انہدام جنت البقیع سے بے گناہوں کے خون کی ہولی تک، شیطان کی ڈگڈگی پر تکفیریت کا ننگا ناچ. 2

  • ۴۳۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

بقلم سید نجیب الحسن زیدی

 

بقیع محض ایک قبرستان نہ تھا :

بقیع محض ایک قبرستان نہیں تھا جو ویران ہوا بلکہ ایک تاریخی دستاویز کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر کے کچھ لوگوں نے اپنی نابودی کی سطریں رقم کی تھیں اور آج مذہبی و تکفیریت کے جنون میں بے گناہوں کو مار کر بہشت میں جانے کی آرزو اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے وہابیت و تکفیریت نے یہ چند مزارات مقدسہ کو مسمار نہیں کیا تھا انسانیت و شرافت کے تاج کو اپنے پیروں تلے روند کر دنیا کو بتلایا تھا کہ پہچانو ہم کون ہیں؟ ہمارا تعلق کس فکر سے ہے؟
جسطرح شیطان ہونے کے باوجود رحمان کے سامنے نابودہے ویسے ہی یہ تکفیریت و وہابیت کے پتلے تعلیمات اھلبیت اطہار علیھم السلام اور بی بی زہرا سلام اللہ علیھا کے دئے گئے دربار ِ خلافت میں تاریخی خطبہ کے سامنے نابود و نابود ہیں انکا وجود ویسے ہی ہے جیسے شیطان کا یہ ہر اس جگہ گرجتے ملیں گے جہاں شیطان گرجتا ہے  جہاں ہواو ہوس کے میلے ہو جہاں خواہشات نفسانی  کے سجے بازار ہوں جبکہ یہ ہر اس جگہ سے بھاگتے ملیں گے جہاں شیطان بھاگتا ہے  جہاں عبودیت کی بات ہو یہ جہاں توحید کی بات ہوگی جہاں سجدوں کی پاسداری کی بات ہوگی مشرکین سے برات کے اظہار کی بات ہوگی وہاں یہ  دم دبائے بھاگتے نظر آئیں گے لیکن جہاں مسلمانوں کے قتل عام کی بات ہوگی ، معصوم بچوں پر بارود کی بارش کی بات ہوگی، نہتے لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے کی بات ہوگی انکے قدموں کے نشان نظر آئیں گے ۔
یقین نہ آئے تو دیکھیں شیطان کہاں ہنس اور گرج رہا ہے؟ کہیں یمنیوں کے سروں پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر، کہیں انسانوں کی کھوپڑیوں سے فوٹبال کھیلتے ہوئے ،کہیں عراق کی زمیں کو لہو لہو کر کے کہیں شام کو ویرانے میں بدل کر کہیں نائجیریا میں انصاف وعدالت کا گلا گھونٹ کر کہیں سعودی عرب میں شیخ النمر کا سر قلم کر کے کہیں پاکستان و افغانستان کی زمینوں کو خون سے سیراب کر کے ، کہیں معصوم پھولوں کو مسل کر  کہیں ننھی کلیوں کو کچل  کر  کہیں دھماکوں کے درمیان کہیں شعلوں کے درمیاں کہیں لاش کے بکھرے ٹکڑوں کے درمیان تو کہیں کٹے ہوئے سروں کی نمائش کے درمیان کہیں مسجدوں میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے تو کہیں امام بارگاہوں میں خوںچکا ہاتھوں کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے حال ہی میں افغانستان  میں بچوں کے ایک ہاسپٹل پر جو حملہ ہوا اسے آپ کیا نام دیں گے کیا وہ لوگ انسان تھے جنہوں نے معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا یا وہ شیطان کے چیلے تھے جو مذہب کے نام پر انسانیت کا قتل کر رہے ہیں انسانیت شرمسار تھی اور شیطان کے قہقوں کو  صاف سنا جا سکتا تھا ۔ یقینا جب کبھی بھی اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں کلاشنکوف و مشین گنوں سے جب بھی موت برستی ہے تو  شیطان ڈگڈگی بجا کر اپنے  چیلوں کو داد تحسین دیتا نظر آتا ہے اسکے اس کے قہقہہ بڑھتے ہیں اس کی ٹولیاں آباد ہوتی ہیں کہیں یہ  داعش کا ہاتھ تھامے نظر آتا ہے  کہیں النصرہ کا کہیں القاعدہ و طالبان تو کہیں بوکو حرام و الاحرار و جند اللہ سب کی آوازیں ایک جیسی سب کے رنگ ایک جیسے سب کا انداز ایک جیسا یہ عصبیت کے پتلے یہ نفرتوں کی آگ میں دہکتے آتشیں گولے یہ عدم تحمل و برداشت کے دھویں میں کالے کالے سیاہ سایے شیطان کے کارندے یہ ابلیس کے ہم جولی نہیں تو کون ہیں؟ جنہوں نے انسانیت پر وہ ظلم ڈھایا کہ بس… وہ ستم ڈھائے کہ الامآں …یہ جدھر نکلے آگ اور دہشت کا ماحول لیکر نکلے جدھر پہنچے حیوانیت کا بھانگڑا کرتے پہنچے درندگی کا ناچ ناچتے پہنچے ۔

وہابیت کی جانب سے قتل و غارتگری امت مصطفے کی غفلت کا نتیجہ :

شک نہیں کہ  اگر امت مصطفی  صلی  اللہ علیہ وا آلہ وسلم اگر بیدار ہوتی تو کبھی یہ لوگ  دنیا میں اتنی ناامنی نہیں پیدا کر سکتے تھے ،اگر بقیع کی ویرانی پر ساری امت محمدی ایک ساتھ کھڑی ہو گئی ہوتی تو اسلامی تعلیمات کو تار تار کرنے کی ہمت اس ٹولے میں نہ ہوتی کہیں ویران بقیع کی صورت کہیں دہشت و خوف کے مہیب سایوں کی صورت، کہیں اسکول کے معصوم بچوں کی فریادوں کی صورت کہیں ، بچوں کے ہاسپٹل میں مجبور ماوں کی چیخوں کی صورت ۔
ہمارے لئے  ضروری ہے کہ ہم دنیا کو پہچنوائیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور انسانیت کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں؟ان کے سیاہ کارنامے تو دیکھیں جو عالمی استکبار و سامراج کی پشت پناہی میں اس تکفیری ٹولے نے انجام دئیے بقیع تو محض ایک قبرستان تھا جس سے مسلمانوں کی قلبی وابستگی تھی جو انسانی عظمتوں کے محافظ عظیم خاکی پیکر میں ڈھلے انوار الہیہ کی پاکیزہ تربتوں کو اپنے دل میں سموئے تھا ، انہوں نے محض اسے ہی مسمار نہیں کیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اور بھی تاریخی و ثقافتی یادگاروں کو تباہ و برباد کیا حتی اسلام کا مرکز جانے والے شہر مدینہ تک کو نہیں بخشا چنانچہ تاریخ بتاتی ہے وہابیوں نے مکہ مکرمہ پرقبضہ کے بعد مدینہ منورہ کارخ کیا ، شہرکامحاصرہ کیا اور مدافعینِ شہر سے جنگ کے بعد اس پرقبضہ کرلیا ، جنت البقیع میں ائمہ علیہم السلام کی قبور اوراسی طرح باقی قبروں جیسے قبر ابراھیم فرزندپیغمبر ۖ ، ازواج آنحضرت کی قبور ، قبرحضرت ام البنین مادرحضرت عباس ، قبہ جناب عبداللہ والد گرامی رسول خدا ۖ، قبہ اسماعیل بن جعفرصادق علیہ السلام اور تمام اصحاب وتابعین کی تمام کے تمام قبور کو مسمار کر دیا اور اس فولادی ضریح کو بھی اکھاڑ دیا جسے اصفہان سے خاص طور پر بنا کر مدینہ لایا گیا تھا اور جسے امام مجتبی علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقر و صادق علیھما السلام کی قبور مطہر پر نصب کیا گیا تھا ان لوگوں نے نہ صرف اس ضریح کو وہاں سے اکھاڑا بلکہ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب عباس اور فاطمہ بنت اسد والدہ گرامی امیر المومنین علیہ السلام کو بھی ویران کر دیا جو ائمہ اربعہ علیھم السلام کے ساتھ ایک ہی قبے میں تھی[i] ۔
اسی طرح مدینہ منورہ میں امام حسن اورامام حسین علیہماالسلام کے محل ولادت ، شہدائے بدرکی قبور نیز حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تعمیر کیا گیا وہ گھر بھی انہوں نے مسمار کر دیا جسے آپ نے حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے لئیے مدینہ میں بنایا تھا [ii]۔
بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہابیوں نے محض شیعہ آبادی کے علاقوں کو ہی تاراج کیا جب کہ حجاز اور شام میں ان کے کارناموں کا مشاہدہ کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ کہ اہل سنت آبادی کے علاقے بھی ان کے حملات سے محفوظ نہ رہ سکے ۔
زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ لکھتے ہیں :
١٢١٧ھ؁ میں جب وہابیوں نے طائف پرقبضہ کیا تو چھوٹے ، بڑے ، سردارو مزدور سب کوقتل کرڈالا ،بوڑھے افراد کے علاوہ کوئی ان کے ہاتھوں سے نجات نہ پاسکا ، یہاں تک مائوں کی آغوش میں ان کے شیرخواربچوں کے سرتن سے جداکردیئے ، لوگوں کامال لوٹا اورعورتوں کوقیدی بنالیا[iii] … انکی داستان ظلم رقم کرنے کے لئے کتابیں درکار ہیں ،کل انہوں نے مدینہ وحجاز و طائف نہیں چھوڑا آج یمن کو نابود کر دینے کے درپے ہیں ایسے میں جنت البقیع کے انہدام کے سلسلہ سے ہونے والے پروگراموں میں انکی جارحیت و ظلم سے پردہ اٹھانا ہمارا دینی ہی نہیں انسانی فریضہ ہے ،وہ دن دور نہیں جب عالمی سامراج و اسکتبار کے شانہ بشانہ ان ظالموں کو اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا ۔


[i]  ۔ دوانی، مقدمہ۔فرقہ وہابی ،ص: ۵۶محسن امین ،کشف الارتیاب؛صفحہ ٥٥

[ii]  ۔ قزوینی ، وہابیت از منظر عقل و شرع ص ۱۱۹

[iii]  ۔ ولما ملکواالطائف فی الذیقعدة سنة ١٢١٧، الف ومائتین وسبعة عشرقتلوا الکبیر والصغیر والمامور والامر ولم ینج الامن طال عمرہ ، وکانوایذبحون الصغیر علی صدرامہ ونھبوا الاموال وسبواالنساء زینی دحلان ۔ الدررالسنیة :ص،٤٥

 

یہودیوں کی کتاب مقدس میں عالمی حکومت کا تصور

  • ۴۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں کی مقدس کتاب تلمود میں یہودیوں پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ دوسروں کی زمینوں کو خریدیں تاکہ کوئی اور کسی چیز کا مالک نہ ہو اور اقتصادی طور پر یہودی تمام غیریہودیوں پر مسلط ہو سکیں۔ اور اگر کوئی غیر یہودی غلبہ حاصل کر لے تو یہودیوں کو چاہیے کہ اپنے آپ پر گریہ کریں اور کہیں ہم پر ملامت ہو یہ کیا عار و ننگ ہے کہ ہم دوسروں کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ یہودی اپنی عالمی حکومت اور بین الاقومی غلبے کو حاصل کر لیں ضروری ہے عالمی جنگ برپا ہو جائے اور دو تہائی انسان نابود ہو جائیں۔ سات سال کی مدت میں یہودی جنگی اسلحوں کو جلا ڈالیں گے اور بنی اسرائیل کے دشمنوں کے دانت بائیس بالشت (جو عام طور پر دانتوں کی مقدار سے ایک ہزار تین سو بیس گنا زیادہ ہے) ان کے منہ سے باہر نکل آئیں گے۔ جس وقت حقیقی مسیح دنیا میں قدم رکھے گا یہودیوں کی دولت اپنی ہو جائے گی کہ اس کے صندوقوں کی چابیاں تین سو گدھوں سے کم پر نہیں ڈھوئی جا سکیں گی۔
عیسائیوں کو قتل کرنا یہودیوں کے مذہبی واجبات میں سے ہے اور اگر یہودی ان کے ساتھ کوئی پیمان باندھیں تو اس کو وفا کرنا ضروری نہیں ہے، نصرانی مذہب کے روساء پر جو یہودیوں کے دشمن ہیں ہر روز تین مرتبہ لعنت کرنا ضروری ہے۔
یسوع ناصری(حضرت عیسی علیہ السلام) کو جس نے پیغمبری کا دعوی کیا تھا اور نصرانی (عیسائی) اس کے دھوکے میں آگئے تھے اپنی ماں مریم کے ساتھ جس نے باندار نامی مرد سے زنا کے ذریعہ اس کو پیدا کیا تھا جہنم میں جلایا جائے گا (العیاذ باللہ) نصرانیوں کے کلیسا جس میں آدمیوں کے روپ میں کتے بھونکتے ہیں کوڑے خانے کے جیسے ہیں۔
منبع:
التل عبداله ، خطرالیهودیة العالمیة علی الاسلام و المسیحیة ،قاهره ۱۹۶۹ .
http://palpedia.maarefefelestin.com

