اسرائیل کے تحفظ کا بہانہ اور امام خامنہ ای کا تجزیہ

  • ۴۴۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، امریکی حکام کے پاس صہیونی ریاست کے جرائم سے چشم پوشی کے لیے ہمیشہ سے یہ بہانہ رہا ہے کہ صہیونی ریاست اپنی بہیمانہ جنگی کاروائیوں کے ذریعے اپنے جعلی وجود کو تحفظ دیتی ہے۔ اگرچہ اس جعلی ریاست کا مشرقی وسطیٰ میں کوئی مقام نہیں ہے لیکن صہیونی کسی بھی صورت میں اس چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے متعدد بار اپنے بیانات میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے اور اس پر تجزیہ و تحلیل کیا ہے۔ آپ نے ۳۱ اگست ۲۰۱۴ کو اپنی تقریر میں فرمایا: امریکی حکمرانوں کے نزدیک اسرائیل کا تحفظ بنیادی مسئلہ نہیں ہے، ان کے نزدیک بنیادی مسئلہ کچھ اور ہے۔ ان حکمرانوں کے نزدیک بنیادی مسئلہ، اس صہیونی سرمایہ دار چینل کو راضی رکھنا ہے جس کے ہاتھ میں انکی رگ حیات ہے۔ ان کی مشکل یہ ہے ورنہ اسرائیل ہو نہ ہو، انہیں اس سے کیا مطلب ہے؟ جو چیز ان کے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ ان کی رگ حیات صہیونی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے، جو انہیں رشوت دیتے ہیں، انہیں دھمکیاں دیتے ہیں، پیسے کی رشوت؛ یہودی انہیں پیسہ دیتے ہیں اور وہ ان سے پیسے لیتے ہیں۔ مقام کی رشوت؛ انہیں مقام کا وعدہ دیتے ہیں اور اگر وہ ان افراد کے ساتھ ساز باز نہ کریں جن کے ہاتھوں میں امریکی معیشت کی نبض ہے تو وہ اونچی پوسٹوں جیسے صدارت جیسے وزارت وغیرہ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے یہ مسئلہ ہے۔ انہیں دھمکیاں بھی دیتے ہیں، اگر چنانچہ یہ اس خطرناک چینل کے رجحان کے برخلاف کوئی اقدام کریں تو انہیں دھمکایا جاتا ہے، انہیں یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ ہم آپ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کریں گے یا آپ کے لیے ذلت و رسوائی کا سامان فراہم کریں گے!۔ آپ نے امریکہ کے زندگی میں ان چیزوں کو حالیہ برسوں مشاہدہ کیا ہے۔ کسی پر تہمت لگاتے ہیں، کسی کو بدنام کرتے ہیں، کسی کے لیے جنسی اسکینڈل کا قصہ بناتے ہیں، کسی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرتے ہیں، کسی پر قاتلانہ حملہ کرتے ہیں، ان سب کاموں کے لیے ان کے ہاتھ کھلے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسئلہ اسرائیل کے تحفظ کا نہیں ہے مسئلہ خود ان کے اپنی سلامتی ہے۔

