یہودیوں اور ابلیس کے درمیان شباہتیں

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی اور ابلیس کی خصوصیات اور صفات نیز ان کا راستہ ایک جیسا ہے اور یہ ہمیشہ ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں اور ان کے اہداف ایک جیسے ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کئی مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ابلیس کی دشمنی کا تذکرہ کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ کتنے عظیم گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں گویا آغاز عالم سے ہی بنی اسرائیل کی طینت اس کا سرچشمہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
“وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِیلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیهِم مِّن رَّبِّهِمْ لأکَلُواْ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَکَثِیرٌ مِّنْهُمْ سَاء مَا یَعْمَلُونَ؛ اور اگر وہ توریت اور انجیل اور اس کو جو ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے اترا تھا ٹھیک طرح قائم رکھتے تو وہ کھاتے پیتے اپنے اوپر سے اور اپنے پیروں کے نیچے سے ان میں سے بس ایک گروہ تو اعتدال پر ہے اور زیادہ ان میں سے بڑا برا کردار رکھتے ہیں”۔ (سورہ مائدہ، ۶۶)
کچھ نمونے:
۱۔ حسد
ابلیس نے آدم(ع) کے ساتھ اور بنی آدم کے ساتھ حسد برتا اور حسد ابلیس کی وجۂ شہرت ہے۔ یہاں تک کہ حسد کی بنا پر اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور راندۂ درگاہ ہوگیا لیکن کبھی بھی آدم کو سجدہ نہیں کیا۔ یہودی البتہ ابلیس سے زیادہ حاسد ہیں۔ کیونکہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ حسد کیا اور کہہ ڈالا:
“اقْتُلُواْ یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً یَخْلُ لَکُمْ وَجْهُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْماً صَالِحِینَ؛ قتل کر دو یوسف کو یا کسی اور سر زمین پر لے جا کر ڈال دو کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو جائے اور تم اس کے بعد پھر نیک لوگ ہو جانا”۔
(سورہ یوسف، آیت ۹)
۲۔ غرور اور خودغرضی
ابلیس نے اللہ کی بارگاہ میں گستاخانہ انداز سے اپنی آواز بلند کردی اور غرور، خودغرضی اور نسل پرستی کی بنا پر کہا:
قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَاْ خَیْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِینٍ؛ ارشاد ہوا کیا امر تجھے مانع ہوا جو تو سجدہ نہ کرے باوجودیکہ میں نے تجھے حکم دیا۔ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے”۔
(سورہ اعراف، آیت ۱۲)
یہودی بھی نسل پرستی اور کبر و غرور کی بنا پر چلا چلا کر کہتے تھے کہ ہم اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں:
“وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُم بِذُنُوبِکُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ؛ اور یہودیوں اور عیسائیوں کا قول ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ کہو کہ پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے بلکہ تم بھی اس کے مخلوقات میں سے کچھ انسان ہو”۔
(سورہ مائدہ، آیت ۱۸)
۳۔ زمین میں فساد پھیلانا
ابلیس کا کام اصولا روئے زمین پر فساد اور برائی پھیلانا ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
“یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَن یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَإِنَّهُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ؛ اے ایمان لانے والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو اور جو شیطان کے قدم بقدم چلے گا تو وہ بلاشبہ شرمناک کام اور برائی ہی کے لئے کہتا ہے”۔ (سورہ نور، آیت ۲۱)
خداوند متعال قرآن کریم میں یہودیوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
“الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَـئِکَ هُمُ الْخَاسِرُونَ؛ جو اللہ سے کیے ہوئے معاہدے کو اس کے استحکام کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس رشتہ کے ملائے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، اسے وہ کاٹ ڈالتے ہیں اور دنیا میں خرابی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھاٹے میں رہنے والے ہیں”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۲۷)
۴۔ انسانیت کے دشمن
خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے ابلیس بنی آدم کا شدید ترین دشمن ہے اور انسانوں کو حکم دیتا ہے کہ ابلیس کو اپنا دائمی ابدی دشمن سمجھیں اور قرار دیں، اور ارشاد فرماتا ہے:
“إِنَّ الشَّیْطَآنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِینٌ؛ بلاشبہ شیطان تم دونوں کا کھلا ہوا دشمن ہے”۔ (سورہ اعراف، آیت ۲۲)
ارشاد ہوتا ہے:
“إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ؛ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے میں مبتلا کرکے تمہارے درمیان کینہ و عداوت ڈالتا رہے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے باز رکھے تو کیا اب تم باز آؤ گے؟ (سورہ مائدہ، آیت ۹۱)
نیز ارشاد ہوتا ہے:
“إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً؛ یہ حقیقت ہے کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو۔
اب مؤمنین کے ساتھ دشمنی کے بارے میں قرآن کریم کیا ارشاد دیکھتے ہیں:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ؛ یقینا آپ سخت ترین دشمن مسلمانوں کا پاؤ گے یہودیوں کو”۔ (سورہ مائدہ، ۸۲)
