کیا فلسطین کے تاریخی آثار کا تحفظ ہماری ذمہ داری نہیں؟

  • ۳۶۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۱۹۶۷ کے بعد صہیونی ریاست کے ہاتھوں مقبوضہ فلسطین میں تمام تاریخی اور ثقافتی آثار چاہے وہ مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہوں یا عیسائیوں سے، کی نابودی کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے رد عمل میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دنیا کے حریت پسندوں لوگوں حتی بعض یہودیوں نے بھی اسرائیل کے ان گھنوئنے اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اگر چہ بیت المقدس یا یورشلم انسانی ثقافت میں ایک خاص مقام کا حامل ہے اور اس کی معنوی اور تاریخی اہمیت کسی پر بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے اس ثقافتی شہر پر جارحیت، کسی کے لیے بھی قابل تحمل نہیں ہے۔
فلسطین اتھارٹی واچ ۹ ویں کانفرنس ۱۹۷۱ میں نے عرب سماج کو یہ تجویز پیش کی کہ بیت المقدس کے تاریخی آثار کے امور کے لیے ایک علمی کمیٹی تشکیل دی جائے جو علاقے میں اسرائیل کی بے راہ رویوں کا جائزہ بھی لے اور تاریخی آثار کے تحفظ کے سلسلے میں اسرائیلی عہدیداروں کے جھوٹے دعوؤں کو ثابت بھی کرے۔ عرب سماج نے چھپن(۵۶) اداری مٹینگوں کے بعد اس تجویز کو قبول کیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی۔
اس کمیٹی کی منجملہ تحقیقات ’’کشاف البلدان الفلسطینیة‘‘ (فلسطینی شہروں کی رہنمائی) ڈاکٹر اسحاق موسی حسینی کی تالیف ۱۹۷۳ میں اور جامع بیت المقدس۱۹۷۹ میں منظر عام پر آئیں۔
یہاں پر در حقیقت یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ کیوں سرزمین فلسطین کے تاریخی آثار کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟
کیا لوگوں میں ایک ایسی آزاد فکر اور وسعت نظر رکھنے والی ثقافتی تحریک وجود میں نہیں آنا چاہیے جو ان آثار قدیمہ کو ہمیشہ زندہ اور محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو؟ کیا اصلا فلسطین کے تاریخی آثار کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے کہ نہیں؟ اگر ہماری ذمہ داری ہے تو آپ کی نظر میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ان سوالات کے جوابات قارئین حضرات ذیل میں ارسال کر سکتے ہیں۔

 

