-
Wednesday, 15 April 2020، 08:22 PM
-
۴۰۴
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی لابیاں امریکی اور بعض مغربی ممالک کی سیاسی پالیسیوں میں انتہائی اہم اور بنیادی اثر و نفوذ رکھتی ہیں۔ ان لابیوں نے مغربی ممالک میں صہیونی مفادات کے حق میں سیاسی پالیسیاں عمل میں لانے کی بے انتہا کوششیں کی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جرمن عوام لیبرالیزم سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پس رہے ہیں صہیونی تنظیمیں ان کے معیشتی سرمایے کو بڑی آسانی کے ساتھ اسرائیل منتقل کرنے میں کوشاں ہیں۔
امریکہ
امریکہ میں صہیونی تنظیمیں بہت سرگرم اور فعال ہیں۔ AIPAC ( American Israel Public Affairs Committee) جیسی اہم تنظمیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں طاقتور ترین صہیونی لابیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ بعض عیسائیوں کی جانب سے جاری ان صہیونی تنظیموں کی حمایت در حقیقت صہیونی لابیوں کے امریکہ میں اس گہرے نفوذ کی وجہ سے ہے جو یہ چاہتی ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر انہیں جمع کریں۔
’’ماؤنٹ ٹیمپل فاؤنڈیشن‘‘ امریکہ کے عیسائی صہیونیوں کی ایک اور بانفوذ ترین تنظیم ہے جس کا مرکز کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں واقع ہے اور اس کا مقصد ’’قدس‘‘ میں ’’معبد‘‘ کی تعمیر ہے۔ اس تنظیم کا عقیدہ یہ ہے کہ یہودی معبد (ہیکل سلیمان) کی تعمیر ان آخری علامتوں میں سے ایک ہے جس کا مسیح کے ظہور سے پہلے تحقق پانا ضروری ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ ہیکل سلیمانی (Temple of Solomon) موجودہ مسجد الاقصیٰ کی جگہ پر تعمیر ہونا چاہیے۔ ان کے اس نقشے میں ’’قدس الاقداس‘‘ کا مقام بھی معین کیا گیا ہے۔
صہیونی عیسائیوں اور یہودیوں کے اس عقیدے کہ مسجد الاقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے کی جڑیں کیبالیسٹی تفکر Kabbalist ideas (یہودی تصوف) میں پائی جاتی ہیں۔ یہودی عیسائی تصوف سحر و جادو سے بھرا پڑا ہے۔ کیبالیسٹ کی اہم ترین کتاب ’’زوھر‘‘ ہے جس میں صرف غیب کی خبریں پائی جاتی ہیں۔ یہودی تصوف نے عیسائی معاشرے کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے آخری زمانے کی غیبی خبریں بیان کی ہیں جس کا حاصل صہیونیزم کی حمایت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
برطانیہ
برطانیہ عرصہ دراز سے یہودیت کا گہوارہ اور یہودیوں کے رشد و نمو کا مناسب پلیٹ فارم رہا ہے۔ برطانوی یہودی اس ملک کی صرف پانچ فیصد آبادی کو تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن برطانوی سیاست میں ان کا گہرا اثر و رسوخ باآسانی اسرائیلی مفادات کو حاصل کر لیتا ہے۔ برطانوی یہودی اس ملک کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اس قدر سرگرم ہیں کہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ برطانوی معیشت کی شہ رگ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔
برطانیہ کی جانب سے صہیونی غاصب ریاست کی حمایت در حقیقت یہودی سیاستمدار اور سرمایہ دار گھرانوں جیسے روتھسلیڈ فیملی (Rothschild family) کے اس ملک کے سیاسی معیشتی میدان میں گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے رہی ہے۔ ۱۹۲۹ سے ۱۹۴۹ تک کے عرصے میں برطانیہ کے ۳۱ سرمایہ دار تاجروں میں ۲۴ تاجر یہودی تھے۔ برطانوی معیشت میں اثر و رسوخ رکھنے والے یہودی گھرانوں میں سے درج ذیل گھرانوں کا نام لیا جا سکتا ہے: Rothschild family,montefiore, Goldschmidt family, Samuel family, Badington family, sassoon family.
