صہیونیت کے تئیں امریکہ اور مغرب کی حمایت کے وجوہات

  • ۳۹۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی لابیاں امریکی اور بعض مغربی ممالک کی سیاسی پالیسیوں میں انتہائی اہم اور بنیادی اثر و نفوذ رکھتی ہیں۔ ان لابیوں نے مغربی ممالک میں صہیونی مفادات کے حق میں سیاسی پالیسیاں عمل میں لانے کی بے انتہا کوششیں کی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جرمن عوام لیبرالیزم سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پس رہے ہیں صہیونی تنظیمیں ان کے معیشتی سرمایے کو بڑی آسانی کے ساتھ اسرائیل منتقل کرنے میں کوشاں ہیں۔
امریکہ
امریکہ میں صہیونی تنظیمیں بہت سرگرم اور فعال ہیں۔ AIPAC ( American Israel Public Affairs Committee) جیسی اہم تنظمیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں طاقتور ترین صہیونی لابیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ بعض عیسائیوں کی جانب سے جاری ان صہیونی تنظیموں کی حمایت در حقیقت صہیونی لابیوں کے امریکہ میں اس گہرے نفوذ کی وجہ سے ہے جو یہ چاہتی ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر انہیں جمع کریں۔
’’ماؤنٹ ٹیمپل فاؤنڈیشن‘‘ امریکہ کے عیسائی صہیونیوں کی ایک اور بانفوذ ترین تنظیم ہے جس کا مرکز کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں واقع ہے اور اس کا مقصد ’’قدس‘‘ میں ’’معبد‘‘ کی تعمیر ہے۔ اس تنظیم کا عقیدہ یہ ہے کہ یہودی معبد (ہیکل سلیمان) کی تعمیر ان آخری علامتوں میں سے ایک ہے جس کا مسیح کے ظہور سے پہلے تحقق پانا ضروری ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ ہیکل سلیمانی (Temple of Solomon) موجودہ مسجد الاقصیٰ کی جگہ پر تعمیر ہونا چاہیے۔ ان کے اس نقشے میں ’’قدس الاقداس‘‘ کا مقام بھی معین کیا گیا ہے۔
صہیونی عیسائیوں اور یہودیوں کے اس عقیدے کہ مسجد الاقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے کی جڑیں کیبالیسٹی تفکر Kabbalist ideas (یہودی تصوف) میں پائی جاتی ہیں۔ یہودی عیسائی تصوف سحر و جادو سے بھرا پڑا ہے۔ کیبالیسٹ کی اہم ترین کتاب ’’زوھر‘‘ ہے جس میں صرف غیب کی خبریں پائی جاتی ہیں۔ یہودی تصوف نے عیسائی معاشرے کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے آخری زمانے کی غیبی خبریں بیان کی ہیں جس کا حاصل صہیونیزم کی حمایت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
برطانیہ
برطانیہ عرصہ دراز سے یہودیت کا گہوارہ اور یہودیوں کے رشد و نمو کا مناسب پلیٹ فارم رہا ہے۔ برطانوی یہودی اس ملک کی صرف پانچ فیصد آبادی کو تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن برطانوی سیاست میں ان کا گہرا اثر و رسوخ باآسانی اسرائیلی مفادات کو حاصل کر لیتا ہے۔ برطانوی یہودی اس ملک کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اس قدر سرگرم ہیں کہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ برطانوی معیشت کی شہ رگ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔
برطانیہ کی جانب سے صہیونی غاصب ریاست کی حمایت در حقیقت یہودی سیاستمدار اور سرمایہ دار گھرانوں جیسے روتھسلیڈ فیملی (Rothschild family) کے اس ملک کے سیاسی معیشتی میدان میں گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے رہی ہے۔ ۱۹۲۹ سے ۱۹۴۹ تک کے عرصے میں برطانیہ کے ۳۱ سرمایہ دار تاجروں میں ۲۴ تاجر یہودی تھے۔ برطانوی معیشت میں اثر و رسوخ رکھنے والے یہودی گھرانوں میں سے درج ذیل گھرانوں کا نام لیا جا سکتا ہے: Rothschild family,montefiore, Goldschmidt family, Samuel family, Badington family, sassoon family.
تجزیہ نگاروں کی نظر میں برطانیہ اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور جب بھی اسرائیل کسی بحران کا شکار ہوتا ہے برطانوی وزیر اعظم اور اس ملک کے دیگر صہیونی سیاستدان اس غاصب ریاست کے تئیں اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں اور اس کے دفاع میں دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر میں ایران، لبنان اور شام کا باہمی مزاحمتی اتحاد، صہیونی ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا اور برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی حمایت صہیونی ریاست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا پائے گی۔
فرانس
فرانس منجملہ ان ممالک میں سے ایک ہے جن کی قابل توجہ آبادی یہودیوں پر مشتمل ہے بلکہ یورپ کے تمام ممالک کی نسبت فرانس میں سب سے زیادہ یہودی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور فرانس کے اکثر یہودی صہیونیت کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ فرانس اور اسرائیل کے باہمی تعلقات دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت قریبی رہے ہیں۔
۱۹۵۶ میں فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کی حمایت میں ’’سینا جزائر‘‘ پر حملہ کیا اور ’’نہر سوئز‘‘ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ فرانس نے اب تک بے شمار فوجی اسلحہ اسرائیل کو فروخت کیا ہے اور ۱۹۵۰ کے بعد ایٹمی ہتھیار بنانے میں اسرائیل کی بے انتہا مدد کی ہے۔ فرانس اور اسرائیل کی ایٹمی سرگرمیاں اس قدر وسیع تھیں کہ ڈیمونا ایٹمی نیوکلر پلانٹ ۱۵۰ فرانسیسی انجینئروں کی مدد سے اسرائیل میں تاسیس کیا گیا۔
جب نکولاس سرکوزی (Nicolas Sarkozy) نے فرانسیسی حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی تو اس ملک کے سیاسی حالات میں عظیم تبدیلی آئی۔ سرکوزی نے اسرائیل کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو اس قدر مضبوط بنا دیا کہ شیرون کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے اسرائیل کو ڈیموکریسی کا بہترین نمونہ قرار دیا اور شیرون نے بھی فرانس کو اسرائیل کا بہترین دوست گردانا۔ سرکوزی نے صہیونی لابیوں کے مقابلے میں کہا: ’’میں پوری سچائی سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ہر گز ان لوگوں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ غزہ کی ۲۲ روزہ جنگ اور لبنان کی ۳۳ روزہ جنگ میں سرکوزی نے اسرائیل کی بھرپور حمایت کی اگر چہ ان جنگوں میں اسرائیل کو شدید شکست کا سامنا ہوا۔
جرمنی
بہت سارے جرمن مفکرین اسرائیلی سیاستوں کے مخالف ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جرمن شہری، اسرائیل کو عالمی صلح کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اس ملک کی ۵۳ فیصد آبادی جرمنی اور اسرائیل کے تعلقات کے مخالف ہے اور صرف چالیس فیصد ان تعلقات کو ضروری سمجھتے ہیں۔ جرمنی کے وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے حالیہ ایام میں جرمنی میں پائی جانے والی اسرائیل مخالف فضا میں اضافہ کی خبر دی۔ لیکن یہ یہودی مخالفت جرمنی میں موجود مسلمان مہاجرین کے سر ڈال دی اور جرمنیوں کو سبکدوش کر دیا۔ اسلاموفوبیا اور ایرانوفوبیا صہیونیزم کی ایک اہم ترین اسٹراٹیجی ہے کہ جو وہ اپنی نشستوں میں ’’ دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف بین الاقوامی مہم‘‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں۔
۱۹۵۳ سے اب تک جرمنی نے ۳۵ ارب ڈالر صہیونی ریاست کو عطیہ دیے ہیں۔ جرمنی کی موجودہ چانسلر ’’انجیلا میرکل‘‘ نے جرمنی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کو اعلیٰ ترین سطح تک پہنچا دیا ہے یہاں تک کہ انجیلا میرکل نے جنوری ۲۰۰۸ میں یہ اعلان کیا تھا کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اسرائیل کے قیام کی ۶۰ ویں سالگرہ کے موقع پر مشترکہ جشن منائیں گی۔ اس وقت بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جرمنی کے صہیونی سربراہوں نے اسرائیل کی ۷۰ ویں سالگرہ کے جشن میں شرکت کر کے اپنے تعلقات کو مزید فروغ دیا۔
منابع:
۱- مسیحیت صهیونیسم و بنیادگرای آمریکا، رضا هلال
۲- لابی صهیونیسم در ایالات متحده آمریکا، محسن اسلامی
۳- یهود، صهیونیسم و اروپا، ضحی ربانی خوارسگانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