دنیا اسرائیل سے خالی جغرافیے کی طرف رواں دواں

  • ۵۱۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب اسرائیل کے درمیان ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ میں چار جنگیں ہوئیں اور ان تمام جنگوں میں عربوں نے شکست کھائی۔ عربوں کے مقابلے میں فتح کے نتیجے میں یہودی ریاست کو ترغیب ملی اور اس نے “نیل تا فرات” کا نعرہ لگایا، اردن، شام، لبنان اور مصر کی مسلم سرزمینوں پر میلی نظریں جمائیں اور عربوں کی وسیع سرزمینوں پر قبضہ کیا جن میں مشرقی بیت المقدس، دریائے اردن کے مغربی کنارہ، شام کے جنوبی علاقے جولان اور مصر کے صحرائے سینا جیسے علاقے شامل تھے؛ لبنان کو کئی بار جارحیت کا نشانہ بنایا اور اس کے کچھ حصوں پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ یہ نامشروع قبضے بھی جاری رہے اور ساتھ ساتھ یہودی ریاست “اسرائیل” کی عالمی حمایت بھی جاری رہی جس کی وجہ سے غاصب صہیونی ـ یہودی ریاست ایک باؤلے کتے میں تبدیل ہوا اور اس نے [ایک مکڑی جتنا ہوتے ہوئے مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کرکے] اسلامی ممالک کو ہڑپ کرنے کا ارادہ کیا۔
عرب ممالک کو ناکوں چنے چبوانے کے باوجود اس ریاست کا مکروہ اور خونخوار چہرہ کبھی بھی صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کے جہاد کا سد باب نہ کرسکا۔ فلسطینی عارف عزالدین قسام نے اسلحہ اٹھایا اور اپنے مریدوں اور اعوان و انصار کے ساتھ یہودیوں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ فتح تحریک صہیونی یہودیوں کے خلاف جنگ کے لئے میدان میں اتری اور ۵۰۰ کی نفری لے کر “الکرامہ” نامی کاروائی میں یہودی فوج کے ۱۲۰۰۰ افراد پر مشتمل ڈویژن کو دریائے اردن کے کنارے شکست دی۔
لیکن آج امریکہ، برطانیہ اور یہودی ریاست کی مکاری کے نتیجے میں بعض دنیا پرست عرب حکمران قدس شریف پر قابض صہیونیوں کے خلاف جنگ کے بجائے یہودی ریاست کی حمایت کے لئے میدان میں آئے ہیں اور مذاکرات اور سازباز کو متبادل کے طور پر متعارف کرارہے ہیں اور انھوں نے عملی طور پر خطے میں صہیونی اہداف کے قریب پہنچنے میں اس کی مدد کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت اردن کے سابق بادشاہ شاہ حسین نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا [اس وقت کے پاکستانی بریگیڈیئر محمد ضیاء الحق اس قتل عام میں شاہ اردن کی مدد کو آئے تھے]۔ مصر کے سابق صدر انورالسادات نے کیمپ ڈیویڈ معاہدے پر دستخط کرکے یہودی ریاست کو تسلیم کیا اور اس منحوس ریاست کی حمایت کی۔ یاسر عرفات نے بھی میڈرڈ، اوسلو، وائی ریور، واشنگٹن میں یہودی ریاست کے ساتھ سازباز کا سلسلہ آگے بڑھایا اور ۱۹۸۹ میں کیمپ ڈیویڈ ۲ نامی معاہدے پر دستخط کئے۔
۱۹۴۸ سے لے کر آج تک عالم اسلام کو نشیب و فراز کا سامنا رہا ہے اور کوشش ہوتی رہی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کا شعلہ خاموش ہوجائے اور صہیونیوں کے اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
شیعہ علماء غصب فلسطین کے آغاز ہی سے ـ اپنے فکری استقلال، خدائے واحد و احد پر توکل اور عوامی قوت پر بھروسے کی بنا پر ـ اس غیر انسانی اقدام کے سامنے ڈٹ گئے اور غاصب یہودیوں کا سکون برباد کردیا۔
شیخ محمد حسین بن محمد ابراہیم گیلانی، ناصرالدین شاہ کے دور کے عالم شیخ محمد رضا ہمدانی، نجف کے اعلم عالم دین علامہ کاشف الغطاء، ہبۃ الدین شہرستانی، سید محمد مہدی صدر اور سید محمد مہدی اصفہانی، سید عبدالحسین شرف الدین اور آیت اللہ العظمی سید ابوالحسن اصفہانی جیسے ایران، عراق اور لبنان سمیت عالم تشیع کے بزرگ علمائے دین امریکہ اور برطانیہ کے غیر انسانی اقدامات کے مد مقابل کھڑے ہوگئے اور قابض یہودیوں کے خلاف جہاد کے فتوے دیئے۔
بیسویں صدی عیسوی میں امام خمینی نے بےمثال اور فیصلہ کن انداز سے فلسطین کی نسبت اپنے احساس ذمہ داری اور عزم راسخ کی اساس پر غاصب اور قابل نفرت یہودی ریاست کے مقابلے میں امت مسلمہ کی استقامت اور مزاحمت کو نیا رنگ دیا۔ ماہ مبارک رمضان کے آخری روز جمعہ کو عالمی یوم القدس کا نام دیا اور فلسطین کے ملک اور ملت کے اسلامی تشخص کو تقویت دی اور اسے دنیا کے سامنے آشکار کردیا جبکہ یہ عرب حکمرانوں کی غفلت اور سستی اور دنیا پرستی کے سائے میں فراموشی کے سپرد کیا جارہا تھا۔
اللہ کے اس عبد صالح نے فرمایا: “ہم سب کو اٹھ کر اسرائیل کو نابود کرنا چاہئے، اور فلسطین کی بہادر قوم کو اس کی جگہ بٹھا دیں”۔
آپ نے مزید فرمایا: “اللہ کی مدد سے اسلام کے پیروکاروں کے مختلف نظریات و آراء اور امت محمد(ص) کی طاقت اور اسلامی ممالک کے وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور پوری دنیا میں حزب اللہ کے مزاحمتی حلقے تشکیل دے کر فلسطین کو صہیونیوں کے چنگل سے آزاد کرانا چاہئے”۔
آپ نے اپنی حکمت عملیوں کا اعلان کرکے مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام اور دنیا بھر کے انصاف پسندوں کے ہاں اول درجے کے مسئلے میں تبدیل کردیا اور اپنی ہوشیاری اور زیرکی سے دنیا بھر کے انصاف پسند عیسائیوں اور صہیونیت مخالف یہودیوں کو بھی غاصب اور جارح یہودی ریاست کے مد مقابل کھڑا کیا۔
امام خامنہ ای نے بھی اپنی قیادت کے دوران، پوری سنجیدگی کے ساتھ، راہ امام خمینی پر گامزن ہوکر، اسرائیل کی نابودی کو فلسطین کے غصب اور قبضے سے چھوٹ جانے اور اس کے امت اسلامی کی آغوش میں پلٹ آنے کا واحد راستہ قرار دیا؛ فلسطین کی آزادی کا پرچم اونچا رکھا اور ایک الہی نگاہ سے مزاحمت کے دائرے کو وسعت دی۔ عالم اسلام جاگ اٹھا اور فلسطین بدستور عالم اسلام کے مسائل میں سرفہرست رہا اور بےتحاشا بین الاقوامی حمایت کے باوجود ـ اسلامی مزاحمت کے طاقتور ہونے کی بنا پر ـ یہودی ریاست کمزور پڑ گئی اور بقاء کے بجائے اس کی فنا کی الٹی گنتی شروع ہوئی۔ اس وقت یہ ریاست فرسودگی اور زوال کے مراحل طے کررہی ہے اور مسلمانوں کی طرف سے اس ناجائز ریاست کی بقاء محال ہوچکی ہے۔
سنہ ۲۰۰۰ میں حزب اللہ لبنان کے آگے پہلی شکست کھا کر یہودی ریاست کی پسپائی کے بعد ۲۰۰۶ میں اسے حزب اللہ کے مجاہدین کے آگے رسواکن شکست کھانا پڑی، ۲۰۰۹ میں ۲۲ روزہ جنگ کے دوران بھی اور بعد کی آٹھ روزہ اور پچاس روزہ جنگوں میں بھی غزہ کے مظلوم اور بہادر عوام نے یہودی ریاست کو تین بار شکست دی اور پلڑا مزاحمت کے حق میں بھاری ہوا؛ جس کے بعد امریکہ اور صہیونی ریاست نے عراق اور شام میں داعش کو منظم کیا اور داعش کی حکومت تک قائم کرائی؛ تا کہ ولایت فقیہ کی حاکمیت اور محاذ مزاحمت کی استقامت کو توڑ سکیں اور توسیع یافتہ اسرائیل کے آگے کی تمام رکاوٹیں دور کرسکیں۔
دوسری طرف سے غزہ میں انتفاضہ کو تقویت ملی، مغربی کنارے کو مسلح کیا گیا، عراق اور شام میں داعش کو شکست کھانا پڑی تو یہودی ریاست مزید سنجیدہ چیلنجوں کا شکار ہوئی؛ یہاں تک کہ اس نے زوال اور فنا کے راستے کو اپنے سامنے پورے وضوح کے ساتھ دیکھ لیا۔
غزہ سے صہیونیوں کے اوپر میزائل حملے شروع ہوئے، شام سے ۶۸ میزائل یہودی ریاست کے نہایت حساس اور خفیہ مراکز اور معلومات حاصل کرکے ان کا تجزیہ کرنے والے اہم ترین اداروں پر داغے گئے جس کی وجہ سے خطے میں جنگ کے قواعد بدل چکے اور اس حملے نے اس سرطانی پھوڑے کو زوال کی اترائی پر قرار دیا اور اس کے زوال اور نابودی کو قریب تر کردیا۔
امام خامنہ ای نے ۱۹ اگست ۱۹۹۱ کو فرمایا: “اسرائیل کا انجام نابودی ہے اور اسے نابود ہونا چاہئے۔ کچھ عرصہ قبل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مشرقی بڑی طاقت (سوویت روس) اس طرح شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گی ۔۔۔ جس دن امام خمینی نے میخائل گورباچوف کو لکھا کہ مارکسزم کو اب عجائب گھروں میں تلاش کرنا پڑے گا، تو کچھ لوگ اس کلام کا مذاق اڑا رہے تھے! لیکن ابھی دو یا تین سال ہی گذرے تھے کہ وہ پیشنگوئی عملی صورت میں ظاہر ہوئی”۔
آپ نے ۹ نومبر ۱۹۹۱ کو فرمایا: “شک نہیں کرنا چاہئے کہ اسرائیل کے شجرۂ خبیثہ ۔۔۔ کی کوئی بنیاد اور کوئی دوام و بقاء کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا اور بےشک فنا ہوجائے گا”۔
آپ نے ۲۴ اپریل ۲۰۰۱ کو منعقدہ انتفاضۂ فلسطین کی حمایت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “ہمیں یقین ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کے جاری رہنے اور عالم اسلام کی حمایت کی برکت سے فلسطین اللہ کے فضل سے آزاد ہوجائے گا اور بیت المقدس اور مسجد الاقصی سمیت اس اسلامی سرزمین کے دوسرے علاقے عالم اسلام کی آغوش میں پلٹ آئیں گے”۔
امام خامنہ ای نے ۱۷ مئی ۲۰۱۸ کو فرمایا: “فلسطین اللہ تعالی کے اذن سے دشمنوں کے چنگل سے آزاد ہوجائے گا، بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور امریکہ اور امریکہ سے بھی بڑے بوڑھے فلسطین کے سلسلے میں حقائق اور سنت الہیہ کے آگے کچھ بھی کرنے پر قادر نہیں ہیں”۔
چنانچہ کوئی شک نہیں ہے کہ سنت الہیہ عملی جامہ پہن کر رہے گی۔ اگرچہ ۱۹۴۸ سے لے کر آج تک، تھیوڈور روزویلٹ سے لے کر بارک اوباما تک تمام امریکی صدور نے یہودی ریاست کی حمایت کی اور آج بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یہودی ریاست کے لیکوڈی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا سنجیدہ اتحاد فلسطینی مزاحمت کو چیلنجوں سے دوچار کرچکا ہے، لیکن امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی نے امت اسلام کے قلوب کو مجروح کردیا، انتفاضہ کو مشتعل کیا، اور اس نئی صورت حال نے واپسی کی تحریک کے آغاز کا سبب فراہم کیا اور اس تحریک کو تازہ خون سے سیراب کیا جارہا ہے اور یوں فلسطین علاقائی اور اسلامی ممالک کی ترجیحات میں شامل ہوچکا ہے۔
یہودی ریاست کو بجا یقین ہے کہ ایران کی میزائل قوت اور شام، لبنان اور غزہ میں تحریک مزاحمت حیفا، تل ابیب اور یہودی نشین شہروں کو سنجیدہ ترین خطرات لاحق ہیں اور آج کی جنگ ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ کی عرب اسرائیل جنگوں سے بالکل مختلف ہے۔ آج اسلامی امت پوری اسرائیلی ریاست کے انہدام کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسے فنا اور زوال کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
امام خامنہ ای نے ۱۴ دسمبر ۲۰۱۶ کو فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل رمضان عبداللہ شلح کی ملاقات کے دوران فرمایا: “صہیوی ریاست ـ جیسا کہ ہم قبل ازیں کہہ چکے ہیں ـ صہیونیوں کے ساتھ فلسطینیوں اور مسلمانوں کی متحدہ جدوجہد کی شرط پر ـ اگلے ۲۵ برسوں تک باقی نہیں رہے گا”۔
غاصب ریاست آج ـ کل سے کہیں زیادہ ـ اس یقین تک پہنچی ہوئی ہے کہ وہ تیزرفتاری سے نیست و نابودی اور ہلاکت کے گڑھے میں اتر رہی ہے؛ اس وقت اس کا ہاتھ پاؤں مارنا کھرل میں پانی کوٹنے کے مترادف ہے اور نتیجہ اسرائیل نامی جعلی ریاست کی موت کی صورت ہی میں برآمد ہوگا۔
نیتن یاہو اور ٹرمپ نے سن رکھا ہے کہ ۲۰۰۶ کی ۳۳ روزہ جنگ کے درمیانی ایام میں امام خامنہ ای نے فرمایا کہ حزب اللہ اس جنگ میں کامیاب ہوگی، اور کچھ ہی دن ایسا ہی ہوا۔ آپ نے سنہ ۲۰۱۱ میں فرمایا: “بشار اسد کی حکومت کو رہنا چاہئے اور یہ حکومت باقی رہے گی”، اور ایسا ہی ہوا۔
صہیونی دوسروں سے زیادہ بہتر یقین کرچکے ہیں کہ اگلے ۲۵ سال تک وہ قصہ پارینہ بن چکے ہونگے، وہ حتی اس یقین تک پہنچ چکے ہیں کہ انقلاب اسلامی کی موجودہ نسل حتی کہ عالم خوار امریکہ کی فنا کو بھی دیکھ لیں گے۔ کاش بعض سادہ اندیش اور سادہ لوح ـ نام نہاد دانشور ـ بھی اس قرآنی وعدے کا یقین کر لیتے کہ “إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوقاً؛ یقیناً باطل تو مٹنے والا ہی ہے”؛ اور امریکہ اور یہودی ریاست چونکہ باطل ہیں تو ان کو مٹنا ہی ہے؛ یہ اللہ کا وعدہ ہے: “وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ؛ چاہے مشرکین کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، “وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ؛ چاہے کافر لوگ کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، “وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ؛ چاہے جرائم پیشہ لوگ کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، “أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛ یقینا اللہ کی جماعت والے، غالب آنے والے ہیں”، فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ؛ یقینا اللہ کی جماعت والے، غالب آنے والے ہیں”؛ یہ اللہ کا اٹل وعدہ ہے
“لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ٭ بِنَصْرِ اللَّهِ یَنصُرُ مَن یَشَاء وَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ٭ وَعْدَ اللَّهِ لَا یُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ؛ اللہ ہی کے ہاتھ میں معاملہ ہے پہلے بھی اور بعد بھی اور اس دن مؤمنین خوش ہوں گے ٭ اللہ کی مدد سے وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ عزت والا ہے، بڑا مہربان ٭ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا مگر زیادہ تر لوگ جانتے نہیں”۔
مزاحمتی حلقوں کی تشکیل کا حکم امام خمینی نے دیا
ایران، عراق، لبنان، بحرین، شام، پاکستان، مصر، افغانستان، فلسطین، نائجیریا، یمن اور اردن کے عوام اور حتی کہ یورپ اور امریکہ میں امام کے بعض پیروکاروں نے مزاحمت کے دائرے کو وسعت دی تا کہ نیل سے فرات کے یہودی ـ امریکی منصوبے کو خاک میں ملا دیں۔ کہاں ہیں تھیوڈور ہرٹزل، بالفور، روزویلٹ اور ٹرومین؛ آئیں دیکھ لیں اس افسانے کا انجام جس کا آغاز انھوں نے یہودیوں کی فلسطین ہجرت سے کیا، اور پھر اسرائیل کو قائم کیا، آج اسلامی مزاحمت نے جدید صہیونیت کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں اور سیاسی صہیونیت کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے، جو منصوبہ انھوں نے بنایا وہ صہیونی یہودیوں کی نابودی کا باعث بنا ہے اور آج صہیونیت مخالف یہودی اور عیسائی اس نابودی سے وجد کی کیفیت سے گذر رہے ہیں۔
ہرٹزل کے تفکرات سے معرض وجود میں آنے والے طفیلیوں کی موت کی گھڑی قریب آئی ہے اور دنیا اسرائیل کے بغیر کے جغرافیے کی طرف رواں دواں ہے؛ مسلمان طاقتور بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اسلامی مزاحمتی حلقوں کے آگے قدم جمانے کی ہمت و سکت نہیں رکھتا۔ واپسی کی تحریک کو یقین ہے کہ بےیار و مددگار نہیں ہے اور ایران کی میزائل قوت اس کی حمایت کے لئے کھڑی ہیں۔ محاذ مزاحمت کے علمبردار پا بہ رکاب اور حکم کے منتظر ہیں وہی جنہوں نے شاہ کو نکال باہر کیا، صدام کو شکست کی تلخی چکھا دی، دہشت گردوں کی ناک خاک پر رگڑ لی، منافقین کو فنا کے سپرد کیا، امریکیوں کو ذلت سے آشنا کیا، تو وہ کیا اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو نیست و نابود کرسکیں گے؟ یقینا وہ ایسا ہی کرکے رہیں گے۔
سپاہ قدس میں نمایندہ امام خامنہ ای، حجت الاسلام والمسلمین علی شیرازی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

