فلسطین کی مدد قرآنی نقطہ نظر سے

  • ۳۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دشمنان اسلام اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے اکثر اوقات یہ شبہہ ذہنوں میں ڈالتے رہتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ تو ان کا اپنا اور قومی مسئلہ ہے ہمیں کیا ضرورت ہے ان کے ذاتی مسئلے میں مداخلت کرنے کی؟ لیکن قرآن کریم نے اس شبہے کا جواب دیا ہے جو درج ذیل سطروں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے؛
درج ذیل قرآنی دلائل کی بنا پر فلسطین کی مدد کرنا ہمارا دینی اور انسانی فریضہ ہے:
الف: اسلامی معاشرہ ایک امت ہے
اسلامی اصول اور تعلیمات کی بنا پر اسلامی سماج اور معاشرہ ایک پیکر ہے۔ یعنی جہاں بھی دنیا میں کوئی مسلمان رہتا ہے وہ اسلامی معاشرے کا حصہ ہے اگر چہ جغرافیائی اعتبار سے وہ ہمارے ملک یا شہر کا باشندہ نہیں ہے۔ اسلام میں خونی رشتہ، سرحد، ملک، قبیلہ، زبان، قوم، رنگ و نسل، وغیرہ اسلامی معاشرے کی تقسیم کا باعث نہیں بنتے یہ سب چیزیں عارضی ہیں اور اصالت صرف اسلام اور خدا و رسول پر ایمان کو حاصل ہے۔
اسلام ان تمام افراد کو جو اس الہی دین پر عقیدہ رکھتے ہیں ایک امت قرار دیتا ہے۔ اسلام میں عقیدہ اور ایمان ہے جو رشتوں کو جوڑتا ہے اور اگر عیقدہ و ایمان نہ ہو تو جڑے ہوئے رشتے بھی توڑ دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے خداوند عالم سے اپنے بیٹے کی نجات کی دعا کی تو پروردگار عالم نے فرمایا: «یَا نُوحُ إِنَّهُ لَیْسَ مِنْ أَهْلِکَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ (۱) اے نوح یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے چونکہ اس کا کردار غیر صالح اور ناصحیح ہے۔ یعنی حضرت نوح (ع) سے بیٹے کا خونی رشتہ اور باپ بیٹے کی نسبت اس کی نجات کا باعث نہ بن سکی بلکہ ایمان اور عقیدہ تھا جو اس کو بچا سکتا۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا بہت آسان ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف انسان کا عقیدہ اور عمل رشتوں کو جوڑتا ہے لہذا تمام مسلمان ایک امت اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں رہتے ہوں اور ان میں کوئی خونی رشتہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے:  «وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُونِ» (۲) اور تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں پس مجھ سے ڈرو۔
بنابرایں، فلسطینی قوم کی مدد کرنے کی سب سے پہلی دلیل یہ کہ یہ قوم اور ملت بھی مسلمان ہے اور مشترکہ عقائد کی بنا پر وہ ہمارے دینی بھائی ہیں اور بھائی کی ہر مشکل میں مدد کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ» (۳) تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔
خداوند عالم دوسرے مقام پر یہاں تک فرماتا ہے کہ دو مسلمان گروہوں کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو ان کے درمیان اصلاح کرو اگر چہ جنگ کے ذریعے، اس لیے کہ امت مسلمہ کی وحدت سب سے زیادہ اہم ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: «وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّى تَفِیءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِن فَاءتْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ» (۴) اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آ جائے۔ پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کر دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
جب قرآن کریم مسلمانوں کو واضح حکم دیتا ہے کہ اگر اسلامی معاشرے کی اصلاح کے لیے تمہیں جنگ بھی کرنا پڑے تو جنگ کرو تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف پیدا ہو تو ایسے میں اگر دشمنان اسلام، اسلامی معاشرے کو پاش پاش کرنے پر تلے ہوئے ہوں اسلامی معاشرے کی جڑوں کو کاٹنے پر تلے ہوئے ہوں تو کیا ان کے مقابلے میں مسلمانوں کو یہ سوچ کر گھر بیٹھ جانا چاہیے کہ یہ تو فلاں ملک کا مسئلہ ہے یہ تو فلاں قوم کا مسئلہ ہے یہ تو سنیوں کا مسئلہ ہے یہ تو شیعوں کا مسئلہ ہے؟ قرآن کریم نے اہل ایمان کی بات کی ہے نہ کسی ملک کی نہ کسی قبیلے اور نہ فرقے کی۔ اہل ایمان کے ایک گروہ کو در پیش مشکل تمام مومنین کی مشکل ہے اور تمام اہل ایمان کو اس کے حل کے لیے کوشاں ہونا چاہیے۔
ب؛ فلسطین کی مدد ایک مومن اور مسلمان امت ہونے کے عنوان سے
قرآن کریم ہمیشہ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ دیگر مسلمانوں اور مومنوں کی مدد کے لیے آگے بڑھو اور ظالموں کے ساتھ پیکار کرو۔ قرآن کریم کے اسی حکم کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ ایران اس عنوان سے کہ وہ پرچم اسلام کا علمبردار ہے گزشتہ چالیس سال سے فلسطین کی مدد کے لیے دوڑ رہا ہے «…إِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِى الدِّینِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ… (۵) ۔۔ اگر دین کے معاملے میں وہ تم سے مدد مانگیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان کی مدد کرو۔
نیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معروف حدیث جس میں آپ فرماتے ہیں : «مَنْ أَصْبَحَ لَا یَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ؛  جو شخص صبح کرے اور مسلمانوں کے امور کی نسبت کسی اہمیت کا قائل نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔ (۶) لہذا اس حدیث کے پیش نظر تمام مسلمان ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح فلسطین کی مدد کے لیے جد و جہد کرنا چاہیے۔
فلسطین کی مدد ایک مستضعف قوم کے عنوان سے
خداوند عالم مسلمانوں سے صرف اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ تم ایمان لے آو اور اس کے بعد خاموش بیٹھے رہو اور کچھ بھی نہ کرو۔ بلکہ وہ افراد جو ایمان لائے خدا ان سے بہت سے کاموں کا تقاضا کرتا ہے خدا کا ایک تقاضا مستضعفین اور کمزور لوگوں کی حمایت میں دشمنوں کے ساتھ جنگ ہے؛ «وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَان» (۷) اور آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جہاد نہیں کرتے ہو جنہیں کمزور بنا کر رکھا گیا ہے۔
مستضعفین یعنی دنیا کے کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کا واضح مصداق اس وقت ملت فلسطین ہے کہ جو ۷۰ سال سے زیادہ عرصے سے جعلی اور طفل کش صہیونی ریاست کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کریم کی یہ آیت ہم سے مخاطب ہے کہ کیوں ان کی نجات کے لیے جد و جہد نہیں کرتے؟ قرآن بعد کی آیت میں فرماتا ہے: «الَّذِینَ آمَنُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِیَاء الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا» (۸) ایمان والے ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ ہمیشہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں لہذا تم شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو بیشک شیطان کا مکر بہت کمزورہوتا ہے۔
قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں طاغوت سے جہاد اور مستضعفین کی حمایت اہل ایمان کا فریضہ ہے اور آج ملت فلسطین اللہ کی راہ میں طاغوت کا مقابلہ کرنے میں سرفہرست ہے لہذا ان کی مدد کو پہنچنا تمام اہل ایمان کا فریضہ ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’اسلامی جمہوریہ ایران کے نزدیک مسئلہ فلسطین کوئی تاکتیکی مسئلہ نہیں، کوئی سیاسی اور تزویری مسئلہ نہیں، بلکہ عقیدتی مسئلہ ہے، دل کا مسئلہ ہے ایمان کا مسئلہ ہے‘‘۔ (۹)
بقلم مجید رحیمی
حواشی
[۱] . هود ۴۶
[۲] . مومنون ۵۲
[۳] . حجرات ۱۰
[۴] . حجرات ۹
[۵] . انفال ۷۲
[۶] . الکافی (ط – الإسلامیة) ؛ ج‏۲ ؛ ص۱۶۳
[۷] . نساء ۷۵
[۸] . نساء ۷۶
[۹] . غزہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں ۸/۱۲/۱۳۸۸

