-
Tuesday, 9 June 2020، 02:42 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مورخہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ع کو مشکوک اور متنازعہ حملوں میں نیویارک کی جڑواں عمارتیں زمین بوس ہوئیں تو وقت کے امریکی صدر جارج بش نے تو صلیبی جنگوں کے نئے آغاز کا تذکرہ کیا اور امریکی و یورپی ذرائع نے US under attack اور Why the muslims hate us جیسے عناوین سے مسلمانوں کے خلاف دل کھول کر زہرافشانی کی جبکہ بہت سے مسلم ممالک کے ذرائع نے بھی ان کا ساتھ دیا لیکن جو بات کبھی بھی مغربی ذرائع ابلاغ میں دیکھنے کو نہ ملی وہ یہ ہے کہ “امریکہ سمیت مغربی ممالک اسلامی ممالک سے نفرت کیوں کرتے ہیں” اور اب یہ بات بھی ایک امریکی دانشور “نوآم چامسکی” کے زبانی سننے کو ملی ہے کہ “امریکہ ایران سے کیوں نفرت کرتا ہے؟” انھوں نے خود ہی سوال اٹھایا ہے اور خود ہی اس کا جواب دیا ہے۔
نوآم چامسکی امریکی پروفیسر، ماہر لسانیات، نظریہ پرداز اور مفکر ہیں جنہوں نے ایک مکالمے کے دوران کہا ہے کہ ۱۹۷۹عکے انقلاب کے بعد استقلال اور خودمختاری کی طرف حرکت شروع کی چنانچہ امریکہ کے سیاستدان تہران سے نفرت کرنے لگے اور اس نفرت میں مسلسل شدت آرہی ہے۔
انھوں نے ایران پر مغربی ممالک کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ “مغربی ایشیا کے قدامت پسند ترین اور رجعت پسند ترین ممالک وہ ہیں جن کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ انھوں نے بطور نمونہ حجاز پر مسلط بنی سعود کی حکومت اور عرب امارات پر مسلط بنی نہیان کی حکومتوں کا تذکرہ کیا ہے جو امریکہ کی حمایت سے بہرہ ور ہیں۔
۹۰ سالہ چامسکی، جو ایم آئی ٹی اور ایریزونا یونیورسٹی کے سبکدوش پروفیسر ہیں جو “جدید لسانیات کے باپ The Father of Modern Linguistics” اور علمِ ادراکیات (cognitive science) کے بانی کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ وہ عصر حاضر کے عظیم ترین بقید حیات مغربی دانشور مانے جاتے ہیں۔
انھوں نے ۷ اگست ۲۰۱۸عکو ایریزونا یونیورسٹی میں اپنے دفتر میں ایک انٹرویو دیا ہے جو کل بروز جمعہ ۲۴ اگست کو شائع ہوا۔ انھوں نے اس مکالمے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مختلف مسائل کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔
پوچھا گیا ہے کہ اگر ۲۰۲۰عکے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ جماعت کے سیاستدان امریکی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب ہوجائیں تو کیا ان کا موقف ایران کے خلاف کچھ نرم ہوگا؟ اور انھوں نے کہا: “یہ پیشنگوئی کرنا حقیقتا بہت مشکل ہے”۔
• رجعت پسند ترین ممالک امریکہ کے حلیف
انھوں نے کہا: میرا مقصد یہ کہنا ہے کہ ایران سے نفرت کی جڑیں جدید امریکہ کی ثقافت میں بہت گہری ہیں اور ایران سے نفرت کی جڑوں کا اکھاڑ پھینکنا بہت دشوار ہے۔
انھوں نے ایران کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کے سلسلے میں شائع ہونے والے نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون اور اس کی بنیاد پر امریکی سیاسی حلقوں میں ایران کے سلسلے میں جڑ پکڑنے والے تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس مضمون میں بیان ہوا ہے کہ ٹرمپ سوچتے ہیں کہ پابندیاں دوبارہ لگائی جائیں تو ایران میں اسلحے کی تیاری کا سلسلہ رک جائے گا، ملک کے اندر نام نہاد جبر اور سرکوبی کا خاتمہ ہوگا اور مشرق وسطی میں ایران کی مداخلت میں کمی آئے گی۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ٹرمپ کی سوچ یہی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ان کی سوچ نہیں ہے؛ پوچھتا ہوں کہ کیا اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس میں ذرہ برابر حقیقت بھی نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرق وسطی کے رجعت پسند ترین اور قدامت پسند ترین ممالک وہ ہیں جن کی ہم [امریکی] حمایت کررہے ہیں۔
چامسکی کا کہنا تھا کہ اگر ایران کا سعودی عرب سے موازنہ کرایا جائے تو ایران کی جمہوری سطح ناروے کے برابر ہے۔ مشرق وسطی میں تشدد کے لحاظ سے بھی سعودی عرب اور امارات کے اقدامات ـ جن کی ہم حمایت کررہے ہیں ـ ہر چیز سے بدتر ہیں۔
• ایران سے نفرت کی جڑ
پوچھا گیا کہ امریکہ کے عالم سیاست کے دانشور و سیاستدان ایران سے نفرت کیوں کرتے ہیں، اور ان کی نفرت کی جڑ کہاں پیوست ہے؟ تو انھوں نے کہا: اس کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ سنہ ۱۹۷۹عمیں ایران نے [انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کرکے] استقلال اور خودمختاری کی سمت قدم بڑھایا؛ اور اس سے بڑھ کر ایرانیوں نے ایک مطلق العنان حکمران ـ جسے امریکہ نے متعین کیا تھا اور امریکی مفادات کی اساس پر اس ملک پر حکمرانی کررہا تھا ـ تخت شہنشاہی سے اتار پھینکا؛ اور ہمارے سیاستدان اور سیاست کے بارے میں سوچنے، بولنے اور لکھنے والے کبھی بھی اس واقعے کے نہیں بھولیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فورا بعد امریکہ نے ایران پر عراق کے حملے کی حمایت کی جبکہ عراق کا حملہ تباہ کن تھا۔ ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کی امریکی حمایت ایسے حال میں جاری رہی کہ عراق نے وسیع سطح پر کیمیاوی اسلحہ استعمال کیا اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کے اسباب فراہم کئے۔
انھوں نے کہا: عراق ایران کے خلاف کیمیاوی اسلحہ استعمال کررہا تھا اور لاکھوں انسان کو قتل کررہا تھا لیکن امریکہ نے جنگ کے پورے عرصے میں عراق کے ان اقدامات کی حمایت جاری رکھی۔
جُغرافیائی تَدبیر
• ڈونلڈ ٹرمپ چامسکی کی نظر میں
چامسکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور پالیسیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: جیسا کہ آپ جانتے ہیں ٹرمپ امریکہ کے سابقہ سیاسی معیاروں کے دائرے سے خارج ہیں؛ وہ جغرافیائی تزویرانی مسائل (geostrategic issues) کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کیا کررہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں؛ اگر دنیا کی معیشت درہم برہم ہوجائے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر وہ نیٹو کو ختم کریں تو ان کے خیال میں اس کی کیا اہمیت ہے؟
نوآم چامسکی نے کہا: وہ واحد شیئے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے اہم ہے، وہ ان کی اپنی ذات ہے اور جو کام بھی انجام دیتا ہے اس کو اس تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ “وہ ایک نرگسیت (Narcissism) میں مبتلا اور اپنی ذات سے محبت کا شکار، متکبر اور گھَمَنڈی شخص ہیں اور جو کام بھی انجام دیتے ہیں، خود ہی نمایاں رہنے کے قائل ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://fna.ir/boch26