قدس شریف کی یہودی سازی، صہیونیت کا اہم پروپیگنڈا

  • ۳۵۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قدس شریف اور فلسطین پر قبضہ کیے ہوئے چھ دہائیوں سےزیادہ گذر چکی ہیں ۔عرب حکومتوں نے ابتدائی مقابلے اور اقدامات کے بعد اور غاصب اسرائیلی حکومت کے چھ روزہ جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد کہ جس میں مصر شام اور لبنان کے کچھ علاقوں پر صہیونیوں کا قبضہ ہو گیا تھا ،بعض قدامت پرست اور سازشی عرب حکومتوں نے کچھ مواقع پر فلسطین کے مقاصد کے ساتھ بے وفائی شروع کر دی ۔ قدس شریف اور فلسطین کے مقاصد کے سلسلے میں قدامت پرست عرب سربراہوں کی بے توجہی کی وجہ سے فلسطینیوں کا دائرہ حیات تنگ ہو چکا تھا اور صہیونی بھی نئے نئے نقشوں اور منصوبوں کے تحت مسجد الاقصی کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے پراگندہ خواب دیکھ رہے تھے ۔قدس شریف کو یہودی بنانا قدس پر قبضے کو جاری رکھنے کے لیے ایک اہم ترین منصوبہ تھا ۔حقیقت میں مسجد الاقصی کی عمارت کے نیچے سے سرنگ بنانا اور فلسطین نشین علاقوں میں بے رویہ شہروں کی تعمیر وغیرہ کے پیچھے صہیونیوں کے دو بڑے مقاصد ہیں ایک فلسطینیوں کو نکالنا اور دوسرا اسلامی آثار کو مکمل طور پر مٹانا ہیں تا کہ یہ حکومت اس مقدس شہر کو کہ جو بنیادی طور پر فلسطینیوں اور مسلمانوں کا ہے اپنے قبضے میں رکھ سکیں ۔
واقعیت یہ ہے کہ صہیونیوں کی نظر میں قدس شریف ایک بہت اہم جغرافیائی حساسیت کا حامل ہے لہذا یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ صہیونزم کے سربراہ اور پالیسی میکر اپنی جعلی حکومت کی بقاء اور اس کے دوام کو اس مقدس شہر سے منسلک کیے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دہائیوں کے دوران اور خاص کر گذشتہ دو دہائیوں میں صہیونی رہنماوں کی پوری کوشش ہے کہ قدس شریف کو یہودی شہر میں تبدیل کر دیا جائے کہ جس پر اس وقت اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں ۔ اصل میں شہر تعمیر کرنے اور مقبوضہ سر زمینوں کو یہودی سر زمینوں میں تبدیل کرنے کا خاص کر بیت المقدس کے اطراف کی سر زمینوں کو یہودی زمینوں میں تبدیل کرنے کا صہیونیوں کا مقصد قدس شریف کو مکمل طور نابود کرنا اور مقبوضہ زمینوں میں یہودی حکومت کی تشکیل دینا ہے ۔
صہیونیوں کے بوڑھے جنرل ایریل شیرون کو کہ جو عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی تمام جنگوں میں محاذ پر سب سے آگے رہا ہے اور فلسطینیوں اور مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ اس کا نام ایک طرح سے جڑ گیا ہے شہر قدس اور غصبی سر زمینوں میں شہر بنانے کی سیاست کا معمار قرار دیا جا سکتا ہے واقعیت یہ ہے کہ مسکونی علاقے بنانا اور قدس کو یہودی بنانا اور اس کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کرنا کہ جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اور فلسطین کے سلسلے پاس کی گئی قراردادوں کی اس سے خلاف ورزی ہوتی ہے، مدتوں پہلے شروع ہو گیا تھا اور اس وقت تیزی کے ساتھ جاری ہے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ سب سے پہلے صہیونی اس مقدس مکان کو یہودیوں کی طرز پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔اس لیے کہ شہر قدس مقدس اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اور اسلامی شان کا حامل ہونے کے ساتھ ،یہودیوں کے لیے بھی مختلف پہلووں سے اہمیت کا حامل ہے اس طرح کہ صہیونی رہبر اور خاص کر ان کے انتہا پسند گروہ اسرائیل کی عبری حکومت کی تاسیس اور بقا کو قدس کی اسلامی ماہیت اور شناخت کی نابودی اور قدس کی یہودی طرز پر ساخت کو قرار دیتے ہیں ۔
صہیونی پہلے تو اس شہر کو مذہبی اہمیت کے اعتبار سے دیکھتے ہیں ۔جس زمانے میں دیگر ملکوں جیسے یوگینڈا ، سیبری ، یا اتریش میں دنیا کے یہودیوں کے لیے اسرائیل کی غاصب حکومت کی تاسیس کی بات چلی تو اس کو رد کر دیا گیا اس لیے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم نے محسوس کیا کہ یہودیوں کو کسی ایک ملک میں جمع کرنے کا واحد راستہ صرف مذہبی مسئلہ ہے ۔اسی لیے انہوں نے فلسطین پر اصرار کیا ،نہ اس اعتبار سے کہ وہ فلسطین کی سر زمین کو دوست رکھتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ قدس پر غلبہ حاصل کریں ،چونکہ قدس یہودیوں کے لیے ایک مذہبی محرک ہے ۔اگر چہ صہیونی تحریک کے رہنما اور خود تحریک بے دین اور لا مذہب تھی ،لیکن انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہودیوں کے یکجا کرنے کا واحد راستہ قدس ہے اسی بنا پر انہوں نے طے کیا کہ یہودی حکومت اس ملک میں ایجاد کی جائے ۔یہ ایسی حالت میں تھا کہ برطانیہ کے حیاتی منافع بھی اس مذہبی رجحان کے ساتھ وابستہ تھے ،اس بنا پر مذہبی اور حیاتی منافع کا یکجا ہونا باعث بنا کہ فلسطین صہیونیوں کی نسل پرستی کے منصوبے کا شکار بن جائے ۔