خمینی ازم عالمی مستضعفین کی صدا

  • ۴۶۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق انقلاب اسلامی کا مسئلہ اور حریت پسندی کے عالمی تفکر میں اس کا اثر و نفوذ اس انقلاب کے خلاف بہت بھاری تشہیری اور ابلاغی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے خلاف مختلف عناصر سے مرکب شدید اور ہمہ جہت لڑائی کا آغاز کیا جا چکا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اسے شکست سے دوچار کیا جاسکے۔
علاقے پر انقلاب اسلامی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم سابق سوویت روس کے زوال کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ سوویت روس کے زوال کا اصل سبب ایران نہ ہو لیکن اس کے زوال کے اسباب میں سے ایک ضرور ہے۔
یہودی ریاست کا ایک اعلی افسر جنرل افرایم سنہ (Efraim Sneh – אפרים סנה‎) اپنی کتاب “۲۰۰۰ کے بعد کا اسرائیل” میں ایک مکتب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو یہودی ریاست کے سامنے رکاوٹ بنا ہوا ہے اور وہ اس مکتب کو “خمینی ازم” کا مکتب کہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انقلاب کے بعد مراجع تقلید حکومت کے ساتھ متحد ہوئے اور “اسرائیل کی نابودی” کا نعرہ زور پکڑ گیا اور خمینی ازم کا تفکر ـ جو دین اور دینی حکومت پر استوار تفکر ہے ـ معرض وجود میں آیا۔
ایران نے اسرائیل مخالف عرب ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ایران ـ عرب اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ اقدام علاقے میں امریکہ کی مداخلت اور عراق کی حمایت کرکے ایران پر حملے سے علاقے کے توازن بگڑنے کا باعث بنا، اس طریقے سے کہ عربوں کو “واحد دشمن” نظر آیا اور وہ مشترکہ دشمن ایران کے سوا کوئی نہ تھا۔
اسرائیل کی حیات کے لئے بحرانوں کو جنم دینا
ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں صرف چند ممالک نے ایران کی حمایت کی، جبکہ علاقے کے زیادہ تر ممالک نے ایران کے خلاف تلواریں سونت لیں اور اپنی پوری قوت عراق کے پلڑے میں ڈال دی اور اس کو مالی اور جانی امداد سمیت بڑی مقدار میں اسلحہ فراہم کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ عراق کو داعش کے ساتھ لڑائی میں جھونک دیا گیا ہے لیکن وہی عرب ممالک اب عراق کی مدد کو نہیں آئے۔
اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ جو بھی چیز انقلاب اسلامی کی نشوونما کے آگے رکاوٹ وہ یہودی ریاست کی نشوونما کا سبب ہوگی۔ عرب ممالک امریکہ کی گود میں بیٹھ کر یہودی ریاست کی چاپلوسانہ خدمت میں مصروف ہیں اور کافی حد تک خمینی ازم کی پیشرفت روکنے میں مؤثر واقع ہوئے اور اس کا نتیجہ یہودی ریاست کی پیشرفت کی صورت میں برآمد ہوا۔
آٹھ سالہ جنگ کے بعد یہودی ریاست اور اس کے حامی ممالک ایران کے ہاں جوہری بم بننے سے خائف تھے۔ چنانچہ امریکہ نے امریکہ، یورپ اور ایشیا میں جمہوری محاذ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بارآور ثابت نہیں ہوئی اور ایران میں جوہری بم بننے کا امکان بڑھ گیا، جس کی وجہ سے مغرب اور یہودی ریاست کی فکرمندی میں اضافہ ہوا اور اسی بنا پر ایران کے خلاف سازشوں میں بھی زبردست آصافہ ہوا۔
اپنی پیراسائٹ نوعیت کی حیات کے بچاؤ کے لئے یہودی ریاست کی ایک کوشش یہ تھی کہ ایران کو عالمی مالیاتی اداروں سے کسی قسم کا قرضہ نہ مل سکے تا کہ اسے اقتصادی گھٹن سے دوچار کیا جائے اور یہی مسئلہ ایران کے راستے کا پتھر رہے۔
بہرحال جس چیز نے مغرب کو تشویش میں مبتلا کیا وہ یہ ہے کہ ان کی ان تمام تر کوششوں اور سازشوں کے باوجود خمینی ازم کی آئیڈیالوجی نے علاقے میں نشوونما پائی جس کا نتیجہ اگلے عشروں میں اسرائیل کی نابودی اور زوال کی صورت میں برآمد ہوگا۔
مغرب کی جانب سے اس آئیڈیالوجی کی راہ میں رکاوٹ ڈلنے کے لئے ایران دشمن محاذ اور خمینی ازم کے فلسفے کے مخالف محاذ کا قیام تھا جو اہم ترین مغربی کوشش تھی۔ یہودی ریاست کو سنہ ۲۰۰۰ کے بعد ایسے ایران کا سامنا کرنا پڑا جس کا مقابلہ کرنے کا واحد اسلحہ “ایٹم بم” اور “دہشت گرد ٹولوں” سے عبارت تھا۔ لیکن امریکہ اپنے حلیفوں کا اعتماد حاصل کرکے ایران کے خلاف دھمکیوں پر اتر آیا تا کہ یہ ملک اپنے موقف سے پسپا ہوجائے۔
یہودی ریاست کی طفیلی زندگی (Parasitic Life)
سوویت روس کے خاتمے اور ایران کے شمال میں وسائل، معدنیات اور اچھی خاصی دولت کے مالک متعدد اسلامی ممالک کے معرض وجود میں آنے کے بعد مغرب اور یہودی ریاست کی لالچی آنکھیں ان ممالک کے دوہنے پر مرکوز ہوئیں۔ کیونکہ یہودی ریاست اپنی بقاء ہی طفیلیت میں دیکھتی ہے جبکہ خمینی ازم کا تفکر خود اعتمادی اور اپنے اوپر بھروسے پر استوار ہے اور یہ تفکر علاقے میں بہت زیادہ کامیاب رہا اور کافی حد تک یہودیوں کے ہاتھوں ان ممالک کے استحصال کی راہ میں رکاوٹ بنا۔
انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور بڑی طاقتوں اور مغرب کے خلاف جدوجہد کا تفکر ـ یا خمینی ازم کا تفکر ـ علاقے میں مغرب اور اس کے حلیفوں کے خلاف ایک یلغار کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنا جو مغرب اور یہودی ریاست کے لئے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ مغرب نے اس تفکر کو ایران تک ہی نہیں بلکہ جماران تک محدود کرنے کی کوشش کی اور آٹھ سالہ جنگ مسلط کی، ایران پر ہمہ جہت پابندیاں لگا دیں، ایران کے خلاف عربی محاذ قائم کیا، پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کو فروغ دیا، منافقین (یا نام نہاد مجاہدین خلق) کے ذریعے نظام اسلام کے مؤثر راہنماؤں کو قتل کرایا جو اس تفکر کو دنیا بھر میں فروغ دے سکتے تھے۔
مغرب اور مستکبرین کا کام ہی کمزوروں کا استحصال ہے اور ایران بھی کسی زمانے میں کمزور ممالک کے زمرے میں آتا تھا لیکن انقلاب اسلامی کے بعد اس دلدل سے نکل آیا؛ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغربی استکبار و استعمار کس طرح عرب ممالک کو ڈیری گایوں کی طرح دوہ رہا ہے۔ اکثر مغربی سرمایہ دار یہودی اور صہیونی ہیں اور وہ سب ایک چیز کے درپے ہیں: یہودی ریاست کو طاقتور بنانا اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کو ممکن بنانا۔
وہ یہودی مفکرین جو اپنے ذرائع ابلاغ میں ایران کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں دینی آئیڈیالوجی کا حامل ایران، جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران سے زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ وہ ایرانی عوام کے دینی افکار کے آگے تنازعات اور شکوک و شبہات کھڑے کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ کس قسم کی فکر ہے جس نے علاقے ہی کو نہیں پوری دنیا میں نزاع کھڑا کیا ہے اور دنیا بھر کو چیلنج کررہا ہے؟
جی ہاں یہ فکر خمینی کبیر کی فکر ہے جس نے ایک دنیا کو اپنے کلام سے بدل کر ڈالا، استکبار مخالف فکر، بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنے والی فکر، اور ان ممالک کے خلاف جنگ کی فکر جو صرف اپنے لئے حق حیات کے قائل ہیں اور دوسرے انسانوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی ہماری بھیڑیں ہیں اور باقی لوگ واجب القتل!!!
خمینی ازم کا تفکر
امام خمینی کا مکتب یا خمینی ازم نہیں چاہتا کہ صہیونیت طاقتور بنے وہ اس کے خلاف لڑتا ہے کیونکہ اس مکتب کے دانشور جانتے ہیں کہ اگر اسرائیل اور یہودی ریاست طفیلیت پر مبنی حیات کے ہوتے ہوئے علاقائی طاقت میں بدل جائے تو اس کا سب سے پہلا ہدف یہ ہوگا کہ اس کا کوئی ہمسر اور کوئی رقیب نہ رہے جبکہ اس کا سب سے پہلا اور بڑا دشمن ایران ہے اور دشمن نمبر ۲ عرب برادریاں ہیں لیکن عرب ممالک کے حکمران پوری حماقت میں علاقے کے اس طفیلی وجود کے جال میں پھنس چکے ہیں۔
بقلم: حیدر احمدی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