بنی سعود اور ابلاغیات کے شعبے میں سامراج کی اداکاری

  • ۴۴۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حال ہی میں سعودی خاندان بےتحاشا پیسہ لٹا کر ایک شب و روز چلنے والے فارسی چینل کی بنیاد رکھنے کے درپے ہے جس کے لئے اس نے تجربہ کار برطانوی ادارے :دی انڈیپنڈنٹ” کے ساتھ معاہدہ بھی کرلیا ہے۔
اس سودے کے مطابق، بنی سعود، انڈیپنڈنٹ کو ضروری مواد فراہم کریں گے اور خود بھی اس نام کو استعمال کریں گے۔
سعودیوں کو فارسی چینل کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی، برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور سعودی فارسی ابلاغیاتی اور فرقہ وارانہ چینلز کی کوئی کمی نہیں ہے جو اگر ایرانو فوبیا کی مہم میں کامیاب ہوتے تو شاید بنی سعود کو مزید کوئی چینل کھولنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن اب وہ مغرب کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانو فوبیا کے موضوع پر مزید توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ بنی سعود کے پاس پہلے سے العربیہ چینل بھی ہے جس کے آغاز میں ہی انہیں توقع تھی کہ ایرانی بھی اس چینل کا خیر مقدم کریں گے لیکن ان کی یہ توقع بھی پوری نہیں ہوسکی جس کے بعد انھوں نے نئے چینلز کی تاسیس کو مطمع نظر بنایا۔
اب سعودی پیسے کے زور سے انڈیپنڈنٹ جیسے مقبول برانڈ کے ذریعے اپنی بات ایرانیوں اور فارسی زبانوں کے دل میں اتارنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی عزت رفتہ ان کی سرمایہ کاری پر اثر انداز نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوزے سے وہی ٹپکے گا جو اس کے اندر ہے اور کوزے کے برانڈ سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، وہابیت زدہ سعودی مخیلے سے ایسی کونسی بات صادر ہوسکتی ہے جو کسی دل پر اثر کر سکے۔
چینل کا اصل سرمایہ کار، سعودی تحقیقات و بازارکاری گروپ (Saudi Research and Marketing Group [SRMG]) ہے جو سعودی دربار سے وابستہ ہے اور اس کے سربراہ کے محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ایس آر ایم جی اور انڈیپنڈنٹ کے باہمی مفاہمت نامے کے مطابق انڈیپنڈنٹ اپنی ویب گاہ میں “عربی (Independent Arabia)، فارسی (Independent Persian)، اردو (Independent Urdu) اور ترکی (Independent Turkish )” کے چار پیجز کا اضافہ کرے گا۔
ایس آر ایم جی کیا ہے؟
سعودی تحقیقات و بازارکاری گروپ در حقیقت عربی کتب کی اشاعت کے شعبے میں سرگرم عمل ہے؛ عرب دنیا کے عربی اور انگریزی اخبارات ـ منجملہ الشرق الاوسط، الاقتصادیہ، عرب نیوز” اور “ہِیَ، المجلۃ، سیّدتی، اور الرجل” ـ کا تعلق بھی اسی عظیم ابلاغی گروپ سے ہے۔
انڈیپنڈنٹ کے ساتھ معاہدے سے ایس آر ایم جی کا مقصد علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے واقعات کی خبروں اور تجزیوں، کالمز، مضآمین اور رپورٹوں کی اشاعت ہے جنہیں انگریزی میں لکھا جائے گا اور ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔ یعنی یہ کہ منصوبہ، فکر اور قلم انگریزوں ہوگا اور۔۔۔؛ اور ہاں سعودیوں کا ایک خفیہ مقصد یہ بھی ہے کہ یہ ذریعہ ابلاغ ایک ابلاغی اسلحہ ہوگا جس کے ذریعے سے بنی سعود علاقے میں اپنے بحران خیز اور مصیبت آفرین منصوبوں، اقدامات اور رویوں کا جواز بھی فراہم کریں گے۔
ایس آر ایم جی انڈیپنڈنٹ کی مدد سے عربوں کے لئے عرب انڈیپنڈنٹ، ایرانیوں کے لئے فارسی انڈیپنڈنٹ، ترکوں کے لئے ترک انڈیپنڈنٹ اور پاکستانیوں کے لئے اردو انڈیپنڈنٹ پر تشہیری مہم چلانا چاہتی ہے۔ وہ عربی، فارسی، ترکی اور اردو بولنے والے ممالک پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔
یہ ابلاغیاتی منصوبہ ۲۰۱۸ سے اپنا کام شروع کرے گا حالانکہ انگریزی سعودی ابلاغیاتی مفاہمت نامہ تازہ ہی آشکار ہوچکا ہے لیکن بنی سعود عرصہ دراز سے اس کے لئے لابیاں تلاش کررہے تھے۔
ایس آر ایم جی میڈیا گروپ کے سربراہ غسان بن عبدالرحمن الشبل، کے حکمران قبیلے سے قریبی تعلقات ہیں، اس کے کئی رسائل و جرائد ہیں جن میں وہ بنی سعود کی تقویت کے لئے کام کررہے ہیں۔ چار نئی ویب گاہوں میں شائع ہونے والے متون کی تیاری انڈیپنڈنٹ کے معیار کے مطابق ہوگی اور ان چار زبانوں کے نامہ نگار لندن، اسلام آباد، استنبول اور نیویارک میں تعینات ہونگے۔
انگریزوں کو تشویش ہے!
اگرچہ انگریزی قوانین کے تحت ابلاغی اداروں اور تحقیقاتی مراکز کے درمیان معاہدوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن بہت سے انگریز اس معاہدے کے انعقاد کو بیان کی آزادی، شہری اور سماجی حقوق کے برطانوی معیاروں کے مطابق نہیں سمجھتے اور ان کے خیال میں اس قسم کے معاہدوں کی وجہ سے خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کے تنگ نظرانہ افکار اور بنی سعود کے توسیع پسندانہ مفادات پر مبنی سوچ برطانیہ کے مقبول ابلاغی اداروں کے عنوان کے تحت ان ہی اداروں کے بین الاقوامی مداحوں کو شدید فکری نقصان پہنچائے گی اور طویل عرصے میں یہ ادارے غیر معتبر ہوجائیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ بلومبرگ کمپنی نے ۲۰۱۷ میں ایس آر ایم جی کی طرف سے متون کی فراہمی کی شرط پر اپنی ویب سائٹ پر عربی پیج کھولا اور اسے شدید نکتہ چینیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انڈیپنڈنٹ کو بلومبرگ کی نسبت بہت زیادہ وسیع سطح پر پڑھا جاتا ہے چنانچہ یہ اخبار مختلف ممالک کے افکار کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کا سماجی سرمایہ کچھ عرصے میں مخدوش ہوکر رہ جائے گا۔
ذرائع ابلاغ کی آزادی کا دشمن بنی سعود قبیلہ ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری کیوں کررہا ہے؟
بنی سعودی کے لئے اس قسم کی سرمایہ کاری کے کئی اسباب ہیں:
۱۔ سعودی عرب کو اپنی مخدوش حیثیت بحال کرنے کے لئے رائے عامہ کو سمت دینے کی ضرورت ہے
ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری اور بلومبرگ اور انڈیپنڈنٹ جیسے اداروں کے ساتھ معاہدوں سے آل سعود کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ بنی سعود نے اپنی غلط اور ناپختہ پالیسیاں اپنا کر، اور اندرونی استبدادی پالیسیوں کو سرحدوں سے باہر نافذ کرنے کی کوشش کرکے اپنی حیثیت کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں اور اقوام عالم میں زبردست بدنامی کما چکے ہیں چنانچہ اب وہ اپنی حیثیت بحال کرنے کے لئے ابلاغیات کا سہارا لینے کے چکر میں ہیں جبکہ ابلاغیات کے لئے جو مواد فراہم کیا جائے گا اس کی بنیاد سعودی استبدادی سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بایں ہمہ بنی سعود کی کوشش یہ ہے کہ ۲۰۳۰ سعودی منصوبے جیسی دستاویزات کی رو سے سعودی حکومت کا بالکل نیا اور مرمت شدہ چہرہ دنیا والوں کو دکھایا جائے۔ ان کے کام متشددانہ، تنگ نظرانہ، کالے اور مخدوش ہیں، اقدامات پہلے کی طرح خونی ہیں لیکن ظاہری چہرہ کچھ اور دکھانا چاہتے ہیں! یہ الگ بات ہے کہ کیا وہ اس تضاد بھری پالیسی میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟
۲۔ الجزیرہ جیسے دیوقامت ذرائع ابلاغ کا مقابلہ
بنی سعود نے اس سے قبل العربیہ، اور ایم بی سی کے عنوان سے متعدد چینلوں اور فرقہ وارانہ اور وہابیت کے پرچارک چینلوں کا سہارا لیا تا کہ الجزیرہ وغیرہ کو شکست دے کر عرب دنیا میں ان کی جگہ لے سکے لیکن کامیاب نہ ہوسکے چنانچہ انھوں نے اپنے بانی مبانی ملک برطانیہ کے ذرائع ابلاغ نیز بلومبرگ کے ساتھ معاہدے منعقد کئے۔ الجزیرہ نیٹ ورک قطر کے ہاتھ میں ہے اور حالیہ تین سالہ سعودی ـ قطری تنازعے کی ایک بنیاد یہی نیٹ ورک ہے۔ الجزیرہ عرب دنیا میں اخوانیت کا پرچار کرتا ہے اور دین و سماج کی ایک ایسی تصویر پیش کررہا ہے جو بنی سعود کے دینی اور سماجی تصور سے بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ سعودی چاہتے ہیں کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے ساتھ معاہدے کرکے اس نیٹ ورک کو دیوار سے لگا دے۔
۳۔ علاقائی صورت حال پر اثر انداز ہونے کی کوشش
بنی سعود نے گذشتہ ۸ برسوں میں کھربوں ڈالر خرچ کرکے علاقے کو اپنی اطاعتگزاری پر آمادہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اسے اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کے لئے کم از کم تین ملکوں کو ویران کرنا پڑا ہے: لیبیا، شام اور یمن؛ لیکن اب وہ ایسے ذرائع ابلاغ کی تلاش میں ہے جن کے ذریعے وہ علاقے کے حالات پر اثرانداز ہونے اور صورت حال کی تبدیلی کا سد باب کرنے کی کوشش کریں گے۔ تبدیلیوں سے یہاں مراد وہ سعودی خواہش ہے جس کے تحت وہ علاقے کے عوام کو اپنے ساتھ ملا کر، امریکی خواہش ـ یعنی تبدیلیاں لا کر نئے مشرق وسطی کی تشکیل ـ سے فائدہ اٹھا کر، علاقائی ممالک کی حکومتوں کو سعودی شہزادوں کی مرضی کے مطابق، تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایران، عراق، شام، ترکی، قطر، عمان سمیت خلیجی ریاستوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان ممالک کی نبض کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں، اسلامی بیداری کا سدباب کرنا چاہتے ہیں اور بحرین، نجد و حجاز، امارات اور مصر میں اسلامی بیداری کے ذریعے نئی تبدیلیوں کا انسداد اور ان ممالک اور ریاستوں میں موجود استبدادیت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔
منبع: https://www.farsnews.com/news/13970502001288
بقلم: صدیقہ احمدی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