اس بنا پر صہیونیوں کے لیے قدس کی اہمیت کو صہیونی حکومت کے پہلے وزیر اعظم بن گورین کے اس مشہور جملے سے جانا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا قدس کے بغیر اور قدس کا ھیکل سلیمانی کے بغیر کوئی وجود نہیں ہے اور یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہیں ۔ اس بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ قدس کس قدر یہودیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے اور صہیونی بھی اس کی یہودی طرز پر تعمیر کے لیے کس قدر ہاتھ پیر مار رہے ہیں ۔ اور اس کے بارے میں امریکہ میں بھی پروپیگنڈا ہوتا ہے کہ قدس کو اس کے اطراف کی زمینیں غصب کر کے یہودی طرز پر تعمیر کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

فرقہ بہائیت کی مختصر تاریخ (۲)

  • ۴۹۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا حسین علی نوری (بہاء اللہ) اللہ کے پیغمبر تھے۔ بہاء اللہ کا باپ ایران کے بادشاہ قاجار کے دور میں درباری مشیر تھا اور حکومت میں کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ دوسری طرف امیرکبیر کے حکم سے ’سید علی محمد باب‘ کو پھانسی دیے جانے کے بعد ان کے مریدوں کو عراق ملک بدر کر دیا گیا تھا جس میں ’مرزا حسین علی نوری‘ (بہاء اللہ) بھی شامل تھے لیکن امیر کبیر کے قتل یا انتقال کے بعد جب مرزا آقاخان نوری نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے مرزا حسین علی نوری کو عراق سے واپس تہران بلوا لیا۔
کچھ عرصہ کے بعد بابیوں کی جانب سے بادشاہ ایران ’ناصر الدین شاہ‘ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا معلوم ہوا کہ مرزا حسین نوری کا اس میں ہاتھ تھا۔ اسی وجہ سے بہاء اللہ کو جیل میں بند کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ وہ پہلے روس کے سفارتخانے میں پناہ حاصل کر چکے تھے کچھ مہینے جیل میں رہنے کے بعد روسی حکومت کی طرف سے ڈالے گئے دباؤ کی بنا پر انہیں رہائی مل گئی۔ اور اس کے بعد روسی سفارتخانے نے انہیں روس میں زندگی بسر کرنے کے لیے دعوت دی۔
بہاء اللہ نے روسی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے بھائی مرزا یحییٰ کے ساتھ عراق کا رخ کیا۔ بغداد میں بہائیوں کے نزدیک انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور انہوں نے وہاں تبلیغی سلسلہ شروع کیا۔
دوسری طرف بابیوں کے درمیان ’سید علی محمد باب‘ کی موت کے بعد جانشینی پر کافی اختلاف وجود میں آیا اور بہاء اللہ کے مخالفین میں روز بروز اضافہ ہونے لگا، بہاء اللہ کافی ہوشیاری دکھاتے ہوئے اپنے مخالفین کو ایک ایک کر صفحہ ھستی سے مٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ناکامی کی صورت میں حکومت عثمانیہ انہیں استنبول چلے جانے کا مشورہ دیا۔
بہاء اللہ اپنے بھائی مرزا یحیی کے ساتھ ۱۸۶۳ میں استنبول کی طرف روانہ ہوئے اور ’ادرنہ‘ علاقے میں سکونت اختیار کی۔ چار سال یہاں پر رہنے کے بعد دونوں بھائیوں میں شدید اختلاف ہوا، جس کے بعد مرزا یحییٰ کو جزیرہ قبرس میں بھیج دیا گیا اور مرزا حسین علی نوری کو ’حیفا‘ کے نزدیک ’عکا‘ کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔
اہم بات یہ ہے کہ بہاء اللہ اور ان کے بیٹے عباس افندی (عبد البہاء) ’عکا‘ میں رہنے کے بعد یہودیوں اور برطانوی فوجیوں سے کافی گہرے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد ان کے بیٹے نے صہیونی ریاست کی تشکیل میں برطانیہ اور یہودی لابی کی کتنی مدد کی اس کا تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔
بہاء اللہ ۷۵ سال کی عمر میں ۱۸۹۲ میں انتقال کر گئے اور ان کے بیٹے عباس افندی یا وہی ’عبد البہاء‘ نے باپ کی جانشینی اختیار کی اور بہائیت کو پھیلانے میں کوئی لمحہ فروگذاشت نہ کیا۔