 

کیا انسان نے واقعی ترقی کی ہے؟ (۲)

  • ۴۳۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ تاریخ ہمارے احساسات و نظریات سے اس قدر بے نیاز ہے کہ ہم واقعات کا اپنی مرضی سے انتخاب کریں تو اس سے کسی بھی طرح کے نتائج نکال سکتے ہیں۔ اگر ہم رجائی پہلو سے اپنے شواہد کا انتخاب کریں تو انسانی ترقی کے بارے میں ہمیں کافی اطمینان بخش نتائج حاصل ہو سکتے ہیں لیکن پہلے ہمیں یہ ضرور طے کر لینا چاہیے کہ ترقی سے ہماری مراد کیا ہے؟ اگر ترقی کا مفہوم انسانی خوشی میں اضافہ تصور کیا جائے تو بالکل سرسری نظر میں ہی اس بات کا علم ہو جائے گا کہ ہم اس بارے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ انسانوں کی غیر مطمئن رہنے کی صلاحیت تقریبا لامحدود ہی ہے خواہ ہم کتنی ہی مشکلات پر قابو پا لیں، کتنے ہی خوابوں کی تعبیر ہمیں مل جائے، ہم اپنے آپ کو انتہائی پریشان حال اور قابل رحم ثابت کرنے کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ اس دنیا میں اس میں بسنے والوں کو اپنا دشمن قرار دے کر ہمیں ایک پوشیدہ سی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ویسے بھی اگر ترقی سے مراد خوشی میں اضافہ ہی تصور کیا جائے تو اس سے یہ احمقانہ نتیجہ نکلے گا کہ بچہ ایک جوان یا ایک پختہ العمر شخص کے مقابلے میں زندگی کی زیادہ ترقی یافتہ شکل ہے کیونکہ ظاہر ہے زندگی کی ان تینوں حالتوں میں بچہ ہی سب سے زیادہ مسرور ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی کی کوئی زیادہ معروضی تعریف ممکن ہے؟
اگر ہم ترقی کی تعریف زندگی کے اپنے ماحول پر قابو پانے کی صلاحیت میں اضافہ کی صورت میں کریں تو یہ انتہائی واقعیت پسندانہ ہو گی۔ کیونکہ یہ ایک ایسا معیار ہے جس کا اطلاق حقیر ترین جاندار سے لیکر انسانوں تک سب پر ہو سکتا ہے۔
ہمیں ترقی کو اس بات سے مشروط نہیں کرنا چاہیے کہ یہ مسلسل اور عالمگیر ہو، جس طرح ایک ترقی کرتے ہوئے فرد کی زندگی میں ناکامی، تھکاوٹ اور آرام کے وقفے آتے ہیں اسی طرح تاریخ انسانی میں انحطاط یا تنزل کے ادوار بھی موجود رہے ہیں، تاہم اگر کسی مرحلہ میں ماحول پر قابو پانے کی صلاحیت میں اضافہ ہو تو ہم یہ کہیں گے کہ اس دور میں حقیقتا ترقی ہوئی ہے اگر تاریخ کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تقریبا تاریخ کے ہر دور میں بعض قومیں ترقی کر رہی ہوتی ہیں اور بعض زوال پذیر ہوتی ہیں۔ جیسے آج کا روس ترقی کر رہا ہے اور انگلستان رو بہ زوال ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قوم زندگی کے کسی شعبہ میں ترقی کر رہی ہو اور کسی دوسرے شعبے میں زوال کا شکار ہو۔ جس طرح آج کل امریکہ ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہا ہے لیکن تصویر کشی و مصوری کے میدان میں انحطاط کا شکار ہے۔۔۔
آج کے دور کو بے حد تشویش ناک، پااختلال، اور ظالمانہ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر ہم دور اندیشانہ نقطہ نظر اختیار کر کے اس دور جدید کے انسانوں کی حالت کا موازنہ قدیم زمانے کے لوگوں میں موجود جہالت، توہم پرستی تشدد اور بیماریوں سے کریں تو ہمیں موجودہ دور کے بارے میں کوئی مایوسی یا پریشانی نہیں ہو گی۔
گرچہ متمدن ریاستوں میں بھی پست ترین طبقات کی حالت عہد وحشت کے انسانوں سے ذرا ہی بہتر ہے لیکن ان طبقات سے اوپر کی سطح پر لاکھوں لوگ ایسے ذہنی اور اخلاقی معیار پر پہنچ گئے ہیں جو ابتدائی دور کے انسانوں میں شاذ و نادر ہی موجود ہو۔۔۔۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ محض انسانی حماقتوں اور جرائم کی یاددہانی اور ان کے خلاف تنبیہ سمجھ کر نہیں بلکہ تخلیق کاروں کی حوصلہ افزاء یاد آفرینی کے طور پر کریں تو ماضی افسردہ کن بھوت گھرنظر آنے کی بجائے ایک ملکوتی شہر نظر آتا ہے۔ ایک ایسی وسیع و عریض مملکت خیال جہاں ہزاروں ولی، مدبر، موجد، سائنس دان، شاعر، مصور، عاشق اور فلسفی ابھی تک زندہ اور مصروف عمل ہیں۔
مورخ کو اس امر پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے وجود انسانی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا سوائے اس کے جو انسان خود اپنے لیے طے کر لیتا ہے۔ بلکہ یہ تو ہمارے لیے باعث فخر ہونا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کا مفہوم خود متعین کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس قدر اہم اور بامعنی ہوجاتا ہے کہ موت بھی اس پر غالب نہیں آ سکتی۔ وہ شخص بڑا ہی خوش نصیب ہے جو مرنے سے بیشتر جس قدر بھی ممکن ہو اپنے تمدنی ورثہ کو جمع کرے اور اسے اپنے بچوں تک منتقل کر دے۔ کیونکہ اسی میں انسانی بقا مضمر ہے اور یہی تہذیبی ورثہ ہی ابدی زندگی کی ایک صورت ہے۔

(ماخوذ از تاریخ عالم کا ایک جائزہ، ول ڈیورانٹ)

 

 

