کوئی تاکتیکی مسئلہ نہیں، کوئی سیاسی اور تزویری مسئلہ نہیں، بلکہ عقیدتی مسئلہ ہے، دل کا مسئلہ ہے ایمان کا مسئلہ ہے‘‘۔ (۹)
بقلم مجید رحیمی
حواشی
[۱] . هود ۴۶
[۲] . مومنون ۵۲
[۳] . حجرات ۱۰
[۴] . حجرات ۹
[۵] . انفال ۷۲
[۶] . الکافی (ط – الإسلامیة) ؛ ج۲ ؛ ص۱۶۳
[۷] . نساء ۷۵
[۸] . نساء ۷۶
[۹] . غزہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں ۸/۱۲/۱۳۸۸