 

امام زمانہ کا ظہور اور عہد یہود کا تابوت

  • ۴۹۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امام زمانہ (عج) کے ظہور کے زمانے کو جن قوموں کی جانب سے بڑا چیلنج ہے ان میں سے ایک قوم یہود ہے۔ یہودیوں کی تاریخ کئی نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے۔ قرآن کریم میں یہودیوں اور بنی اسرائیل کے بارے میں متعدد آیات موجود ہیں جو ان کے کردار و صفات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بعض آیات میں ان کی ابدی ذلت و خواری اور ہمیشہ کے لیے نابودی کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔
موجودہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ عصر ظہور میں دو مراحل میں یہودیوں سے روبرو ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں یہودیوں کو منطقی دلائل کے ذریعے اسلام کی دعوت دیں گے۔ جس کی وجہ سے بعض ایمان لے آئیں گے لیکن بہت سارے عناد، دشمنی اور اپنی نسل پرستی کے تعصب کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔ ایسی صورت میں دوسرے مرحلے میں ان کے ساتھ جنگ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ظہور امام زمانہ سے متعلق روایات کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال، یہود، سفیانی اور شام کے درمیان ایک خاص رابطہ پایا جاتا ہے۔ امام زمانہ دجال اور سفیانی لشکر کو شکست دے کر شام پر قبضہ کریں گے، اور آخر کار مسجد الاقصیٰ میں داخل ہوں گے کہ جو یہودی قوم کی ذلت و خواری اور شکست کی انتہا ہو گی۔
امام زمانہ اور یہودیوں کو دعوت اسلام
دین اسلام، دین فطرت اور دین عقل و منطق ہے۔ امام زمانہ (عج) بھی دیگر ہادیان برحق؛ انبیاء اور اوصیاء کی طرح سب سے پہلے تمام غیر مسلمانوں منجملہ یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیں گے۔ اس حقیقت کی طرف اسلامی کتابوں اور روایتوں میں اشارہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر عبد اللہ بن بکیر نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے آیت     «وله أسلم من فی السماوات و الأرض»  کی تفسیر معلوم کرنا چاہی تو آپ نے فرمایا: ’’یہ آیت ہمارے ’قائم‘ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جب وہ یہودیوں، نصرانیوں، صابئین، مادہ پرستوں اور کرہ ارض کے مشرق و مغرب میں رہنے والے کفار و مشرکین کے خلاف قیام کریں گے اور انہیں اسلام کی دعوت دیں گے۔ جو اسلام قبول کر لے گا اسے نماز و زکات کا حکم دیں گے ۔۔۔‘‘ (عیاشی، محمد بن مسعود، ج۱، ص۱۸۳-۱۸۴)
امام زمانہ صرف دعوت حق پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ بعض احادیث کے مطابق دین خدا اور اپنی حقانیت کے اثبات کے لیے ہر دین کے ماننے والوں کے لیے انہی کے دین سے دلائل پیش کریں گے۔ آئین یہودیت میں مقدس ’تابوت‘ عظیم مقام و منزلت کا حامل ہے۔ خداوند عالم جناب طالوت کی حقانیت کے بارے میں فرماتا ہے: ’’اور ان کے پیغمبر نے ان سے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میں پروردگار کی طرف سے سامان سکون اور آل موسی اور آل ہارون کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے۔ اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لیے پروردگار کی نشانی بھی ہے اگر تم صاحب ایمان ہوں‘‘۔ (بقرہ، ۲۴۸)
تاریخ میں ہے کہ بنی اسرائیل میں یہ تابوت جس خاندان کے پاس ہوتا تھا نبوت اسی خاندان کو نصیب ہوتی تھی لہذا یہودیوں کے یہاں اس تابوت کا بہت احترام ہے۔ اسی بنا پر امام زمانہ ظہور کے بعد یہ تابوت لے کر یہودیوں پر حجت تمام کریں گے اور جو آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ان کے ساتھ جنگ کر کے ان کا قلع قمع کر دیں گے۔

 