 

یہودیوں کا غیر یہودیوں پر افضلیت کا دعویٰ

  • ۴۱۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں کی مقدس کتاب تلمود میں غیر یہودیوں کے سلسلے میں یوں لکھا ہوا ہے:
یہودیوں کی روحیں غیروں کی روحوں سے افضل ہیں۔ اس لیے کہ یہودیوں کی روحیں خداوند عالم کا جزء ہیں اسی طرح جس طرح بیٹا باپ کا جزء ہوتا ہے۔ یہودیوں کی روحیں خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں اس لیے کہ غیروں کی روحیں شیطانی اور حیوانات کی ارواح کے مانند ہیں۔
غیر یہودی کا نطفہ بقیہ حیوانات کے نطفہ کی طرح ہے۔
بہشت یہودیوں سے مخصوص ہے اور ان کے علاوہ کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتا لیکن عیسائیوں اور مسلمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہے گریہ و زاری کے علاوہ ان لوگوں کے نصیب میں کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ اس کی زمین بہت زیادہ تاریک اور بدبودار مٹی کی ہے۔
کوئی پیغمبر مسیح کے نام سے مبعوث نہیں ہوا ہے اور جب تک اشرار (غیر یہودی) کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک مسیح ظہور نہیں کرے گا، جب وہ آئے گا تو زمین سے روٹی کا خمیر اور ریشمی لباس اگیں گے یہ وہ موقع ہو گا جب یہودیوں کا تسلط اور بادشاہی ان کو واپس ملے گی اور تمام اقوام و ملل مسیح کی خدمت کریں گی اس وقت ہر یہودی کے پاس دو ہزار آٹھ سو غلام ہوں گے۔
واضح رہے کہ توریت اور عہد عتیق میں جناب عیسی(ع) کے مبعوث ہونے کی بشارت دی گئی ہے لیکن تلمود اس بات کی قائل ہیں کہ ابھی تک عیسی مسیح نام کا کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا وہ اس وقت مبعوث ہو گا جب کرہ ارض پر یہودی مسلط ہو جائیں گے۔ لہذا صہیونیوں کی بھر پور تلاش و کوشش یہ ہے کہ وہ پوری دنیا پر قبضہ جما کر دیگر تمام انسانوں کو تہہ تیغ کر دیں۔
تلمود میں اسرائیلی خدا کے نزدیک ملائکہ سے زیادہ محبوب اور معتبر ہیں۔ اگر غیر یہودی، یہودی کو مارے تو ایسے ہے جیسے اس نے عزت الہیہ کے ساتھ جسارت کی ہو اور ایسے شخص کی سزا موت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتی لہذا اس کو قتل کر دینا چاہیے۔
اگر یہودی نہ ہوتے تو زمین سے برکتیں اٹھا لی جاتیں سورج نہ نکلتا اور نہ آسمان سے پانی برستا!۔ جس طرح انسان حیوانوں پر فضیلت رکھتا ہے اسی طرح یہودی دوسری اقوام پر فضیلت رکھتے ہیں۔
غیر یہودی کا نطفہ گھوڑے کے نطفہ کی طرح ہے۔
اجنبی (غیر یہودی) کتوں کی طرح ہیں ان کے لیے کوئی عید نہیں ہے اس لیے کہ عید کتوں اور اجنبیوں کے لیے خلق ہی نہیں ہوئی ہے۔
کتا غیر یہودیوں سے زیادہ با فضیلت ہے اس لیے کہ عید کے موقعوں پر کتے کو روٹی اور گوشت دیا جانا چاہیے لیکن اجنبیوں کو روٹی دینا حرام ہے۔
اجنبیوں کے درمیان کسی طرح کی کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔ کیا گدھوں کے خاندان اور نسل میں کسی طرح کی قرابت اور رشتہ داری کا وجود ہے؟
اجنبی (غیر یہودی) خدا کے دشمن ہیں اور سور کی طرح ان کو قتل کر ڈالنا مباح ہے۔
اجنبی یہودیوں کی خدمت کرنے کے لیے انسان کی صورت میں خلق ہوئے ہیں۔
غیر یہودیوں کو دھوکا دینا اور ان کے ساتھ فریب دہی کرنا منع نہیں ہے۔
کفار (غیر یہودیوں) کو سلام کرنا برا نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ در پردہ اس کا مضحکہ اڑائے۔
چونکہ یہودی عزت الہیہ کے ساتھ مساوات رکھتے ہیں لہذا دنیا اور مافیہا ان کی ملکیت ہے اور ان کو حق ہے کہ وہ جس چیز پر چاہیں تصرف کریں۔
یہودی کے اموال کی چوری حرام ہے لیکن غیر یہودی کی کوئی بھی چیز چرائی جا سکتی ہے اس لیے کہ دوسروں کا مال سمندر کی ریت کی طرح ہے جو پہلے اس پر ہاتھ رکھ دے وہی اس کا مالک ہے۔
یہودی شوہر دار عورتوں کی طرح ہیں جس طرح عورت گھر میں آرام کرتی ہے اور گھر کے باہر کے امور میں شوہر کے ساتھ شریک ہوئے بغیر اس کے اخراجات برداشت کرتا ہے اسی طرح یہودی بھی آرام کرتا ہے دوسروں کو چاہیے کہ اس کے لئے روزی فراہم کریں۔
منبع:
۱۔ التل عبداله ، خطرالیهودیة العالمیة علی الاسلام و المسیحیة ، قاهره ۱۹۶۹ .
۲۔ رزوق اسعد ، التلمود و الصهیونیة ، بیروت ، ۱۹۷۰ .
۳۔ روهلنج ، اوگسٹ ، الکتر الموصود فی قواعد التلمود ، (مترجم) قاهره ۱۸۹۹ .
۴۔ نصرا… ، محمد غزه ، الیهودی علی حسب التلمود ، بیروت ۱۹۷۰ .
۵۔ http://palpedia.maarefefelestin.com

 

جنت البقیع کا انہدام اور سعودی مفتیوں کے فتاویٰ

  • ۶۲۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۱۳۴۴ ہجری میں جب آل سعود نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور ان کے نواحی علاقوں پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے بقیع میں خاندان رسالت اور اصحاب رسول خدا (ص) کے روضوں اور مقابر کو مسمار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرنے کی کوشش شروع کر دی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسا بہانہ تراش سکیں جس کے سہارے وہ مدینہ منورہ کے علمائے کرام سے فتویٰ حاصل کرنے کے بعد ان عتبات مقدسہ کو مسمار کرنے کی راہ ہموار کر سکیں یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ آل سعود کو اپنے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بہانہ تلاش کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی تھی کیونکہ حجاز کے عوام قبور کو مسمار کرنے کے عمل کی کسی صورت میں حمایت کرنے کو تیار نہ ہوتے۔ چنانچہ بہانہ تلاش کرنے والوں نے آخر کار بہانہ تلاش ہی کر لیا جس کے پیش نظر ’’نجد‘‘ کے قاضی القضاۃ ’’سلیمان بن بلھید‘‘  کو مدینہ منورہ کی طرف روانہ کیا گیا، تاکہ وہ وہاں کے علما سے وہابیوں کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانےکے لیے ہم عقیدہ افراد کی طرف سے چند سوالات کو اس انداز سے ترتیب دیں کہ ان سوالات کے جوابات وہابیوں کے عقیدے کے مطابق سوالات میں ہی پوشیدہ ہوں،  پھر ان سوالات کو وہاں (مدینہ منورہ) کے مفتیوں کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ وہ (مفتی حضرات) ان سوالات کے بارے میں وہی فتویٰ صادر کریں جنہیں سوالات میں ہی بیان کیا گیا ہے اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان پر شرک کا حکم جاری کر کے ان کی مذمت کی جائے گی اور اس حکم کے بعد بھی اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو انہیں واجب القتل قرار دے دیا جائے گا۔
مذکورہ بالا سوالات و جوابات مکہ مکرمہ سے شائع ہونے والے ام القریٰ نامی رسالے کے ماہ شوال ۱۳۴۴ھ کے شمارے میں شائع ہوئے تھے اور ان کی اشاعت کے فورا بعد ہی تمام اسلامی فرقوں خصوصا اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان ایک کہرام مچ گیا۔
کیوںکہ سب جانتے تھے کہ مذکورہ سوالات کے بارے میں اگر چہ رعب اور دھمکیوں کے ذریعے فتاویٰ حاصل کئے گئے ہیں، تاہم ان فتاویٰ کے حصول کے بعد اسلام کے پیشواؤں کی قبور مسمار کرنے کے کام کو یقینا انجام دے دیا جائے گا۔
(یاد رہے کہ آقائے بزرگ تہرانی مرحوم نے اپنی کتاب الذریعہ کی جلد ۸ صفحہ ۲۶۱ پر تحریر فرمایا کہ وہابیوں نے پندرہ ربیع الاول ۱۳۴۳ ھج کو حجاز پر قبضہ کیا تھا اور ۸ شوال ۱۳۴۳ھج کو جنت البقیع میں مدفون ائمہ طاہرین اور صحابہ کرام کی قبور کو مسمار کیا تھا)
 جبکہ ام القریٰ نامی رسالے میں سوالات و جوابات ۱۷ شوال ۱۳۴۴ ھج کے شمارے میں شائع ہوئے تھے اور بتایا گیا تھا کہ علماء نے مذکورہ سوالات کے جوابات ۲۵ رمضان المبارک کو دئے تھے یعنی ام القریٰ کے مطابق حجاز پر قبضے اور قبور بقیع کو مسمار کرنے کا واقعہ دونوں باتیں ۱۳۴۴ ھج سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ سید محسن امین مرحوم نے بھی حجاز پر قبضے اور قبور بقیع کو مسمار کرنے کی تاریخ ۱۳۴۴ ھج ہی بیان کی ہے( دیکھیے کشف الارتیاب ص ۵۶ تا ۶۰)
تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ مدینہ منورہ کے ۱۵ علماء سے فتاویٰ حاصل کرنے اور حجاز میں ان فتاویٰ کے شائع ہونے کے بعد اسی سال (۱۳۴۴) کے ماہ شوال کی ۸ تاریخ سے ہی خاندان رسالت کے آثار کو مسمار کرنے کا شرمناک کام شروع کر دیا گیا۔ ائمہ طاہرین علیھم السلام اور جنت البقیع میں مدفون اصحاب رسول (ص) کی قبور کو مسار کرنے کے علاوہ ائمہ طاہرین علیھم السلام کے روضہ ہائے مبارکہ کے قیمتی سازو سامان کو بھی لوٹ لیا گیا۔ جنت البقیع کو ایسے ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا جسے دیکھ کر انسان کا دل کاپنے لگتا ہے۔۔۔۔
(اقتباس از کتاب آئین وہابیت، تالیف آیت اللہ جعفر سبحانی)

یہودیوں کی خونخواری کے کچھ اور نمونے

  • ۳۹۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:

جرمنی
سنہ ۱۹۳۹ع‍ میں ایک جرمن رسالے میں عجیب تصویر شائع ہوئی۔ رسالے “سٹرمر” (der Stürmer) کے اس شمارے کو دین یہود میں انسانی قربانیوں کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ مجلے کی جلد پر ایک انسانیت سوز جرم کی تصویر تھی۔ اس انسانیت سوز جرم کا ارتکاب یہودیوں کے سوا کسی نے بھی کیا تھا۔ انھوں نے ایک طفل کو قتل کیا تھا اور اس کے خون کے آخری قطرے تک کو نکال دیا۔  
سنہ ۱۲۳۵ع‍ میں جرمنی کے فولڈٹ نامی علاقے سے پانچ بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں اور یہودی مشتبہ ٹہرے اور انہیں پکڑا گیا تو انھوں نے اقرار کیا کہ “انھوں نے ان بچوں کو طبی ضروریات کی بنا پر ہلاک کیا ہے”۔ اس واقعے پر یہودیوں سے انتقام لیا گیا اور ان میں بہت ساروں کو ہلاک کیا گیا۔
سنہ ۱۲۶۱ع‍ میں بادیو (Badeu) نامی علاقے میں ایک عورت نے اپنا سات سالہ بچہ یہودیوں کو فروخت کیا اور انھوں نے اس کو قتل کیا اور اس کے خون کے آخری قطرے تک کو محفوظ کیا اور بچے کی لاش کو دریا میں پھینک دیا۔ اس واقعے میں ملوث کئی یہودیوں کو پھانسی کی سزا ہوئی اور دو یہودیوں نے خودکشی کرلی۔
سنہ ۱۲۸۶ع‍ میں شہر اوبروزل (Oberwesel) میں یہودیوں نے “ویز” نامی ایک عیسائی بچے کو تین دن تک تشدد کا نشانہ بنایا۔ اور پھر اس کو الٹا لٹکایا اور اس کے خون کے آخری قطرے کو نکالا۔ کچھ عرصہ بعد بچے کی لاش دریا سے برآمد ہوئی۔ اس کے بعد ہر سال ۱۹ اپریل کو اس بچے کے صلیب پر لٹکائے جانے کی یاد منائی جاتی تھی۔ درندگی کی یہ واردات سنہ ۱۵۱۰ع‍ کو دوبارہ براڈنبرگ (Brandenburg) میں دہرائی گئی۔ یہودیوں نے ایک بچے کو خرید لیا، صلیب پر لٹکایا اور اس کے خون کے آخری قطرے کو نکالا۔ یہودی گرفتار ہوئے تو انھوں نے اعتراف جرم کیا اور ۴۱ یہودیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔
 