ہندوستان پر صہیونیت کا سایہ

  • ۳۸۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے قیام کے بعد جہاں دنیا بھر سے بہت سارے یہودیوں نے مقبوضہ فلسطین کا رخ کیا وہاں ہندوستان سے بھی ہجرت کرنے والے یہودیوں کی تعداد تقریبا ۲۵۰۰۰ بتائی جاتی ہے۔
یہ تعداد اگر چہ ہندوستان کی آبادی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہودی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد اچھی خاصی ہے اس تعداد کے اسرائیل ہجرت کرنے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو ایک نیا رخ ملا۔
یہودی قومیں
ہندوستان کے یہودی تین قوموں پر مشتمل تھے:
الف: بنی اسرائیل؛ اس قوم کے کچھ گھرانے یروشلم میں ہیکل سلیمانی کے مسمار کئے جانے کے بعد ہندوستان ہجرت کر گئے تھے اور بمبئی اور اس کے اطراف و اکناف میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔
ب؛ کوچینی؛ یہودیوں کی یہ قوم گزشتہ صدیوں میں ’’مالابر سواحل‘‘ سے ہجرت کر کے جنوبی ہندوستان میں گئی تھی۔
ج؛ بغدادی؛ انیسویں صدی کے اواخر میں یہ قوم بغداد، ایران اور افغانستان سے ہندوستان گئی اور اس بے کلکتہ اور بمبئی میں رہائش اختیار کی۔
صہیونی تنظیمیں
ہندوستان میں رہنے والے یہودی معاشرے میں صہیونیزم نے اپنے مراکز اور تنظیمیں قائم کیں جن میں سے بعض کی صہیونی ریاست براہ راست حمایت کرتی ہے۔ یہ تنظمیں ہندوستان اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی بحالی بھی موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں درج ذیل ہیں:
بمبئی صہیونی ایسوسیشن (Bomboy zioneSt Association)
کلکتہ صہیونی ایسوسیشن ((Calcutta Zionest Association
یونائیٹڈ اسرائیل اپیل (united Israel appeal)
یونائیٹڈ اسرائیل اپیل کمیٹی (united Israel AppealCommittee)
بنی اکیرا (Bnei akira)
ہابونیم انسٹیٹیوٹ ((Habonim Institute
یہودی ایجنسی برائے مشرقی ہند (Jewish Agency in For East)
ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے عصر حاضر میں فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے میدان میں اسرائیل بھارت کا بہترین معاون ہے اور ہندوستان اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی پاٹنر ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان تعلقات جو ۱۹۹۲ میں اندراگاندھی کے دور حکومت سے خفیہ طور پر اور راجیوگاندھی کے دور میں علانیہ طور پر مضبوط ہوئے مودی سرکار میں عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ ہندوستان گزشتہ دور میں اسرائیل کے ساتھ شدید مخاصمت رکھتا تھا اور تقریبا ۲۵ سے ۳۰ سال تک وہ اسرائیل کو پاکستان کے تناظر سے دیکھ رہا تھا اگر چہ بہت سارے بھارتی حکمران اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سیاسی پالیسی رکھتے تھے۔ ان دو ملکوں کے درمیان گزشتہ دور میں پائے جانے والے مخاصمانہ رویہ کی اصلی وجہ انگریزوں کا کردار تھا کہ ہندوستان کی آزادی اور ہند و پاک کی تقسیم کے بعد بھارتی انتہا پسند اسرائیل کو دوسرا پاکستان سمجھتے تھے کہ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح بظاہر مذہبی بنیاد پر وجود میں لایا گیا ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہندوستان پاکستان کو بھی اسرائیل کے ہمفکر قرار دیتا تھا! (۱)
راقم الحروف کی نظر میں بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں فروغ سے نہ صرف بر صغیر میں مسلمان معاشرے کو کمزور بنایا جائے گا بلکہ قوم پرست ہندو سماج کو مزید تقویت ملے گی اور ممکن ہے مستقبل میں بر صغیر کے مسلمانوں کا وہی حال ہو جو اس وقت غزہ کے مسلمانوں کا ہے۔
یہودیوں کی فوق الذکر تنظیمیں ایک طرف سے بمبئی میں اسرائیلی قونصلٹ کی مکمل حمایت کے تحت ان دو ملکوں کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری طرف میڈیا پر قبضہ جما کر کوشش کر رہی ہیں ابلاغیاتی فضا میں ان تعلقات کو عام سی بات بنا کر پیش کیا جائے(۲)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بسنے والے بعض ہندوستانی بطور دائم سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں تاکہ اس ملک میں موجود صہیونی لابیوں کے تعاون سے برصغیر خصوصا بھارت میں اسرائیلی مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکہ کا تعاون حاصل کریں۔ ان سیاسی سرگرمیوں کا واضح مصداق ’’آئی پیک‘‘ تنظیم ہے۔ یہ معاشرہ جو بھارتی امریکی معاشرہ معروف ہے آبادی کے لحاظ سے دو ملین سے زیادہ نہیں ہے اور امریکی یہودیوں کی بنسبت اقلیت میں ہے لیکن امریکہ اور ہندوستان میں اپنے گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے بھارت میں اسرائیلی پالیسیوں کو اجرا کروانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس حوالے سے جو دوسرا گروہ سرگرم عمل ہے وہ Confederation of Indian Industries کا گروہ ہے جو امریکہ میں تجارتی سرگرمیوں کے زیر سایہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے۔
حواشی
۱؛ ہند و اسرائیل تعلقات پر ایک نظر، اسٹیفن کوہن، ص ۱۰،۲۰
۲؛ بھارتی ادیان، ص ۷،۱۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہودیوں اور ابلیس کے درمیان شباہتیں

  • ۴۴۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی اور ابلیس کی خصوصیات اور صفات نیز ان کا راستہ ایک جیسا ہے اور یہ ہمیشہ ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں اور ان کے اہداف ایک جیسے ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کئی مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ابلیس کی دشمنی کا تذکرہ کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ کتنے عظیم گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں گویا آغاز عالم سے ہی بنی اسرائیل کی طینت اس کا سرچشمہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
“وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِیلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیهِم مِّن رَّبِّهِمْ لأکَلُواْ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَکَثِیرٌ مِّنْهُمْ سَاء مَا یَعْمَلُونَ؛ اور اگر وہ توریت اور انجیل اور اس کو جو ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے اترا تھا ٹھیک طرح قائم رکھتے تو وہ کھاتے پیتے اپنے اوپر سے اور اپنے پیروں کے نیچے سے ان میں سے بس ایک گروہ تو اعتدال پر ہے اور زیادہ ان میں سے بڑا برا کردار رکھتے ہیں”۔ (سورہ مائدہ، ۶۶)
کچھ نمونے:
۱۔ حسد
ابلیس نے آدم(ع) کے ساتھ اور بنی آدم کے ساتھ حسد برتا اور حسد ابلیس کی وجۂ شہرت ہے۔ یہاں تک کہ حسد کی بنا پر اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور راندۂ درگاہ ہوگیا لیکن کبھی بھی آدم کو سجدہ نہیں کیا۔ یہودی البتہ ابلیس سے زیادہ حاسد ہیں۔ کیونکہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ حسد کیا اور کہہ ڈالا:
“اقْتُلُواْ یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً یَخْلُ لَکُمْ وَجْهُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْماً صَالِحِینَ؛ قتل کر دو یوسف کو یا کسی اور سر زمین پر لے جا کر ڈال دو کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو جائے اور تم اس کے بعد پھر نیک لوگ ہو جانا”۔
(سورہ یوسف، آیت ۹)
۲۔ غرور اور خودغرضی
ابلیس نے اللہ کی بارگاہ میں گستاخانہ انداز سے اپنی آواز بلند کردی اور غرور، خودغرضی اور نسل پرستی کی بنا پر کہا:
قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَاْ خَیْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِینٍ؛ ارشاد ہوا کیا امر تجھے مانع ہوا جو تو سجدہ نہ کرے باوجودیکہ میں نے تجھے حکم دیا۔ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے”۔
(سورہ اعراف، آیت ۱۲)
یہودی بھی نسل پرستی اور کبر و غرور کی بنا پر چلا چلا کر کہتے تھے کہ ہم اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں:
“وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُم بِذُنُوبِکُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ؛ اور یہودیوں اور عیسائیوں کا قول ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ کہو کہ پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے بلکہ تم بھی اس کے مخلوقات میں سے کچھ انسان ہو”۔
(سورہ مائدہ، آیت ۱۸)
۳۔ زمین میں فساد پھیلانا
ابلیس کا کام اصولا روئے زمین پر فساد اور برائی پھیلانا ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
“یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَن یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَإِنَّهُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ؛ اے ایمان لانے والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو اور جو شیطان کے قدم بقدم چلے گا تو وہ بلاشبہ شرمناک کام اور برائی ہی کے لئے کہتا ہے”۔ (سورہ نور، آیت ۲۱)
خداوند متعال قرآن کریم میں یہودیوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
“الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَـئِکَ هُمُ الْخَاسِرُونَ؛ جو اللہ سے کیے ہوئے معاہدے کو اس کے استحکام کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس رشتہ کے ملائے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، اسے وہ کاٹ ڈالتے ہیں اور دنیا میں خرابی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھاٹے میں رہنے والے ہیں”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۲۷)
۴۔ انسانیت کے دشمن
خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے ابلیس بنی آدم کا شدید ترین دشمن ہے اور انسانوں کو حکم دیتا ہے کہ ابلیس کو اپنا دائمی ابدی دشمن سمجھیں اور قرار دیں، اور ارشاد فرماتا ہے:
“إِنَّ الشَّیْطَآنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِینٌ؛ بلاشبہ شیطان تم دونوں کا کھلا ہوا دشمن ہے”۔ (سورہ اعراف، آیت ۲۲)
ارشاد ہوتا ہے:
“إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ؛ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے میں مبتلا کرکے تمہارے درمیان کینہ و عداوت ڈالتا رہے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے باز رکھے تو کیا اب تم باز آؤ گے؟ (سورہ مائدہ، آیت ۹۱)
نیز ارشاد ہوتا ہے:
“إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً؛ یہ حقیقت ہے کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو۔
اب مؤمنین کے ساتھ دشمنی کے بارے میں قرآن کریم کیا ارشاد دیکھتے ہیں:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ؛ یقینا آپ سخت ترین دشمن مسلمانوں کا پاؤ گے یہودیوں کو”۔ (سورہ مائدہ، ۸۲)
۵۔ اللہ تعالی کا انتباہ: ان کی پیروی نہ کرو
خداوند متعال نے مؤمنین کو خبردار کیا ہے کہ شیطان کی پیروی نہ کریں اور ان کے ساتھ دوستی سے اجتناب کریں:
“وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِین؛ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے”۔
(سورہ بقرہ، آیت۱۶۸ و آیت ۲۰۸؛ سورہ انعام، آیت ۱۴۲؛ سورہ نور، آیت ۲۱)
نیز اللہ تعالی مؤمنوں کو یہود اور نصاری کے ساتھ دوستی سے بھی خبردار فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ ان کی دوستوں اور پیروکاروں میں شامل نہ ہوں:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛ اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے تم میں سے ان سے دوستی کی تو وہ ان ہی میں سے ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔ (سورہ مائدہ، آیت ۵۱)
۶۔ خیانت، غداری اور عہد شکنی
عہدشکنی شیطان کی فطرت میں شامل ہے؛ وہ عہد و پیمان کو نظر انداز کرتا ہے جیسا کہ یہودی نیز عیسائی بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور معاصر تاریخ میں یہود و نصاری کی عہدشکنیوں کی داستانیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
شیطان کی عہدشکنانہ خصلت کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
“وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الأَمْرُ إِنَّ اللّهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ؛ اور شیطان کہے گا اس وقت کہ جب جو ہوتا ہے وہ ہو جائے گا کہ بے شبہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا؛ اور میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ خلافی کی”۔
(سورہ ابراہیم، آیت ۲۲)
آج کے زمانے کے یہودی ـ بطور خاص سیاسی یہودی ـ صہیونیت اور ماسونیت کے پیروکار اور شیطان پرستانہ عقائد کے حامل ہیں۔ یہودی بھی ابتدائے تاریخ سے عہد شکن رہے ہیں اور وعدہ خلافی کرتے ہیں بالکل شیطان کی طرح، جو ان کے وجود میں مجسم ہوچکا ہے؛ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
“وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاء ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْاْ بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ؛ اور جب کہ اللہ نے ان سے جنہیں کتاب دی گئی تھی، عہدوپیمان لیا تھا کہ تم اسے ضرور لوگوں کے لیے واضح طور پر پیش کرتے رہو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں تو انھوں نے اسے اپنے پس پشت ڈال دیا اور اس کے عوض میں ذرا سی قیمت وصول کر لی تو کیا بری بات ہے وہ معاملت جو انھوں نے کی ہے”۔
(سورہ آل عمران، آیت ۱۸۷)
نیز قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
“أَوَکُلَّمَا عَاهَدُواْ عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِیقٌ مِّنْهُم بَلْ أَکْثَرُهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ؛ اور یہ (یہودی) جب بھی کوئی عہد کریں گے تو ان میں سے ایک جماعت اسے پس پشت ضرور ڈال دے گی بلکہ زیادہ ایسے ہی ہوں گے جو ایمان نہ لائیں گے”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۰۰)
۷۔ ابلیس اور یہودی مؤمنوں کو کفر سے دوچار کرتے ہیں
شیطان کی آرزو ہے اور اس کو توقع ہے کہ مؤمنوں کو کافر کردے، لہذا راہ حق اور آزادی اور کامیابی و فلاح کے راستے میں گھات لگا کر بیٹھتا ہے جس طرح کے راہزن اور ڈاکو قافلوں اور مسافروں کی راہ میں گھات لگا کر بیٹھتے ہیں؛ چنانچہ شیطان اللہ سے عرض کرتا ہے:
“قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْتَنِی لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیمَ ٭ ثُمَّ لآتِیَنَّهُم مِّن بَیْنِ أَیْدِیهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَیْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ؛ اس نے کہا تو جیسا تو نے مجھے گمراہ قرار دیا ہے، اب میں ضرور بیٹھوں گا ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر ٭ پھر میں آؤں گا ان کی طرف ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے اور تو ان میں سے زیادہ کو شکر گزار نہیں پائے گا”۔ (سورہ اعراف، آیات ۱۶-۱۷)
معاصر تاریخ میں گناہ اور برائی اور فساد اور اخلاقی تباہی کے تمام بڑے اڈے اور آج کل کے زمانے میں گناہ کی ترویج کے تمام وسائل اور شیطان پرستی کے فروغ کا پورا انتظام نیز اسلامو فوبیا کے تمام منصوبے یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ قرآن کریم بنی اسرائیل کے دلوں میں چھپی ہوئی سازشوں اور بدنیتیوں کو برملا کرتا ہے اور ان کے مکر و فریب کے پردوں کو چاک کرتا ہے، ان مسلمانوں کی گمراہی کی شدید یہودی خواہشوں کو بےنقاب کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہودیوں کا ارادہ، خواہش اور منصوبہ ہے کہ تم مرتد ہوجاؤ اور اسلام کو ترک کرو، وہ بھی ایسے وقت میں کہ وہ جان چکے ہیں کہ مؤمنین برحق ہیں؛ ارشاد فرماتا ہے:
“وَدَّ کَثِیرٌ مِّنْ أَهْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُم مِّن بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ؛ بہت سے اہل کتاب کی دلی خواہش یہ ہے کہ کسی طرح ایمان کے بعد پھر دوبارہ تم لوگوں کو کافر بنا لیں صرف حسد کی وجہ سے جو ان کے نفوس میں ہے۔ باوجود یکہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۰۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

