-
Monday, 20 April 2020، 11:45 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ
فلسطین کا تاریخچہ:
حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے ۲۵۰۰ سال قبل، کئی عرب نژاد قبائل جزیرہ نمائے عرب سے بحیرہ روم کے جنوبی ساحلی علاقوں کی طرف کوچ کرگئے۔ ان میں سے کچھ قبائل فلسطین میں سکونت پذیر ہوئے۔ ان کا پیشہ کاشتکاری اور زراعت سے عبارت تھا اور وہ کنعانی کہلائے اور اسی بنا پر سرزمین فلسطین ارض کنعان کہلائی۔
کچھ عرب قبائل لبنان میں رہائش پذیر ہوئے اور ان کا پیشہ کشتیرانی سے عبارت تھا۔ انہیں فینیقی (Phoenicians) بھی کہا گیا ہے۔
کنعانیوں کا ایک اہم قبیلہ “یبوسی” قبیلہ تھا جو بیت المقدس میں رہائش پذیر تھا اسی بنا پر قدیم زمانے میں بیت المقدس کو یبوس بھی کہا جاتا تھا۔
غاصب اسرائیلی ریاست کی تشکیل کا تاریخچہ:
غاصب اسرائیلی ریاست نظری لحاظ سے ایک “ماسونی ـ صہیونی” تحریک کا نام ہے اور عملی لحاظ سے ـ بطور خاص مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں ـ استکباری دنیا کا انتظامی مرکز ہے۔ کسی وقت استکباری دنیا کا سرغنہ برطانیہ تھا اور آج امریکہ ہے۔
ایک۔ فلسطینی قوم ـ جو اسلام، عیسائیت اور یہودیت پر مشتمل تھی ـ صدیوں سے اس سرزمین میں قیام پذیر تھی۔ یہاں تک کہ سنہ ۱۰۹۹عمیں صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور عیسائیوں نے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
یورپی اور عیسائی مؤرخین کہتے ہیں کہ انھوں نے صرف بیت المقدس کی حدود میں ۶۰۰۰۰ افراد کا قتل عام کیا اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ (۶)
فلسطین ۸۸ سال کے عرصے تک صلیبیوں کے زیر تسلط رہا اور انھوں نے اس عرصے میں مسلمانوں کے ساتھ نہایت بےرحمانہ سلوک روا رکھا۔ یہاں تک کہ سنہ ۱۱۸۷ع(بمطابق ۵۸۳ہجری) میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دی اور اور فلسطین بشمول بیت المقدس مسلمانوں کی آغوش میں پلٹ آیا۔
دو۔ سنہ ۱۸۸۰عمیں قوم فلسطین کی آبادی پانچ لاکھ تھی جن میں یہودیوں کی تعداد صرف ۲۴۰۰۰ تھی؛ یعنی ۵ فیصد سے بھی کم۔ سنہ ۱۸۹۶عمیں ایک آسٹریائی یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) نے ایک کتاب لکھی اور صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی جس کا نصب العین یہ تھا کہ “یہودی کسی ایک سرزمین میں اپنی ریاست قائم کریں”۔
تین – ایک سال بعد، سنہ ۱۸۹۷عمیں سوئیٹزلینڈ کے شہر بیسل (Basel) میں صہیونی کانگریس کا اہتمام کیا گیا اور فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے کے لئے پوری دنیا سے یہودیوں کی فلسطین ہجرت اور ایک اسلامی سرزمین میں یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ منظور کیا گیا۔
اس منصوبے کے تحت ایک سال کے مختصر عرصے میں فلسطین میں (فلسطینی اور غیر فلسطینی) یہودیوں کی آبادی ۵ فیصد سے بڑھ کر ۱۱ فیصد تک پہنچ گئی۔ یعنی فلسطین کی کل آبادی (۷۵۰۰۰۰ افراد میں) یہودیوں کی تعداد ۸۵ ہزار تک پہنچی، البتہ اس دوران بھی مسلمانوں کی نسل کشی رائج تھی۔
چار – پہلی عالمی جنگ کے دوران سنہ ۱۹۱۷عمیں انگریز وزیر خارجہ بالفور نے ایک اعلامیئے کے تحت فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام اور اس کی حمایت کی برطانوی پالیسی کا اعلان کیا۔