“یہودی آخر الزمان” اور معاصر سینما

  • ۵۰۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج سینما کا کردار ایک مقبول ذریعۂ ابلاغ کے طور پر عوام کی زندگی میں بہت اہم ہے کیونکہ لوگ اسے تفریح کے لئے دیکھتے ہیں لیکن انجانے میں اس سے اثر لیتے ہیں۔ سینما نے جاذب اور دلچسپ ہونے کے ناطے عالمی معاشروں کے رویوں، طرز زندگی اور حتی کہ سیاسی، معاشی اور ثقافتی رویوں اور افکار کو متاثر کردیا ہے۔ اسی بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ مغرب اور ہالیووڈ نے کس طرح اقوام کے طرز زندگی کو بدل ڈالا ہے اور انسانی معاشروں کو سیکولرزم اور لبرل معاشرے کی طرف پہنچا دیا ہے۔ (۱)
دلچسپ امر یہ ہے کہ مغربی سینما بالخصوص ہالی ووڈ نے ابتداء ہی سے یہودیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ “نیل گیبلر” اگرچہ اپنی مشہور کتاب “ان کی اپنی سلطنت” (۲) (یا ہالیووڈ کی سلطنت) میں سینما انڈسٹریز کی تخلیق کو تھامس ایڈیسن (۳) اور ان کے رفقائے کار سے منسوب کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے مہاجر یہودی ہی تھے جنہوں نے اس صنعت کو اپنے قبضے میں لیا اور اس کو اپنی مرضی سے بدل ڈالا۔ “یونیورسل پکچرز” (۴) “پیراماؤنٹ پکچرز”، (۵) “وارنر برادرز” (۶) “نیوز کارپوریشن” (۷) “ٹوینٹی فرسٹ سنچری فوکس” (۸) اور بہت سی دوسری فلم ساز کمپنیاں یہودی ہیں۔
سینمائی صنعت کے یہودیوں کے صہیونیت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور ہیں۔ (۹) اس دعوے کے اثبات کے لئے اس سینما اور متعلقہ کمپنیوں اور فلمسازوں کے افسانوی کرداروں نیز “اعلی نسل”، “مادر وطن”، “برگزیدہ قوم” وغیرہ جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ (۱۰) حقیقت یہ ہے کہ یہ سینما “ہالوکاسٹ”، (۱۱) “حضرت موسی(ع) کی زندگی” جیسی فلموں اور “مرغی کا فرار” (۱۲)انیمیشن فلموں کے ذریعے صہیونیت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صہیونیت کے مقاصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے۔ (۱۳)
چنانچہ آخرالزمان، یا اختتام دنیا (۱۴) پر اس سینما کی خاص توجہ یہودی صہیونیت کے افکار کے زیر اثر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرالزمانی یا صہیونی تصور کی جڑیں صہیونی عیسائیت کی دینیات، پالیسیوں اور مختلف قسم کے اہداف و مقاصد میں پیوست ہے کیونکہ یہودیوں نے تاریخ کے مختلف مراحل میں عیسائیت کو مسابقت کے میدان سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی اور اسے منحرف کرکے مختلف فرقوں میں بانٹ دیا۔ اس تفرقے اور تحریف سے “صہیونی عیسائیت” نامی ناجائز اولاد نے جنم لیا جس کے مقاصد، اہداف اور عقائد اختتام دنیا پر اس کی نگاہ، وہی یہودی اور صہیونی نگاہ ہے۔ (۱۵)
البتہ اس حقیقت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ یہودیوں کا آخرالزمانی سینما “دانیایل [دانیال] نبی”، “یرمیاہ نبی” اور “حزقی ایل” کی کتابوں اور “دانی ایل (یا دانیال) کے مکاشفات” سے ماخوذ ہے۔ ان کاوشوں میں آخرالزمان کے مفاہیم علامتی سانچوں میں ڈھالے جاتے ہیں، لہذا ان کی تشریح اور تاویل کی جاسکتی ہے اسی بنا پر آخرالزمان سے متعلق مختلف فلموں میں مختلف قسم کے مثبت اور منفی افسانوی کردار یونانی، مصری، رومی، عیسائی (وغیرہ) ثقافتوں سے لئے جاتے ہیں۔

ہیروسازی، نجات دہندہ کا اعتقاد، نہایت طاقتور شیطانی قوتیں، جارحین کے خلاف تشدد اور عسکریت پسندی کی ضرورت، نیز ملک اور سرزمین پر شیطان اور شر کی قوتوں کا قبضہ صہیونیوں کی آخرالزمانی فلموں کے بنیادی عناصر ہیں۔ ان فلموں میں مختلف نام اور پیغامات صہیونی مقاصد اور اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرفلم “میٹرکس” (۱۶) میں ہم دیکھتے ہیں کہ سایون (۱۷) نامی شہر کے باشندے ـ یعنی صہیونی ـ ہی دنیا بھر کے جنگجو ہیں جو میٹرکس نامی شریر اور بہت طاقتور کمپیوٹر کے خلاف لڑتے ہیں۔
لیکن اس قسم کی فلموں میں جن عناصر کو بروئے کار لایا جاتا ہے وہ خفیہ فرقوں، شیطان، اور شیطان پرستی سے عبارت ہیں جو یہودی علم باطن یا قبالہ (۱۸) کے ساتھ براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر پانچ حصوں پر مشتمل فلم “منحوس طالع” (۱۹) اور سلسلہ وار فلم “جن نکالنے والا” (۲۰) ان فلموں میں شامل ہیں جو انسانی زندگی پر شیطان کے براہ راست تسلط کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ نیز فلم سیریز “ہیری پوٹر”(۲۱) میں بھی ـ گوکہ بالواسطہ طور پر جادو کے سانچے میں، جہاں “لارڈ وولڈیمورٹ” (۲۲) نامی شیطان کا کردار سامنے آتا ہے ـ اسی موضوع کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ (۲۳)
اسی اثناء میں اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی بھی مختلف مدارج و مراتب میں، ان آخرالزمانی فلموں میں بطور، مد نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ موضوع بھی قبالہ مکتب (یہودی علم باطن یا تصوف) کی خاص قسم کی شیطان شناسی، کے تصور اور آخرالزمانی سینما کو حاصلہ صہیونی حمایت سے جنم لیتا ہے۔ (۲۴) فلم “وش ماسٹر” (۲۵) میں شیطان ایک مجسمے کے ساتھ ایران سے امریکہ آتا ہے، فلم “جن نکالنے والا” سیریز میں شیطان سرزمین نینوا میں ملتا ہے۔ “ورلڈ وار زیڈ” (۲۶)میں مسلم زومبی ہیں جو دیوار فاصل سے گذر کر یہودیوں کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں؛ وغیرہ وغیرہ۔
آخر میں کہنا پڑتا ہے کہ بین الاقوامی صہیونیت کے اندر ایک قاعدہ ہے کہ جو نسل، جماعت یا ملک اس کا مخالف ہو، وہ اس کو براہ راست یا بطور اشارہ اسے آخرالزمان کے واقعات سے جوڑ کر اسے شر یا بدی کی قوت قرار دیتی ہے۔ مثال کے طور پر “ممی۱” (۲۷) اور “ممی۳” (۲۸)مصری اور چینی اور فلم “ہیل بوائے” (۲۹) میں جرمن باشندے شر کی قوت ہیں؛ اور مختلف ممالک اور اقوام اور تہذیبوں کو اپنی فلموں کا موضوع بنانے کا ایک مقصد دنیا والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا اور لوگوں کی تنوع پسندی کا جواب دینا بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: میلاد پورعسکر
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ فصلنامه سیاحت غرب، ارتباطات و رسانه ها: قدرت مالکیت رسانه ها، مرداد۱۳۸۵، شماره ۳۷، ص۴۷-۳۴٫۔
۲۔ گابلر، نیل، (Neal Gabler) امپراتوری هالیوود،(An Empire of Their Own) ترجمه: الهام شوشتری زاده، چاپ اول:۱۳۹۰، تهران، سایان.
۳۔ Thomas Alva Edison
۴۔ Universal Pictures
۵۔ Paramount Pictures
۶۔Warner Brothers
۷۔ News Corporation
۸۔ ۲۱st Century Fox
۹۔ فصلنامه راهبرد، ارتباط هویتی میانیهود و صهیونیسم، پاییز۸۵، شماره ۴۱(ISC)، ص۳۷۵-۴۱۲٫۔
۱۰۔http://jscenter.ir/jews-and-the-media/jews-and-hollywood/5886
۱۱۔ Holocaust
۱۲۔ Chicken Run
۱۳۔https://mouood.org/component/k2/item/630
http://zionism.pchi.ir/show.php?page=contents&id=20152.
۱۴۔ End of the world
۱۵۔http://old.aviny.com/occasion/jang-narm/masihyat/sayhonisti2.aspx.
دین در سینمای شرق و غرب ، محمد حسین فرج نژاد، محمد سعید قشقایی، چاپ اول ۱۳۹۶، قم، اداره کل پژوهش های رسانه ای، ص۱۷۷٫۔
۱۶۔ The Matrix
۱۷۔ Zion
۱۸۔ Kabbalah
۱۹۔ The Omen
۲۰۔ The Exorcist
۲۱۔ Harry Potter
۲۲۔ Lord Voldemort
۲۳- دین در سینمای شرق و غرب، ص۱۷۸٫
۲۴- فصلنامه سیاحت غرب، اسلام هراسی: چگونگی گنجاندن تعصب اسلام ستیزانه در جریان غالب آمریکا، بهمن۹۱، سال دهم، شماره۱۱۴، ص۶۶-۴۰٫۔
۲۵۔ Wishmaster
۲۶۔ World War Z
۲۷۔ The Mummy (1999)
۲۸۔ The Mummy: Tomb of the Dragon Emperor
۲۹۔ Hellboy