 

کیا غاصب جعلی اسرائیل قرآن میں مذکورہ بنی اسرائیل کے وارث ہیں؟ (۲)

  • ۴۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ
فلسطین کا تاریخچہ:
حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے ۲۵۰۰ سال قبل، کئی عرب نژاد قبائل جزیرہ نمائے عرب سے بحیرہ روم کے جنوبی ساحلی علاقوں کی طرف کوچ کرگئے۔ ان میں سے کچھ قبائل فلسطین میں سکونت پذیر ہوئے۔ ان کا پیشہ کاشتکاری اور زراعت سے عبارت تھا اور وہ کنعانی کہلائے اور اسی بنا پر سرزمین فلسطین ارض کنعان کہلائی۔
کچھ عرب قبائل لبنان میں رہائش پذیر ہوئے اور ان کا پیشہ کشتیرانی سے عبارت تھا۔ انہیں فینیقی (Phoenicians) بھی کہا گیا ہے۔
کنعانیوں کا ایک اہم قبیلہ “یبوسی” قبیلہ تھا جو بیت المقدس میں رہائش پذیر تھا اسی بنا پر قدیم زمانے میں بیت المقدس کو یبوس بھی کہا جاتا تھا۔
غاصب اسرائیلی ریاست کی تشکیل کا تاریخچہ:
غاصب اسرائیلی ریاست نظری لحاظ سے ایک “ماسونی ـ صہیونی” تحریک کا نام ہے اور عملی لحاظ سے ـ بطور خاص مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں ـ استکباری دنیا کا انتظامی مرکز ہے۔ کسی وقت استکباری دنیا کا سرغنہ برطانیہ تھا اور آج امریکہ ہے۔
ایک۔ فلسطینی قوم ـ جو اسلام، عیسائیت اور یہودیت پر مشتمل تھی ـ صدیوں سے اس سرزمین میں قیام پذیر تھی۔ یہاں تک کہ سنہ ۱۰۹۹ع‍میں صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور عیسائیوں نے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
یورپی اور عیسائی مؤرخین کہتے ہیں کہ انھوں نے صرف بیت المقدس کی حدود میں ۶۰۰۰۰ افراد کا قتل عام کیا اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ (۶)
فلسطین ۸۸ سال کے عرصے تک صلیبیوں کے زیر تسلط رہا اور انھوں نے اس عرصے میں مسلمانوں کے ساتھ نہایت بےرحمانہ سلوک روا رکھا۔ یہاں تک کہ سنہ ۱۱۸۷ع‍(بمطابق ۵۸۳ہجری) میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دی اور اور فلسطین بشمول بیت المقدس مسلمانوں کی آغوش میں پلٹ آیا۔
دو۔ سنہ ۱۸۸۰ع‍میں قوم فلسطین کی آبادی پانچ لاکھ تھی جن میں یہودیوں کی تعداد صرف ۲۴۰۰۰ تھی؛ یعنی ۵ فیصد سے بھی کم۔ سنہ ۱۸۹۶ع‍میں ایک آسٹریائی یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) نے ایک کتاب لکھی اور صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی جس کا نصب العین یہ تھا کہ “یہودی کسی ایک سرزمین میں اپنی ریاست قائم کریں”۔
تین – ایک سال بعد، سنہ ۱۸۹۷ع‍میں سوئیٹزلینڈ کے شہر بیسل (Basel) میں صہیونی کانگریس کا اہتمام کیا گیا اور فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے کے لئے پوری دنیا سے یہودیوں کی فلسطین ہجرت اور ایک اسلامی سرزمین میں یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ منظور کیا گیا۔
اس منصوبے کے تحت ایک سال کے مختصر عرصے میں فلسطین میں (فلسطینی اور غیر فلسطینی) یہودیوں کی آبادی ۵ فیصد سے بڑھ کر ۱۱ فیصد تک پہنچ گئی۔ یعنی فلسطین کی کل آبادی (۷۵۰۰۰۰ افراد میں) یہودیوں کی تعداد ۸۵ ہزار تک پہنچی، البتہ اس دوران بھی مسلمانوں کی نسل کشی رائج تھی۔
چار – پہلی عالمی جنگ کے دوران سنہ ۱۹۱۷ع‍میں انگریز وزیر خارجہ بالفور نے ایک اعلامیئے کے تحت فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام اور اس کی حمایت کی برطانوی پالیسی کا اعلان کیا۔
ایک سال بعد، برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ جمایا اور غیر فلسطینی یہودیوں کی فلسطین ہجرت کا سیلاب امڈ آیا۔ سنہ ۱۹۱۹ع‍سے ۱۹۲۳ع‍کے چار سالہ عرصے میں ۳۵ ہزار غیر فلسطینی یہودی فلسطین میں آ بسے۔
برطانوی حکومت نے ۱۹۳۲ سے ۱۹۳۵ع‍کے عرصے میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار یہودیوں کو برطانیہ اور برطانیہ کی نوآبادیوں سے فلسطین منتقل کیا اور ۱۰ہزار یہودی بلا اجازت اور غیر قانونی طور پر فلسطین میں آ ٹپکے۔ یوں یہودیوں کی آبادی کی شرح ۵ فیصد سے ۳۰ فیصد تک پہنچی۔
پانچ – دوسری عالمی جنگ بہترین بہانہ بن گئی۔ یہ جنگ عیسائیوں کے درمیان تھی لیکن ہٹلر کی کشورگشائی کو یہودکشی کا نام دیا گیا اور جنگ کے اہداف میں تحریف کی گئی حالانکہ اس جنگ میں سات کروڑ انسان مارے گئے تھے لیکن یورپی قوانین میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس جنگ کے حوالے سے صرف یہودی ہالکین کو موضوع سخن بنائیں؛ اور جہاں خدا اور انبیاء الہی حتی کہ عیسی علیہ السلام کی توہین کو بیان کی آزادی کے تحت جائز قرار دیا جاتا ہے، قرار دیا گیا کہ کسی کو بھی یہ حق اور اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیقات میں اس قانون کو چیلنج کرے اور یہودیوں کے ہالکین کی تعداد کو ساٹھ لاکھ سے کم گردانے اور اس قانون کا نام “ہالوکاسٹ” کا قانون رکھا گیا۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ یہودی ہلاک شدگان کی تعداد اتنی ہی تھی تو یہ تعداد جنگ کے مجموعی مقتولین میں ۱۰ فیصد سے بھی کم تھے اور اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ مقرر کیا گیا کہ یہودی ہلاک شدگان کا تاوان جرمنوں کے جائے فلسطینی مسلمانوں سے وصول کیا جائے!! اور مسلمانان عالم ان ہی یورپیوں اور امریکیوں کو انسانی تہذیب کا نقیب قرار دیتے رہے۔
چھ – سنہ ۱۹۴۵ع‍میں برطانیہ نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ مل کر ایک لاکھ یہودیوں کو امریکہ اور یورپ سے فلسطین بھجوایا اور ۱۹۴۷ع‍میں فلسطین کی کل آبادی اٹھارہ لاکھ سرسٹھ ہزار تک پہنچی جس میں یہودیوں کی آبادی چھ لاکھ پندرہ ہزار (یعنی ۳۲٫۹ فیصد) تھی جبکہ مسلمانوں کی آبادی دس لاکھ نوے ہزار (یعنی ۵۸٫۴ فیصد) تھی جبکہ اس آبادی میں ایک لاکھ پچاس ہزار (یعنی ۷٫۸ فیصد) کے لگ بھگ عیسائی شامل تھے۔
سات – سنہ ۱۹۴۸ع‍نے ـ جس نے یہودی ریاست کے لئے مناسب ماحول فراہم کرلیا تھا ـ فلسطین سے انخلاء کا اعلان کیا اور یہودی پناہ گزینوں نے اس سرزمین کو غصب کرلیا۔ جس طرح کہ بعد کے برسوں میں امریکیوں اور انگریزوں نے بظاہر افغانستان اور عراق سے انخلاء کا اعلان کیا اور چند قومی دہشت گردوں کو اپنے متبادل کے طور پر ان ملکوں پر مسلط کیا۔ یہودی پناہ گزینوں نے بلا روک ٹوک کے فلسطینیوں کا قتل عام کیا اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ یہاں تک کہ ڈیوڈ بن گورین نے تل ابیب میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔
غاصب اسرائیلی ریاست کے اعلان کے بعد فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں شدت آئی اور زیادہ شدت سے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور یہ سلسلہ آج [۲۰۱۸ع‍] میں بھی جاری ہے۔
نکتہ: تو جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، اسرائیل کی صہیونی ـ یہودی ریاست کا قوم بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ جو فلسطینی تھے ـ جس قوم سے بھی تعلق رکھتے تھے ـ ان کی اکثریت نے اسلامی قبول کیا اور کچھ لوگ عیسائی اور ایک چھوٹی اقلیت یہودی رہے۔
۔ کردوں کے لئے ایک الگ سرزمین اور غاصب اسرائیل کی طرح، امریکہ، برطانیہ اور یہودی ریاست کی حمایت سے کردی ریاست ـ جو درحقیقت دہشت گردوں اور شرپسندوں کی سرزمین ہوگی ـ کے قیام کے بہانے القاعدہ، داعش، النصرہ اور ان جیسے دہشت گرد اور خونخوار ٹولوں کی پرورش کی روش، بالکل غاصب اسرائیلی ریاست کی مانند ہے۔
ابتداء میں شیطانی استکباری طاقتوں نے اعلان کیا کہ مشرق وسطی کے جدید نقشے میں، بہت سے ملکوں کو تقسیم ہونا چاہئے، بعدازاں اعلان کیا کہ کردوں کے لئے ایک خودمختار کردی ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔، بعدازاں مغربی طاقتوں نے دہشت گرد ٹولوں کو تشکیل دیا، انہیں تربیت دی اور اسلحہ فراہم کیا۔ مغرب اور یہودی ریاست نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کے قتل عام کے سلسلے میں نفرت انگیز مناظر تخلیق کئے تا کہ مسلمانوں کا قتل عام ہو، انہیں خوفزدہ کیا جائے اور اپنا گھر بار اور وطن چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور مسلمانوں کا وسیع قتل عام کرایا۔
اس بار البتہ دہشت گردوں نے اپنے ادارے کا نام “دولۃ الاسلامیہ” رکھا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ لوگ یہودی ریاست کے لئے کام کررہے ہیں اور پھر دنیا بھر کے انسان اسلام اور اس کے نام اور دولت اسلامی سے خوفزدہ ہوجائیں اور اسلامو فوبیا کو فروغ ملے۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ سترہ ہزار داعشیوں میں بارہ ہزار غیر ملکی بھی شامل ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق یورپ سے ہے۔
یورپ نے ایک طرف سے داعش اور اس جیسے خونخوار اور نسل کش ٹولوں کو پروان چڑھایا، مسلح کیا، حربی آلات سے لیس کیا اور عراق اور شام کا چوری کا تیل خرید کر انہیں صاحب ثروت بنایا اور اپنے ملکوں سے رضاکارانہ طور پر داعش اور دوسرے ٹولوں میں شامل ہونے کو سفر اور شمولیت کا امکان فراہم کیا اور اپنے حلیف ملک ترکی کو انہیں شام میں اور عراق میں بھجوانے کا ٹاسک دیا اور اب انھوں نے اعلان کیا ہے کہ یورپی دہشت گردوں کو ندامت اور توبہ کا حق حاصل نہیں ہے تا کہ وہ علاقے کے مسلم ممالک کے اندر رہ کر لڑیں۔
امریکہ نے بھی دہشت گردوں کے ساتھ نوراکشتی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے اپنی افواج کو ان ممالک میں متعین کرے اور ان ممالک کی تقسیم میں براہ راست کردار ادا کرسکے۔
امریکہ کا سرکاری اعلان یہ کہ داعش اور اس جیسے دہشت گردوں کو کم از کم ۲۰ سال کے عرصے تک زندہ اور سرگرم رکھا جائے گا۔ گوکہ بظاہر ان کا کہنا ہے کہ “ان ٹولوں کا خاتمہ ۲۰ سال تک ممکن نہیں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ آلبرائٹ ، ص۲۳۶؛ ڈانئیل ـ ریپس ، ص۱۴ـ ۱۵؛ اسمارٹ، ص۳۸۴ـ۳۸۵۔۔۔
۲۔ قرآن سمیت اسلامی منابع و مآخذ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام تھے۔
٭۔ سورہ، مائدہ، آیات ۲۴ تا ۲۶۔
۳۔ بیک، ص۲۸ـ ۴۸؛ اسمارٹ، ص۲۹۱؛ د۔ جوڈائیکا، ج۸۔
۴۔ د۔ جوڈائیکا ، ج۸، کالم ۵۹۳ ـ۵۹۹۔
۵۔ عہد قدیم، پیدائش ، باب ۳۲: ۲۷ـ ۲۸۔۔۔ یہودیوں کی تحریف شدہ کتاب میں آیا ہے کہ یعقوب(ع) پیغمبری کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا اور بندگان خدا پر غلبہ پانے کے بعد اسرائیل کہلائے۔
۶۔ گستاولی بون، تاریخ تمدن اسلام و عرب، ص۴۰۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تحریک فلسطین کی کامیابی میں ایران کا کردار