تجزیہ نگاروں کی نظر میں برطانیہ اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور جب بھی اسرائیل کسی بحران کا شکار ہوتا ہے برطانوی وزیر اعظم اور اس ملک کے دیگر صہیونی سیاستدان اس غاصب ریاست کے تئیں اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں اور اس کے دفاع میں دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر میں ایران، لبنان اور شام کا باہمی مزاحمتی اتحاد، صہیونی ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا اور برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی حمایت صہیونی ریاست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا پائے گی۔
فرانس
فرانس منجملہ ان ممالک میں سے ایک ہے جن کی قابل توجہ آبادی یہودیوں پر مشتمل ہے بلکہ یورپ کے تمام ممالک کی نسبت فرانس میں سب سے زیادہ یہودی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور فرانس کے اکثر یہودی صہیونیت کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ فرانس اور اسرائیل کے باہمی تعلقات دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت قریبی رہے ہیں۔
۱۹۵۶ میں فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کی حمایت میں ’’سینا جزائر‘‘ پر حملہ کیا اور ’’نہر سوئز‘‘ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ فرانس نے اب تک بے شمار فوجی اسلحہ اسرائیل کو فروخت کیا ہے اور ۱۹۵۰ کے بعد ایٹمی ہتھیار بنانے میں اسرائیل کی بے انتہا مدد کی ہے۔ فرانس اور اسرائیل کی ایٹمی سرگرمیاں اس قدر وسیع تھیں کہ ڈیمونا ایٹمی نیوکلر پلانٹ ۱۵۰ فرانسیسی انجینئروں کی مدد سے اسرائیل میں تاسیس کیا گیا۔
جب نکولاس سرکوزی (Nicolas Sarkozy) نے فرانسیسی حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی تو اس ملک کے سیاسی حالات میں عظیم تبدیلی آئی۔ سرکوزی نے اسرائیل کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو اس قدر مضبوط بنا دیا کہ شیرون کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے اسرائیل کو ڈیموکریسی کا بہترین نمونہ قرار دیا اور شیرون نے بھی فرانس کو اسرائیل کا بہترین دوست گردانا۔ سرکوزی نے صہیونی لابیوں کے مقابلے میں کہا: ’’میں پوری سچائی سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ہر گز ان لوگوں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ غزہ کی ۲۲ روزہ جنگ اور لبنان کی ۳۳ روزہ جنگ میں سرکوزی نے اسرائیل کی بھرپور حمایت کی اگر چہ ان جنگوں میں اسرائیل کو شدید شکست کا سامنا ہوا۔
جرمنی
بہت سارے جرمن مفکرین اسرائیلی سیاستوں کے مخالف ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جرمن شہری، اسرائیل کو عالمی صلح کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اس ملک کی ۵۳ فیصد آبادی جرمنی اور اسرائیل کے تعلقات کے مخالف ہے اور صرف چالیس فیصد ان تعلقات کو ضروری سمجھتے ہیں۔ جرمنی کے وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے حالیہ ایام میں جرمنی میں پائی جانے والی اسرائیل مخالف فضا میں اضافہ کی خبر دی۔ لیکن یہ یہودی مخالفت جرمنی میں موجود مسلمان مہاجرین کے سر ڈال دی اور جرمنیوں کو سبکدوش کر دیا۔ اسلاموفوبیا اور ایرانوفوبیا صہیونیزم کی ایک اہم ترین اسٹراٹیجی ہے کہ جو وہ اپنی نشستوں میں ’’ دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف بین الاقوامی مہم‘‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں۔
۱۹۵۳ سے اب تک جرمنی نے ۳۵ ارب ڈالر صہیونی ریاست کو عطیہ دیے ہیں۔ جرمنی کی موجودہ چانسلر ’’انجیلا میرکل‘‘ نے جرمنی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کو اعلیٰ ترین سطح تک پہنچا دیا ہے یہاں تک کہ انجیلا میرکل نے جنوری ۲۰۰۸ میں یہ اعلان کیا تھا کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اسرائیل کے قیام کی ۶۰ ویں سالگرہ کے موقع پر مشترکہ جشن منائیں گی۔ اس وقت بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جرمنی کے صہیونی سربراہوں نے اسرائیل کی ۷۰ ویں سالگرہ کے جشن میں شرکت کر کے اپنے تعلقات کو مزید فروغ دیا۔
منابع:
۱- مسیحیت صهیونیسم و بنیادگرای آمریکا، رضا هلال
۲- لابی صهیونیسم در ایالات متحده آمریکا، محسن اسلامی
۳- یهود، صهیونیسم و اروپا، ضحی ربانی خوارسگانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