منہ میں رام رام بغل میں چھوری

  • ۵۰۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عبرانی زبان کی ویب سائٹ ’وللا‘ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ عرب ممالک کی طرف سے مذمتی پالیسی کو ان ممالک کی سرکاری پالیسی نہ سمجھا جائے کیونکہ ان ممالک کی جانب سے صہیونی ریاست کے ساتھ اندر خانہ تعاون جاری ہے۔
ویب سائٹ نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ فلسطینیوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے جب کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکا میں یہودی تنظیموں کے رہ نماؤں سے ملاقاتیں کرتے رہے اور انہیں یہ یقین دلاتے رہے کہ فلسطین میں یہودیوں کو اپنا قومی وطن قائم کرنے کا حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کےدرمیان تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اسرائیل اور عرب ممالک کا دشمن ایک ہی ہے۔ ان کا اشارہ ایران کی جانب تھا۔
خفیہ ملاقاتوں کی لیک ہونے والی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے یہودی رہنماؤں سے ملاقات میں فلسطینی اتھارٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ فلسطینیوں کو صدر ٹرمپ کی امن تجاویز تسلیم کرنا ہوں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا سے ابو دیس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کا فارمولہ بھی شہزادہ محمد بن سلمان ہی فلسطینی قیادت تک پہنچائے۔
بن سلمان نے شام میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں پر بحرینی وزیرخارجہ کے بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
عبرانی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے تشدد کی مذمت کی مگر دوسری طرف یہی امارات اسرائیلی تاجروں کا اپنے ملک میں استقبال کررہا ہے۔
مصر اور اسرائیل دونوں جزیرہ نما سینا میں داعش کو اپنا مشترکہ دشمن اور ہدف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح غزہ کی پٹی کا محاصرہ جاری رکھنے میں بھی عرب ممالک کی اسرائیل کو اشیرباد حاصل ہے کیونکہ غزہ کا انتظام حماس کے پاس ہے اور عرب ممالک حماس پر ایران نواز تنظیم ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام ہو یا ارض فلسطین میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات ہوں عرب ممالک کی طرف سے ان پر بظاہر مخالفت کا تاثر دیاجاتا ہے۔ فلسطینیوں پرمظالم کی بظاہر مذمت بھی کی جاتی ہے مگر اندر ہی اندر سے عرب ممالک صہیونی ریاست کے معاون اور مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔
..........

 

 

صہیونیت اور منجی عالم بشریت

  • ۴۲۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اگر چہ اسلامی مصادر میں ظہور کے وقت یہودیوں کے حالات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں پائی جاتیں، لیکن قرآن کریم میں یہودیوں کی جو صفات بیان ہوئی ہیں خاص طور پر ان کی نسل پرستی،(۱) ان کا برگزیدہ قوم ہونا،(۲) اور پیغمبروں کا انکار کرنا، اور پھر مسلمانوں کی نسبت ان کی شدید دشمنی، ان چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ عصر غیبت میں وہ امام زمانہ کے دشمن ہیں آپ کے ظہور کے بعد بھی وہ اپنی دشمنی جاری رکھیں گے اور آپ کے ساتھ جنگ کے لیے آمادہ ہو جائیں گے۔
اس دشمنی کی ایک وجہ یہ ہے کہ قوم یہود تلمودی تعلیمات کی بنا پر خود ایک مسیحا یا عبرانی زبان میں ’ماشیح‘ کے منتظر ہیں جسے وہ موعود یا منجی کا نام دیتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ مسیحا اس وقت ظہور کریں گے جب قوم یہود تمام مقدس سرزمین پر تسلط پیدا کر لے گی۔ چنانچہ کتاب مقدس میں آیا ہے ’’ ہم تمہاری (ابراہیم) اولاد کو نیل سے فرات تک کی زمین عطا کرتے ہیں‘‘۔ (۳)
اس بنا پر وہ قائل ہیں کہ یہودی ہی صرف حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں چونکہ وہ جناب اسحاق اور ان کی اولاد کو ہی برحق سمجھتے ہیں اور اس بنا پر کتاب مقدس کی اس آیت کے مطابق صرف یہودی ہی نیل سے فرات تک کی زمین کے حقدار ہیں اور جب تک وہ اس سرزمین پر اپنا قبضہ نہیں جما لیتے مسیحا ظہور نہیں کر سکتے۔
حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کو سرزمین مقدس میں داخل ہونے اور جہاد کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ لیکن بنی اسرائیل ان کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں جس کی وجہ سے۴۰ سال تک بیابانوں میں سرگرداں ہو جاتے ہیں۔ اور آخر کار جناب طالوت اور جناب داؤود کے زمانے میں یہ وعدہ تحقق پاتا ہے اور جناب سلیمان کے دور میں دوبارہ اقتدار یہودیوں کے ہاتھ میں آتا ہے۔ (۴)

