-
Sunday, 19 April 2020، 12:22 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سنہ ۱۸۹۸ع میں آسٹریا میں یہودی صحافی و مصنف “تھیوڈور ہرٹزل” نے “یہودی ریاست” کے زیر عنوان ایک کتاب شائع کی۔ اس نے اس کتاب میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے حق میں دلائل دیئے اور صہیونی تحریک کا خیرمقدم کرنے کے لئے مغربی رائے عامہ کو ایک فکری ماحول فراہم کیا۔ چونکہ یہودیوں کو جرمنی میں سب سے زیادہ سیاسی اثر و رسوخ حاصل اور سرگرمیوں کا ماحول فراہم تھا لہذا ہرٹزل نے ابتداء میں جرمنی کے توسط سے ـ یہودیوں کے فلسطین میں بسانے کے سلسلے میں ـ عثمانی سلطان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مسلمانوں کے اعلان جہاد سمیت متعدد اسباب و عوامل کی بنا پر ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی چنانچہ یہودیوں نے برطانیہ کے دامن میں پناہ لی۔
یہودی عمائدین نے برطانیہ کے نمائندے سائکس کے ساتھ مذاکرات میں، انہیں یقین دلایا کہ “لیگ آف نیشنز” میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی یا پروٹیکٹوریٹ ہونے کی حمایت کریں گے اور فرانس یا کسی بھی دوسرے ملک کو اسے اپنے زیر سرپرستی لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری طرف سے انھوں نے سائکس کو تمام تر مراعاتیں دینے کا وعدہ کیا اور عہد کیا کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اتحادیوں کے حق میں اور جرمنی کے خلاف، مداخلت پر آمادہ کریں گے۔ ان اقدامات سے درحقیقت ۲ نومبر ۱۹۱۷ کے بالفور اعلامیئے کے لئے امکان فراہم کیا گیا۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ بالفور نے لارڈ لوچرڈ کے نام اپنے ایک خط میں ایک قومی یہودی وطن کی تشکیل کی خوشخبری دی۔ یہ خط اعلامیۂ بالفور کے عنوان سے مشہور ہوا۔ اعلامیئے میں کہا گیا تھا:
“فلسطین میں یہودی قومی وطن کی تشکیل کے بابت حکومت برطانیہ کے اشتیاقِ خاص کے پیش نظر، یہ حکومت اس ہدف کے حصول اور اس کے لئے وسائل کی فراہمی کے لئے کوشش کرے گی”۔
اعلامیۂ بالفور کی اشاعت کے بعد، برطانوی افواج نے ۹ دسمبر ۱۹۱۷ کو بیت المقدس پر قبضہ کیا اور خزان سنہ ۱۹۱۸ تک تمام عثمانی افواج کو فلسطین میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور پوری سرزمین فلسطین پر قبضہ کیا۔ ۱۹۱۹ میں فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے مندوبین کی موجودگی میں “سان ریمو” کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں فلسطین کے حالات کا جامع جائزہ لینے کے بعد فیصلہ ہوا کہ مذکورہ ممالک فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی حمایت کرتے ہیں۔
مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۲۲ کو لیگ آف نیشنز کونسل میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی ملک کے قانون کو باضابطہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ برطانیہ کی حمایت کے تحت، عربوں کی مخالفت کے باوجود، یہودیوں کی فلسطین میں ہجرت کے سلسلے کی رفتار میں ـ جو کئی سال پیشتر شروع ہوچکا تھا ـ اضافہ ہوا۔ ادھر ہٹلر کی یہود مخالف پالیسیوں کی وجہ سے بھی فلسطین آنے والے یہودی مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۶ میں فلسطین کی مجموعی آبادی انیس لاکھ بہتر ہزار پانچ سو پچاس تھی جن میں چھ لاکھ آٹھ ہزار یہودی پناہ گزین شامل تھے، جبکہ ۱۹۱۸ میں فلسطین میں یہودی مہاجرین کی تعداد ۵۶۰۰۰ سے زیادہ نہ تھی۔ فلسطین میں آ بسنے والے یہودی مہاجرین کی زیادہ تر تعداد کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے تھا۔
فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے اور علاقے میں ان کی سیاست قوت بڑھ جانے کی بنا پر عربوں نے برطانیہ پر دباؤ بڑھا دیا کہ وہ یہودیوں کی حمایت نہ کرے۔ اس اثناء میں یہودیوں نے فلسطین میں ایک خودمختار لشکر اور ایک خفیہ فوج بنام “ہاگانا” تیار کی تھی۔ اس خفیہ فوج کی ذمہ داری مخالفین پر قاتلانہ حملے کرنا اور عرب آبادی کے خلاف جنگ کرنا تھی۔
برطانیہ نے عرب آبادیوں کو خاموش کرنے اور ان کی بغاوت کا سدباب کرنے کی غرض سے ۱۹۳۹ میں “کتابِ سفید” شائع کرکے اعلان کیا کہ یہودیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ فلسطین میں ایک قومی مرکز قائم کریں، لیکن انہیں خودمختار حکومت قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس اعلامیے نے یہودیوں میں غیظ و غضب کی لہر دوڑا دی اور انھوں نے انگریزوں کی رائے کے برعکس، اپنے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا؛ تا ہم اسی زمانے میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا اور فلسطین کا مسئلہ جنگ کی خبروں تلے دب کر رہ گیا۔