  • ۵۷۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مصری صدر جمہوریہ، انور السادات پہلے عرب حکمران تھے جنہوں نے “جنگ رمضان” کے عنوان شہرت پانے والی ۱۹۷۳ کی جنگ کے بعد، اسرائیل کے ساتھ سازباز کا راستہ اپنایا اور یہودی ریاست کو تسلیم کیا اور کیمپ ڈیویڈ نامی سازباز کی قرارداد منعقد کرکے جعلی ریاست کا مقابلہ کرنے اور فلسطین کی آزادی کے سلسلے میں عربی امت کی ناامیدی کے اسباب فراہم کئے۔
حضرت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) نے فلسطینی کاز اور امت اسلامی کے ساتھ اس خیانت و غداری کی بارہا مذمت فرمائی اور انورالسادات کی صلح کے سلسلے میں فرمایا:
“میں سنجیدگی کے ساتھ انور السادات کے اقدامات کی مذمت کرتا ہوں، سادات نے اسرائیل کے ساتھ صلح کی سازش قبول کرکے حقیقتاً امریکہ کی استعماری حکومت سے اپنی وابستگی کو مزید آشکار کردیا اور مصری قوم کو چاہئے کہ اس غدار کو اپنے ملک سے دور کردے اور امریکہ اور صہیونیت سے اپنے ملک کی وابستگی کے دھبے کو اپنے ملک کے ماتھے سے مٹا دے”۔
بے شک؛ ایران کے اسلامی انقلاب نے نہ صرف فلسطینی عوام کے اسلامی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ عالم اسلام کی بیداری اور ہوشیاری میں بھی اس کا کردار ناقابل انکار ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب اسلام پسندی، استکبار کے خلاف جدوجہد اور اسلامی اقوام کے درمیان اسلامی حکومتوں کے قیام کے حوالے سے ایک مثالی نمونے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ مغربی کیمپ اور غیر جمہوری عرب ممالک کے سربراہان کے لئے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکا ہے۔ وہ بخوبی اس حقیقت کا ادراک کرچکے ہیں کہ اتنے وسائل اور امکانات کے ہوتے ہوئے، عالم اسلام کی بیداری، مغربی دنیا اور غیر جمہوری عرب حکومتوں کے سربراہوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ انقلاب اسلامی دینی تعلیمات کی طرف بازگشت، اپنی قوتوں پر بھروسہ کرنے، فلسطینی مجاہدین کی طرف سے اسلامی نظام کو نمونۂ عمل قرار دیئے جانے، دشمنوں کے خلاف جہاد کے لئے مسجد کو کمان کا اصل مرکز قرار دینے، اسلام کی بنیاد پر وحدت و یکجہتی اور جہادی تنظیموں کے قیام کے حوالے سے ملت فلسطین پر گہرے اثرات مرتب کرچکا ہے یہاں تک کہ انتفاضہ تحریک اسلامی انقلاب سے ملت فلسطین کی اثر پذیری کا ثمرہ ہے۔
فلسطینی بحران کا انتظام طویل عرصے تک عرب حکومتوں اور فلسطینی چھاپہ مار تنظیموں کے زعماء کے ہاتھ میں رہا لیکن وہ جاری قواعد میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، امام خمینی کی ہدایات اور راہنمائیوں کی روشنی میں ـ جو مسئلہ فلسطین کو اسلامی مزاحمت اور اسرائیل کے ساتھ سازباز سے اجتناب کے دریچے سے دیکھتے تھے ـ اس مسئلے میں عظیم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
لبنان میں حزب اللہ کی کامیابی امام خمینی کے تفکرات کے مرہون منت ہے۔ سید مقاومت، سید حسن نصراللہ کے مطابق “لبنان میں شروع اور متحرک ہونے والی مزاحمت کی بنیاد اور اساس، اپنی گہرائیوں، اپنی قوت، فعالیت اور سنجیدگی کے لحاظ سے امام خمینی کی طرف ہی پلٹتی ہے اور سنہ ۲۰۰۰ میں صہیونی ریاست کی لبنان سے غیر مشروط پسپائی، صہیونی ریاست پر ان کی اہم ترین کامیابی تھی جو کہ اسلام پسندوں کے ہاتھوں حاصل ہوئی۔
سنہ ۲۰۰۵ میں غزہ کی پٹی سے یہودی ریاست کی پسپائی بھی فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے مرہون منت ہے جس نے اپنے اگلے مرحلے میں انتخابات میں کامیاب ہوکر فلسطینی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ اور انقلابی مشروعیت کے ساتھ انتخابی مشروعیت کو بھی حاصل کرچکے۔
یہ تمام تر عظیم تبدیلیاں امام خمینی کے افکار کے مرہون منت ہیں جنہوں نے انقلاب اسلامی اور جدوجہد کو فلسطین کی آزادی کی بنیاد قرار دیا اور علاقے میں اسلامی مزاحمت کو فروغ دیا۔
تحریک جہاد اسلامی کے شہید قائد ڈاکٹر فتحی شقاقی نے ایران کے اسلامی انقلاب اور فلسطینی جدوجہد پر اس کے اثرات کے بارے میں کہا ہے: “کوئی بھی چیز امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کے انقلاب کی طرح ملت فلسطین کو متحرک نہ کرسکی، اور ان کے جذبات کو نہ ابھار سکی اور فلسطینی ملت کے دلوں میں امید کو زندہ نہ کرسکی۔ انقلاب اسلامی کے بعد ہم جاگ اٹھے اور سمجھ گئے کہ امریکہ اور اسرائیل کو بھی شکست دی جاسکتی ہے، ہم سمجھ گئے کہ دین اسلام کی تعلیمات کی رو سے معجزہ رقم کرسکتے ہیں اور اسی بنا پر فلسطین میں ہماری مجاہد قوم اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور امام خمینی کو تاریخ اسلام کے زندہ جاوید قائد سمجھتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسرائیل کے قیام کا تاریخچہ (۲)