شہر مایتز (Mytez) میں ایک یہودی نے ایک ۳ سالہ بچے کو اغوا کیا اور اس کا خون نکال کر اسے قتل کیا؛ ایک یہودی ملوث پایا گیا اور آگ کے سپرد کیا گیا۔ اس طرح کے واقعات جرمنی میں کئی کئی بار دہرائے گئے اور تمام ملوث افراد یہودی تھے۔ یہ واقعات سنہ ۱۸۸۲ع‍ میں عوام کے ہاتھوں بڑی تعداد میں یہودیوں کے قتل عام پر منتج ہوئے۔
۲۲ اور ۲۳ مارچ، ۱۹۲۸ع‍ کی درمیانی رات کو شہر گلاڈبیک (Gladbeck) میں ہلموٹ ڈاب (Helmut Daube) نامی ۲۰ سالہ نوجوان کو ذبح کیا گیا اور اس کا خون محفوظ کیا گیا اور دوسرے روز اس کی سر کٹی لاش اس کے والدین کے گھر کے سامنے سے برآمد ہوئی جبکہ اس کے اعضائے تناسلی بھی غائب تھے۔
اس جرم کا اصل مجرم ہزمین (Huszmann) نامی یہودی تھا۔
مورخہ ۱۷ دسامبر سنہ ۱۹۲۷ع‍ کو ایک پانچ سالہ بچہ اغوا ہوا اور کچھ دن بعد اس کی لاش ملی۔ ذمہ دار اہلکاروں نے بتایا کہ قتل کی یہ کاروائی دینی مقاصد کے لئے انجام پائی ہے لیکن اس واردات میں حتی ایک یہودی پر مورد الزام نہیں ٹہرایا گیا!!
 
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ بچے اپنی پاکیزہ روح کی بنا پر، دیوتا “یہوہ” کے لئے بہترین قربانی کا درجہ رکھتے ہیں
سنہ ۱۹۳۲ع‍ میں شہر پیڈربرن (Paderborn) ایک لڑکی کا مردہ جسم برآمد ہوا، ایک یہودی قصائی اور اس کے بیٹے کو مورد الزام ٹہرایا گیا۔ اعلانہ ہوا کہ یہ واقعہ بھی دینی مقاصد کی بنا پر رونما ہوا ہے۔
ہسپانیہ
سنہ ۱۲۵۰ع‍ شہر زاراگوزا (Zaragoza) میں ایک بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کو صلیب چڑھایا گیا تھا اور اور اس کے بدن میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ سنہ ۱۴۴۸ع‍ میں ایسا ہی واقعہ اسی شہر میں دہرایا گیا۔ اس واقعے میں یہودیوں نے ایک بچے کو صلیب چڑھایا اور اس کا پورا خون عید فصح کے لئے نکالا۔ کچھ یہودیوں کو مجرم پایا گیا اور پھانسی دی گئی۔ اس ۱۴۹۰ع‍ میں تولیدو (Tolido) نامی شہر میں ایک یہودی نے ایک بچے کے قتل میں اپنے دیگر شرکاء کے نام فاش کردیئے۔ اس جرم کے نتیجے میں آٹھ یہودیوں کو پھانسی دی گئی۔ سنہ ۱۴۹۰ع‍ کا واقعہ ہسپانیہ سے یہودیوں کی جلاوطنی کا اصل سبب تھا۔
 
سوئیٹزرلینڈ
سنہ ۱۲۸۷ع‍ کو شہر برن (Berne) میں ایک عیسائی بچے روڈولف (Rudolf) کو مالٹر (Matler) نامی صاحب ثروت یہودی کے گھر میں ذبح کیا گیا۔ یہودیوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک یہودی شخص کا مجسمہ بنایا گیا جو ایک شیرخوار بچے کو کھا رہا تھا۔ مجسمہ یہودیوں کے محلے میں نصب کیا گیا تا کہ یہودیوں کو ان کی درندگی پر مبنی جرائم کی یاددہانی کرائی جاتی رہے۔ یہ سنگی مجسمہ آج بھی برن میں موجود ہے۔
آسٹریا
سنہ ۱۴۶۲ع‍ کو شہر انسبرک (Innsbruck) میں آنڈریاس آکسنر (Andreas Oxner) نامی عیسائی لڑکا یہودیوں کو فروخت کیا گیا۔ یہودی اسے جنگ لے گئے اور ایک چٹان کے اوپر ذبح کیا اور اس کے خون کو عید کے دن استعمال کیا۔ اس درندگی کے بعد یہودیوں کے خلاف بڑے فیصلے ہوئے اور اس کے بعد یہودی مجبور تھے کہ اپنے بائیں بازو پر پیلے رنگ کی پٹی باندھ کر گھر سے نکلا کریں تاکہ لوگ انہیں پہچانیں اور اپنے بچوں کی بہتر انداز سے حفاظت کرسکیں۔
اٹلی
سنہ ۱۴۷۵ع‍ کو اٹلی کے شہر ٹیرنٹ میں ایک یہودی ڈاکٹر نے سائمن (Simon) نامی دو سالہ عیسائی بچہ یہودی مقدس رسومات کے ایام میں اس کے والدین کی غیرموجودگی میں گھر سے چوری کرلیا۔ بچہ غائب ہوا تو نگاہیں یہودیوں کی طرف گئیں اور یہودیوں نے بھی تلاش میں حصہ لیا اور راز فاش ہونے کے خوف سے بچے کی لاش کو لاکر کہا کہ یہ ہم نے تلاش کرلی ہے اور بچہ پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوا ہے۔ لیکن تفتیش کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ بچہ ڈوبا نہیں بلکہ اس کی گردن، ہاتھوں اور پاؤں پر بےشمار گھاؤ لگے ہوئے ہیں جن سے بچے کے خون کا آخری قطرہ بھی نکالا گیا ہے۔ یہودیوں نے مجبور ہوکر اعتراف جرم کیا لیکن اپنے اس غیر انسانی عمل کا جواز پیش کرتے ہوئے کہ انہیں مذہبی رسومات میں قربانی کے لئے اس بچے کی ضرورت تھی اور اس کے خون سے عید فصح کی روٹی تیار کی گئی۔ سات یہودی اس جرم کے بموجب تختہ دار پر لٹکائے گئے۔
سنہ ۱۸۴۰ع‍ کو وینس (Venice) میں بھی تین یہودیوں کو ایک عیسائی بچے کی قربانی کے جرم میں پھانسی دی گئی۔
سنہ ۱۴۸۵ع‍ کو شہر پاڈوا (Padua) کے نواح میں لورنزین (Lorenzin) نامی عیسائی بچی یہودیوں کے ہاتھوں ذبح ہوئی۔
سنہ ۱۶۰۳ع‍ کو شہر ویرونا (Verona) میں ایک بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کے بدن سے ماہرانہ انداز میں خون کی ایک ایک بوند تک نکالی گئی تھی۔ اس قضیئے میں کئی یہودیوں کو سزائیں ہوئیں۔
مجارستان (ہنگری)
سنہ ۱۴۹۴ع‍ کو شہر تیرانان (Teranan) میں یہودیوں نے ایک بچے کو صلیب پر لٹکایا اور اس کے جسم کا پورا خون نکال لیا۔ ایک معمر خاتون نے درندگی کی اس واردات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا چنانچہ اس نے واقعے میں ملوث افراد کو متعارف کرایا۔ یہودیوں نے تفتیش اور مقدمے کے دوران اعتراف کیا کہ انھوں نے چار دوسرے بچوں کو بھی ذبح کیا ہے اور ان کے خون کو “طبی مقاصد” کے لئے استعمال کیا ہے۔
اپریل ۱۸۸۲ع‍ کو یہودیوں کی خونی عید سے کچھ دن پہلے ۱۴ سالہ عیسائی لڑکی ٹریسا ایزلر (Tisza-Eszlar) کے نواح میں یہودیوں نے ۱۴ سالہ عیسائی لڑکی ایستر سالیموسی (Esther Solymosi) کو اغوا کیا۔ اسے آخری بار یہودی عبادتخانے کے باہر دیکھا گیا تھا۔ لوگوں کی توجہ یہودیوں کی طرف گئی۔ عبادت خانے کے ملازم جوزف شارف (Josef Scharf) کے دو بچوں ساموئل اور مورتیز (Samuel and Mortiz) نے اپنے باپ پر الزام لگایا اور کہا کہ ان کے والدین نے اس کو درندگی کا نشانہ بنا قتل کیا۔ لڑکی کی لاش ہرگز نہیں ملی۔ کئی یہودیوں نے کہا کہ انھوں نے عید فصح کے لئے لڑکی کے قتل میں حصہ لیا تھا۔ عبادتگاہ کے ملازم کے ایک بیٹے نے کہا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کہ لڑکی کے خون کو ایک بڑے برتن میں جمع کیا گیا۔ ۱۵ یہودی ملوث پائے گئے، مقدمہ ۱۹ جنوری سے ۳ اگست تک جاری رہا اور ماضی میں اتنا طویل مقدمہ کبھی نہیں لڑا گیا تھا۔ یہودی مال و دولت نے عیسائی لڑکی کا خون پامال کرہی لیا اور مجرمین اقرار جرم کے باوجود بےگناہ قرار دیئے گئے۔ یہودی درندگی کی یہ واردات پورے یورپ میں یہودیوں کے خلاف زبردست نفرت اور دشمنی پھیل جانے کا باعث ہوئی۔ (تو یہودی دشمنی یورپ میں بےسبب نہیں ہے)۔
 
روس
سنہ ۱۸۲۳ کو شہر ویلیژ (Velizh) میں یہودیوں کی عید فصح کے موقع پر ایک اڑھائی سالہ عیسائی بچہ لاپتہ ہوا اور ایک ہفتہ بعد اس کی لاش کو شہر کے قریبی تالاب سے برآمد کیا گیا۔ جس کے ننھے جسم پر نوکدار کیلوں کے لگنے سے بے شمار زخم آئے تھے، بچے کو کیلوں کے ذریعے زخمی کرنے کے بغیر اس کا ختنہ بھی کیا گیا تھا اور بدن میں خون کی ای بوند بھی نہیں پائی گئی، چنانچہ چند سال بعد تین روسی عورتوں سمیت پانچ یہودی حراست میں لئے گئے، جنہوں نے اقرار جرم کیا اور تین روسی عورتوں کو ـ جنہوں نے یہودی مذہب اختیار کیا تھا ـ سائبریا جلاوطن کیا گیا جبکہ یہودیوں کو بری کیا گیا جبکہ انھوں نے بھی اعتراف جرم کیا تھا لیکن یہودی پیسہ یہاں بھی کام آیا۔
یہودیوں کے ہاتھوں اغوا کی وارداتیں جاری رہیں۔ دسمبر ۱۸۵۲ع‍ میں ایک دس سالہ عیسائی بچہ اغوا ہوا۔ یہودیوں کو اس جرم میں ملوث پایا گیا اور انھوں نے بچے کے قتل اور اس کا خون جاری کرنے کا اقرار کرلیا۔
جنوری ۱۸۵۳ع‍ میں ایک ۱۱ سالہ بچہ اغوا کیا گیا اور اس کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا گیا جو دوسروں کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ یہودیوں کو ملوث پایا گیا۔
مورخہ ۲۰ مارچ سنہ ۱۹۱۱ع‍‍ کو شہر کیف (Kiev) کے نواحی علاقے سے ایک ۱۳ سالہ عیسائی بچے آندیری یوشچنکی (Andrei Yushchinsky’s) کی لاش برآمد ہوئی جس کو چاقو کے ۴۸ وار کرکے قتل کیا گیا تھا اور اس کا پورا خون نکالا گیا تھا۔ قتل میں مناحیم مینڈل بیلیس نامی حسیدی (Hasidic) فرقے کا یہودی ملوث پایا گیا اور اس پر سنہ ۱۹۱۳ع‍ میں مقدمہ چلایا گیا لیکن آخرکار اسے بھی بری کیا گیا اور اس مقدمے کی وجہ سے سلطنت روس پر یہودی دشمنی کے الزام میں زبردست عالمی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہودی قاتل بہر حال بری ہوا اور قاتل پر مقدمہ چلانے والے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ (چمک کی برکت سے)۔
ترکی
سنہ ۱۸۳۹ع‍ میں دمشق کے کسٹمز اہلکاروں نے ایک یہودی سے خون کی ایک بوتل برآمد کرلی۔ یہودی نے ۱۰۰۰۰ پیاسٹر رشوت کی پیشکش کرتے ہوئے مسئلہ دبانے کی درخواست کی۔
سنہ ۱۸۴۰ع‍ کو یہودیوں کی عید “پوریم” کے موقع پر جزیرہ روڈز (Rhodes island) میں ایک یونانی عیسائی تاجر کا ۸ سالہ بچہ لاپتہ ہوا۔ اس کو آخری بار یہودی محلے میں دیکھا گیا تھا۔ وہ کچھ یہودیوں کو انڈے پہنچانے کے لئے اس محلے میں پہنچا تھا۔
ترک بادشاہ یوسف پاشا نے یونانی عوام کے شدید مطالبے پر یہودی محلے کو گھیر لیا اور یہودی سرغنوں کو گرفتار کرکے قید کرلیا۔ دائرۃ المعارف یہود طبع چہاردہم، کے صفحہ ۴۱۰ پر اقرار کیا گیا ہے کہ یہودی سرمایہ دار اور برطانوی یہودیوں کا سربراہ موسی مونتفیوری (Moses Montefiore) بیچ میں آیا اور ترک دربار کو بھاری رشوت دی۔ عثمانی سلطنت کے بینکوں کا یہودی سربراہ “کونٹ کمانڈو (Count Camondo) نے حقیقت کو دبانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہودی سرمائے کی قوت نے نہ صرف اس جرم کے دوران حق کو چھپایا اور دبایا بلکہ بہت سے دوسرے واقعات میں حق کشی میں مصروف رہی تھی اور آج تک مصرف ہے۔
 