یہودیوں کے ساتھ صہیونی عیسائی بھی ہم صدا
لہذا توریت میں جو اللہ نے یہودیوں کے ساتھ وعدہ کیا وہ حضرت سلیمان کے دور میں پورا ہو گیا اور وہ سرزمین مقدس پر قابض ہوئے۔ لیکن جو چیز یہاں پر قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں صہیونی عیسائی بھی یہودیوں کے ساتھ ہم صدا اور ہم نوا ہو چکے ہیں۔ جبکہ عیسائی یہ جانتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ مسیحا بن کر قوم یہود کے لیے آئے تھے اس قوم نے انکی نبوت کا انکار کیا اور آخر کار انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا بلکہ اپنی طرف سے انہیں قتل کر دیا لیکن اللہ نے انہیں بچا کر آسمان پر اٹھا لیا۔
عصر حاضر میں امریکہ اور برطانیہ رہنے والے اکثر عیسائی بنی اسرائیل اور یہودیوں کے ساتھ ہم نوا ہو کر مسیح کے پلٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن عیسائیوں میں ایک پروٹیسٹنٹ نامی فرقہ ہے جو آخر الزمان کے موضوع کو لے کر بہت ہی حساس ہے اور انتہاپسند یہودیوں کے ساتھ مل کر مسیح کے ظہور کے لیے مقدمات فراہم کرنے میں بے انتہا سرمایہ لگا رہا ہے۔
یہ فرقہ قائل ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے ایک مسیحا ظہور کرے گا مگر اس سے قبل فلسطین میں ایک خطرناک ایٹمی جنگ ہو گی جس کے حوالے سے انہوں نے تاہم دسیوں فلمیں بھی بنائی ہیں۔
انہوں نے ان فلموں کے اندر یہ یقین دہانی کروانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں لوگ دو طرح کے ہیں ایک شرپسند اور دوسرے خیر پسند۔ خیر پسند صہیونی ہیں چاہے وہ یہودی ہوں یا عیسائی، جبکہ شرپسند مسلمان، عرب یا اسرائیل کے مخالف لوگ ہیں۔ اور اس جنگ میں شرپسند تمام طاقتیں ختم ہو جائیں گی اور ہزاروں سال حکومت صہیونیوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے بقول اسی خطرناک جنگ کے دوران مسیح ظہور کریں گے جو عیسائیوں کی حمایت کریں گے۔ اسی وجہ سے ۲۰ ویں صدی عیسوی کے ابتدا سے ہی بنیاد پرست عیسائیوں اور انتہا پسند یہودیوں نے سیاست میں قدم رکھا اور اسرائیل کو جنم دیا اور اب اپنا حیرت انگیز سرمایہ لگا کر صہیونی ریاست کی حفاظت میں کوشاں ہیں اور منتظر ہیں اس وقت کے جب فلسطین میں خیر و شر کی غیر معمولی جنگ ہو گی اور اس میں مسیح ظہور کر کے انہیں نجات دیں گے اور پھر ہزاروں سال دنیا پر صہیونی حکومت ہو گی۔
حواشی
1 – بقره: ۱۱۱ و ۱۱۳ و ۱۲۰ ، ۱۳۵
2- بقره: ۸۷
3- الکنیسة ، ۱۹۸0م؛ سفر التکوین الأصحاح الخامس عشر، ۲0 ص ۲۳.
4- مائده: 26-21
    
ماخذ: فصلنامه مشرق موعود، مواجهه امام زمان علیه السلام با قوم یهود در عصر ظهور، سعید بخشی، سید مسعود پورسید آقایی، تابستان 1396، سال یازدهم، شماره 42، ص86-39.
 

 

ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے ساتھ ہی حضرت عیسی(ع) کا ظہور ممکن

  • ۵۷۷

گزشتہ سے پیوستہ
آج کے یہود کا خیال ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی آخرالزمان میں فلسطین کے شمالی علاقے “ارمگدون” میں ظہور کریں گے اور یہاں ایک بڑی جنگ ہوگی۔ آج یہودی تفکر کے بانی حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور کو ان چار مرحلوں سے مشروط کرتے ہیں۔
ایران، امریکہ، ارجنٹائن، روس، یورپ اور دوسرے ممالک کی طرف سے یہودیوں کی ہجرت کے بعد، سنہ ۱۹۴۸ع‍ میں سرزمین فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا اور ۱۹۶۷ع‍ میں یہودی ریاست نے بیت المقدس پر قبضہ کیا۔ ایوانجیلی یا صہیونی عیسائی (۵) بھی سمجھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اپنے نئے ظہور کے بعد اسی شہر سے دنیا پر حکومت کریں گے۔
اسی بنا پر وہ امریکی حکومت کو آج تک مسلسل دباؤ کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ اس شہر کو اسرائیل کے قطعی اور ابدی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرے۔ امریکی سینٹ نے اپریل ۱۹۹۰ع‍‌ میں صہیونی عیسائیوں کے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔
 
یہودیوں کا خیال ہے کہ ہیکل سلیمانی بالکل اسی مقام پر بنا ہوا تھا جہاں مسجد الاقصی تعمیر ہوئی ہے اور دسیوں مرتبہ مسجد الاقصی کی دیواروں کے نیچے آثار قدیمہ کی تلاش کے بہانے اسے نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی یہودیوں کی تزویری حکمت عملی کا تیسرا مرحلہ ہے، جس کو عملی جامہ پہنا کر وہ نجات دہندہ کے ظہور اور ارمگدون میں آخری جنگ کی تیاری کے قریب پہنچنا چاہتے ہیں۔
یہ امام زمانہ(عج) کے ظہور کا مقابلہ کرنے کا یہودی منصوبہ ہے جس پر مرحلہ بہ مرحلہ اور قدم بہ قدم عمل ہورہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ قران کریم
۲۔ تاریخ انبیاء، سید ہاشم رسولی محلاتی
۳۔ دانشنامہ صہیونیسم و اسرائیل، مجید صفاتاج
۴۔ نگین آفرینش، جلد اول، مرکز تخصصی مہدویت حوزہ علمیه قم/ بنیاد فرہنگی مہدی موعود
۵۔ انجیلی عیسائی (Evangelicalism)، انجیلی مسیحیت، انجیلی پروٹسٹنٹزم، صہیونی عیسائیت یا ایوانجیلی عیسائیت۔
 

 