ایک سال بعد، برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ جمایا اور غیر فلسطینی یہودیوں کی فلسطین ہجرت کا سیلاب امڈ آیا۔ سنہ ۱۹۱۹عسے ۱۹۲۳عکے چار سالہ عرصے میں ۳۵ ہزار غیر فلسطینی یہودی فلسطین میں آ بسے۔
برطانوی حکومت نے ۱۹۳۲ سے ۱۹۳۵عکے عرصے میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار یہودیوں کو برطانیہ اور برطانیہ کی نوآبادیوں سے فلسطین منتقل کیا اور ۱۰ہزار یہودی بلا اجازت اور غیر قانونی طور پر فلسطین میں آ ٹپکے۔ یوں یہودیوں کی آبادی کی شرح ۵ فیصد سے ۳۰ فیصد تک پہنچی۔
پانچ – دوسری عالمی جنگ بہترین بہانہ بن گئی۔ یہ جنگ عیسائیوں کے درمیان تھی لیکن ہٹلر کی کشورگشائی کو یہودکشی کا نام دیا گیا اور جنگ کے اہداف میں تحریف کی گئی حالانکہ اس جنگ میں سات کروڑ انسان مارے گئے تھے لیکن یورپی قوانین میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس جنگ کے حوالے سے صرف یہودی ہالکین کو موضوع سخن بنائیں؛ اور جہاں خدا اور انبیاء الہی حتی کہ عیسی علیہ السلام کی توہین کو بیان کی آزادی کے تحت جائز قرار دیا جاتا ہے، قرار دیا گیا کہ کسی کو بھی یہ حق اور اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیقات میں اس قانون کو چیلنج کرے اور یہودیوں کے ہالکین کی تعداد کو ساٹھ لاکھ سے کم گردانے اور اس قانون کا نام “ہالوکاسٹ” کا قانون رکھا گیا۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ یہودی ہلاک شدگان کی تعداد اتنی ہی تھی تو یہ تعداد جنگ کے مجموعی مقتولین میں ۱۰ فیصد سے بھی کم تھے اور اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ مقرر کیا گیا کہ یہودی ہلاک شدگان کا تاوان جرمنوں کے جائے فلسطینی مسلمانوں سے وصول کیا جائے!! اور مسلمانان عالم ان ہی یورپیوں اور امریکیوں کو انسانی تہذیب کا نقیب قرار دیتے رہے۔
چھ – سنہ ۱۹۴۵عمیں برطانیہ نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ مل کر ایک لاکھ یہودیوں کو امریکہ اور یورپ سے فلسطین بھجوایا اور ۱۹۴۷عمیں فلسطین کی کل آبادی اٹھارہ لاکھ سرسٹھ ہزار تک پہنچی جس میں یہودیوں کی آبادی چھ لاکھ پندرہ ہزار (یعنی ۳۲٫۹ فیصد) تھی جبکہ مسلمانوں کی آبادی دس لاکھ نوے ہزار (یعنی ۵۸٫۴ فیصد) تھی جبکہ اس آبادی میں ایک لاکھ پچاس ہزار (یعنی ۷٫۸ فیصد) کے لگ بھگ عیسائی شامل تھے۔
سات – سنہ ۱۹۴۸عنے ـ جس نے یہودی ریاست کے لئے مناسب ماحول فراہم کرلیا تھا ـ فلسطین سے انخلاء کا اعلان کیا اور یہودی پناہ گزینوں نے اس سرزمین کو غصب کرلیا۔ جس طرح کہ بعد کے برسوں میں امریکیوں اور انگریزوں نے بظاہر افغانستان اور عراق سے انخلاء کا اعلان کیا اور چند قومی دہشت گردوں کو اپنے متبادل کے طور پر ان ملکوں پر مسلط کیا۔ یہودی پناہ گزینوں نے بلا روک ٹوک کے فلسطینیوں کا قتل عام کیا اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ یہاں تک کہ ڈیوڈ بن گورین نے تل ابیب میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔
غاصب اسرائیلی ریاست کے اعلان کے بعد فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں شدت آئی اور زیادہ شدت سے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور یہ سلسلہ آج [۲۰۱۸ع] میں بھی جاری ہے۔
نکتہ: تو جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، اسرائیل کی صہیونی ـ یہودی ریاست کا قوم بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ جو فلسطینی تھے ـ جس قوم سے بھی تعلق رکھتے تھے ـ ان کی اکثریت نے اسلامی قبول کیا اور کچھ لوگ عیسائی اور ایک چھوٹی اقلیت یہودی رہے۔