یہودی آج بھی خاموشی سے خونخواری میں مصروف ہیں لیکن روش بدل گئی ہے
گوکہ یہودیوں کی آج کی جرائم پیشگی ذرا عجیب سے معلوم ہو لیکن یہودی خونخواری کی روایت میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چونکہ آج کے زمانے میں جرم کا تیزی سے سراغ لگایا جاتا ہے اور قانون کا تعاقب کچھ زیادہ رائج اور ناگزیر اور رشوت وسیع سطح پر بدنامی کا سبب بنتی ہے چنانچہ یہودیوں نے روش بدل دی ہے، بڑوں کو چھوڑنا پڑا ہے لیکن شیرخواروں کا خون چوسنا جاری و ساری ہے۔
 
یہ بہت ہی نفرت انگیز روش ہے جس میں بچے کا ختنہ کئے جانے کے فورا بعد ان کا خون چوسا جاتا ہے۔ یہ عمل بہت سی بیماریاں پھیلنے اور متعدد بچوں کی ہلاکت کا سبب بن رہا ہے۔
 
ایک یہودی حاخام (رابی) کی ختنہ گاہ کو حفظان صحت کے اصولوں کے برعکس اور نہایت دردناک انداز سے، ختنہ کرنے کے بعد بچے کی ختنہ گاہ سے خون چوستے ہوئے۔
 
ایک شیرخوار بچے کے جسم پر انفیکشن کے اثرات، اس بچے کا خون یہودی خاخام نے چوس لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
کچھ حوالے:
۱۔ Bernard Lazare, “Antisémitisme: son histoire et ses causes”, Published in France in 1894.
۱۔ Arnold Leese, Jewish Ritual; Murder, published in 1938, Chapter 10.
۲۔ اس عید کو پسح، یا عید فطیر یا مصاها یا Easter بھی کہا جاتا ہے۔
۳۔ الکنز المرصود فی قواعد التلمود، صص ۲۲۳-۲۲۴۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ
۱٫ الیهود و القرابین البشریة – محمد فوزی حمزة، دار الأنصار. مصر
۲٫ نهایة الیهود – أبو الفدا محمد عارف، دار الاعتصام. مصر
۳٫ المسألة الیهودیة بین الأمم العربیة و الأجنبیة – عبد الله حسین، دار أبی الهول. مصر
۴٫ روزنامه الشعب مصر، شماره ۱۳۱۶ تاریخ ۱ دسامبر
۵٫ الیهود و القرابین البشریة، مصطفی رفعت، به آدرس زیر:
http://www.oboody.com/mychoice/03.htm
http://www.fatimamovement.com/i-jewish-talmud-exposed-7.php#Babylonian-Talmud-148
http://www.bibliotecapleyades.net/sociopolitica/esp_sociopol_bohemiangrove03.htm
منبع: mshrgh.ir/357083
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تاریخ کی خونخوار ترین قوم کے خونخوار واقعات

  • ۵۵۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:

مصر
سنہ ۱۸۸۱ع‍ میں مصر کے شہر “پورٹ سعید” میں یہودیوں نے نہایت ہولناک ترین جرم کا ارتکاب کیا۔ ایک یہودی شخص قاہرہ سے پورٹ سعید آتا ہے، شہر کے مغرب میں ایک مکان کرائے پر حاصل کرتا ہے اور اسی علاقے میں رہائش پذیر ایک یونانی دکاندار کے ساتھ آنا جانا شروع کر دیتا ہے۔
ایک دن یہودی ایک آٹھ سالہ بچی کو لے کر یونانی دکاندار کے پاس پہنچتا ہے، اور شراب لے کر پینا شروع کر دیتا ہے اور بچی کو شراب نوشی پر آمادہ کرتا ہے۔ یونانی مرد حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ دوسرے روز ایک سر بریدہ لاش لوگوں کو ملتی ہے؛ آٹھ سالہ بچی نہایت درندگی سے قتل کی جاچکی تھی۔
شام
سنہ ۱۸۸۰ع‍ ایک شام کے شہر حلب میں ایک عیسائی لڑکی لاپتہ ہوئی۔ تلاش بسیار کے بعد لڑکی کی سربریدہ لاش برآمد ہوئی جس کے ارد گرد خون کا ایک قطرہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس فتل کے الزام میں “رفول انکوتا” نامی یہودی گرفتار ہوا جس نے اعتراف کیا کہ اس نے عید فصح کے لئے اس لڑکی کا خون حاصل کیا تھا۔
مورخہ ۵ فروری ۱۸۴۰ کو یہودیوں نے کیتھولک پادری المعروف بہ “فادر فرانسوا انطوان توما” کو اغوا کیا۔ وہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ایک یہودی بچے کے علاج کے لئے دمشق کے یہودی محلے میں چلا گیا تھا لیکن بیمار یہودی بچے سے ملنے کے بعد واپسی کے راستے میں کچھ یہودیوں نے اسے اغوا کیا اور پھر اس کو نہایت دردناک طریقے سے قتل کر کے اس کا خون عید فصح اور عید پوریم کے لئے حاصل کیا۔
علاوہ ازیں دمشق میں بہت سی چھوٹی بچیاں اغوا ہوئیں اور یہودیوں نے انہیں قتل کرکے ان کا خون جمع کیا۔ شاید ان وارداتوں میں سب سے مشہور واقعہ “ہینری عبدالنور” کی بیٹی کے قتل کا واقعہ تھا۔ یہودیوں نے ۷ اپریل ۱۸۹۰ع‍ کو ان کی بیٹی کو اغوا کیا اور اس کے والد نے اس کے غم میں مشہور قصیدہ لکھا۔
 
لبنان
یہودیوں نے سنہ ۱۸۲۴ع‍ میں “فتح اللہ صائغ” نامی شخص کو دعوت ضیافت دے کر اس کو قتل کیا اور اس کا خون عید فصح کے لئے جمع کیا۔ یہ عمل سنہ ۱۸۲۶ع‍ میں انطاکیہ اور ۱۸۲۹ع‍ میں حماہ میں دہرایا گیا۔
۱۸۳۴ع‍ میں ایک اس وقت کے شام کے شہر طرابلس میں ـ جو اس وقت لبنان کا حصہ ہے ـ ایک یہودی عورت نے جب یہودیوں کی خونخواری اور بےگناہ بچوں کا دردناک قتل اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ دینی یہود سے برگشتہ ہو کر عیسائی ہوگئی اور “راہبہ کیترینا” کے نام سے مشہور ہوئی اور اسی نام سے دین نصاری پر دنیا سے رخصت ہوئی۔ اس خاتون نے یہودیوں کے انسانیت سوز جرائم اور انسانی خون بہانے کی یہودی پیاس کے سلسلے میں اہم یادداشتیں لکھیں اور ان یادداشتوں میں ان جرائم اور انسانیت پر ان کے مظالم کی تشریح کی ہے۔ اس کے بیان کردہ واقعات میں انطاکیہ، حماہ اور طرابلس کے واقعات بھی شامل ہیں جن میں یہودیوں نے دو عیسائی بچوں اور ایک مسلمان لڑکی کو قتل کرکے ان کا خون حاصل کیا۔
برطانیہ
سنہ ۱۱۴۴ع‍ میں نارویچ (Norwich) کے علاقے میں ایک ۱۲ سالہ بچے کی لاش ملی جس کے بدن کے مختلف حصوں میں شگاف ڈال دیئے گئے تھے اور ان سے خون نکالا گیا تھا۔ یہ یہودیوں کی عید فصح کا دن تھا جس کی وجہ سے نارویچ کے علاقوں کی نگاہ یہودیوں کی طرف گئی اور تمام مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، اور معلوم ہوا کہ اس بچے کے تمام قاتلین یہودی تھے۔ اس واقعے کی دستاویزات آج بھی برطانوی گرجوں میں موجود ہیں۔
علاوه بر این در سال ۱۱۶۰ع‍ میں ایک طفل کی لاش برطانیہ کے علاقے گلوسٹر (Glowcester) سے برآمد ہوئی جسے صلیب پر چڑھایا گیا تھا اور اس کے بدن پر لگے متعدد زخموں سے اس کا پورا خون کھینچ لیا گیا تھا۔ ۱۲۳۵ع‍ میں چند یہودیوں نے ایک بچے کو نورویچ کے محلے سے اغوا کرکے چھپایا تاکہ مناسب موقع پا کر اس کو قتل کردیں اور اس کا خون کھینچ لیں۔ لیکن جس وقت اس کا ختنہ کررہے تھے اور قتل کے لئے تیار کررہے تھے، عوام نے قاتل یہودیوں کو قابو کرلیا اور بچے کو موت کے منہ سے باہر نکالا۔
یہودیوں نے ۱۲۵۵ع‍ میں برطانیہ کے رہائشی علاقے “لنکن” (Lincoln) سے ایک بچہ اغوا کیا۔ یہ عید فصح کے ایام تھے۔ یہودیوں نے بچے پر تشدد کیا، اسے صلیب پر چڑھایا اور اس کا پورا خون کھینچ لیا۔ بچے کے والدین نے اپنے بچے کی لاش جوپین (Joppin) نامی یہودی کے گھر کے قریب واقع ایک کنویں سے برآمد کی۔ جوپین نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم کرتے ہوئے اپنے دوسرے ساتھیوں کا نام و نشان بھی بتا دیا۔ ۹۱ یہودی درندگی کی اس واردات میں ملوث پائے گئے اور ۱۸ یہودیوں کو پھانسی دی گئی۔
برطانیہ میں یہودیوں کی خونخواریاں ۱۲۹۰ع‍ تک جاری رہیں، یہاں تک کہ اس سال آکسفورڈ کے علاقے میں یہودیوں نے ایک عیسائی بچے کو قتل کیا اور اس کا خون کھینچ لیا۔ یہ جرم ایڈورڈ اول شاہ انگلستان (Edward I of England) کے تاریخی حکم پر منتج ہوا اور اس نے برطانیہ سے تمام یہودیوں کی جلا وطنی کا حکم دیا۔
سنہ ۱۹۲۸ع‍ میں برطانیہ کے شہر منچسٹر میں اوڈنیل (Odenil) نامی بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کے بدن میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی نہ تھا۔ یہ واقعہ یہودیوں کی عید سے صرف ایک دن پہلے رونما ہوا تھا۔
مارچ ۱۹۳۲ع‍ میں عید فصح سے ایک دن پہلے، ایک بچے کی لاش ملی جس کو اسی انداز سے مارا گیا تھا اور اس واقعے میں کئی یہودیوں کو مجرم ٹہرایا گیا اور انہیں سزائیں ہوئیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ
یہودی لڑکی “ویکی پیلن” المعروف “ریچل” نے ۱۹۸۹ع‍ میں ایک ٹی وی اوپرا شو کے دوران اعتراف کیا کہ اس نے خود ایک شیرخوار بچے کو قربان کیا اور یہ کہ اس کام کے لئے خاندان کے اندر کچھ عورتوں کو بچے پیدا کرنا پڑتے ہیں لیکن ایک بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کبھی بھی کسی یہودی بچے کو قربان نہ کیا جائے۔ (ویڈیو کلپ اور اردو متن کے لئے یہاں کلک کریں)
سال ۱۹۰۹ – ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو کے قریب “بوہیمی پارک” (Bohemian Grove) ان پر اسرار مقامات میں سے ہے جہاں کئی عشروں سے با اثر یہودی شخصیات، ماسونی لاجز کے اراکین اکٹھے ہوتے رہے ہیں اور اس میں دیوتاؤں کے لئے قربانی دینے کی رسومات عمل میں لائی جاتی رہی ہیں۔
بوہیمی پارک میں ہر سال جولائی کے مہینے میں بوہیمی کلب کے ممبران کی بیٹھک ہوتی ہے جو دو ہفتوں تک جاری رہتی ہے۔ جولائی سنہ ۲۰۰۰ع‍ میں ریڈیو کا ایک میزبان، آلکس جونز (Alex Jones) اپنے کیمرہ مین کے ہمراہ اس پر اسرار پارک میں پہنچا اور خفیہ طور پر یہاں منعقدہ رسومات کو فلمایا۔ اس بیٹھک میں سیاستدانوں اور اقتصادی شعبے کے نامی گرامی افراد شریک ہوتے ہیں اور علامتی طور پر ایک انسان کو چالیس فٹ اونچے سنگی “الو” کے لئے قربان کرتے ہیں۔ آلکس نے اپنی خفیہ تصویروں اور ویڈیو کلپس کو “اندھیرے راز؛ بوہیمیوں کا پارک” (Dark Secrets Inside Bohemian Grove) کے عنوان سے دستاویزی فلم کی شکل دی۔
 