۵۔ اللہ تعالی کا انتباہ: ان کی پیروی نہ کرو
خداوند متعال نے مؤمنین کو خبردار کیا ہے کہ شیطان کی پیروی نہ کریں اور ان کے ساتھ دوستی سے اجتناب کریں:
“وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِین؛ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے”۔
(سورہ بقرہ، آیت۱۶۸ و آیت ۲۰۸؛ سورہ انعام، آیت ۱۴۲؛ سورہ نور، آیت ۲۱)
نیز اللہ تعالی مؤمنوں کو یہود اور نصاری کے ساتھ دوستی سے بھی خبردار فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ ان کی دوستوں اور پیروکاروں میں شامل نہ ہوں:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛ اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے تم میں سے ان سے دوستی کی تو وہ ان ہی میں سے ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔ (سورہ مائدہ، آیت ۵۱)
۶۔ خیانت، غداری اور عہد شکنی
عہدشکنی شیطان کی فطرت میں شامل ہے؛ وہ عہد و پیمان کو نظر انداز کرتا ہے جیسا کہ یہودی نیز عیسائی بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور معاصر تاریخ میں یہود و نصاری کی عہدشکنیوں کی داستانیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
شیطان کی عہدشکنانہ خصلت کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
“وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الأَمْرُ إِنَّ اللّهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ؛ اور شیطان کہے گا اس وقت کہ جب جو ہوتا ہے وہ ہو جائے گا کہ بے شبہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا؛ اور میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ خلافی کی”۔
(سورہ ابراہیم، آیت ۲۲)
آج کے زمانے کے یہودی ـ بطور خاص سیاسی یہودی ـ صہیونیت اور ماسونیت کے پیروکار اور شیطان پرستانہ عقائد کے حامل ہیں۔ یہودی بھی ابتدائے تاریخ سے عہد شکن رہے ہیں اور وعدہ خلافی کرتے ہیں بالکل شیطان کی طرح، جو ان کے وجود میں مجسم ہوچکا ہے؛ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
“وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاء ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْاْ بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ؛ اور جب کہ اللہ نے ان سے جنہیں کتاب دی گئی تھی، عہدوپیمان لیا تھا کہ تم اسے ضرور لوگوں کے لیے واضح طور پر پیش کرتے رہو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں تو انھوں نے اسے اپنے پس پشت ڈال دیا اور اس کے عوض میں ذرا سی قیمت وصول کر لی تو کیا بری بات ہے وہ معاملت جو انھوں نے کی ہے”۔
(سورہ آل عمران، آیت ۱۸۷)
نیز قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
“أَوَکُلَّمَا عَاهَدُواْ عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِیقٌ مِّنْهُم بَلْ أَکْثَرُهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ؛ اور یہ (یہودی) جب بھی کوئی عہد کریں گے تو ان میں سے ایک جماعت اسے پس پشت ضرور ڈال دے گی بلکہ زیادہ ایسے ہی ہوں گے جو ایمان نہ لائیں گے”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۰۰)
۷۔ ابلیس اور یہودی مؤمنوں کو کفر سے دوچار کرتے ہیں
شیطان کی آرزو ہے اور اس کو توقع ہے کہ مؤمنوں کو کافر کردے، لہذا راہ حق اور آزادی اور کامیابی و فلاح کے راستے میں گھات لگا کر بیٹھتا ہے جس طرح کے راہزن اور ڈاکو قافلوں اور مسافروں کی راہ میں گھات لگا کر بیٹھتے ہیں؛ چنانچہ شیطان اللہ سے عرض کرتا ہے:
“قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْتَنِی لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیمَ ٭ ثُمَّ لآتِیَنَّهُم مِّن بَیْنِ أَیْدِیهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَیْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ؛ اس نے کہا تو جیسا تو نے مجھے گمراہ قرار دیا ہے، اب میں ضرور بیٹھوں گا ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر ٭ پھر میں آؤں گا ان کی طرف ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے اور تو ان میں سے زیادہ کو شکر گزار نہیں پائے گا”۔ (سورہ اعراف، آیات ۱۶-۱۷)
معاصر تاریخ میں گناہ اور برائی اور فساد اور اخلاقی تباہی کے تمام بڑے اڈے اور آج کل کے زمانے میں گناہ کی ترویج کے تمام وسائل اور شیطان پرستی کے فروغ کا پورا انتظام نیز اسلامو فوبیا کے تمام منصوبے یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ قرآن کریم بنی اسرائیل کے دلوں میں چھپی ہوئی سازشوں اور بدنیتیوں کو برملا کرتا ہے اور ان کے مکر و فریب کے پردوں کو چاک کرتا ہے، ان مسلمانوں کی گمراہی کی شدید یہودی خواہشوں کو بےنقاب کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہودیوں کا ارادہ، خواہش اور منصوبہ ہے کہ تم مرتد ہوجاؤ اور اسلام کو ترک کرو، وہ بھی ایسے وقت میں کہ وہ جان چکے ہیں کہ مؤمنین برحق ہیں؛ ارشاد فرماتا ہے:
“وَدَّ کَثِیرٌ مِّنْ أَهْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُم مِّن بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ؛ بہت سے اہل کتاب کی دلی خواہش یہ ہے کہ کسی طرح ایمان کے بعد پھر دوبارہ تم لوگوں کو کافر بنا لیں صرف حسد کی وجہ سے جو ان کے نفوس میں ہے۔ باوجود یکہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۰۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی