-
Thursday, 14 May 2020، 07:02 PM
خیبر صہیون تحقیقای ویب گاہ: جس طرح کل علی کے گریہ کی آوازیں بلند تھیں آج بھی نخلستانوں سے بلک بلک کر علی کے رونے کی آواز سنی جا سکتی ہے جہاں علی جیسا یکتائے روزگار اپنے معبود کے سامنے فریاد کر رہا ہے ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار ….
آئیے اس مبارک مہینہ میں جہاں ہر طرف برکات کا نزول ہے کچھ ان اساسی اور بنیادی مسائل پر وقت نکال کر غور کرتے ہیں کہ علی کی تہنائی کا راز آخر کیا تھا ؟ قرآن آج کیوں تنہا ہے؟ علی اور قرآن کا رشتہ کیا ہے؟ علی اور قرآن دونوں ہی آج اپنے ہی ماننے والوں کے درمیان مظلوم کیوں ہیں؟ ہم علی اور قرآن کی تنہائی و مظلومیت کو دور کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ ہماری اجتماعی زندگی میں قرآنی اصولوں اور سیرت علوی کا کتنا عمل دخل ہے؟ کیا ہم خود کو اور اپنے معاشرہ کو قرآن اور علی کا پابند بنا سکتے ہیں؟ کہیں یہ وہی زمانہ تو نہیں جس کے لئے علی نے کہا تھا ” وانہ سیاتی علیکم بعدی زمان … و لیس عند اھل ذالک الزمان سلعة ابور من کتاب …. فقد نبذ الکتاب حملتہ و تناساہ حفظتہ ….
یاد رکھو! میرے بعد وہ زمانہ آنے والا ہے …جب اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی …حاملان کتاب، کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافطان قرآن قرآن کو بھلا دیں گے (۱)
قرآن اور علی کو سمجھنے کے لئے اس ماہ مبارک سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے جس مہینہ میں ایک طرف تو قرآن نازل ہوا تو دوسری طرف محافظ قرآن کے خون سے محراب مسجد رنگین ہو گئی، کیا قرآن صامت کا اس مہینہ میں نزول اور قرآن ناطق کا اسی مہینہ میں عروج ان دونوں کے غیر معمولی رابطہ کی طرف اشارہ نہیں ہے؟
کیا شبہائے قدر میں علی کا زخمی ہونا اور انہیں ایام میں علی کا شہید ہو جانا محض اتفاق ہے؟ امام موسی صدر نے بڑے دلنشین انداز میں اس بات پر یوں روشنی ڈالی ہے ” کیا شہادت امام علی کا شب قدر کے ساتھ تقارن محض اتفاق ہے یا پھر علی ہی اس امت کی قدر ہے؟ کیا علی اس امت کی اندھیری راتوں کے لئے وہ نور نہ تھے کہ جس کی روشنی میں امت کی تقدیر لکھی جائے؟… کیا علی وجہ بقائے امت نہ تھے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ حق تو یہ ہے کہ علی اور اس امت کی تقدیر لکھے جانے کے درمیان ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے دونوں کے درمیان ایک اٹوٹ رابطہ ہے میں اپنے ان بھائیوں سے جو اس شب میں اکھٹا ہوئے ہیں پوچھنا چاہتا ہوں بھائیو! یہ بتاؤ کہ قدر کیا ہے ؟ ….
اگر ہم غور کریں تو اس نتیجہ پر پہچیں گے کہ شب قدر کا روزہ سے گہرا تعلق ہے روزہ کا مطلب ہے تزکیہ نفس روزہ یعنی روز مرہ کی جکڑی ہوئی زندگی سے آزادی ،
… انسان روزے کے ذریعہ خود کو نئے سرے سے سنوارتا ہے اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے ”قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہا وَ قَدْ خابَ مَنْ دَسَّاہا ”۔بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے(٢)
اس آیت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ تزکیہ اور تہذیب نفس انسانی کی کامیابی کا راستہ ہے، ہم اس مبارک مہینہ میں روزہ کے ذریعہ اپنے آپ پر قابو پا سکتے ہیں اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھوں رقم کر سکتے ہیں اپنے آپ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ علی اس امت کی تقدیر ہیں ہمارے اس دعوے کی دلیل انہیں مبارک راتوں میں علی کی دردناک شہادت ہے انہیں راتوں میں سجدے کی حالت میں علی کوشہید کر دیا گیا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو علی اور شب قدر سے جڑی ہوئی ہے اور ہمیں سکھاتی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم علی سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، اور یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اسرائیل پر فتح حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری باتیں ہماری فکریں ان راتوں میں ایک تحریک کا سبب بن سکیں ، معروف مقولہ ہے کہ ہزار کلومیٹر کی مسافت کو طے کرنے کا آغاز پہلے قدم سے ہوتا ہے، اب ہمیں اس شب میں پہلا قدم اٹھانا ہے ہم نتائج سے ناامید نہیں ہیں اس لئے کہ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے کہ خدا بہت کریم ہے اگر ہم اس کی راہ میں ایک قدم بھی اٹھائیں گے تو وہ ہماری دس گنا زیادہ مدد کرے گا (۳) ”مَنْ جاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثالِہا ” جو نیک عمل انجام دے گا اسے نیکی کا صلہ دس برابر دیا جائے گا ” (٤)
اور پھر ” وَ لَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ ِانَّ اللَّہَ لَقَوِیّ عَزیز
الَّذینَ ِانْ مَکَّنَّاھمْ فِی الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّکاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَھوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلَّہِ عاقِبَةُ الْأُمُورِ
اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحبِ قوت بھی ہے اور صاحبِ عزت بھی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکوِۃ ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے ”(٥)
مذکورہ بالا جملے امام موسی صدر کی شبہائے قدر میں کی گئی چار دہائیوں پرانی تقریر سے ماخوذ تھے جس میں انہوں نے جو کچھ اپنی قوم سے کہا وہ کر دکھایا جو وعدہ کیا وہ پورا بھی کیا اور شب ہائے قدر میں اپنی دعاؤں اور سیرت علی سے درس لیتے ہوئے ان کی امت نے حسن نصر اللہ کی قیادت میں اسرائیل کو جولان کی پہاڑیوں سے کھدیڑ ڈالا اور یہ ثابت کر دیا جس علی نے کل خیبر فتح کر کے یہودیوں کو بتایا تھا جہاں واقعی قرآنی تعلیمات ہوتی ہیں وہاں قلعہ خیبر دو انگلیوں پر نظر آتا ہے اسی طرح آج علی کے ماننے والوں نے علی کی سیرت اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ حقیقی وارث قرآن علی ہی ہے سیرت علی ہی حققیت میں ترجمان قرآن ہے نہ علی کو قرآن سے الک کیا جا سکتا ہے نہ قرآن کو علی سے ۔
حوالے و حواشی :
١۔نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٤٧
٢۔شمس ١٠
٣۔ادیان در خدمت انسان ، جستار ہای دربارہ دین و مسائل جہان معاصر ،امام موسی صدر ٣٣٥
٤۔حج ٤١٤٠
٥۔ انعام ١٦٠