عقیدہ مہدویت کا مقابلہ اور یہودی ریاست کی حکمت عملی

  • ۴۰۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن کریم یہود کو مؤمنوں کا شدید ترین دشمن قرار دیتا ہے۔ (۱) چنانچہ مؤمنین اور عقیدہ مہدویت کے مقابلے میں اس شدید ترین دشمن کے نظریات اور حکمت عملیوں کا جائزہ لینا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے جو سنہ ۱۷ قبل از مسیح سے کنعان میں ہجرت کرکے آگئے اور وہاں سے مصر میں داخل ہوئے۔ اس قوم کو قبطیوں اور فرعون کے شدید ترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ خداوند متعال نے ان میں سے حضرت موسی علیہ السلام کو پیغمبر کے طور پر مبعوث فرمایا، جن کا مشن یہ تھا کہ اپنی قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائیں۔
فرعون نے بنی اسرائیل کی منتقلی کی مخالفت کی تو حضرت موسی(ع) اپنی قوم کے ساتھ دریا / سمندر پار کرگئے اور فیصلہ کیا کہ سرزمین موعود (بیت المقدس) چلے جائیں۔ بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام کے معجزے سے دریا پارکرنے میں کامیاب ہوئے اور فرعون اور اس کے سپاہی ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
راستے میں بنی اسرائیل کی سرکشیاں اور نافرمانیاں اللہ کے وعدوں میں تاخیر کا سبب بنے۔ (۲) اور بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ۴۰ سال تک دربدری اور سرگردانی کے بعد موسی(ع) کے وصی یوشع بن نون(ع) کی قیادت میں سرزمین مقدس کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرت یوشع بن نون علیہ السلام اپنی سپاہ کو لے کر شہر “اریحا” پر قابض ہوئے اور بنی اسرائیل اس شہر میں سکونت پذیر ہوئے۔ یوشع(ع) عمالقہ کے خلاف لڑے اور شام اور فلسطین کی سرزمینوں کو بنی اسرائیل میں تقسیم کیا۔ ان کی وفات کے بعد، بنی اسرائیل کے درمیان کے اختلاف زور پکڑ گئے اور دشمنوں نے بنی اسرائیل کے شہروں پر حملے کئے اور ان کا قتل عام کیا۔ بنی اسرائیل نے خداوند متعال سے التجا کی کہ دشمنوں کے خلاف جدوجہد اور بنی اسرائیل کی عظمت رفتہ بحال کرانے کے لئے انہیں ایک رہبر و قائد متعین فرمائے۔ (۳)
خداوند متعال نے بنی اسرائیل کی دعا قبول فرمائی اور حضرت طالوت علیہ السلام کو ان کے دشمنوں کے خلاف لڑنے پر مامور فرمایا۔ طالوت اور جالوت کے درمیان ہونے والی جنگ میں داؤد نامی نوجوان نے جالوت کو ہلاک کر ڈالا اور خداوند متعال نے انہیں نبوت اور فرمانروائی عطا کی۔ (۴)
حضرت داؤد علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو متحد کیا۔ تاریخ یہود میں حضرت داؤد(ع) اور ان کے فرزند حضرت سلیمان نبی علیہ السلام کی حکمرانی کا دور، سنہری دور کہلاتا ہے۔ حضرت سلیمان(ع) نے جنوں کی مدد سے بیت المقدس میں ایک عظیم عبادتگاہ تعمیر کی۔
حضرت سلیمان(ع) کی وفات کے بعد، اختلافات نے ایک بار پھر بنی اسرائیل کی راہ دیکھ لی اور ان کی قوت زائل ہو گئی اور آخر کار، سنہ ۵۸۶ قبل از مسیح میں بُختُ النَصر ـ جو ان دنوں بغداد اور مدائن کا حکمران تھا ـ بیت المقدس پر حملہ آور ہوا اور شہر کو خاک کے ڈھیر میں تبدیل کیا اور سلیمان(ع) کی عبادتگاہ کو منہدم کیا۔
یہود کی تزویری حکمت عملی کا تاریخی پہلو چار مراحل کی پیروی کرتا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام سے آج تک کے ۳۰۰۰ سال سے زائد عرصے میں یہودی اسی پروگرام کے مطابق مصروف عمل رہے ہیں۔

پہلا مرحلہ:
پہلا مرحلہ مختلف سرزمینوں سے سرزمین مقدس کی طرف ہجرتوں کا مرحلہ ہے۔ یہ مسئلہ حضرت موسی(ع) کے زمانے میں دریا پار کرنے کی صورت میں انجام کو پہنچا۔
دوسرا مرحلہ:
یہ مرحلہ حضرت یوشع(ع) کی قیادت میں اریحا کی فتح اور فلسطین میں قیام حکومت پر مشتمل تھا۔
تیسرا مرحلہ:
یہ مرحلہ بیت المقدس کی تسخیر کا مرحلہ تھا؛ حضرت سلیمان(ع) کی سلطنت کے دور میں بیت المقدس پر یہودیوں نے قبضہ کیا۔ بعد میں بُختُ النَصر نے حملہ کرکے یہودیوں کو منتشر کردیا۔
جس وقت مسلمانوں نے بیت المقدس کو آزاد کرایا تو یہودیوں نے عیسائیوں کو اکسایا اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو ۸ صلیبی جنگوں میں الجھایا تا کہ آخرکار ایک بار پھر بیت المقدس کو مسخّر کریں۔
چوتھا مرحلہ:
یہود کی تزویری حکمت عملی کا چوتھا مرحلہ سلیمان کی عبادتگاہ یا ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو ہے جسے بُختُ النَصر نے منہدم کردیا تھا۔

 