صہیونی اخبارات پر اہم تبصرہ

  • ۳۵۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اگر چہ موجودہ دور میں انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اخباروں کی وہ اہمیت نہیں رہی جو گزشتہ سالوں میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر بھی دنیا کے ہر خطے میں اخبار پڑھنے والے افراد ابھی بھی موجود ہیں۔ لیکن اس اعتبار سے کہ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ سافٹ وار اور نفسیاتی جنگ کے لیے بہترین آلہ کار ہیں اور ان کے ذریعے سماجی، سیاسی، معیشتی اور ثقافتی انقلابات برپا کئے جاتے ہیں ان کی افادیت اور تاثیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میڈیا کی اسی تاثیر کی وجہ سے صہیونی یہودیوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ دنیا کے ذرائع ابلاغ کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ مثال کے طور پر یہودیوں کی ایک خفیہ انجمن کہ جو اٹھارہویں صدی میں تشکیل پائی تھی کے آئین نامے کی چوتھی اصل یہ تھی کہ دنیا کے تمام طاقتور ذرائع ابلاغ پر اپنا کنٹرول حاصل کیا جائے۔ (ص/۱۶۸)، یہاں تک کہ انیسویں صدی میں دنیا کے معروف ذرائع ابلاغ جو معمولا یورپ کے اخبار تھے پر صہیونیت کا قبضہ تھا۔ (ص/۱۶۹)
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود یہودی بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے انکار نہیں کرتے، مثال کے طور پر وہ اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں: انہی اخباروں کی مدد سے ہم خون کی ندیاں اور آنسوؤں کے دریا بہا کر سونے کے ڈھیر لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم ان اخباروں کو اس طرح سے چلائیں گے کہ یہ ہمارے لیے درآمد کا ذریعہ بنیں، اس طریقے سے ہم اخباروں کی جانب سے ہونے والے ہر ممکنہ حملے سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ (ص/۱۶۹)
لیکن میڈیا کے میدان میں جو چیز حائز اہمیت ہے وہ خبر رسانی اور پیغام رسانی ہے۔ یعنی اگر آپ کسی نیوز ایجنسی یا اخبار کے مالک ہیں تو یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ لوگوں سے کہیں کہ وہ کیا سوچیں اور کس طرح سوچیں۔ یہ وہ چیز ہے جو صہیونیت سے منسوب بارہویں پروٹوکول میں درج ہے۔ اس پروٹوکول میں یوں آیا ہے: ’’کوئی خبر کہیں بھی درج نہیں ہوتی مگر یہ کہ ہم اس کی اجازت دیں، اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں دنیا کے معروف ذرائع ابلاغ جو بہت کم ہیں پر اپنا قبضہ جمانا ہو گا‘‘۔ لہذا بالکل تعجب نہیں کریں اگر آپ سے کہا جائے کہ دنیا کی اہم نیوز ایجنسیاں جیسے رائٹرز، بی بی سی، آسوشیٹڈ پریس، یونائیٹڈ پریس وغیرہ وغیرہ صہیونی یہودیوں کے ذریعے چل رہی ہیں۔
صہیونیت سے وابستہ اخباروں نے صہیونی ریاست کی تشکیل سے ۵۰ سال قبل اس کے افکار و اہداف کو عام کرنا شروع کر دیا تھا۔ سب سے پہلا اخبار( Die welt)  کےنام سے تھیوڈر ہرٹزل جو صہیونیت کا موسس تھا کے ذریعے آغاز ہوا۔ لیکن خود اسرائیل میں ۱۹۴۸ سے پہلے یہودیوں کے ۱۰۰ سے زیادہ اخبار اور جریدے مختلف زبانوں میں شائع ہوتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریاست کے باشندے اپنے اخباروں پر ذرہ برابر اعتماد نہیں کرتے اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور اخبارات کو ترجیح دیتے ہیں یہاں تک کہ روزانہ ۳۰۰۰ سے ۳۵۰۰ غیر ملکی اخبار اور ۸۰ ہزار جریدے فرانس، برطانیہ، جرمنی اور امریکہ کے اسرائیل میں بکتے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا پر گہری نگرانی
صہیونی ریاست میں میڈیا آزاد ہے لیکن اس وقت تک جب تک اس ریاست کے سکیورٹی تحفظات کو کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔ لہذا تمام اخبارات اور نیوز ایجنسیاں اپنی تمام خبروں کو شائع کرنے سے پہلے نگرانی بورڈ کہ جو فوجی افسروں پر مشتمل ہے کو ارسال کرنے پر مجبور ہیں۔ البتہ یہ نگرانی اندرونی سنسر کے علاوہ ہے جو خود اخباروں اور نیوز ایجنسیوں کے ایڈیٹر انجام دیتے ہیں۔ (ص۱۸۶،۱۸۵)
اسرائیل کے معروف اخباروں کو تین کلی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ کثیر الانتشار، پارٹی محور اور عربی زبان
اسرائیل کے کثیر الانتشار اخبارات
۱۔ جروزالم پوسٹ (The Jerusalem Post)؛ یہ اخبار صہیونی ریاست کے ابتدائی اخباروں میں شمار ہوتا ہے۔ ۱۹۳۲ میں یہ اخبار ’فلسطین پوسٹ‘ کے نام سے شروع ہوا اور ۱۹۴۸ میں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ یہ اخبار زیادہ تر وزارت خارجہ سے وابستہ ہے اور اس کے طرفدار انتہا پسند اور فتنہ پرور قسم کے افراد ہیں۔
 
۲۔ یدیعوت آحرونوت (Yedioth Ahronoth)؛ یہ اخبار عرب فلسطینیوں سے شدید نفرت کا اظہار کرتا ہے اور اس کے کارکنان اسرائیل کے سکیورٹی اداروں سے وابستہ ہیں۔ اور یہ بھی جان لینا مناسب ہو گا کہ اسرائیل کے ۴۰ فیصد عوام اس اخبار کو پڑھتے ہیں۔
 
۳۔ معاریو (Maariv)؛ یہ اخبار جو عصر کے وقت شائع ہوتا ہے اسرائیل کا کثیر الانتشار اخبار ہے یعنی عام دنوں میں یہ ۱۶۰ ہزار کی تعداد میں جبکہ سنیچر جو چھٹی والا دن ہے میں ۳۱۰ ہزار کی تعداد میں چھپتا ہے۔ (ص۱۸۷) یہ اخبار دائیں بازو پارٹی لیکوڈ کا اخبار شمار ہوتا ہے۔
 
۴۔ ہاآرتض (Haaretz)؛ یہ اخبار روزانہ ۷۷ ہزار کی تعداد میں اسرائیل میں چھپتا ہے۔ در حقیقت یہ اخبار اسرائیل کے روشن فکر افراد سے متعلق ہے اور آزادی بیان میں دوسرے اخباروں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس اخبار کے نامہ نگار فلسطینی عرب بھی ہیں اور عرب سماج کی مشکلات کو بھی منعکس کرنے میں کوئی ممانعت نہیں رکھتا۔
 
پارٹی محور اخبارات
۱۔ داور ;(Davar) یہ اخبار Histadrut پارٹی سے وابستہ ہے کہ جو صہیونی مقاصد کی تکمیل جیسے مہاجر یہودیوں کے لیے مکانات فراہم کروانا، یا دوسرے ملکوں میں موجود یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین ہجرت کی ترغیب دلانا وغیرہ، کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
۲۔ عل ہشمار؛ “ماپام” پارٹی سے وابستہ اخبار ہے جو زیادہ تر سوشلسٹ افکار کی ترویج کرتا ہے۔
۳۔ ہمفڈل: یہ اخبار قومی مذہبی پارٹی (National Religious Party) کا ترجمان اور لیکوڈ پارٹی سے وابستہ ہے جو معمول متعصب یہودیوں کے درمیان پڑھا جاتا ہے۔
عربی اخبارات
۱۔ الاتحاد؛ یہ اخبار کمیونیسٹ پارٹی ’راکاح‘ کا ترجمان ہے۔
۲؛ الانبار؛ یہ اخبار بھی Histadrut پارٹی سے وابستہ ہے اور موجودہ حکومت کی اپوزیشن اس کی طرفدار ہے۔
خیال رہے کہ صہیونی ریاست کے اخبارات اور جرائد کی یہ کثیر تعداد اسرائیل میں پائے جانے والے مختلف یہودی قبائل، زبانوں اور مختلف سیاسی پارٹیوں اور دھڑوں کی وجہ سے ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ صہیونی معاشرہ اندرونی طور پر شدید اختلافات، منافرتوں اور دراڑوں کا شکار ہے۔
تحریر: میلاد پور عسگری