فرانس
سنہ ۱۱۷۱ع‍ میں شہر بلوئس (Blois) میں عید فصح کے ایام میں ایک عیسائی بچے کی لاش دریا سے برآمد ہوئی۔ یہودیوں نے اس بچے کا خون اپنی دینی رسومات میں استعمال کرنے کے لئے نکال لیا تھا۔ پستی اور خونخواری کی اس واردات میں ملوث یہودیوں کو گرفتار کیا گیا اور کئی افراد کو پھانسی دی گئی۔ سنہ ۱۱۷۹ع‍ میں شہر پونتیوس (Pontois) میں ایک بچے کی لاش ملی جس کے خون کے آخری قطرے تک کو یہودیوں نے کھینچ لیا تھا۔
ادھر بریزین شہر میں ایک نوجوان عیسائی، چوری کے ایک ملزم آلکونتس دوف دور نامی شخص نے اغوا کرکے یہودیوں کو فروخت کیا۔
سنہ ۱۱۹۲ع‍ میں شہر بریزین (Braisne) میں ایگنس، کاؤنٹس آف دروکس (Agnes, Countess of Dreux)، نے ایک عیسائی نوجوان، جس پر وہ چوری اور قتل کا الزام لگا رہی تھی، کو یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جس کو یہودیوں نے سولی پر لٹکایا اور اس کا خون نکالا۔ فرانس کے بادشاہ فلپ نے ذاتی طور پر اس مقدمے میں شرکت کی اور مجرموں کو آگ میں جلا دیا۔
سنہ ۱۲۴۷ع‍ میں فرانس کے علاقے والاریاس (Valréas) میں ایک دو سالہ بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کی گردن، ہاتھوں اور پاؤں پر گھاؤ لگائے گئے تھے۔ یہودیوں نے اس روش سے بچے کا خون نکال لیا تھا۔ ملوث یہودیوں کو گرفتار کیا گیا اور انھوں نے اعتراف جرم کیا۔ یہودی دائرۃ المعارف کے مطابق، اس جرم کے نتیجے میں تین یہودیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ سنہ ۱۲۸۸ع‍ میں بھی ایک بچے کی لاش یہودی آبادی کی طرف جانے والے راستے میں پڑی ملی۔ یہودیوں پر مقدمہ چلایا گیا اور ۱۳ یہودیوں کو آگ میں جلایا گیا۔ (یہودی دائرۃ المعارف)

 

کس قوم کو “تاریخ کی خونخوارترین قوم” کا خطاب ملا؟

  • ۴۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ : یہودیوں اور خونریزیوں کے درمیان کا ناطہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہودی قوم کی درندگی، وحشی پن اور خونخواری کا اندازہ مقبوضہ سرزمینوں میں فلسطینیوں کے خلاف ان کے جاری اقدامات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہودی قوم کی تاریخ اور گذشتہ صدیوں میں ان کے کرتوتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تحریف شدہ دین اور تعلیمات کے عین مطابق، بنیادی طور پر، خونریزی اور خونخواری پر زور دیتے ہیں۔ یہودی بچہ [یہودی ماں کی کوکھ] سے پیدا ہوتا ہے تو اس کا ختنہ کیا جاتا ہے اور یہیں سے خونخواری کا آغاز ہوتا کیونکہ یہودی رابی [حاخام] عمل ختنہ سے نکلنے والے خون کو چوس چوس کر پی لیتے ہیں اور یہ سلسلہ “یہوہ” کے لئے انسانوں کی قربانی دینے، قربان ہونے والے انسان کے خون کو مٹھائیوں میں ملانے تک جاری رہتا ہے۔
 
ڈاکٹر “ایریک بسکوف” (Erich Bischoff) قوم یہود کے بارے میں لکھتے ہیں: “یہودی فلسفے اور اس کی تعلیمات میں ان اجنبیوں کا قتل جائز ہے جو حیوانات کے برابر ہیں اور یہ کشت و خون شرعی احکام کے دائرے میں ہونا چاہئے اور جو لوگ دین یہود کی تعلیمات پر یقین نہیں رکھتے، انہیں قربانی کے طور پر بڑے دیوتا کی خدمت میں پیش کرنا چاہئے”۔
رچرڈ فرانسس بورٹن (Richard Francis Burton) ـ جنہوں نے عرصہ دراز تک تلمود کی تعلیم حاصل کی ہے ـ اپنی کتاب “یہودی، خانہ بدوش اور اسلام” (The Jew, The Gypsy, and El Islam) مطبوعہ سنہ ۱۸۹۸ع‍] میں لکھتے ہیں: “تلمود کے مندرجات کے مطابق، یہودیوں کے درمیان دو خونی رسمیں پائی جاتی ہیں جن کے ذریعے “یہوہ” کو خوشنود کیا جاسکتا ہے، ان میں سے ایک انسانی خون سے آلودہ روٹیوں کی عید ہے ـ جو در حقیقت وہی عید فصح ہی ہے ـ اور دوسری رسم یہودی بچوں کا ختنہ کرنے کی رسم ہے” جس سے نکلنے والے خون کو یہودی حاخام چوس چوس کر پی لیتے ہیں۔
 
غیر یہودی انسانوں کے قتل کے موضوع کی اہمیت کو دیکھ کر عرب مفکر “ڈاکٹر رفعت مصطفی” نے اس موضوع پر مطالعہ کرکے معلومات جمع کرلیں اور نہایت اہم مقالہ تالیف کیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اس موضوع پر کام شروع کرنے کے بعد، اپنا ارادہ ترک کرلیا کیونکہ متعلقہ واقعات اور حادثات میں ابہام پایا جاتا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ واقعات درست ہیں۔ مجھے اس سلسلے میں کئی کتابیں ملیں اور کچھ ویب گاہوں میں جستجو کی اور کسی حد تک بھینٹ چڑھنے والے انسانوں سے آگہی حاصل کرلی۔ مصطفی کہتے ہیں: “مقالہ لکھنے کا کام مکمل کرنے کے بعد، بہت سوں نے مجھ پر مبالغہ آرائی کا الزام لگایا۔ لیکن میں نے وہ مآخذ ان افراد کے لئے بھجوا دیئے جن سے میں نے استناد کیا تھا اور وہ مقالے کی درستی کے قائل ہوئے”۔
 
رفعت مصطفی لکھتے ہیں کہ یہود وہ لوگ ہیں جو “انسانیت کے خونخواروں” کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: “میں نہیں سمجھتا ہم نے کبھی افسانوں کے سوا کہیں اور اس نام کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ شاید آپ کو اس ایک خیال یا گمان سمجھ لیں نہ کہ ایک حقیقی موضوع، لیکن آپ ہمارے ساتھ رہیں گے تو ہم ایسے لوگوں کو آپ سے متعارف کرائیں گے جو حقیقتا اس خطاب کے مستحق ہیں۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ خیال اور توہم کے بجائے عقل کو مطمع نظر قرار دیں اور افسانوں سے گذر کر حقیقت تک پہنچیں”۔
جی ہاں! یہ لوگ یہودی ہیں۔ وہی لوگ جن کا دین ان سے کہتا ہے کہ “جو لوگ دین یہود پر ایمان نہیں لاتے انہیں ہمارے دیوتا “یہوہ” کے لئے قربان ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں ہاں عید کی دو رسمیں ایسی ہیں جن خون بہایا جاتا ہے اور ہمارا یہ کام ہمارے دیوتا میں کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے؛ ان دو عیدوں میں سے ایک وہ عید ہے جس میں انسانی خون ملا کر کھانا تیار کیا جاتا ہے اور دوسری رسم ہمارے بچوں کا ختنہ کرنے کی ہے”۔
مقدس فطیرہ وہ ہے جس میں آٹے کو خون میں گوندھا جاتا ہے تا کہ “عید فصح” ـ یہودیوں کی ایک عید ـ کے لئے کھانا تیار کیا جائے۔ یہ خونخوارانہ اور وحشیانہ رسم یہودی کتاب مقدس کے حصے “تلمود” کے ذریعے ان تک پہنچی ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تحریف شدہ دین کی تعلیمات کی پیروی، پوری تاریخ کی ان تمام بدبختیوں کا سبب بنی ہے جن سے یہودی دوچار ہوئے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہودی ساحر جادوگری کے وقت انسانی خون استعمال کرتے تھے۔ تورات میں ایک صریح متن آیا ہے جس میں یسعیاہ قوم یہود سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے: ” آہ خطا کار گروہ۔ بد کرداری سے لدی ہوئی قوم۔ بدکرداروں کی نسل مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا اِسرائیل کے قُدوس کو حقیر جانا اورگمراہ برگشتہ ہو گئے”۔ (سفر یسعیاہ، عہد قدیم، آیت ۴)
یہودی اپنی تعلیمات اور اسلاف سے ورثے میں ملنے والے جرائم کی رو سے بچوں کو قتل کرکے ان کا خون عید کے روز کی روٹی میں ملانے کی عادت رکھتے ہیں۔ یہودی مؤرخ برنارڈ لازار (Bernard Lazare) اپنی کتاب “یہودی دشمنی: تاریخ اور اسباب” (۱) میں اس یہودی رسم کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو ماضی کے یہودی جادوگروں سے نسبت دیتا ہے۔
 

اگر آپ یہودی عبادتگاہوں اور کنیسٹوں کے بارے میں جان لیں اور ان چیزوں کو دیکھ لیں جو ان وحشیانہ جرائم کا سبب بنتی ہیں، تو خوف و ہراس سے دوچار ہوجائیں گے، کیونکہ ان کی عبادتگاہیں ایسے خون سے آلودہ ہیں جو سابقہ زمانوں سے ان کے اندر بہایا گیا ہے۔ قدس شریف میں یہودی عبادتگاہیں ہندوستانی ساحروں کی عبادتگاہوں سے بھی زیادہ خوفناک ہیں کیونکہ یہ وہ عبادتگاہیں ہیں جن میں انسانوں کا قتل عام ہوا ہے۔ یہ جرائم ان تعلیمات کا نتیجہ ہیں جنہیں یہودی حاخاموں (رابیوں) نے وضع کیا ہے۔
یہودیوں کے جرائم کا پھیلاؤ خطرناک اور سنجیدہ ہوا تو “قربان ہونے والے اور یہودی” (victims and “the Jews”) نامی موضوع وسیع سطح پر زیر بحث آیا۔
یہودی اپنی دو مقدس عیدوں میں انسانوں کو قربان کرکے اور انسان کے خون میں تیار کردہ غذا کھانے کھاکر ہی خوش ہوا کرتے ہیں۔ پہلی عید کا نام پوریم (Feast of Purim) ہے جو ہر سال مارچ کے مہینے میں منائی جاتی ہے اور دوسری “عید فصح” (۲) ہے جو ہر سال اپریل کے مہینے میں منائی جاتی ہے۔
عید پوریم میں بھینٹ چڑھائے جانے والے عام طور پر بالغ نوجوانوں میں سے چنے جاتے ہیں۔ بیچارے نوجوان کو قتل کرکے اس کا خون خشک کیا جاتا ہے اور ذرات میں تبدیل کرتے ہیں اور اسے فطیرہ کے خمیر (اس روز کے طعام) میں ملا دیتے ہیں اگر کچھ باقی رہ جائے تو اگلے سال کی عید کے لئے رکھ لیتے ہیں۔
 
یہودی غیر یہودیوں کے خون سے عید فصح کے دن کے کھانا تیار کرتے تھے
لیکن عید فصح کے دن قربان ہونے والے عام طور پر نابالغ اور ۱۰ سال سے کم کے بچے ہوتے ہیں۔ ان کا خون بھی اسی انداز سے خشک کیا جاتا ہے اور اسے فطیرے میں ملا دیا جاتا ہے گوکہ بعض اوقات وہ بچوں کا تازہ خون استعمال کرتے ہیں۔
 