 

یوم القدس، ظلم کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ

  • ۴۵۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دنیا میں کتنے ایسے مظلوم ہیں کہ جن کی آه و پکار سننے والا کوئی نہیں ہے بلکہ سننا اور درد کی دوا کرنا تو کیا، اکثر لوگ اپنی فطرت اور ضمیر کے خلاف، الله اور شریعت کے احکام کی پرواه کئے بغیر ظالم کا ساتھ دیتے ہیں اور مظلوم کی مظلومیت کا درک و احساس رکھنے کی بجائے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بعض افراد، بعض دیگر افراد کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے اور ان سے خیانت کرتے ہیں۔ بعض خاندان بعض خاندانوں پر اور بعض ملتیں، ممالک اور نام نهاد ادارے بعض ملتوں اور ممالک پر ظلم کرتے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ایک مستقبل پر نگاه رکھنے والا رہبر و قائد اپنی شرعی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے، خدا کی بارگاه میں سرخرو ہونے کے لئے انبیاء کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مظلوم کی حمایت میں دنیا کو بیدار کرے اور ظالم کا مقابلہ اپنی دور اندیشی اور حکمت عملی سے کرے۔
یہی کام حضرت امام خمینی نے فلسطین کے مظلومین اور قبلہ اول کی آزادی کے لئے کیا اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو دعوت دی کہ وه ظالم سے نفرت کرتے ہوئے مظلوم کی آواز بنیں۔ مسلمان آپس میں متحد ہوں اور اسلام و قرآن کی دشمن طاقتوں کا راستہ روکیں۔ افسوس که امام خمینی کی آواز پر جس طرح اسلامی ممالک کے حکمران طبقہ کو کام کرنا چاہیئے تھا، ایسے نہ کیا بلکہ اکثر عرب ممالک نے تو اسرائیل کے اہداف اور مقاصد کو کامیاب کرنے کے لئے اپنے ممالک کا سرمایہ کو بھی استعمال کیا۔ جهادی گروپ اسلام و مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے تیار کئے، مسلمانوں ہی پر کفر کے فتوے لگانے شروع ہوئے اور مسلمانوں ہی کو آپس میں اتحاد کی بجائے مختلف گروہوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا گیا، جس کا نتیجہ آج امت مسلمہ کی زبون حالی کی شکل میں ہر شخص کے سامنے ہے۔
دراصل غور طلب بات یہ ہے کہ آج جو فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل ظلم کر رہا ہے، وہی ظلم النصره و داعش شام اور عراق کے مسلمانوں پر بھی کر رہی ہیں۔ یہ نام نهاد جہادی گروپ دراصل اسرائیل اور استعمار کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ القاعده، طالبان، لشکر جھنگوی، جندالله اور دیگر ناموں کے تمام لشکر جو پاکستان یا افغانستان میں بی گناه مسلمانوں کو سینکڑوں کی تعداد میں زندگی جیسی نعمت سے محروم کر دیتے ہیں، سب دشمن کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے وجود میں آئے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وه اپنے دفاع کے لئے ایک حکمت عملی تیار کریں، آپس میں اتحاد کرتے ہوئے آینده کے بارے میں منصوبہ بندی کریں اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے نام پر سرگرم تمام نام نهاد دہشت گرد اور تخریب کار تنظیموں سے بیزاری کا اعلان کریں۔ یہ تنظیمیں دراصل اسرائیلی مقاصد کو پورا کر رہی ہیں، ان کے شر کو بھی روکنے کے لئے ایک منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ یوم القدس کے مظاہروں میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے شرکت کریں، اپنے بچوں اور گھر والوں کو بھی اس لئے ساتھ لیکر آئیں، تاکہ ان میں ظلم کو سہنے کی بجائے ظلم کا مقابلہ اور اس سے نفرت کا جذبہ و احساس پیدا ہو۔
اسلام حقیقی اور مکتب اہلبیت کی دنیا میں ہر بیدار اور مظلوم شخص تک آواز پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام مدارس، تمام انجمنیں، تمام تنظیمیں کہ جن میں سرفہرست اسلامی تحریک پاکستان، شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین، آئی ایس او اور جے ایس او جیسی تنظیمیں ہیں، ان کو اپنے اپنے تشخص کے ساتھ متحد ہو کر ایک ہی آواز بن کر اس زمانہ میں اور ہماری آنے والی نسلوں پر جو ظلم کے منصوبے اور سازشیں بن رہی ہیں، سب کو ناکام کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ باقی بھی سب مسلمانوں کو جن میں بریلوی، اہلحدیث یا دیوبندی مسلک کی جو معتدل تنظیمیں ہیں، ان کو بھی ساتھ ملانا چاہیے اور ان کے ساتھ ملکر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ البتہ اس سے پہلے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار کرنا ضروری ہے، تاکہ کوئی بھی ہمارے درمیان اپنے مذموم مقاصد و اہداف کی خاطر نفرت و کدورت کی لکیر نہ کھینچ سکے۔ اس بات سے ہوشیار رہنا چاہیئے کہ جس طرح اسلامی تحریک کے ساتھ گلگت بلتستان میں خیانت اور سازش کی گئی ہے، دوباره ایسا کام نہ ہو۔ فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی میں بھی دشمن کی سازشوں کے ساتھ ساتھ خود مسلمانوں کی خاموشی اور سہل انگاری کا بہت بڑا کردار ہے۔ خدایا ہم سب مسلمانوں کو متحد ہو کر ظلم کے خلاف اپنی آواز کو بلند کرنے کی ہمت عطا فرما۔ آمین

 

