-
Monday, 1 June 2020، 01:32 PM
-
۴۳۵
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
بقیع محض ایک قبرستان نہ تھا :
بقیع محض ایک قبرستان نہیں تھا جو ویران ہوا بلکہ ایک تاریخی دستاویز کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر کے کچھ لوگوں نے اپنی نابودی کی سطریں رقم کی تھیں اور آج مذہبی و تکفیریت کے جنون میں بے گناہوں کو مار کر بہشت میں جانے کی آرزو اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے وہابیت و تکفیریت نے یہ چند مزارات مقدسہ کو مسمار نہیں کیا تھا انسانیت و شرافت کے تاج کو اپنے پیروں تلے روند کر دنیا کو بتلایا تھا کہ پہچانو ہم کون ہیں؟ ہمارا تعلق کس فکر سے ہے؟
جسطرح شیطان ہونے کے باوجود رحمان کے سامنے نابودہے ویسے ہی یہ تکفیریت و وہابیت کے پتلے تعلیمات اھلبیت اطہار علیھم السلام اور بی بی زہرا سلام اللہ علیھا کے دئے گئے دربار ِ خلافت میں تاریخی خطبہ کے سامنے نابود و نابود ہیں انکا وجود ویسے ہی ہے جیسے شیطان کا یہ ہر اس جگہ گرجتے ملیں گے جہاں شیطان گرجتا ہے جہاں ہواو ہوس کے میلے ہو جہاں خواہشات نفسانی کے سجے بازار ہوں جبکہ یہ ہر اس جگہ سے بھاگتے ملیں گے جہاں شیطان بھاگتا ہے جہاں عبودیت کی بات ہو یہ جہاں توحید کی بات ہوگی جہاں سجدوں کی پاسداری کی بات ہوگی مشرکین سے برات کے اظہار کی بات ہوگی وہاں یہ دم دبائے بھاگتے نظر آئیں گے لیکن جہاں مسلمانوں کے قتل عام کی بات ہوگی ، معصوم بچوں پر بارود کی بارش کی بات ہوگی، نہتے لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے کی بات ہوگی انکے قدموں کے نشان نظر آئیں گے ۔
یقین نہ آئے تو دیکھیں شیطان کہاں ہنس اور گرج رہا ہے؟ کہیں یمنیوں کے سروں پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر، کہیں انسانوں کی کھوپڑیوں سے فوٹبال کھیلتے ہوئے ،کہیں عراق کی زمیں کو لہو لہو کر کے کہیں شام کو ویرانے میں بدل کر کہیں نائجیریا میں انصاف وعدالت کا گلا گھونٹ کر کہیں سعودی عرب میں شیخ النمر کا سر قلم کر کے کہیں پاکستان و افغانستان کی زمینوں کو خون سے سیراب کر کے ، کہیں معصوم پھولوں کو مسل کر کہیں ننھی کلیوں کو کچل کر کہیں دھماکوں کے درمیان کہیں شعلوں کے درمیاں کہیں لاش کے بکھرے ٹکڑوں کے درمیان تو کہیں کٹے ہوئے سروں کی نمائش کے درمیان کہیں مسجدوں میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے تو کہیں امام بارگاہوں میں خوںچکا ہاتھوں کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے حال ہی میں افغانستان میں بچوں کے ایک ہاسپٹل پر جو حملہ ہوا اسے آپ کیا نام دیں گے کیا وہ لوگ انسان تھے جنہوں نے معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا یا وہ شیطان کے چیلے تھے جو مذہب کے نام پر انسانیت کا قتل کر رہے ہیں انسانیت شرمسار تھی اور شیطان کے قہقوں کو صاف سنا جا سکتا تھا ۔ یقینا جب کبھی بھی اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں کلاشنکوف و مشین گنوں سے جب بھی موت برستی ہے تو شیطان ڈگڈگی بجا کر اپنے چیلوں کو داد تحسین دیتا نظر آتا ہے اسکے اس کے قہقہہ بڑھتے ہیں اس کی ٹولیاں آباد ہوتی ہیں کہیں یہ داعش کا ہاتھ تھامے نظر آتا ہے کہیں النصرہ کا کہیں القاعدہ و طالبان تو کہیں بوکو حرام و الاحرار و جند اللہ سب کی آوازیں ایک جیسی سب کے رنگ ایک جیسے سب کا انداز ایک جیسا یہ عصبیت کے پتلے یہ نفرتوں کی آگ میں دہکتے آتشیں گولے یہ عدم تحمل و برداشت کے دھویں میں کالے کالے سیاہ سایے شیطان کے کارندے یہ ابلیس کے ہم جولی نہیں تو کون ہیں؟ جنہوں نے انسانیت پر وہ ظلم ڈھایا کہ بس… وہ ستم ڈھائے کہ الامآں …یہ جدھر نکلے آگ اور دہشت کا ماحول لیکر نکلے جدھر پہنچے حیوانیت کا بھانگڑا کرتے پہنچے درندگی کا ناچ ناچتے پہنچے ۔
وہابیت کی جانب سے قتل و غارتگری امت مصطفے کی غفلت کا نتیجہ :