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/ شہید مرتضیٰ مطہری

  • ۳۷۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری اسلام کے عظیم مفکر، عالم تشیع کے ایک بزرگ فلاسفر اور امام خمینی (رہ) کے خاص شاگرد تھے۔ یہ عظیم شخصیت اس قدر اسلام اور انقلاب کے لیے دلسوز تھی کہ امام خمینی(رہ) نے ان کی شہادت کے بعد انہیں اپنا بیٹا کہہ کر یاد کیا۔
امام خمینی (رہ) کی شاگردی اختیار کرنے سے شہید مطہری کے اندر اپنے استاد کی طرح، سامراجی طاقتوں اور صہیونی نظام کے خلاف جہاد کا جذبہ پیدا ہو گیا جس کا مشاہدہ آپ کے دروس، تقاریر اور بیانات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے عالمی صہیونیت کے خلاف کس قدر جہاد بالقلم اور جہاد باللسان کا مظاہرہ کیا اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے لوگوں سے پیسہ اکٹھا کر کے جہاد بالعمل کا ثبوت بھی دیا۔ فلسطینی عوام کی امداد رسانی کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنا اور ان سے امداد جمع کر کے فلسطینیوں تک پہنچانا آپ کا معمول بن چکا تھا۔
لیکن ایک مرتبہ ساواک نے ان کا اکاونٹ سیل کر کے سارا پیسہ ضبط کر لیا جو فلسطینیوں کے امداد کے طور پر جمع کیا ہوا تھا۔ شہید مطہری کو جب خبر ملی تو آیت اللہ شریعتمداری جن کے ساواک کے ساتھ اچھے تعلقات تھے کے دفتر کے تعاون سے ان پیسوں کو ساواک سے واپس لیا۔ اور بعد میں مکہ سفر کے دوران ان پیسوں کو فلسطینی نمائندوں کے ذریعے فلسطین کے عوام تک پہنچایا۔ (۱)
شہید مطہری سے شہنشاہی نظام کو اس وقت شدید خطرہ محسوس ہوا جب انہوں نے عاشور کے دن ’’حسینیہ ارشاد‘‘ میں صہیونی ریاست کے خلاف کھلے عام سخت لہجے میں تقریر کی، جس کے بعد ساواک نے انہیں اسرائیل مخالفین کی فہرست میں قرار دے کر گرفتار کر لیا۔
شہید مطہری نے اپنی اس تقریر میں کہا: اسلامی پہلو کے علاوہ مسئلہ فلسطین کی کوئی تاریخ نہیں ہے مسئلہ فلسطین کا کسی ایک حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مسئلہ فلسطین ایک ملت سے تعلق رکھتا ہے، ایسی ملت جسے بے گھر کر دیا گیا ہے جس کی زمین کو غصب کر دیا گیا ہے‘‘۔
آپ نے اس تقریر میں مسئلہ فلسطین کو واقعہ عاشورا سے جوڑتے ہوئے کہا: ’’اگر حسین بن علی(ع) آج زندہ ہوتے اور خود کہتے میرے لیے عزاداری کرو تو کن سا نوحہ پڑھنے کو کہتے؟ کیا یہ کہتے کہ کہو: ہائے میرا نوجواں اکبر۔۔۔؟
اگر حسین بن علی (ع) آج ہوتے اور کہتے میرے لیے عزاداری کرو، میرے لیے ماتم کرو اور زنجیر مارو، تو آج تمہارا نوحہ ’ہائے فلسطین‘ ہوتا۔ آج کا شمر ’موشے دایان‘ ہے، اپنے زمانے کے شمر کو پہچانو‘‘۔
شہید مطہری نے اس شبہہ کو بھی دور کرتے ہوئے کہ مسئلہ فلسطین عربوں اور اسرائیل کا مسئلہ ہے کہا:
ہمارے ذہنوں میں اتنا جھوٹ بھر دیا ہے کہ یہ مسئلہ تو اندرونی مسئلہ ہے، عرب اور اسرائیل کا مسئلہ ہے، عبد الرحمان فرامرزی کے بقول کہ اگر انہی کا مسئلہ اور مذہبی مسئلہ نہیں ہے تو کیوں دنیا کے دیگر یہودی ہمیشہ ان کے لیے پیسے بھیج رہے ہیں؟ ۳۶ ملین ڈالر ہمارے ملک ایران کے یہودیوں نے اسرائیل کو بھیجے ہیں۔ میں ان یہودیوں کو لعنت ملامت نہیں کرتا چونکہ وہ یہودی ہیں، میں خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں، انہوں نے اپنے دینی بھائیوں کی مدد کی اور پورے فخر کے ساتھ ان کے لیے پیسہ بھیجتے ہیں، میرے پاس اخبار کا وہ ٹکڑا موجود ہے جس پر یہ خبر چھپی ہوئی ہے کہ امریکہ کے یہودی روزانہ ایک ملین ڈالر اسرائیل کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ ۲
حواشی
1 – http://motahari.org/index.aspx?pageid=186&p=1
2- https://www.tabnak.ir/fa/news/419362

 

نوآم چامسکی: ایران کی خودمختاری امریکیوں کی نفرت کا سبب/ امریکہ کے حلیف رجعت پسند ہیں