عالمی یوم القدس کی اہمیت

  • ۳۶۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یوم قدس مختلف زاویوں سے اہمیت کا حامل ہے، منجملہ یہ کہ اس سے غاصب اسرائیلی حکومت کے ناجائز وجود کی عالمی سطح پر مخالفت ہوتی ہے۔ یہی یوم قدس صہیونی حکومت پر دباو کی علامت ہے ۔
فلسطین کے مسئلے کو قومی پہلو سے خارج کرنا اور اسکو عالمی اور اسلامی مسئلے میں تبدیل کرنا ایک اور مسئلہ ہے کہ جس سے مسلمانوں اور امت اسلام کے درمیان عالمی یوم قدس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ صہیونی دشمن کی شروع میں کوشش تھی کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اس جنگ کو عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک قومی منازعے میں تبدیل کریں لیکن دنیائے اسلام کے ایک بڑے دینی مرجع ہونے کے لحاظ سے امام خمینی(رہ) کے موقف کے اعلان کے بعد اسرائیل کے ساتھ نیم جان مبارزے میں تازہ روح پھونک دی گئی اور اس کے باعث دوسری ہر چیز سے بڑھ کر فلسطین کی جنگ اسلامی مقاومت میں تبدیل ہو گئی اور فلسطین کے عوام نے دیگر گروہوں سے رابطہ منقطع کر لیا جو اس بات کی تائید ہے ۔
مغرب اور صہیونی حکومت کی سازش کو ناکام کرنا اور مسلمانوں پر معنوی اثر ڈالنا اور ایک طرح کی عمومی مشارکت ایجاد کرنا ان دیگر موضوعات میں سے ہے کہ جس سے یوم قدس کی اہمیت پہلے سے زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔ اور آخر کار دنیائے اسلام کی مغرب پسند اور قدامت پرست حکومتوں پر سوال اٹھانا ایک اور موضوع ہے کہ جو اس دن کی اہمیت کو پہلے سے زیادہ نمایاں کرتا ہے ۔در واقع جیسا کہ امام نے فرمایا یہ دن حق و باطل کے درمیان امتیاز اور جدائی کا دن ہے اور دنیائے اسلام اور امت اسلامی نے اس دن کی ریلی کی راہ میں علاقے کی بعض حکومتوں کی جانب سے روڑے اٹکاتے ہوئے دیکھا ہے کہ جس سے ان حکومتوں اور اسرائیل کے درمیان سیاسی رابطے کے پائے جانے کا پتہ چلتا ہے اور دوسری طرف یہ ان ملکوں کی حقانیت کی علامت ہے کہ جو اس دن کو زیادہ سے زیادہ شاندار طریقے سے منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ آج ایک طرح سے اسلام اور عالمی صہیونزم کا سیدھا مقابلہ ہے ۔اس چیز کو اسرائیل اور لبنان کی ۳۳روزہ اور صہیونی حکومت اور غزہ کے مسلمانوں کی ۲۲ روزہ اور ۸ روزہ جنگ میں بعض ملکوں کے طرز عمل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بعض ملکوں اور گروہوں منجملہ القاعدہ نے موقف اختیار کر کے اس جنگ سے اپنی ناخوشنودی کا اظہار کیا اور اپنی اسلام دشمن ماہیت کو سب پر عیاں کر دیا ،اور دوسری طرف پوری دنیا میں دنیا کے مغرب سے لے کر انڈونیشیاء اور ملیشیاء تک مشرق میں حزب اللہ اور فلسطین کی مظلوم ملت اور ان کے حامیوں کی حقانیت کا باعث بن گیا ۔

 

یوم قدس اور فلسطینی کاز کا ہمہ گیر دفاع

  • ۳۸۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قدس اس وقت دو بنیادی موضوعات کے مقابلے پر ہے ایک مذہبی موضوع ہے اور دوسرا حقوقی موضوع ہے ۔اس کا حقوقی موضوع یہ ہے کہ یہ ایک غصب شدہ شہر ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قدس اور غصبی زمینوں سے اسرائیلی غاصبوں کو نکلنا چاہیے ۔لیکن مذہبی لحاظ سے قدس مسلمانوں کے لیے ایک علامتی شہر ہے اور اس کے ساتھ ہی عیسائیوں کے لیے بھی اور اس کو مطلق طور پر یہودیوں کا شہر نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ وہ بھی ان یہودیوں کا کہ جن کی نظروں میں لالچ ہے ۔
قدس فلسطین کی نشانی اور علامت ہے اور جہان اسلام کے اتحاد کا محور ہے جب کہ یہودیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا ہے اور اپنی جعلی حکومت کی بقاء کو اس پر قبضے کے باقی رہنے اور اس کو یہودی طرز پر تعمیر کرنے میں سمجھتے ہیں ۔ صہیونیوں نے بارہا تقریروں میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل قدس کے بغیر اور قدس اسرائیل کے بغیر بے معنی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ قدس شریف پہلے تو اسلام کے متعلق ہے اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اور حیاتی اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ مسلمان دنیا قدس اور اس کے مذہبی مفہوم کے گرد جمع ہوتی ہے ۔اس بنا پر مسلمان بھی قدس کے سلسلے میں اپنے مذہبی اعتقادی اور دینی اصول سے صرف نظر نہیں کر سکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے کہ ان کو بندھے ہاتھوں یہودیوں کے حوالے کر دیں تا کہ وہ جو چاہیں کریں چونکہ اگر یہودیوں کے اختیار میں چلا جائے تو وہ خود کو قدس یا فلسطین تک محدود نہیں رکھیں گے اس لیے کہ صہیونیوں کا منصوبہ قدس اور فلسطین تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے مشرق وسطی کو شامل ہے ۔
ٹھیک اسی مسئلے اور قدس کی مسلمانوں کے لیے حساس اہمیت کو درک کرتے ہوئے امام (رہ ) اور آپ کی پاس کردہ حکومت نے انقلاب اسلامیء ایران کی ابتدا سے ہی مستضعفین اور خاص کر فلسطین کے عوام اور قدس شریف کے دفاع کو جمہوری اسلامی کے ایک اہم اور ناقابل تردید اصول کے طور پر مقرر فرما دیا تھا ۔اسی سلسلے میں ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو عالمی یوم قدس اور فلسطین کے کاز کے دفاع کا دن قرار دیا ۔ امام خمینی کی ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو عالمی یوم قدس کا نام دینے کی بے نظیر ایجاد نے دنیا والوں کو غافل کر دیا تھا ۔امام رہ نے اس عملی اقدام کے ذریعے صہیونی حکومت اور اس کے عربی اور مغربی حامیوں کو بتا دیا کہ اس کے بعد نہ قدس اور نہ فلسطین اور نہ ہی دنیا کا کوئی مظلوم تنہا ہے ۔

 