  • ۳۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دوسری عالمی جنگ کے بعد سنہ ۱۹۴۷ میں برطانیہ اگلے سال (۱۹۴۸ میں) فلسطین سے اپنے انخلا اور فلسطین کا انتظام اقوام متحدہ کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔ ۲۹ نومبر سنہ ۱۹۴۷ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قراداد کے تحت فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور اس سرزمین کے ۴۳ فیصد حصے کو عربوں اور ۵۶ فیصد حصے کو یہودیوں کے حوالے کیا اور بیت المقدس کو بین الاقوامی عملداری میں دیا گیا۔
مورخہ ۱۵ مئی کو فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی مدت اختتام پذیر ہوئی تو فلسطین کے تمام ادارے نیست و نابود ہوچکے تھے اور انگریزوں کے انخلاء سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے کوئی بھی ادارہ موجود نہیں تھا۔ یہودیوں نے ـ جو اقوام متحدہ کے تقسیم کردہ علاقوں پر مسلط ہوچکے تھے ـ ایک عبوری حکومتی کونسل تشکیل دی جو ۳۸ اراکین پر مشتمل تھی اور اس کونسل نے ایک تیرہ رکنی کابینہ کا انتخاب عمل میں لایا۔ اسی دن ڈیوڈ بن گورین نے ـ جو بعد میں وزیر اعظم بنا ـ وزارت دفاع کا قلمدان سنبھال لیا اور کابینہ کے قیام کا اعلان کیا۔
اس اقدام کے چند ہی گھنٹے بعد امریکہ اور سووویت روس نے اس ریاست کو تسلیم کیا۔ اور یہودی ایجنسی نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے اعلامیے کے ضمن میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۸۱ کو یہودی عوام کی طرف سے خودمختار ریاست کی تشکیل کا حق تسلیم کئے جانے کا اظہار قرار دیا۔
اس اعلامیے میں البتہ اسرائیل کے لئے کوئی سرحد متعین نہیں کی گئی تھی لیکن یہودی ایجنسی نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے پیغام میں انہیں اسرائیل کے باضابطہ تسلیم کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی کا اعلامیہ ان سرحدوں تک محدود ہے جن کا تعین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کی منظور کردہ قرارداد میں ہوا تھا۔ قرارداد نمبر ۱۸۱ کے ساتھ ساتھ، یہودی ایجنسی نے فلسطین کے سلسلے میں اپنے دعوے کے ضمن میں مقدرات کے فیصلے اور فلسطین پر قدیم یہودی مالکیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور مختلف ملکوں اور اقوام میں سے ہجرت کرنے والے یہودیوں کو قدیم عبرانیوں کا جانشین قرار دیا۔
اسی دن، بوقت شام، مصر، شام، اردن اور لبنان نے نوظہور اسرائیلی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا اور یہ عرب ـ اسرائیل کی پہلی خونریز جنگ تھی۔
اسرائیل کے قیام کے اعلامیے میں فلسطینی عوام ـ جو ۹۷ فیصد سرزمینوں کے مالک تھے ـ کو “غیر یہودی معاشروں” کے تحت سرے سے نظر انداز کیا گیا تھا جس کے باعث پوری دنیا کے یہودی غیر قانونی طور پر فلسطین کی طرف آنا شروع ہوئے اور امریکی صدر ولسن نے بھی اس غیرقانونی ہجرت کی حمایت کا اعلان کیا۔ دوسری طرف سے فلسطین کے خون بھرے واقعات کی وجہ سے عالمی رائے عامہ میں نفرت کی لہر دوڑ گئی اور یہودیوں کی نوزائیدہ ریاست کو شدید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ میں مقیم صہیونی یہودیوں نے بھی اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے یہودی ریاست کی تشکیل پر زور دیا۔ فلسطینیوں پر تشدد اور ان کے آزار و اذیت کے باعث صہیونیوں کے خلاف عالمی غیظ و غضب میں شدت آئی اورانھوں نے اقوام متحدہ سے احتجاج کیا۔ قبل ازیں ـ یعنی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو ـ امریکہ اور سوویت روس نے اپنے ایک غیر معمولی اور نادر مفاہمت نامے کے تحت فلسطینی سرزمین کی دو عرب اور یہودی حصوں میں تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کیا اور اقوام متحدہ سے کہا کہ اس منصوبے کو منظور کرلے؛ جس نے عالم اسلام میں غصے اور نفرت کی لہر دوڑا دی اور سابق سوویت روس اور صہیونیوں کے خلاف بیت المقدس، یافا، حیفا اور فلسطین کے کئی دوسرے شہروں اور کئی اسلامی ممالک میں خونی مظاہرے ہوئے۔
مورخہ ۸ دسمبر ۱۹۴۷ کو عرب لیگ نے ایک نشست میں اقوام متحدہ کے خائنانہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہودی صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ فیصلے کئے۔ سنہ ۱۹۴۸ میں مصری طیاروں نے ابتداء میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو بمباری کا نشانہ بنایا اور لبنان کی بکتر بند یونٹوں نے شمال سے، شام اور اردن نے مشرق اور مصر نے مغرب سے فلسطین کی طرف عزیمت کی۔
ابتدائی دنوں میں اردن کی افواج نے بیت المقدس کے ایک بڑے حصے کو یہودی قبضے سے آزاد کرایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دیکھا کہ جنگ یہودی غاصبوں کے نقصان میں ہے، تو اس نے ۲ جون ۱۹۴۸ کو ـ جبکہ جنگ کے آغاز سے ۱۹ دن گذر رہے تھے ـ جنگ بندی کی اپیل کی۔ یہودیوں نے اس جنگ بندی سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ اور چیکوسلواکیہ کی مدد سے اپنے فوجی دستوں کو کیل کانٹے سے لیس کیا اور اسی سال ماہ ستمبر میں ـ یعنی صرف تین ماہ بعد ـ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا اور فلسطین کے اندر “ہاگانا” یا “یہودی حملہ آور اور دفاعی فوج” نے علاقہ “عکا” پر حملہ کیا جہاں حیفا اور دوسرے عرب علاقوں کے ہزاروں عربوں نے پناہ لی تھی اوران پر زبردست فائرنگ کی۔ اور بعدازاں ہاگانہ کے ساتویں بریگیڈ نے گھمسان کی لڑائی کے بعد شہر “ناصرہ” پر قبضہ کرلیا اور مصر کی طرف پیشقدمی کا آغاز کیا۔
دوسری جنگ میں عرب افواج مشترکہ کمان اور ہماہنگی نہ ہونے کے باعث استقامت نہ دکھا سکے جس کے نتیجے میں اسلامی سرزمینوں کا ۶۰۰۰ کلومیٹر کا رقبہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا اور یہ جنگ اقوام متحدہ کی مداخلت سے اختتام پذیر ہوئی۔
بہار ۱۹۴۹ میں اسرائیل نے مصر، لبنان، ماورائے اردن اور شام کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کرکے اختتام جنگ کے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے۔ لیکن یہ مفاہمت نامے بھی دیرپا ثابت نہ ہوئے اور اسرائیلی ریاست کے حملے وقتا فوقتا جاری رہے۔ اسی سال غاصب یہودی ریاست نے فلسطین کے ۴۰۰ شہروں اور دیہاتوں کو ویراں کردیا اور ویرانوں پر مصنوعی جنگل کاری کا اہتمام کیا۔
چنانچہ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ فلسطینی بےگھر ہوکر عرب ممالک میں پناہ گزین ہوئے اور فریقین کے ہزاروں سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے اور یہودی فلسطین کے ۷۸ فیصد حصے پر مسلط ہوئے۔ دوسری طرف سے دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین آمد میں اضافہ ہوا اور یہ سلسلہ ۱۹۵۱ میں اپنے عروج کو پہنچا۔
جنگ اور فلسطینیوں کے قتل اور ان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں نیز اپنی آبائی سرزمینوں سے ان کے مسلسل فرار کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ معرض وجود میں آیا اور یہ مسئلہ ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ عرب ـ اسرائیل جنگ کا سبب بنا۔

 

اسرائیل کے قیام کا تاریخچہ (۱)