  • ۳۸۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  مورخہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ع‍ کو مشکوک اور متنازعہ حملوں میں نیویارک کی جڑواں عمارتیں زمین بوس ہوئیں تو وقت کے امریکی صدر جارج بش نے تو صلیبی جنگوں کے نئے آغاز کا تذکرہ کیا اور امریکی و یورپی ذرائع نے US under attack اور Why the muslims hate us جیسے عناوین سے مسلمانوں کے خلاف دل کھول کر زہرافشانی کی جبکہ بہت سے مسلم ممالک کے ذرائع نے بھی ان کا ساتھ دیا لیکن جو بات کبھی بھی مغربی ذرائع ابلاغ میں دیکھنے کو نہ ملی وہ یہ ہے کہ “امریکہ سمیت مغربی ممالک اسلامی ممالک سے نفرت کیوں کرتے ہیں” اور اب یہ بات بھی ایک امریکی دانشور “نوآم چامسکی” کے زبانی سننے کو ملی ہے کہ “امریکہ ایران سے کیوں نفرت کرتا ہے؟” انھوں نے خود ہی سوال اٹھایا ہے اور خود ہی اس کا جواب دیا ہے۔
نوآم چامسکی امریکی پروفیسر، ماہر لسانیات، نظریہ پرداز اور مفکر ہیں جنہوں نے ایک مکالمے کے دوران کہا ہے کہ ۱۹۷۹ع‍کے انقلاب کے بعد استقلال اور خودمختاری کی طرف حرکت شروع کی چنانچہ امریکہ کے سیاستدان تہران سے نفرت کرنے لگے اور اس نفرت میں مسلسل شدت آرہی ہے۔
انھوں نے ایران پر مغربی ممالک کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ “مغربی ایشیا کے قدامت پسند ترین اور رجعت پسند ترین ممالک وہ ہیں جن کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ انھوں نے بطور نمونہ حجاز پر مسلط بنی سعود کی حکومت اور عرب امارات پر مسلط بنی نہیان کی حکومتوں کا تذکرہ کیا ہے جو امریکہ کی حمایت سے بہرہ ور ہیں۔
۹۰ سالہ چامسکی، جو ایم آئی ٹی اور ایریزونا یونیورسٹی کے سبکدوش پروفیسر ہیں جو “جدید لسانیات کے باپ The Father of Modern Linguistics” اور علمِ ادراکیات (cognitive science) کے بانی کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ وہ عصر حاضر کے عظیم ترین بقید حیات مغربی دانشور مانے جاتے ہیں۔
انھوں نے ۷ اگست ۲۰۱۸ع‍کو ایریزونا یونیورسٹی میں اپنے دفتر میں ایک انٹرویو دیا ہے جو کل بروز جمعہ ۲۴ اگست کو شائع ہوا۔ انھوں نے اس مکالمے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مختلف مسائل کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔
پوچھا گیا ہے کہ اگر ۲۰۲۰ع‍کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ جماعت کے سیاستدان امریکی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب ہوجائیں تو کیا ان کا موقف ایران کے خلاف کچھ نرم ہوگا؟ اور انھوں نے کہا: “یہ پیشنگوئی کرنا حقیقتا بہت مشکل ہے”۔
• رجعت پسند ترین ممالک امریکہ کے حلیف
انھوں نے کہا: میرا مقصد یہ کہنا ہے کہ ایران سے نفرت کی جڑیں جدید امریکہ کی ثقافت میں بہت گہری ہیں اور ایران سے نفرت کی جڑوں کا اکھاڑ پھینکنا بہت دشوار ہے۔
انھوں نے ایران کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کے سلسلے میں شائع ہونے والے نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون اور اس کی بنیاد پر امریکی سیاسی حلقوں میں ایران کے سلسلے میں جڑ پکڑنے والے تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس مضمون میں بیان ہوا ہے کہ ٹرمپ سوچتے ہیں کہ پابندیاں دوبارہ لگائی جائیں تو ایران میں اسلحے کی تیاری کا سلسلہ رک جائے گا، ملک کے اندر نام نہاد جبر اور سرکوبی کا خاتمہ ہوگا اور مشرق وسطی میں ایران کی مداخلت میں کمی آئے گی۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ٹرمپ کی سوچ یہی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ان کی سوچ نہیں ہے؛ پوچھتا ہوں کہ کیا اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس میں ذرہ برابر حقیقت بھی نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرق وسطی کے رجعت پسند ترین اور قدامت پسند ترین ممالک وہ ہیں جن کی ہم [امریکی] حمایت کررہے ہیں۔
چامسکی کا کہنا تھا کہ اگر ایران کا سعودی عرب سے موازنہ کرایا جائے تو ایران کی جمہوری سطح ناروے کے برابر ہے۔ مشرق وسطی میں تشدد کے لحاظ سے بھی سعودی عرب اور امارات کے اقدامات ـ جن کی ہم حمایت کررہے ہیں ـ ہر چیز سے بدتر ہیں۔
• ایران سے نفرت کی جڑ
پوچھا گیا کہ امریکہ کے عالم سیاست کے دانشور و سیاستدان ایران سے نفرت کیوں کرتے ہیں، اور ان کی نفرت کی جڑ کہاں پیوست ہے؟ تو انھوں نے کہا: اس کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ سنہ ۱۹۷۹ع‍میں ایران نے [انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کرکے] استقلال اور خودمختاری کی سمت قدم بڑھایا؛ اور اس سے بڑھ کر ایرانیوں نے ایک مطلق العنان حکمران ـ جسے امریکہ نے متعین کیا تھا اور امریکی مفادات کی اساس پر اس ملک پر حکمرانی کررہا تھا ـ تخت شہنشاہی سے اتار پھینکا؛ اور ہمارے سیاستدان اور سیاست کے بارے میں سوچنے، بولنے اور لکھنے والے کبھی بھی اس واقعے کے نہیں بھولیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فورا بعد امریکہ نے ایران پر عراق کے حملے کی حمایت کی جبکہ عراق کا حملہ تباہ کن تھا۔ ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کی امریکی حمایت ایسے حال میں جاری رہی کہ عراق نے وسیع سطح پر کیمیاوی اسلحہ استعمال کیا اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کے اسباب فراہم کئے۔
انھوں نے کہا: عراق ایران کے خلاف کیمیاوی اسلحہ استعمال کررہا تھا اور لاکھوں انسان کو قتل کررہا تھا لیکن امریکہ نے جنگ کے پورے عرصے میں عراق کے ان اقدامات کی حمایت جاری رکھی۔
جُغرافیائی تَدبیر
• ڈونلڈ ٹرمپ چامسکی کی نظر میں
چامسکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور پالیسیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: جیسا کہ آپ جانتے ہیں ٹرمپ امریکہ کے سابقہ سیاسی معیاروں کے دائرے سے خارج ہیں؛ وہ جغرافیائی تزویرانی مسائل (geostrategic issues) کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کیا کررہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں؛ اگر دنیا کی معیشت درہم برہم ہوجائے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر وہ نیٹو کو ختم کریں تو ان کے خیال میں اس کی کیا اہمیت ہے؟
نوآم چامسکی نے کہا: وہ واحد شیئے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے اہم ہے، وہ ان کی اپنی ذات ہے اور جو کام بھی انجام دیتا ہے اس کو اس تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ “وہ ایک نرگسیت (Narcissism) میں مبتلا اور اپنی ذات سے محبت کا شکار، متکبر اور گھَمَنڈی شخص ہیں اور جو کام بھی انجام دیتے ہیں، خود ہی نمایاں رہنے کے قائل ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://fna.ir/boch26

 

کیا انسان نے واقعی ترقی کی ہے؟ (۱)