علی(ع) اور قرآن تنہا کیوں؟

  • ۵۲۱

خیبر صہیون تحقیقای ویب گاہ: جس طرح کل علی کے گریہ کی آوازیں بلند تھیں آج بھی نخلستانوں سے بلک بلک کر علی کے رونے کی آواز سنی جا سکتی ہے جہاں علی جیسا یکتائے روزگار اپنے معبود کے سامنے فریاد کر رہا ہے ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار ….
آئیے اس مبارک مہینہ میں جہاں ہر طرف برکات کا نزول ہے کچھ ان اساسی اور بنیادی مسائل پر وقت نکال کر غور کرتے ہیں کہ علی کی تہنائی کا راز آخر کیا تھا ؟ قرآن آج کیوں تنہا ہے؟ علی اور قرآن کا رشتہ کیا ہے؟ علی اور قرآن دونوں ہی آج اپنے ہی ماننے والوں کے درمیان مظلوم کیوں ہیں؟ ہم علی اور قرآن کی تنہائی و مظلومیت کو دور کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ ہماری اجتماعی زندگی میں قرآنی اصولوں اور سیرت علوی کا کتنا عمل دخل ہے؟ کیا ہم خود کو اور اپنے معاشرہ کو قرآن اور علی کا پابند بنا سکتے ہیں؟ کہیں یہ وہی زمانہ تو نہیں جس کے لئے علی نے کہا تھا ” وانہ سیاتی علیکم بعدی زمان … و لیس عند اھل ذالک الزمان سلعة ابور من کتاب …. فقد نبذ الکتاب حملتہ و تناساہ حفظتہ ….
یاد رکھو! میرے بعد وہ زمانہ آنے والا ہے …جب اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی …حاملان کتاب، کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافطان قرآن قرآن کو بھلا دیں گے (۱)
قرآن اور علی کو سمجھنے کے لئے اس ماہ مبارک سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے جس مہینہ میں ایک طرف تو قرآن نازل ہوا تو دوسری طرف محافظ قرآن کے خون سے محراب مسجد رنگین ہو گئی، کیا قرآن صامت کا اس مہینہ میں نزول اور قرآن ناطق کا اسی مہینہ میں عروج ان دونوں کے غیر معمولی رابطہ کی طرف اشارہ نہیں ہے؟
کیا شبہائے قدر میں علی کا زخمی ہونا اور انہیں ایام میں علی کا شہید ہو جانا محض اتفاق ہے؟ امام موسی صدر نے بڑے دلنشین انداز میں اس بات پر یوں روشنی ڈالی ہے ” کیا شہادت امام علی کا شب قدر کے ساتھ تقارن محض اتفاق ہے یا پھر علی ہی اس امت کی قدر ہے؟ کیا علی اس امت کی اندھیری راتوں کے لئے وہ نور نہ تھے کہ جس کی روشنی میں امت کی تقدیر لکھی جائے؟… کیا علی وجہ بقائے امت نہ تھے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ حق تو یہ ہے کہ علی اور اس امت کی تقدیر لکھے جانے کے درمیان ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے دونوں کے درمیان ایک اٹوٹ رابطہ ہے میں اپنے ان بھائیوں سے جو اس شب میں اکھٹا ہوئے ہیں پوچھنا چاہتا ہوں بھائیو! یہ بتاؤ کہ قدر کیا ہے ؟ ….
اگر ہم غور کریں تو اس نتیجہ پر پہچیں گے کہ شب قدر کا روزہ سے گہرا تعلق ہے روزہ کا مطلب ہے تزکیہ نفس روزہ یعنی روز مرہ کی جکڑی ہوئی زندگی سے آزادی ،
… انسان روزے کے ذریعہ خود کو نئے سرے سے سنوارتا ہے اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے ”قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہا وَ قَدْ خابَ مَنْ دَسَّاہا ”۔بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے(٢)
اس آیت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ تزکیہ اور تہذیب نفس انسانی کی کامیابی کا راستہ ہے، ہم اس مبارک مہینہ میں روزہ کے ذریعہ اپنے آپ پر قابو پا سکتے ہیں اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھوں رقم کر سکتے ہیں اپنے آپ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ علی اس امت کی تقدیر ہیں ہمارے اس دعوے کی دلیل انہیں مبارک راتوں میں علی کی دردناک شہادت ہے انہیں راتوں میں سجدے کی حالت میں علی کوشہید کر دیا گیا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو علی اور شب قدر سے جڑی ہوئی ہے اور ہمیں سکھاتی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم علی سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، اور یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اسرائیل پر فتح حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری باتیں ہماری فکریں ان راتوں میں ایک تحریک کا سبب بن سکیں ، معروف مقولہ ہے کہ ہزار کلومیٹر کی مسافت کو طے کرنے کا آغاز پہلے قدم سے ہوتا ہے، اب ہمیں اس شب میں پہلا قدم اٹھانا ہے ہم نتائج سے ناامید نہیں ہیں اس لئے کہ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے کہ خدا بہت کریم ہے اگر ہم اس کی راہ میں ایک قدم بھی اٹھائیں گے تو وہ ہماری دس گنا زیادہ مدد کرے گا (۳) ”مَنْ جاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثالِہا ” جو نیک عمل انجام دے گا اسے نیکی کا صلہ دس برابر دیا جائے گا ” (٤)
اور پھر ” وَ لَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ ِانَّ اللَّہَ لَقَوِیّ عَزیز
الَّذینَ ِانْ مَکَّنَّاھمْ فِی الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّکاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَھوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلَّہِ عاقِبَةُ الْأُمُورِ
اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحبِ قوت بھی ہے اور صاحبِ عزت بھی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکوِۃ ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے ”(٥)
مذکورہ بالا جملے امام موسی صدر کی شبہائے قدر میں کی گئی چار دہائیوں پرانی تقریر سے ماخوذ تھے جس میں انہوں نے جو کچھ اپنی قوم سے کہا وہ کر دکھایا جو وعدہ کیا وہ پورا بھی کیا اور شب ہائے قدر میں اپنی دعاؤں اور سیرت علی سے درس لیتے ہوئے ان کی امت نے حسن نصر اللہ کی قیادت میں اسرائیل کو جولان کی پہاڑیوں سے کھدیڑ ڈالا اور یہ ثابت کر دیا جس علی نے کل خیبر فتح کر کے یہودیوں کو بتایا تھا جہاں واقعی قرآنی تعلیمات ہوتی ہیں وہاں قلعہ خیبر دو انگلیوں پر نظر آتا ہے اسی طرح آج علی کے ماننے والوں نے علی کی سیرت اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ حقیقی وارث قرآن علی ہی ہے سیرت علی ہی حققیت میں ترجمان قرآن ہے نہ علی کو قرآن سے الک کیا جا سکتا ہے نہ قرآن کو علی سے ۔
حوالے و حواشی :
١۔نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٤٧
٢۔شمس ١٠
٣۔ادیان در خدمت انسان ، جستار ہای دربارہ دین و مسائل جہان معاصر ،امام موسی صدر ٣٣٥
٤۔حج ٤١٤٠
٥۔ انعام ١٦٠

 

