-
Wednesday, 15 April 2020، 07:43 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قدس شریف اور فلسطین پر قبضہ کیے ہوئے چھ دہائیوں سےزیادہ گذر چکی ہیں ۔عرب حکومتوں نے ابتدائی مقابلے اور اقدامات کے بعد اور غاصب اسرائیلی حکومت کے چھ روزہ جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد کہ جس میں مصر شام اور لبنان کے کچھ علاقوں پر صہیونیوں کا قبضہ ہو گیا تھا ،بعض قدامت پرست اور سازشی عرب حکومتوں نے کچھ مواقع پر فلسطین کے مقاصد کے ساتھ بے وفائی شروع کر دی ۔ قدس شریف اور فلسطین کے مقاصد کے سلسلے میں قدامت پرست عرب سربراہوں کی بے توجہی کی وجہ سے فلسطینیوں کا دائرہ حیات تنگ ہو چکا تھا اور صہیونی بھی نئے نئے نقشوں اور منصوبوں کے تحت مسجد الاقصی کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے پراگندہ خواب دیکھ رہے تھے ۔قدس شریف کو یہودی بنانا قدس پر قبضے کو جاری رکھنے کے لیے ایک اہم ترین منصوبہ تھا ۔حقیقت میں مسجد الاقصی کی عمارت کے نیچے سے سرنگ بنانا اور فلسطین نشین علاقوں میں بے رویہ شہروں کی تعمیر وغیرہ کے پیچھے صہیونیوں کے دو بڑے مقاصد ہیں ایک فلسطینیوں کو نکالنا اور دوسرا اسلامی آثار کو مکمل طور پر مٹانا ہیں تا کہ یہ حکومت اس مقدس شہر کو کہ جو بنیادی طور پر فلسطینیوں اور مسلمانوں کا ہے اپنے قبضے میں رکھ سکیں ۔
واقعیت یہ ہے کہ صہیونیوں کی نظر میں قدس شریف ایک بہت اہم جغرافیائی حساسیت کا حامل ہے لہذا یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ صہیونزم کے سربراہ اور پالیسی میکر اپنی جعلی حکومت کی بقاء اور اس کے دوام کو اس مقدس شہر سے منسلک کیے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دہائیوں کے دوران اور خاص کر گذشتہ دو دہائیوں میں صہیونی رہنماوں کی پوری کوشش ہے کہ قدس شریف کو یہودی شہر میں تبدیل کر دیا جائے کہ جس پر اس وقت اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں ۔ اصل میں شہر تعمیر کرنے اور مقبوضہ سر زمینوں کو یہودی سر زمینوں میں تبدیل کرنے کا خاص کر بیت المقدس کے اطراف کی سر زمینوں کو یہودی زمینوں میں تبدیل کرنے کا صہیونیوں کا مقصد قدس شریف کو مکمل طور نابود کرنا اور مقبوضہ زمینوں میں یہودی حکومت کی تشکیل دینا ہے ۔
صہیونیوں کے بوڑھے جنرل ایریل شیرون کو کہ جو عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی تمام جنگوں میں محاذ پر سب سے آگے رہا ہے اور فلسطینیوں اور مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ اس کا نام ایک طرح سے جڑ گیا ہے شہر قدس اور غصبی سر زمینوں میں شہر بنانے کی سیاست کا معمار قرار دیا جا سکتا ہے واقعیت یہ ہے کہ مسکونی علاقے بنانا اور قدس کو یہودی بنانا اور اس کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کرنا کہ جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اور فلسطین کے سلسلے پاس کی گئی قراردادوں کی اس سے خلاف ورزی ہوتی ہے، مدتوں پہلے شروع ہو گیا تھا اور اس وقت تیزی کے ساتھ جاری ہے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ سب سے پہلے صہیونی اس مقدس مکان کو یہودیوں کی طرز پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔اس لیے کہ شہر قدس مقدس اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اور اسلامی شان کا حامل ہونے کے ساتھ ،یہودیوں کے لیے بھی مختلف پہلووں سے اہمیت کا حامل ہے اس طرح کہ صہیونی رہبر اور خاص کر ان کے انتہا پسند گروہ اسرائیل کی عبری حکومت کی تاسیس اور بقا کو قدس کی اسلامی ماہیت اور شناخت کی نابودی اور قدس کی یہودی طرز پر ساخت کو قرار دیتے ہیں ۔
صہیونی پہلے تو اس شہر کو مذہبی اہمیت کے اعتبار سے دیکھتے ہیں ۔جس زمانے میں دیگر ملکوں جیسے یوگینڈا ، سیبری ، یا اتریش میں دنیا کے یہودیوں کے لیے اسرائیل کی غاصب حکومت کی تاسیس کی بات چلی تو اس کو رد کر دیا گیا اس لیے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم نے محسوس کیا کہ یہودیوں کو کسی ایک ملک میں جمع کرنے کا واحد راستہ صرف مذہبی مسئلہ ہے ۔اسی لیے انہوں نے فلسطین پر اصرار کیا ،نہ اس اعتبار سے کہ وہ فلسطین کی سر زمین کو دوست رکھتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ قدس پر غلبہ حاصل کریں ،چونکہ قدس یہودیوں کے لیے ایک مذہبی محرک ہے ۔اگر چہ صہیونی تحریک کے رہنما اور خود تحریک بے دین اور لا مذہب تھی ،لیکن انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہودیوں کے یکجا کرنے کا واحد راستہ قدس ہے اسی بنا پر انہوں نے طے کیا کہ یہودی حکومت اس ملک میں ایجاد کی جائے ۔یہ ایسی حالت میں تھا کہ برطانیہ کے حیاتی منافع بھی اس مذہبی رجحان کے ساتھ وابستہ تھے ،اس بنا پر مذہبی اور حیاتی منافع کا یکجا ہونا باعث بنا کہ فلسطین صہیونیوں کی نسل پرستی کے منصوبے کا شکار بن جائے ۔
اس بنا پر صہیونیوں کے لیے قدس کی اہمیت کو صہیونی حکومت کے پہلے وزیر اعظم بن گورین کے اس مشہور جملے سے جانا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا قدس کے بغیر اور قدس کا ھیکل سلیمانی کے بغیر کوئی وجود نہیں ہے اور یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہیں ۔ اس بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ قدس کس قدر یہودیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے اور صہیونی بھی اس کی یہودی طرز پر تعمیر کے لیے کس قدر ہاتھ پیر مار رہے ہیں ۔ اور اس کے بارے میں امریکہ میں بھی پروپیگنڈا ہوتا ہے کہ قدس کو اس کے اطراف کی زمینیں غصب کر کے یہودی طرز پر تعمیر کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