  • ۳۸۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گا: تاریخ عالم کے مطالعہ کے دوران ہم قوموں، اخلاقی اصول و ضوابط اور مذاہب کے عروج و زوال کے پیش منظر میں انسانی ترقی کے بارے میں شکوک و ابہام کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ بسا اوقات ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آیا ہر نسل کا اپنے آپ کو ’’جدید اور ترقی یافتہ‘‘ قرار دینے کا دعویٰ محض بے کار اور روائتی طور پر ڈینگ ہانکنے کے مترادف تو نہیں؟
چونکہ ہم نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اب تک کے تاریخی اداوار کے دوران انسانی فطرت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے اس لیے تمام تر تکنیکی ترقی کو محض یہ سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ یہ تو پرانے مقاصد، اشیاء کے حصول، یا جنس مخالف تک رسائی، مقابلہ میں کامیابی وجنگ میں فتح، کے حصول کے نئے ذرائع ہیں۔ موجودہ صدی میں ہم جن بہت سے حقائق سے روشناس ہوئے ہیں ان میں سے ایک حوصلہ شکن انکشاف یہ بھی ہے کہ سائنس انسانی احساسات و جذبات کے بارے میں غیر جانبدار ہے۔ یہ جس قدر مستعدی سے مریضوں کو صحت یاب کر سکتی ہے اسی تیزی سے انسانوں کو موت کے گھاٹ بھی اتار سکتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تعمیر کی نسبت تخریب کا عمل سائنس زیادہ تیز رفتاری سے کر سکتی ہے، فرانس بیکن کا یہ فخریہ مقولہ آج کس قدر غیر اہم لگتا ہے کہ ’’علم طاقت ہے‘‘۔ ۔۔۔
بلا شبہہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم نے ترقی کی ہے لیکن یہ ترقی بھی قباحتوں سے خالی نہیں ہے۔ سہولتوں اور آسائشوں نے ہماری جسمانی قوت برداشت اور اخلاقی طاقت کو کمزور کر دیا ہے ہم نے اپنے ذرائع آمد و رفت کو بہت ترقی دے دی ہے لیکن ہم میں سے ہی کچھ لوگ ان ترقی یافتہ ذرائع کو جرائم کے ارتکاب اور اپنے ساتھی انسانوں کی یا خود اپنی ہلاکت کے لیے استعمال کرتے ہیں ہم نے اپنی رفتار کو دگنا، تگنا بلکہ سوگنا بڑھا لیا ہے لیکن اس عمل کے دوران ہم نے اپنے اعصاب تباہ کر لیے ہیں ہم میں اور عہد وحشت کے انسانوں میں رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے یہ درست ہے کہ ہم جدید طب نے بہت زیادہ ترقی کی ہے لیکن علاج معالج کی اس ترقی کو ہم اسی وقت ہی سراہنے کے قابل ہونگے اگر اس کی بنا پر اصل امراض سے بھی بدتر ذیلی اثرات پیدا نہ ہوں۔ نئی نئی بیماریوں اور جراثیم کی روز افزوں مزاحمت کے خلاف ڈاکٹروں کی تندہی اور مشقت بلاشبہ قابل تعریف ہیں اور ہم طبی سائنس میں ترقی کے باعث اوسط انسانی عمر میں اضافہ کے لیے شکرگزار ہوں گے بشرطیکہ زندگی میں ہونے والا یہ اضافہ محض بیماری معذوری اور اداسی کے بوجھل لمحے نہ ہوں۔
آج روئے زمین پر ہونے والے روزمرہ کے واقعات کے بارے میں ہمارے باخبر رہنے اور ان کو بیان کرنے کی صلاحیت پہلے سے سوگنا بڑھ گئی ہے۔ لیکن کبھی کبھار ہمیں اپنے اپنے آباؤ اجداد پر رشک آتا ہے جن کے پرسکون ماحول میں اپنے گاؤں کی کوئی خبر سن کر دھیما سا خلل پڑ جاتا تھا۔
اگر چہ ہم نے ہنرمند کاریگروں اور درمیانہ طبقے کے حالات کو قابل رشک حد تک بہتر بنا لیا ہے۔ لیکن ہمارے شہروں میں گندگی اور غلیظ گلیوں اور قابل نفرت تاریک بستیوں کے ناسور پل رہے ہیں۔

ہم مذہب سے چھٹکارا پانے کی خوشی میں خوب بغلیں بجاتے ہیں لیکن کیا ہم مذہب سے علیحدہ کوئی ایسا فطری ضابطہ اخلاق تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس میں اتنی قوت ہو کہ وہ ہماری اشیاء کے حصول، جھگڑالوپن، اور جنسی جبلتوں کو قابو میں رکھ سکے۔ تاکہ ہم اپنے جبلی تقاضوں کے زیر اثر اپنے اس تمدن کا لالچ، جرم اور جنسی بے راہ روی کی دلدل میں نہ دھکیل دیں؟
کیا ہم نے مذہبی تعصب اور نارواداری کو بالکل خیرباد کہہ دیا ہے یا پھر یہ تعصاب اب قومی نظریاتی اور نسلی منافرتوں میں بدل گئے ہیں؟ کیا ہمارے اخلاق و عادات اور اطوار پہلے کی نسبت بہتر ہیں یا بدتر؟ انیسویں صدی کے ایک سیاح کا کہنا ہے:
’’جوں جوں ہم مشرق سے مغرب کو جائیں تو اخلاقی طور پر اطوار بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں۔ یہ ایشیا میں برے یورپ میں بدتر اور امریکہ کی مغربی ریاستوں میں بدترین ہیں‘‘۔
اب تو مشرق بھی اس معاملہ میں مغرب کی پیروی کر رہا ہے!
کیا ہمارے قوانین مجرموں کو معاشرے اور ریاست کے مقابلے میں بہت زیادہ تحفظ فراہم نہیں کرتے؟
کیا ہم نے اپنے آپ کو اپنے ظرف سے زیادہ ذہنی آزادی نہیں دے دی؟
کیا آج ہم ایسی اخلاقی اور سماجی ابتری کے دہانے پر نہیں کھڑے جہاں اپنے بچوں کی بے راہروی سے خوفزدہ ہو کر والدین دوبارہ مذہب/ کلیسا کی طرف رجوع کریں اور ان میں نظم و ضبط اور اخلاق کی بحالی کے لیے مطلق ذہنی آزادی سے دستبردار ہو کر مذہب کا سہارا لیں گے؟
جاری
اقتباس از
(تاریخ عالم کا ایک جائزہ، ول ڈیورانٹ، صفحہ ۱۲۶ سے ۱۲۸ تک)

 

یہودیوں کی خفیہ تنظیم کا امریکہ میں اثر و رسوخ

  • ۴۶۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  ان اداروں اور تنظیموں میں جو کہ اسرائیلی رژیم سے قبل خفیہ طور پر بین الاقوامی صہیونیت کے اہداف کے تحت مصروف عمل تھیں « امریکی یہودیوں کی کمیٹی» تھی ۔ یہ وہ خفیہ تنظیم تھی جو ۱۹۰۶ ء میں«جاکوب.اچ.شیف»(jacob H schiff)نامی ایک ثروت مند بینکر کے ذریعہ وجود میں آئی اس نے اپنی تنظیم کے افتتاح کے لئیے ۵۵ جانے مانے یہودی ربانیوں (یہودی مذہبی رہنماوں) مصنفین، تجار، سفیروں، ججوں اور دانشوروں کو امریکہ بھر سے نیویارک مدعو کیا ۔جبکہ یہودیوں کی اس کمیٹی کی تشکیل «انجمن پروشیم» کے برخلاف آشکار و علنی تھا لیکن اس کے بہت سے کام خفیہ تھے ۔«سانوآ(sanua)»اس کمیٹی کے رہبروں میں سے ایک کہتے ہیں : امریکہ کی یہودی کمیٹی کی کوشش ہے کہ ایسے ناموں اور ایسی نشانیوں و ایڈریسوں سے استفادہ کرے جو قومی اور فرقہ ای احساس و جذبات کے بر انگیختہ ہونے کا سبب نہ بنیں ۔ بہت سے ایسے موارد ہیں جہاں اس کمیٹی نے جعلی ناموں سے استفادہ کیا ہے تاکہ کوئی اس بات کی طرف متوجہ نہ ہو کہ امریکی یہودی اس کی قیادت کر رہے ہیں اس کمیٹی کی اراکین ۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ء کی دہائی میں مختلف میٹنگوں اور نشستوں میں حاضر ہوتے رہے اور انہوں نے ۵۰ ہزار لوگوں پر مشتمل ایک ایسی فہرست بھی مرتب کی کہ جن میں وہ لوگ تھے جو انکے زعم میں یہودی ستیز یا یہود مخالف تھے ۔ اس امریکن یہودی کمیٹی کے اقدامات کی بنا پر دسیوں امریکی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئیے گئے ۔
یہ کمیٹی امریکہ کی حکومت میں اعلی پیمانہ پر اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر اقوام متحدہ میں تجویز تقسیم کی منظوری کے سلسلہ میں اپنے نفوذ سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی ۔اس کمیٹی کی نمایاں خصوصیت اسکی مخفی اور پشت پردہ فعالیت تھی ، اگرچہ یہ کمیٹی ابتداء میں ایک غیر صہیونی تنظیم میں شمار ہوتی تھی اور اپنی فعالیت کے آغاز میں یہودی حکومت کی تشکیل کے مخالف کے طور پر پہچانی جاتی تھی لیکن اس کی فعالیتیں صہیونی اہداف کے امتداد میں قرار پاتی تھیں ، بطور مثال اس تنظیم نے بالفور کے اعلان کی حمایت کی اور اس تنظیم کے بعض اراکین یہودی تنظیموں اور اداروں کی مالی مدد کرتے تھے توبعض دیگر یہود ایجنسی میں فلسطین سے جڑے امور میں سرگرم عمل تھے ۔انجام کار امریکہ کے یہودیوں کی کمیٹی کے بہت سے اراکین کی مخالفت یہ تنظیم ایک صہیونی تنظیم میں تبدیل ہو گئی اور ۱۹۴۷ء میں اس نے صہیونی گولز و انکے مقاصد کی حمایت کی ۔
: Alison Weir
: Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel

 

یہودی معاشرے میں طبقاتی شگاف

  • ۳۸۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کسی بھی معاشرہ میں طبقاتی فاصلہ معاشرتی و سماجی اختلافات کا سبب بنتا ہے ۔ وہ لوگ جو اسرائیل کی تشکیل کے لئے سرزمین فلسطین پر ہجرت کر کے پہنچے ، دیگر ممالک سے یہاں آنے کی وجہ سے اور متنوع رفاہی سطح کے حامل ٹاون سٹیز میں جبراً رہایش پذیر ہونے کی بنا پر خاص کر یہہودیوں اور عربوں کی زندگی کے دو الگ الگ تصوارت کے سبب اس بات کا سبب بنے کہ فلسطین کی تاریخی سرزمین پر شگاف و دراڑ پیدا ہو جسکی وضاحت یہ ہے کہ صناعت کے میدان میں جس پالیسی کا آغاز فلسطین میں تیسویں دہائی میں ہوا اور صنعت سازی کا دور شروع ہوا یہ دور اسرائیل کی جعلی و ناجائز حکومت کے بننے کے بعد ۶۰ کی دہائی میں وسیع تر ہو گیا جس نے سماج کے طبقاتی ڈھانچے میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کیں جسکی بنا پر زراعت و کھیتی باڑی کمزور ہوئی اور صنعتی اقتصاد پھولا پھلا اور آگے بڑھا ۔
۹۰ ء کی دہائی میں عبری و عربی معاہدہ کے وجود میں آنے کے بعد مجموعی قومی پیداوار ( جی ۔ڈی پی) ۸۰ کی دہائی کی نسبت ۸ برابر بڑھ گئی لہذا یہودی معاشرہ کا طبقاتی اختلاف ان اداروں اور انسٹی ٹیوٹس کے ساتھ بھی جڑا ہے جنہیں ہجرت کے دور میں یہودیوں کی رہایش کے لئیے بنایا گیا تھا ۔ اس لئیے کہ ان اداروں و مراکز کی بنیاد فلسطین میں ہجرت کر کے آنے والے یہودیوں اور وہاں کے اصل باشندوں کے درمیان عدم مساوات و اونچ نیچ اور نابرابری پر ہے ۔
یفتا حثیل کے بقول صہیونی رژیم میں ایسے مکانی سلسلہ مراتب اور تنظیمی حیثیتیں موجود ہیں جو نسلی طور پر دوسری جگہوں سے آکر یہاں بسنے والوں کے درمیان جغرافیا کی توسیع اور مہاجروں کی سکونت کے پیش نظر غیر عادلانہ تقسیم اموال کے اصولوں سے باہر آ رہی ہیں ،یعنی پھیلتے ہوئے وسیع خطے اور مہاجروں کی نسلی معیاروں پر انکی رہایش کی تعیین و اموال کی غیر عادلانہ تقسیم اس بات کا سبب بنی کہ کچھ سلسلہ مراتب و تنظیمی حیثیتیں وجود میں آئیں جنکی طرف رجوع کے بغیر کام نہیں چل سکتا ۔ جغرافیائی وسعت چار طرح کی آبادیوں کی بنا پر ۱۹۴۸ کی سرحدوں پر اس طرح وجود میں آئی :
الف: ایسے شہر اور ٹاون سٹیز جس میں اکثر مغربی یہودی اور وہ اشکنازی رہتے ہیں جو صہیونی حکومت کے موسس و بانی کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اسی بنا پر انکے پاس ثروت و دولت کی بہتات ہے اور بہترین و مرغوب زمینوں کے مالک ہیں ان کے پاس اقتصادی و فرہنگی انفراسٹرکچر موجود ہے جن پر انکا قبضہ و تسلط ہے ۔
ب: مشرقی یہودی ( سفاردیم ) اور نئے ہجرت کرکے آنے والے جیسے روس کے یہودی اور سابقہ سوویت یونین سے جڑے ان ممالک کے لوگ جو بڑے مراکز و بڑے شہروں تک نہیں پہنچ سکے اور دوسرے درجہ کے شہری شمار ہوتے ہیں۔
ج: اتھوپیائی قومیت رکھنے والے افریقائی یہودی جنہیں فلاشا کہا جاتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں انکے رنگ و نسل کی بنیاد پر حقارت جھیلنا پڑتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے شہروں کے مضافات میں یا سرحدوں کے نزدیک بنے ٹاون سٹیز میں رہایش پذیر ہیں اور نچلے درجہ کے کاموں میں مشغول ہیں ۔
د: وہ اعراب جو اسرائیلی حکومت کے ان علاقوں میں ہیں جہاں حکومت کا نفوذ ہے اور ان علاقوں کو ریاستی عمارتوں کی تعمیر اور اسٹیٹ بلڈگوں سے بہت دور رکھاگیا اور انہیں یہودی حکومت کے شدت پسند یہودیوں کی جانب سے شدید طور پر بھید بھاو کا سامنا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ صہیونی تفکر کے بھید بھاو پر مشتمل دنیاوی طرز فکر اور نسلی برتری کے نظریہ کی بنیاد پر یہ اجتماعی و معاشرتی شگاف مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ و سیکولر طرز فکر کے پاس اس شگاف سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام خمینی (رہ) کا عالم اسلام کو صہیونی ریاست کے خطرات سے انتباہ