  • ۴۰۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سنہ ۱۸۹۸ع‍ میں آسٹریا میں یہودی صحافی و مصنف “تھیوڈور ہرٹزل” نے “یہودی ریاست” کے زیر عنوان ایک کتاب شائع کی۔ اس نے اس کتاب میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے حق میں دلائل دیئے اور صہیونی تحریک کا خیرمقدم کرنے کے لئے مغربی رائے عامہ کو ایک فکری ماحول فراہم کیا۔ چونکہ یہودیوں کو جرمنی میں سب سے زیادہ سیاسی اثر و رسوخ حاصل اور سرگرمیوں کا ماحول فراہم تھا لہذا ہرٹزل نے ابتداء میں جرمنی کے توسط سے ـ یہودیوں کے فلسطین میں بسانے کے سلسلے میں ـ عثمانی سلطان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مسلمانوں کے اعلان جہاد سمیت متعدد اسباب و عوامل کی بنا پر ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی چنانچہ یہودیوں نے برطانیہ کے دامن میں پناہ لی۔
یہودی عمائدین نے برطانیہ کے نمائندے سائکس کے ساتھ مذاکرات میں، انہیں یقین دلایا کہ “لیگ آف نیشنز” میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی یا پروٹیکٹوریٹ ہونے کی حمایت کریں گے اور فرانس یا کسی بھی دوسرے ملک کو اسے اپنے زیر سرپرستی لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری طرف سے انھوں نے سائکس کو تمام تر مراعاتیں دینے کا وعدہ کیا اور عہد کیا کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اتحادیوں کے حق میں اور جرمنی کے خلاف، مداخلت پر آمادہ کریں گے۔ ان اقدامات سے درحقیقت ۲ نومبر ۱۹۱۷ کے بالفور اعلامیئے کے لئے امکان فراہم کیا گیا۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ بالفور نے لارڈ لوچرڈ کے نام اپنے ایک خط میں ایک قومی یہودی وطن کی تشکیل کی خوشخبری دی۔ یہ خط اعلامیۂ بالفور کے عنوان سے مشہور ہوا۔ اعلامیئے میں کہا گیا تھا:
“فلسطین میں یہودی قومی وطن کی تشکیل کے بابت حکومت برطانیہ کے اشتیاقِ خاص کے پیش نظر، یہ حکومت اس ہدف کے حصول اور اس کے لئے وسائل کی فراہمی کے لئے کوشش کرے گی”۔
اعلامیۂ بالفور کی اشاعت کے بعد، برطانوی افواج نے ۹ دسمبر ۱۹۱۷ کو بیت المقدس پر قبضہ کیا اور خزان سنہ ۱۹۱۸ تک تمام عثمانی افواج کو فلسطین میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور پوری سرزمین فلسطین پر قبضہ کیا۔ ۱۹۱۹ میں فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے مندوبین کی موجودگی میں “سان ریمو” کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں فلسطین کے حالات کا جامع جائزہ لینے کے بعد فیصلہ ہوا کہ مذکورہ ممالک فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی حمایت کرتے ہیں۔
مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۲۲ کو لیگ آف نیشنز کونسل میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی ملک کے قانون کو باضابطہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ برطانیہ کی حمایت کے تحت، عربوں کی مخالفت کے باوجود، یہودیوں کی فلسطین میں ہجرت کے سلسلے کی رفتار میں ـ جو کئی سال پیشتر شروع ہوچکا تھا ـ اضافہ ہوا۔ ادھر ہٹلر کی یہود مخالف پالیسیوں کی وجہ سے بھی فلسطین آنے والے یہودی مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۶ میں فلسطین کی مجموعی آبادی انیس لاکھ بہتر ہزار پانچ سو پچاس تھی جن میں چھ لاکھ آٹھ ہزار یہودی پناہ گزین شامل تھے، جبکہ ۱۹۱۸ میں فلسطین میں یہودی مہاجرین کی تعداد ۵۶۰۰۰ سے زیادہ نہ تھی۔ فلسطین میں آ بسنے والے یہودی مہاجرین کی زیادہ تر تعداد کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے تھا۔
فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے اور علاقے میں ان کی سیاست قوت بڑھ جانے کی بنا پر عربوں نے برطانیہ پر دباؤ بڑھا دیا کہ وہ یہودیوں کی حمایت نہ کرے۔ اس اثناء میں یہودیوں نے فلسطین میں ایک خودمختار لشکر اور ایک خفیہ فوج بنام “ہاگانا” تیار کی تھی۔ اس خفیہ فوج کی ذمہ داری مخالفین پر قاتلانہ حملے کرنا اور عرب آبادی کے خلاف جنگ کرنا تھی۔
برطانیہ نے عرب آبادیوں کو خاموش کرنے اور ان کی بغاوت کا سدباب کرنے کی غرض سے ۱۹۳۹ میں “کتابِ سفید” شائع کرکے اعلان کیا کہ یہودیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ فلسطین میں ایک قومی مرکز قائم کریں، لیکن انہیں خودمختار حکومت قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس اعلامیے نے یہودیوں میں غیظ و غضب کی لہر دوڑا دی اور انھوں نے انگریزوں کی رائے کے برعکس، اپنے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا؛ تا ہم اسی زمانے میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا اور فلسطین کا مسئلہ جنگ کی خبروں تلے دب کر رہ گیا۔

 

کیا جعلی اسرائیل کے عہدیدار قرآن میں مذکورہ بنی اسرائیل کے وارث ہیں؟

  • ۴۹۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اقوام اور ملتوں اور معاشروں کو پہچاننا ہو تو سب سے پہلے ان کے ظہور کے تاریخچے کا گہرا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
یہود کے تاریخی مآخذ نیز مغربی مآخذ نے بنی اسرائیل کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام؛
۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا؛ جن کا البتہ موجودہ اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی ذریت سے ہیں اور آج کے انسانی معاشروں کے تمام افراد ان ہی افراد کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر طوفان کے مہلکے سے چھوٹ گئے تھے۔ یہ تاریخچہ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ چند حصوں میں بیان کیا جاتا ہے:
قوم بنی‌اسرائیل:
الف۔ تاریخی مستندات کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں واقع اور’’کلدانیان‘‘ نامی شہر میں پیدا ہوئے۔ دجلہ اور فرات کے درمیان واقع “بابل” میں سکونت پذیر تھے، نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا، بتوں کو توڑ دیا، آگ میں پھینکے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور پھر اپنے خاندان اور قبیلے کے ہمراہ عراق ہی کے شہر “حران” ہجرت کرگئے۔ اس علاقے کو ـ جو آج عراق کہلاتا ہے ـ رافدین کہا جاتا تھا اور عبری قوم کے کچھ لوگ بھی اس شہر میں سکونت پذیر تھے۔ بعدازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فلسطین، حجاز اور مصر کی طرف ہجرت کی۔ (۱)
ب۔ مغربی اور یہودی مآخذ کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے (۲): اسحاق اور یعقوب، اور یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ وہ کنعان میں سکونت پذیر ہوئے، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات، مصر میں ان کی وزارت عظمی، کنعان میں قحط سالی وغیرہ کے بعد وہ اپنی قوم کے ہمراہ مصر چلے گئے اور یہ قوم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے تک مصر میں رہی۔
۔ ان کی قوم کو فرعونیوں نے آزار و اذیت کا نشانہ بنایا گیا، اور وہ موسی علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے نکل کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے۔ جیسا کہ قرآن میں کریم میں بیان ہوا ہے: “انھوں نے کہا اے موسیٰ !ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اس میں ہیں لہذا بس آپ جائیے اور آپ کا پروردگار اور دونوں لڑ لیجئے۔ ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسیٰ نے کہا پروردگار!میں قابو نہیں رکھتا مگر اپنے اوپر اور اپنے بھائی پر، لہذا تو ہی فیصلہ کردے ہمارے درمیان اور اس بد اعمال جماعت کے درمیان۔ ارشاد ہوا کہ پھر اب وہ ان پر چالیس برس کے لیے حرام ہے، وہ جنگل میں سرگردان پھرتے رہیں گے تو تمہیں ان بداعمال لوگوں پر افسوس نہ ہونا چاہئے”۔
یعنی یہ کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے انہیں ہدایت کی کہ سرزمین فلسطین میں داخل ہوجاؤ، لیکن انھوں نے منع کیا جس کے نتیجے میں وہ ۴۰ سال تک صحرائے سینا میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور بھٹکتے رہے اور ان کی کئی نسلیں وہیں ختم ہوئیں۔ اور نئی نسلیں ظہور پذیر ہوئیں۔
۔ حضرت موسی علیہ السلام کی رحلت کے بعد اور یوشع بن نون کی جانشینی کے دوران، کنعان تدریجی انداز سے فتح ہوا۔ (۳)– بعدازاں بادشاہی کا دور شروع ہوا، طالوت اور داؤود اور پھر سلیمان علیہم السلام اس دور کے طاقتور بادشاہ تھے۔ لیکن اسباط (یعنی فرزندان یعقوب میں سے ہر ایک سے معرض وجود میں آنے والے قبائل) کے درمیان اختلافات نے زور پکڑ لیا اور بادشاہی تقسیم ہوگئی۔ شمالی حصے میں اسرائیلی بادشاہت دس سبطوں پر حکمرانی کررہی تھی۔ اور بنیامین اور یہودا کی اولادوں نے جنوبی فلسطین میں چھوٹی سی بادشاہت تشکیل دی۔
۔ بُختُ النصر (نبوکدنصر) نے حملہ کرکے اسرائیلی بادشاہت پر قبضہ کیا اور ہیکل والی عبادتگاہ منہدم ہوئی اور قوم بنی اسرائیل کو بابل لےجایا گیا۔ سنہ ۵۳۸ قبل از مسیح میں ایران طاقتور ہوا تو کوروش نے بابل کو فتح کیا اور حکم دیا کہ یہودیوں کو اپنی سرزمین میں لوٹایا جائے اور ان پر مہربانیاں کیں اور ان کو اپنی حمایت کے تحت قرار دیا۔ انھوں نے یروشلم کی عبادتگاہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا، لیکن فلسطین پلٹنے کے بعد اسباط کے درمیان اختلاف حل نہیں ہوا اور وہ دوبارہ اپنی خودمختاری حاصل نہ کرسکے۔ یہ قوم ایران کے بعد بالترتیب یونانیوں، بطلیمیسیوں (Ptolemaic Dynasty)، سلوکیوں (Seleucid Empire) اور رومیوں کے زیر تسلط رہے۔ حتی کہ آخرکار سنہ ۷۰ عیسوی میں ـ جب یروشلم میں ہیکل ثانی بھی منہدم ہوا ـ بنی اسرائیلی حکومت انتشار اور شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔ سنہ ۳۹۵ع‍میں سلطنت روم تقسیم ہوئی تو فلسطین مشرقی روم یا بازنطین کا صوبہ ٹہرا جہاں عیسائیوں کی سکونت تھی۔
۔ یہ قوم حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کے بعد شہر ناصرہ میں یہودی اور عیسائی ادیان میں تقسیم ہوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت کے بعد ان کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔
نکتہ – لیکن، یہودی تواریخ کہتی ہیں کہ اسرائیل کا نام حضرت یعقوب کو اس لئے دیا گیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے کے ساتھ جنگ میں معجزانہ طور پر غالب آگئے تھے!:
” ان سے کہا: “تمہارا نام کیا ہے؟”، کہا: “یعقوب”۔ اس نے کہا کہ تمہارا نام بعدازیں یعؔقوب نہیں بلکہ تمہارا نام اِسرائیل ہوگا کیونکہ تُو نے خُدا اور انسان کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالِب ہُوا”۔ (۵)

جاری