شک نہیں کہ اگر امت مصطفی صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم اگر بیدار ہوتی تو کبھی یہ لوگ دنیا میں اتنی ناامنی نہیں پیدا کر سکتے تھے ،اگر بقیع کی ویرانی پر ساری امت محمدی ایک ساتھ کھڑی ہو گئی ہوتی تو اسلامی تعلیمات کو تار تار کرنے کی ہمت اس ٹولے میں نہ ہوتی کہیں ویران بقیع کی صورت کہیں دہشت و خوف کے مہیب سایوں کی صورت، کہیں اسکول کے معصوم بچوں کی فریادوں کی صورت کہیں ، بچوں کے ہاسپٹل میں مجبور ماوں کی چیخوں کی صورت ۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دنیا کو پہچنوائیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور انسانیت کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں؟ان کے سیاہ کارنامے تو دیکھیں جو عالمی استکبار و سامراج کی پشت پناہی میں اس تکفیری ٹولے نے انجام دئیے بقیع تو محض ایک قبرستان تھا جس سے مسلمانوں کی قلبی وابستگی تھی جو انسانی عظمتوں کے محافظ عظیم خاکی پیکر میں ڈھلے انوار الہیہ کی پاکیزہ تربتوں کو اپنے دل میں سموئے تھا ، انہوں نے محض اسے ہی مسمار نہیں کیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اور بھی تاریخی و ثقافتی یادگاروں کو تباہ و برباد کیا حتی اسلام کا مرکز جانے والے شہر مدینہ تک کو نہیں بخشا چنانچہ تاریخ بتاتی ہے وہابیوں نے مکہ مکرمہ پرقبضہ کے بعد مدینہ منورہ کارخ کیا ، شہرکامحاصرہ کیا اور مدافعینِ شہر سے جنگ کے بعد اس پرقبضہ کرلیا ، جنت البقیع میں ائمہ علیہم السلام کی قبور اوراسی طرح باقی قبروں جیسے قبر ابراھیم فرزندپیغمبر ۖ ، ازواج آنحضرت کی قبور ، قبرحضرت ام البنین مادرحضرت عباس ، قبہ جناب عبداللہ والد گرامی رسول خدا ۖ، قبہ اسماعیل بن جعفرصادق علیہ السلام اور تمام اصحاب وتابعین کی تمام کے تمام قبور کو مسمار کر دیا اور اس فولادی ضریح کو بھی اکھاڑ دیا جسے اصفہان سے خاص طور پر بنا کر مدینہ لایا گیا تھا اور جسے امام مجتبی علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقر و صادق علیھما السلام کی قبور مطہر پر نصب کیا گیا تھا ان لوگوں نے نہ صرف اس ضریح کو وہاں سے اکھاڑا بلکہ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب عباس اور فاطمہ بنت اسد والدہ گرامی امیر المومنین علیہ السلام کو بھی ویران کر دیا جو ائمہ اربعہ علیھم السلام کے ساتھ ایک ہی قبے میں تھی[i] ۔
اسی طرح مدینہ منورہ میں امام حسن اورامام حسین علیہماالسلام کے محل ولادت ، شہدائے بدرکی قبور نیز حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تعمیر کیا گیا وہ گھر بھی انہوں نے مسمار کر دیا جسے آپ نے حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے لئیے مدینہ میں بنایا تھا [ii]۔
بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہابیوں نے محض شیعہ آبادی کے علاقوں کو ہی تاراج کیا جب کہ حجاز اور شام میں ان کے کارناموں کا مشاہدہ کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ کہ اہل سنت آبادی کے علاقے بھی ان کے حملات سے محفوظ نہ رہ سکے ۔
زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ لکھتے ہیں :
١٢١٧ھ میں جب وہابیوں نے طائف پرقبضہ کیا تو چھوٹے ، بڑے ، سردارو مزدور سب کوقتل کرڈالا ،بوڑھے افراد کے علاوہ کوئی ان کے ہاتھوں سے نجات نہ پاسکا ، یہاں تک مائوں کی آغوش میں ان کے شیرخواربچوں کے سرتن سے جداکردیئے ، لوگوں کامال لوٹا اورعورتوں کوقیدی بنالیا[iii] … انکی داستان ظلم رقم کرنے کے لئے کتابیں درکار ہیں ،کل انہوں نے مدینہ وحجاز و طائف نہیں چھوڑا آج یمن کو نابود کر دینے کے درپے ہیں ایسے میں جنت البقیع کے انہدام کے سلسلہ سے ہونے والے پروگراموں میں انکی جارحیت و ظلم سے پردہ اٹھانا ہمارا دینی ہی نہیں انسانی فریضہ ہے ،وہ دن دور نہیں جب عالمی سامراج و اسکتبار کے شانہ بشانہ ان ظالموں کو اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا ۔
[i] ۔ دوانی، مقدمہ۔فرقہ وہابی ،ص: ۵۶محسن امین ،کشف الارتیاب؛صفحہ ٥٥
[ii] ۔ قزوینی ، وہابیت از منظر عقل و شرع ص ۱۱۹
[iii] ۔ ولما ملکواالطائف فی الذیقعدة سنة ١٢١٧، الف ومائتین وسبعة عشرقتلوا الکبیر والصغیر والمامور والامر ولم ینج الامن طال عمرہ ، وکانوایذبحون الصغیر علی صدرامہ ونھبوا الاموال وسبواالنساء زینی دحلان ۔ الدررالسنیة :ص،٤٥