۔ کردوں کے لئے ایک الگ سرزمین اور غاصب اسرائیل کی طرح، امریکہ، برطانیہ اور یہودی ریاست کی حمایت سے کردی ریاست ـ جو درحقیقت دہشت گردوں اور شرپسندوں کی سرزمین ہوگی ـ کے قیام کے بہانے القاعدہ، داعش، النصرہ اور ان جیسے دہشت گرد اور خونخوار ٹولوں کی پرورش کی روش، بالکل غاصب اسرائیلی ریاست کی مانند ہے۔
ابتداء میں شیطانی استکباری طاقتوں نے اعلان کیا کہ مشرق وسطی کے جدید نقشے میں، بہت سے ملکوں کو تقسیم ہونا چاہئے، بعدازاں اعلان کیا کہ کردوں کے لئے ایک خودمختار کردی ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔، بعدازاں مغربی طاقتوں نے دہشت گرد ٹولوں کو تشکیل دیا، انہیں تربیت دی اور اسلحہ فراہم کیا۔ مغرب اور یہودی ریاست نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کے قتل عام کے سلسلے میں نفرت انگیز مناظر تخلیق کئے تا کہ مسلمانوں کا قتل عام ہو، انہیں خوفزدہ کیا جائے اور اپنا گھر بار اور وطن چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور مسلمانوں کا وسیع قتل عام کرایا۔
اس بار البتہ دہشت گردوں نے اپنے ادارے کا نام “دولۃ الاسلامیہ” رکھا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ لوگ یہودی ریاست کے لئے کام کررہے ہیں اور پھر دنیا بھر کے انسان اسلام اور اس کے نام اور دولت اسلامی سے خوفزدہ ہوجائیں اور اسلامو فوبیا کو فروغ ملے۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ سترہ ہزار داعشیوں میں بارہ ہزار غیر ملکی بھی شامل ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق یورپ سے ہے۔
یورپ نے ایک طرف سے داعش اور اس جیسے خونخوار اور نسل کش ٹولوں کو پروان چڑھایا، مسلح کیا، حربی آلات سے لیس کیا اور عراق اور شام کا چوری کا تیل خرید کر انہیں صاحب ثروت بنایا اور اپنے ملکوں سے رضاکارانہ طور پر داعش اور دوسرے ٹولوں میں شامل ہونے کو سفر اور شمولیت کا امکان فراہم کیا اور اپنے حلیف ملک ترکی کو انہیں شام میں اور عراق میں بھجوانے کا ٹاسک دیا اور اب انھوں نے اعلان کیا ہے کہ یورپی دہشت گردوں کو ندامت اور توبہ کا حق حاصل نہیں ہے تا کہ وہ علاقے کے مسلم ممالک کے اندر رہ کر لڑیں۔
امریکہ نے بھی دہشت گردوں کے ساتھ نوراکشتی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے اپنی افواج کو ان ممالک میں متعین کرے اور ان ممالک کی تقسیم میں براہ راست کردار ادا کرسکے۔
امریکہ کا سرکاری اعلان یہ کہ داعش اور اس جیسے دہشت گردوں کو کم از کم ۲۰ سال کے عرصے تک زندہ اور سرگرم رکھا جائے گا۔ گوکہ بظاہر ان کا کہنا ہے کہ “ان ٹولوں کا خاتمہ ۲۰ سال تک ممکن نہیں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ آلبرائٹ ، ص۲۳۶؛ ڈانئیل ـ ریپس ، ص۱۴ـ ۱۵؛ اسمارٹ، ص۳۸۴ـ۳۸۵۔۔۔
۲۔ قرآن سمیت اسلامی منابع و مآخذ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام تھے۔
٭۔ سورہ، مائدہ، آیات ۲۴ تا ۲۶۔
۳۔ بیک، ص۲۸ـ ۴۸؛ اسمارٹ، ص۲۹۱؛ د۔ جوڈائیکا، ج۸۔
۴۔ د۔ جوڈائیکا ، ج۸، کالم ۵۹۳ ـ۵۹۹۔
۵۔ عہد قدیم، پیدائش ، باب ۳۲: ۲۷ـ ۲۸۔۔۔ یہودیوں کی تحریف شدہ کتاب میں آیا ہے کہ یعقوب(ع) پیغمبری کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا اور بندگان خدا پر غلبہ پانے کے بعد اسرائیل کہلائے۔
۶۔ گستاولی بون، تاریخ تمدن اسلام و عرب، ص۴۰۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