قربان ہونے والے انسان کا خون جاری اور اکٹھا کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک اوزار سوئیوں والا ڈرم ہے۔ یہ ڈرم قربانی بننے والے انسان کے جسم کے برابر ہوتا ہے اور اس کے اندر بےشمار نوکیلی سوئیاں ہوتی ہیں۔ جب قربان ہونے والے نوجوان یا بچے کو مار جاتا ہے تو سوئیاں چاروں اطراف سے اس کے بدن میں چبھ جاتی ہیں اور اس طرح اس کے پورے بدن کا خون بیک وقت باہر آنا شروع ہوجاتا ہے اور اسی اثناء میں یہودی مختلف برتنوں میں خود اکٹھا کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان کو بکرے کی طرح ذبح کرتے ہیں اور اس کا خون ایک برتن میں جمع کرتے ہیں اور اسے بزعم خویش پاک کردیتے ہیں۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ یہودی نوجوان یا بچے کی کئی رگوں کو کاٹ دیتے ہیں تا کہ ان سے خون ابلے۔ اور پھر اس خون کو ایک برتن میں جمع کرتے ہیں اور اس حاخام کے سپرد کرتے ہیں جو خون انسان سے تیار کئے جانے والے کھانے “فطیر مقدس” کی تیاری کا ذمہ دار ہوتا ہے تا کہ “یہوہ” نامی دیوتا ـ جو بنی نوع انسان کے خون کا پیاسا ہے!!! ـ کو اپنے سے راضی و خوشنود کرے۔
شادی میں مرد اور عورت، شام کے بعد کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں اور ایک رات اور ایک دن کا مکمل روزہ رکھتے ہیں جس کے بعد حاخام کتان کا ایک ٹکڑا غیر یہودی شخص کے خون میں ڈبو دیتا ہے اور پھر اسے جلا کر راکھ کردیتا ہے اور راکھ کو انسانی خون کے لئے مختص برتن میں ڈال دیتا ہے، اور ابلا ہوا انڈا اس میں لڑھکا دیتا ہے، اور دلہا دلہن کو کھلا دیتا ہے۔ (۳)
ختنہ کی رسم میں حاخام اپنی انگلیاں خون بھرے شراب کے کے برتن میں ڈال دیتا ہے اور پھر اپنی انگلیاں بچے کے منہ میں دے دیتا ہے اور بچے سے مخاطب ہوکر کہا ہے: “تیری زندگی کا دارومدار تیرے خون پر ہے۔۔۔”۔
 
یہودیوں کے لئے تلمود کا حکم ہے: “غیر اسرائیلی صالح اور نیک انسانوں کو قتل کرو”، نیز اس کا حکم ہے: “جس طرح کہ مچھلی کا پیٹ چیرنا جائز ہے، انسان کا پیٹ کھولنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ عمل روز شنبہ کے کے بڑے والے روزے کے دن ہی کیوں انجام نہ دیا جائے”۔ بعدازاں اس جرم کے لئے اخروی ثواب کے بھی قائل ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں: “جو بھی کسی غیر یہودی کو قتل کرے اس کی پاداش یہ ہے کہ جنت الخلد میں رہے اور چوتھی منزل پر سکونت پذیر ہو”۔ [اب ذرا یہودی نواز تکفیریوں کے ہاں کے فتاوی پر نظر ڈالی جائے تو مشابہت بالکل عیاں ہے: جو ایک غیر سنی مسلمان کو قتل کرے ۔۔۔ اور ہاں یہی لوگ اس طرح کا فتوی اسلام و ایمان کے بدترین دشمن “یہود” کے بارے میں نہیں دیتے!]۔
ویسے تو یہودی اپنے بہت سی معلومات اور بہت سے اعداد و شمار بالخصوص اپنے اندرونی یہودی عبادات و رسومات کو ـ جو انسانیت سے متصادم ہیں ـ کو چھپا دیتے ہیں؛ یہاں تک برطانیہ کا نظام حکومت یہودی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیل پایا ہے جہاں کی رازداریاں دنیا بھر میں مشہور ہیں تو یقینا یہودی بھی اپنے بہت سے اعمال اور درندگی اور خونخواری پر مبنی افعال کو چھپائے رکھتے ہیں لیکن جو کچھ ابھی تک فاش ہوا ہے اس کے کچھ نمونے حسب ذیل ہیں:
بعض رپورٹوں کے مطابق، بچوں کے قتل اور یہودی عیدوں میں ان کے خون کے استعمال کے سلسلے میں اب تک ۴۰۰۰ وارداتیں طشت از بام ہوئے ہیں۔
جن واقعات اور وارداتوں کی طرف اس رپورٹ میں اشارہ کیا جارہا ہے وہ ان واقعات کے عشر عشیر سے بھی کم ہیں جو در حقیقت ان وحشی قوم کے ہاتھوں انجام کو پہنچتے ہیں۔ یہاں مذکورہ تمام واقعات “دائرۃ المعارف یہودیت” سے منقول ہیں جن کے آخر میں ماخذ کا بھی ذکر ہوا ہے۔
قربان ہونے والے شخص کی ضروری خصوصیات:
۱۔ عیسائی ہو۔ (یہودیوں کا کہنا ہے کہ عیسائی ہماری بھیڑیں ہیں!)
۲۔ بچہ ہو اور سن بلوغت سے نہ گذرا ہو۔
۳۔ ایسے نیک اور صالح عیسائی والدین کا فرزند ہو، جو کبھی زنا کے مرتکب نہ ہوئے ہیں اور شراب کے عادی نہ ہوں۔
۴۔ بچہ ہو، جس نے شراب نوشی نہ کی ہو اور اس کا خون خالص اور پاکیزہ ہو۔
۵۔ اگر عید کے روز کے فطیر مقدس میں ملا خون ایک پادری کا ہو تو یہ (یہودیوں کے معبود) یہوہ کے نزدیک زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے اور یہوہ اس سے زیادہ خوشنود ہوتا ہے۔ اور یہ خون تمام عیدوں کے لئے قیمتی اور پسندیدہ ہے۔

 

اسلامی محاذ مزاحمت سرزمین شام ہی کیوں؟

  • ۲۹۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شام کے ملک، قوم اور حکومت کو لبنان اور فلسطین میں محاذ مزاحمت کی زبردست حمایت کے بدلے سامراجی طاقتوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا ہے اور شاید سامراجی طاقتیں، یہودی ریاست اور علاقے میں استعمار کے کٹھ پتلی شام سے اسلامی جمہوریہ ایران کی بےلوث حمایت کا بھی بدلہ لینا چاہتے تھے؛ اور بہرحال شام فلسطین میں مغربی استکباری مورچے کے محاذ مزاحمت کا اگلا مورچہ ہے اور محاذ مزاحمت کے فلسفے کا تقاضا ہے کہ اس حکومت اور اس ملک کا دفاع کیا جائے۔
جس طرح کہ مزاحمت کے دو “دینی اور تزویری” پہلو ہیں، شام میں مزاحمت کے بھی دو پہلو ہیں اور ایک اسلامی ملک، اس میں موجود مقامات مقدسہ، اس کی سرزمینی سالمیت اور جغرافیائی اعتقادی سرحدوں کا تحفظ دینی لحاظ سے بھی واجب ہے اور تزویری لحاظ سے بھی “غیور، فعال، سیاسی اور با استقامت اسلام نیز اسلامی مزاحمت کی بقاء کا تحفظ اور اسلام کی قلمرو میں کفر کی پیشقدمی روکنا” واجب اور ضروری ہے۔


حکومت شام کی درخواست
قانونی لحاظ سے، صرف وہ ممالک کسی ملک میں بحران کی کیفیت ظاہر ہونے کی صورت میں مداخلت کرسکتے ہیں جنہیں اس ملک کی قانونی حکومت نے ایسا کرنے کی دعوت دی ہو اور اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحمت محاذ شام کی قانونی اور آئینی حکومت کی درخواست پر اس سرزمین شام میں حاضر ہوا اور اس کو استکبار کے حلق سے کھینچ کر محفوظ بنایا اور اس کے استقلال اور سالمیت کو تحفظ دیا۔ اور ۱۰ سالہ، ۵۰ سالہ اور ۱۰۰ سالہ منصوبوں کے خاکہ کشوں کو ۲۰۰۶ع‍کی ۳۳ روزہ جنگ کے بعد، ایک بار پھر اپنے منصوبہ بندیوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا؛ اور اب وہ مسائل کی فروعات پر بحث و مباحثے کررہے ہیں اور شام کے سیاسی نظام کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرچکے ہیں۔
شام میں محاذ مزاحمت کی موجودگی، بنی سعود، قطر، ترکی، امارات، امریکہ، فرانس نیز القاعدہ، النصرہ، داعش اور درجنوں چھوٹے بڑے دہشت گرد ٹولوں کی طرح ناجائز اور غیر قانونی نہیں ہے کیونکہ یہ ممالک اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے شام کی سرزمین پر آموجود ہوئے ہیں اور یہ دہشت گرد ٹولے ان ہی ممالک کے حمایت یافتہ ہیں اور ان ہی کے لئے خون خرابے میں مصروف ہیں جبکہ محاذ مزاحمت حکومت شام کی دعوت پر یہاں کے عوام اور سرزمین کی حفاظت کے لئے کردار ادا کررہا ہے۔


دوستی اور دفاع مظلوم کے تقاضے
جیسا کہ بیان ہوا، جس وقت اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر بالکل تنہا تھا، اس کے پاس طاقتور فوج نہیں تھی، اور کوئی اس کو ہتھیار نہیں بیچ رہا تھا اور تمام عرب ممالک صدام کی پشت پر کھڑے تھے، شام اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ کھڑا ہوا گوکہ ان دنوں لیبیا، الجزائر اور جنوبی یمن نے بھی ایران کے ساتھ دشمنی نہیں کی۔ عرب جمہوریہ شام کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران کی ہمہ جہت حمایت کی وجہ سے صدام کی قیادت میں قائم عرب محاذ میں دراڑ پڑ گئی، جو ان دنوں اسلامی جمہوریہ کی ضرورت تھی۔
اس وقت کے شامی صدر حافظ الاسد نے اپنی وصیت میں کہا تھا کہ “اگر کبھی شام پر برا وقت آیا تو ایران سے مدد مانگ لو، اور ایران وہ واحد ملک ہے جو شام کی مدد کو آئے گا”؛ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ جس وقت شام ایران کو امداد فراہم کررہا تھا، اسے یہ بھی توقع تھی کہ ایران دوستی کے تقاضوں کو پورا کرے گا، گوکہ ایران ان ہی ایام میں بھی جولان کی طرف سے یہودی ریاست کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے شامی افواج کی مدد کررہا تھا اور جاننے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں؛ یا یوں کہئے کہ اسلامی جمہوری نظام، دنیا بھر کے اسلامی ترین اور اخلاقی ترین نظام کے طور پر کبھی بھی اپنے فرائض کی انجام دہی سے غافل نہیں رہا اور اسے یقین راسخ ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ اور نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ذوالجلال والاحسان عز و جل کا ارشاد ہے: “هَلْ جَزَاء الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ؛ کیا اچھائی کا بدلہ اچھائی کے سوا کچھ اور ہے؟”. (رحمٰن، ۶۰)
اسلامی جمہوریہ ایران کے وجود کا فلسفہ دنیا کے مستضعفین اور مسلمانوں کی حمایت پر استوار ہے اور حتی کہ اس کے آئین کے تقاضے بھی کچھ ایسے ہی ہیں، یہ اسلامی اخلاقیات کا مبلغ ملک ہے، پہلے خود عمل کرتا ہے اور پھر دوسروں کو دعوت عمل دیتا ہے۔ یہاں سب اس حدیث شریف پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ ” مَنْ اَصْبَحَ لا یَهْتَمُّ بِاُمورِ الْمُسْلِمینَ فَلَیْسَ مَنْهُمْ وَمَنْ سَمِعَ رَجُلاً یُنادى یا لَلْمُسْلِمینَ فَلَمْ یُجِبْهُ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ ؛ جس نے صبح کی جبکہ مسلمانوں کے امور کو اہمیت نہیں دے رہا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے اور جس نے ایک مسلمان کی مدد کی پکار سنی اور لبیک کہنے سے گریز کیا، تو وہ مسلمان نہیں ہے”۔ (الکافی، ج۲، ص۱۶۳) گوکہ اس حدیث کی بنیاد پر، جب ایک مسلم ملک کو کفر کی یلغار کا سامنا ہو تو ہر اس شخص پر اس کی مدد کرنا فرض ہے جو مسلمان کہلاتا اور کہلواتا ہے۔ نیز حضرت امیرالمؤمنین علی علیه السلام نے امام حسن اور امام حسین علیهما السلام سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: “کُونا لِلظّالِمِ خَصماً ولِلمَظلُومِ عَوناً؛ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا”۔ (مکتوب نمبر ۴۷، نہج البلاغہ)