جاری

صہیونیت عالم بشریت کے لیے ناسور

  • ۴۴۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب یہودی پوری دنیا سے اپنے افراد کو جمع کر کے ایک ملک کی تشکیل کی کوشش میں تھے تو بہت سارے عراقی یہودی اس مقصد کو پورا کرنے کی طرف ذرہ برابر بھی مائل نہیں تھے۔ جس کی اصلی وجہ، عراق میں عربوں اور یہودیوں کی عرصہ دراز سے آپس میں ملی جلی زندگی تھی۔
صہیونیوں نے یہ طے کیا کہ عراق کے یہودیوں پر دھشتگردانہ حملے کروا کر عراقی مسلمانوں کی نسبت ان میں نفرت کا بیج بوئیں اور انہیں اسرائیل کی طرف بھاگنے کے لیے تیار کریں۔ سی آئی اے کے سابق رائٹر ویلبر کرین اولنڈ (wilbur crane eveland) یوں لکھتے ہیں: صہیونیوں نے عراق میں یہودیوں کے مذہبی مراکز اور امریکہ سے متعلق اداروں جیسے امریکی انفارمیشن سروس لائبریری میں بم بلاسٹ کروائے تاکہ اس طریقے سے عراقیوں کی امریکہ کی نسبت مخالفت ثابت کریں اور یہودیوں کے اندر خوف و دھشت پھیلائیں‘‘۔
اولنڈ مزید اس بارے میں لکھتے ہیں: عراق میں بہت تیزی سے ایسے اطلاعیے منتشر ہوئے کہ جن کے ذریعے یہودیوں کو اسرائیل کی طرف بھاگنے کی ترغیب دلائی جانے لگی۔ دنیا کے اکثر لوگوں نے عربوں کے دھشتگرد ہونے اور عراقی یہودیوں کے اسرائیل بھاگے جانے کے حوالے سے شائع کی جانے والی رپورٹوں پر یقین کر لیا‘‘۔
اسی طرح عراقی یہودی نعیم گیلادی جو خود ان واقعات میں تشدد کا شکار بنے لکھتے ہیں: اسلامی سرزمینوں میں سکونت پذیر یہودی اپنی مرضی اور چاہت سے فلسطین کی طرف ہجرت کر کے نہیں گئے بلکہ صہیونی یہودی اس مقصد سے کہ دوسرے ممالک میں رہنے والے یہودی اپنے ملکوں کو چھوڑ کر فلسطین بھاگ جائیں انہیں قتل کرتے تھے‘‘۔
یہاں پر یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ صہیونیت تمام عالم بشریت کے لیے ایک خطرناک وائرس اور ناسور ہے جو کبھی بھی انسانوں کی نابودی کا باعث بن سکتی ہے۔ چونکہ صہیونی فکر کے مالک افراد اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے سے گریز نہیں کرتے یہاں تک کہ اپنی قوم اور اپنے ہم مذہب افراد کو بھی اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
ماخذ:
رائٹر: Alison Weir
کتاب کا نام: Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.

 

صہیونیت کے خلاف جد وجہد کرنے والے علماء/ شہید بہشتی

  • ۵۹۳

’شہید سید محمد حسینی بہشتی‘

شہید بہشتی ایک فقیہ، سیاستدان اور امام خمینی (رہ) کے ان قریبی ساتھیوں میں سے تھے کہ جنہوں نے انقلاب سے پہلے اور بعد ہمیشہ حقیقی اور خالص اسلام کی بقاء اور انقلاب کی کامیابی کی راہ میں انتھک مجاہدت کی۔ سامراجیت کے خلاف جد وجہد اور عدالت کے نفاذ کے لیے کوشش اس مجاہد فقیہ کا خاصہ تھا۔ آپ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے سے بے انتہا رنجیدہ تھے اور ملک کے اندر اور باہر فلسطین کی آزادی کے لیے مہم چلاتے رہے۔
شہید بہشتی مسئلہ فلسطین کو عرب ملکوں کے مسئلہ کے عنوان سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس انسانی بحران کو عالم اسلام کی مشکل سمجھتے تھے۔ آپ ہمیشہ فلسطینی عوام کے فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے تھے یہاں تک کہ اس دور میں جب آپ ہیمبرگ میں زیر تعلیم تھے طالبعلموں سے چندہ کر کے امام موسی صدر اور شہید چمران کے ذریعے فلسطینیوں تک امداد پہنچایا کرتے تھے۔
شہید بہشتی کے شاگرد ’رحیم کمالیان‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ’’ ڈاکٹر بہشتی ہمیشہ طلبہ کو اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ اگر ہو سکے تو اپنے اخراجات میں سے کچھ بچا کر فلسطینیوں کے لیے مخصوص صندوقچہ میں ڈالیں اور اس طرح پیسہ جمع کر کے ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپ اس کے علاوہ یورپ میں اسلامی انجمنوں کو بھی اس کام کی تاکید کرتے تھے۔ جس کے بعد امریکہ اور یورپ کی تمام اسلامی تنظیمیں جو اسلامی یونین کی رکن تھیں فلسطینیوں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے لگیں۔ ۱


اس کے علاوہ شہید بہشتی شام اور لبنان کے سفر پر بھی جایا کرتے اور فلسطینی مجاہد گروہوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ۲
شہید بہشتی نے اپنی ایک تقریر میں مسئلہ فلسطین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران کی پہلوی حکومت کو اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے خبردار کیا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ چیز باعث بنی کہ ’ساواک‘ انہیں تحت نظر رکھے۔ انقلاب کے بعد ساواک کی دستاویزات سے ملی ایک دستاویز میں شہید کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہوا تھا:
’’مذکورہ شخص، خمینی کے حامی گروپ کا لیڈر ہے اس نے عرب اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بارے میں ایران اور مشرق وسطیٰ کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا، ہم ہمیشہ قائل تھے کہ ایران کے رہنما اسرائیل کے حامی ہوں گے اور جو خبریں ہمیں موصول ہوئی ہیں وہ اسی نظریے کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک فضائی پل تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے اسلحہ اور امریکہ کی دیگر امداد اسرائیل کو پہنچائی جا رہی ہے۔
مذکورہ شخص نے اپنے اظہار خیال میں یہ امید ظاہر کی ہے کہ جب تک اسلامی حکومتیں آپس میں متحد نہیں ہوں گی کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتیں۔ اس لیے کہ جب اسلامی حکومتیں عربوں کی پیٹھ پر خنجر ماریں گیں تو کیسے عرب اس جنگ میں کامیاب ہو پائیں گے۔
مذکورہ شخص نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو اس وقت تک شکست سے دوچار نہیں کیا جا سکتا جب تک امریکہ کو ایران، ترکی، اردن اور سعودی عرب سے نکال باہر نہ کیا جائے‘‘۔ ۳
حواشی
1 – https://www.teribon.ir/archives/33440.
2- http://ensani.ir/fa/article/9899.
3- http://historydocuments.ir/show.php/print.php?page=post&id=2310