صہیونی ریاست اپنے زوال سے کیوں خوفزدہ؟

  • ۳۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، نابودی کا خوف، ایک اہم چیلنج ہے جو ہمیشہ یہودی قوم اور صہیونی ریاست کو دھمکا رہا ہے۔ موجودہ دور میں سرزمین فلسطین کو غصب اور ستر سال سے زیادہ عرصے سے اس میں جرائم کا ارتکاب، نیز پوری دنیا کے میڈیا پر قبضہ کرنے کے باوجود اس ریاست پر اپنی نابودی کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے صہیونی ریاست کے حکام کے خصوصی جلسوں میں صرف اپنی بقا پر ہی غور و خوض کیا جاتا ہے۔ یہودی ایجنسی کے ڈائریکٹر بورڈ کے حالیہ جلسے جو ڈائریکٹر بورڈ کے سربراہ ’’ناٹن شارنسکی‘‘ کی موجودگی میں منعقد ہوا اور جلسہ میں انتخابات کے بعد ’’اسحاق ہرٹزوک‘‘ کو ناٹن شارنسکی کا نائب صدر مقرر کیا، میں انہوں نے یہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمیں یہودیوں کو متحد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا ہے کہ ہمیں یقین ہو جائے کہ یہودی نابود نہیں ہوں گے۔ یہودی، یہودی ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ کیسا لباس پہنے اور کس پارٹی سے منسلک ہو، ہم سب ایک ہیں۔ (۱)
اسی سلسلے سے صہیونی تنظیم نے ’’قدس میں کتاب مقدس کی اراضی‘‘ کے زیر عنوان ایک سروے کیا جس میں آدھے سے زیادہ صہیونیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی نسبت تشویش کا اظہار کیا۔ (۲)
صہیونی آبادکاروں کے چینل نمبر ۷ کی رپورٹ کے مطابق، یہ سروے ۵۰۰ یہودیوں کے درمیان انجام دیا گیا جن کی عمر ۱۸ سال سے ۶۵ سال کے درمیان تھی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ۴۲ فیصد یہودیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی رائے دی جبکہ ۱۰ فیصد نے اسرائیل کی نسبت اظہار تشویش کیا۔ (۴) سروے کی رپورٹ کے مطابق، مذہبی یہودیوں کو زیادہ تر تشویش اس بات سے ہے کہ پوری دنیا صہیونی ریاست سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔
یہودی قوم ڈرپوک اور بزدل
زوال کے خوف کی ایک وجہ یہودیوں کا ڈرپوک اور بزدل ہونا ہے۔ ان کے اندر یہ صفت اس وجہ سے پائی جاتی ہے چونکہ وہ حد سے زیادہ دنیا سے وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کے سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۲ میں یہودیوں کی اس صفت کی مذمت کی گئی ہے۔ خداوند عالم اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْکَنَةُ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ الْأَنْبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ، ’’ان پر ذلت کے نشان لگا دئے گئے ہیں یہ جہاں بھی رہیں مگر یہ کہ خدائی عہد یا لوگوں کے معاہدے کی پناہ مل جائے، یہ غضب الہی میں رہیں گے اور ان پر مسکنت کی مار رہے گی۔ یہ اس لیے کہ یہ آیات الہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے۔ یہ اس لیے کہ یہ نافرمان تھے اور زیادتیاں کیا کرتے تھے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہودی ہمیشہ ذلیل و خوار تھے۔ اگر چہ بسا اوقات انہوں نے دنیا کی معیشت یا سیاست پر قبضہ جمایا۔ لیکن انسانی وقار، عزت و سربلندی اور امن و سکون کے اعتبار سے بدترین منزل پر رہے ہیں۔ ( جیسے چور اور ڈاکو جو اگر چہ چوری کر کے، ڈاکہ مار کے عظیم مال و ثروت کے مالک بن جاتے ہیں لیکن انسانی اقدار کے حوالے سے ان کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہوتا)۔ لہذا «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ» (۵)
 
صہیونی ریاست کی جڑیں شیطانی افکار میں پیوست
یہودی ریاست کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیادیں شیطانی افکار پر قائم ہیں۔ اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کبھی بھی قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے مقابلے میں اسلامی حکومت ثابت قدم اور استوار ہے۔ اگر چہ دنیا ساری کے ذرائع ابلاغ مشرق سے لے کر مغرب تک اس نظام حکومت کے خلاف عمل پیرا ہیں۔
سینکڑوں مفکر اور ماسٹر مائنڈ روز و شب اس کام پر جٹے ہوئے ہیں کہ کوئی نہ کوئی سازش، کوئی منصوبہ کوئی پراپیگنڈہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جنم دیں اور اسے متزلزل کرنے کی کوشش کریں لیکن اسلامی نظام کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکتے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ اس نظام حکومت کا قیام خدا پر ایمان اور توکل کی بنا پر ہے۔ (۶)
صہیونی ریاست اور دنیا کے ظالمین کا زوال اس وجہ سے ہے کہ ان کی بنیاد ظلم، باطل اور شیطانی افکار پر قائم ہے خداأوند عالم نے خود ان کی نابودی کا وعدہ دیا ہے۔ قرآن کریم جب حق و باطل کے تقابل کی منظر کشی کرتا ہے تو یوں فرماتا ہے:
«اَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِیَهٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَابِیاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَه اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً وَاَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الاْرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الاْمْثَالَ»؛
’’اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کر جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لیے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے‘‘۔ (سورہ رعد، ۱۷) (۷)
دینی علماء کی مجاہدت صہیونی ریاست کے زوال کا سبب
صہیونیوں کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں مخلص، متدین اور مجاہد علماء کا وجود ہے۔ وہ علماء جو دین کی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور دین کو صرف نماز و روزے میں محدود نہیں جانتے ہمیشہ سے باطل طاقتوں کے لئے چیلنج بنے رہے ہیں اور باطل طاقتیں ان کے چہروں میں اپنے زوال کا نقشہ دیکھتی رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے یہ الفاظ ہیں جو آپ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ کو اپنی ایک تقریر کے دوران بیان فرمائے تھے: تم (صہیونیو) آئندہ ۲۵ سال کو نہیں دیکھ پاؤ گے۔ انشاء اللہ آئندہ ۲۵ سال تک اللہ کے فضل و کرم سے صہیونی ریاست نام کی کوئی چیز علاقے میں نہیں ہو گی‘‘۔ آپ کا یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسے پھیلا جیسے خشک جنگل میں آگ پھیلتی ہے۔ اس بیان نے صہیونی رژیم کے منحوس وجود پر لرزہ طاری کر دیا۔ اور اس کے بعد سے آج تک وہ صرف اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ خدا کرے ان کی یہ جد و جہد خاک میں ملے اور طفل کش صہیونی رژیم ہمیشہ کے لیے صفحہ ھستی سے محو ہو جائے۔
حواشی
[۱]۔ https://kheybar.net/?p=6515
[۲] www.masaf.ir/View/Contents/40012
[۳] TNS
[۴] www.isna.ir/news/94050502500/
[۵] تفسیر نور، محسن قرائتی، تهران:مرکز فرهنگى درس‌هایى از قرآن، ۱۳۸۳ش، چاپ یازدهم سوره مبارکه آل‌عمران ذیل آیه‌ی ۱۱۲
[۶] بیانات در دیدار فرمانده و پرسنل نیروی هوایی ارتش ۱۹/۱۱/۱۳۸۸
[۷] پیام قرآن‏، آیت الله العظمى ناصر مکارم شیرازى، دار الکتب الاسلامیه‏، تهران‏، ۱۳۸۶ ه.ش‏، ج۸، ص۱۲۸٫

 

شوقی افندی کے دور میں بہائیت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات

  • ۴۱۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شوقی افندی کے دور میں صہیونی ریاست تشکیل پائی، بہائی جماعت بھی ہر اعتبار سے اس ریاست کی تشکیل کی مکمل حامی تھی۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۷ میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تو شوقی افندی نے اس کمیٹی کو ایک لیٹر لکھ کر صہیونی ریاست کے ساتھ اپنی وابستگی اور مشترکہ مفادات کو یوں بیان کیا:
’’صرف یہودی ہیں کہ جنہیں اس سرزمین ’فلسطین‘ سے اتنی ہی محبت ہے جتنی بہائیوں کو ہے۔ اس لیے کہ یروشلم میں ان کے معبد کے باقیات پائے جاتے ہیں اور قدیمی تاریخ میں یہ شہر مذہبی اور سیاسی اداروں کا مرکز رہا ہے‘‘۔
۱۹۴۸ میں اس ریاست کی تشکیل کے بعد نوروز کے پیغام میں بہائی معاشرے کو مخاطب کرتے ہوئے شوقی افندی نے کہا:
’’ وعدہ الہی کا مصداق، ابنائے خلیل، وارث کلیم، ظاہر اور درخشاں، اسرائیل کی حکومت ارض مقدس میں تشکیل پائی اور اس کے واسطے بہائی مذہب کو رسمیت حاصل ہوئی اور عکا میں بہائی موقوفات کو معاف کیا گیا اور بہائیت کے مرکز کی تعمیر کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اس کے مالیات (ٹیکس) کو معاف کر دیا گیا‘‘۔
شوقی افندی کی بیوی ماکسول اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے:
’’ ۔۔۔ مجھے کہنا چاہیے کہ ہم (بہائیت اور اسرائیل) مستقبل میں ایک زنجیر کے حلقوں کی طرح آپس میں پیوست ہیں‘‘۔
شوقی نے ۹ جنوری ۱۹۵۱ کو بین الاقوامی بہائی تنظیم کی تشکیل کا حکم دیا جو بعد میں ’بیت العدل‘ مرکز  کے نام سے معروف ہوا۔ انہوں نے اس تنظیم کی تین اہم ذمہ داریاں معین کیں: اسرائیلی حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ اچھے روابط رکھنا، ملکی امور میں حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کرنا اور پھر کچھ ذاتی مسائل کے بارے میں وصیت۔
اس بین الاقوامی تنظیم نے ایران میں بہائیوں کی ایک کمیٹی کو بہائیت اور اسرائیل کے تعلقات کے بارے میں لکھا: اسرائیلی حکومت ولی امر اللہ (شوقی افندی) اور بہائی بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی ہے اور اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ارض مقدس میں بہائیت کو پہچنوانے میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بن گورین نے اپنے امریکی دورے میں امریکی بہائیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا: ’اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے ابتدائی دور سے ہی اس کے بہائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں‘۔