شرعی اور دینی واجب
مغربی حکومتیں اور ان کی چوٹی پر مستکبر امریکہ، حال ہی میں شام اور عراق میں اپنی ہمہ جہت شکستوں کے بعد، شام میں اور علاقے کے دوسرے ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ یا موجودگی اور اس کی میزائل قوت پر شور مچائے ہوئے ہیں، جو در حقیقت مستکبر طاقتوں اور علاقے میں ان کے کٹھ پتلیوں کی کمزوری اور بے بسی کا ضمنی اعتراف ہے۔
مسٹر ٹرمپ نے حال ہی میں “مدعی سست گواہ چست” کا مصداق بن کر اپنے متنازعہ اور نامعقول پیغامات اور خطابات میں اس جملے کو مسلسل دہرا رہے ہیں کہ “اسلامی جمہوری حکومت ایرانی عوام کی دولت کو شام اور دوسرے ممالک میں ضائع کررہی ہے اور اس کے اپنے عوام کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں؛ جبکہ وہ اس بات کی ہرگز وضاحت نہیں کرتے کہ امریکہ شام، عراق، قطر، بحرین، سعودی عرب، کویت، افغانستان، یمن، کوریا، اور جاپان سمیت دنیا بھر کے سینکڑوں علاقوں میں کیوں موجود ہے؟ کیا اس سلسلے میں جو اخراجات امریکی عوام کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، ان کے لئے کوئی منطقی اور عقلی جواز ہے؟ اور اگر ان سے یہی سوال پوچھا جائے تو بے دھڑک کہیں گے کہ امریکہ سے کئی ہزار میل دور کے “ان علاقوں میں ہم امریکی مفادات کا تحفظ کررہے ہیں”، لیکن وہ اسی اثناء میں یہی حق اسلامی جمہوریہ ایران یا کسی بھی دوسرے ملک کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ امریکی استکبار دنیا کو اپنی ملکیت سمجھنے پر اصرار کرتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران جیسی ابھرتی طاقتوں کے عالمی اور علاقائی کردار کو برداشت نہیں کرتا؛ گوکہ زبانی نعروں اور تنقید و اعتراض اس کی کمزوری کی علامت ہے ورنہ تو جب وہ طاقتور تھا تو کوئی جواز پیش کئے بغیر معمولی بہانوں سے ممالک پر چڑھائی کرتا رہا ہے لیکن اب اسے زبانی لڑائی پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران پوری طاقت کے ساتھ عالمی سیاست میں کردار ادا کرنے کے لئے میدان میں موجود ہے۔
اور دوسری طرف سے خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ خُذُواْ حِذْرَکُمْ فَانفِرُواْ ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُواْ جَمِیعاً؛ اے ایمان لانے والو!اپنی حفاظت کا سامان مکمل رکھو اور پھر جب وقت آئے تو نکل کھڑے ہو خواہ دستہ دستہ ہو کر الگ الگ اور خواہ اکٹھا نکلو”۔ (نساء، ۷۱)
نیز حضرت حق تعالی ٰ ارشاد فرماتا ہے:
“وَدَّ الَّذِینَ کَفَرُواْ لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِکُمْ وَأَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیلُونَ عَلَیْکُم مَّیْلَةً وَاحِدَةً؛ کفار کی تو آرزو یہ ہے کہ تم لوگ اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر ایک دم ٹوٹ پڑیں”۔ (نساء، ۱۰۲)
نیز فرماتا ہے:
“وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ یَعْلَمُهُمْ؛ اور مہیا رکھو ان کے لیے جو تم فراہم کر سکو طاقت کی قسم سے (افرادی قوت، جدیدترین ہتھیار اور جنگی اخراجات اور) اور بندھے ہوئے تیار گھوڑوں (اور نقل و حرکت کے مناسب وسائل) کو مورچوں پر تیار رکھنے کی صورت سے، جن کے ذریعے سے تم خوفزدہ بناؤ اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن اور دوسروں کو جو ان کے علاوہ ہیں، جنہیں تم نہیں جانتے ہو، اللہ انہیں جانتا ہے”۔ (انفال، ص۶۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سی آئی اے پر عدم اعتماد کے اسباب

  • ۳۳۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ماضی میں مرکزی جاسوسی ادارہ (CIA) وفاقی ادارہ تفتیش (FBI)، قومی سلامتی ایجنسی (NSA) پر تنقید کی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ امریکی سرکاری اداروں میں اعتماد کا خاتمہ ہورہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے قبل کیا کسی قسم کا کوئی اعتماد ان اداروں میں موجود تھا؟
ہلسنکی (Helsinki) میں ٹرمپ ـ پیوٹن ملاقات کے بعد، ٹرمپ کو روسی صدر کے سامنے اپنے ہی ملک کے سراغرساں اداروں پر تنقید کی بنا پر ذرائع ابلاغ کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرمپ نے بھی ماضی میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور این ایس اے پر تنقید کی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ امریکی سرکاری اداروں میں اعتماد کا خاتمہ ہورہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے قبل کیا کسی قسم کا کوئی اعتماد ان اداروں میں موجود تھا؟
یہاں ہم ایسے دس حقائق بیان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے سی آئی پر اعتماد ممکن نہیں رہتا اور یہ کہ جو کچھ بھی سی آئی اے یا کسی بھی جاسوسی ادارے نے آج تک کہا ہے، وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
۱۔ آپریشن پیپر کلپ
(۱) (۲) سنہ ۱۹۴۵ع‍ میں اتحادیوں نے دیکھا کہ جرمنی دو محاذوں میں پیشقدمی کررہا ہے، امریکہ نے امریکہ کی “مشترکہ انٹیلی جنس مقاصد ایجنسی (Joint Intelligence Objectives Agency [JIOA])” نے دوسری عالمی جنگ کے بعد، سی آئی سی (Counterintelligence Corps) کی فورسز کے ذریعے “آپریشن پیپیر کلپ Operation paperclip” کے دوران جرمنی کے ۱۶۰۰ سائنس دانوں، انجینئروں اور ٹیکنیکل عملے کو خفیہ طور پر جرمنی سے امریکہ منتقل کیا۔ یہ لوگ جرمنی کی راکٹ اور کیمیاوی ٹیکنالوجی کے ماہرین اور ان میں سے متعدد افراد کا تعلق ہٹلر کی نازی جماعت سے تھا۔ ان میں ایسے افراد بھی تھے جو زندہ انسانوں پر مختلف قسم کے تجربات کرنے کے ماہر تھے۔ ان لوگوں کو امریکی تجربہ گاہوں میں غیر روایتی اسلحہ بنانے کے کام پر لگایا۔ واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی کو راکٹ سازی میں ساری دنیا پر برتری حاصل تھی۔ جنگ کے بعد جرمنی کے سائنسدانوں کو اپنے اپنے ملک میں لے جانے کے لیے امریکا اور روس کے بھی دوڑ سی لگ گئی تھی۔
۲۔ نارتھ ووڈز کاروائی
سی آئی کو جن اہم الزامات کا سامنا ہے، ان میں سے ایک “جھوٹے جھنڈوں کے حملوں” سے عبارت ہے۔ سی آئی اے اور امریکی وزارت دفاع کے مشترکہ حملوں کا مقصد تھا کہ اپنے امریکی شہریوں اور فوجی ٹھکانوں پر حملہ کرکے ان کا الزام کیوبا کے سر تھونپ دیا جائے اور یوں کیوبا کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جائے۔ کینڈی نے اس زمانے میں اس منصوبے کو ویٹو کردیا لیکن آج پچاس سال بعد امریکہ میں جان ایف کینڈی (John F. Kennedy) جیسا کوئی عاقبت اندیش شخص نہیں ہے جو نفسیاتی مریضوں کے منصوبوں کو ویٹو کرے۔
۳۔ سیلواڈور آلیندے کے خلاف بغاوت:
سنہ ۱۹۷۰ع‍ میں لاطینی امریکی ملک کے عوام نے سیلواڈور آلیندے (Salvador Allende) کو اپنے راہنما کے طور پر منتخب کیا۔ وہ جنوبی امریکی میں منتخب ہونے والے پہلے سوشلسٹ صدر تھے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن (Richard Nixon) نے فوری طور ان کے خلاف معاشی جنگ کا آغاز کیا۔ یہ جنگ بےاثر رہی اور آلیندے نے ۱۹۷۳ کے پارلیمانی انتخابات میں اپنی جماعت کی نشستوں میں اضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرلیں۔ جس پر امریکی سی آئی نے جنرل آگسٹو پنوشے (Augusto Pinochet) کے ذریعے فوجی بغاوت کروائی۔ پنوشے ایک فاشسٹ آمر تھے جنہوں نے ہزاروں ہموطنوں کا قتل عام کیا لیکن مغربی حکام اس کو پسند کرتے تھے۔
۴۔ ڈاکٹر مصدق کے خلاف بغاوت:
سنہ ۱۹۵۳ع‍ میں ایران کے وزیر اعظم محمد مصدق ایک سوشل ڈموکریٹ شخص تھے جنہوں نے برطانوی ـ ایرانی تیل کمپنی کی آمدنی کی ایران کو پلٹانے کا مطالبہ کیا اور کسی حد تک ان کی یہ بھی کوشش تھی کہ ایران کے تیل پر بیرونی تسلط کم کیا جائے۔ برسراقتدار آنے کے چند مہینے بعد ہی سی آئی کے کی کاروائی آجاکس ( Operation Ajax) اور فوجی بغاوت کے ذریعے محمد مصدق کا تختہ الٹ دیا گیا اور ملک کے تمام معاملات شاہ ایران محمد رضا پہلوی کے سپرد کئے گئے۔
۵۔ آپریشن ماکنگ برڈ:
آپریشن ماکنگ برڈ (Operation Mockingbird) سی آئی کا وسیع و عریض منصوبہ تھا جو ۱۹۵۰ع‍ کی دہائی کے آغاز سے ہی ذرائع ابلاغ پر تسلط پانے کی غرض سے شروع ہوا تھا۔ منصوبے کے تحت پورے ملک کے اخبارنویسوں کو قابو میں لانا اور انہیں تربیت دینا اور ان کے ذریعے امریکی حکومت کی تشہیری مہم کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ خفیہ منصوبہ ۱۹۷۶ میں طشت از بام ہوا تو اس وقت کے ڈائریکٹر سی آئی نے دعوی کیا کہ سی آئی کا ذرائع ابلاغ، اخبارات اور ٹی وی نیٹ ورکس نیز ریڈیو سروسز سے کوئی تعلق نہیں ہے!!
۶۔ لوگوں کی گفتگو چپکے سے سننا
لوگوں کے مکالمات کو چپکے سے سننے (Eavesdropping) کا مسئلہ آج کل امریکہ میں [بھی اور امریکیوں کے ذریعے دنیا بھر میں بھی] اٹھا ہوا ہے اور اکثر و بیشتر ذرائع اس کے بارے میں بات کررہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی (NSA) پوری دنیا کے لوگوں کی باہمی گفتگؤوں کو چپکے سے سن رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ ایڈورڈ سنوڈن (Edward Snowden) نے اس امریکی جرم کو فاش کردیا ہے۔ جب یہ بات سامنے آئی تو این ایس اے اور سی آئی کے نمائندوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ حتی جب امریکی کانگریس میں عوامی نمائندوں نے ان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی تو پھر بھی جھوٹ بولتے رہے۔ جب ان کا جھوٹ ثابت ہوا تو انھوں نے اپنے جھوٹ کے لئے جواز پیش کرنا شروع کیا؛ حالانکہ جھوٹ کی توجیہ اور اس کا جواز فراہم کرنا پھر بھی جھوٹ ہی ہے۔ اس وقت بھی کوئی بھی ایسی دستاویز موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوسکے کہ امریکہ اور دنیا میں امریکی ایجنسیوں کے توسط سے لوگوں کی باتیں سننے اور ان کی جاسوسی کرنے کا عمل رک بھی گیا ہے یا نہیں!
۷۔ صحرائی طوفان آپریشن کے لئے ایک لڑکی کا استعمال
سنہ ۱۹۹۰ع‍ میں امریکہ نے صدام کو کویت پر چڑھ دوڑنے کی اجازت دی، کویت پر صدام کا قبضہ ہوا، امریکہ نے اپنی اصل سازش منظر عام پر لاکر عراق پے حملہ کرنے کے لئے بہانہ بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس دوران امریکی ٹیلی ویژن چینلوں میں اچانک ایک نوجوان نرس کو روتے بلبلاتے دکھایا گیا جو کہہ رہی تھی کہ “عراقی سپاہی کویت میں گھس آئے تو انھوں نے ہسپتالوں کا رخ کیا، بیماروں کو قتل کیا، یہی نہیں بلکہ انھوں نے انکیوبیٹرز (incubators) تک کو توڑ دیا اور ان میں موجود بچوں تک کو ہلاک کر ڈالا”۔ بہرصورت امریکہ نے حملہ کیا، کویت سے عراقی افواج کو بھاگنا پڑا اور اس کے بعد معلوم ہوا کہ وہ لڑکی کوئی نرس نہیں تھی بلکہ امریکہ میں کویتی سفیر “سعود بن ناصر الصباح” کی ۱۵ سالہ بیٹی نیرہ بنت ناصر الصباح تھی جس کو ایک منصوبے کے تحت اور امریکی رائے عامہ کو جنگ کے لئے ہموار کرنے کے لئے ایک کردار سونپا گیا تھا تا کہ صدام کے خلاف “صحرائی طوفان Desert Storm” نامی کاروائی کا آغاز کیا جاسکے۔
۸۔ کو انٹیل پرو
کو انٹیل پرو (COINTELPRO) ـ جو “کاؤنٹر انٹلیجنس پروگرام Counter Inteligence Program” کا مخفف ہے ـ امریکی وفاقی تفتیشی ادارے (FBI) کے جوابی جاسوسی (Counter Intelligence) پروگراموں کو کہتے ہیں۔ اس سلسلے کے پروگرام ایف بی آئی کے خفیہ اور کبھی غیر قانونی منصوبوں میں شامل تھے جو اس ادارے نے اندرون ملک سیاسی اداروں کی جاسوسی کرنے اور ان کے اندر تک رسائی حاصل کرنے اور انہیں غیر معتبر بنانے کی غرض سے نافذ کئے۔ ان اندرونی اداروں میں انسانی حقوق سے متعلق ادارے، سوشلسٹ تنظیمیں، جنگ ویت نام کے نقادین، کمیونسٹ پارٹی، ماحولیات سے متعلق تنظیمیں اور حقوق نسوان سے متعلق تنظیمیں (Feminist organizations) شامل تھیں۔ کو انٹیل پرو کا مقصد ذرائع ابلاغ کو جعلی رپورٹوں اور جعلی معلومات فراہم کرکے بائیں بازو کے کارکنوں اور تنظیموں کو ناکارہ بنانا تھا۔ ہم سب کو یاد ہے کہ امریکی سینٹر “رینڈ پال Rand Paul” کو ایک “غدار” اور برطانوی لیبر پارٹی کے راہنما “جیریمی کوربین Jeremy Corbyn” کو یہود دشمن (anti-Semitist) قرار دیا گیا۔
۹۔ منصوبہ “ایم کے الٹرا
“منصوبہ ایم کے الٹرا Project MKUltra” انسان کا ذہن بدلنے کے سلسلے میں سی آئی اے کا خفیہ اور غیر قانونی تحقیقاتی منصوبہ تھا۔ امریکی حکومت کا یہ سرکاری منصوبہ سنہ ۱۹۵۳ سے شروع ہوکر ۱۹۷۳ تک جاری رہا۔ اس پروگرام میں عمل تنویم (Hypnotism) اور القاء یا امالۂ جرم (Crime Induction)، تشدد (Torture) کے بارے میں تحقیق، زبانی طور پر ہراساں کرنا اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں مطالعہ شامل ہے؛ گوکہ ہمارے پاس ان جرائم اور اقدامات کے بارے میں دقیق اور صحیح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
۱۰۔ عراق کی جنگ
سنہ ۲۰۰۳ع‍ کی جنگ اگر خطرناک ترین اور خفیہ ترین کاروائی نہ ہو تو کم از کم شرمناک ترین اور گستاخانہ ترین ضرور ہے۔ ایک جنگ جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بہانے آغاز کی گئی جبکہ سب جانتے تھے کہ ایسے ہتھیار موجود ہی نہیں ہیں لیکن سب نے مل کر جھوٹ بولا۔ صدر نے جھوٹ بولا، نائب صدر نے جھوٹ بولا، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے جھوٹ بولا۔ انھوں نے عوام سے بھی اور اقوام متحدہ سے بھی جھوٹ بولا۔ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ عراقی مارے گئے۔ انھوں نے پیسہ کمانے اور عراق اپنے قابو میں لانے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے اس جنگ کا آغاز کیا۔
ہم امریکیوں کا حکمران طبقہ ایسے نفسیاتی مریضوں اور جنگی مجرموں سے بھرا ہوا ہے جو عوام کو ذرہ برابر بھی توجہ نہیں دیتے۔ وہ اپنے بچہ گانہ اور شیطانی سازشوں کو بار بار دہراتے ہیں۔ انھوں نے لیبیا اور عراق پر بھی جنگیں مسلط کردیں۔
ہمارے جمہوری ادارے جھوٹ بولتے ہیں، تا کہ کہیں کسی جنگ کا آغاز کرسکیں۔ وہ اپنے کرتوتوں کے بارے میں سوچتے نہیں ہے، یہ رویہ وہ ایران، شمالی کوریا اور روس کے ساتھ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف سچائی سے عاری ہیں بلکہ انھوں نے سچ کا ستیاناس کردیا ہے۔
بقلم: رانیا خالق (امریکی فری لانسر، قلمکار اور سیاسی نظریہ پرداز
فارسی ترجمہ: محترمہ مریم فتاحی
اردو ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

