-
Sunday, 26 April 2020، 10:12 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے قیام کے بعد جہاں دنیا بھر سے بہت سارے یہودیوں نے مقبوضہ فلسطین کا رخ کیا وہاں ہندوستان سے بھی ہجرت کرنے والے یہودیوں کی تعداد تقریبا ۲۵۰۰۰ بتائی جاتی ہے۔
یہ تعداد اگر چہ ہندوستان کی آبادی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہودی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد اچھی خاصی ہے اس تعداد کے اسرائیل ہجرت کرنے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو ایک نیا رخ ملا۔
یہودی قومیں
ہندوستان کے یہودی تین قوموں پر مشتمل تھے:
الف: بنی اسرائیل؛ اس قوم کے کچھ گھرانے یروشلم میں ہیکل سلیمانی کے مسمار کئے جانے کے بعد ہندوستان ہجرت کر گئے تھے اور بمبئی اور اس کے اطراف و اکناف میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔
ب؛ کوچینی؛ یہودیوں کی یہ قوم گزشتہ صدیوں میں ’’مالابر سواحل‘‘ سے ہجرت کر کے جنوبی ہندوستان میں گئی تھی۔
ج؛ بغدادی؛ انیسویں صدی کے اواخر میں یہ قوم بغداد، ایران اور افغانستان سے ہندوستان گئی اور اس بے کلکتہ اور بمبئی میں رہائش اختیار کی۔
صہیونی تنظیمیں
ہندوستان میں رہنے والے یہودی معاشرے میں صہیونیزم نے اپنے مراکز اور تنظیمیں قائم کیں جن میں سے بعض کی صہیونی ریاست براہ راست حمایت کرتی ہے۔ یہ تنظمیں ہندوستان اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی بحالی بھی موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں درج ذیل ہیں:
بمبئی صہیونی ایسوسیشن (Bomboy zioneSt Association)
کلکتہ صہیونی ایسوسیشن ((Calcutta Zionest Association
یونائیٹڈ اسرائیل اپیل (united Israel appeal)
یونائیٹڈ اسرائیل اپیل کمیٹی (united Israel AppealCommittee)
بنی اکیرا (Bnei akira)
ہابونیم انسٹیٹیوٹ ((Habonim Institute
یہودی ایجنسی برائے مشرقی ہند (Jewish Agency in For East)
ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے عصر حاضر میں فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے میدان میں اسرائیل بھارت کا بہترین معاون ہے اور ہندوستان اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی پاٹنر ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان تعلقات جو ۱۹۹۲ میں اندراگاندھی کے دور حکومت سے خفیہ طور پر اور راجیوگاندھی کے دور میں علانیہ طور پر مضبوط ہوئے مودی سرکار میں عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ ہندوستان گزشتہ دور میں اسرائیل کے ساتھ شدید مخاصمت رکھتا تھا اور تقریبا ۲۵ سے ۳۰ سال تک وہ اسرائیل کو پاکستان کے تناظر سے دیکھ رہا تھا اگر چہ بہت سارے بھارتی حکمران اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سیاسی پالیسی رکھتے تھے۔ ان دو ملکوں کے درمیان گزشتہ دور میں پائے جانے والے مخاصمانہ رویہ کی اصلی وجہ انگریزوں کا کردار تھا کہ ہندوستان کی آزادی اور ہند و پاک کی تقسیم کے بعد بھارتی انتہا پسند اسرائیل کو دوسرا پاکستان سمجھتے تھے کہ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح بظاہر مذہبی بنیاد پر وجود میں لایا گیا ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہندوستان پاکستان کو بھی اسرائیل کے ہمفکر قرار دیتا تھا! (۱)
راقم الحروف کی نظر میں بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں فروغ سے نہ صرف بر صغیر میں مسلمان معاشرے کو کمزور بنایا جائے گا بلکہ قوم پرست ہندو سماج کو مزید تقویت ملے گی اور ممکن ہے مستقبل میں بر صغیر کے مسلمانوں کا وہی حال ہو جو اس وقت غزہ کے مسلمانوں کا ہے۔
یہودیوں کی فوق الذکر تنظیمیں ایک طرف سے بمبئی میں اسرائیلی قونصلٹ کی مکمل حمایت کے تحت ان دو ملکوں کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری طرف میڈیا پر قبضہ جما کر کوشش کر رہی ہیں ابلاغیاتی فضا میں ان تعلقات کو عام سی بات بنا کر پیش کیا جائے(۲)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بسنے والے بعض ہندوستانی بطور دائم سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں تاکہ اس ملک میں موجود صہیونی لابیوں کے تعاون سے برصغیر خصوصا بھارت میں اسرائیلی مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکہ کا تعاون حاصل کریں۔ ان سیاسی سرگرمیوں کا واضح مصداق ’’آئی پیک‘‘ تنظیم ہے۔ یہ معاشرہ جو بھارتی امریکی معاشرہ معروف ہے آبادی کے لحاظ سے دو ملین سے زیادہ نہیں ہے اور امریکی یہودیوں کی بنسبت اقلیت میں ہے لیکن امریکہ اور ہندوستان میں اپنے گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے بھارت میں اسرائیلی پالیسیوں کو اجرا کروانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس حوالے سے جو دوسرا گروہ سرگرم عمل ہے وہ Confederation of Indian Industries کا گروہ ہے جو امریکہ میں تجارتی سرگرمیوں کے زیر سایہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے۔
حواشی
۱؛ ہند و اسرائیل تعلقات پر ایک نظر، اسٹیفن کوہن، ص ۱۰،۲۰
۲؛ بھارتی ادیان، ص ۷،۱۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