  • ۳۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امام خمینی (رہ) نے متعدد مقامات پر عالم اسلام کو اسرائیل کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑنے ہونے کی دعوت دی۔
’’شریعت مقدسہ کا دفاع، اسلامی حدود کی حفاظت، ظلم و جور کی بیخ کنی، ہر دشمن حریت و آزادی، ہر دشمن اسلام کے ساتھ معاہدوں کی رسوائی، اقطار اسلامیہ کی سیادت، اسرائیل اور اس کے مقامی ایجنٹوں سے جنگ، قتل، ملک بدری جیسے اقدامات پر شدید احتجاج، ظاہری و بناوٹی فیصلوں اور ان کے ناجائز احکام کی مخالفت، شہروں کی حالت، اقتصادی حالات جن کی چکی میں جمہور کو پسا جا رہا ہے اور اس قسم کے دیگر وہ حالات جو انسانی زندگی کے اجزاء رئیسہ ہیں، ان سب کا بیان کرنا علماء کے اصلی واجبات ہیں‘‘۔۔۔۔
(۱۵ خرداد ۱۳۴۲ کی مناسبت سے امام خمینی کے پیغام سے اقتباس)
’’اسرائیل اسلامی حکومتوں سے جنگ کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہنشاہی حکومت بڑی محبت کے ساتھ اس سے معاملہ کر رہی ہے اور پروپیگنڈہ و ذرائع ابلاغ کی اس کو سہولت بہم پہنچا رہی ہے۔ اس کی مصنوعات کو ملک میں وارد کر رہی ہے۔ میں نے متعدد مرتبہ آگاہ کر دیا ہے کہ دین مبین اسلام خطرے میں ہے، ملک کی آزادی کو خطرہ ہے، ملک کی اقتصادیات خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ میں تمام اسلامی حکومتوں اور مشرق و مغرب کے مسلمانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ شیعہ مسلمان اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں کے دشمن ہیں۔ شیعہ ان حکومتوں سے بھی اظہار برائت کرتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔ ایرانی عوام کے لیے مبغوض اسرائیل کے ساتھ اختلاط و اتفاق ناممکن ہے۔ ایرانی عوام اس گناہ عظیم سے بری ہیں‘‘۔
(۱۹۶۴ میں کی گئی گرفتاریوں کی مناسبت سے امام خمینی کے پیغام سے اقتباس)
’’پوری دنیا اس بات کو جان لے کہ ایرانی عوام اور بقیہ شعوب اسلامیہ کے تمام مصائب کی ذمہ داری اجنبی استعماری طاقتیں اور خاص کر امریکہ ہے۔ اور شعوب اسلامیہ عموما تمام اجانب سے اور خصوصا امریکہ سے سخت ناراض ہیں۔ اسلامی حکومتوں کی سب سے بڑی بدبختی یہی ہے کہ اجنبی ان کے حالات میں اور ان کے مقدرات میں مداخلت کرتے ہیں اور یہی لوگ اسلامی ممالک کی بے پناہ ثروت کر لوٹ رہے ہیں‘‘۔ ۔۔۔
’’یہ صرف امریکہ ہے جو صہیونی و غاصب اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔۔۔ یہی ہے کہ جو اسباب بقاء مہیا کر کے اسرائیل کی مدد کر رہا ہے اور مسلمان عربوں کو ان کے وطن سے ملک بدر کر رہا ہے‘‘۔
’’یہ وہی امریکہ ہے جو اسلام کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتا ہے اسی لیے اس کے نابود کرنے کی فکر میں ہے۔۔۔۔ علمائے اسلام کو اپنے استعمار کے راستے کا روڑا سمجھتا ہے اسی لیے ان پر ہر قسم کے ظلم و ستم کرتا ہے‘‘۔
(جمادی الاخریٰ ۱۳۸۴ میں قانون اور امریکی پبلک کی حفاظت میں قانون بنانے کی مناسبت سے آپ کا پیغام سے اقتباس)

’’غاصب اسرائیل کی حکومت کے قیام میں اسلام اور اسلامی حکومتوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور جس چیز کا مزید خطرہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر مسلمان اس غاصب نظام کا پیچھا چھوڑ دیں اور اپنے ہاتھوں سے موقع گنوادیں تو اس کے بعد مسلمان پھر کچھ نہ کر سکیں گے اور چونکہ اسلام پر خطرہ ابھی منڈلا رہا ہے۔ اس لیے تمام مسلمانوں پر عموما اور اسلامی حکومتوں پر خصوصا واجب ہے کہ فساد کے جرثومہ کو ختم کر دیں، چاہے جس طرح ممکن ہو اس سلسلے میں کام کرنے والوں کی مدد میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ برتیں۔ اس مقصد کے لیے زکاۃ و تمام صدقات کا صرف کرنا جائز ہے ۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو مسلمانوں کی نظر میں اہمیت دے‘‘۔
(۳ ربیع الاخر، ۱۳۸۸ھ، ۱۹۶۸ء کو ایک خط کے جواب سے اقتباس)

 

 

امام خمینی (رہ) اور صہیونیت کا مقابلہ

  • ۳۸۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امام خمینی کے فکری ادب میں ، لفظ "اسرائیل" کئی بار دہرایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ امام خمینی اسلامی انقلاب کے بنیادی مسائل جیسے ملک میں اسلامی حکومت کی تشکیل، علم و صنعت میں ترقی اور قوموں کی آزادی اور ان کے دفاع کے لیے ایک طاقتور فوج کی تشکیل، ان تمام مسائل کو اسرائیل کی نابودی سے متعلق جانتے تھے اور متعدد بار اپنے بیانات میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛
مثال کے طور پر ، عالمی یوم القدس کا اعلان کرتے ہوئے آپ نے فرماتے ہیں: " میں برسوں سے مسلمانوں کو فلسطین پر اسرائیل کے قبضہ کرنے کے خطرے سے خبردار کرتا آ رہا ہوں۔" میں دنیا بھر کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہو جائیں ... ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل انسانیت کا دشمن ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل کو لازمی طور پر صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیے۔  
آپ نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن مجید نے مسلمانوں کو دشمنوں کے خلاف لڑنے کا حکم دیا ہے، اور اسرائیل عرصے سے مسلمانوں کے مقابلے میں کھڑا ہے اور ان سے برسر پیکار ہے۔ اسی طرح امریکہ بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ لہذا قدس کو آزاد کروانا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ (۱)
حضرت امام خمینی امت اسلام کی وحدت کو ایک درینہ آرزو کے عنوان سے جانتے اور امت مسلمہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ غاصب اسرائیل کو فلسطین سے نکال باہر کرنے کے لیے ایران کا ساتھ دیں۔ آپ نے فرمایا: ہم نے اپنے دفاع کے لیے کہ جو ایک الہی تکلیف اور واجب امر ہے قیام کیا ہے اور ہم کسی دوسرے ملک پر تجاوز کا ارادہ نہیں رکھتے ہم اسلامی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سب ایک ساتھ کھڑے ہوں تاکہ مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے لیے غاصب اسرائیل کے جرائم کا مقابلے کرنے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کر سکیں۔ (۲)
صہیونی ریاست کے خلاف امام کا ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی مؤقف آپ کی وہ تقریر ہے جو جیل سے رہائی کے بعد آپ نے مسجد اعظم میں کی آپ نے فرمایا: اے قوم، ہمارے مذہب کا تقاضا ہے کہ ہم دشمنان اسلام سے متفق نہ ہوں ، ہمارے قرآن کا تقاضا ہے کہ ہم مسلمانوں کے دشمنوں کی صف میں کھڑے نہ ہوں۔ ہماری قوم شاہ کے اسرائیل کے ساتھ اتحاد کی مخالف ہے۔ (۳)
اس کے ساتھ ساتھ، امام یہودیوں کو صیہونیوں سے بالکل الگ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں: یہودی صیہونیوں سے الگ الگ حساب کتاب رکھتے ہیں۔ اگر مسلمان صہیونیوں کو شکست دیتے ہیں تو یہودیوں سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہو گا۔  وہ دوسری قوموں کی طرح ایک قوم ہیں، انہیں بھی زندگی کرنے کا حق ہے اور کوئی ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔ (۴)
امام خمینی کے مؤقف اور بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونزم کے خلاف ان کی جدوجہد کا آغاز ایک واحد معیار یعنی قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہوا،  جس نے اس کے حصول کے لئے اہداف اور ذرائع کو طے کیا۔ اس طرح ، امام خمینی اسرائیل اور امریکہ کی تباہی کے لیے جد و جہد کو، یا کم سے کم اسلامی امت کے اوپر سے امریکی تسلط کو ختم کرنے کو، انقلابی تحریک کا عروج اور اتحاد امت کا سبب سمجھتے ہیں ، اور اگر یہ جدوجہد ایسے اتحاد کا سبب بنے تو  اسرائیل اور امریکہ کا خاتمہ امت مسلمہ کی کامیابی ہو گی . (۵)
حواشی
[1]. صحیفه امام، ج 5، ص 186ـ187.
[2]. صحیفه امام، ج 16، ص 46ـ48.
[3]. صحیفه امام، ج 1، ص 77
http://yun.ir/pha9d3
[4]. صحیفه امام، ج 11، ص 3ـ4.
[5]. http://yun.ir/9m6yv2