 

یہودیوں کی خصلتیں قرآن کریم کی نظر میں 3

  • ۹۴۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالم انسانیت کے بد ترین دشمن یہودی ہیں قرآن کریم نے بھی اس بات اعلان کیا ہے اور تاریخ و تجربہ نے بھی یہ ثابت کیا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ آج کی دنیا میں یہودی قوم دوسری قوموں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے اگر ہم اس قوم کی گزشتہ تاریخ پر بھی نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ دیگر قومیں کس قدر اس ستمگر قوم کے ظلم و تشدد کا شکار رہی ہیں۔
اس مختصر تحریر میں ہم قرآن کریم کی نگاہ سے قوم یہود کی چند خصلتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پروردگارعالم نے خود قرآن میں بیان کی ہیں۔
قرآن کریم میں چار سو سے زیادہ آیتیں بنی اسرائیل کے بارے میں ہیں ان آیتوں میں بنی اسرائیل کے قصوں کے علاوہ دوسری قوموں کی نسبت پائی جانے والی ان کی دشمنی کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ ان تمام آیتوں کا جائزہ لینا ایک مستقل اور مفصل موضوع ہے اور اس تحریر میں اس کی گنجائش نہیں لہذا صرف بعض عناوین کی طرف یہاں اشارہ کرتے ہیں:
الف؛ تاریخی خصلتیں (۱)
۱، دین سے بغاوت اور سامری کے بچھڑے کی پرستش
۲، خدا کی جسمانیت پر عقیدہ اور خدا کی رؤیت کا مطالبہ
۳، صحراؤں میں چالیس سال تک جلاوطنی کی سزا بھگتنا
۴، خدا اور حضرت موسی (ع) کے ساتھ ہٹ دھرمی اور لجاجت
۵، انبیاء اور پیغمبروں کا قتل
۶، اسیروں کا قتل جن کے قتل سے منع کیا گیا تھا
۷، سنیچر کے دن کی حرمت کی اطاعت نہ کرنا
۸، ان میں بعض کا بندر کی شکل میں تبدیل ہونا (۲)
۹، ربا، سود اور چوری کو جائز قرار دینا
۱۰، کلمات الہی میں تحریف پیدا کرنا (۳)
۱۱، اس بات پر عقیدہ رکھنا کہ خدا کا ہاتھ نعوذ باللہ مفلوج ہے (۴)
۱۲، حق کی پہچان کے بعد اس کی پیروی نہ کرنا
۱۳، آیات الہی کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کا انکار کرنا(۵)
۱۴، آسمانی بجلی گرنے کے بعد سب کو ایک ساتھ موت آنا اور دوبارہ زندگی ملنا (۶)
۱۵، گناہوں کی وجہ سے شقاوت قلب کا پیدا ہونا (۷)
۱۶، اس بات پر عقیدہ کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خدا انہیں عذاب نہیں کرے گا۔ (۸)
ب: ذاتی خصلتیں
۱، مادہ پرستی
قرآن کریم نے قوم یہود کی ایک خصلت یہ بیان کی ہے کہ وہ مادہ پرست ہیں یہاں تک کہ وہ خدا کو بھی اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَکْبَرَ مِنْ ذَٰلِکَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ )۹(
’’انہوں نے موسیٰ سے اس سے بڑی مانگ کی اور کہا ہمیں خدا کو آشکارا دکھلاؤ پس ان کے ظلم کی وجہ سے آسمانی بجلی نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔
۲، مال و ثروت کی لالچ
پروردگار عالم نے قرآن کریم میں یہودیوں کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ مال دنیا کی نسبت بے حد حریص اور لالچی ہیں۔
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى‌‌حَیاةٍ وَ مِنَ الَّذینَ أَشْرَکُوا یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَ ۔۔۔ (بقرہ ۹۶)
’’اے رسول آپ دیکھیں گے کہ یہ (یہودی) زندگی کے سب سے زیادہ حریص ہیں اور بعض مشرکین تو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہزار برس کی عمر دی جائے جبکہ یہ ہزار برس بھی زندہ رہیں تو طول حیات انہیں عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا‘‘
۳، مومنوں اور مسلمانوں سے دشمنی و عداوت
قرآن کریم سورہ مائدہ کی ۸۲ ویں آیت میں فرماتا ہے: لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا  ’’آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں‘‘۔
آخری دو خصلتوں کو آج کے یہودیوں اور صہیونیوں میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جو کچھ اس وقت دنیا میں خصوصا بیت المقدس میں ہو رہا ہے وہ یہودیوں کی مسلمانوں اور اسلامی آثار کی نسبت شدید ترین دشمنی کا نمونہ ہے۔ سورہ آل عمران کی ۹۹ آیت میں خداوند عالم یہودیوں کی ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے: قُلْ یَا أَهْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
’’کہیے! اے اہل کتاب کیوں صاحبان ایمان کو راہ خدا سے روکتے ہو اور اس کی کجی تلاش کرتے ہو جبکہ تم خود اس کی صحت کے گواہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے‘‘۔
یہودی اپنے برے مقاصد حاصل کرنے کے لیے عام طور پر خفیہ سازشیں اور خطرناک پروپیگنڈے کرتے ہیں جن کے ذریعے نادان اور سادہ لوح افراد کو با آسانی شکار کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے خداوند عالم نے بعد والی آیت میں مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دشمن کی زہر آلود سازشوں کا شکار نہ بنیں اور انہیں اپنے اندر نفوذ پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں۔ (۱۰)
صدر اسلام کے مسلمانوں کی نسبت قوم یہود کی عداوتوں اور خفیہ سازشوں کے بے شمار نمونے تاریخ میں موجود ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انہوں نے مومنین کی سادہ لوحی اور غفلت سے بخوبی فائدہ اٹھایا۔ مثال کے طور پر جنگ خندق میں وہ منافقین اور یہودی جو پیغمبر اکرم کے حکم سے مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے انہوں نے دشمنان اسلام کو تحریک کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوں اور وہ ان کی پشت پناہی کریں۔ انہوں نے کفار سے کہا: تم مطمئن رہو کہ تم حق پر ہو اور تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے(۱۱) اس کے بعد بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر کے یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کسی پر ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ (۱۲)
لیکن خداوند عالم نے انہیں ہر مقام پر ذلیل و رسوا کیا ’’ضربت الیھم الذلۃ‘‘ ذلت اور رسوائی کی طوق ان کی گلے میں لٹکا دی جو بھی قوم گناہوں میں غرق ہو جائے گی دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے گی اس کا سرانجام ذلت و رسوائی ہو گا۔ (۱۳)
آج بھی یہ قوم مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور سازشیں کرنے میں سرفہرست ہے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو ان کے آشیانوں اور کاشانوں سے باہر نکال کر ان کا قتل عام کر رہی ہے ان پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کر رہی ہے صرف دنیا کی لالچ میں اقتدار کی لالچ میں ملک اور زمین کی لالچ میں۔ لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ مستضعفین زمین کے وارث بنیں گے اور ظالم و ستمگر ذلیل و خوار ہو کر نابود ہو جائیں گے۔ (۱۴)
حوالہ جات
۱٫ تفسیر نمونه و المیزان، ذیل آیات ۱۵۳- ۱۶۱، سوره نساء
۲٫ نساء(۴)/۴۷
۳٫ بقره(۲)/۷۹
۴٫ مائده(۵)/۶۴
۵٫ عنکبوت(۲۹)/۳۲
۶٫ بقره(۲)/۵۵
۷٫ بقره،(۲)/۷۴
۸٫ بقره(۲)/۹۵
۹٫ نساء(۴)/۱۵۳
۱۰٫ ر.ک: نفسیر نمونه، ج۳، ص ۲۳- ۲۲
۱۱٫ ر.ک: تاریخ اسلام، محلاتی، ج۱، ص ۱۳۲- ۱۳۱
۱۲٫ ر.ک : تاریخ اسلام، منتظر القائم، صص ۲۱۴- ۲۲۰
۱۳. ر.ک: تفسیر نمونه،ج ۳، ص ۵۴
۱۴. وہی، ج۲۳، ص ۴۹۹