بہائیت کے لیے اسرائیل کی خصوصی خدمات
صہیونی ریاست نے بین الاقوامی سطح پر بہائیت کے لیے خصوصی خدمات کا اہتمام کیا۔ مثال کے طور پر اسرائیل نے مختلف ممالک منجملہ برطانیہ، ایران، کینیڈا، اسٹریلیا، مقبوضہ فلسطین وغیرہ میں بہائیوں کے لیے مراکز تعمیر کئے تاکہ وہ ان میں دائمی طور پر اپنی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔
اسرائیل کے نزدیک بہائیوں کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور صدر مملکت کے براہ راست ٹیلیفون سے پارلیمنٹ کے پانچ افراد پر مشتمل وزارت ادیان میں ایک خصوصی تنظیم تشکیل دی گئی۔ اور بعد از آن وقت کے وزیر اعظم نے عید رضوان کے موقع پر سرکاری طور پر بہائیوں کے مقدس مقام کا دورہ کیا۔
حواشی
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.

 

 

جنرل پیٹراس کی جاسوسی کی ضرورت کیا تھی؟

  • ۳۹۸

مبصرین نے پیٹراس کے استعفے اور جنسی رسوائی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ جنرل ڈیوڈ پیٹراس امریکہ کے سیاسی ماحول پر برملا تنقید کرتے تھے، اسرائیل کے اقدامات کو مورد تنقید بناتے تھے اور اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے تزویری تعلقات پر سوال اٹھاتے تھے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جنرل پیٹراس نے ۲۰۱۰ میں امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات مشرق وسطی کے عوام کے درمیان امریکہ مخالف جذبات کو تقویت مل رہی ہے جس کے چند ہی مہینے بعد موساد کے سربراہ مائیر داگان (Aluf Meir Dagan) نے یہودی ریاست کی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “رفتہ رفتہ اسرائیل ایک خزانے اور ذخیرے کے بجائے امریکہ کے سر پر ایک بوجھ میں بدل گیا ہے”۔
علاوہ ازیں امریکی جاسوسی اداروں نے ۸۲ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ بعنوان “اسرائیل کے بعد کے مشرق وسطی کے لئے تیاری” (Preparing For A Post Israel Middle East) پیش کی جس میں نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ امریکی مفادات اور صہیونی ریاست کی موجودگی سرے سے دو متضاد مسائل ہیں؛ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو یہودی ریاست کی حمایت کے لئے نہ تو مالی وسائل میسر ہیں اور نہ ہی عوامی حمایت حاصل؛ ہمارے لئے امریکی ٹیکس دہندگان کے تین ہزار ارب ڈالر بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر اسرائیل کے خزانے میں انڈیلنا مزید ممکن نہیں ہے؛ اسرائیل کی مداخلتوں کے خلاف عوامی احتجاجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے؛ عوام مزید یہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی ناجائز جنگوں کی مالی اور عسکری پشت پناہی کرے۔
اس موقف کے ساتھ ساتھ، پیٹراس نے امریکہ میں سعودی سفیر پر قاتلانہ حملہ کرکے اس کی ذمہ داری ایران پر ڈالنے سمیت اس ملک میں موساد کی تخریبی کاروائیوں کو طشت از بام کیا۔
لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملہ کرکے امریکی سفیر کو قتل کرکے مشہور کیا گیا کہ سفیر قونصلیٹ کی عمارت میں لیبیائی عوام کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ لیکن جنرل پیٹراس نے اس سازش کو بےنقاب کیا اور کہا کہ قونصلیٹ پر حملہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا کام تھا، اور سفیر کو بھی موساد نے ہی قتل کیا تھا اور یہ کہ امریکی سفیر کو قونصلیت کی عمارت میں قتل نہیں کیا گیا بلکہ ان کی گاڑی کو سڑک میں راکٹ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ پیٹراس نے اس واقعے کو موساد اور سی آئی کے درمیان خفیہ جنگ کی نمایاں ترین مثال قرار دیا۔
ان حقائق اور اسناد و شواہد کی بنیاد پر، بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل پیٹراس کی جنسی رسوائی موساد کی سازش کا نتیجہ تھی جس کے زیر اثر امریکی انتظامیہ کے اندر اسرائیل کے نہایت اہم مخالف کو اپنے اعلی منصب سے ہاتھ دھونا پڑا۔
یہ یہودی موساد سمیت جاسوسی اور خفیہ ایجنسیوں کا خاصہ ہے کہ متعدد ملکی اور غیر ملکی اہم عہدیداروں کے لئے جال بچھاتی ہیں، انہیں رسوا کردیتی ہیں، ان کے شواہد اور ثبوت تیار کرتی ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کرکے ان سے معلومات حاصل کرتی ہیں اور اگر ان کی متعلقہ حکومتوں کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام کریں تو مذکورہ معلومات برملا کرکے ان کی عزت و آبرو کو فنا کردیتی ہیں اور یوں یا تو انہیں استعفا دینا پڑتا ہے یا پھر انہیں برخاست کیا جاتا ہے۔
ڈیوڈ پیٹراس اسکینڈل سمیت مذکورہ بالا تمام تر اسکینڈلز خفیہ ایجنسیوں کی پالیسیوں اور تزویری حکمت عملیوں کا کامل نمونہ فراہم کرتے ہیں اور ان پالیسیوں میں حتی کہ حلیفوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
یہ درست ہے کہ یہودی ریاست نے ڈیوڈ پیٹراس کو رسوائے سر بازار کردیا لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں بدل سکی کہ اس کی خباثت آلود زندگی کے چند ہی دن باقی ہیں اور اب فلسطین میں قائم قابض و غاصب یہودی ریاست کو منہا کرکے نئے مشرق وسطی یا مغربی ایشیا کے نئے نقشے کا تصور ہر کسی کے ذہن میں ابھرنا چاہئے، وہی غاصب ریاست جس کے بچاؤ کے لئے امریکہ عرب ریاستوں کو لوٹ رہا ہے اور عرب ریاستوں نے اپنے مقدرات کو اسی ریاست کے مفادات سے جوڑ رکھا ہے۔ گویا وہ سمجھ رہی ہیں کہ اسرائیل نامی ریاست کی بقاء ان کی بقاء کی ضامن ہے کیونکہ بنی سعود کی حکومت سمیت خلیج فارس کی عرب ریاستوں کا قیام اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا اور اسرائیل کا خاتمہ ان کے فلسفۂ بقاء کے خاتمے کے مترادف ہوگا؛ بہرحال وہ پوری دولت اور طاقت اور امریکی اثر و رسوخ کو استعمال کرکے بھی نوشتہ دیوار کو مٹانے سے عاجز ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